پیر، 6 اگست، 2018

ترکیہء جدید " (1)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر" 
" ترکیہء جدید " (1)۔
پچھلے سال 2017ء میں انہی دنوں ، ہم ؛ 'ترکی ' کے شہر استنبول میں بہت خوشگوار وقتگزار رہۓ تھے ، ہمارا یہ قیام کُل نو دن کا تھا ،،، اور آج انہی دنوں کی یادوں نے مجھے گھیرا تو ، سوچا آج انہیں احاطہء تحریر میں لے آؤں ، ورنہ یہ یادیں اور یہ الفاظ مجھے تنگ کر ڈالیں گے ۔ 
۔2017ِ کی موسمِ گرما کی لمبی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں ،، بلکہ کچھ گزر چکی تھیں ،، میَں اپنے گھر ہی میں تھی ، جوجی اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے پاس انگلینڈ گئی ہوئی تھی ۔ میری بڑا بیٹا علی، بہو صائمہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ کینیڈا کی سیر پر تھے ،، میری بیٹی اپنے گھر اور چھو ٹابیٹا ہاشم بھی گھر پر تھے ،،،،، اور کسی نزدیکی تفریحی مقام پر جانے کا بھی پروگرام نہ بن پایا تھا ۔ میری نواسی حمنہٰ بہت کم فرمائش کرتی ہے ،، لیکن جب میں نے اسے کہا ، کہیں چلیں ؟؟؟ تو اس نے فوراًکہا " اماں ترکی چلتے ہیں " ! یہ فرمائش کچھ ایسی آسان نہ تھی کہ بس کہی اور پوری کر لی ، یا ، کروا، لی ۔
۔2014ء کے سفرِ انگلینڈ کے بعد اب تیسرا سال ختم ہو رہا تھا ،، میَں نے اپنی زندگی کے چند نہایت خوبصورت ، بے فکری کے دن انگلینڈ میں گزارے تھے۔ اور اس سفر کو اتنا شاندار بنانے والی اللہ کی ذات ہے جس نے مجھے آسانیاں ہی آسانیاں عطا کیں ،، اور ان آسانیوں کو دینے کے لیۓ تین ، خوش مزاج بھانجیاں ، ہمہ وقت ہاتھ باندھے والا حساب کیۓ ہوۓ تھیں ،،، اور اگر میری کوئ بات ،کوئ فرمائش ، کوئ تنقید انھیں بری بھی لگی ہو گی ،، تو انھوں نے لمحہ بھر کے لیۓ بھی اظہار نہیں کیا ۔ 2015ء اپریل کی 24 تاریخ تھی ، اور اللہ ہی کی ذات ہے جو آزمائش میں ڈالتی اور وہی اس سے نکالتی ہے ۔ میرا خاصا سیریس ایکسیڈینٹ ہوا ، کہ ڈرائیور کی اسی وقت  وفات ہو گئی ،، اور میرا باقی جسم تو بالکل ٹھیک رہا ، لیکن دائیں ٹانگ کی تھائی کی ہڈی کے دو ٹکڑے ہوۓ اور ہپ بون کے کئی ٹکڑے ہو گۓ ،، اللہ سبحان تعالیٰ کا کن الفاظ سے شکر ادا کروں ، کہ فوری طور پر میرے بیٹوں اور بھائی بھابی نے اس ہاسُپٹل تک پہنچایا ، جہاں کے آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر خالد اسلم ، اپنے شعبے کے " دی بیسٹ " مشہور تھے ،، ان کا غصہ بھی مشہور ہے ۔ لیکن ایک بہت کنسرن ، ہمدرد ، اور بہترین ڈاکٹر ، کی ایسی خوبیوں کے باعث ،، میَں صحت مندی کی طرف ، تیزی سے آئی ۔ اور اس دوران میرے تینوں بچوں کی توجہ اور خدمت نے ،، سب کو حیران کر دیا الحمدُ للہ ۔ اور اب یہ وقت آیا کہ میَں ، واکر یا سٹک کے بغیر ، نارمل چلنے لگ گئی تھی ،، اور مزید ایک سال 2016ءنے ریسٹ دیا ،، اور اب 2017ء تھا ،، اور دل چاہ رہا تھا کہ گھر کی روٹین سے نکلوں ۔اب نواسی حمنہٰ کے منہ سے نکلے الفاظ نے " ترکی " جیسے خوبصورت ملک کے " خوبصورت خواب " یکدم بیدار کر دیۓ ۔ میَں نے ہاشم سے بات کی اس نے فوراً  ویزہ لگوا دیا ،، اور ، ہمارا ٹریولر ایجنٹ بابر نے ٹکٹ کنفرم کیا کہ کس دن کا کرواؤں ، میَں نے کہا بس اگست شروع ہونے والا ہے ، 2، یا3 اگست کی کروا دو ، ویزہ ایک ماہ کا تھا ،،، جوجی کا فون خیریت پوچھنے کے لیۓ آیا ، تو بتایا "میَں ، نشل ، اور اس کے دونوں بچے ، ترکی کا سفر کرنے جا رہۓ ہیں " ،،، یہ سنتے ہی جوجی نے ناراض سا ہو کر کہا " یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم میرے بغیر جاؤ ،، میَں نے تو پہلے ہی سوچا ہوا تھا ،،، اس لیۓ ہر صورت ٹکٹ آگے کرو " ،،، مجھے تھوڑا ہچکچاہٹ ہوئی کہ نشل کے بچوں کی چھٹیاں ختم ہو جائیں گی ، ، لیکن نشل نے کہا " کوی بات نہیں اماں ،، خالہ اور ایمن ثمن ، مائرہ ، کے آنے سے مزہ رہے گا ۔ ظاہر ہے ماہرہ اور نشل نہ صرف خالہ ذاد ، بلکہ بچپن کی جگری دوست بھی تھیں ، لیکن نشل کی جلد شادی نے ، اور مائرہ کے انگلینڈ منتقلی نے ان کے رابطے کو کمزور کر دیا تھا ، اکٹھے کا یہ سفر ان کی بچپن کی یادوں کو ، محبتوں کو ترو تازہ کر سکتا تھا ،، اس لیۓ کچھ دن آگے کیۓ گۓ ، جوجی اگست کے پہلے ہفتے ، پہنچی ، اگلے ہی دن ٹرکش ویزے کے لیۓ اپلاۓ کیا ۔ اب دو ہفتے صبر سے گزارنے تھے ، کہ میری دونوں بھانجیوں کے فون آگۓ ،، بڑی بھانجی لبنیٰ اپنی فیملی کے ساتھ ساؤتھ افریقہ کی سیر پر تھی اور چھوٹی اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ امریکا کی سیر کر رہی تھی ،،، لیکن مجھے صاف کہہ دیا گیا ،کہ آپ کو ہمیں بھی ساتھ رکھنا ہو گا ، بس ہم واپس آرہی ہیں ، گویا ،، یہ تینوں پارٹیاں ، غیر ملکی دوروں پر تھیں ،، اور جنھیں آؤٹنگ کی ضرورت تھی ،، انھیں ٹھہرا دیا گیا تھا ،، اب اُن کا انتظار ہوا ، اور چونکہ لبنیٰ کا ویزہ لاہور سے لگنا تھا ( جہاں اس کا گھر ہے ) ، وہاں ساؤتھ افریقہ سے واپس پہنچی اور ویزہ لگتے ہی ، واہ پہنچ گئ ، چھوٹی بھانجی نشمیہ ، سیدھی قطر اپنے گھر پہنچی اور ترکی کی تیاری پکڑی ، اسے ویزے کی ضرورت نہیں تھی کہ امریکن پانچ سالہ ویزہ لگا ہو تو ترکی کا ویزہ ، انہی کےایئر پورٹ پر لگ جاتا ہے ،،، سُپر پاورز کے رنگ نیارے ،،، کہ اگر امریکا ، یا انگلینڈ ، کا ویزہ ہے اور ، تازہ سفر بھی ہو چکا ہے ،، تو تیسری دنیا ، ، ، کے ایئر پورٹ ، انکو " ویلکم ،، ویلکم '' اے آمدنت باعثِ آبادیء ما ،،،، والا رویہ رکھتے ہیں ۔ اور اپنے جیسے ممالک کے لیۓ " غریب رشتہ دار " والا رویہ ہوتا ہے ،، حالنکہ اصل زرِ مبادلہ امراء سے ہی ملتا ہے ۔ 
خیر قصہ مختصر تو نہیں ہوا ،،لمبا ہو گیا ،، لیکن اگست کا اخیر آگیا اور ہم علی الصبح روانہ ہوئیں ،، نشل ،اور بچوں کو کامران ایئر پورٹ لے کر پہنچا ، ادھر واہ سے ، میَں ، جوجی اور لبنیٰ ، ہاشم کے ساتھ پہنچیں ۔ اور ٹھیک صبح چھے بجے ٹرکش ایئر لائن کا طیارہ اُڑان بھر چکا تھا ،،، میَں نے حسبِ عادت ، کھڑکی پر قبضہ کیا ،، اور اپنے تین سال پہلے کے انگلینڈ کے سفر کی یادوں ،، اور کھڑکی سے اُس ملک کے راستوں کو یاد کیا کہ ، دو نظمیں اسی راستے کو دیکھتے ہوۓ اپنے پرس میں موجود ایک پتلی سے چند صفحوں کی ڈائری پر لکھیں تھیں ،، انہی میں سے دو ،، نظمیں لکھ رہی ہوں ،،، اور اب ،،، ترکی جانے والا " رُوٹ " بالکل فرق تھا ، اور نظارے ، اور سوچ کے پہلو بھی فرق تھے ، پہلے انگلینڈ کے " ہوائی سفر " کے جذبات پڑھیں ۔ پھر ترکی جانے والے راستے کے نظاروں کے تحت الگ ہی سوچ دَر آئی ،۔ 
( یو کے ، کے ہوائ سفر کے دورا ن پہلی نظم )
" تجسس "
راستے کی بستیوں کے لوگ 
ہوائ جہاز دیکھ کر سوچتے ہوں گے 
اِن اُڑن کھٹولوں میں محوِ سفر لوگ ، جانےکیسے ہوں گے !
اور ،،،،،،،،،،،
جہازوں سے جھانکتے نفوس سوچتے ہوں گے 
اِن بستیوں میں بستے لوگ، جانے کیسے ہوں گے !!
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
" کچھ کہتی آنکھیں " ( دوسری نظم )۔
جہاز کی چھوٹی سی کھڑکی سے جھانکتی ،
بے وجہ سوچتی آنکھیں ،،،،
کچھ سہانے سپنے چھُپاۓ آنکھیں 
کچھ جدائ کی نمی پونچھتی آنکھیں
کچھ سِکوں کی عینک پہنے ، بےحس آنکھیں 
شوقِ تجسس سمیٹۓ، کچھ پُر اُمید آنکھیں
اور کھونٹے سے بندھے بیل کی مانند، لا تعلق آنکھیں 
سبھی مگر ،،،، تقدیر کے جال میں پھنسیں آنکھیں !!!! ( 2014ء) ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
( ترکی کے ہوائی سفر کے دوران کے نظاروں کو دیکھ کر )
" خالق کے رنگ " 
ضدی بادل جمے جمے سے
ہوائیں ، آئیں گی تَو ہلیں گے ،
سلسلہء کوہ وجبل ، متانت لیۓ 
حکمِ ربانی ہوا ، تو ریزہ ریزہ بھی ہوں گے 
اور ، ریگِ صحرا عاجزی و سادگی سے بچھا ہوا
کہ اس کا انبیاء سے جو رہا ہے سلسلہ 
سمندر کی ہیبت کا کیا مقابلہ 
دہشت ، عظمت ، جبروت بلامقابلہ 
بس ،،،،،!
خالق کے رنگ نیارے 
مالک کے رنگ نیارے ( اگست 2017ء ) 
( منیرہ قریشی 6 اگست 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں