"یادوں کی تتلیاں"

ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کواپنا بچپن " سہانا " لگتا ہے ۔اُس دور کی معمولی سی بات بھی اہم لگتی ہے ،،،اور جب کبھی ماضی کی وہ معمولی ساواقعہ یاد آتا ہے تو خواہ مخواہ چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے ! ( تلخ واقعات کو ہم بُرا ماضی جانتے ہوۓ بھی بھلا نہیں پاتے حالانکہ وہ بھی بچپن کی یادیں ہیں )،،عمر جوں جوں بڑھتی ہےبچپنے کی یادیں اکژ ،اور شدت سے حملہ آور ہوتی ہیں ۔اوربڑھتی عمر میں یہ خوب صورت یادیں بندے کو ریلیکس کرتی ہیں ۔ ورنہ زندگی کے یکسانیت والے شب وروز بےزار کر دینے والے ہوتے ہیں۔
پرانی یادوں میں محو ہو جانا ایسا ہی دلچسپ کام ہے جیسے سمندر میں تیراک کو تیرنا ،دلی خوشی دیتا ہے ۔ یادوں کے سمندر میں تیرتے ہوۓ ایسی یادیں بھی اُبھر آتی ہیں جیسے سمندر میں سے چُھپا پھولوں بھرا ، خوبصورت جزیرہ یکدم اُبھرے اور چند منٹوں میں پھر تہہِ آب ہو جاۓ !،،،،، اور کبھی یکدم یادوں کا ایک تارہ چمکتا ہے ، آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے ایک موتی سا آنکھ کے کونے پر چمکنے لگتا ہے ،کبھی یہ یادیں دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد رات سونے کے وقت سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں ، کہ جیسے سٹیج کا پردہ ہٹا اور کردار مسکرا کر کہہ رہے ہوں  ، کبھی ہمیں بھی یاد کر لیا کرو۔۔۔(اقتباس از یادوں کی تتلیاں (1)۔
۔۔۔۔۔۔
٭یادوں کی تتلیاں جب اپنے خوب صورت " پروں " کو کھول اور بند کرتی ہوئی، جب ماضی کے تصویری باغ میں اُتریں تو مجھے ذاتی طور پر ان تصاویر کو ڈھونڈنا پڑا ،، اور جب ملیں تو تا دیر انھیں دیکھتی رہی اور میں ماضی میں پہنچ گئی ،، کب کیسی جگہ تھی ، کیسا ماحول تھا ، کون کون یہ لوگ تھے جن کو اللہ نے ہمارے ساتھ ملایا ، کچھ وقت گزارا ، اور وقت کی ٹک ٹک آگے بڑھ کر، ایک نیا ماحول اور نئے لوگوں کے درمیان لا کھڑا کرتی چلی گئی ، اب ان سے ملو ،،، اب ان کے ساتھ وقت بِتاؤ ، اور پھر آگے مزید پھر آگے اور خالق و مالک کے حکم سے جب آخری منزل پر پہنچیں تو مطمئن روح اور پُرسکون چہرے کے ساتھ اُس نئے اور آخری گھر کو اپناتے ہیں ، اور یہی فوز العظیم ہے ۔(اقتباس از یادوں کی تتلیاں(40)۔
٭٭٭یادوں کی تتلیاں (آخری قسط)۔،
۔"یادوں کی تتلیاں" کا لفظ ذہن میں آیا ، تو صرف اور محض بچپن کے چند سہانے دن یاد آگئے تو سوچا اپنےفیس بک گروپ " خانہ بدوش " میں انھیں محفوظ کر لوں ، اِن یادوں میں " بچپن میں اباجی اور اماں جی کے ساتھ " مری " کے قیام کے دن تھے ۔ انتہائی معصوم ، بلکہ کسی حد تک بیوقوفانہ سا بچپن تھا ۔ انہی سادگی سے گزرے دنوں کو سادہ انداز میں بیان کیا ، تو ارادہ دو اقساط تک ہی ختم کرنے کا تھا ، لیکن اپنے محدود گروپ میں موجود 50 لوگوں میں سے زیادہ لوگوں نے بہت سراہا ! ،، تو سوچا چلو تھوڑا اور لکھ لوں ۔ اور یوں وہ سلسلہ 100 اقساط تک پھیلا ،، اور اب یوں لگ رہا ہے کہ ، ابھی تو فلاں اور فلاں واقعہ تو رہ گیا ،،، لیکن میرا اپنا خیال ہے " کہ اس واقعہ کو اِک نامعلوم موڑ دے کر چھوڑنا اچھا " ،،، میں نے 2005 یا 6 200ء تک کے واقعات کو اپنی یادوں میں سے کھرچ کر اُس صفحے پر سجا لیا ہے ،، جو رنگا رنگ پھولوں کی صورت پھیل گۓ اور اِن پر رنگین تتلیاں، کبھی کسی کردار ،اور کبھی کسی واقع کی صورت ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر آتیں ، اور بیٹھتیں ،،، میرے لیۓ یہ مناظر اتنے دل فریب ہوتے کہ ، بعض اوقات تھکے ہونے کے باوجود، انھیں قلم بند کر کے رہتی ۔ گویا " یادوں کی تتلیوں " نے مجھے خود ہی اتنا مسحور کیا ، کہ میَں خود انجواۓ کرنے لگی ،، اور اب کچھ مطمئن ہوں کہ جو لکھا ، کافی ہے ۔ 
تتلی ،،،کے لفظ کو پڑھ کر اور تتلی کو دیکھ کر ، صرف خوب صورتی کا خیال آتا ہے ،،، حالانکہ وہ ایک کیڑا (ان سیکٹ)ہی تو ہے ،،، اور کیڑا بھلے کتنا بھی خوبصورت ہو ،، اُسے ہاتھ لگانے والا کچھ دیر سوچتا ہے اور کچھ دیر کے لیۓ ہی ہاتھ لگاتا ہے ۔ جب کہ ۔۔۔۔ تتلی۔۔۔ وہ کیڑا ہے جس کی رنگینی ، نازکی ، اور خوب صورتی سے بچے ، بوڑھے ، عورت ، مرد سبھی متاثر ہو جاتے ہیں ، اور کوئی اس سے ڈرتا نہیں ،، اِس کیڑے کا حُسن ہر ایک کو لبھاتا ہے ۔ اور ،،،،،،،،،، دوسرے ،، اِس پیارے کیڑے کی چال دیکھۓ ، کہ کبھی سیدھے نہیں اُڑتی ، بلکہ کبھی دائیں ، کبھی بائیں ،، گویا اَٹھکیلیاں کرتی جا رہی ہوتی ہے۔ تو گویا ، زندگی کی یادیں بھی ، کبھی دائیں ، کبھی بائیں جانب سے جھانکتی چلی جاتیں ہیں اور یادوں کو لکھتے وقت اسی لیۓ کسی باقاعدہ اور ترتیب وار انداز سے نہیں لکھا جا سکا ۔ 
اردو ادب میں خود نوشت ، یا آپ بیتی کے ناموں میں " یادوں کے جگنو " یا " یادوں کی برات " یا " یادوں کے دریچے " ،یا "تلخ یادیں "،،، یا ،، یادوں کی بھول بھلیاں " ،،، وغیرہ کئی ایسے ناموں سے لکھی جا چکی ہیں ، مجھے خوشی ہے اور میرا خیال ہے عنوان " یادوں کی تتلیاں " کے نام سے ابھی تک میری نظر سے کوئی خود نوشت نہیں گزری ۔ اور اگر ایسا ہوا تو میَں ، ابھی سے معذرت خواہ ہوں ،، کیوں کہ مجھے یہ عنوان خود ہی سوجھ گیا تھا ، تو لکھ لیا ۔
تتلی ،،، کے خیال سے جس "نزاکت اور لطافت " کا خیال آتا ہے ،،، لکھنا شروع کیا ،تو یہ ہی سوچا ، اپنی یادوں میں تلخ ، چبھتی ، اور تکلیف دہ یادوں کو نہیں دہراؤں گی ،، کہ اِن شکوؤں کی بھی حد نہیں ہوتی ، کیوں کہ اُنھیں یاد کر کےہم گِلہ مند بھی ہوتے ہیں اور سَرد آئیں بھی بھرنے والے ہوتے ہیں ۔ لہذٰا کیوں نا کوشش کی جاۓ کہ ، پڑھنے والے کو خوشگوار تصورات دیۓ جائیں ، بجاۓ ہم آپس کی رنجشوں کو ، آپس کے اختلافات ، اور منفی خیالات کو بیان کر کے خود بھی اداس ہوں ، دوسرے کو بھی اداس کر دیں ۔ کہ انھیں لکھنے والا ایک اور اینگل سے دیکھ چکا ہوتا ہے ، لیکن پڑھنے والا ، ، کسی اور نکتہء نظر سے محسوس کرے گا ۔ جو وجہء تنازعہ بھی بن سکتے ہیں ۔
البتہ ، کسی کی بیماری یا مستقل جدائی کا ذکر ضرور کیا ہے کہ ، خوشی کا اُلٹ غم ہے ،، اسی طرح ،، زندگی کا الٹ موت ہے اور یہ ، لازم ، و اٹل حقیقت ہے ۔ بیمار ہو جانے والوں کا ذکر بھی اسی لیۓ کیا ہے کہ ، ہم میں سے جس کے گھر میں ایسی صورتِ حال ہے تو وہ ، ایک دوسرے کے تجربات سے ضرور فائدہ بھی اُٹھاۓ ، اوراپنی سوچ کےزاویہ کوبھی بدلے ۔
میَری " یادوں کی تتلیاں " میرے تصورات کے باغ میں اُڑتی پھرتی ہیں ،جب ایسی باتیں مزید جمع ہوئیں ، جنھیں لکھنا ، مجھے اچھا اور ازبس ضروری لگا ، تو دوبارہ بھی لکھ لوں گی ۔اور یادوں کی تتلیوں پھر آ موجود ہوں گی !!!۔
آخر میں میَں اپنے والدین کے لیۓ اللہ سبحان تعالیٰ سے بہت دعا گو ہوں ، جن کے ذوق ادب اور قلم چلانے کی اہلیت نے مجھے جب کبھی کچھ لکھنے پر راغب کیا ، تو انھوں نے بہت سراہا ، اور یہ حوصلہ افزائ ہی تھی جس نےآج نظمیں اور نثر لکھنے کے قابل کیا ،، مجھے مسجع و مکفع تحریر لکھنے کی عادت بھی نہیں اور نہ ہی ، میں اس کی اتنی قائل ہوں ،، میری سادہ تحریر کو جس طرح آپ پڑھنے والوں نے پزیرائی بخشی ، بس مجھے اور کیا چاہیئے ۔ 
یادوں کے حوالے سے چند جملوں کی ایک آزاد نظم لکھی ہے ، اور پھر اختتام کرتی ہوں ۔ 
" یادیں "
،،،،،،،،،،،،
آہ ، یادیں رہ جاتی ہیں 
جب کچھ پرانی تصویروں سے 
اور کچھ پرانی تحریروں سے !!
آنکھوں سے چھینٹا دے کر 
گرد ہٹائی جاتی ہے ،
تب آنکھیں پھول چڑھاتی ہیں !
آہ ، یادیں ہی تو رہ جاتی ہیں ۔
( منیرہ قریشی ، 23 فروری 2018ء واہ کینٹ ) 

اللہ پاک بڑے بول اور قلم کی کمزوری کو معاف کر دے آمین !۔
۔"یادوں کی تتلیاں" لیبلز' کے ساتھ پڑھنے کے لیے درج ذیل  لیبل لنک پر کلک کریں۔۔۔۔
٭1)ابا جی۔۔۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں