بدھ، 28 اگست، 2024

"دیباچہ "

دیباچہ "
دیکھا جائے تو کائنات میں دو رنگ حاوی ہیں ,ہلکا نیلا اور سبز ! نیلا آسمان ، نیلا پانی ، نیلی آنکھ اور نیلے رنگ کی دنیا میں جابجا بہاریں الگ ۔جب کہ سبز رنگ سبز درخت ، سبز پہاڑ اور بہت سے سبز دریا اورپھر ساتھ ہی سبز کی دنیا میں الگ ہی جہتیں ،،، کہ سمجھ نہیں آتا کہ سبز کے اتنے شیڈز کہ ان کے منفرد نام رکھنے اور لینے کے لئے کچھ لمحے سوچنا پڑتا ہے ، زمردیں ، سمندری سبز ، کاہی سبز ، یا پھر ہلکے پیلے سبز .گویا اللہ نے ہر رنگ کو صرف رنگ کے طور پر ہی تخلیق نہیں کیا بلکہ اس میں ہلکے سے لے کر گہرے سے گہرا شیڈ ایسا بنایا کہ رنگوں کی ہوس رکھنے والی آنکھوں کی تسکین ہو سکے۔
درختوں کی اپنی ذاتی شکل و قامت ، رنگوں کے مختلف النوع شیڈز ، پتّوں کی بناوٹ ، تنوں کی موٹائی ، چوڑائی اور پھر ان میں چھُپے خواص و صفات ! یہ سب دیکھ کر انسان مسحور نہ ہو تو کیوں کر نہ ہو ۔ اور جب یہ احساس جاگ جائے کہ یہ درخت میرا انتظار کرتا ہے ، مجھے بلاتا ہے اور کچھ کہنا بھی چاہتا ہے شاید وہ کچھ دکھی ہے نہ جانے کیا دکھ سمیٹے کھڑا ہے۔
والدین فطرت کے شیدائی رہے ۔ جس کے اثرات اولادپر ہونا ہی تھے اور بچپن سے ہی درختوں ، پودوں کی محبت اور صحبت ہماری فطرت کا حصہ بن گئی ۔ بچپن ایک شہری گھر میں گزرا جس کے صحن میں 70 یا 60 کے قریب گملوں کی قطاریں تھیں جیسے کوئی نرسری ہو ۔ صحن کے درمیان میں کسی کا تحفہ دیا سفیدے کا درخت اور اس پہ مستزاد ، صحن کے دونوں اطراف چنبیلی اور موتیا کی بیلیں ۔ یہ وہ پُر بہار اور سر سبز ماحول تھا جس میں آنکھ کھولی ۔ اور پھر درخت اور سبز رنگ ہمارے ساتھ ساتھ رہے ۔ سفیدے کے اس درخت نے تیز رفتاری سے قد نکالا ، اور جب شمالی ہوا چلتی تو وہ پورے زور و شور سے جھومتا کہ جیسے ہوائیں اس کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہی ہوں ، اور وہ دھمال ڈال رہا ہو۔ میرے لئے اس کا یہ رُخ بہت دلچسپی کا باعث رہا ۔
کچھ وقت اور گزرا ،میرے جُڑواں بہت خوش مزاج بچپن گزار رہے تھے ۔ وہ چہکتے پرندوں کی طرح اپنی مدھر آوازوں سے ہر وہ گانا گاتے ، جو ان دنوں ٹی وی پر مقبول ہوتے ، وہ گھر کے پچھلے باغیچے میں لگے لوکاٹ کے درخت کے نیچے زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ۔ خاص طور پر لوکاٹ کی ایک ٹہنی ان کی پہنچ میں تھی جس پر روزانہ دو تین گھنٹے گزارنا از بس ضروری ہوتا ۔ کہ چھ سال کی عمر آتے ہی ایک جان کو خالق کے پاس جانا پڑ گیا اور دوسرے کی دلچسپی لوکاٹ یا اس کی ٹہنی پر جھولنا یکسر ختم ہو گئی ۔ چند ماہ تک اپنے اندر کی دنیا کو نارمل کرنے کے بعد پچھلے لان میں گئی اور یہ دیکھ کر حیران تھی کہ لوکاٹ کا سارا درخت ہرا بھرا تھا لیکن وہی ٹہنی سوکھ رہی تھی جس پر وہ بلا ناغہ بیٹھتے تھے ، مزید چند ہفتے گزرے اور ٹہنی ٹوٹ کر گر چکی تھی ۔ درخت کی حساسیت ، اور کرب و غم کے اس واقعہ نے مجھے درختوں کی صحبت اور ان کی زبان کے مزید قریب کر دیا ۔ بہت بعد میں علم ہوا کہ درخت صرف سانس لینے والی مخلوق نہیں بلکہ وہ تو باتیں کرتے ہیں ، احساسات کی دنیا بسائے پوری دنیا کے درختوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں ۔ انھیں دکھ اور خوشی کا بھرپور اظہار کرنا آتا ہے اور ان کی دنیا میں انسانی یا جنگلی مخلوق کے لئے وسعتِ قلب ہے ، اسی لئے تو جہاں درخت ہوں وہاں ، رنگ ، خوشبُو ، جنگلی حیات ، اور ہواؤں کے ساتھ رقصِ درویش کرنے سے ہی فطرت کی مکمل تصویر سامنے آ جاتی ہے ۔
درختوں پر لکھی کتاب "جنگل کچھ کہتے ہیں" کو جب مکمل کر لیا تو انتساب کا سوچا اور سوچ نے لمحہ بھی نہ لگایا کہ
" ببول کا وہ درخت ، جو مقام حدیبیہ میں ایک چھتنار درخت کی طرح موجود تھا اور جس کا ذکر سورہ فتح میں اللہ شان جل جلالہ' نے بہت اہمیت کے ساتھ کیا ہے ۔ جس کے سائے تلے ، ایک خاص وقت میں کائنات کی عظیم ترین ہستیؐﷺنے چند ارفع ساتھیوں کے ساتھ وہ معاہدہ کیا کہ ایسا منظر شاید ہی کسی اور درخت کے سائے تلے نظر آیا ہو " یہ درخت اس اہم واقعہ کے دو چار سالوں کے اندر وہاں سے ایسا ناپید ہوا کہ جیسے وہ سر زمینِ حجاز پر تھا ہی نہیں ۔ شاید اس درخت کو اس پاکیزہ ڈیوٹی کے بعد دنیا میں اپنا مقصد حیات پورا ہوتا محسوس ہوا اور مالک حقیقی نے اسے اوجھل کردیا میں نے " جنگل کچھ کہتے ہیں " کی کتاب کا انتساب اسی پاکیزہ ڈیوٹی دے کر چلے جانے والے ببول کے درخت کے نام کیا ہے ۔
منیر نیازی کا ایک خوبصورت شعر ہے ،
؎ ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو
جو شخص سُنتا ہے، وہ بول بھی تو سکتا ہے
مجھے یہ شعر صرف ایک لفظ کی تبدیلی سے اپنی کتاب میں
لکھے خیالات کی عکاسی کرتا محسوس ہوا ،جو معذرت کے ساتھ لکھ رہی ہوں،
؎ ۔ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو
جو "درخت " سُنتا ہے،وہ بول بھی تو سکتا ہے
منیرہ قریشی
اردو بلاگر"خانہ بدوش"
munirazafer.blogspot.com
یکم اکتوبر 2024
واہ کینٹ