جمعہ، 21 دسمبر، 2018

"اِک پَرِخیال(24)۔

" اِک پَرِخیال"
' پرچہ ۔ پرچی' (24)۔
ایک پرچہ تو وہ ہواجو کسی میگزین یا سہ ماہی یا پندرہ روزہ رسالے کے چھپنے پر کہا جاتا ہے ۔ کہ " پرچہ " چھپ گیا ہے ، یا پرچہ نکالا جاۓ گا۔
ایک "پرچہ"وہ ہوتا ہے جو ایک طالب علم کمرہء امتحان میں لکھتا ہے ۔اور پھر کچھ وقفے کے بعد پرچے کے لکھے کا نتیجہ موصول کرتا ہے ۔
طالب علم کی محنت کے مطابق کبھی نتیجہ اچھا اور کبھی ایک دو مضامین میں سپلیز کی صورت میں آتا ہے ۔ ایسی صورت میں حتمی نتیجہ بہت دیر سے آتا ہے یا مسلسل ناکامی سے بد دل ہو کر طالب علم کسی اور میدان میں قسمت آزمائی کے لیۓ جا چکا ہوتا ہے ۔لیکن زندگی میں وہ اس پرچے اور نتیجے کے دنوں کو کبھی نہیں بھلا پاتا ۔ 
ایک " پرچہ" وہ ہوتا ہے جو کسی مجرم کے جُرم پر کٹتا ہے ،، یا جُرم سے متاثرہ شخص " پرچہ " کٹواتا ہے ۔ اور یوں سلسلہء سوال جواب شروع ہوتے ہیں ،، وکلاء پیشیاں بھگتتے ،، بھگواتے ہیں اور پھر ایک دن تمام حقائق کو سامنے رکھ کر نتیجہ سنایا جاتا ہے ،،، کئی مرتبہ یہ فیصلہ مجرم کو چُھوٹ کا یا نرمی کا ہوا تو مجرم کی مسکراہٹ چہرے سے نہیں جاتی ۔ اور کبھی کبھی جُرم کی نوعیت ایسی پیچیدہ ہوتی ہے کہ تحقیقی دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور ، ، فیصلے کا نتیجہ مزید غوروغوض کے لیۓ کچھ عرصہ کے لیۓ محفوظ کر لیا جاتا ہے ۔ مجرم یا ملزم اس دوران گومگو کی کیفیت میں رہتا ہے ۔ ،،،،،،،، بہ عینہ ایسے ہی پرچے ہمارے ہاتھوں ، اپنے ایمان کی کمزوری  سے ، اپنی حماقتوں ، اپنی جلد بازی سے، اپنی گھٹیا حرکتوں سے ،،، ترتیب پاتے ہیں ۔ اور پھر سال ہا سال کے چھوٹے ، چھوٹے ٹسٹ مارجن پر پاس ہونے کے نمبر تو ملتے جاتے ہیں ،،، اور ہم بےخبر ، بےنیاز ہو جاتے ہیں کیوں کہ ہم اپنے جرائم کو جرم سمجھنے سے انکاری ہوتے ہیں ،،، اور یوں حتمی نتیجے سے غافل ہو جاتے ہیں ۔ ،،،، تب ڈھیل کی رسی ختم ہوتے ہی ، قدرت کے نا دیدہ ہاتھوں سے ایف آئی آر کا " پرچہ " کٹ جاتا ہے !!سال ہا سال جو مہلت ملتی رہی تھی اور فیصلہ محفوظ کر لیا جاتا ہے تو اس کی وجہ " سفارش کی چھوٹی چھوٹی پرچیاں " ہوتی ہیں ، جن پر لکھا ہوتا ہے ،،، سجدے ۔ خیرات ۔ درود ،،یا کوئی دعا ، یا کوئی نیکی،،، اور یوں یہ پرچیاں آڑے آتی چلی جاتی ہیں ۔ لیکن جب ایک دن اٹوٹ رشتے تسلسل سے ذلت کا کورس شروع کرتے ہیں۔جب الفاظ کے گُرز جوڑ ، توڑ اور پھوڑ کا عمل شروع کر دیتے ہیں ۔ جب "مال منال " کے دلدلی میدان سے گزرنا از بس ضروری ہوتا ہے ۔ جسم بیماروں کی لیب بن جاتا ہے ، کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا ، لفظوں کےمرہم ، ہٹا دیۓ جاتے ہیں ۔ 
چہرے پر بہت حیرانی اور سوالیہ نشان کا تائثر جیسے چھَپ سا گیا ہے ۔ "" میں نے تو کوئی جرم نہیں کیا ، کوئ گناہ نہیں کیا " "تو پھر یہ سب کیا ؟؟؟ یہ سب کیا ، کیوں کیوں !!تب ایک دن " ذہن میں ایک چمکارا سا چمک اُٹھتا ہے " یہ روز کی بنیاد پر سزاؤں کا ہونا ،،، یہ روز کی ایف آئی آر پرچے کا کٹنا ،،،،،فطرت کی طرف سے نئے انداز کی سزائیں ہوتے چلے جانا !!! ۔ روز کا نیا درد ، روز سہنا ، ؟؟؟ ۔ 
آہ ،، آج پردہ ہٹ گیا ہے ، یہ اور یہ ،،، اور "وہ "بھی غلطیاں کی تھیں ، بلکہ دلوں پر گھاؤ لگایا تھا ، ہاں فطرت کے خلاف ، اپنی مرضی سے جینے کی کوشش کی تھی ،، اور خود کو حسد ، لالچ ، گھٹیا چالوں کے حوالے کیا تھا تو اب کیا کروں ، کہ ان دنیاوی سزاؤں میں پھر " پرچیاں " آڑے آجائیں ۔
یہ ہی وقت ہے جب حکیم کی کتابِ حکمت کھولی جاۓ اور پڑھتے جائیں ،، پڑھتے جائیں ۔۔اور جہاں ،، کسی آیت پر دل بھر آۓ ، آنکھیں چہرہ اور صفحہ دھو ڈالیں ۔ تو یہ ہی " اسمِ اعظم " ہے جسے اِس خاکی کی بہتری کے لیۓ عطا ہو گیا ،،،، ،،،،،
تو اب صرِف ایک اَن دیکھی چادر آنسوؤں کی بچھا لی جاۓ ، اور اس میں صبر ، تحمل ، برداشت ، شُکر ، اور مسلسل شگرگزاری کے سجدوں کو ، ڈالتے جائیں ، اور یوں شاید یہ ندامت کے آنسوؤں سے بھاری گھٹڑ ،، قابلِ قبول ہو جاۓ ،، اور شاید ایف آئی آر کا اگلا " حتمی پرچہ " نہ کٹے ! اور گٹھڑ کی " سفارشی پرچیاں " کام آجائیں ۔
( منیرہ قریشی 21 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )

منگل، 18 دسمبر، 2018

" اِک پَرِ خیال (23)۔"

" اِ ک پَرِ خیال "
' غرض یا صِلہ ' ( 23)۔
" غرض ""کا لفظ کتنا گھمبیر ، کتنا وسیع ، اور کتنا تال میل لیۓ ہوۓ ہے کہ ، سمجھنا چاہیں تو سمجھ سے بالاتر لگے ۔۔ نہ سمجھنا چاہیں تو بالکل ایسا ہی تائثر ملے جیسے ایک پتھر کیچڑ میں پھینکا ، اور دھب کی آواز سے وہ جیاں پھینکا ، وہیں گِرا ،،، نہ کوئی دائرے ، نہ کوئی ہلچل ، نہ کوئی تبدیلی !!بس ٹھُس ایک ہی جگہ جا پڑا ۔ یہ اور بات کہ کچھ چھینٹے ادھر اُدھر گرے ، کچھ پھینکنے والے کے اُوپر گرتے ہیں ،،، اور کہانی یا تو ختم یا چلتی چلی جاتی ہے ۔ تو گویا " غرض " کا جذبہ ایک پتھر ہوا ۔ کہ لِنک بنا تَو ٹھیک ، ورنہ نہ سہی ۔
"غرض" کا لفظ ایک احساس لیۓ ہوتا ہے ،،، بعض جگہ یہ احساس شدت سے بلکہ شدید ترین " حدت " سے سامنے آتا ہے اور بعض جگہ صرف کیچڑ کے پتھر کی طرح ٹھُس ۔ یہاں دو انتہائیں بھی ہیں اور درمیان کی پگڈنڈیاں بھی نظر آتی ہیں ۔
"غرض "،،، یہ بھی ہے کہ " مجھے ایک ذی ہوش ( باشعور نہیں ) انسان بنایا گیا ،تو مجھ سے جُڑے رشتے خوش رہیں ،، میَں بھی خوش ہوں ، ، ، مجھ سے جُڑے لوگ میرا خیال رکھ رہے ہیں ،،، میَں بھی رکھ رہا / رہی ہوں ، حساب برابر چل رہا ہے ،، سب کچھ خوشی خوشی ،، سب کچھ گُڈی گُڈ !!!" غرض " یہ بھی ہے کہ مجھے تو خدمت کرنی ہے ،، صِلہ اس دنیا میں نہ سہی اگلی دنیا میں تو ضرور ملے گا ۔
" غرض" یہ بھی ہے کہ میَں نے یہ اور یہ نیکی کی عادت اس لیۓ ڈالی کہ مجھے دنیا میں اپنی اولاد سے بھلائی ملے گی ،،، اور یہ سلسلہ چلے گا اور قرن ہا قرن چلتا جاۓ گا ۔
" غرض"۔۔۔ یہ بھی ہے کہ میَں آج بانٹوں ،،، تو کل مجھے ملے گا بھی ( احساسِ یقیں ) " غرض "۔۔۔ یہ بھی ہے کہ میَں نے خالق کی عبادت کی ، تو مجھے بھی توجہ ملے گی ،،، وہ میری سُنے گا ،، مجھے عطاکرے گا ، بے پایاں ،،، بے پایاں ۔
روحانی درجہ ،، سکون ، شانتی !!!" غرض "۔۔ دعاؤں میں تو ہے ہی " میَں نے تجھے یاد کیا ، تاکہ ۔۔ تُو مجھے یاد رکھے۔(یہ خالق کا اپنی تخلیق سے وعدہ ہے )" غرض " ۔۔۔ میں محبت کا وہ عروج نظر آتا ہے ،، جب چُنیدہ لوگوں سے ہٹ کر " انا الحق " کے نعروں سے 'منصور ' جیسے نفس ، مثال بن جاتے ہیں ،،، اور عجیب بات کہ یہ "'جذبہء غرض " متنازع بھی بنا دیا جاتا ہے ،، ہم انسان اُس رب سے محبت کو بس اپنے ہی پیمانے سے ناپ کر خوش ہوتے ہیں ،، اور بھول جاتے ہیں ،،کہ خالق کو اپنی تخلیق سے صرف "بےغرض ہی نہیں غرض مند "" ہر دو محبتیں درکار ہیں !کہ اُس خالق نے اپنے ساتھ رابطے کے لیۓ ،، " غرض مند ی " والی حاضری کو بھی قبولیت دی ہوئی ہے۔
تو گویا " غرض یا صلہ " محبت کا ایک رُوپ ہے ،، تعلق کا ایک رُوپ ہے۔ کر ڈالیۓ یہ محبت، کہ اسی میں قُربِ خالق چُھپا ہے ۔ جس کے پاس جانا ہی جانا ہے ۔ ربِ شرح لی،،،،،،الم نشرح ،، الم نشرح !!!۔
( منیرہ قریشی 18 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )

اتوار، 16 دسمبر، 2018

" اِک پَرِخیال (نوحہ 16 دسمبر 2014)۔

" اِک پَرِخیال "
' نوحہ' ("16 دسمبر 2014ء آرمی پبلک سکول کے شہدا پر ")۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب سے یہ دنیا لوگوں سےآباد ہوئی ،، ہر خطے کے لوگوں نے خود کے تحفظ کے لیۓ ، دوسرے خطے کے لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا ۔ کہ شاید وہ ہم پر حاوی نہ ہو جائیں ۔ اور یہ ہی شک کا بیج جو شیطان نے ڈالا کہ " یہ تم پر قبضہ کر لیں گے ، تم پہل کر لو ،،، ورنہ " !! اور یہ " ورنہ " اور" شک " کا غلیظ کیچڑ، نسلِ انسانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیۓ اندوہناک سانحوں میں لتھیڑتا رہا ۔ کبھی بخت نصر کی حملہ آوری ، کبھی چنگیز خان کی ہوسِ خون ریزی ، کبھی پہلی اور کبھی دوسری جنگِ عظیم ، کبھی ایٹم بم کی دلخراش تباہی کی صورت میں ، کبھی دس سال اور کبھی تیس سالہ لمبی جنگوں کی صورت میں ،، انسان ، انسان نہیں ،،، درندہ بنتا چلا گیا ۔
لیکن اِن سب جنگوں اور خون ریزیوں میں مرنے والوں کے لیۓ " جاں بحق یا ہلاک " کے لفظ استعمال ہوتے رہے ۔ یہ اور بات کہ اپنے ہموطنوں اور ہم مذہبوں کے لیۓ ہر ایک فریق نے بہ زعمِ خود " شہید" کا لقب اختیار کیا ۔ شاید یہ اپنے ضمیر کے سکون کے لیۓ تھا ۔ حالانکہ تاریخ کی کتب میں ایسے بےنام لوگوں کے لیۓ ، جو لڑتے ہوۓ مارے گۓ یا ، محض لپیٹ میں آگۓ ،، لکھاگیا " اتنے اور اتنے لوگ اس لڑائ میں کھیت رہۓ " ۔
اور انسان پچھلے دو سو سال کے اندر، نئی ٹیکنالوجی ، کے تحت تیزی سے نئے طرزِ زندگی میں داخل ہوا ،،، لیکن چاند تاروں پر کمند کے باوجود ، کتابوں کی لمبی اونچی دیواروں کے باوجود ، آسانیوں اور اللہ کے آخری پیغام کے باوجود ،،،، خود کو شیطانی وساوس، لالچ ، اور ذلالت سے نہ بچا پایا ،، اِس آخری پیغام کا مخاطب " انسان اور صرف انسان " ہے ، اور پیغام ہے "صبر" ،،،،،،،،،!صبر ،، دوسرے سے اختلاف پر ، صبر دوسرے کی ذیادتی پر ،، صبر دوسرے کی ترقی پر ،، صبر دوسرے سے انتقام پر !!!! بھلے گھر کی سطح پر صبر ہے ، یا قومی لیول پر ۔۔۔ بھلے مذہبی سطح پر صبر کرنا ہے ، یا سیاسی سطح پر ،،، اسی میں سب کی بھلائ ہے ، اسی میں امن پوشیدہ ہے جو انسانی فطرت کا جزو ہے ،لیکن ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،جب بھی بہت معصوم بچوں ،،،یا ،،، نو خیز بچوں ، جو نوجوانی کی آمد کے پہلے جھونکوں کو محسوس کر رہے لا اُبالی عمر کے درویش ہوں ، یا ، اُن فرشتے مانند صاف دلوں کو جنھوں نے ابھی ، خواب دیکھنے ہی شروع کیا تھے ،،، اِن سب کو اچانک کچل ، مَسل ، کر رکھ دیا جاۓ تو " اُن کی خوبصورت آنکھوں میں حیرت اور خوف تصویر بن کر رہ گیا ہو گا " ،،، یہ تصویر ہی لیۓ وہ اپنے استقبال کے لیۓ آۓ فرستادوں کے ساتھ جلدی جلدی نئ دنیا میں منتقل کیۓ جاتے رہۓ ہوں گے ۔ آہ ،،،،، 16 دسمبر 2014ء کا دن ،، 150 شہداء نے اپنے فرستادوں سے یہ بھی نہ پوچھا ہو گا ،،، یہ ابھی ابھی ہمیں کیا ہوا کہ یونیفارم پہنے پہنے نئی جگہ آ گۓ ۔ جبکہ ہمیں ماؤں نے گھر آتے ہی یونیفارم بدلانے کی ہدایت کر رکھی ہے ،، ہمارے توسکول بیگز ، بھی ہمارے ہاتھوں میں نہیں ،،، یہ ہم خالی ہاتھ کہاں آگۓ ؟؟؟ کیا ہم اتنے بہت سے کلاس فیلو اب کسی اور سکول میں داخل ہوں گے ،، کیا ہم اپنی امی ، ابو ، باجی بھائ کو ملنے جا سکیں گے ،،،،،؟؟ اس " کیا کیا " کی تکرار نے فرشتوں کی آنکھیں بھی نم کر دی ہوں گی ،، اُس دن آسمانوں کی جنت کو فرشتوں اور حوروں نے ایمرجنسی میں " سجایا " ہو گا ،،، بےپایاں دلچسپی کے سامان کا بندوبست ہوا ہو گا ،، ٹیچرز نے بھی فرشتوں کو بتایا ہو گا ،،" اِس بچے کی یہ پسندیدہ چیز ہے ،، اُس کی یہ " !! آہ ،،،مگر اُن پیارے ، کومل خون آلود ہونٹوں پر مسکراہٹیں ذرا دیر سے ہی آئیں ہوں گی ۔ کہ ابھی تو اُن کے کان گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے سُن ہوۓ ہوں گے ،،،، ایسے بےبس ، بلا ہتھیار ، نوعمر سے انتقام ؟؟؟؟
آہ پیارے فرشتو ،، جنت تمہارے لیۓ ،،، "تم سے سجائی جانی تھی" ، ، کہ لوحِ محفوظ کا ایک صفحہ یہ بھی تھا ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔( 16 دسمبر 2014ء کے دلخراش سانحہ کے دوسرے دن لکھی گئی نظم جو خود ہی پڑھتی اور خوب روتی ہوں ، کہ یہ ہی محبت کے آنسو ہیں جو دراصل اُن خاندانوں سے اظہارِ ہمدردی ہے ، اُن کے لیۓ " صبر " کیدعا ؤں کے ساتھ )۔
" یہ دیکھا کہ سبز پوشاک پہنے ہوۓ
سرخوشی و سرمستی سے جھومتے ہوۓ
چلے آ رہۓ ہیں قطار میں تنظیم سے
یہ دیکھا کہ فرشتوں کے پُروں کی چھاؤں ہے پھیلی
حیران ہے آج ، مخلوقِ آسمان ساری
یہ کون ہیں کہ جن کے سَروں سے ہے خون جاری
مگر مسکراہٹوں سے ہیں ، چہرے نورانی
اور حُوریں ہیں سراپا استقبال ساری !!
آہ ،، مگر کروڑوں آنکھوں کے بہتے آنسو
کم سِن شہیدوں کو ہو رہی ہے پریشانی ! !
ہاں ، مگر تسلی دے رہی ہیں استانیاں ساری
اب ہم جنت کے نۓ سکول میں خوش ہیں
اور جنت کے نۓ ساتھیوں میں خوش ہیں
بچو ! اب پریشاں ہونے کی دشمن کی باری
دیکھو تو ،،،کیا شاندار ، ہیں نظارے
نبیؐ جیﷺ کی صحبتِ خاص میں ہیں ہم سارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھیں رواں ہیں اتنی ، کہ دامن بھیگ چلا ہے
دل غم ذدہ ہے اتنا ، کہ سوچیں رُک سی گئ ہیں
ابھی تو ہونٹوں نے تمہاری پیشانیوں کو چُومنا تھا
ابھی تو تمہارے بدن کے سُوراخوں کو رفُو کرناتھا !
ابھی تو تمہارے دشمن کے ضبط کو توڑنا ہے
اور ماؤں کی آہوں نے عرش تک پہنچنا ہے
مگر ،،،، تم سب
اِک دوجے کی باہنیں تھام کر
اپنوں کو صبر کی بَھٹی تھما کر
عجب سَرخوشی سے نئی دنیا میں جا بسے
یہ کیسی شہادتیں ہیں ،،،،
کہ قاتل بھی حالتِ رشک میں ہیں !۔
(منیرہ قریشی 16 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )

پیر، 10 دسمبر، 2018

"اِک پرِخیال(22)"۔

" اِک پرِخیال "
' میلہ' ( 22)۔
جب ہم کسی جھیل میں پتھر پھینکتے ہیں ، تو دائرے بنتے چلے جاتے ہیں ۔ اندر یعنی پتھر کی جگہ سے دائرے بننا شروع ہوتے ہیں اور پھر یہ دائرے پھیلتے پھیلتے آخری دائرے تک معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ دیکھا جاۓ تو " زندگی " کے لفظ میں یہ دائرے ہی چُھپے ہوۓ ہیں ۔ بچہ دنیا میں آیا ،،، اور اس سے جُڑے دائرے بنتے چلے گۓ ، آخری دائرہ آیا اور بچہ ،،، جو، اب بوڑھے وجود میں ڈھل چکا ہوتا ہے ، اسی معدوم ہوتے دائرے کا آخری چکر مکمل کر لیتا ہے ۔
اگر ہم کسی میلے میں جائیں ، تو رنگوں روشنیوں ، اور آوازاوں کا ایک طوفان رقص کناں ہوتا ہے ۔ ہر ذی نفس ، اپنی اپنی دلچسیوں کو تاکتا ، جھانکتا ، آنکتا آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے ،، تاکہ اُس جگہ تک پہنچے ، جہاں اس کی اصل دلچسپی ہو۔اپنی پسندیدہ جگہ پر میلے میں آیا انسان ،، ذیادہ دیر تک رُکتا ہے ، تاکہ اپنے آپ کو سیراب کر لے ،،، کیا پتہ پھر یہ میلہ ، یہ گہما گہمی ہو ، نا ہو ۔
اگر ہم میلے کے کسی نیم اندھیرے کونے میں خود کو محفوظ کر لیں ،، تو ہم حیران کن انداز سے خود کو محظوظ ہوتے محسوس کریں گے ،، بالکل ایسے ہی جیسے ہم نے سلمانی ٹوپی پہن لی اور ہم تو سب کو دیکھ سکتے ہوں ، لیکن کوئ ہمیں نہ دیکھ پاۓ ۔ میلے کے داخلی دروازے کے پاس کھڑے ہوں ،، اور پھر بتدریج چہرے کے تاثرات ، دیکھتے جائیں ،، ۔
میلے میں داخل ہونے والا چہرہ ،،، تجسُس ، اور پُرجوش جذبوں سے لبریز ہو گا ۔ میلے کا ہر کونا اسے اپنی طرف کھینچتا ، بُلاتا جاتا ہے ۔ وہ کبھی دائیں کبھی بائیں ،، کبھی پیچھے کبھی آگے قدم بڑھاتا چلا جاتا ہے ، یوں جیسے وہ رقص میں ہو ،،،، آگے بڑھنے کے لیۓ بندہ خود کو ذبردستی آمادہ کرتا ہے ،، ورنہ جوش اتنا بھرا ہوا ہے کہ یا تو ایک لمحہ رکنے کادل نہیں چاہ رہا یا،،،ایک ہی جگہ رُک کر سارا دورانیہ گزارنے کو دل چاہ رہا ہے۔
لیکن بہ مشکل تجسُس کا جذبہ حاوی کرتے ہوۓ ،، آگے کی دلچسپیوں کی طرف متوجہ ہونا بھی انسانی فطرت ہے ۔ اور جب یہ پُرجوش نفس آگے بڑھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے ،، آگے تو بہت کچھ نیا ہے ،، لیکن، رات کی چکا چوند روشنیوں ، آوازوں کے زیر وبم ، اور ، رنگوں کی بہتات نے اب بندے کو تھکانا شروع کر دیا ہے ۔ آپ نے نیم اندھیرے کونے سے دیکھا کہ " میلے کے دائرے میں لگے تمام سٹال اُس نے دیکھ ڈالے ، بہت کچھ خریدا بھی ، بہت کچھ دیکھا بھی ، بہت سے لوگوں سے ملا اور باتیں کیں ۔
لیکن اب واپسی کا وقت ہے ،، کہ روشنیاں معدوم ہو چلی ہیں ،، لوگ بھی کم ہوگۓ ہیں ،، آوازیں بھی مدھم ہو چکی ہیں ،، تو گویا اب واپسی " ضروری ہے " ۔ بندے کا چہرہ تھکاوٹ سے چُور چُور ہے ۔ اس کے قدم اب تھرک نہیں رہے ،، بہ مشکل اپنے بوجھ کو اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے سامان کے بوجھ کو اُٹھا پا رہا ہے ،، ،،،، میلے کے اندر آنے والا پُر شوق ، پُر جوش ، پُر تجسُس چہرہ ،، چند گھنٹے گزار کر واپس اتنے تھکےماندے انداز سے جا رہا ہوتا ہے ،جیسے یہ سارا میلہ اُسی نے ارینج کیا تھا ، یہاں کے تمام کردار ، اسی نے ٹرینڈ کیۓ تھے ،،، اور اب واپسی پر علم ہوا کہ " میَں نہ بھی ہوتا تو ، میری جگہ کوئی اوَر ہو جاتا ۔ میَں خواہ مخواہ صرف پھِر پھِر کر ہی تکان سے چُور ہو چلا ،،، اور اب " ہر چیز بےمعنی سی لگ رہی ہے " ،،،،،،، " اور یوں جھیل پر پھینکے گئے پتھر سے بننے والے آخری دائرے کی طرح "معدومی کیفیت "، واپسی کا راستہ دکھاتی ہے "۔ بندہ اتنا لدا ہوا ہو کر بھی " خالی " سا ہو کر آخری دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" وِچو وِچ میلہ ،،، ( زندگی کے درمیان ایک میلہ سجا )۔
آسے پاسے نیرا ،،، ( مگر میلے کے آس پاس اندھیرا ہے )۔
میلے وِچ رَونڑکاں ،،، ( میلے کے اندر رونق کا عروج ہے)۔
میلے بآر تتیاں وآواں ،،، ( میلے سے باہر گرم ہواؤں کو راج ہے)۔
نفس پایا ، چِیڑا رانگلڑاں ،،، ( نفس پر رنگین دوپٹہ پڑا ہوا ہے )۔
میلے چے انکھاں چکا چوند ،،( میلے کی چکا چوند سےآنکھیں کھل نہیں
رہیں)۔
کیَڑی حالت اے سچی ،،، ( کون سی حالت کو اصل جانا جاۓ )۔
میلے اندر ، یا میلے بآر ،،، ( اس رونق میلے کی حالت اصل ہے )۔
دِلے اندر، یا دِلے بآر ،،، (دل کے اندر یا دل کے باہر کی حال
اصل ہے )۔
( منیرہ قریشی 10 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )

پیر، 3 دسمبر، 2018

اک پرِخیال(21)۔

" اِک پرِ خیال "
' سپیشلسٹ یعنی ماہرین' (21)۔
مجھے ٹی وی پر" اینیمل ورلڈ " کا چینیل بہت پسند ہے ، کئ کتابیں پڑھتی ، تب بھی اتنی معلومات نہ ملتیں ، جتنی اسکے مختلف جانوروں کی ایک گھنٹے کی ریسرچ فلم دے دیتی ہے ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہاتھی پاؤں کی دھمک سے 20 میل دور تک اپنے ساتھیوں کو پیغام دیتا ہے ، یا حائینہ ( لگڑ بگا ) زمین سے منہ لگا کر اپنے ہم جنسوں تک اپنے پیغامات دیتا ہے یا شیر کی دھاڑ ، 5 میل تک سنی جا سکتی ہے وغیرہ،،،، اور یہ کہ شیر جو جنگل کا بادشاہ ہے ، کبھی کبھی ہرن کو شکار کرنے سے بھی ناکام ہو جاتا ہے ،، اور ،،، یہ کہ شیروں میں بھی کچھ شیر ایسے ہوتے ہیں ، جو ہاتھی جیسے بڑے جانور کے شکار کو ٹیم ورک کے ساتھ گِرا ڈالتے ہیں ، اور شیروں میں سے ہی کچھ ایسے جنگجُو ہیں جو " دریائی گھوڑے ( ہپو پوٹیمس) کے شکار کے ماہر ہوتے ہیں ،، جو اُن سے کئی گُنا بھاری بھرکم ہوتا ہے ،، تو گویا نسلاً تو یہ سب شیر ہی ہیں لیکن انہی میں سے ہر گروپ اپنے اپنے شکار کے " ماہرین " ہیں ۔ اپنے میدان کے سپیشلسٹ !جانوروں کی دنیا کے ماہرین ہوں ، یا انسانوں کی ،،، عجیب وغریب ماہرین نظر آتے ہیں ۔ انسانوں کے اپنے سکلڈ کے ماہرین نہیں ،، بلکہ فطرتا" اپنی ذات میں کچھ " اوصاف " کے ماہرین ۔ ۔ اگر انسانوں کی نسلوں کا تجزیہ کیا جاۓ تو اقوام میں کچھ اقوام کنجوس ،، کچھ پُر مزاح اور جوشیلی ، کچھ مدبر اور مثبت ، کچھ دوستی میں پہل کرنے میں تیز تو کچھ سرد مہر اور بے زار صفات سے معمور و مشہور ہوتی ہیں ،معاشروں میں انسانوں کے انفرادی کردار کے اپنے الگ ہی طَور ہوتے ہیں ، اور یہ اثرات دراصل اُن لوگوں کی انہی ماہرانہ صفات کی عکاس ہوتی ہیں ۔ جو آپسی رشتوں میں کبھی بگاڑ اور کبھی سنوار کی تیکنیک کو ماہرانہ انداز سے آزماتے چلے جاتے ہیں ، کہ زندگی کے کینوس پر کبھی بڑے بڑے ہیپی پوٹیمس کو پچھاڑا جا رہا ہوتا ہے ، وہ رشتہ جو بہت نازک اور اہم ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے گھیرے میں ہوتا ہے جو کانوں میں وساوس کا زہر اُنڈیل رہے ہیں اور شانت روح ، انہی وساوس کے بموجب ، برداشت کے مادے میں وہ آگ اُگلنے کو تیار ہونے لگتی ہے جو اپنی ہی نہیں دوسروں کی زندگی کو بھی مشکل بنا دے ، تو گویا ایک "خاموش فطرت" ایسے شکاریوں کے نر غے میں آ جاتی ہے کہ وہ آتش فشاں بننے لگتا ہے ۔ کبھی خوفزدہ ہرنوں کی ڈار پر طنز کے تیر برساۓ جاتے ہیں ، اورمعصوم ، پاکیزہ اجسام خون ریز ہوتے چلےجاتے ہیں ، لیکن دُکھ کی کوئی آواز نہیں نکال پاتے ۔ اور کبھی ہاتھی جیسے بڑے رشتوں پرپیٹھ پیچھے سے ایسی بے زاری اور کم ظرفی کے حملے کیۓ جاتے ہیں کہ اچھے خاصے مدبر اور معزذ رشتوں کو چُوزوں کی طرح مسل دیا جاتا ہے ۔ ،،،، لیکن کبھی کبھی ایسے رحم و کرم اور مامتا سے بھر پوراور مثالی دوستی سے لبریز لوگ بھی سامنے آ جاتے ہیں ، جن کے مہربان ہاتھ ،،، نم ،محبت بھری آنکھیں ، اور روئ کے پھاہے رکھتے الفاظ ،،، بڑی سے بڑی تکلیف کو جادوئ انداز سے معطل کر کے رکھ دیتے ہیں ،، اور تکلیف میں جکڑا شخص ایسے موقع پر آسمان کی طرف شکر گزاری سے دیکھتا ہے کہ ،، یہ پہلی تکلیف دینے والے کون تھے اور نۓ مسیحا بھی کہاں سے کیسے آگۓ !!! مجھے "اینیمل پلینٹ " کے چینل کو دیکھتے ہوۓ، انسانوں اور جانوروں میں مماثلت اور متضاد ماہرانہ تیکنیک کی یکسانیت کا احساس ہوا ،، کیسے بد فطرت اور اپنی شیطانی چالوں کو چلنے والے، بے خبر لوگوں کو جا لیتے ہیں ، اور کیسے کبھی کبھی کوئ شیرنی گاۓ کے نو زائیدہ بچھڑے کو مامتا کے شدید جذبے کے تحت ، اسے کھانے میں بے بس ہو جاتی ہے ،،، تو گویا یہ بدی کے پیکر خود میں نیکی کو دریافت کر لیں تو ایک لمحے میں ایک دبی چنگاری ،،، مکمل شعلہء طُور بن سکتی ہے ۔
( منیرہ قریشی 3 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )