( منیرہ قریشی 24 دسمبر 2020ء واہ کینٹ )( کورونا وباء کے تناظر میں لکھی تحریر ۔)
جمعرات، 24 دسمبر، 2020
' پنجرے'
جمعہ، 27 نومبر، 2020
' معیارِ محبت'
اِک پرِ خیال
' معیارِ محبت'
۔" ماں کی گود سے قریباً دس بارہ سال کی عمر تک،والدین ، بہن بھائی پسندیدہ ترین لوگ،چند کھلونے اور ایک دو " لباس" پسندیدہ ترین چیزیں رہتی ہیں ۔ اور اسی دوران خوف اور بےہمتی کی لمبی لِسٹ بنتی بگڑتی رہتی ہے ۔ اور نہایت آہستگی سے وہ طولانی ، طوفانی دور شروع ہو جاتا ہے جو پندرہ تا پینتیس کی عمر تک ضرور چلتا چلا جاتا ہے ،،یہی دور خود سے محبت کا عجب جوار بھاٹا لیۓ ہوتا ہے ۔ صبح سویرے سے رات گئے تک ایک ہی " سُر " نکلتا ہے ،،،، " میَں ، میَں ، اور بس میَں" ۔ اور اس کے ساتھ ہی باقی محبتیں کمزور پڑ نے لگتی ہیں ، جبکہ چند نفر تیں یا تو شدید ہو جاتی ہیں یا ،، معدوم !!! اور یہی دو جذبے نمایاں طور پر ارد گرد گھومتے چلے جاتے ہیں۔
یکدم نئے رشتے جب مکمل توجہ کے کڑے حصار میں لے آتے ہیں تو کتنے ہی سال انہی محبتوں ، کی خوبصورت دمکتی ہتھکڑیاں کیسے خوشی سے پہنے پہنے سب کے سامنے جاتے ہیں ،، دکھاتے ہیں کہ لو بھئ ہم ہیں کامیاب لوگ ۔ تب ایسے میں یکدم واٹر کلر سے لکھے لفظ " محبت " پر ایک ہی بےاعتنائی کا قطرہ گرتا ہے ، اور لفظ محبت عجیب بےہیت روپ اختیار کر جاتا ہے ،،، وہ لفظ ، محبت اور میَں سے بدل کر " تُو ، تُم اور صرف وہ " ،،،، کی تکرار میں بدل جاتا ہے ۔ اور " وہی " اپنی تخلیق کو کچھ نئے نکتے سُجھاتا چلا جاتا ہے کہ نفی کرلو ، اور اثبات کی چادر اوڑھ لو ۔ کہ یہی اصل حلیہ ہے۔
اور پھر ہمت کی دیوار اونچی سے اونچی ہوتی چلی جاتی ہے ، نفرتیں معدوم اور خوف محدود ہوتا چلا جاتا ہے ۔ نہ جانے پُلوں تلے کتنا پانی گزر گیا ہوتا ہے کہ ،،، نمکین پانی والی دوات سے پلکوں کے قلم نئی تحریریں لکھتے چلے جاتے ہیں ، تب محبتیں ، نفرتیں ، ہمتیں ،، اور خوف نئے روپ دھار لیتے ہیں ، تفکرات بےمعنی ہو جاتے ہیں اور بےنیازی کا دریا،دعوتِ تیراکی دیتا ہے،،معیارِمحبت،،کتنی محبت سے بدلایا جاتا ہے،،،!شکریہ اے مالک۔
منگل، 20 اکتوبر، 2020
" تھکن "
( منیرہ قریشی 20 اکتوبر 2020ء واہ کینٹ )
پیر، 28 ستمبر، 2020
" اِکتارا"
( منیرہ قریشی 28 ستمبر 2020ء واہ کینٹ )
جمعہ، 14 اگست، 2020
"اے میرے وطنِ خاص"
اے میرے وطنِ خاص
تیرے لیے ہجرت کرتے نفُوس
تیری راہ میں شہادت کے پھول چُنتے نفُوس
خونِ غیرت سےتیری راکھی کرتے ،،،،۔
سرحدوں پرپرچمِ پاک کا نشاں لگاتے نفُوس
ہم آج اُن کی بھی یاد منا رہے ہیں !!۔
آنسوؤں سے سجے تشکر کے پھُول
ہماری طرف سے ہوں قبول !!!۔
(۔14 اگست 2020ء کے یومِ آزادی پر )
( منیرہ قریشی ، واہ کینٹ )
منگل، 7 جولائی، 2020
" ہائیکو ۔۔۔۔ رات "
٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭
پیر، 6 جولائی، 2020
" لمحۂ خیال "
یہ دانشمندی کی باتیں شاید نہ ہوں ،، البتہ زندگی کے وہ تجربات ضرور ہیں جو ہم ایسے ہی جملوں سے ترتیب دے ڈالتے ہیں ،،اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نتیجہ بھی سامنے آتا ہے تو ہم " ٹھاکر " بنتے چلے جاتے ہیں !! کہ شاید کوئی ہماری تجویز سے فائدہ اُٹھا لے ۔ ایک فریق وہ ہوتا ہے ، جو ٹھوکر کھا کر جلد ہی سمجھ اور سنبھل جاتا ہے جبکہ وہیں دوسرا فریق ہوتا ہے جو " مجھ سے کچھ غلط نہیں ہوسکتا" کا رویہ اپناۓ رکھنے میں زندگی گزار دیتا ہے ۔ اللہ ہمیں فراست سے بہرہ مند فرماتا رہے۔آمین !۔
( منیرہ قریشی ،، 5 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔" لمحۂ خیال" (2)۔
۔'' زندگی میں کچھ لوگ ہمارے لیۓ ہمارا ٹسٹ ہوتے ہیں ،،،، لیکن !لمحے بھر کے لیۓ سوچیئے ،،،،،کہیں ہم اُن کے لیۓ تو " ٹسٹ" نہیں بن رہے !!۔
( منیرہ قریشی 11 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔
۔" لمحۂ خیال" (7 )۔
( منیرہ قریشی15 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔'' میَں دعاؤں میں بہت سے لوگوں کو شامل رکھتی ہوں ، اس اُمید پر ، کہ اب بہت سے لوگ مجھے بھی اپنی دعاؤں میں شامل کر رہے ہوں گے۔سوچتی ہوں دعاؤں کے اتنے پارسلز کی "وصولیاں " کیسے نظر انداز ہو سکتی ہیں ۔ تو پھِر رحمت ، مغفرت ، اور تحفظ پر یقین تو بنتا ہے مولا !! ( بھلے یہ لین دین ہی سہی ) !۔
۔۔۔۔
۔" لمحۂ خیال" (15)۔
۔ کبھی کبھی بولے جانے والے الفاظ ہی بندے کی اوقات ،،، اور تعارف بن جاتے ہیں۔اور ، کبھی کبھی بولے گئے الفاظ ، بولنے والے کے خلاف گواہی بن جاتے ہیں ،،، اور سزا پر سزا سناتے چلے جاتے ہیں۔
آہ ! بندہ کب ، کہاں اور کیا بولے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
( منیرہ قریشی 12 اگست 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔۔۔
لمحۂ خیال "(18)۔"
( الذّٰ رِ یٰت ، 28/29 )
۔" کہنے لگے فرشتے ، " نہ تم ڈرو " اور خوشخبری دے دی اُس کو ایک لڑکے کی ، تو اُس کی بیوی حیرت میں آ گئی اور چہرے پر ہاتھ مار کر کہنے لگی "میَں بڑھیا ، بانجھ "،؟! کہنے لگے فرشتے " اِسی طرح ہو گا "،، گویا "اللہ ذاتِ باکمال "بندوں کو "خوشگوار حیرت" دے کر خوش کرتا ہے۔
( منیرہ قریشی 24 اگست 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔۔
۔" سواۓ تیری رحمت کے ، میرے پاس کوئی ' ہتھیار ' نہیں ۔اُمیدِ واثق ہے یہ ہتھیار کُند نہیں ہو گا ،،کہ زنگ سے بچانے کے لیۓ اسے نمکین پانی ملتا رہتا ہے"۔
منگل، 9 جون، 2020
" محض ایک دروازہ ہوں
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مَیں تو محض ایک دروازہ ہوں
کبھی اُونچا ، کھُلا ، میخوں جڑا
کبھی نیچا ، اُکھڑا ، اُجڑا
مگر اِس کو الانگتے قدم
کبھی پُر اعتماد ، سیدھی نظر ، جمے قدم
کبھی یہیں سےگھُستی تیز ، تیکھی حاسد نظر
کبھی پلٹتے مایوس قدم ،،،گیلی نظر
کبھی پلٹتی انتقامی پھُونکیں ،،،،،
بہ واپسی طنز کے خنجر ، سازشی محفلیں
تیاریاں ،، تیاریاں !
کبھی حوالہ کہ باپ ہوتا ہے گھر کا دروازہ
سراپا مدافعت ، معاونت ، محافظت
کبھی مانند مثالِ ماں ہے گھر کا دروازہ
گرم ، سرد ، رُوکھا سُوکھا سمیٹنا سمٹانا
لیکن میَں تو محض ایک دروازہ ہوں
شاید محض ایک اِستعارہ ہوں ،،،،؟
( منیرہ قریشی 9 جون 2020ء واہ کینٹ
اتوار، 24 مئی، 2020
" صبر کا سُرمہ "
اِنّ اللہَ مَعَ الصَابریِن ( اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے )۔
منگل، 19 مئی، 2020
" اِک پر خیال(43)"
پسِِ تحریر۔۔۔
پیر، 18 مئی، 2020
" اِک پرِ خیال(42) "
' تاریخ ہی تاریخ ' ( حصہ اوّل )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہم جب بھی کسی تاریخی کتاب کو پڑھتے ہیں ،، اور جدید دور میں بنائی تاریخی واقعات پر مبنی فلمیں یا ڈرامے دیکھتے ہیں ،،،، تو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ اسے اپنے تصور کی آنکھ سے بھی جانچتے چلے جاتے ہیں ۔
ایک تاریخی کتاب پڑھنے والے کو اُس وقت یہ کتاب محویت کے عالم میں لے جاتی ہے کہ ،،، قاری خود کو اُسی دور کے گلی کوچوں میں پھرتا ، اسی دور کے لوگوں کے قریب سے گزرتا محسوس کرنے لگتا ہے ،،، ایک اچھے مؤرخ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ تاریخی واقعات اور مکالمے اس انداز سے لکھے کہ کرداروں کے ہونٹ ہلتے ، اُن کےکپڑوں کی سرسراہٹ ،، اُن کے گرد گزرتے گھوڑے یا گھر کے صحن میں کھنکتے برتنوں یا قہقہوں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگتی ہیں ،،،،،یہ اچھے مؤرخ کے الفاظ اور تصورات کا وہ جادو ہوتا ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے ۔ ہر وہ تاریخی کتاب جسے مصنف مکمل ریسرچ اور روحانی درجے کے ساتھ لکھے ضرور اس کی زبان ، ماحول معاشرت ، یا سچائی کی بنا پر تا دیر زندہ رہتی ہے ،،، بلکہ اُس اہم تاریخی واقع اور اسکے اہم کرداروں کو زندہ رکھتی ہے ۔
اور جب سے فلم کا دور آیا ،، کچھ باہمت پروڈیوسرز ، ڈائریکٹرز نے تاریخ جیسے مشکل موضوعات پر ہاتھ ڈالا ،،، اور پھر شدید محنت سے ایسے شاہ کار دنیا کو دکھا ڈالے کہ شاید جب وہ خود بھی اُس فلم کو دیکھتے ہوں گے تو سوچتے ہوں گے ،،، کیا واقعی یہ میں نے تاریخ کو " ریورس " نہیں کر دیا !!! اَن مٹ نقوش چھوڑ جانے والی یہ تاریخی فلمیں احساسات کو نئی دنیا میں لے جاتی ہیں !! حتیٰ کہ اِن تاریخی فلموں میں کردار ادا کرنے والے فنکار ،، اپنی عام زندگی میں اُسی کردار کی وہ چلتی پھرتی تصویر اور پہچان بن جاتے ہیں کہ دیر تک وہ خود بھی اُس کردار سے نہیں نکل پاتے ! شاید یہ اُس تاریخی شخصیت کے مضبوط ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔
ہم کتاب پڑھتے یا تاریخی فلم دیکھتے خود کو بھی اُنہی حویلیوں ، قلعوں ،،، یا خیموں میں موجود پاتے ہیں ،،،، کبھی کسی قلعے کی راہداریوں میں سازشیں کرتے کردار ،، کبھی حویلیوں پر اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب ،، اور کبھی پُر امن رہتے لوگوں کے جلاۓ جانے والے خیموں کو دیکھتے ہوۓ ، کہنا چاہتے ہیں ،،،،، چند لمحوں بعد یہ قیامت آیا چاہتی ہے ،، یہ سازشیں نہ کرو ،،، اس کا انجام بُرا ہی بُرا ہے ،،، یہ بےانصافیاں نہ کرو ! کہ صرف چند سال ، یا چند سو سال بعد لکھی گئی تاریخ میں تم نفرین زدہ کردار بنو گے،،،، مت ایسا قدم اُٹھاؤ کہ عارضی دولت ، شہرت کی خاطر لمحوں کی غلطیاں اور انا کے تکبر سے پوری قوم صدیوں عذاب جھیلے گی،، اس کچھ دیر کی دنیا کے بدلے ہمیشگی کی زندگی کا سودا نہ کرو !! اور پچھتاوے کا طوق گلے میں مت
ڈالو ،، کہ یہ دنیا تو کسی کی نہیں ہوئی ، چاہے وہ تاریخ کا ہیرو تھا یا ولن !!۔
جمعہ، 1 مئی، 2020
" اِک پرِ خیال " (41)
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سال 2019ء نے دنیا سے رخصت ہونے کے لیۓ پَر جھاڑے ،،، اور اِن پروں سے، کچھ نئی مثبت سوچیں نازل ہوئیں ، کچھ نئے تجربات کے آئیڈیاز کا نزول ہوا ،،، کچھ نئے چنڈالوں نے دنیا کو ایک نیا ریوَڑ بنانے کا ٹھیکہ لیا ،،، کچھ بےچین لوگوں پر منفی خیالوں کا چھڑکاؤ ہوا ،،،،، اور کچھ ایسے ہی وائرس گِرے ،، جس نے دنیا کے گلوب کو پہلے حیرانی کی کیفیت میں ششدر کیا،،، اور پھر شدتِ پریشانی نے اِسے گھُما کر رکھ دیا ۔ تحقیق ہوئی اور دنیا کے فطین اذہان کی طرف سے چارٹر جاری ہوا ،، کوئی آپس میں نہ ملے ، کوئی کاربار نہ چلے ، کوئی اس وائرس کے شکار کے قریب مکمل حفاظتی لباس کے بغیر نہ جاۓ ،،،،،، اور ہر دفعہ ہاتھ بیس سیکنڈ تک دھوئیں وغیرہ،،،،،! تو جہاں پینے کو پانی نہیں ،،، جہاں پہلے ہی غربت کا گہرا سایہ سالہا سال سے ڈیرے ڈالےہو ،، گلوب میں موجود کچھ ممالک میں ایک کمرے میں آٹھ بندوں کا رہنا ازبس ضروری ہو ،،،،،جہاں کے گلی محلے میں بدبوؤں کا مقابلہ ہو رہا ہو ،،،کچھ ممالک کی ستر فی صد آبادی صحت کے اُصولوں سے نا واقف ہو کیوں کہ انھیں صحت کیا اور اُس کے اُصول کیا ،، انھیں خبر ہی نہ ہو ،،،، تو انھیں اِس اَن دیکھے ، وائرس سے کیا ڈرانا ۔ کیوں کی ابھی وہ پیٹ کی بھوک کے وائرس سے کُشتی جیتنے کی کوشش میں ہیں ۔
ہاں البتہ جدید دنیا کی جدید ترین ایک نئی ایجاد کے " لاک ڈاؤن " سے ضرور ڈرایا جا سکتا ہے ۔ کیوں کہ غربت ،سے جہالت جنم لیتی ہے اور غریب کے پاس روٹی بےشک نہ ہو موبائل اس کی زندگی کی اولین ضرورت بن چکا ہے۔
جی ہاں ،، اگر یہ " اعلان " سامنے آ گیا کہ ایک نئی تحقیق کے مطابق آپ کے ہاتھوں میں پکڑے موبائل سے ایسی " ریز " نکل سکتی ہے جو دماغ کو فوراً سُن کر سکتی ہے ، اور بندے کو لمحوں میں ختم کر سکتی ہے ، میڈیا چیخنے لگے ،،، موبائل ہاتھوں سے گِرا دیں ۔ ورنہ ہلاکت یقینی ہے،، اور اگر ایسا کوئی " نیا اعلان " آ گیا تو اے آج کے انسان! تیرا کیا بنے گا ،،؟ آج کی دنیا کے90 فیصد لوگ صبح آنکھ کھُلتے ہی تکیۓ تلے ہاتھ پھیرتے اور اپنے اِس اہم ساتھی پر ایک نظر ڈالتے ہیں ،، کس نے کیا ، اور کیوں پیغام بھیجے ہیں ، ذرا دیکھوں ،، اور اِسی ذرا دیکھنے میں سارا دِن گزر جاتا ہے ، نظریں نہ رشتوں کی ذمہ داریوں سے نہ آدابِ اقدار سے آگاہ رہیں ،، نہ پائیدار علم کی کوشش کی خواہش رہی ۔ طبیعتوں کا ٹھہراؤ کہیں گُم ہو گیا ہے،، علوم انگلی کے پَور پر منحصر اور منتقل ہو چکے ہیں ،،،، بس لمحاتی علم ہے ، انگلی پھری تو بھول گئے کہ ابھی ایک لمحہ پہلے کیا پڑھا تھا !! تو اگر موبائل کا " لاک ڈاؤن " ہو گیا تو سوچیں ہماری مصروفیات کیا ہوں گی ؟؟؟ تب بندہ تو " بندۂ بےحال " بن سکتا ہے !۔
( منیرہ قریشی یکم مئی 2020ء واہ کینٹ )
منگل، 28 اپریل، 2020
" اِک پَرِ خیال "(40)
" تعزیت " ( کرونا لاک ڈاؤن کے دوران )
،،،،،،،،،،،،،
آج دنیا کرونا وائرس کی وجہ سے تقریباً پانچویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے ، کوئی ملک ایسا نہیں بچا جہاں اس " اَن دیکھے وائرس " نے اپنے متحرک ہونے کا ثبوت نہ دیا ہو ۔ " دنیا کی تاریخ " میں ایسی وباؤں کے پھوٹنے اور ان سے ہونی والی ہلاکتوں کی تفصیل موجود ہے ، اگرچہ ایسا کڑا وقت چند بار ہی آیا لیکن لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ تہہِ خاک ہو گئے۔
لیکن یہ کیا ہوا کہ ایک " اَن دیکھے ، ایک عام زکام زدہ " جرثومے نے اِس جدید ترین ٹیکنالوجی سے لَیس دنیا کا کیا حال کر دیا ،،، تمام سُپر پاورز اپنے تمام تر عادلانہ اور ظالمانہ نظام سمیت چند ہفتوں میں گھٹنوں کے بَل جھک گئیں،،،اُن کی معیشت کا دیو اندھیرے کونے میں جا کھڑا ہوا ہے ۔ نہ جانے روشنی آنے تک وہ کتنا چھوٹا یا بونا ہو چکا ہو ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا ،،، مجھے تو بس اِس سارے دورانیے میں " امریکا " سے بہت ہمدردی ہو رہی ہے ۔ وہ سکندرِ اعظم اور مغلِ اعظم سے بھی بڑا " چنگیزِِ اعظم " بن کر کئی عشروں سے دنیا پر ایسا راج کر رہا تھا کہ جب فرعونیت سے سرشار تالی بجاتا اور حکُم جاری ہو جاتا ۔۔۔ اُس فلاں ملک کی یہ جرات کہ ہمیں آنکھیں دکھاۓ ، ہمیں اپنے ملک کی تلاشی دینے سے انکار کرے ،، ہمارے مطلوبہ لوگ ہمارے حوالے نہ کرے ،، ہم سے مشورہ لیے بغیر پالیسیاں بناۓ،،، تباہ کر دیا جاۓ !!! یہ چھوٹے چھوٹے ملک سانس بھی ہم سے پوچھ کر لیں !! اور یوں چند صدیوں میں بناۓ گئے ملک،، چند عشروں میں " تورا بورا " کر کے رکھ دیے گئے،،،،، پھر نہ جانے قدرت نے کون سی آہ سنی کہ آج دوسروں کو چُٹکی میں مسلنے والے ایک " اَن دیکھے " سے چو مُکھی لڑائی لڑ رہے ہیں ،،، مجھے امریکا اور اس کے حورایوں سے ہمدردی ہے اور ہمارا اُن سے تعزیت کرنا بنتا ہے،" کہ اتنے ہفتوں سے تالی نہیں بجی ،، کسی اگلی سرزمین کو ملیا میٹ کرنے کا حکم جاری نہیں کیا جا سکا ،، لاکھوں مسلمانوں کے جسموں کو قیمہ نہیں بنایا جا سکا،، آہ بے چارہ دنیا کا " جگا بدمعاش " ،،،،، سوچوں کے بھنور میں ہے !!شطرنج کی بساط نئے کھلاڑیوں کی منتظر ہے ، قدرتِ الہیٰ کی طرف سے نیا ورڈ آرڈر جاری ہو گا ان شا اللہ !۔
مشہور یہودی نام نہاد دانشور ہنری کیسنجر نے دنیا کو تجویز پیش کی ہے کہ ' وقت آگیا ہے کہ نیو ورلڈ آڈر تیار کیا جاۓ ، اور دنیا ایک مشترکہ کرنسی کے ساتھ چلے " وغیرہ ،، بالکل صحیح لیکن اِ س نئے ورلڈ آرڈر کی سربراہی اب مشرق کرے گا ،،، اور اس کی سربراہی " پاکستان ، اور ، ترکی کو سونپی جاۓ ،، کہ مغرب نے یہ لیڈر شِپ بہت کر لی ۔
" اور اللہ ہی بہترین جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے "
( منیرہ قریشی 28 اپریل 2020ء واہ کینٹ )
جمعہ، 27 مارچ، 2020
"اِک پَرِ خیال(39) "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
٭بندہ کئی دفعہ مسائل سے گھبرا کر تنہائی کا شکار ہو کر ، خوب روتا ہے ، اور اس کے منہ سے یہ جملے بےاختیار نکلتے ہیں ' میرے مولا ، میَں تنہا ہوں ، میرا کوئی نہیں جو میرے دکھ کو سمجھے " ،،، اُس کی فریادیں سُن کر خالقِ حقیقی مسکراتا ہے ، تُو غور کر میرے بندے میَں تو تیری شہ رگ سے بھی قریب تر ہوں ، تُو جو سوچتا ہے میَں اس سے پہلے ہی جان جاتا ہوں، تُجھے خود ہی پریشان ہونے کا شوق ہے، تو میَں کیسے تیرے دل کو اطمینان دوں ،،میَں تو ہر لمحہ تیرے ساتھ ہوں ،لیکن میَں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا " میَں آزماؤں گا ، مال سے ، اولاد سے، نفس سے " !!۔
٭ ،،مجھے اپنے بچوں سے عشق ہے ، میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ۔ میری محبوبہ اگر مجھے نہ ملی تو میں مَر جاؤں گا ، خود کُشی کر لوں گا۔ اپنے والدین سے میری محبت دنیا کی تمام محبتوں پر حاوی ہے ،،،،،،لیکن یہ کیسی وباء ، اور ہوا چلی کہ ہر محبت کو تین فٹ دور کر دیا ، ذرا سا بھی دوسرے کی چھینک ، یا کھانسی ہمارے فیلرز ( محسوسات) کو عام دنوں سے دُگنا کر چکی ہے ،،، کہیں ایسا نہ ہو جاۓ ،کہیں ویسا نہ ہو جاۓ،،، حالانکہ ہم پر واضع کیا جا چکا ہے " روزِ محشر نہ اولاد والدین کو دیکھے گی ، نہ والدین اولاد کو،کہیں مجھ سے نیکی کی مدد نہ مانگ بیٹھیں " !!۔
٭ اس زندگی کی حددرجہ چہل پہل کے دوران ، وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں " اکثر" جا کراُن کی غمی خوشی میں شریک ہوں ،، لیکن قدرت نے بتا دیا ، میَں تمہیں اسی چہل پہل سے بےنیاز کر دوں گا ۔ پھر تمہیں بھُولے رشتے یاد آ ئیں گے ،، لیکن اب ملنا ممکن نہیں ، اس لیے ابھی یہاں کی شرمندگی کا ازالہ کر لو !!۔
٭ یو کے ،، اور یو ایس تو جنت ہے ،، سیر کے لیۓ بھی ، اور جب بیمار ہو تو علاج کے لیۓ بھی ،،، واہ !وہاں کے علاج کا کیا کہنا ،،، ان ممالک کا ویزہ لگنے پر " الحمدُ للہ" کہا جاتا ہے ۔ لیکن اب ،، ایک اَن دیکھے جر ثومے نے یو کے اور یوایس کی حیثیت کھوٹے سِکے جیسی کر کے رکھ دی ہے ۔ یہ تیسری دنیا جیسی بھی ہے ، ٹھیک ہے ! قدر و منزلت کے معیار کیسے بدل گئے۔
٭ مدتوں بعد گنجان آباد شہروں کے باسیوں نے "خاموش کرونے کے ذریعے خاموشی کی آواز سنی ،، !!۔
٭ جدید ٹیکنالوجی کو کم فہم لوگوں نے صرف اپنی ذات کا غلام بنا لیا تھا ،،، موبائل ہے تو گھنٹوں ، گوسپ چل رہی ہے ، میری ساس ، میری بہو ، میری دیورانی ، میرا شوہر ، میرا نمک حرام نوکر،، کون سے رشتے نہ تھے جو زبان کی غلاظتوں سے آلودہ نہ کیۓ جاتے ہوں ،،، کوئی ڈر نہیں کوئی خوف نہیں کہ کاتبین کو لکھنے کے لیے کیا کیا مواد دیا جا رہا ہے ، آہ اور واہ کے پروگرام کی حدیں نہ رہیں تھیں ۔ ننّھے سے جر ثومے نے ایسی لمبی چھٹیاں کروا دیں کہ " بوریت " جا ہی نہیں پا رہی ۔ جنھوں نے سبق نہیں لینا ، وہ اس دورِ فتن میں بھی آلودہ ہیں ، حالانکہ صرف ہاتھ ہی نہیں دھونے لازم ،،، بلکہ اخلاق بھی دھونے کا موقع مل گیا ہے ، !!۔
٭ یہ وباء انسانی سازش کا نتیجہ ہے ، یا نہیں !! اللہ اپنے بندوں کو جھنجھوڑنے کے لیۓ ، کبھی بخت نصر کو بھیجتا ہے، کبھی چنگیز خان کو ،، بھی تیمور لنگ کی صورت میں انسان کی عقل کو گُھما کر رکھ دیتا ہے ۔اور انسان ؟؟؟؟ " بےشک انسان بڑا جلدباز ، جھگڑالو ، اورمتکبر ہے ،، وہ اگرسوچے تو وہ دنیا و آخرت کے خسارے میں ناک و ناک ڈوبا ہوا ہے ۔ اور یہ ہی غفلت شیطان اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے !!۔
( منیرہ قریشی 27 مارچ 2020ء واہ کینٹ)
ہفتہ، 21 مارچ، 2020
" اِک پَرِ خیال(38) "
اور کائنات اپنے" قدرتی ٹھہراؤ " سکون کے راستے سے مدت بعد " آشنا " ہوئی ہے ، دعا ہے یہ ٹھہراؤ عافیت کے کنارے سے ہمکنار ہو جاۓ آمین !۔
جمعرات، 12 مارچ، 2020
" محبت کے حصہ داران "
۔( میری پوتی نے کبوتر ، طوطے ، مچھلیاں پالی ہیں ،، اس کی جانوروں سے محبت کے نطارے دیکھتے ہوۓ یہ تاثراتی نظم لکھی ،، بھلے یہ نظم کسی معیار کی نہ ہو ،،، لیکن اس کے بے زبانوں سےجذبہء محبت کو عیاں کرتی ہے ) ۔