اتوار، 25 ستمبر، 2022

اِک پَرِخیال دورانِ سدر زمین وآسمان"

اِک پَرِ خیال "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
' الف'
دورانِ پرواز ، جب جہاز دوشنبہ کو پار کر رہا تھا ،،تو شدید گرج چمک کا نظارہ دم بخود کر رہا تھا ۔بادل ،،اونچی نا قابلِ یقین لہروں کی صورت جمے ہوۓ تھے ۔ لیکن جب بجلی چمکتی تو زرد اور پیلے اونٹوں کا قافلہ بھاگتا محسوس ہوا ۔ دہشت ،، رعبِ الہیٰ ،،اور ہیبت کا مفہوم قدرت کبھی کبھی ایسے ہی فلم چلا کر سمجھاتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" ب"
جہاز محوِ پرواز تھا ،،، اور زمین دور بہت دور نیچے ہے ،، فضا اور زمین کے درمیان بادل کہیں گھنے ، کہیں چھدرے ، اور کہیں دور دور پھیلے نظر آئے ۔ ایسے محسوس ہوا ، جیسے یہ بادل قدرت کے خفیہ پیغامات پہنچانے کا کام کرہے ہوں ،،،
گھنے بادل ،، جیسے گہری باتیں ، گہرے راز پہنچائے جا رہے ہوں
چھدرے بادل ،،، جیسے سطحی پیام
دور دراز اکا دکا بادل ،،، جیسے پہریدار ، کچھ بھی حکم ملے تو تیز ہر کاروں کی طرح ، گھوڑے دوڑانے کو تیار ۔
پھر زمین یہ پیغامات،،، کہیں امن ، سبزہ ، اور خوشحالی کی صورت ،،،،وصُول کرتی ہے ۔ کہیں بے اطمینانی ، بانجھ پن اور نفس پرستی کی صورت وصُول کرتی ہے ۔۔۔۔ اور ایسے ہی وقت میں اکا دُکا بادلوں کی گرج ، دھڑدھڑاہٹ ، ڈانٹ ڈپٹ کی صورت ، کہ جاگ اے بےخبر! جاگ ، اپنے اس عارضی قیام کا ادراک پہچان ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
'' جیم "
فیروزی اور سلیٹی رنگوں کا امتزاج جب آسمان پر چھایا ہو تو اِسے کون سا رنگ کہیں گے ؟؟؟؟ اُسے کسی نام سے نہیں پکار سکتے ! یہ صِرف ایک نظارہ ، اور الفاظ ختم ،،،،
کہیں جذبوں کی مِٹھاس اور کڑواہٹ کے درمیان بھی عجیب سا جذبہ کار فرما ہوتا ہو تو ،،،، اس احساس کا بھی کوئی عنوان نہیں ہوتا ۔
کتنی عجیب بات ہے ، بلا عنوان بھی لا تعداد چیزیں اور جذبے ہیں ۔

( منیرہ قریشی ، 25 ستمبر 2022ء دورانِ سفرِ زمین و آسمان) 

جمعہ، 23 ستمبر، 2022

"اِک پَرِخیال'' 'جیومیٹری'

"اِک پَرِ خیال''
'جیومیٹری'
چکنی مٹی کی تختیاں جن پر نقش کی ہوئی علامات سے جیومیٹری کے میدان میں اہلِ بابل کی تاریخی سبقت ثابت ہوتی ہے ۔یہ زمانہ بادشاہ حمورابی کے دور کا تھا ۔گویا جدید جیومیٹری یونانی تہذیب سے بھی ایک ہزار سال پہلے ایجاد کر لی گئی تھی اور اس دور کے قدیم دریافت شدہ نوادرات سے لائنوں کے استعمال کا پتہ چلا ،،،، گویا اس دور میں تہذیب و تمدن نے اپنا اک جاہ و جلال دکھایا تھا۔
پھر ایک مدت گزری ، صدیوں نے کچھ صفحات پلٹے ،،،ازبکستان سے تعلق رکھنے والے ،، صدی کے ذہین ترین شخص نے جنم لیا ،، جس کا پورا نام محمد ابنِ موسیٰ الخوارزمی تھا ۔ اور جس نے ریاضی کی اس شاخ کی ایجاد میں وہ کمال حاصل کیا ،، کہ آج بھی اس میدان کا شہسوار وہی مانا جاتا ہے ،،،،
جیومیٹری کی لائنوں سے جس طرح مسائل حل کیے جاتے تھے ، اور کیے جاتے ہیں،، یوں محسوس ہوا جیسے ہر مسئلۓ کا حل شاید ریاضی کی اسی شاخ میں موجود ہے ،،انہی ذہین انسانوں نے جسے رب کی ودیعت کی گئی حکمت سے معلوم کیا ۔۔۔کہ کائنات تو حساب کی ہر برانچ کے مطابق ہموار طریقے سے ترتیب دے دی گئی ہے ۔
یقیناً ہر علم ایک خاص حکمت میں لپٹا نازل ہوا ہو گا ،، جو الہامی کیفیت لیے ہوتا ہے ،، تب ہی تو درجہ وجۂ دوام ہو جاتا ہے ،،، یہی الہامی کیفیت بھی اک درجۂ روحانیت بھی ساتھ لیے چلتی ہے ،،،،،
اپنے خالق سے عشق کیسے کروں کہ اس کے شایانِ شان الفاظ بیان ہو جائیں،،، سوچ ابھی اٹھ رہی ہوتی ہے کہ چشمِ نم دیدہ چہرے کی سلیٹ پر لکیریں کھینچ دیتی ہے ،، اؑعترافِ عشق ، نذرِ عاشق کیا جاتا ہے ،،، شکریہ جیومیٹریکل لائنوں کا۔
جیومیٹریکل لائنوں کے بھی کیا بھید ہیں ۔ اور انسان کی ان رازوں کو کھوجنے میں کچھ صدیاں بیت گئیں ، کچھ بِیت رہی ہیں ،،، حیران کن جیومیٹریکل لائنیں ،، شکریہ جیومیٹری !!
خالق و مالک و رازق سے محبت کے سچے گواہان میں شامل ہیں یہی جیومیٹریکل لکیریں ،، شکریہ جیومیٹری !!!
اور اگلے ہی لمحے جب فرما دیا گیا ۔" جو مجھے چاہے تو وہ اسؐے چاہے " ،،،،، اور اس عشق کے مقابلے میں 1500 سال سے لگی لمبی قطاریں ہیں، نہ جانے کن خطہ ہاۓ ارض سے آنے والوں کے ہاتھوں میں درود پاکﷺ، نہایت خوبصورت پیکنگ اور عطریات میں بسے پکڑے ہوۓ ہیں ۔ نہ جانے میری باری کب آۓ !!
اور اگر آ بھی جائے تو کہیں یہ تحفہ ایک طرف نہ رکھ دیا جائۓ !! ابھی خدشات نے کندھے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ "جیومیٹریکل لائنوں " نے عرضی مکمل کردی ،،، شکریہ ، تشکر !!
شان والے کے لیے صرف خوبصورت پیکنگ ہی ضروری نہیں اس پر پڑے اخلاص کے قطروں کی بھی کوئی قیمت تو ہو گی ،،، شکریہ جیومیٹری،
دل کے کونے سے اک خواہش نے دبی آواز میں کہا" کاش ! دمِ آخر بھی اسی تحفۂ محبت کی محفل سجا لوں ،،، جیومیٹریکل لائنوں نے فوراًًآمین کہا ،، شکریہ جیومیٹری !!!

( منیرہ قریشی 23 ستمبر 2022ء مانچسٹر) 

بدھ، 17 اگست، 2022

" لکھو"

" لکھو"
لکھو ! کہ لفظ قطار بناۓ مؤدب کھڑے ہیں
لکھو !کہ قلم زنگ آلود نہ ہو جائیں
لکھو ! اس سے پہلے کہ ہم سخن بچھڑ نہ جائیں
یادوں پر گرد کی تہیں نہ بیٹھ جائیں
اور ہم ہی نا پید نہ ہو جائیں ،،،،،
لفظ تو وہ سرمایہ ہیں ، بولیں تو ہوا میں اُڑ جائیں،،،،
لفظ وہ اثاثہ ہیں ، جو دوسروں کو سونپا جانا ہے
لفظ تو وہ امانت ہے جو صدیوں بعد بھی
کہیں کسی خطے میں پڑھا ، اور سُنا جانا ہے
دہرایا بھی جانا ہے !!
یہی تسلسل جاری وساری رہنا چاہیے
"لکھے" کے چشمے کا بہاؤ جاری رہنا چاہیۓ
لکھو ! کہ لفظ منتظر ہیں جنبشِ قلم کے
لکھو ! کہ تحریر کی سرسراہٹ سے بڑھ کر کوئی سُر نہیں ،،،،
لکھو کہ لفظوں کے معنی کھلتے ہیں ،،،
تو عجب اِسرار کے در کھلتے ہیں ،،،
لکھو !! کہ روح کے اندھیروں میں
لفظ ،،،، مانندِ بدر اُبھرتے ہیں
اور ان کی فسوں خیز چاندنی
ہمیں اپنی اَور بلاتی ہے !
اس ''لکھے'' کو ہر سرحد پار کراتی ہے !
لکھو ،،، کہ لفظ منتظر ہیں اپنی باری کے
ورنہ وہ حوالہء مرگ ہو جائیں گے
ہماری نظر اندازی کے ۔۔۔۔۔۔

( منیرہ قریشی 17 اگست 2022ء مانچسٹر ) 

جمعہ، 29 جولائی، 2022

" اِ ک پَرِِخیال " ' انگلیوں اور تنے کے دائرے'

" اِ ک پَرِ ِخیال "
' انگلیوں اور تنے کے دائرے'
دو سال پہلے کے کسی برفانی اور طوفانی جھکڑ سے ،، یہ شاندار اورسرسبز ،، لیکن کہنہ درخت زمین بوس ہو چکا تھا ، وہ جڑوں اور تنے کے کچھ حصے کے ساتھ لان کے اندر اور کافی موٹے تنے اور خوب بڑی ٹہنیوں کے ساتھ لان سے باہر کے ایک جنگل میں لیٹا ہوا تھا ، جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو اس کی سبھی ٹہنیاں پتوں سے عاری ہو چکی تھیں ۔ میں لان کے آخر میں اس چھوٹے سے قدرتی جنگل پر عاشق ہو گئی ،، اس لیے جنگل سے روزانہ کی ملاقات کے ساتھ ،،، اس شاندار درخت سے بھی لمحہ بھر کے لیے نظریں ملتیں ،اور لمحے بعد ہی پھر جنگل کا سحر حاوی ہو جاتا ،،، لیکن چند دن کے بعد مجھے محسوس ہوا وہ "درخت ابھی بھی مردہ نہیں ہوا ،"،، یوں لگا جیسے کہہ رہا ہو ،، بے شک میں آس پاس کے سر سبز درختوں ، جھاڑیوں کے درمیان آ لیٹا ہوں،،، بے شک میں ان کی طرح جھوم نہیں سکتا لیکن ذرا غور تو کرو ، میں ابھی بھی دوسروں میں خوشیاں بانٹ رہا ہوں ۔ اور واقعی غور کیا تو گلہریوں کا خوب بڑا خاندان اس کی اونچی نیچی ٹہنیوں پر آ جا رہا تھا ، وہ بے فکری اور خوشی کی اپنی مخصوص آوازیں نکال رہی تھیں، کبھی کچھ فاختائیں ،، کچھ نیلی چڑیاں اور بہت سی انگوٹھے برابر چڑیاں بھی پُھدکتیں یہاں وہاں بیٹھ رہی تھیں ۔ بہت سی مکڑیوں کے مستقل ڈیرے بھی نظر آۓ ۔ سرسراتی ہوائیں ابھی بھی اس کی سہیلی تھیں اور چمکیلی دھوپ بھی اسے گرمائش دے رہی تھی ۔
گویا یہ شاندار درخت مر کر بھی نہیں مرا تھا ۔
اسی خیال نے مجھے چونکا دیا ، تو شاندار لوگ بھی ایسے ہی ہوتے ہیں ، جو اپنے وقت پر بہترین فرض کی ادائیگی کے بعد بظاہر قبر کی ڈھیری کی صورت تو اختیار کر لیتے ہیں لیکن ان کے نیک اعمال ، افکار ،اور اقوال دنیا سے پردہ پوشی کے بعد بھی فیض پہنچا رہے ہوتے ہیں ،،،،، ان شاندار لوگوں کے لگاۓ نیکی کے درخت مدت گزار کر بھی جھوم جھوم کرمدھم سُروں میں دنیا کو رونق بخش رہے ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی نیکیوں کی مضبوط بنیادوں کے ساتھ نہ جانے کتنے ہی نفوس کو پارس ،، بنا رہےہوتے ہیں ۔
درخت بھی آدھا لان کے اندر ہے اور آدھا لان سے باہر ،،، وہ شاندار ہستیاں بھی بظاہر زمین کے اندر ہیں ،، لیکن ان کی موجودگی اب بیرونی دنیاؤں میں نئی شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے ۔
ایک وصال کے بعد ، اگلے وصال میں نئی ڈیوٹیاں دے دی جاتی ہیں ۔
درخت ،، نےجیسے مخاطب ہو کر کہا ،،، غور تو کرو ،، مجھ میں اور تم میں یہ مشابہت تو ہے کہ میرے تنے پر پڑے دائرے ،،، تمہاری انگلیوں کے ' پور ' سے کتنے مشابہہ ہیں ۔۔۔ دیکھو تو ہم بھی تن کر کھڑے رہتے ہیں ، ہر گرم سرد سہتے ہیں ،، سایہ اور طروات بانٹتے عمر پوری کر کے حکم ربّی پر زمین بوس ہو جاتے ہیں ،، دائروں کے نشان مٹی بھی ہو جائیں تو بھی کوئی نا کوئی نیکی ،، یاد رکھی جاتی ہے ،،، ہمیں زندہ رکھتی ہے ،، کیا تم انسان بھی یہی مشترکہ ورثہ نہیں سنبھالے بیٹھے ۔ وقت کڑی محنت اور دوسروں کے آرام دینے میں گزارا ،،،،اور وقتِ رخصت آیا تو ' لبیک' کہہ کر آگے بڑھ گئے،،
" کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مَر جاؤں گا
میَں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
( احمد ندیم قاسمی)
پسِ تحریر۔۔۔میں مانچسٹر کے جس گھر میں ہوں اس کے لان کے آخر میں یہ گرا ہوا ہے ،، جس سے میری روز ملاقات ہوتی ہے ،، اور اب وہ میری یادوں کا اہم رکن بن چکا ہے ،،

( منیرہ قریشی ، 29 جولائی 2022ء مانچسٹر ) 

ہفتہ، 16 جولائی، 2022

"اِک پَرِِخیال" ' پنچھی ، پتّے، اور کنکریٹ'

"اِک پَرِ ِخیال"
' پنچھی ، پتّے، اور کنکریٹ'
لندن کے جس فلیٹ میں چند دن رہنے کا موقع ملا وہ " سینٹرل لندن" کہلاتا ہے ،،،اس بلڈنگ کی سات منازل تھیں اور ہم ساتویں منزل میں قیام پذیر تھے ۔ ،،،جب کہ اس کے دائیں ، بائیں اور سامنے ، نیم دائرے میں مزید چھ اتنی ہی اونچی عمارات تھیں ،،، کہ نیچے کھڑے ہو کر دیکھیں تو گردن مکمل پیچھے کرتے چلے جائیں تو دوسرے لمحے نیچے کر لیں ،، کہ چوبیس ،، یا ،، تیس منازل کا یہ حال ہے تو ،،، تو برج الخلیفہ ، یا ، میل بھر اونچی عمارات کا کیا عالم ہو گا ۔
اسی نیم دائرے میں بنی یہ کل سات عمارات جدید ترین طرزِ رہائش کے ساتھ نئے دور کی آسان زندگی کی مظہر تھیں ۔ انہی عمارات کے درمیان چند کنال زمینی ٹکڑے کو سبز درختوں کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا ،، تمام درخت گہرے سبز تھے ، اور ایک مخصوص اونچائی کے بعد چھتنار درختوں کا روپ دھار چکے تھے ۔ اور یوں یہاں کے مکینوں کے لیۓ آکسیجن پہنچانے کا فرض دن رات نبھا رہے تھے ۔ انہی درختوں کے گرد چوڑی سڑک کو یہاں کے مکینوں کے پیدل چلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا ،، اور وہاں ہر قسم کی گاڑی لانے کی ممانعت تھی ۔ شام کو یا چھٹی کے دن اس سبز گھاس کے سادہ حصے پر بچے کھیلتے ،، اور کچھ خواتین و حضرات سیر کرتے دِکھائی دیتے ،،، اور ہم ان کی مشینی اور غیر قدرتی زندگی پر حیرت زدہ تھیں،،،
" بے شک انسان کو مشقت کے لیے پیدا کیا گیا "
( القرآن )
اس فلیٹ کے کھڑکیوں اور دروازوں پر آواز پروف شیشے لگے تھے لیکن ایک آدھ کھڑکی کھلی رہتی ،، خوشگوار ہوا کو آنے دیا جاتا ،ان کئی منزلہ عمارات کے مکین تو کمروں میں زندگی گزار رہے تھے لیکن ان عمارات کی چھتوں پر "سِی گِل " ( see gill) کے بہت سے خاندان آباد تھے ۔ یہ میرے لیے اچنبھے کی بات تھی کہ سمندر کنارے بسنے والا یہ پنچھی یہاں ، کنکریٹ کے جنگل میں ؟
پہلی صبح کی فجر میں کسی "سردار سِی گِل " کی قدرِ کرخت آواز نے متوجہ کیا ،، اور کچھ ہی دیر میں خاندان کے بہت سے اور پرندوں نے باری باری اپنی مخصوص اور نرالی آوازوں سے اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا ،،، تو گویا یہ اب اس کنکریٹ کی دنیا کے بانگ دینے والے مرغے تھے ۔ اور یوں قدرت نے کسی حد تک انسانی فطرت کو انسان کے قریب رکھنے کی کوشش کر رکھی تھی ،،، سر سبز چھتنار درخت اور پنکھ پنکھیرو مل کر فطرت کے قدرتی رنگ کو مکمل کرنے کی کوشش میں تھے ۔یہاں کوّے نظر آۓ ، نہ چیلیں ،، گویا" سِی گِل" کو مکمل تحفظ حاصل تھا ۔ نہ کوئی دشمن ، نہ سجن ۔ کھانے میں کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ۔ کنکریٹ کے جنگل میں بھی سمندری آوازیں ،، جیسے انسان کی روح کو اپنا آپ یاد دلا رہی ہوں ۔
انسان جو بھول جانے والا ہے ،،، اسے یہاں بھی خالق یاد دلا رہا ہے ،، مشقت اور مشینی زندگی میں غرق نہ ہو جاؤ ۔ دیکھو تو فطرت کچھ کہہ رہی ہے !،،،،،،،،،
جب جہاز راں مہینوں ،، ہفتوں بے کنار سمندر کو دیکھتے دیکھتے اکتانے ہی لگتے ہیں کہ یکدم انھیں کہیں دور سے " اس سمندری امید کے استعارے کی کرخت آواز" خوشی کا ترانہ لگتی ہے ۔اور جب وہ نظر آتا ہے تومہینوں سمندر کے رحم و کرم پر زندگیوں کو داؤ پر لگا کر تھکے جہاز رانوں کی آنکھیں چمکنے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے ۔
خالق و مصّور نے اسے یقینی " امید" کا استعارہ بنا دیا ہے ،، انسان کو انسان سے ملنے کا اشارہ بنا دیا ہے ۔۔۔ اور یوں محسوس ہوا اس کنکریٹ کے جنگل میں بھی یہ استعارہ کچھ اور معنی اور اشاروں کے ساتھ براجمان ہے ۔

( منیرہ قریشی 16 جولائی 2022ٰء لندن ) 

ہفتہ، 28 مئی، 2022

'' اک پرِخیال'' ' طبقاتِ ارض و سما'

'' اک پرِ خیال''
' طبقاتِ ارض و سما'
طبقات کا نام سنا بھی ہوا ہے اور پڑھا بھی ہے ، انسانی معاشرے کے طبقات ،، زمین کے پرتوں کے طبقات ،،، اور پھر روحانی درجات کے لیے بھی ،،، طبقات کا لفظ استعمال ہوتا دیکھا،،، جن میں سے گزر کر پاکیزہ فطرت لوگوں کو درجات کی بتدریج بلندی ملتی چلی جاتی ہے ۔ انھیں طبقاتِ سماویٰ بھی کہا جاتا ہے ۔
فضائی سفر کے بارے یہی علم تھا کہ '' جہاز ہے اور فضائی سفر ہے'' ۔ لیکن جب اس سفر کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ یہاں بھی طبقات و درجات ہیں ،،اور ان کے الگ الگ اخراجات اور اسی کے مطابق مراعات بھی ہیں ۔ البتہ یہ نہیں واضح کیا گیا کہ ،،، حادثے کی صورت میں بچنے یا ،، بچاۓ جانے کی ترجیح بھی ہے ؟؟اور ہوائی سفر کے دوران ہی علم ہوا کہ ایک تو اکانومی کلاس ہوئی ،، دوسری بزنس کلاس ،،، لیکن ایک درجہء اولیٰ کی کلاس بھی ہوتی ہے ،،، جس کی مراعات عام عوام سوچ بھی نہیں سکتی ، سوچنا بھی نہیں چاہیے ،،کہ اس کا کیا فائدہ۔۔۔،میں تو صرف یہ سوچ رہی تھی ،محض چند گھنٹوں کے دوران بھی انسانی '' انا اور معاشرتی درجہ بندی '' اسے اِس تختِ تفاخر سے اترنے نہیں دیتی ۔ حالاں کہ اس ہوائی سفر میں حادثے کی صورت میں اکانومی ، بزنس ، اور اشرافیہ کلاسسز والے سب ایک ہی تھپیڑے میں ناپید ہو جانے ہیں ، بندہ رہتا ہے نہ بندے کی پہچان ،، بس راکھ ہی اُڑ رہی ہوتی ہے ،،، لیکن آہ ،،، انسان اور اس کی انا پرستی ،،، ہاۓ انسان کی 'میں کا سراب '۔
لیکن ہم سب کچھ سمجھتےہوۓ بھی سمجھنا نہیں چاہتے ۔

( منیرہ قریشی ، 28 مئی 2022ء مانچسٹر ) 

'' نظارہ ہائے چشمِ تِل ''

'' نظارہ ہائے چشمِ تِل '

سیمابیء قلب و جاں کا کیا پوچھو ہو
جب تلک نہ ہو مرکُوز
چشمِ تِل کسی نظارت میں
کیسے ٹھہراؤ ہو طبیعت میں
خاکی کے روز وشب کے سبھی لمحے ،
چِلا رہے ہیں !
اے انسانِ خسارہ ذدہ !
گردابِ سیاہ و سفید میں پھنسا
اے آفت ذدہ ، خوش فہمیوں کا پُتلا
نظارت ہاۓ فطرت ، ہیں منتظرِ نگاہ !!
شاید آگاہ ہو جاۓ تُو ،،،،
پیامِ ارض و سما ،،،
چشمِ ظاہر و باطن تو کھول ذرا ،،
نگاہ اٹھا ،،، اے بے خبرا ، !!
( منیرہ قریشی ، 28 مئی ،2022ء مانچسٹر)
16 مئی سے انگلینڈ ،،،کے خوبصورت شہر مانچسٹر میں ہوں اور اس کے آس پاس کے گاؤں ، اور پر فضا نظاروں کی شان قدرت پر ،،، آنکھ ٹھہر گئی ہے ، اور دل کی گہرایوں سے جو بھی دعا ہے تو صرف وطنِ عزیز کے لیے ،،

کوئی شک نہیں مہمان زیادہ پر سکون ہوجاتا ہے،، جب میزبانی میں خلوصِ دل و جان موجود ہو ،،الحمد للہ 

پیر، 16 مئی، 2022

" اِک پرِِخیال" " تحسین و آفرین"

" اِک پرِ ِخیال"
" تحسین و آفرین"
فضائی سفر بھی کیا کیا خیال سُجھا دیتا ہے ۔ میں حالتِ سفر میں ہوں جہاز کی کھڑکی سے صبح کاذب کو صبح صادق میں بدلتے دیکھ رہی ہوں ،،، یہ حکمِ ربیّ کا کیا ہی عجیب نظارہ ہے کہ زندگی کی ہر صبح اسے دیکھے ،، چاہے وہ شہر ہو ، پہاڑ ہو ، صحرا ہو یا ویرانہ !!
ہر بار ہی نیا لگتا ہے ۔اور انسان ہلکا پھُلکا ہو کر دن کی مشقت کے لیے تازہ دم ہو جاتا ہے ۔
سورج طلوع ہونے کا بتدریج بدلتا نظارہ ،،، دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے واہگہ بارڈر پر پاکستان کا جھنڈا اُتارے جانے کی خاص تقریب ہوتی ہے ،، محافظ سپاہیوں کی جُدا جُدا وردیاں ، منفرد قد و قامت ،، مختلف اندازِ سلامی ،، رعب ڈالتی آوازیں ،،، یہ سب کچھ مل کر اس تقریب کو دیکھنے والےکوچارج کر دیتے ہیں اور دل کی دھڑکنیں تیز اور زبانیں ایک خاص نعرۂ دلبرانہ کہنے پر بے اختیار ہو جاتی ہیں ،،، اور دیکھنے والے بار ہا آنے کے باوجود بھی جھوم جھوم جاتے ہیں ،،،
اور طُلوعِ آفتاب تو خالقِ حقیقی کی تخلیق میں وہ مسحور کن نظارہ ہےکہ جب دیکھو تو ہر بار یوں لگتا ہے جیسے پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔ جب سے دنیا تخلیق ہوئی ہے صبح کاذب ، صبح صادق میں مدغم ہونے کا نظارہ ،، انسان کو نیا سُرور دیتا آ رہا ہے ۔ اس نظارے کے مخصوص رنگ ،،، تماش بین آنکھ پر ہر دفعہ نیا سُرور طاری کر دیتے ہیں ۔۔۔۔
رات کی سیاہی کے پردے کا سلیٹی رنگ میں بدلنا ،،، سلیٹی کا سرمئی میں بدلنا ،، یکدم ایک پیلی لکیر کا نمودار ہونا اور یہی پیلی لکیر ، زرد رنگ میں بدلتی نظر آتی ہے ،،، اور پھر یہی زرد رنگ تیز پیلے میں بدل کر " آسمانی "رنگ کے پس منظر کے ساتھ ،،، وہ اس ظلِ الہیٰ کی آمد کا اعلان کرتا ہے ۔۔جس نے بارہ گھنٹوں کی ڈیوٹی سنبھالنی ہے،،، اور یوں انسانی آنکھ کی پُتلی اس عجب مسحور کن لمحے کا نظارہ کر لیتی ہے ،، جس کو دنیا بنانے والے نے اپنا چراغ کہا ہے ۔
رنگوں کے امتزاج کا یہ نظارہ دیکھ کر زندگی وُضو کرتی محسوس ہوتی ہے ۔ اور یہ جملہ بہت وضاحت کر گیا ۔
" زندگی تو بہت خوبصورت ہے ، ، لیکن افسوس ایک بار ہی ہے "
اسی نظارے پر جوش ملیح آبادی جیسے عیش سے زندگی گزارنے والے شاعر نے بے اختیار کہا ،،،
جسے اللہ کے نہ ہونے کی ضد ہے ، وہ طلوع آفتاب کو دیکھ لے "
( منیرہ قریشی 16 مئی 2022ء دورانِ سفر مانچسٹر )

( میرے علم کے مطابق ، طلوع آفتاب کے وقت سرخ رنگ کا کوئی شیڈ نہیں ہوتا ۔۔۔۔لیکن غروب کے وقت یہ سرخ رنگ حاوی ہوتا ہے ،، اللہ کی شان ) 

" اِک پَرِخیال " " گہری نیند"

" اِک پَرِ خیال "
" گہری نیند"
اس آہنی اُڑن کھٹولے پر رات گزارنا بھی عجیب تجربہ ہوتا ہے ، اس وقت زمین بہت دور ہوتی ہے،، اور آسمان اس سے بھی کہیں دور ۔
کھانا پینا ہو چکا ،، بستر آرام دِہ بنا دیئے گئے ،،،اور بتیاں بجھا دی گئیں ۔
بھرے پیٹ ، اور نرم بچھونوں سے آنکھیں بوجھل ہو ہو جانے لگیں ۔ کئی مسافر اب اونچائی کے خوف سے نکل گئے ہیں ،،، کچھ مسافر اس آہنی اُڑن کھٹولے کی کبھی دلکی چال ،، اور کبھی سر پٹ دوڑنے سے خوفزدہ تو ہیں ،، لیکن نیند نے انھیں بھی بے بس کر دیا ہے ، اور ہر طرح کے مزاج والے مسافر اب " گھوڑے بیچ کر سو " گئے ہیں ،
فضا میں یہ گہری نیند کیسا معرکتہ الآراء تجربہ ہے ،، آہنی مشینری کے ایک نہایت چھوٹے سے پُرزے کی خرابی ہوئی اورصرف مال و متاع ہی نہیں ،،، جسم بھی ناپید ہوا ۔ زمینی حادثے میں جسم یا مال سامنے نظر تو آتا ہے ۔ اس سب کے باوجود ،،،بندے کی بہادری کا کوئی مقابلہ نہیں کہ فقط ہوائی سفر ہی نہیں کرتا بلکہ دورانِ سفر گہری نیند کے مزے بھی لیتا ہے ۔
زندگی نا قابلِ فہم ،،، انسان پیچیدہ ترین !!

( منیرہ قریشی 16 مئی 2022ء دورانِ سفر مانچسٹر ) 

" اِ ک پَرِخیال " " چار بوڑھے گھر سے نکلے"

" اِ ک پَرِ خیال "
" چار بوڑھے گھر سے نکلے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفر چاہے چھوٹا ہو یا لمبا ،، جب بھی موقع ملتا، سننے ،اور دیکھنے کی حسّیات ایسی تیز متحرک ہو جاتیں ، کہ سفر مجھے اتنا نہیں تھکاتا جتنا ' سوچ اور احساس' کا سفر تھکا دیتا ۔ ہر منظر ، ہر شخص، ہر جملہ جو کانوں سے ٹکراتا ایک پیرا گراف بَن جاتا ۔
برطانیہ کی رات کی فلائیٹ نے کچھ بے زار سا کیا ہوا تھا کہ ایک گھنٹہ لیٹ تھی ۔ اب رات کا ایک بج چکا تھا ، اور میزبان بھی تھکی مسکراہٹ کے ساتھ مسافروں کو استقبالیہ مشروبات پیش کر رہی تھیں ۔ سبھی مسافروں نے ائیر پورٹ کی گرمی کو رفع کرنے کے لیے ایک ایک گلاس لے لیا ،،، تب آس پاس جائزہ لیا ،، میرے بالکل ساتھ سیٹ پر ایک مولانا صاحب کی بیگم تھیں ، سادہ اور مکمل عبائیہ میں ۔ سلام دعا ہوئی ۔ بالکل ساتھ کی لائن میں قریباً ایک جیسے حلیۓ ، ایک جیسی قامت اور کافی ملتی جلتی شکل کے دو بزرگ بیٹھے تھے اور عین سامنے کی سیٹوں پر بھی دو انہی کی عمر ،، انہی سے ملتے جلتے حلیۓ کے بزرگوار تشریف فرما تھے ۔شاید یہ سب آپس میں رشتہ دار تھے ، کیوں کہ بعد میں ان کے درمیان چند جملوں کا تبادلہ بھی ہوا ۔
اتفاق سے اس دفعہ بزنس کلاس میں سفر کا موقع ملا ۔ آدھ گھنٹے میں مشروبات کے تین دور چل چکے تھے ،،، چاروں بزرگوں نے تینوں دفعہ کی پیشکش سے انصاف کیا تھا اور سب ہی دو دو بار واش روم سے ہو آۓ تھے ۔ انہی میں ایک صاحب وہیل چیئر پر تھے ،، جو دوسرے بزرگ دھکیل کر لے کر گئے ۔ چاروں کافی قد و قامت والے اور اچھی صحت کے حامل تھے کہ عین سامنے کی سیٹ والے نہ صرف ڈبل تھوڑیوں کے مالک ، بلکہ گردنوں کے پیچھے بھی موٹی تہہ بنی ہوئی تھی،، جب وہ واش روم کے لیۓ گزرے تو قیمتی شلوار قمیضوں ، جوتیوں ، اور گھڑیوں سے ان کی امارت کا اظہار ہو رہا تھا ۔ چاروں ہی اسّی ، اور بیاسی کے پیٹے میں تھے ،،، چاروں کی سفید چھوٹی چھوٹی داڑھیاں تھیں اور سروں سے قریباً فارغ البال تھے ۔
فضائی میزبان اگرچہ بہت جوان نہ تھیں لیکن سفید جلد ، اچھے میک اپ سے وہ جوان ہی لگ رہی تھیں ،،، اور تیزی سے ہر مسافر کو بار بار مشروبات پیش کر رہی تھیں ۔ ابھی میں نے اور میری ساتھی مسافر نے ایک ایک گلاس بہ مشکل ختم کیا تھا کہ بزرگوں نے چار چار گلاس ختم کر ڈالے کہ اتنے میں کھانا لایا گیا ۔ ہم دونوں خواتین شاید ان کی خوش خوراکی پر پریشان ہو گئی تھیں کہ ائیر ہوسٹس کے پیش کیے گئے ٹرے میں سے ایک آدھ چیز کھائی اور باقی واپس کر دی ۔ جبکہ ان بزرگوں نے ٹرے میں دی گئی اشیاء کے علاوہ بھی کچھ مزید مانگا ،،، کھانے کے ساتھ مشروب بھی چلتا رہا ۔ آخر کار یہ سلسلہ بھی ختم ہوا ۔۔ اور جہاز کے اندر کی روشنیاں بند کر دی گئیں ۔ سبھی مسافروں کی سیٹوں کو میزبانوں نے آرام دہ بنایا ۔۔۔ اور یوں بوجھل آنکھیں ، بھرے پیٹ کے ساتھ ہلکے ہلکے خراٹوں میں بدل گئیں ۔ یہ چاروں بزرگ حضرات بھی نیم استراحت میں تھے ۔ ہوائی سفر کے دوران مجھے نیند نہیں آتی بلکہ میرے لئے کھڑکی سے باہر کے مناظر زیادہ ضروری بن جاتے ہیں ،،، کہ رات کے بھی اپنے رنگ ہوتے ہیں ،،، انھیں زمین پر پرکھنے کا موقع تو ملتا ہی رہتا ہے ،،لیکن فضائی سفر میں رات کے ایک اور ہی قسم کے ڈھنگ سامنے آتے ہیں ۔
نہایت ہلکی روشنی میں بھی میں نے اپنی ڈائری نکالی ،،، اور میں نے انہی بزرگواروں کو کچھ تصوراتی رنگ میں دیکھا ،،،،،
دیار غیر میں جوانی میں کڑی محنت و مشقت سے گزارے سالوں نے انھیں صحیح خوشحالی سے ہمکنار کر دیا ہو گا ۔ اب وقت کی آخری اننگ چل رہی ہے ۔ اولادیں ، بلکہ اولادوں کی اولادیں بھی جوان ہو چکی ہوں گی ۔۔۔ اور اس نئے وطن میں نئی تہذیب سے مدغم بھی ہو چکی ہوں گی ،،، بابا حضرات عمر کے اس حصے میں ہیں جب بیویاں بھی بے زار ہو چکی ہوں گی ۔۔۔ اولادیں مصروف اور وقت کی سوئیوں کی غلام ہوں گی ۔۔۔ گھر میں توجہ دینے والا کوئی پوتا پوتی تو ہو گا ،،، لیکن کبھی کسی وقت چند منٹ دینے سے کیا ہوتا ہے ۔!! ۔ اب اس عمر میں سفر میں ایک دوسرے کے ہی مدد گار بن کر اپنے پرانے لیکن اصل وطن کی مٹھاس کو محسوس کرنے گئے ہوں گے ۔۔ جو زندہ ہیں ان رشتوں سے مل کر ،، دنیا سے گزر جانے والوں کی محبتوں کو محسوس کرنے ۔۔۔ کہ پھر نہ جانے سفر کر سکیں یا نہ کر سکیں ۔ اب سفر ہی کے وہ لمحاتِ خوشی دے رہے تھے،، جب جوان ، خوبصورت میزبانیں ،، ماتھے پر بَل ڈالے بغیر ان کا ہر حکم بجا لا رہی تھیں ۔ یہاں اس وقت انھیں کوئی بھی نہیں ٹوک رہا تھا کہ یہ کیوں کھا رہے ہو ، یہ کیوں پی رہے ہو ، یہ صحت کے لیے ٹھیک نہیں وغیرہ،،، وہ تیزی سے پھرنے کی عیاشی سے اگر محروم تھے تو کیا ہوا ،،، ان خوش شکل خواتین کی چند گھنٹوں کی توجہ تو مل رہی ہے ۔ اور یہی توجہ ،،،، انھیں جنت کی حُوروں کا پختہ تصور بھی دے رہی ہے ۔ یہاں اس وقت وہ چاروں بوڑھے اپنی اہمیت کے جذبے سے سرشار ،،، کھاؤ پیو ،،، اور عیش کرو کا نمونہ بنے ہوۓ تھے ۔اور بھر پور توجہ کا مزا لے رہے تھے ۔ بھَلے یہ توجہ چند گھنٹوں کے لیے تھی ۔
اور رات کے خاتمے تک میرا تصوراتی کالم بھی تمام ہو گیا ۔ مجھے پنجابی کا ایک شعر یاد آرہا ہے ۔
" اوڑک جانڑا مَر وے ۔۔۔۔ چل مِیلے نُو چلیے"
( مرنا تو آخر کار ہے ہی ،، کچھ میلے کی سیر کریں ، کچھ دل کو بہلانے کا سامان ہی کریں )
اس تصورِ خیال سے کسی کا متفق ہونا لازمی نہیں ۔

( منیرہ قریشی 16 مئی 2022ء مانچیسٹر) 

جمعرات، 5 مئی، 2022

"نعتِ محبت " بخدمت آنجناب ﷺ،،،،

" نعتِ محبت "
بخدمت آنجناب ﷺ،،،،
حاضر ہیں یہ درود ِ پاک و سلام کے تحائف
معہ گُلِ انبسات ، و خنداں بصد محبت
آجاۓ گی ٭٭٭٭٭٭
چاند چہرے پر ستارہ مسکراہٹ
اور جب دیکھیں گے ٭٭٭٭٭
مَقطر ،، مُعطر گُلوں پر شبنم
آنسوؤں کی صورت
ڈالیں گے شفقت کی نظر
بس سنور ہی جاۓ گا میرا مقدر
اۓ مُزّمل ،،اے مُدثر !!

( عاجز منیرہ قریشی 5 مئی 2022ء ) 

جمعہ، 29 اپریل، 2022

" ستائیسویں" ( رمضان کےآخری عشرہ کی کوئی سی طاق رات)

" ستائیسویں" ( رمضان کےآخری عشرہ کی کوئی سی طاق رات)
=* کہا گیا ، آج کی رات ہے خاص
ہر گھڑی قیمتی ہر لمحہ موتیء آبدار
ہر دعا اہم ،،، ہر آنسو آبِ رواں
مانگ لو ، جو ہے مانگنا ,,,,
متوجہ ہے خالقِ کائنات
=* کیا ہی عجب ہے ستائیسویں کی رات !!
لمبی ہےفہرست ،،،
گناھوں کی ، خواہشوں کی
کہاں سے شروعات ہو ،کہاں ہو اختتام !
اسی شش و پنج میں
عرضیاں ، اہم اور غیر اہم میں غلطاں
شرمندگی کا یکدم بوجھ سا بڑھا
ٓ٭ ستائیسویں کی رات !!
شمس تھا درمیاں ( اک مرکزِ ترجیع اول و آخر )
اور دعائیں مانندِ مدار رقصاں
کسے پہلے چُنوں ، کسے بعد میں مانگوں
بہت سی ہیں رازداریاں ، اے راز دار
کرنا ہے تُو نے ہی ، صَرفِ نگاہ
دل سیاہ کو مانجھا تو بہت ہے
تیری حاضری کے لیۓ سنوارا تو بہت ہے
" اپنی مَیں " کو لتاڑا تو بہت ہے
نا معلوم سا اک بوجھ ہے آس پاس
جانے اب کب نصیب ہو ، نہ ہو ایسی رات
ٓ٭ ستائیسویں کی رات !!
شبِ پاکیزہ تھی عجب پھوار میں ڈوبی
سبھی لمحے تھے اَن مول ،سبھی نایاب!!
جیسے پھولوں کے گندھے ہار
آنکھیں بوجھل ہوئیں اور پھر
قطرے جیسے قطار اندر قطار
آنکھیں کچھ ہلکی ہوئیں ،،،
دل سے جیسے چھَٹ چکا تھا غبار
کہ ،،،،،،،،،،،،،،،،،
اللہُ اکبر ، اللہُ اکبر کی صدا مسکرائی
اپنا ہی وجُود یوں ہوا ،
جیسے تتلی ، جیسے اِک پَرِ خیال
اور قطروں کے جھاڑ میں
دھل چکی تھیں عرضیاں
کچھ عجیب ہی ہوتی ہے
تلاشِ ،،، محبت کی یہ رات

( منیرہ قریشی، جمعہ 29 اپریل 2022ء واہ کینٹ ) 

ہفتہ، 23 اپریل، 2022

اِک پرِخیال " " سواد " ( ذائقہ )

اِک پرِ خیال "
" سواد " ( ذائقہ )
جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے ، لفظ " سواد " پنجابی زبان کا لفظ ہے، اردو میں اس کا متبال لفظ ہو گا "ذائقہ "،،، لیکن ہر علاقائی یا قومی زبان ،، میں اور بھی الفاظ ضرور ہوں گے ،، جو بولتے ہی اپنی حلاوت کا احساس دینے لگتے ہیں ۔
جب کسی خوش ذائقہ کھانے سے لطف اُٹھاتے ہیں ، تو کہہ اُٹھتے ہیں۔ " مزا آگیا ،، یا بہت ہی تعریف پر دل چاہا تو کہا " واہ آج تو سواد ہی آگیا " ،
بِعَینہٖ              جب ہم کوئی خوبصورت گفتگو ،، سنتے یا پڑھتے ہیں تو بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں ،،" بھئ لطف آگیا " آج تو بس سواد ہی آگیا ۔
کچھ یہی حال روذ مرّہ زندگی کے حالات و واقعات کا بھی ہوتا ہے ، جن کے پیش آنے سے جب طبیعت میں تناؤ کم ہوتا محسوس ہوتا ہے ،،،، یا ،، جب ہمیں خود اس احساس سے آگاہی ہوتی ہے ،،، کہ اس واقعہ یا اس منظر سے مجھ میں تبدیلی کا احساس اجاگر ہوا ہے ۔ تو ہم زبان اور دل میں کچھ عجیب سی حلاوت محسوس کرتے ہیں ۔ گویا جیسے اردو زبان کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہوۓ کیا ہی خوبصورت شعر کہا گیا ہے کہ اس کی حلاوت منہ میں گھُلتی محسوس ہوتی ہے ۔۔
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں ! !
بس کچھ ایسا ہی ذائقہ ،، ایسی ہی گھلاوٹ کا احساس پچھلے کچھ دنوں میں ہوا ۔۔ کہ جب چلتی ٹرین کو انجن ڈرائیور نے ایک ویرانے میں روک دیا کہ ،، کہ کچھ صحیح نہیں چل رہی ،،، دیکھ لوں کیا مسئلہ ہے ،، اور ساری ٹرین کے مسافر ،،، منہ اٹھاۓ باہر نکل آۓ ،، کہ جناب " سٹیشن چند میل دور ہی رہ گیا تھا ،، چلتی ٹرین کو وہیں تک جانے دیتے ،، مدد بھی پہنچ جاتی اور ہم بھی اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف آرام سے پہنچ جاتے لیکن ٹرین کی چابی جس کے ہاتھ میں ہو ، فیصلے کی طاقت بھی اسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
چنانچہ ،،،، یہی ہوا کہ کچھ مسافر سامان اُٹھا کے تیزی سے سٹیشن کی طرف چل پڑے اور زیادہ تعداد میں وہ تھے ، جنھیں انجن ڈرائیور پر نہ صرف غصہ تھا ، بلکہ وہ اس سے وجہ پوچھ رہے تھے ،، ان کے ساتھ نہ صرف سامان تھا بلکہ بال بچوں کی وجہ بھی انھیں اس ویرانے میں ٹرین کے روکے جانے کی وجہ معلوم کرنا تھی ۔ جس کا انجن ڈرائیور کے پاس کوئی جواب نہ تھا ،،،،،،، !
تو ،،، پھر یوں ہوا کہ پچھلے چند دنوں کے گھنٹوں کے حساب سے لیۓ گئے فیصلوں نے وہی کیفیت پیدا کر دی ،، جب ریت اور مٹی کا طوفان آۓ تو منہ اور آنکھیں ریت اور مٹی سے بھر جاتے ہیں اور کچھ دیر تک اسی کیفیت میں کچھ سمجھ نہیں آتا ،، یہ کیا ہو رہا ہے " ،،،،؟؟؟
اور جب ریت اور مٹی کو آنسوؤں کے پانی سے دھویا گیا تو ،،، پوری قوم اصل رہنما کی ایک آواز پر لبیک کہتی ہوئی گھروں سے نکل آئی۔۔۔ وہ سراپا سوال بن گئی ۔۔
٭- چلتی ٹرین کو ویرانے میں کیوں روکا ؟
٭- کیا ہم آج بھی بہتر سال پہلے کی نو آزاد قوم ہیں ، جسے اپنا اچھا برا نہیں پتہ چل رہا ،،جو غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے جائیں گے ؟؟؟
٭- کیا ہم گاۓ ، بکریاں ہیں ، کہ جن کی اپنی کوئی سوچ نہیں ۔ کسی کے بھی ہاتھ میں لاٹھی پکڑا دو گے ، ہم اسی کے پیچھے چل پڑیں گے ؟؟؟
٭- کیا ہمیں نئی دنیا کی کچھ خبر نہیں کہ وہ کہاں جا رہی ہے اور ،،، ہم کہاں کھڑے ہیں ؟؟؟
٭- ہم بہتر سال سے ایک ہی بات سنتے آ رہۓ ہیں ، اس لیڈرنے یہ اور یہ غلطی کر ڈالی اس لیۓ اس کو یہ سزا دینا ضروری تھی ،،، اور جنھوں نے کروڑوں ووٹ دیۓ ہوۓ تھے ،، وہ کس کھو کھاتے ؟
٭- کیا انجن ڈرائیور کو اپنے مددگار ڈرائیور سے مشورہ نہیں لینا چاہیۓ ، کہ تمہارا کیا خیال ہے ،، ؟ آخر کو تم نے اس ادارے کو دنیا کا نمبر ون بنا لیا ہے تمہاری معلومات کیا کہتی ہیں ؟
٭ لیکن ،،، انجن ڈرائیور کے ،، حواس معطل تھے ،، اور وہ ایک غلط فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی تاویلوں میں پڑ گیا ۔۔ کسی سے مشورہ تک نہ لیا گیا ۔۔
اور وہ یہ واضح پیغام بھول گیا
؎ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات ! !
یہی سجدہء غیر ،،، کس قدر حقیر کر چھوڑتا ہے ۔ تاریخِ دنیا بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔۔۔
تو ،،، پھر یوں ہوا کہ ، کہ لوگ ،، ایک قوم بن گۓ ،،اپنے گھروں سے کھانے کھا کر ، اپنے کراۓ خرچ کر کے ،، اپنے بال بچوں کے ساتھ نکل آۓ ۔۔ سب کا ایک ہی نعرہ تھا ۔
" ابھی تو ایک میرِ کارواں ملا تھا ، جس نے بیدار کیا کہ عزتِ نفس کیا ہوتی ہے ! ،، خودی اور خود داری سے سر اُٹھا کر جینا سیکھو ،، ہم کسی کے غلام نہیں ،، ہم کیوں سارا وقت ، ان غیر ملکیوں کے آگے ،، ہاں جی ،، ہاں جی کرتے رہیں ،،، ہم کمی کمین نہیں ،، برابری چاہیۓ ، برابری کی سطح پر بات کرو ،، تم ہوتے کون ہو ، ہمیں اپنے مفادات پر استعمال کرنے والے ؟؟؟ "
یہ کون ہے ؟ یہ کون سا منفرد میرِ کارواں بول رہا ہے یہ کس نے اذان بے وقت دی کہ خوابِ غفلت سے جگا دیا ،، ہمیں سچ بولنے والی زبان دے دی ، ہمیں سوچ دے دی ،، ہمیں اقبالؐؒ کا پیغام یاد دلا دیا ؟، ہاں ،،، ہمیں آزادئ نفس ( سیلف ریسپیکٹ ) کا ذائقہ یاد دلا دیا۔ ہمیں سر اٹھا کر ایک با عزت ، با شعور بندے ہونے کا سبق یاد دلا دیا ۔ ورنہ ہم تو انہی دو چودھریوں کو باریاں لیتے دیکھنے کے عادی ہو چکے تھے ۔ ہاں ہمیں اپنے نبیﷺ کے پیغامات کو با آوازِ بلند دہرانے کی جرات دی ،،،
اور یہ جرات تب ہی آتی ہے جب میرِ کارواں کے دل میں لوگوں کے ہجوم کو قوم بنانے کا احساس نظر آنے لگے ۔ جب اسے اللہ کے آگے پیشی کا خیال ہو جاۓ ۔۔۔ تب آزادی کا وہ سواد ، ، وہ ذائقہ محسوس ہونے لگا جب اس خطے نے پہلی دفعہ قائد رح کی سرکردگی میں چکھا ہوا تھا ،،،، اور بہتر سال بعد اس میرِ کارواں نے جسے " عمران خان " سے ہی پہچان نہیں ملی ،، اس کے خلوصِ نیت نے اسے پہچان کروائی اور اب اسے دنیا یاد رکھے گی کہ اس نے ایک ہی ڈنڈے سے ہانکے جانے والی قوم کو ،غیر ملکی امداد کی افیم میں ڈوبی قوم کو " سوادِ آزادئء نفس چکھایا ،، ذائقہء آزادئء سوچ دیا ،، سر اٹھا کر جینے کا فخر کیسا ہوتا ہے ، اس کو یہ سواد بھی چکھا دیا ۔
اسی میرِ کارواں کا پیغام کچھ یوں ہے،
میں اس شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں ، خواب دیکھتا بھی نہیں
اسی قومی اعتماد اور عزتِ نفس کے" احساس" کو محسوس کرنے کے بعد ،
،،سوشل،میڈیا پر لا تعداد لوگوں کے جذبات کے بعد ،،، خانہ کعبہ اور روضہء رسولﷺ کے باہر آنسوؤں سے پاکستان کے لیۓ ایف آئی آر لکھوانے کے بعد ،،،،،،،
کہہ سکتی ہوں ۔۔۔ بھئ " سواد " آگیا ،، لطف آگیا " الحمد للہ ، الحمد للہ !!

( منیرہ قریشی ، 23 اپریل 2022ء واہ کینٹ ) 

اتوار، 20 فروری، 2022

" اِک پرِخیال ۔۔ حرمتِ الفاظ "

" اِک پرِ خیال "
" حرمتِ الفاظ "
الحمدُ للہ ، کہ 17 فروری 2022ء کو دوسری کتاب " اِک پَرِ خیال " کے عنوان کے تحت چھپ کر آگئی ،، اور اللہ سبحان و تعالیٰ نے مجھے زندگی میں ایک اور خوشی عطا کی ۔
" اک پرِ خیال " کے تحت چھوٹے بڑے مضامین کا سلسلہء 2015ء سے لکھ رہی تھی ، لیکن چند مضامین کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ۔ درمیان میں خانہ بدوش گروپ میں بہت سی نظمیں شیئر کرتی رہی ،،، ساتھ ساتھ نثر میں پہلے تو آپ بیتی ، " یادوں کی تتلیاں " کے عنوان کے تحت کچھ یادیں لکھیں ،،، پھر ساتھ ساتھ کچھ اسفار کا ذکر بھی چلتا رہا جس کا عنوان " سلسلہء ہاۓ سفر " تھا ۔۔۔ اور اک پَرِ خیال کے تحت انشائیۓ کا ٹوٹا سلسلہ پھر سے جُڑا ۔ اور 2018ء سے باقاعدگی سے مضامین لکھنے کا موقع ملا ۔ اور پھر اللہ پاک نے کبھی جو خیال دل پر القا کیا ،، اسے ایک مضمون کے طور پر لکھا تو اچھے تبصرے بھی ملتے رہۓ اور کچھ کندھے اُچکا کر رہ گۓ ہوں گے ۔
ان مضامین میں کوئی ایسے منفرد یا انوکھے خیالات نہیں ہیں ۔ لیکن میرے لیۓ یہ الفاظ ،، یہ خیال انتہائی قیمتی اور محترم ہیں ۔ اس لیۓ کہ وہ میرے ہیں ،، خالص میرے اپنے ۔ میں نے کسی کی پیروی کا کبھی نہیں سوچا ۔ شاید اس اندازِ تحریر کو ادب کے کسی خانے میں جگہ نہ مل سکے ۔ لیکن مجھے اس کے لیے کوئی چاہت نہیں ۔
اپنی لکھی تمام کاوشیں ،،، اپنے گروپ خانہ بدوش میں جمع کرتی چلی گئی ،، اس گروپ کے کُل 56 ارکان ہیں ، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مجھے ان مختصر تعداد کے با ذوق احباب کے ساتھ کی ہی بہت خوشی ہے ۔ کہ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے ۔
ہر شخص کےلیۓ جو لکھا جا چکا ہوتا ہے کہ کون سا قدم کہاں رکھے گا ؟کیا رزق کہاں کھاۓ گا ؟۔۔۔ بہ عینہ کوئی اس کی زندگی کا اہم کام بھی اپنے وقت پر ہوتا ہے ۔ بالکل اسی طرح ،، 45/46 سال سے لکھتی نظمیں اور نثر کو خانہ بدوش میں شیئر کرتی رہی اور پہلی دفعہ 2021ء میں پہلی کتاب جو آزاد نظموں پر مشتمل تھی 13 فروری 2021ء کو ہاتھوں میں تھامی تو اس خوشی کی سر خوشی کا عالم سال بھر بخار کی طرح چڑھا رہا ۔ ،، اور چوں کہ پبلشر ،، میرا سارا لکھا مواد فلیش میں کشید کر کے لے گیا تھا ،، اب اسے سبھی کتابوں کو ترتیب دینے کے لیۓ بہت وقت دینا پڑا ،، اور مجھے استاد ہونے کا فائدہ اس دن سے زیادہ محسوس ہورہا ہے کہ میں نے اگر کہہ دیا کہ " عمر بیٹا ،، یہ کتاب ابھی پیچھے اور وہ کتاب آگے کر دو تو ،، بچے نے سر جھکا کر مجھے مکمل مان دیا ۔ اور وہ اسی کتاب پر توجہ کرنے لگتا ،، اس کا تعاون ہی میرے لیۓ حوصلے کا باعث رہا ۔ لیکن آخر کار دوسرے نمبر پر " اک پَرِ خیال " کے چھپنے کا لمحہ آگیا ،، اور فروری 2021ء کے بعد پھر 17 فروری 2022ء میرے لیۓ اہم ترین مہینہ بن کر آیا، اور مجھے زندگی کے اور سنگِ میل کو پار کرا دیا ، الحمدللہ ۔
جب یہ دوسری کاوش ہاتھ میں آئی تو " پر جیسا ایک خیال "ذہن میں آیا کہ جب کبھی اپنے اپنے وقت کے جابر اور مختارِ کُل حکمران کسی علاقے کو فتح کرتے تھے تو اکثر اس علاقے کے صنعت کاروں ، علماء ، اساتذہء کرام ،، بچوں ، ضعیفوں ، ہنر مندوں کو چھوٹ دے دیتے اور امان کا مظاہرہ کرتے تھے ۔۔۔ کیا پتہ ( یقینا") وہ شہنشاہوں کا شہنشاہ ،،، اس دن اس وجہ سے چھوٹ دے دے ۔، کہ ۔
"" یہ ہنر مند ہے کہ خیالوں کو الفاظ میں سمیٹا ،، اساتذہ کی قطار میں بھی ہے اور ضعفاء میں بھی شامل ہے ۔۔ تو رحم و کرم کی پھوار ہو گی تو چھُوٹ تو بن سکتی ہے ،، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
اپنی اس دوسری کتاب پر اپنے سبھی احباب کا شکریہ ۔ ادا کرتی ہوں ۔ کہ یہ حوصلہ افزائی ہی مجھے یہاں تک لے آئی ہے ۔
(منیرہ قریشی 20 فروری 2022ء واہ کینٹ)