بدھ، 8 فروری، 2023

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( 2)

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( 2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی بچپن کے دور میں جب کبھی گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑی علاقے میں رہنے کا موقع ملتا ،، اتفاق سے اس گھر کے ساتھ چھوٹا سا لان بھی تھا ، جس کے گرد ، اونچے ، لمبے ، گہرے سبز لباس پہنے درختوں کا بے ترتیب سا گھیرا تھا ۔ اور ہم دونوں بہنیں ، چھٹیوں کے بور کام سے فارغ ہوتے ہی اپنے چھوٹے سائز کے کھرپے پکڑ کر اس لان میں چند کونوں میں اس خیال سے گوڈی کرتیں کہ یہاں سے شاید کوئی خزانہ نکل آۓ ، ہم خوب امیر ہو جائیں گے ،،یہ مؑعصومیت کا وہ دور تھا کہ ہر خیال ، سُچا ، اور یقینی لگتا تھا ،، اس لان کے گرد خاموش ، نیم اندھرے میں باوقار پہرے دار بنے کھڑے ہوتے ۔ اور ہمیں ساحرانہ انداز سے اپنے خیال میں پورا یقین ہونے کا یقین دلانے لگتے ۔،، گویا پُراسراریت ، انوکھی سوچ ، اور سچائی کا وہ جذبہ شاید درختوں کی موجودگی کے ساتھ جُڑا ہوا ہوتا ہے ۔ اس دور میں اس لان میں آتے ہی لمبے لمبے سانس لیتیں ، اور اکثر یوں محسوس ہوتا،، ہمارے اس عمل سے درخت ہلکا سے جھوم جاتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں " دیکھا ہم کتنے خوبصورت طریقے سے سبھی جانداروں کی خدمت کر رہے ہیں "۔ لان میں گزرتا وقت ہمیں سحر اور حفاظت کا احساس دیتا ۔ ۔۔ دو ، ڈھائی ماہ بعد شہر واپسی ہوتی ، چند دن اچھے گزرتے ، لیکن درخت ، پہاڑ ، مختلف النوؑع سبزے کے " شیڈز " ،،، یاد آنے لگتے۔ اور گھر کے صحن کے واحد سفیدے کے درخت کے تنے پر آتے جاتے ہاتھ پھیرتی ۔ صحن کے دائیں ،اور بائیں انگور اور چنبیلی کی چھت تک جاتی بیلوں کو پیار سے دیکھتی ۔۔۔ لیکن شہر کی گہما گہمی ، یکسانیت مصروفیت ، اور آکٹوپس جیسی زندگی ،،، اندر ہی اندر بے زار کر دیتی ،، یہ بچپن کا دور کتنا سادہ تھا کہ گھر سے نکل کر چند میل دور کے پارک میں جا کر ہی دل کی دھڑکن تیز رہتی ، اس پارک کے ساتھ بنے ڈیم ، اور اس ڈیم کو مضبوط بنانے کے لیے درختوں کے ایک ذخیرے کو محفوظ کیا گیا تھا ،، اس منظر کے رنگ ،، آج بھی آنکھوں میں بسے ہوۓ ہیں ،،، نیلا پانی ، مٹیالا ، اور گرے تعمیراتی سامان سے بنا ڈیم ،،، سبز درختوں کا جھنڈ ،،، اور بالکل دوسری جانب سرخ چھتوں والی چند دکانیں اور ان کے بنچ ۔ ،،، مختلف رنگوں کی یہ سینری جس میں سبز رنگ نمایاں محسوس ہوتا ہے ۔دل کو عجب شانتی سی مل جاتی ۔ شہر سے دور رہنے والے ، میرے نزدیک خوش نصیب لوگ ہیں ۔ درختوں کی موجودگی مجھے زمین سے تھوڑا اوپر اُڑائے رکھتی۔ مجھے اپنے اصل دوست یہ درخت محسوس ہوتے ، کچھ دیر میں ہی تازہ دم ہو کر اگلے دو تین ماہ کی آکسیجن بھر جاتی اور جیسے نئے حوصلے سے چارج ہوجاتی ۔ درختوں کے جھنڈ خدا حافظ ، خدا حافظ کہتےصاف سنائی دیتے ۔ چھوٹی کیاریوں میں لگے پھول ، بہت نزاکت سے سر گھماتے اور ایک دوسرے سے قدرِ متکبرانہ انداز کا رویہ دکھاتے محسوس ہوتے ، ہُنہ !! ہمیں نظر انداز کرنا کوئی آسان نہیں ، اور واقعی گھر آکر ایک ایک پھول ، ایک ایک پتّا ۔ ایک ایک اینٹ مجھے یاد آتی اور جیسے دماغ میں نقش رہتی ۔ درختوں کے باوقار روئیے ، کا احترام تو جیسے ضروری تھا ۔ اور یوں سلسلہء ہاۓ سوچ چلتے چلتے ، کبھی گھر میں مہمانوں کی آمد سے ٹوٹتا ، اپنی سیر و تفریح کو تفصیل سے بتایا جاتا ،، اور یوں روح کی تسکین ہو جاتی ۔ خاص طور پر جب سامنے بیٹھا مہمان بھی درختوں سے اپنے لگاؤ کا اظہار کرتا ۔ یوں لگتا مہمان کے یہ جملے میزبان کو تمغے پہنا رہے ہوں ۔
( عرصہ بعد نصیبوں کے اچھے ، بُرے کے اصل معنی سمجھ آۓ ) ۔
زندگی نے بتدریج ،،،یہ خفیہ پیغام سکھایا ،،،کہ درخت اکیلا ہے یا ذخیرے کی صورت ،،،باتیں کرتے ہیں ،، صرف سُننے والا ہو ، ان درختوں کو بھی انتظار ہوتا ہے ، کوئی ایسا ہو ، جو سراپا کان ہو ، کون ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہم سے کہے ، " میں ہوں نا " !!!

(منیرہ قریشی ، 8فروری 2023ء واہ کینٹ ) 

پیر، 6 فروری، 2023

" جنگل کچھ کہتےہیں " ( ا)

" جنگل کچھ کہتےہیں " ( ا)
،،،،،،،،،،،،،،،،، انتساب،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مقامِ حدیبیہ کے اس درخت کے نام ،، جس کا ذکر سورہ فتح میں قیامت تک کے لیے امَر ہو گیا اور ، جس کے نیچے کائنات کی عظیم ترین ہستی نے اپنے صحابہ کے ساتھ قیام فرمایا ، اور اعلیٰ و ارفعٰ فیصلے کیے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم اشفاق احمد صاحب رح ،،، اپنے ایک نہایت با ذوق دوست محمد حسین نقش کو تھر سے خط لکھتے ہیں ، " میَں آج کل تھر میں ہوں ، اور یہاں کے مختلف گوشوں کی خاموشیوں کو "ریکارڈ "کر رہا ہوں ۔ سچ پوچھو تو کمرے کے ایک کونے کی خاموشی ،، دوسرے کونے سے مختلف ہوتی ہے ۔ اور یہاں تو علاقہ اور قدرتی ماحول ہی فرق ہے "
کچھ ایسے ہی جنگل یا درختوں کی محبت نہ جانے کب ، کس دور میں دل کے کونے میں ایسی جا گزیں ہوئی ، کہ پتہ بھی نہ چلا اور جڑیں مضبوط ہوتی چلی گئیں ۔ جب کبھی سیر کا موقع ملتا ،، تو نظریں درختوں کے جھُنڈ ، درختوں کی چوٹیوں اور ان کے سایوں کو تلاشتیں ۔ اپنے سرسبز گاؤں کبھی جانا ہوتا ، تو مزاج میں نخرے پن کا احساس غالب رہتا ، بھلے وہ چند گھنٹوں کا قیام ہوتا ، یا دو دن ٹھہرنے کا ،،، لیکن اس قیام کے دوران نو عمری کی تنقیدی سوچ غالب رہتی ،،،لیکن جوں ہی سڑک سے اتر کر گاؤں پہنچنے تک کے کھیت کھلیان کو دیکھتے تو دل جھوم جھوم جاتا ،، قیام چند دن کا ہوتا ، تو قریبی پہاڑی کا ایک چکر ضرور لگتا ،،اس کے ٹیڑھے میڑھے راستے کی گھنی جھاڑیوں کو محبت سے دیکھتی ،، ان جھاڑیوں کی جڑوں میں چھپی ننھی منی مخلوق نظر آتی تو مزید نہال ہو جاتی ،، کہ انہی میں سُرخ مخملیں گاؤن اوڑھے مختلف جسامت کی " بیر بہوٹیا ں ، دل کی دنیا میں پُھلجھڑیاں چھوڑنے لگتیں ،،، کہ ساتھ لی ہوئیں ماچس کی خالی ڈبیوں میں انھیں جمع کیا جاتا ،،، اب وہ ہمارے شہر میں جائیں گی ۔ ( اس بات سے لاعلم کہ یہ کیا کھاتی ہیں ، ان کی خوراک کا انتظام بھی کیا جائے )، نتیجہ یہ کہ گھر واپس پہنچنے تک ایک دو بیر بہؤٹیاں اداس پھر رہی ہوتیں ، دوتین مر چکی ہوتیں ۔۔ لیکن خوشی اس بات کی ہوتی کہ فطرت کے ایک عکس کو شہری شب و روز میں دو چار دن دیکھیں گے ۔ اور یہ حسین کیڑے مر جاتے تو اپنے گھر کے صحن کے ایک ستون کی جڑ میں لگی انگور کی بیل ،، اور دوسرے ستون کی جڑ میں لگی چنبیلی کی بیل میں سے کسی ایک کو ایک طرف ، دوسری کو دوسری بیل کی مٹی میں دفن کر دیتیں ۔ ،،، قدرت اپنی فطرت کبھی نہیں بدلتی ۔ انسان دنیا میں آنکھ کھولنے سے لے کر شہر کی گہما گہمی ، اور کنکریت ، لوہے ا ور جدید ترین طرزِ زندگی کا چاہے کتنا عادی کیوں نہ ہو ، قدرتی نظاروں کے لوازمات سے مزّین دنیا کا جب بھی سامنا ہوا ،اُس مشینی انسان کی آنکھیں شوقِ نظارہ میں ٹھہر سی جاتی ہیں ۔ اور ایک پُر تجسس " آہ ،،، اس کے ہونٹوں سے نکل جاتی ، جیسے دل ،، اس کے دماغ سے پوچھ رہا ہو " پہلے کیوں نہیں ،، ؟ پہلے کیوں نہیں دھیان دلایا " ،،،،،یہ اَور بات کہ آج کا مشین زدہ انسان ،، پھر اسی آرام دہ رہن سہن کو یاد کرنے لگتا ہے ،،، اور آج کا انسان ، روح اور بدن کی دو کشتیوں کا سوار ،،، ہو کر ، دوسری اَن دیکھی دنیا کی تھاہ میں اُتر جاتا ہے ۔
بچپن کے اُس سادہ دور میں بھی درختوں تلے پہنچ کے لمبے لمبے سانس ضرور لیے جاتے ،، کہ والدین کا تعلق زمینوں سے بہت گہرا جڑا ہوا تھا ،، اس وقت کے حساب سے سبزے ، درخت ، اور عام چھوٹے پودوں کی محبت میں غرق تھے ،، درختوں کی میٹھی ٹھنڈک کی اہمیت بتا اور جتا دی گئی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اس شہری ، صحن والے گھر میں بھی ایک سفیدے کا خوب قد آور درخت لگایا گیا تھا ،، جگہ کی کمی تھی لیکن سفیدے کی دوستی کے لیۓ ،،، چنبیلی اور انگور کی بیلیں ، گھر کی دوسری منزل تک پہنچی ہوئی تھٰیں ۔ ایسے محسوس ہوتا ،، جیسے تینوں چوٹیوں کی آپس میں سرگوشیوں میں بات چیت رات ہوتے ہی شروع ہو جاتی ہے ، شاید وہ اپنی خفیہ باتیں ،، گھر میں موجود ستر ، اسّی گملوں کے پودوں سے چھُپانا چاہ رہی ہوتیں ۔۔ سخت آندھی کے دن ،،، سفیدے کے درخت کا بے اختیار ہو کر جھومنا ، ڈرانے لگتا ،، ایسے موقع پر اس کے تنے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے شانت ہونے کا کہتی ،،، اور اکثر محسوس ہوتا کہ وہ پُر سکون ہو گیا ہے ۔۔۔ یا تو وہ میری بات سمجھ جاتا تھا ، یا ،، میَں اس کی وارفتگی کو جان جاتی تھی ،، لیکن ایک خاموشی کی زبان ہم دونوں کے درمیان تھی ضرور !!

( منیرہ قریشی ، 6 فروری 2023ء واہ کینٹ ) 

بدھ، 1 فروری، 2023

" اِک پَرخیال " " احساسِ تفاخر "

" اِک پَرِ خیال "
" احساسِ تفاخر "
پرانی ملازمہ ، ایک دن ملنے آگئی ،، ہم دونوں گپ شپ میں مصروف تھیں کہ نئی ملازمہ کمرے میں داخل ہوئی دونوں ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ علیک سلیک کی ۔ پرانی نے پوچھا " سنا ہے مکان مکمل ہو گیا ہے !؟ "
نئی نے جواب دیا " اوو،، بالکل "! 'او 'کی " و " ذرا لمبی تھی ۔ میں یہ منظر دلچسپی سے دیکھ رہی تھی ،،، پھر سوال ہوا ۔۔۔ " لنٹر ؟؟؟" ۔۔۔۔۔۔۔
اب کی دفعہ جواب میں" و" ذرا زیادہ لمبا آیا " اوووو ، لنٹر " !! اور ساتھ ہی سَر بھی کچھ ٹیڑھا ہوا ۔۔۔جو احساسِ تفاخر سے سرشار تھا ۔
بنک جانا ہوا ، کچھ دیر انتظار کرنا پڑا اتنے میں ایک معززخاتون ، اچھا لباس ، ہاتھوں ، کانوں بانہوں میں مناسب سونے کے زیورات ۔ اسّی کے قریب قریب عمر،، انھوں نےمیچنگ لپ سٹک بھی لگا رکھی تھی ،، کچھ دیر سلام کے بعد چُپ رہیں ،، پھر خود ہی کہنے لگیں" اب میں ریٹائرڈ لائف گزار رہی ہوں ، تیس سال سرکاری سکول میں استانی رہی ہوں ، بال بچوں کو پڑھایا ، بیاھا ، اور اب گرینڈ چلڈرنز کو انجواۓ کرتی ہوں ،،، پھر ان کے چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ آئی ،، اتنے میں ان کا نام پکارا گیا ،،، مینیجر نے نرم لہجے میں پوچھا
آپ کا ٹوٹل اماؤنٹ ،،،، سوال پورا ہونے سے پہلے ہی انھوں نے پُر اعتماد لہجے میں ذرا بلند آواز میں کہا " ستتتر لاکھ " ،،، یہاں احساسِ تفاخر میں اطمینان جھلک رہا تھا ، یہاں " ت" پر پورا زور تھا اور ساتھ ہی انھوں نے مینیجر کی میز پر بایاں ہاتھ بھی کچھ زور سے تھپتھپایا ،،،، گویا کہنا چاہ رہی ہوں ،،، کیا سمجھے !!
فوتگی کے گھر سے جنازہ جا چکا تھا ، غم زدہ خاتون کے گرد دس بارہ خواتین کا گروپ بیٹھا ، ہلکی آواز میں تعزیتی جملے بول رہا تھا ۔ اسی دوران ایک خوشحال خاتون نے دوسری زیادہ خوشحال خاتون سے حال احوال پوچھا ،،،
زیادہ خوشحال کے پوچھنے پر پہلی نے بتایا ،،، سب سے بڑی بیٹی میڈیکل کے آخری سال میں ہے ، دوسرا بیٹا آرمی سے کمیشن لینے والا ہے ،، اس سے چھوٹا او لیول کے دوسرے سمسٹر میں ہے ،،،، میں سینئر لیکچرار بن چکی ہوں ، اب کام کا بوجھ نہیں رہا ،، میاں کو سعودیہ میں پانچ سال سے نوکری ملی ہوئی ہے ،،، بس جی دو حج کر چکی ہوں ،،، مصروفیت ہی مصروفیت ہے ،،، انھوں نے احساسِ تفاخر سے ذرا نظریں ادھر اُدھر دوڑائیں ،، تاکہ جائزہ لیں کہ کچھ لوگ متوجہ بھی ہیں ،،، یا ،،یہ سب کہا ضائع تو نہیں ہو گیا ۔
دوسری زیادہ خوشحال نے بتایا ،،، میرا بھی سب سے چھوٹا ، اولیول کے آخری سمسٹر میں ہے ،، اس سے بڑے ، جڑواں بیٹا اور بیٹی ابھی کالج سے فارغ ہوۓ ہیں اور انھوں نے تو کہا ہے ،، پاکستان کی یونیورسٹیاں کسی قابل نہیں ، ہم تو یا امریکا جائیں گے یا ،، یو کے ۔ اور سب سے بڑی بیٹی فلاں فیکٹری کے مالک کے بیٹے سے پچھلے سال بیاہ دی ہے ،، اور تمہیں تو پتہ ہی ہے ،، ( احساسِ تفاخُر نے ٹھمکا لگایا ) مجھے تو پاکستان کی آب و ہوا میں اب کافی الرجی رہنے لگی ہے ،، اسی لیۓ آدھا سال کسی غیر ملک میں اور آدھا سال پاکستان میں گزرتا ہے ،،میَں انھیں دیکھتی رہی ،، الرجی والے ملک سے ہی
خوشحالی سمیٹی گئی ہے اور اب ،،،،،
دونوں ہاتھوں میں سبزیوںاور پھلوں کے شاپر پکڑے وہ سَرِ راہ ملیں ،، تو بہت ہی اخلاق سے سب کا احوال پوچھا ، میرا بھی فرض بنتا تھا چنانچہ ، پوتے پوتیوں ، نواسوں ، نواسی کا پوچھا ۔۔ کہنے لگیں " ارے بھئی کیا پوچھتی ہو۔ ،، ایک سے بڑھ کر ایک لائق ، فائق ۔۔۔ میرے سبھی بچے غیر ممالک میں سیٹل ہیں ،ان کی اولادیں بھی وہیں پڑھیں گی ،، لیکن بڑے بیٹے کا بیٹا تو اس قدر قابل ہے کہ اسے اُس یونیورسٹی میں داخلہ ملا ہے جہان کسی کو مل ہی نہیں سکتا ،،، لاکھوں میں اکّا دُکا ہی وہاں داخل ہوسکتے ہیں ،، میں ان کی باتیں غورسے سنتی رہی ،، انھوں نے یہ جملہ دو تین دفعہ دہرایا ،،، ان کے اس زور دار اندازِ تفاخُر ،،، سے کچھ ایسا تصور بندھا ،،، کہ امریکا کی اس اتنی بڑی یونیورسٹی میں صرف ، دس بارہ طالب علم ،،، سہمے سہمے پھر رہے ہوں گے ،، جیسے وہ " ہانٹڈ " عمارت ہو َ ۔ اس تصور سے میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ،،، قابل بچے کی دادی نے محسوس کیا کہ مجھے یقین نہیں آرہا ،،، تو انھوں یہ جملے پھر دو دفعہ دہرایا ،، ہم بتا رہے ہیں کہ واقعی وہاں کسی کو داخلہ نہیں ملتا ۔۔تو پھر کس کو داخلہ ملتا ہے ؟ ۔ احساسِ تفاخُر یا احساسِ کمتری ۔
میری تو تینوں بیٹیوں کی شادی ، صحیح وقت پر ہو گئیں ،،، بس جی لوگوں کی تو اکلوتی بیٹھی رہتی ہے ۔۔۔ میری تو پچیس سال سے اوپر ہوئی نہیں کہ
کہ رشتے آۓ ، اور کھٹ سے رخصتی ہوتی گئیں ،،، لوگوں کی تو تیس اور اوپر ہو رہی ہیں ۔۔۔ بس جی نیتوں کا کمال ہے ،،، عقل کُل سے معمُور احساسِ تفاخُر ۔نے سگریٹ سے فاتحانہ راکھ جھاڑی ،،، ( تو پھر تمہارا کمال کیا ہوا )۔۔
ہاتھوں سے محنت کر کے ، یا ، ذہن اور علمی کمائی پر ،،یا ، بچوں کی ڈگریوں ، فیکٹریوں کی ملکیت پر ہر طبقہء سوچ کے لوگ اپنے اپنے " احساسِ تفاخر کے گرد کولہو کے بیل کی طرح گھوم رہے ہیں،،، آنکھوں پر کھوپے تو چڑھے ہیں ، لیکن اپنی مرضیوں سے !!!

( منیرہ قریشی یکم فروری 2023ء واہ کینٹ )