ہفتہ، 22 جولائی، 2017

"بہانے بہانے"

"بہانے بہانے "
آج مدت بعد ، اماں سٹور کی صفائی میں جُتی ہیں 
وہ کل سے بےکل تھیں ،،،
کچھ اُکھڑی سی ، کچھ بوجھل سی
اب ٹوٹے برتن سنوارے جائیں گے
کچھ چادریں نکالی جائیں گی ، کچھ توشک رکھے جائیں گے
اور،،، کچھ تصویروں پر نظر جو پڑ گئی
اماں تا دیر تکے جائیں گی
 یہ ابا ہیں ، پگڑی واسکٹ والے
اور ساتھ شاندار سا ہے کھڑا
کوٹ ،پینٹ میں ان کا ماں جایا
اور یہ اماں ہیں ،،،،،،
چُنے سفید دوپٹے کے ہالے میں
دھاری دار قمیض والی ،
کانوں میں چھوٹے جھمکے اور ناک میں کوکا
اداس مسکراہٹ ، چمکیلی آنکھوں والی
یہ جو ننھا سا وجود اُنگلی منہ میں ڈالے بیٹھا ہے
یہ تو میں ہوں ،
دوجا ہاتھ اماں نے ہے پکڑا ،،،،
مجھے آج بھی تمہارا ہاتھ چائیے اماں !
مجھے آج بھی تمہارا ساتھ چائیے اماں !
میں تو خود ہر دم کی اماں ہوں اب !
مجھےپھر سے بیٹی بننا ہے اماں ، """
سیاہ و سفید تصویروں میں سے
بے فکری کے رنگین جنگل میں سے
اپنے بچپن کو بوسہ دے کر
چٹے سر والی بیٹی ، سٹور سے نکل آئی ہے
ہلکی پھلکی ہو کر چند سال اور گزارے گی !
پھر اک دن اسے سٹور کی صفائی یاد آ ۓگی !!
۔( ہمارے بزرگ کبھی بچے اور پھر کبھی جوان بھی تھے ، لیکن مدتوں بڑے بن جانے کا گیٹ اپ ان کواداس ہونے کا وقت ہی نہیں دیتا ، یہی وقت کا لکھا ہے ، جو ہر ایک برداشت کرتا ہے لیکن ماضی میں جھانکنا کبھی بُرا نہیں لگتا، لیکن یہ اور بات کہ بزرگوں سے ہم  اداسی کی توقع نہیں کرتے ۔ ہر بزرگ کے اندر بچہ تو بہر حال موجود ہوتا ہے )۔
( منیرہ قریشی ، 22 جولائی 2017ء واہ کینٹ )

اتوار، 16 جولائی، 2017

"تیسری دنیا کے تھانے میں بیٹھی عورت "


"تیسری دنیا کے تھانے  میں بیٹھی عورت "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہراساں تھیں ہرنی سی آنکھیں 
انگلیاں تیزی سے کھولتی بند ہوتیں
لب ، دانتوں سے کاٹتی 
پیلے رنگ اور پسینے میں نہائ
کچھ کہنے کو تیار ،مگر اتھری اتھری
آخر گونگی بول اٹھی
میں خطرے میں ہوں !
مجھے امان چاہیے !
مجھے انصاف چاہیے،،،،،
تھانیدار اور اس کے محکوم
سراپا آنکھ ، سراپا ہونٹ
سراپا نثار ، سراپا تیار !
انصاف تو پہلے ہمیں چاہیے
!!موتیوں والی سرکار
یکساں ذینیت، یکساں منظر ہرجا ،
!!تیسری دنیا کے منصف گھر کا المیہ
۔( 100 فیصد نہ سہی لیکن 95 ٪ تھانے ایسے ہی ہیں کہ صنفِ نازک کسی حالت یا عمر میں ہو ،اکثر تھانے دار اور اس کے گماشتے اس کی کمزوری کا فائدہ خوب اٹھاتے ہیں ، محافظ پہلےخود ڈاکو بن جاتا ہے ،، افسوس صد افسوس)۔
( منیرہ قریشی جولائی 2015ء واہ کینٹ )۔

اتوار، 9 جولائی، 2017

"پہلی نظر"

" کعبہ پر پہلی نظر پڑنے پر "
میں آج کس مقام پر ہوں !
یہ خواب ہے یا ۔۔۔۔حقیقت
میرا جسم میرے ساتھ ہے ،،؟
یا ،، میں اپنے مکاں میں نہیں ہوں
تُو نے مجھے شرفِ میزبانی بخشی ،،،،
تُو میرے منہ میں وہ لفظ بھی ڈال
کہ تُو جن سے راضی ہو جاۓ
تیری شکر گزاری کا حق ادا ہو جاۓ
میرے مالک و خالق !!
زمٰین کے ذروں، آسمان کے تاروں سےبھی ذیادہ ،
زمین کے پتوں ،آسمان کے قطروں سے بھی ذیادہ ،
شُکر ،،، اے مالک و خالق !
اےاللہ ! میں حاضر ہوں ،
تیرا کوئ شریک نہیں ،،،
کہ میں سر تا پا لرزیدہ آنسو !
لبیک اللہ ھُمَ لبیک ،،،،
میرا اندر باہر کالا ،
میرا دامن لِیرو ، لِیر
"تُو غنی از ہر دو عا لم من فقیر"
میں سراپا آنسو،
تُو بخش دے، اے سمیع و بصیر !!!
۔( 12 دسمبر 2005ء کا دن میری زندگی کا وہ دن جو ساری زندگی پرمحیط رہے گا ۔ علامہؒ کا ایک مصرعہ لکھ لینے کی جراؑت بھی کی ہے ، اللہ پاک ہمارے اس حج کو قبول کر لے آمین )۔

جب ہم ( میں ، میری بہن عذارجوجی ، اور بیٹا ہاشم ) گھر سے چلے حج کے لۓ !! تو ہمیں بالکل محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ ہم اتنے مقدس سفر پر جا رہے ہیں ، ہم بڑے لائٹ موڈ میں تھے ۔ہمارے گروپ کے مزید تین ممبرز بھی خوش مزاج و خوش اخلاق تھے اس لۓ کوئی پریشانی نہیں تھی کہ میری ایک فیملی فرینڈ، جس نے پچھلے سال حج کیا تھا ، کا موبائل فون آیا " منیرہ باجی مبارک ہو ، میں نے بھی آپ کے ساتھ احرام باندھ لیا ہے (روحانی طور پر ) اس کا یہ جملہ ہمیں ہلا گیا اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے ! تب احساس جاگا کہ ہم کسی عام سفر پر نہیں ، بلکہ اس کائنات کے مالک کی دعوت پر جا رہے ہیں ! یہ سفر یہ 40 دن کا رہنا ،،، بس نہ پوچھو کہ کس سحر میں لۓ رہا کہ آج 12 سال بعد بھی اس کا ایک ایک منظر مجھے نہیں بھول رہا ! اور جب کوئی کہتا ہے آپ نے پھر حج یا عمرہ نہیں کیا تو میں کہہ دیتی ہوں اس پہلے " اثر " سے نکلوں تو آگلے کا سوچوں ،،،، ! اللہ ہماری عبادت ، مشقت ، کو قبول کرلے یہ ہی کامیابی ہے آمین ! اصل میں جو وہاں رہ رہے ہوں یا بہت دفعہ یہ سعادت حاصل کر چکے ہوں شاید وہ اس بلاوے کی خصوصیت کو جانچ نہ سکیں ، میں بہت اپنے کو خوش قسمت خیال کرتی ہوں!! ۔
( عاجز ،منیرہ قریشی ء 2005ء واہ کینٹ )

جمعہ، 7 جولائی، 2017

"عاجزانہ عرضی"

" عاجزانہ عرضی "
سرِ راہِ مسافرت میں ہو نشانی میری
کہ راہ چلتے بھیجتے رہیں سلامِ سلامتی
قطعاتِ سبز بکھرے ہوں دور تلک
کچھ درخت ہوں جھنڈ کی صورت
اور یہیں ، کہیں مرقد ہو معمولی !
پرندے دوسراہٹ کے لۓ بس کافی
کچھ گنگنائیں ، کچھ کریں گے پیام رسانی
پڑوس میں اور کوئی نہ ہو ،
کہ صور پھونکے جانے تک ،،،،
مجھے "خامشی"سے بہت سی باتیں بھی کرنی ہیں
پکی سہیلی سے گلے لگ کر سرگوشیاں بھی کرنی ہیں !
سہیلی جو مجھے خود میں ضم کر لے گی ،،،،
من و تو کے فرق ، مٹا چکی ہوگی !
ماٹی کی دنیا بھی کیا مہربان دنیا ہو گی !
یہ تو بس عاجزانہ سی عرضی ہے ، مالک !
آگے تیری مرضی ہے ،خالق !
(منیرہ قریشی ۔ 7 جولائی 2017ء واہ کینٹ )

بدھ، 5 جولائی، 2017

"جدائی"

ایک  دوست نے اپنی ایک عزیز سہیلی کی جواں سال بیٹی کی جدائی پر بہت پُر اثر نظم لکھی جو اپنوں کے غم کو محسوس کر کے ہی لکھی جا سکتی ہے ،،، یہاں دو نظموں کو لکھ رہی ہوں ! ایک 1983ء میں لکھی اور ایک کچھ ماہ پہلے، غم شاید کبھی پرانا نہیں ہوتا، اسی لیے جب بھی ان لمحوں کا ذکر ہوتا  ہے، زخم تازہ ہو جاتے ہیں )۔
" پیارے عُمر اور عُزیر یعقوب کے نام "
" تاڑی مار اُڈا نہ باھُو" (تالی بجا کر ہمیں متوجہ نہ کر ہم خود ہی اُٹھ
"اسی آپے اُ ڈنڑ ہارے ھُو " ( جانے والے ہیں ، اُڑ جانے والے ہیں )
( عمر رؤف کے نام جس نے 6 سال اس جہانِ رنگ و بو میں گزارے ! جو میرے وجود کا حصہ تھا)
ہم معصوم روحیں
ہماری بھولی بھالی سوچیں
ہمارے سادے سادے کھیل
ہماری جھرنوں ایسی ہنسی !!
ہمیں سمیٹ لینے دے جلدی جلدی
یہ سب خوشیوں بھرے لمحے
کہ پھر ،،،
ہماری روشن خوبصورت آنکھوں نے
(اے موت ) تجھے دیکھ لیا تو
یہ معصوم دل سہم جائیں گے
ہمیں مگن ہو کر اپنوں کو پیار کر لینے دے
کہ پھر ہمارا جانا ہی جانا ٹھہرا ،،،
کبھی نہ آنے کا کہہ کر !!
( منیرہ قریشی 1983ءواہ کینٹ )
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
(دوسری نظم اُس جوانِ رعنا کے لۓ جس نے19 سال کی عمر سے14 سال کی بیماری کاٹی ، اور 33 سال کی عمر میں اس دنیا کو الوداع کہہ گیا !اور میری پیاری بھانجی کے وجود کا حصہ تھا )۔
" ( عُزیر یعقوب کے نام )"
بھرپُور جوانی میں
راتیں خوابوں سے بھر پورہیں
دن چمکتے، چیختے رنگوں سے معمور ہیں !
دوستی کی مٹھاس ہے آس پاس
رشتوں کی فصیل ہے گردا گِرد
مگر مسیحا کے الفاظ ہیں محتاط
نصیب کا لکھا ہے
قدرت کا فیصلہ ہے
چودہ سال قیدِ با مشقت
نہ کوئ کمی نہ بیشی
ہونی ھو کرہے رہتی
یہ فصیلِ محافظت کیسی؟ یہ مٹھاسِ دوستی کیسی؟
قطرہ قطرہ موم بتی پگھل رہی ہے
دبے پاؤں کوئی قریب آرہا ہے !
ہلکی آوازیں بُلا رہی ہیں ، کہہ رہی ہیں !
اُٹھو ہماری دنیا کے شہزادے ،،،
اُٹھو کہ آج قید کے خاتمے کا روزہے
تیرے جسم نے تجھے بہت تھکا لیا
ضبط کے زہر نے تجھے بہت آزما لیا
چلو کہ تجھے انعام سے نوازا جانا ہے
چلو کہ جشنِ آزادیؑ روح منایا جانا ہے !!
( منیرہ قریشی ، جولائی 2017 ء واہ کینٹ )

پیر، 3 جولائی، 2017

" آخری منظر "

۔( صومالیہ کے اس بچے کے نام جس کی وہ تصویر وائرل ہوئی جس میں گِدھ اس کے پاس بیٹھا تھا اور اس کے خاتمے کا منتظر تھا میں جب یہ تصویر دیکھتی ہوں تودل پر ہاتھ پڑتا ہے)۔
" آخری منظر "
سُنا ہے دنیا بہت خوب صورت ہے 
سُنا ہے زندگی رنگوں کا مجموعہ ہے 
لیکن مَیں تو "بلیک اینڈ وائٹ " دنیا میں جیا ہوں
میں صومالیہ کا وہی بچہ ہوں ،
جسے بچانا ضروری نہیں تھا
" بس میرے آخری دَموں کی تصویر لینا ضروری تھا "
میری آخری سانسوں کا ساتھی
ایک گِدھ اور ایک فوٹوگرافر تھا
ان میں کون انسان اور کون جانور تھا
میں کیا جانوں ،میں کیوں جانوں
اے خبر بنانے والے ،،،،،،،،!!!!
یہ تیرے آنسوؤں کی روانی کیسی !
یہ دلخراش ہچکیاں کیسی ،،!
تو نے میری آنکھوں میں ٹھہرا یہ" آخری منظر "دیکھ لیا ہے ؟
کانپتے ہاتھوں سے خبر تراشنے والے !!!
اس تیسری دنیا کو تماشا بنانے والوں سے توپوچھ
بے گناہ بچوں کے خواب اُجاڑنے والوں سےتو پوچھ
بھوک کے خاتمے کی جنگ بھی کی ہے کبھی ؟
ہمیں گِدھوں سے بچانے کی جہد بھی کی ہے کبھی ؟
اپنی خوشیوں میں مگن ہو کیسے ! ؟؟
کیا سکون سے سو بھی لیتے ہو کبھی ؟؟؟ "
( منیرہ قریشی 3 جولائی 2017ء )

اتوار، 2 جولائی، 2017

"سیلابِ بلا"

 پاکستان میں ہر سال سیلاب آتا  ہے ! 72 سال سے پاکستانی یہ قدرتی آفت سہتے آرہے ہیں ،کیا مجال اس قوم کے پاۓ استقامت میں کمی آئی ہو ،کوئی احتجاج نہیں ، کوئی شکوہ نہیں ! اور کتنے زبردست حکمران ہیں کہ انھوں نےاس سلسلے میں کچھ نہ کرنے کی جو قسم کھائی ہے وہ نہیں توڑی! 2010 کا سیلاب انتہائی دلفگار اور دلخراش تھا جس کے مناظرکا غم آج بھی محسوس کیے جا سکتا ہے! اور اب پھر جولائی ہے  اورسیلاب کی آمد  ہے اور لوگ پھر کیڑے مکوڑے بن چکے ہیں !ہم کب کچھ کرنے والے ہوں گے !آہ ،،، 2010 ء کے سیلاب پر کچھ جملے !!!۔
" سیلابِ بےمہار "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اس موسم میں تو
کاسنی پھول ،گُھوروں پر لرزتے ہیں
آتی بہار جیسی فضا میں
مہندی سی رَچ جاتی ہے !
رانجھوں کی آنکھیں ،،،،،
ہیروں کے تصور سے جگنو جگنُو تھیں
اسی موسم میں تو
ٹین کے بَکسوں کو دھوپ لگواتی مائیں
زیرِ لب دعاؤں کے در کھولتی مائیں
بس اب کے فصل سب ارمان پورے کرے گی
بیٹوں کے گلے میں ہار ہوں گے
بیٹیوں کے ماتھے ٹیکے سجیں گے
مگر ،، شراٹوں گزرتا پانی
سپنوں ، ارمانوں کو سمیٹتا پانی
ہیروں ، رانجھوں ، اور ماؤں کو لپیٹتا پانی
فصلوں ، سامانوں کو روندتا پانی
بچے،کھچے چہروں پر سوالی آنکھیں
" فرضِ کفایہ تو قلیل پر اکتفا کرتا ہے "
ہم تو تیری دنیا کے اکثیرِ غُرباء !
جوتیری مرضی،جو تیری رضا!!!
تیرے آگے  ہے تسلیمِِ رضا !
( منیرہ قریشی 2010ء جولائی ،، واہ کینٹ )