منگل، 11 جون، 2024

" اِک پَرِ خیال "۔۔۔" کشیدہ کاری "

" اِک پَرِ خیال "
،،، " کشیدہ کاری "
میَں نے ایک ایپ کو جوائن کیا ہوا ہے ۔ جو فلکیاتی دنیا کے نام سے ہے ،، اس میں ایپ چلانے والے سیٹلائٹ اور سپیس شٹلز سے لی گئی آسمانِِ تحیّر کی معلومات اور تصاویر ، ہم جیسوں تک آسان اردو میں پہنچاتے اور دلی دعائیں لیتے رہتے ہیؐں ۔ جب بھی وہاں کی کچھ نئی معلومات اور تصاویر پہنچتی ہیں تو انھیں دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہوں ۔ ،،، دل ساکت سا ہو جانے کا دورانیہ جتنا لمبا ہوتا ہے ،، دل کی کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ خالق کی محبت میں سر مستی سی آ جاتی ہے ۔ دنیائے آسمان کی یہ حیران کن دنیا مالک سے عشق کو مزید راسخ کر دیتی ہے ۔،،،، اُس خالق نے اپنی کائنات انتہائی محبت ، اور باریک بینی ،، اور کاری گری سے بنائی ہے ۔
انسان بذاتِ خود اس رب ِ مصور کا عجب شہکار ہے ،، اور اُس نے خود اس شہکار کو وہ ہُنر عطا کیا ۔ کہ جب بھی وہ کسی رنگ ، آہنگ سے کوئی تخلیق بناتا ہے تو خود ہی اس پر عاشق بھی ہو جاتا ہے ۔ یا دوسرے اس ہنر کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں ،،، کبھی کلام میں ، کبھی طعام میں ، کبھی لباس ، کبھی برتن ، کبھی رسوم کی کاریگری اور کبھی اُس دلربا رقص میں کہ جب پاؤں اٹھیں ،، نہ اٹھیں ،، لیکن جھومنا ہی اُس کی کاری گری دکھا جاتا ہے ۔ ہر دور میں ،، ہر تہذیب میں ایک طبقہ ایسا ودیعت کیا گیا ،، جو دوسروں کو نفاست ، لطافت ، نزاکت کے معنی سے آگاہی عطا کرنے کا فریضہ ادا کرتا رہا ۔ یہ کشیدہ کاری کبھی کمہار کے ہاتھوں میں ،، کبھی مصور کے رنگوں اور برش میں ،، کبھی کپڑے کے تھان پر ،،، اور کبھی سُر و چنگ کے ذریعے یا تحاریر کے باریک نکات کے ساتھ سامنے آتی چلی جاتی ہے ،،، تب سمجھ نہیں آتا ،،، اصل کو دیکھیں ،،یا نقل کو سراہیں !!
دیکھا جائے تو انسان کی بہترین ہنر مندی یہی ہے کہ وہ،،، خالقِ کائنات کی ان تخلیقات کو "پُر سکون ماحول میں احترام اور امن" سے رکھے ،،
انسان انہی جذبوں کی " کشیدہ کاری " سے شیطان کے منصوبے ناکام کر سکتا ہے ۔
کشیدہ کاری سیٹلائٹ سے دنیائے آسمانی کو دیکھنے سے ہی عیاں نہیں ہوتی ۔ بلکہ انسانی ہاتھوں میں پکڑے بُرش ، اور رنگوں کے سٹروک سے ،،، سُوئی اور رنگین دھاگوں کے امتزاج سے ،، ایک پُر شفقت لہجہ ،، ایک محبت بھرا لمس ! سامنے کے تاریک اور معدوم ہوتے دل کو یکدم جگانے کا باعث بن سکتا ہے ۔ کشیدہ کاری کے اصل ٹانکے کا ہنر پھٹے دل اور دُریدہ روحوں کو سینے سے نظر آئے گا ۔ انھیں نیا سٹروک دے ڈالیں ۔۔ اُن کے سوراخوں کو رنگین دھاگوں سے سی ڈالیں ۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ،، کائنات کی آسمانی کشیدہ کاری اپنا کام مسلسل کر رہی ہے ۔ زمینی کاری گری میں سُستی ناقابل قبول ہو گی ،، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ۔۔اِس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ۔

( منیرہ قریشی 11 جون 2024ء واہ کینٹ ) 

اتوار، 9 جون، 2024

" اور قسم ہے راتوں کی دَس "

" اور قسم ہے راتوں کی دَس "
" کچھ دن ہیں سُنہری سے
کچھ راتیں ہیں نیازوں کی
سجدے کچھ فرض کے ،
سجدے کچھ غرض کے
اور اِن میں ، دہرانے ہیں
کچھ شَبد ہیں نگینے سے
کچھ شَبد ہیں سکینت سے
دہرائیں تو فضیلت ہے
شادابی اور آبادی ہے ،
رضا اور ، رعنائی ہے ،
چاروں اَور مُشک چھائی ہے
یہ شَبد ہیں ، تکبیر کے ،تہلیل کے ، تمجید کے
عشرہ میں چُھپی ،،،، مستبشرہ
اور جو لُوٹ چاہو میلے کی
نقدی یاں صرف اَخلاص کی
سودا ملے دیدار کا
عشق کا سُرمہ آنکھوں میں
لڑیاں ہیں بہار کی !!
شبد ہیں نگینے سے
دہراؤ تو فضیلت ہے
سکینت ہی سکینت ہے

( منیرہ قریشی 9 جون 2024ء واہ کینٹ ) 

پیر، 3 جون، 2024

" اِک پَرِ خیال ۔۔ اندھیرا ، اندھیرے"

" اِک پَرِ خیال "
" اندھیرا ، اندھیرے"
دیکھا جائۓ ، تو اللہ تبارک تعالیٰ نے سوائے اپنے ہر چیز کو جوڑوں میں پیدا کیا ۔ زندگی اور موت ،،، خوشی اور غم ، بہار اور خزاں اندھیرا اور روشنی ،،، گویا ہر احساس کے ساتھ ساتھ ہر سانس لیتی مخلوق بھی جوڑوں میں زندگی گزار رہی ہوتی ہے ۔ لیکن اندھیرے پر غور کریں تو مکمل ، کامل اندھیرا تو نظر ہی نہیں آتا ۔ حالانکہ اندھیرے کے ساتھ اجالے کا جوڑا سمجھا جاتا ہے ۔
اندھیرا اگر پہاڑوں میں چھایا ہوا ہے تو ، وہ گھَور اندھیرا پھر بھی نہیں ہو گا ۔ بلکہ قدرِ ملگجا اندھیرا چھایا ہو گا ۔ اس لئے کہ پہاڑوں کی بلندی انھیں شفاف فضا مہیا کر رہی ہوتی ہے ۔ کہ جیسے ستاروں کی جگمگاہٹ اندھیرے کی دہشت کم کر رہی ہو۔ یہی شفافیت اور وسعتِ ،،، اندھیرا چھا جانے کے باوجود سارے میں نہایت ہلکی چاندنی کی ملاوٹ گھول رہی ہوتی ہے ۔ جیسے کوئی ہاتھ میں اجالے کی تلوار ،، وقفے وقفے سے لہرا رہا ہو ۔ اور اندھیرا مسکراتا ہوا ،، اندھیرے میں اتر جاتا ہے ۔
دیکھا جائے تو میدانوں کا اندھیرا ، آج کے دور کے لوازمات کے ساتھ زمین سے 30 یا 40 گز کے کہیں بعد شروع ہوتا ہے ۔ "رات " کو دیکھنے کے لئے منہ اُٹھا کر اندھیرے کو گھُورنا پڑتا ہے ۔ تب کچھ چھَب دکھاتا ہے لیکن تاروں کی موجودگی اسے بھی ملگجا بنا دیتی ہے ۔
بِعَینہٖ سمندر کی بظاہر ہیبت اور وسعت کے باوجود سورج اپنی کرنیں 200 میٹر تک پہنچا کر بے دم ہو جاتا ہے ۔ اب یہاں گَھور اندھیرے کا راج شروع ہوجاتا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ،،، لیکن یہ کیا !! اِس اندھیرے کی کاٹ کے لئے تو سمندر کی تہہ میں موجود بے شمار تیرتی پھرتی مچھلیاں اور گونگے ، اپنے اجسام سے روشنی چھوڑ رہے ہوتے ہیں ۔۔۔ نا شُکرے انسان کے لئے ، ہر لمحے کی شکر گزاری کے مواقع !!
تو پھر اندھیرا کہاں ہے ۔ ؟؟
اندھیرا تو دراصل ہمارے دلوں میں ہے،،
اندھیرے نے تو ہماری تنگ نظر سوچ پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔۔
اندھیرا ہمارے کردار کی گراوٹ پر پاؤں پھیلا کر بیٹھا ہوا ہے ،،،،
اب یہی سب اندھیرے مل کر ہماری قبر میں ایک ساتھ اُتریں گے ۔ تو کیا اپنی ذات کے اندھیروں کو دور کرنے کے لئے ،،، ہمارے پاس ابھی وقت نہیں ! تو پھر اِس زندگی کا مقصد کیا ہوا ؟؟ اور قبر کے مستقل اندھیروں کو دور کرنے کے لئے چاندنی کی کون سی لہر محفوظ کر لی جائے ،، کون سے چمکیلے اعمال کی مچھلیوں کو لبھا لیا جائے ؟؟؟ مستقل وِرد ، حُسں اخلاق ،،، حُسنِ طعام ،، حُسنِ کلام !!

( منیرہ قریشی 3 جون 2024ء واہ کینٹ )