منگل، 10 اپریل، 2018

سفرِدبئی(1)۔

" سلسلہء ہاۓ سفر" 
دوبئی " ( قسط اول )۔"
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں ، سکول کے میرے مصروف ترین دن ختم ہو گۓ ، جوجی اپنے بچوں کے پاس انگلینڈ جا چکی تھی،، چھٹیوں میں یہ بھی مصروفیت ہوتی ہے کہ ہم دونوں کچھ لمبے ، کچھ چھوٹے پروگرام بنا لیتیں ، اگر نزدیک کا ہے تو بچوں میں سے جو بھی ساتھ چلے ، ورنہ لمبے سفر میں ہم دونوں کا یا " شاہدہ " کا ساتھ مل جاتا تو چل سو چل !لیکن شاہدہ بھی سال میں ایک دو چکر کینیڈا کے لگاتی ہے کہ اسکے سب بچے وہیں ہیں ۔ میڈم شیما زاہد کی بےمثل ذمہ دارانہ شخصیت کی وجہ سے ہمیں بہت حد تک بےفکر رکھا ہوا تھا ۔ کہ اگر ہم کہیں پروگرام بنا بھی لیں تو ہمیں علم تھا کوئی بھی " مسئلہ" ہوا وہ سنبھال لیں گی  اور ویسے بھی 2009ء کے ملائیشا اور تھائی لینڈ کے سفر کےبعد میَں نےکسی دوسرے ملک کا سوچا بھی نہ تھا۔ 
چھٹیوں میں بہوئیں اگر اپنے میکے میں کچھ عرصہ گزارتی ہیں ،، تو اکثر دوسرے شہروں کی بیٹیاں ، میکے آکر " کچھ تبدیلی" کے دن گزارتی ہیں ، اور یوں ہر طرف یہ سلسلہ ، یا " سرکل " چلتا چلا جاتا ہے ،لیکن جب آپ عمر کے اُس دور میں آجائیں جب ہم ہی دوسروں کا میکہ ، دوسروں کا سسرال ، یا دوسروں کے لیۓ چھٹیاں گزارنے کا مرکز بن جائیں ، تو اپنی ترجیحات بدلانی پڑتی ہیں ،، بیٹیاں تو واپس والدین کے گھر میں آکر ، آرام سے پھر بھی نہیں بیٹھتیں ، بلکہ ماں کے گھر کے کونوں کھدروں کی صفائ ، ستھرائ میں جُت جاتی ہیں ، گویا ان کی چھٹیاں بھی ایک اور طرح کی ذمہ داریاں نبھاتے گزارتی ہیں ۔
۔2013ء کا جون آچکا تھا ، میَں نے اپنے داماد کامران کے ساتھ صلاح کی " کیا خیال ہے اس دفعہ نشل اور بچوں کو " سرپرائز " دوں "،،، اس نے پوچھا تو میں نے کہا تم نشل کے اور بچوں کے پاسپورٹ مجھے بھجوا دو ، میَں دوبئی  کا ویزا لے سکوں اور ہم کچھ دنوں کے لیۓ نزدیک ترین ملک سے ہو آتی ہیں ، اس معاملے میں میرا داماد ان ، پیارے لوگوں میں شامل ہے ، جس نے اپنے ان نئے رشتوں کا ہمیشہ احترام کیا ہے ، ۔ اس نے چپکے سے پاسپورٹ بھجواۓ ، ہمارا ٹریولر ایجنٹ بابر غوری ، ہماری ایسی کئی ایمر جینسی ، فرمائشوںاور آرڈرز کا عادی ہے ،، ایک فون اُسے جاتا ، بابر بیٹا ، سری لنکا کا ویزہ کتنے دن میں ہوگا ؟ اور وہاں دو دن کے اندر کون سی فلائیٹ جا رہی ہے ، ، ؟ اگلے دن نیا فون چلا جاتا،،،، بابر میرا خیال ہے ، دوبئی کی ساری معلومات ابھی دینا ،،، ! اور کبھی ترکی کے بارے یہ جملے اسے سناۓ جاتے اور کبھی ملائیشیا یا تھائی لینڈ کی باری آجاتی ، صحیح بات یہ ہے کہ میَں بہادر بننے کی کوشش کرتی ہوں ، ہوں نہیں !!!لیکن خیر اس دفعہ دوبئی کے چکر کا مجھے شوق ہوا ،، کیوں کہ دونوں بیٹے بہو ، کئی دفعہ جا چکے تھے۔ ان کی فی الحال کوئی دلچسپی نہ تھی ،، میَں نے اور نشل نے ابھی دوبئی نہیں دیکھا تھا ، بلکہ نشل نے ابھی تک کوئی غیرملکی سفر نہیں کیا تھا۔ 
جب ، ویزہ لگ گیا ، اور میَں نےنشل کو ،اپنی نواسی حمنہٰ اور محمد موسیٰ کامران ، کوجب اطلاع دی کہ جلدی سے بیگ تیار کر لو ہم 30 جون روانہ ہونگے ،، (23 جون تا 23 جولائ کا ویزہ لگوایا گیا تھا ۔) مجھے پتہ چلا ، دونوں بچوں کا خوشی کے مارے نیندیں اُڑ گئیں تھیں ۔ نشل ،، ایک ایسی بیٹی ہے ، اس میں وہ کوالٹیز ہیں ، کہ وہ بہت آرگنائز طریقے سے کام کرنا چاہتی ہے،،اس نے تحمل سے مجھے ڈانٹا کہ " آپ مجھے بتا تو دیا کریں ،تاکہ گھر کو سمیٹنا ہوتا ہے ، بچوں کی چیزیں ترتیب سے رکھنی ہوتی ہیں ۔ کامران کے لیۓ کچھ پکا کر رکھنا ہوتا ہے ، وغیرہ وغیرہ " !۔
میَں نے کہا ، رمضان شروع ہونے میں تین ہفتے رہ گۓ ہیں ، ہم دوبئی صرف نو دن ٹھہریں گے ،، اس لیۓ لمبی چوڑی تیاری کی کیا ضرورت ہے ،،میں نے نشل کی چچا اور چچی کو اطلاع دی کہ میں اور تینوں بچے تمہارے پاس رہیں گے ،،، دوبئ میں ہمارے کافی رشتے دار یا ملنے والے رہتے ہیں ۔ اللہ کا شکر ہر کوئ ویلکم کرنے والا ، محبت سے بلانے والے ہیں ۔اپنی دیورانی سے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں ، اس نے ایک عرصے سے کہہ رکھا تھا کہ تم جب دوبئی آئیں ، رہنا میرے پاس ہے ، پی آئ اے سے جب روانہ ہوئیں تو حمنہٰ ( 10 سالہ)، اور موسیٰ(5سال) کی خوشی دیدنی تھی ، دونوں کی ساتھ ساتھ سیٹیں تھیں اور دونوں باری باری کھڑکی کی طرف بیٹھتے اور تین ، ساڑھےتین گھنٹے کا پتہ بھی نہ چلا ،، دوبئ کے خوب صورت اور وسیع ایئر پورٹ پر پہنچ گئیں ۔ تمام تر چیکنگ کے مراحل سے گزر کر جب باہر کی طرف آئیں تو ، خالدہ ، کہیں نظر نہیں آئیں ، یہ ایک پریشانی کا لمحہ تھا ، کیوں میَں چاہتی تھی ، نشل اور بچوں کا یہ پہلا غیر ملکی سفر ہے ، اور اس بارےکسی مرحلہ پر کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ ہو، کہیں نشل جلد پریشان نہ ہو جاۓ ۔ فوراً اس کے گھر فون کیا ، ذولفقار نے فون اٹھایا ،
اور اس نے بتایا کہ خالدہ ،او رچھوٹی بیٹی خدیجہ پہنچنے والی ہوں گی ،، مزید پندرہ منٹ گزر گئے ، اور کوئی آثار نہیں،، لیکن پھر کچھ منٹ اور گزرے اور ایک سوِک کار پاس آرکی ، اور بےچاری خدیجہ اس طرح پریشانی اور شرمندگی سے اتری ، جیسے وہ ڈانٹ کھاۓ گی ، ہمیں سلام کیا گلے ملی ، بار بار معذرت کرتی ، ہمارا سامان بھی ڈگی میں رکھنے لگی ، ،، خالدہ نے اس کی دو سال کی بیٹی اٹھائی ہوئی تھی ، ملنا ملانا ہوا اور جلدی سے چل پڑے ، میری نظریں تو مسلسل باہر لگی تھیں ،، لیکن خدیجہ بے چاری معذرت کرتی جا رہی تھی کہ" ہم شارجہ میں رہتے ہیں ، اور دوبئ تک پہنچنے میں ٹریفک کا رش ہمیں لیٹ کر دیتا ہے "، اور ہم ابھی بھی دیکھ رہیں تھیں کہ واقعی رش سے خدیجہ کو کار بار بار آہستہ چلانا پڑ رہی تھی ،اس کی پیاری بیٹی عنائیہ ہم سب کو بہت دلچسپی اور مانوسیت سے دیکھ رہی تھی ، ،، ،،، دو بئی ایئر پورٹ سے نکلے تو خوب کھلا علاقہ تھا لیکن جلد ہی بڑے بڑے " شیڈز "بنے نظر آۓ ، جن میں مشہور برینڈز کے نام نظر آۓ۔ جیسے " آئیکیا " ، یا ، نائیکی یا کھانے پینے کی اشیاء کے بہت بڑے " شیڈز" تھے ، اور اسکے فورا" بعد ٹریفک کا اژدہام ،، اور دوبئی کی کئی کئی منزلہ عمارات ،،،، پھر رہائشی اونچے اونچے فلیٹس سسٹم پر بنی عمارات ،، ،، اور ان کے درمیان سے گزرتی ٹریفک بھری سڑکیں ۔ گویا ہم "' سیمنٹ ، کنکریٹ، ریت بجری اور لوہے" کے " جنگل " میں سے گزر رہے تھے ۔ ،، وہ جو کہا گیا ہے " فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امپریشن"! یعنی " پہلا تائثر ہی آخری تائثر ہوتا ہے " تو کم از کم میرے دل نے کنکریٹ کے اس خوب صورت جنگل کو یکدم افسردہ کر دیا ،، کوئی شک نہیں دنیا جہان کے تجارتی آئکونزکو جس بہترین اور محفوظ فضا میں دوبئی کی حکومت نے ایک مرکز پر اکٹھا کیا اور متوجہ کیا ،،، یہ ایک کمال تبدیلی تھی ۔ اور آج اس جیسی پورٹ کے لیۓ دنیا رشک کرتی ہے ، قریبا" آدھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد شارجہ میں داخل ہوۓ ۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ایک محلے سے دوسرے محلے میں داخل ہو جائیں ۔ کوئی حد بندی نہیں تھی ، سواۓ بورڈ کے ۔ اور کچھ اور منٹ کے بعد خالدہ کے گھر کا موڑ لیا ، ، البتہ شارجہ ، دوبئی کے مقابلے میں کچھ" کم اونچی" عمارات میں ِگھرا ہوا تھا ، ۔
خدیجہ نے گاڑی پارکنگ ایریا میں کھڑی کی ، اور ہم اپنے سامان سمیت لفٹ پر تیسری منزل تک پہنچیں ۔ ذوالفقار اب کام پر جانے کے لیۓ نکل رہا تھا ، جب ہم گھر داخل ہوئیں ، ملنا ملانا ہوا ۔اور وہ رات کو ملنے کا کہہ کر چلا گیا ،، اس وقت شام ہو چلی تھی ، خالدہ نے چاۓ کا اہتمام کر رکھا تھا ، اور بچوں کا یہ حال کہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے ،، بس باہر چلیں !! لیکن شام بھلا کہاں لے جایا جاۓ ،، پھر بھی بچوں کی بے چینی دیکھ کر خدیجہ ، نے کہا چلیں نزدیکی پارک تک چلتی ہیں ، بچوں کی خوشی ہی میرے لیۓ اصل چیز تھی ، اور ویسے بھی ہم چاۓ سے فریش ہو چکی تھیں ، اور پارک تک پیدل ہی پہنچیں ،، بہت ہی خوب صورت پارک ، جس میں کچھ جھولے تو تھےہی لیکن ،، شام ہو چلی تھی ، اور ایک طرف نہایت خوب صورت فواروں کی قطار تھی ، اور وہی وقت ، تھا کہ ڈانسنگ فواروں کا موسیقی کے ساتھ اور رنگین لہروں کے ساتھ مظاہرہ شروع ہوا ۔ آتے ہی بچوں کی دلچسپی کا اتنا خوبصورت شو سامنے آیا تو ان کی آنکھوں کی چمک اور مسکراہٹ نے مجھے نہال کر دیا ،،، ادھر اُدھر کچھ اور پھرنے کے بعد واپس گھر لوٹے ،، تو گھر میں ہمارا انتظار ہو رہا تھا ۔ خالدہ کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ، ایک بیٹی سمیعہ شادی ہو کر انگلینڈ ، اور خدیجہ اور حلیمہ شادی کے بعد یہیں شارجہ میں رہتی ہیں۔ اکلوتا بیٹا اویس اور نزہت ابھی غیر شادی شدہ تھےاور والدین کے ساتھ رہتے اور دونوں جابز پر جاتے تھے ۔ اِس وقت نہ صرف تینوں بیٹیاں ، بیٹا ، موجود تھے بلکہ دونوں داماد بھی ہم سے ملنے بیٹھے تھے ،، حلیمہ کا شوہر تو ہمارا رشتہ دار تھا ،، لیکن خدیجہ کا شوہر لاہور سے تعلق رکھنے والا کاروباری لڑکا تھا ۔ لیکن نہایت سلجھا ہوا ، سمجھدار، لڑکا تھا ،، اس کے ساتھ چند گھنٹوں کی ملاقات سے موضوعاتِ باہمی سے کافی اچھی صحبت رہی ، اور اس نے اپنے گھر آنے کی پر زور دعوت دی ۔ ایسے میچور لڑکے کم ہی ہوتے ہیں ، جو داماد ہوتے ہوۓ بھی صرف رشتوں کے احترام کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہیں، اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتےہیں ، کھانا اکھٹے کھایا گیا ،،، اور قہوے کے بعد محفل برخاست ہوئی ۔ہم سب آرام کرنے کمروں میں آگئیں ، دوبئ کی اگلی صبٰح نماز کے بعد کھڑکی کے پردے ہٹا کر مصروف سڑکوں اور چند ایک درختوں کو جھومتے دیکھا ،،، ذہن اور دل نے ، """ایک ریتلے صھرا پر اُگے کنکریٹ کے جنگل """کو پسند کے خانے میں جگہ دینے سے انکار کر دیا ، بلکہ اُن سب کو داد دیتی ہوں جو نیچر سے دوری کو قبول کیۓ سالہا سال سے بیٹھے ہیں ،،، انسانی مقدر ، جب لکھ دیا جاۓ تو پھر دل خود بخود ٹُھک ہی جاتے ہیں ۔
( منیرہ قریشی 10 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں