اتوار، 15 اکتوبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں"(30)

یادوں کی تتلیاں " ( 30 )۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مجھے اس وقت اباجی کے دوستوں کا رنگارنگ حلقۂ احباب یا د آگیا ، کچھ دیر کے لیے میں ذرا انہی کے ذکرِخیر کی طرف آنا چاہوں گی ، اباجی پاکستان کے پہلے مارشل لاء کے دوران کراچی میں تعینات ہوگئے ،، فوجی حکومت آتے ہی اِن کے پاس لاتعداد ایسی عرضیاں آئیں جس میں اُن کی شکایات تھیں کہ ہمیں انصاف دلایا جاۓ ، کسی کی زمینوں پر ، تو کسی کے جبری مشقت کے تحت وڈیروں ، امیروں کی قید میں خاندان کے خاندان زندان میں ہوتے اور ایسا کئی سالوں سے ہو رہا تھا۔اس دوران اباجی کے پاس ایک عرضی بھیجی گئی ، اباجی نے اس شکایت کنندہ کو بھی بلایا ، وہ حیدر آباد سے، اندرونِ سندھ سے تعلق رکھتے تھے کافی خوشحال زمیندار تھے ، باغوں کے بھی مالک ، لیکن حددرجہ سادہ مزاج اور شریف بندہ ! اس کی سادگی اور شرافت سے فائدہ اُٹھا کر کچھ قریبی لوگوں نے اس کی کافی زمینوں پر کئی سالوں سے قبضہ کر رکھا تھا اباجی کو شاید ایسے بےبس انسان زیادہ بھا جاتے تھے کہ فوراً عمل درآمد شروع ہوا اور چند ہفتوں میں معاملہ کلیئر ،،، زمینیں اصل مالک کے پاس اور وہ سندھی بھائی جن کا پورا نام میرے ذہن میں نہیں رہا لیکن " عالم صاحب " کہا جاتا تھا ! ان کا خوشی کا یہ حال کہ اباجی کو پیر و مرشد کی طرح ماننے لگے ، اور شکریے کے طور پر اباجی کا آفس " بہترین آموں " سے مہک گیا ( اباجی میس میں مقیم تھے ) یہ محبت بھرا اظہار تین سال جاری رہا ۔ اباجی کراچی میں ڈھائی ،تین سال رہے کہ اس دوران ان کی جیپ کا ایکسیڈنٹ ہوا ، کوئی سیریس انجری نہیں ہوئی ۔ لیکن اماں جی نے پہلی دفعہ پنڈی سے کراچی تک کا سفر کیا ،اور کراچی بھی پہلی مرتبہ دیکھا ، کچھ دن رہ کر آگئیں اور پھر کچھ ماہ بعد اباجی کو واپس پنڈی ٹرانسفر کر دیا گیا ۔ وہ جی ایچ کیو کے تحت تھے ، اب ان کے آنے کے بعدجب پہلی گرمیاں آئیں تو ایک دن فون آیا کہ ریلوے سٹیشن پر آپ کے نام کی دو پیٹیاں آئی ہیں ، اردلی نے جا کر وصولی کی ، اور اباجی بھیجنے والے کا نام پڑھ کر مسکراۓ ۔ اماں جی کو بتایا کہ یہ قصہ کہانی ہےاور عالم نے کسی طرح میرا ایڈریس لیا اور یہ تحفہ بھجوا دیا ۔ یہ اس کی شکریے  کی روایت ہے جو نبھا رہا ہے ۔ آموں کی یہ اتنی اچھی قسم تھی کہ خوشبو بند پیٹیوں سے نکل نکل جا رہی تھی ، ایک آم ، ایک ایک کلو کاتھا ، اور حسبِ معمول اماں جی نے ایک ایک آم آس پاس کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو بھجواۓ ، ،، اور سب نے اس پُرخلوص تحفے کی تعریف کی۔ 
جب ہم واہ شفٹ ہو ۓ تو نئی  جگہ میں پرانی باتیں ذہن سے محو ہو گئیں ! ہم ستمبر میں شفٹ ہوۓ ، اور سخت گرمیاں آئیں تو7،8 ماہ گزر چکے تھے!ایک دن دو پیٹیاں وہاں پہنچ گئیں ، اور ہم مان گئے کہ انسان اپنے محسنوں کو یاد رکھنا چاہے تو وہ کسی نا کسی طرح یہ سلسلہ چلا سکتا ہے ۔ لیکن ہمارے پڑوسی اور اباجی کے آفس کے احباب نے ان کو خوشی سے وصول کیا ۔ یہ سلسلہ 68 ءتک چلا اور بعد میں ایک سال ناغہ ہوا لیکن اس سے اگلے سال پھر پیٹیاں آئیں اور ساتھ ایک خط بھی ۔جس میں درج تھا والد صاحب پچھلے سال انتقال کر گئے اور انھوں نے مجھے اس روایت کو جاری رکھنے کا کہا تھا ، میں شرمندہ ہوں کہ پچھلے سال آپ کا ایڈریس نہیں مل سکا تو ناغہ ہو گیا ، اباجی نے  فوراً ٹیلی فون پر تعزیت کی اور اسے سختی سے منع کیا کہ آئندہ ایسی فکر کی ضرورت نہیں کہ والد کی بات کو آگے چلاؤ ،،، لیکن اگلے 4، 5 سال پھر بھی پیٹیاں آتی رہیں ، کیا آج ہم اپنی اولادوں کو ایسی نصیحت کریں تو وہ یہ روایت چلا سکیں گی ؟؟
!ان کو تو شاید اصلی نصیحتیں بھی یاد نہ رہیں ، آنکھ بند ،اور نصیحتوں پر دھول 
!لیکن ایک دن اباجی نے اسے سختی سے منع کیا کہ اب یہ قصہ ختم کرو ، تب آم آنے بند ہوۓ
اباجی کے دوستوں میں ہر مذہب ، ہر مسلک ، ہر علاقے کے لوگ تھے ۔ چونکہ اباجی کا بچپن ،صوبہ سرحد میں گزرا تھا اور ان کی پشتو مادری زبان کی طرح تھی اس لیے ان کے دوستوں میں پشتون لوگ زیادہ تھے ، اباجی کے آفس میں کبھی ہمیں بھی جانے کا اس وقت موقع مل جاتا جب اماں جی ڈاکٹر کے پاس گئی ہوتیں ، تو وہاں ایک صوبیدار میجر اسحٰق خان خٹک ہوتے تھے جو ہم سے بہت پیار سے ملتے اور ضرور کچھ نا کچھ کھلاتے ۔ بعد میں پتہ چلا اباجی اور ان کی ایک قدرِمشترک تو یہ تھی کہ پکے سچے پاکستانی ، کوئی تعصب نہیں ،، اور دوسرے دونوں حضرت علامہ اقبالؒ کے عاشق ، جب انھوں نے بتایا۔ میری ایک بیٹی کا نام منیرہ ہے ، تو اباجی نے بھی اپنی بیٹی کے نام کا ذکر کیا ، انکے بیٹوں کے نام تاریخی ہستیوں کے نام پر تھے ۔ راس مسعودخٹک ، خالد خٹک اور طارق خٹک ،،،، دونوں کے درمیان شاعری کے اس ذوق نے ایسی محبت ڈالی کہ اگلی نسل تک یہ محبت اور احترام چلا ، راس مسعود خٹک ،اباجی کی وفات تک دونوں عیدوں پر انتہائی احترام اور محبت بھرا خط لکھتے رہے اباجی کو " محترم چچا جان " لکھتے اور والد کی وفات کے بعد بھی کوہاٹ سے ہمارے گھر چکر لگاتے رہے ۔ جب اباجی بھی فوت ہو گئے تب بھی انھوں نے ہائی شوگر کے باوجود آنا جانا رکھا ،حالانکہ ان کی نظر بھی متاثر ہو چکی تھی ، اسحاق چچا کی دی ہوئی شیشے اور "تلے کے کام " والی کوٹی ایک عرصہ میں نے پہنی اور بھائی کو کوہاٹی چپل تو اکثر ملتی رہی ! ان کی بیٹیاں آج بھی رابطے میں رہتی ہیں ! ہم سب بوڑھی ہو گئی ہیں ، اور ہماری مصروف ترین زندگی نے ہم سے محبت کے بہت سے زمزمے" دور کر دیے ہیں جس کا مجھے بے حد افسوس ہے یہ وہ لوگ ہیں جو سراپا اخلاص ہیں اور صحیح معنوں میں"خاندانی"
!کا لفظ ان پر صادق آتا ہے 
؎ مٹی کی مورتوں کا ہے میلہ لگا ہوا 
آنکھیں تلاشتی ہیں انساں کبھی کبھی
(منیرہ قریشی ، 15 اکتوبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں