اتوار، 16 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال (2))۔

' ہار اورہتھکڑی'
میَں تقریب میں جانے کے لیۓ نِک سِک سے سج چکی ہوں ، کانوں میں چھوٹے بُندے ، ہاتھوں میں انگوٹھیاں ، ،، لیکن گلے کی زنجیر اور ہاتھ کے بینگل نہیں پہنتی ۔ اور جب بھی کوئ پوچھتا ہے ، یہ دو زیور کیوں پہنتی ہو !! اور وہ دو زیور کیوں نہیں پہنتیں ؟؟؟؟؟ 
میَں جو جواب دیتی ہوں ،، وہ دوسرے کے لیۓ قابلِ قبول نہیں ہوتا ،کہتی ہوں ، بھئ کان اور ہاتھ تو شاید بنے ہی اس لیۓ ہیں ، ، کہ انھیں سجا دیکھنا ، آنکھوں کی مجبوری ہے ، شاید انھیں عادت ہو چکی ہے، کہ کچھ کمی ہے ان انگلیوں میں ! بھلے وہ پیتل کی انگوٹھیاں ہوں!،،اور آئینہ دیکھتے ہی کانوں میں جھولتے بُندے ، تسلی دیتے ہیں ،، ہاں ، اچھی لگ رہی ہو ،، بھلے بُندے پلاسٹک کے ہوں ۔
اور ،،،، عورت کے گلے میں لٹکا ہار ،،، عورت کے گلے میں لٹکا میڈل لگتا ہے ، جیسے "" تم بہت بہادر ہو ! تم سب کام کر سکتی ہو !! تمہیں ہر جذبہء ظاہر و باطن کے محاذ پر قابو پانا آتا ہے !! ،، واہ تم حق دار ہو اس میڈل کی،، لو یہ اور باقی سبھی کام تمہارے ذمے ،،،،،،،،،،،،،،،!!۔
بینگل یا کڑے ،،، خوبصورت ہتھکڑی !! ، ایسی ہتھکڑی جو مرد کی توجہ کی مظہر ہو !۔
ایسی ہتھکڑی جو اس کے سٹیٹس کا سمبل ہو !۔
ایسی ہتھکڑی جو جس عورت نے پہنی ، خوشی سے پہنی ، اور جب ہتھکڑی پہن لی ،، تو دراصل قید کو خوشی سے قبول کیا ، خواہشوں اور جذبوں سمیت !!!۔
( نکتہء نظر اپنا اپنا )
( منیرہ قریشی 16 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں