اتوار، 24 مئی، 2020

" صبر کا سُرمہ "

" صبر کا سُرمہ "
( دعا ،،، اُن کے لیۓ جن کی آنکھیں اس عید سے اور آئندہ عیدوں میں بھی نمناک رہیں گی )
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کوئی لفظ نہیں ،۔
کوئی جملہ نہیں ،۔
کہ بعض دفعہ الفاظ بے معنی ہو جاتے ہیں
کہ بعض دفعہ بھر پور جملے حقِ ادائیگی کھو دیتے ہیں !۔
خاموش آنسو زمانوں تک خود ہی مداوا بنتے رہیں گے !۔
دعا ہے ، اُن آنکھوں میں صبر کا سُرمہ بہہ نہ پاۓ
صبر کی صَف سے وہ کہیں نکل نہ جائیں !۔
کہ صبر اور محبتِ الہیٰ ،،، شرطِ حق ہےٹھہرا !!۔
اِنّ اللہَ مَعَ الصَابریِن ( اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے )۔
( منیرہ قریشی ، 24 مئی 2020ء واہ کینٹ )

 

منگل، 19 مئی، 2020

" اِک پر خیال(43)"

" اِک پر خیال"
تاریخ ہی تاریخ (حصہ دوم)۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مؤرخینِ تاریخ ، چاہے کسی بھی خطے سے متعلق ہوں ،، ذیادہ تر اُن میں وہ ہیں ،جنھوں نے لکھتے وقت انصاف سے کام لینے کی کوشش کی ہوتی ہے ،، ظاہر ہے تھوڑا بہت تعصب اگر آ بھی جاۓ ،،، تو یہ انسانی فطرت ہے ۔ کہیں عقیدہ ، کہیں معاشرتی لیول ، کہیں قبیلہ یا کہیں میلانِ طبیعت آڑے آ ہی جاتا ہے،،، لیکن مؤرخ ہمیں گزرے وقت میں چلائی جانے والی سازشوں ، خودغرضیوں ، ہیروز کی ان تھک محنتوں ، محبتوں ، اور اُن کی راہوں میں رکاوٹیں ڈالنے والوں شطرنج کی بساط بچھاۓ مہرے چلانے والوں کی کمینگیوں کو بےنقاب کرتا چلا جاتا ہے ،، اور اسی دوران عام عوام پر اِن چالوں سے ہونے والے اثرات کو ساتھ ساتھ واضح کرتا چلا جاتا ہے ۔ مؤرخِ تاریخ کا شکریہ ،،، جوہمارے لیۓ ایسے صحیفے چھوڑ جاتا ہے جو دراصل " ہمارا اپنا نوشتہ ہوتا ہے "۔
ہم جو آج زمانۂ حال میں ہیں ،،، ہم جو آج تاریخی کُتب پڑھ رہے ہیں ،، ہم جو آج کل، ماضی کے ہیروز اور غداروں سے متعلق جان رہے ہیں،،،، اس سب کا کیا فائدہ ؟ زمانۂ حال ہے لیکن کردار وہی ہیں ،، وہی انا کا مسئلہ ،، وہی لالچ  وخودغرضی کی ہوس،،وہی عارضی زندگی کے لیۓ عیاشیاں، اپنی اگلی نسلوں کا محفوظ مستقبلکرنے کے جوڑ توڑ، وہی مخلص اور اہل شخصیات کی راہ میں رکاوٹیں ،،،،، آہ ،،، یہ سب کچھ ہم تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ،، یا اِن پر بنے ڈرامے دیکھتے ہیں ،،،،، اور اگر ہم اشرافیہ میں سے ہیں ،، یا اُمراء کے طبقے میں سے ہیں ،، یا انقلابی سوچ رکھنے والے ہیں تو آج ،،،، اور ،، ابھی ہم انہی تاریخ کے صفحات میں سے اپنا کردار چُن کر اس پر ' ٹک مارک ' لگا سکتے ہیں ! کیوں کہ ابھی ہم نے کتاب کا اگلا صفحہ پلٹنا ہے اور آگے بھی ہم موجود ہیں ،، لیکن یہ سوچ لیں ، تاریخ ہمیں ایک چھُپی آنکھ سے دیکھ رہی ہے ، یہ ہی وقت ہے کہ ہم چُن لیں کہ ہمیں کس کردار کے لیۓ یاد رکھا جاۓ گا ۔ غدار یا جانباز !! یہ ہی وقت ہے کہ ہماری نسلوں کو شرمندگی نہ ہو ، ۔ ایسا نہ ہو کہ عدالت کے باہر مِیرصادق اور میرجعفر کی اولادیں جب پہلی نسل کے بعد ہی جائیدادوں کے جھگڑے لیۓ پہنچیں تو عدالتی اہلکار جج کے سامنے حاضر ہونے کے لیۓ آواز لگاتا " میر صادق غدار کی اولاد حاضر ہو """۔
" گویا تاریخ ہی اپنی تاریخ پڑھ رہی ہے ، لیکن عبرت کے بغیر "
" اللہُ اکبر ، اللہُ اکبر "
پسِِ تحریر۔۔۔
تاریخی کتب پڑھنا یا ڈرامے یا فلمیں دیکھنا مجھے ہمیشہ سے پسند رہا ، ان دنوں ڈرامہ " ارتغل غازی " دیکھا ،،، تو سوچ یہاں اَٹکی کہ آج بھی ہیروز کا جہان اور اس کے ارادے فرق اور آس پاس کے ولن تمام تر چالوں کے باوجود ناکام و نامراد ،،، لیکن تاریخ انھیں کن الفاظ سے یاد کر رہی ہے اور کرتی رہے گی " ! طاقتور کی سوچ بدلنا بےحد ضروری ہے"۔
جس محنت سے ترکیہ کے عظیم ہیرو ارتغل سے متعلق مصنف نے لکھا ، ڈائریکٹرز نے اور اداکاروں نے فلمایا ،،،، جہاں جہاں اسے دیکھا گیا ، لوگوں کی کثیر تعداد کو  تاریخ سے دلچسپی ہوئی ہے ، اور یہ ایک محبِ وطن کی اپنے ملک کے ہیروز کو خراجِ تحسین کا بہترین طریقہ ہے۔
( منیرہ قریشی 19 مئی 2020ء واہ کینٹ )

پیر، 18 مئی، 2020

" اِک پرِ خیال(42) "

" اِک پرِ خیال "
' تاریخ ہی تاریخ ' ( حصہ اوّل )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہم جب بھی کسی تاریخی کتاب کو پڑھتے ہیں ،، اور جدید دور میں بنائی تاریخی واقعات پر مبنی فلمیں یا ڈرامے دیکھتے ہیں ،،،، تو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ اسے اپنے تصور کی آنکھ سے بھی جانچتے چلے جاتے ہیں ۔
ایک تاریخی کتاب پڑھنے والے کو اُس وقت یہ کتاب محویت کے عالم میں لے جاتی ہے کہ ،،، قاری خود کو اُسی دور کے گلی کوچوں میں پھرتا ، اسی دور کے لوگوں کے قریب سے گزرتا محسوس کرنے لگتا ہے ،،، ایک اچھے مؤرخ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ تاریخی واقعات اور مکالمے اس انداز سے لکھے کہ کرداروں کے ہونٹ ہلتے ، اُن کےکپڑوں کی سرسراہٹ ،، اُن کے گرد گزرتے گھوڑے یا گھر کے صحن میں کھنکتے برتنوں یا قہقہوں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگتی ہیں ،،،،،یہ اچھے مؤرخ کے الفاظ اور تصورات کا وہ جادو ہوتا ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے ۔ ہر وہ تاریخی کتاب جسے مصنف مکمل ریسرچ اور روحانی درجے کے ساتھ لکھے ضرور اس کی زبان ، ماحول معاشرت ، یا سچائی کی بنا پر تا دیر زندہ رہتی ہے ،،، بلکہ اُس اہم تاریخی واقع اور اسکے اہم کرداروں کو زندہ رکھتی ہے ۔
اور جب سے فلم کا دور آیا ،، کچھ باہمت پروڈیوسرز ، ڈائریکٹرز نے تاریخ جیسے مشکل موضوعات پر ہاتھ ڈالا ،،، اور پھر شدید محنت سے ایسے شاہ کار دنیا کو دکھا ڈالے کہ شاید جب وہ خود بھی اُس فلم کو دیکھتے ہوں گے تو سوچتے ہوں گے ،،، کیا واقعی یہ میں نے تاریخ کو " ریورس " نہیں کر دیا !!! اَن مٹ نقوش چھوڑ جانے والی یہ تاریخی فلمیں احساسات کو نئی دنیا میں لے جاتی ہیں !! حتیٰ کہ اِن تاریخی فلموں میں کردار ادا کرنے والے فنکار ،، اپنی عام زندگی میں اُسی کردار کی وہ چلتی پھرتی تصویر اور پہچان بن جاتے ہیں کہ دیر تک وہ خود بھی اُس کردار سے نہیں نکل پاتے ! شاید یہ اُس تاریخی شخصیت کے مضبوط ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔
ہم کتاب پڑھتے یا تاریخی فلم دیکھتے خود کو بھی اُنہی حویلیوں ، قلعوں ،،، یا خیموں میں موجود پاتے ہیں ،،،، کبھی کسی قلعے کی راہداریوں میں سازشیں کرتے کردار ،، کبھی حویلیوں پر اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب ،، اور کبھی پُر امن رہتے لوگوں کے جلاۓ جانے والے خیموں کو دیکھتے ہوۓ ، کہنا چاہتے ہیں ،،،،، چند لمحوں بعد یہ قیامت  آیا  چاہتی ہے ،، یہ سازشیں نہ کرو ،،، اس کا انجام بُرا ہی بُرا ہے ،،، یہ بےانصافیاں نہ کرو ! کہ صرف چند سال ، یا چند سو سال بعد لکھی گئی تاریخ میں تم نفرین زدہ کردار بنو گے،،،، مت ایسا قدم اُٹھاؤ کہ عارضی دولت ، شہرت کی خاطر لمحوں کی غلطیاں اور انا کے تکبر سے پوری قوم صدیوں عذاب جھیلے گی،، اس کچھ دیر کی دنیا کے بدلے ہمیشگی کی زندگی کا سودا نہ کرو !! اور پچھتاوے کا طوق گلے میں مت 

ڈالو ،، کہ یہ دنیا تو کسی کی نہیں ہوئی ، چاہے وہ تاریخ کا ہیرو تھا یا ولن !!۔
پسِِ تحریر۔۔۔
تاریخی کتب پڑھنا یا ڈرامے یا فلمیں دیکھنا مجھے ہمیشہ سے پسند رہا ، ان دنوں ڈرامہ " ارتغل غازی " دیکھا ،،، تو سوچ یہاں اَٹکی کہ آج بھی ہیروز کا جہان اور اس کے ارادے فرق اور آس پاس کے ولن تمام تر چالوں کے باوجود ناکام و نامراد ،،، لیکن تاریخ انھیں کن الفاظ سے یاد کر رہی ہے اور کرتی رہے گی " ! طاقتور کی سوچ بدلنا بےحد ضروری ہے"۔
جس محنت سے ترکیہ کے عظیم ہیرو ارتغل سے متعلق مصنف نے لکھا ، ڈائریکٹرز نے اور اداکاروں نے فلمایا ،،،، جہاں جہاں اسے دیکھا گیا ، لوگوں کی کثیر تعداد کو  تاریخ سے دلچسپی ہوئی ہے ، اور یہ ایک محبِ وطن کی اپنے ملک کے ہیروز کو خراجِ تحسین کا بہترین طریقہ ہے۔
( منیرہ قریشی 18 مئی 2020ء واہ کینٹ )

جمعہ، 1 مئی، 2020

" اِک پرِ خیال " (41)

" اِک پرِ خیال "
' نیا اعلان ' ( کرونا ، لاک ڈاؤن کے تناظر میں )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سال 2019ء نے دنیا سے رخصت ہونے کے لیۓ پَر جھاڑے ،،، اور اِن پروں سے، کچھ نئی مثبت سوچیں نازل ہوئیں ، کچھ نئے تجربات کے آئیڈیاز کا نزول ہوا ،،، کچھ نئے چنڈالوں نے دنیا کو ایک نیا ریوَڑ بنانے کا ٹھیکہ لیا ،،، کچھ بےچین لوگوں پر منفی خیالوں کا چھڑکاؤ ہوا ،،،،، اور کچھ ایسے ہی وائرس گِرے ،، جس نے دنیا کے گلوب کو پہلے حیرانی کی کیفیت میں ششدر کیا،،، اور پھر شدتِ پریشانی نے اِسے گھُما کر رکھ دیا ۔ تحقیق ہوئی اور دنیا کے فطین اذہان کی طرف سے چارٹر جاری ہوا ،، کوئی آپس میں نہ ملے ، کوئی کاربار نہ چلے ، کوئی اس وائرس کے شکار کے قریب مکمل حفاظتی لباس کے بغیر نہ جاۓ ،،،،،، اور ہر دفعہ ہاتھ بیس سیکنڈ تک دھوئیں وغیرہ،،،،،! تو جہاں پینے کو پانی نہیں ،،، جہاں پہلے ہی غربت کا گہرا سایہ سالہا سال سے ڈیرے ڈالےہو ،، گلوب میں موجود کچھ ممالک میں ایک کمرے میں آٹھ بندوں کا رہنا ازبس ضروری ہو ،،،،،جہاں کے گلی محلے میں بدبوؤں کا مقابلہ ہو رہا ہو ،،،کچھ ممالک کی ستر فی صد آبادی صحت کے اُصولوں سے نا واقف ہو کیوں کہ انھیں صحت کیا اور اُس کے اُصول کیا ،، انھیں خبر ہی نہ ہو ،،،، تو انھیں اِس اَن دیکھے ، وائرس سے کیا ڈرانا ۔ کیوں کی ابھی وہ پیٹ کی بھوک کے وائرس سے کُشتی جیتنے کی کوشش میں ہیں ۔
ہاں البتہ جدید دنیا کی جدید ترین ایک نئی ایجاد کے " لاک ڈاؤن " سے ضرور ڈرایا جا سکتا ہے ۔ کیوں کہ غربت ،سے جہالت جنم لیتی ہے اور غریب کے پاس روٹی بےشک نہ ہو موبائل اس کی زندگی کی اولین ضرورت بن چکا ہے۔
جی ہاں ،، اگر یہ " اعلان " سامنے آ گیا کہ ایک نئی تحقیق کے مطابق آپ کے ہاتھوں میں پکڑے موبائل سے ایسی " ریز " نکل سکتی ہے جو دماغ کو فوراً سُن کر سکتی ہے ، اور بندے کو لمحوں میں ختم کر سکتی ہے ، میڈیا چیخنے لگے ،،، موبائل ہاتھوں سے گِرا دیں ۔ ورنہ ہلاکت یقینی ہے،، اور اگر ایسا کوئی " نیا اعلان " آ گیا تو اے آج کے انسان! تیرا کیا بنے گا ،،؟ آج کی دنیا کے90 فیصد لوگ صبح آنکھ کھُلتے ہی تکیۓ تلے ہاتھ پھیرتے اور اپنے اِس اہم ساتھی پر ایک نظر ڈالتے ہیں ،، کس نے کیا ، اور کیوں پیغام بھیجے ہیں ، ذرا دیکھوں ،، اور اِسی ذرا دیکھنے میں سارا دِن گزر جاتا ہے ، نظریں نہ رشتوں کی ذمہ داریوں سے نہ آدابِ اقدار سے آگاہ رہیں ،، نہ پائیدار علم کی کوشش کی خواہش رہی ۔ طبیعتوں کا ٹھہراؤ کہیں گُم ہو گیا ہے،، علوم انگلی کے پَور   پر منحصر اور منتقل ہو چکے ہیں ،،،، بس لمحاتی علم ہے ، انگلی پھری تو بھول گئے کہ ابھی ایک لمحہ پہلے کیا پڑھا تھا !! تو اگر موبائل کا " لاک ڈاؤن " ہو گیا تو سوچیں ہماری مصروفیات کیا ہوں گی ؟؟؟ تب بندہ تو " بندۂ بےحال " بن سکتا ہے !۔
( منیرہ قریشی یکم مئی 2020ء واہ کینٹ )