اتوار، 25 اپریل، 2021

" اِک پّرِخیال" ۔۔" سلطنتِ معصومیت "

" اِک پّرِ خیال"
" سلطنتِ معصومیت "
افطار کا وقت ہوا چاہتا تھا ،،، ابھی سبھی اہلِ خانہ میزبانی کی میز کے گرد نہیں پہنچے تھے ،،، دروازے کی گھنٹی بجی ،،، کیمرے سے دیکھا گیا تو کوئی مانگنے والی تھی ،،، دوسرے لمحے وہ کہیں دوسری جانب چلی گئی ، لیکن میرا یہ خیال ہے اور اصول بھی کہ عین روزے کے کھلنے کے وقت دروازے پر آۓ کو خالی نہ لوٹاؤ ۔۔ چناچہ فٹا فٹ جو چینج تھا ہاتھ میں لیۓ تیزی سے گیٹ تک گئی ،،، کہ اس دوران دونوں بیٹے جو ابھی لاؤنج میں نہیں آۓ تھے ،،، کے آنے سے پہلے اس بھکارن کو دے آؤں ، کیوں کہ " ایس ۔ او ۔ پیز ،،، کی خلاف ورزی کی کسی صورت اجازت نہیں تھی " مجھے " ،،،،،
گیٹ کھولا تو بھکارن اگلے گیٹ پر نظر آئی ،،اس کے ساتھ پانچ ، چھے سالہ بیٹی بھی تھی ، بھکارن نے مجھے دیکھ کر بچی کو اشارہ کیا ،،،، بچی میری طرف ، اٹھلاتی ، لہراتی ، رقاصانہ " انداز سے تیزی سے آئی ۔
بچی سانولے رنگ ، پرکشش نقش والی تھی، پاجامہ قمیض اور گلے میں " کراس پرس" لٹکا رکھا تھا ،، جس کی جیب پھولی ہوئی تھی ، میں نے اسے پیسے پکڑاۓ ، جو اس نے فٹ سے پرس میں ڈالے ،، اور میرے ساتھ فوراً ان ہچند مکالموں کا تبادلہ ہوا ،،،( پنجابی میں )
" کج کھانڑ واسطے وی دے" ! ( کچھ کھانے کو بھی دو )
" اچھا ٹھہرو ،،،
میں نے جلدی سے دو روٹیوں کے اوپر خشک سالن رکھا ، ایک شاپر پکڑا اور دو انڈے نظر آۓ وہ بھی ہاتھ میں لیۓ ، جلدی سے اس تک پہنچی ! جب اسے روٹی پکڑائی ، تو اس کے اگلے مکالمے شروع ہوۓ !
" شاپر تے کھول ،،، ( میں نے شاپر اسے پکڑایا کہ تم کھولو)
روٹی اور انڈے ڈالے ،،، انڈے دیکھ کر اس نے کہا ،
" تیرے کار ککڑیاں وی ہین " ،،، ( تمہارے گھر مرغیاں بھی ہیں ؟ )
میَں نے کہا نہیں ،، یہ بازار سے لیۓ ہیں ۔۔۔میں نے پوچھا ،، کہاں سے آئی ہو ؟
" اسی خالد آباد ، گجرات سوں آئی ہاں "
میَں نے کہا ،، اتنے دور سے یہاں بھیک مانگنے آ گئی ہو ، کیا گجرات والے نہیں دے رہۓ ؟؟؟
" لگتا تے اینجے ہی اے ،، گجرات والے غریب ہو گۓ انڑ ،،، تُوں مینوں اناں کولوں منگ کے وکھا ،،، سانوں تے کج نئیں ملدا " ،( لگتا تو ایسے ہی ہے کہ گجرات والے غریب ہو گۓ ہیں ،، ذرا تو ان سے مانگ کر دکھا )
مجھے اس سے یہ چند منٹ کی گفتگو بہت اچھی لگ رہی تھی ،،،اگر افطار اور ایس او پیز کا سلسلہ نہ ہوتا تو مَیں اس سے آدھ گھنٹے کا انٹرویو کر ہی لیتی ،، کہ اس کی معصوم عمر ،، قدرتی انداز سے بولے جانے والے بے ساختہ جملے ،،، اور غربت کے باوجود اس کے جسم میں بچپنے کا اِٹھلانا ،،، دیکھ کر لگ رہا تھا ،، """ وہ اپنی بے نام سلطنت کی حکمران ہے ، فی الحال ، حدودِ آپ و تُو ، کے آداب سے ماوراء تھی ،، وہ " معصومیت کی مملکت " کی مشترکہ حکمران تھی ،، جیسے بنگلوں میں رہنے والا / والی کوئی اور بچہ ،یا ، یہ بھکاری بچی ،،،،،،،،،،،،،،،
ہر وہ ماں بولی جو بچے بول رہے ہوں کچھ زیادہ ہی مزا دے جاتی ہے، اپنے بڑے بچوں سے ہم نے اردو بول چال رکھی ،، لیکن شکر کہ بڑے ہوتے ہوتے کچھ گھر میں ہر وقت پنجابی سن سن کر اور کچھ دوستوں کی محفل میں اب اُن سب کی پنجانی بہترین ہو گئی ہے ،،
چھوٹی بہن جوجی کے گھر اللہ نے لمبے وقفے کے بعد جڑواں بیٹیاں دیں ،، ان کے لیۓ جو آیا رکھی گئی اسے ہدایت ملی کہ تم نے ان کے ساتھ صرف پنجابی بولنا ہے ، " تاکہ ان کا لب و لہجہ خالص ہو سکے ۔ اور پھر ہر بندے نے ان کی " تُو " کہہ کر بولنے والی پنجابی کو اتنا انجواۓ کرنا شروع کیا ، کہ اکثر ملنے والے آتے ،، تو کہتے ،، آپ کی بیٹیاں کہاں ہیں ،، ہمارے سامنے بھی ان کو کچھ بلوائیں ۔۔ لیکن یہ فرمائش اکثر پوری نہ ہوتی کیوں کہ وہ آپس میں اتنی محو رہتیں کہ لوگوں کو دیکھ کر گھبرا جاتیں ، بلکہ اچھا خاصا رونا دھونا مچ جاتا ،، ایک دفعہ ہمیں چند دن مری نتھیا گلی رہنے کا موقع ملا ،، پہلی رات کو ہی " بجلی کی لوڈ شیڈنگ ،، سے بچیاں گھبرا گئیں ، اور رونا شروع کر دیا ،، ماں کی ڈانٹ سے ثمن تو چُپ کر کے دبک گئی ،، لیکن ایمن مسلسل پریشان رہی ،،، اس وقت یہ ڈھائی سال کی تھیں ،، اور ابھی فیڈر چل رہے تھے ،،، ایمن کو لے کر میں لاؤنج میں آگئی ،، اور کھڑکیوں کے پردے ہٹانے سے کچھ روشنی آئی تو بچی مطمئن ہو گئی ۔۔ اب اس نے سوچا ہو گا کہیں خالہ مجھے سونے کا نہ کہہ دے اس لیۓ اس نے چالاکی سے کہا ،،،،،
ایمن : ۔۔"' ما پُکھ لگی اے " ،،، ( مجھے بھوک لگی ہۓ )
مَیں : کے کھاسیں " ؟ ( کیا کھاؤ گی )
ایمن : انڈا تل دے !"
( میَں نے انڈا تلا ، ایک ٹوسٹ گرم کیا اور لاؤنج میں لا کر اسے کھلانا شروع کیا ،،، اب اس نے سوچا ہو گا کہ یہ کِھلا کر پھر سونے کا نہ کہہ دے ،، آخری نوالے کے ساتھ ہی اس نے کہا ،،،،
ایمن : ہنڑ ما چاء بنڑا دے " ( اب مجھے چاۓبنا کر دو )
میَں سمجھ گئی ، یہ مجھے مصروف رکھنا چاہتی ہے ،، تو مَیِں نے معصومیت سے کہا ،،
" ما تے چا ء بنانی نئیں آنی ،،، ( مجھے چاۓ بنانا نہیں آتی )
ایمن : " ایتنی وَڈی ہو گئی ایں ، تے تداں چاء نئیں بڑانی نئیں آنی " ( اتنی بڑی ہو گئی ہو اور چاۓ نہیں بنانی آتی ) ،،،
اب میرے قہقہۓ اندر ہی اندر گونج رہے تھے ،،، لیکن ایک ڈھائی سال کی وہ بچی جو بغل میں اپنی فیڈر دباۓ کھڑی تھی ، اور معصومیت کی انتہا پر تھی کہ جو مجھے طنز کر رہی تھی ۔ کہ تمہیں چاۓ بھی نہیں بنانی آتی ۔
،،، اور ایک مدت بعد ،،،، یہ بھکاری بچی آج معصومیت کی سلطنت کی شہزادی بنی جب مجھ سے مکالمے بول رہی تھی ،، تو مجھے معصومیت کے بہت سے اور مکالمے یاد آنے لگے ،،، مثلاً میرا ، بڑا بیٹا علی چھوٹا تھا تب وہ چار سال کا تھا ،، کار کے سفر کے دوران ، دوسرے بھائی نے باہر تھوکا ،،، اور وہ تھوک کے چند قطرے پلٹ کر علی پر پڑ گئے ۔ تو علی نے فوراً کہا " اماں ! اس نے مجھ پر ف فوارہ پھینکا ہے ! ،،،،
بعد میں ایک دفعہ ٹیپ ریکاڈر لیا ،، تو میرے تینوں بچے ہر روز مائک لے کر ایک دوسرے کے انٹرویو لیتے تھے ۔ ایک دن یہ انٹرویو سننے میں آیا " دس سالہ علی اپنے پانچ سالہ بھائی ہاشم سے انٹرویو لیتے ہوۓ ،،،
علی : آپ کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے ؟
ہاشم : ( بہت سوچ کر) ،، " میری خواہش ہے کہ میَں کالی چاۓ پیؤں "
( اپنی تین سالہ بہن نشل سے )
علی : آپ کی سب سے یادہ پسندیدہ خواہش کیا ہے ،، ؟ ( جسے لفظ خواہش کا مطلب بھی نہیں پتہ تھا )
نشل : میں چاہتی ہوں ، کہ روز امرُود کھاؤں ،"
،،، اب چھوٹے بھائی کی انٹرویو لینے کی باری آئی تو اس نے بڑے بھائی سے پوچھا
ہاشم ؛ آپ کی سب سے ذیادہ بڑی خواہش کیا ہے ؟
علی: یہ کہ اماں ، ابو مجھے دو کتے پالنے کی اجازت دے دیں ! ( ایک کی بھی اجازت نہیں تھی کجا دو ، دو )
" اور مجھے پتہ ہے اچار کو اچار اس لیۓ کہتے ہیں کہ یہ چار دن میں تیار ہو جاتا یے ، یہ تم لوگوں کو نہیں پتہ " ،،،( معلومات کا رعب ڈالا گیا )
یہ خوبصورت معصوم دور گزرا ،، اور انہی کے بچوں کی باری آئی ، پھر اس اگلی پیڑھی کی نہایت خوبصورت ، معصوم اور خوش کن باتوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع اللہ رب العالمین نے دیا ،،، الحمدُ للہ !!
اور ،،،،، آج اس بھکای بچی نے مجھے احساس دلایا ،،، کہ " سلطنتِ معصومیت " ہر بچے کی ملکیت ہے ،،، معصومیت میں کتنا قدرتی پن ہے " ،، ہر چیز خالص ،، ہر حرکت دھلی دھلائی ،،، بس کچھ عرصہ ہی یہ مملکت معصوم ،،، جب دنیا کے اونچے دروازے میں داخل ہوتے ہیں تو قدرت کی یہ خالص الخاص تخلیق بڑوں کے ہاتھوں میں پہنچ کر ،، خود غرض ، منہ پھٹ ، لالچی ، اور منافقت کے وہ رنگا رنگ شربت پیتی ہے ،،، کہ اس کا اپنا معصوم کومل رنگ کہیں کھو جاتا ہے ،،، یا گم کر دیا جاتا ہے !

( منیرہ قریشی 25 اپریل 2021ء واہ کینٹ ) 

جمعرات، 8 اپریل، 2021

"اک پرِّخیال " ۔۔ "بہاریہ پیغامات "

" اک پرِّ خیال "
' بہاریہ پیغامات '
دسمبر 2019ء سے 2021ء آن پہنچا ہے اور کوویڈ 19 ، یا کورونا 19 کے نام سے پوری دنیا میں ناموری حاصل کرنے والی وباء نے ،،، انسانوں پر اپنے پنجے گاڑے ہوۓ ہیں ۔۔۔۔ انسان کے اشرف المخلوق ہونے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے اس وبا کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے ،،،، لمحہ بہ لمحہ ،،، دن بہ دن ،،، اور تسلسل سے اپنی زندگی میں تیزی سے وہ تبدیلیاں لاتا چلا گیا کہ جس سے " زندگی مفلوج ہونے سے بچی رہے ،، جلدی جلدی اس کے سدِ باب ،، جاننے کی کوششیں کی گئیں ،، اس کی کوئی دوا نہیں ،، بس احتیاط ہاں البتہ، سب سے پہلے نمبر پر کوشش کر کے ویکسین بھی ایجاد کر لی گئی ۔۔۔۔۔اور اب ،،،، جائزہ لیا گیا کہ انسانوں کے بیرونی اور اندرونی " مزاج " کس حد تک متاثر ہوۓ ہیں ۔۔۔۔ اب سائیکالوجسٹ ،،، اور روحانی معالج ،،، اور ڈیپریشن کے ڈاکٹرز ،،، اپنے اپنے میدانوں میں تحقیق کر کے علاج ، تجویز کر رہۓ ہیں ،،،، رہن سہن کو آسان بناۓ جا رہۓ ہیں ۔
اور اب مارچ ،اپریل 2021ء ہے ،،،، سڑکوں ، باغوں ، ویرانوں ، بیابانوں ، اور صحراؤں میں بہار کسی نا کسی رنگ میں آ موجود ہوئی ہے ۔۔۔ یہ چھوٹا سا دورانیہ ہے لیکن ،،، " کُوڑے کے ڈھیروں " پر بھی کہیں پھولوں کے رنگوں کی جھلک نظر آ جاتی ہے ،،، تو جہاں انسانی کوشش ہوں ،، اور وہاں پھولوں کی نمو کے لیۓ تردد کیا گیا ہو ،،، وہاں تو پھر۔۔۔
" بہار پُر بہار ہے ،،،، ترنمِ ہزار ہے ،،،، یا پھر میر تقی میرّ کا یہ شعر ،
؎ چلتے ہو تو چمن کو چلیۓ ، کہتے ہیں کہ بہاراں ہے ،
پھول کھلے ہیں، پات ہرے ہیںکم کم باد و باراں ہے
کون سے وباء ،،، کون سی پابندیاں ،،،، بہار کہیں دروازے کھٹکھٹا کر آ رہی ہے ،، ( گلدستے بھیجے جا رہۓ ہیں )۔۔۔ کہیں واٹس ایپ کے ذریعے اپنے لان کے ہر رنگ کو دوسروں کی آنکھوں کی طراوت کے لیۓ بھیجا جا رہا ہے ،،،،، اور کہیں بہار کو ترنگ و آہنگ کی صورت شیئر کیا جا رہا ہے ۔
آہ اے انسان ! تو واقعی اشرف المخلوق ہے ،، کہ موت کے رقص میں بھی مسکراہٹ کے مواقع ڈھونڈ لیتا ہے ،،، اور کائنات بھی اس موسمِ رنگ و بُو ، میں کسی بخیلی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ،،،جیسے کہہ رہی ہو امیدِ بہار رکھ ، امیدِ بہار رکھ !!!
امجد اسلام امجد کا بھی شکریہ ،، جنھوں نے کہا تو ہے !
" خوشبو کی پوشاک پہن کر
کون گلی میں آیا ہے ،
کیسا یہ پیغام رساں ہے
کیا کیا خبریں لایا ہے
کھڑکی کھول کر دیکھو باہر
موسم میرے دل کی باتیں
تم سے کہنے آیا ہے ،،،،،،

( منیرہ قریشی 9 اپریل 2021ء واہ کینٹ ) 

پیر، 5 اپریل، 2021

" اک پّرِ خیال " ' شاید ،،،،،'

" اک پّرِ خیال "
' شاید ،،،،،'
دو جنگِ عظیموں کے بعد دنیا نے اپنے زخمی اور بریدہ جسم کو سمیٹنا شروع کیا ،،، اسی سلسلے میں تمام ممالک کی متحدہ یونین یا کونسل بنی ،،، تاکہ تمام مخالفین باہمی گفت و شنید کے بعد اپنے مسائل ، اور گلے شکوے ایک چھت تلے اکٹھے ہو کر ، بیٹھ کر حل کر لیں ،،،، لیکن اس دوران یہاں بھی بالکل وہی ماحول نظر آنے لگا ،،، جیسے ایک گاؤں میں نظر آتا ہے کہ ،،،
ہر گاؤں میں ایک چودھری ہوتا ہے ، اور کبھی کبھی زیادہ چودھری بھی ہوتے ہیں جو اپنے مفادات پر آپس میں مل جاتے اور باقی گاؤں کے لوگوں کو ڈرا کر یا مرضی کے قوانین بنا کر اسی کے تحت " راج " کرتے ہیں ۔ ،، اور چین کی بانسری بجاتے ہیں ،،، جبکہ باقی کمزور نسل کے دلوں میں ان سے نفرت اور انتقام کا لاوا پکتا رہتا ہے ۔۔۔ لیکن کچھ نہیں کر سکتے .
پہلی اور دوسری ،، جنگ پوری دنیا نے سہہ لی ۔ اور دونوں ہی چار ، چار سال چلیں ،،،، اور دونوں جنگوں کے درمیان چار ہی سال کا وقفہ رہا ۔۔ متحدہ اقوام کی آرگنائزیشن نے دوسری بڑی جنگ کے بعد 72/73 سال خیریت سے گزروا ہی دیۓ ( کسی نا کسی طرح ) لیکن ان عظیم جنگوں میں جس طرح گاجر مولی کی طرح لوگ ، ہلاک کیۓ گۓ ،،،اور رہی سہی کسر تقسیم ہو تے ملکوں سے پوری ہو گئی ۔ ،،، تو اگر ابنِ آدم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر دو چار ، یا چھے صدیوں بعد ایک ایسا بڑا واقعہ آتا ہے ،، جو انسان اور انسانیت کو ہلا کر رکھ دیتا ہے ،،، چاہے وہ جنگیں ہوں ، زلزلے ہوں ، سیلاب ،،، یا پھر ،،، وبائیں ،،، اور تیسری جنگِ عظیم کی تیاری کے شعلے کبھی بجھاۓ اور کبھی جلاۓ جا رہے تھے ،،، ہر ملک اپنے کم یا زیادہ وسائل کے اندر آنے والی تباہیوں کے لیے تیار تھا ۔ ،،،، کہ سارا کرۂ ارض ،،، ایک ایسی لپیٹ میں آ گیا ،،، کہ ،،، اب ہائیڈروجن ، یا، ایٹم بم ،،، نیپام بم یا کروز میزائل ،،، سبھی ذخیرے ،،تالوں میں چلے گۓ ہیں ۔ اور ساری دنیا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
چند ویکسین کے قطروں ،،، پانچ انچ کے ماسک کے ٹکڑے ،،، اور ،،، ڈیپریشن کے خوف کے دائروں میں محدود کر دی گئی ،،، کسی بم کی ضرورت نہیں ،، کسی سر زمین پر قبضے کی ضرورت نہیں ،،، کہ قبضہ ہو بھی گیا ، تو حکومت کون کرے گا اور کس پر ؟؟؟؟؟ شاید انسانوں کو انسانیت کا سبق یاد دلانے کے لیۓ قدرت نے اپنے انتظام کو حکم صادر فرما دیا ہے ،،،ہم اپنے اصل اور ،،، اس کے پیغام کو نظر انداز کر رہے تھے ،،،، شاید !!!
( کورونا 19 کے تناظر میں ایک سوچ )

(منیرہ قریشی ، 6 اپریل 2021ء واہ کینٹ )