اتوار، 21 جولائی، 2024

" اِک پَرخیال. ڈنگ "

" اِک پَر خیال "
" ڈنگ "
'ڈنگ ' کے لفظ سے ذہن میں کبھی بھی اچھا خیال نہیں آتا ۔ کیڑوں مکوڑوں کے ڈنگ تو ہر چھوٹے بڑے کے ذہن میں واضح ہوتے ہیں ۔ کہ سانپ ، بچُھو ، مکوڑے ، بھِڑ ، اُڑتے کیڑوں کے ڈنگ ،،، انسانی اجسام کے لئے کتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ ، یا تو جان چلی جاتی ہے ، یا ، کچھ دیر یا تا دیر جسمانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے زہریلے ڈنگ کو علاج اور صبر سے رفع کیا جاتا ہے ۔
البتہ مدت دراز کے بعد انسانی تحقیقی اذہان نے انہی کیڑوں ، کے ڈنگ سے ہی انہی کے کاٹے کا علاج دریافت کر لیا ، اور یوں ، قیمتی جانوں کو بچانا ممکن ہو گیا ۔ دیکھا جائے تو سانپ ، یا بچھُو ، یا بھِڑ یا زہریلی مکڑیوں کے ڈنگ کی کٹیگریز ہیں ۔۔ کچھ کی کم ، کچھ کی زیادہ !
اس کے برعکس مکھی ، کھٹمل ، یا مچھر وغیرہ کے ڈنگ ایسے لیول کے ہوتے ہیں ،، جو کم طاقتور تو ہوتے ہیں لیکن ،، ان کے ڈنگ کے زہر کو حاصل کر کے بڑی بڑی بیماریوں کے علاج دریافت ہوچکے ہیں ۔ اسی طرح کچھ جانوروں کے تھوک یا لعاب اتنے زہریلے ہوتے ہیں کہ بظاہر ان کے کاٹے کا کوئی نشان نہیں ہوتا مگر جہاں ان کا لعاب گرا ،،، وہی جگہ سُن ہو کر انسان یا جانور کو بے بس کر ڈالتا ہے ۔ اور اس زہریلے تھوک سے اس میں ہلنے جلنے کی سکت نہیں رہتی پھر یہی وقت ہوتا ہے جب ایسے جانور کے لئے متاثرہ جسم تر نوالہ بن جاتا ہے ۔
' ڈنگ ' کی اِس کیٹگریز میں ،،، الفاظ کے ڈنگ بھی اپنی ہی طاقت رکھتے ہیں ۔ کچھ الفاظ کی پوٹینسی کم،، لیکن زیادہ تر ہائی پوٹینسی کے بولے جاتےہیں ۔ ایسے الفاظ کی پھوار زہریلے مادوں سے بھرپور ہوتی ہے ۔۔ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول کی صداقت پر یقینِ کامل ہو جاتا ہے ، " تلوار کا زخم تو بھر جاتا ہے ، لیکن زبان کا زخم کبھی نہیں بھرتا "
زہریلے الفاظ ، کم یا زیادہ نوعیت کے ہیں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ قدرت نے اس سلسلے میں اپنا قانون سختی سے لاگو کر رکھا ہے ، یہاں کان کے بدلے کان ، آنکھ کے بدلے آنکھ کے قرآنی احکامات نافذ کرنے کا حکم ہے تو ،،،، بے عزتی کے بدلے بے عزتی ،،، دوسرے کو ذلت دے رہے ہیں تو بدلے میں ذلت کا انتظار کریں ۔۔ البتہ اِس میں کچھ ماہ ، کچھ سال ، کچھ عشرے گزر سکتے ہیں ،، لیکن الفاظ کے ڈنگ کا جوابی ڈنگ کا وار ، قدرت کی طرف سے صحیح وقت اور صحیح جگہ کا منتظر ہوتا ہے ۔
آج کے دور کا ایک اور ڈنگ بھی ہے جسے عام طور پر ڈنگ نہیں سمجھا گیا ۔ وہ ہے " پرائیویسی " ( privacy ) کا ڈنگ ۔
میرا کمرہ الگ ہونا چائیے ، آخر کو میں 14 سال کی ہو گئی / ہو گیا ہوں ،،،
میری الماری کو کس نے کھولا ؟ میں کسی کو اس کی اجازت نہیں دیتا / دیتی ۔۔۔
یہ مہمان آ گئے تو ہماری پرائیویسی نہیں رہے گی ،،،،
میرے موبائل ، میرا پرس ، یہ سب کچھ صرف میرا ہے ، کسی کو اجازت نہیں کہ انھیں میری اجازت کے بغیر ہاتھ لگائے ۔
کچھ معاملات میں تربیت کے تقاضے ہوتے ہیں کہ وہ اہم ، ہمدرد رشتے ان اولادوں کی الماری ، کمرہ ، یا موبائل کا جائزہ لیں ، ہم دیکھیں یہاں کے کونے کھدروں میں کیا چل رہا ہے ؟ ایسا نہ ہو پرائیویسی کے ڈنگ سے ہماری اولاد بہت ہائی پوٹینسی کے زہر نگل چکی ہو ،، کہ تب تک مرض لا علاج ہو چکا ہو !
پرائیویسی کے نکتہء نظر سے مہمان نوازی کے خوبصورت رسم و رواج پر جو کاری ضرب پڑی ہے ، کہ پہلے دُور نہ سہی نزدیکی رشتوں کا جو والہانہ انتظار ہوتا تھا ۔ کہ سب کزنز مل کو چھٹیاں گزارتے ،،، رشتوں کی آپسی مٹھاس کچھ دنوں یا ہفتوں کے لئے 'ریوائز ' ہو جاتی ۔ اور دال ساگ کھا کر بھی بد مزہ نہیں ہوتے تھے ۔۔۔ اور اگلی محفلوں کو سجانے کے وعدے کر کے جدا ہو جاتے ،،،
کچھ ایسا رویہ بعض اوقات ہمارے خوشحال خاندان کا بھی دیکھنے میں آتا ہے جب ان کے لئے گھریلو چیزیں ، اُن کی ترتیب ،،، اور اپنے دن اور رات کے پروگرام اتنے عزیز ہوتے ہیں کہ اس شب و روز میں کسی " آنے والے " کی چند گھنٹوں کی آمد بھی " زہریلا ڈنگ " بن جاتی ہے ۔۔ آہ انسان کی کم فہمی !!
لیکن پرائیویسی کے ڈنگ نے ایسا ڈسا ہوا ہے کہ اس کے اثرات سے خون سفید ہو گیا ہے ۔ رشتے کڑوے ، اور اپنی ذات کے حصار میں رہنے میں ہی عافیت سمجھا جا رہا ہے ۔ اور یوں آدم و حوا کی اولاد غلطیوں کے پہاڑ پر چڑھتے چڑھتے اترنے کی راہ کھو بیٹھی ہے ! اللہ ہی بہترین جاننے والا ہے ۔

( منیرہ قریشی 21 جولائی 2024ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں