جمعرات، 1 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں(سلسلہ ہائے سفر)سفرِحج(5)۔

یادوں کی تتلیاں " ( سلسلہ ہاۓ سفر )۔"
 سفرِِ حج " (5)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اگلے دن صبح اشراق کے بعد ، بھرپور ناشتہ کیا ، اور پاشا نے ایک بہت پرانی لیکن خوب بڑی سے کھٹارا ٹیکسی ہائر کی ،، کیوں کہ ٹیکسی کی اگلی سیٹ جو اچھی بڑی تھی اس پر یہ ہی دونوں دبلے لڑکے آرام سے بیٹھ گۓ اور ہم تینوں اور اقبال بھائی پچھلی سیٹ پر ،،، یہ ٹیکسی ڈرائیور ذرا بزرگ سا تھا ،لیکن خوش مزاج تھا ،، اگرچہ وہ بھی صرف عربی ہی جانتا تھا ۔ 
ہارون پاشا ، اقبال بھائی کا بھتیجا تھا ، اور بنک مینیجر تھا ، یہ سارا خاندان خوش مزاج ہے۔زندگی کو ہلکےپھلکے انداز سے گزارنے کا گُر جانتے ہیں ، اور اتفاق سے ان کے خاندان کے جتنے ممبرز سے ملی ہوں ، چاہے بچے ہی ہوں ،،، ان میں حسِِ مزاح کافی ہے ،، یہ ہی وجہ تھی کہ پاشا کی طرف سے ہاشم کو دوستانہ ہاتھ بڑھانا ، کوئی مشکل نہیں لگا ،،،لیکن اس سے یہ ہوا کہ ہاشم کو ایک اچھا دوست مل گیا ،اور ہمارے اکتالیس دن بہتر ہی نہیں ،، بہترین گزرے ۔ الحمدُللہ !۔
پاشا کی پُرمزاح باتوں سے ہم سب لطف اندوز ہوتے ،، اور ہر روز وہ ایسے چٹکلے سناتا کہ ، جو مزاق تو ہوتے ہی تھے لیکن معلومات بھی مل جاتی ۔ اسی نے بتایا کہ ہمارے مکہ پہنچنے کے شاید چوتھے دن ، تین پاکستانی بزرگوں کی ایک ٹولی جب خانہ کعبہ پہنچی تو یہ سامنے ہی مل گیا ، کہنے لگا " میں سمجھ گیا کہ ان بزرگوں کے ساتھ کوئی سمجھ دار گائیڈ ہے ہی نہیں اور دوسرے وہ خود اپنے تئیں عقل مند بنے ہوۓ تھے ،، انھوں نے مجھے دیکھا تو ساتھ ہی کہا " پُتر تو ہمیں طواف کرا دے ہم تجھے پیسے دیں گے " ،، پاشا نے کہا ،، چلو بزرگوں کیا یاد کرو گے ، مَیں مفت عمرہ کرا دیتا ہوں"،، اب دیکھا کہ ان کے احرام بھی ڈھیلے بندھے ہوۓ تھے ، پہلے وہ ٹھیک کرواۓ ، پھر سات طواف شروع ہوۓ ، انھیں گائیڈ کیا گیا کہ یہ حجرِ اسود ہے ، یہاں سے طواف شروع ہوا ہے وغیرہ ،،، پہلے طواف کے بعد پیچھے مڑا تو دیکھا تینوں بزرگ زم زم پینے کولرز کی طرف چل پڑے ، پاشا نے سوچا ، پیاس لگ گئی ہوگی ،، دوسرا طواف ختم ہوا تو ، پھر بزرگ حضرات پانی پینے چلے جا رہے ہیں ،،، پاشا نے کہا ۔۔ آپ کو پیاس لگ رہی ہے تو بزرگوں نے کہا " " ہمیں تو گاؤں میں گائیڈ کرنے والے نے کہا تھا ہر پھیرے کے بعد زم زم پینا ،،، یہی وجہ تھی کہ پاشا ، کو ہر دو پھیرے کے بعد واش روم تک پہنچانے کی ڈیوٹی بھی دینی پڑی ،،، طواف کی حد تک تو پاشا چُپ رہا لیکن سعی شروع کرنے کے ساتھ ہی اس نے بزرگوں کو سختی سے منع کیا کہ یہ عمرے کا رکن نہیں کہ آپ ہر پھیرے پر زم زم پیئیں ،، لیکن اِس نے ان کا عمرہ کروایا تو آتے وقت ، انھوں نے پوُل کر کے اسے پیسے دینے چاہے ،،، تو اس نے ہنس کر کہا میرا معاوضہ " دعائیں " ہیں ،، لیکن آگے اگر ضرورت پڑی تو یہ پیسے گائیڈکے لیۓ رکھیں ، اپنے پیسے اس طرح سرِعام کھول کر نہ بیٹھیں ،،، اس واقعہ سے بھی ہمیں اپنے پاکستانیوں کی لاعلمی اور کوئی ٹریننگ لیۓ بغیر چلے آنے کا پتہ چلتا ہے ،، دوسرے اتنے بزرگ اور سادہ لوگوں کے ساتھ ایک جوان بچے کا ہونا ضروری ہوتا ہے ،،،،، اب پاشا نے ٹیکسی ڈرائیور کوبھی ' چاچا " بنا لیا اور اپنی " کمزور ترین عربی " پر طبع آزمائی کرنے لگا " چاچا ٹیکسی" قدیم" ،، تو چاچا مسکراتا رہتا ،،،، جیسے ہی ٹیکسی تیز چلتی ، ، پاشا نعرہ لگاتا " چاچا ٹیکسی" جدید" " !! اور ایسے ہی ہنسی بکھیرتے ہم میدانِ عرفات پہنچ گۓ ۔ یہ جگہ مکہ سے محض پانچ میل دور تھی ،،، او ر پھر بھی حج کے دوران نمازیں ، قصر کر کے پڑھنے کی سہولت دی گئی ہے ۔اِس وقت سفید مضبوط خیموں کا سمندر تھا ،، اور خاموشی تھی ،، اِکا دکا عمارات بھی تھیں ۔ ابھی اُس منظر کا احاطہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ حج کے دنوں میں کیا منظر ہو گا،،، پندرہ ، بیس منٹ رکے ،، اور پھر عرفات کی طرف چلے ،، یہاں بھی ایک ویرانی تھی ،، چند ہی بسیں حاجیوں کو پھرانے آئیں ہوئی تھیں ۔ البتہ جبلِ رحمت پر کھڑے ہو کر دور تک نظارہ کرنا اچھا لگا ،، بڑے چھوٹے گول پتھروں سے بنی یہ پہاڑی ، چڑھنے میں مشکل ہوتی اگر یہاں خوب چوڑی سیڑھیاں نہ بنی ہوتیں ،،، اب نہ صرف چل سکنے والوں کے لیۓ سیڑھیاں تھیں ، بلکہ جو لوگ سیڑھیاں بھی خود سے نہیں چڑھ سکتے تھے وہ اونٹ پر بیٹھ کر سیڑھیاں طے کرلیتے ہیں ،،، یہاں اونٹ اسی طرح خوب سجے سجاۓ تھے جیسے ہمارے کراچی کے ساحلِ سمندر میں نظر آتے ہیں ،، مختلف سوینئر ز کے سٹال بھی تھے ،، لیکن افسوس ناک بات یہ تھی کہ بے شمار فقیر بھی موجود تھے ، جو بہت ذبردست تیاری سے اپنے پیشے سے فائدہ اٹھانے پہنچے ہوۓ تھے ،، اور یہ سب ، پاکستان ، انڈیا ، سری لنکا ، بنگلہ دیش کے ممالک سے تھے ،،،،ان میں عورتیں اور مرد سب تھے ،،، پتہ چلا کہ ہر سال یہ حج سیزن میں ہوشیاری سے پہنچ جاتے ہیں ،،، ( اب کی صورتِ نہیں معلوم ) ۔۔
یہیں ہم نے مسجدِ نمرہ دیکھ لی ،، ورنہ حج کے دنوں میں مشکل ہوتا اگلی منزل مزدلفہ تھی ،،، اسے بھی سرسری سا ہی دیکھا ،، کہ ان سب کی اصل اہمیت یہاں ایک ایک رات یا چند گھنٹے گزارنا تھا ،،، اس کے بعد غارِثور پہنچے تو نیچے ہی جو بورڈ لگے ہوۓ تھے ،، اس میں واضح تھا کہ " غار کو دیکھنے جانا سنت سے ظاہر نہیں کہ آپ ضرور جائیں " اس لیۓ مت جائیں " اوپر نگاہ ڈالی تو کچھ باہمت لوگ اس سیدھی پہاڑی پر نظر آۓ ۔ لیکن ہم نے ، کرنل اجمل " کی بات کو بھی دماغ میں رکھا کہ اپنی توانائی حج کے لیۓ رکھیں ۔ اور پھر غارِحرا پہنچے تو یہاں اب دوپہر کے دو ڈھائی ہو چکے تھے ،، ابتدائی راستے میں ایک دکان تھی جو کھوکھا سا تھا ،، لیکن اس میں سٹون والی جیولری پڑی تھی ، دیکھتے ہوۓ ہم نے کہا یہاں کافی مل جاتی تو اچھا ہوتا ،، اسی کھوکھے والےنے فوراً اپنی دکان کا پچھلا پردہ ہٹایا تو چار بندوں کے بیٹھنے کی صاف ستھری جگہ دکھائی کہ یہاں بیٹھیں میں کافی کا انتظام کر دیتا ہوں ، وہ بھی ایک بنگلہ دیشی تھا ،، دونوں لڑکے دکان کے باہر پیڑے لے کر بیٹھ گۓ اور کافی آنے تک اندازہ کرتے رہے کہ غارِحرا تک جایا جاۓ یا نہیں ،، ہم عورتوں نے تو ہمت کرنے سے انکار کر دیا ، اور اقبال بھائی کو نگہت نے کہا آپ بھی ہمت نہیں کر سکتے ،،، دونوں لڑکوں نے البتہ صلاح کی ، کسی اور دن آکر اوپر جایا جاۓ۔ لیکن یہاں بہت سے با ہمت لوگ غارِحرا تک جاتے نظر آۓ ، بلکہ چند عورتیں بھی تھیں ،، گرم گرم کافی کے ساتھ سینڈوچ بھی مل گئے ، ڈرائیور بھی ہمارا مہمان تھا اور وہ خوش تھا ،یا خوشی کا اظہار ضرور کر رہا تھا۔
اور پھر وہاں سے سیدھے مسجدِ جن ، آۓ وہاں دو نفل پڑھے۔ مسجد کا کونا کونا دیکھا ،، عصر پڑھی، دعا بھی کی شاید کوئ جن مل جاۓ جو یہاں کا کچھ مزید احوال بتا دے ۔۔ خیر یہ ایک خیال تھا !!اور اس ضروری ، اور اہم سفر سے واپس سیدھے حرمِ کعبہ پہنچے کی کچھ دیر میں مغرب ہونے والی تھی ، اور ٹیکسی ڈرائیور کو توقع سے ذیادہ دے کر خدا حافظ کیا تو وہ خوشی سے کہنے لگا یہ میرا موبائل نمبر ہے ، پھر ضرورت ہو تو رِنگ کر لینا ،،، یہ سارے جملے اس نے ٹھہر ٹھہر کر آسان ترین عربی میں ادا کیۓ ،، شکراً کہہ کر رخصت کیا ،۔
( منیرہ قریشی ، 31 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں