اتوار، 5 جنوری، 2025

"برستی برف میں کائنات"

"برستی برف میں کائنات"

سلیٹی آسمان جیسے تھک چکا تھا تب خود میں رُکی برف ، خاموشی سے برسانے لگا ہوا کی چھیڑ خانی سے بےگانہ کچھ ٹنڈ منڈ اشجار کی نازک ٹہنیاں۔۔۔ برف کے بوجھ کو دعایہ انداز سےسہارے ہوئے ہیں جانے کیا سوچ رہی ہیں! یہ کہ اس دفعہ کا سرد سال جھیل پائیں گے ؟ ،،ہم تو خوبصورتی بانٹتے ہیں کبھی سبز ، کبھی سفید ،کبھی سرخ اور پیلا پھر خدشات کے جالے کیوں گھیرتے ہیں !! کچھ انسانی آنکھیں ، کھڑکیوں سے چپکی ہیں ۔۔ اور برف کے ہر پرت کو دل میں سمو رہی ہیں، جانے کیا سوچ رہی ہیں! کہ اب کے یہ سرد سال وہ جھیل پائیں گی؟ یا وصال کی امیدیں پھر برف میں دب جائیں گی ہم تو خوبصورتی بانٹتی ہیں گرم ذائقہ دار کھانوں کی، گرم لحافوں، جذبوں اور ٹھکانوں کی، کیا ہجر کے خطوط کی کڑوی تحریریں اس سال بھی پڑھنی پڑیں گی ؟؟ (منیرہ قریشی 5جنوری 2025ء مانچسٹر) 

ہفتہ، 21 دسمبر، 2024

"خط"

"خط"

تیرے ہر رنگ میں انوکھا رنگ بہار کی رنگینیوں میں ، خزاں رسیدہ درختوں کی جبینوں میں شدت برودت کی سنگینیوں میں اور قہر گرم لو کی حدتوں میں دل مطمئنہ ہلکے اور، بھاری ہچکولوں میں عجب تیری رنگین دنیا ،،،، صد ہا برس سے یہی ڈھنگ تکتی آنکھیں! مٹی ہوتی ،زندہ آنکھیں ! جانے تو خود کیسا ہو ،،، تیری محبتوں میں ڈوبی ہیں یہ منتظر آنکھیں ! معدوم جذبوں سے سرشار، یہ معصوم سطریں ! ایک خط ہے مولا تیرے نام

(منیرہ قریشی 21 دسمبر 2024۔ مانچسٹر)

جمعرات، 19 دسمبر، 2024

" یادوں کی تتلیاں" "کتاب کہانی" از کومل ذیشان "

" یادوں کی تتلیاں"

"کتاب کہانی" از کومل ذیشان " لکھنے والے تین طرح کے ہوتے ہیں : ایک وہ جو پیپ سے بھرے زخموں پر چاک لگاتے ہیں اور ایک وہ جو ادھڑے ہوئے زخموں پر سلائی لگاتے ہیں، ان پر مرہم لگاتے ہیں۔معاشرے میں دونوں اہم ہیں۔کچھ یہ دونوں کام اکٹھے کرتے ہیں۔ منیرہ قریشی آپ زخموں کو سینے والوں میں سے ہیں۔ ڈھانپنے والوں میں سے۔ جب آپ کے ابا اور حمید چچا کا واقعہ پڑھا تو آنکھیں نم ہو گئیں۔ یہ شے آپ کو اپنے ابا کی طرف سے ودیعت ہوئی ہے۔ آپ کی اماں میں میری نانی کی جھلک ہے۔ نانی نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی، پانچویں کے امتحان میں اول آئیں۔ ان کو انعام میں نقشہ ملا تھا۔ آخر وقت تک بالکل آپ کی اماں کی طرح غریبوں، ناداروں کے لیے ان کے گھر کے دروازے کسی لنگر خانے کی طرح کھلے رہے، جہاں سے ایک دنیا نے فیض اٹھایا۔ کاش میں آپ کی اماں سے بھی مل پاتی۔ آپ کا "کوشش پبلک سکول" ہو یا میری فیس بک دوستوں کی فہرست میں فرح دیبا ہیں ان کا "عالم بی بی فاؤنڈیشن" میں خود کو خوش قسمت گردانتی ہوں کہ میرے سامنے آپ کی مثالیں موجود ہیں۔ آپ نے ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ سے ملاقاتیں کروائیں اس کے لیے شکریہ 🤍۔ میں نے جب سے علی پور کا ایلی پڑھا ہے مجھے اب تک شہزاد اس نم اندھیری گلی کے ایک گھر کے چوبارے سے جھانکتی محسوس ہوتی ہے، اس کی اداس آنکھیں۔۔۔۔جیسے شاید ممتاز مفتی کو ان کی یاد آتی ہو گی مگر سچ تو یہ ہے کہ ان کی دو سال پہلے افسانوں کی ایک کتاب پڑھ کر میں الجھن کا شکار ہو گئی تھی۔ مجھے عورتوں سے متعلق ایک دو افسانے شدید کھٹکے۔شاید میں ناراض تھی لیکن اس کتاب کے ذریعے میں نے پھر سے ان کے لیے نرم گوشہ محسوس کیا۔ دو جگہوں پر میری آنکھیں برسنے لگی تھیں شاید لکھتے ہوئے آپ کی بھی برسی ہوں گی۔ ایک ممتاز مفتی کے حوالے سے آپ کے خواب کے ذکر پر اور ایک ابا جی جب پوچھتے تھے کہ "صبح ہوگئی؟" میرے بھائی علی اور میرے دادا کا بھی بالکل ایسا تعلق تھا جیسے آپ کے بیٹے علی اور ان کے نانا کا تھا۔ اشفاق احمد بانو قدسیہ کے وجود مجھے ہمیشہ ایسی ٹھنڈی چھاؤں محسوس ہوئے ہیں جہاں بیک وقت نور بھی پھوٹ رہا ہو۔ آپ کی ملاقات کے احوال سے بھی میرے تصور کی تائید ہوئی۔ آپ کی پیاری دوستوں کو سلام پہنچے۔ اس کتاب کے لیے بہت شکریہ منیرہ آنٹی۔ یہ میرے لیے ایک چراغ کی مانند ہے۔ میری اور آپ کی دوستی مزید گہری ہوئی۔

( کومل ذیشان 19دسمبر ،2024)

 

ہفتہ، 5 اکتوبر، 2024

"انتساب "

"انتساب"

" ببول کے اُس درخت کے نام جس کے سائے تلے عظیم ترین معاہدۂ حدیبیہ طے پایا " 



"فہرست "

"فہرست "

   ٭ ا ۔کبھی کبھی ہم بس یہی کچھ چاہتے ہیں

٭2۔ خیالات و الفاظ کا جنگل

٭3۔ نتھیا گلی کا سِحر

٭4۔ایپنگ فارسٹ کے مکین

٭5۔زمین بوس درخت کی کتھا

٭6۔ کوئینز پارک کے قدیم درخت

٭7۔ٹینڈل ہل پارک کی اُداسی

٭8۔ایش ورتھ سے باتیں

٭9۔خوشبو جیسی باتیں اور صندل کا جنگل

٭10۔بیک اپ کے جنگل سے مصنوعی جنگل تک

٭11۔سلطان صلاح الدین عبدالعزیز مسجد

٭12۔سوات ریسٹ ہاؤس ایک دل فگار یاد

٭13۔ریمز بوٹم انگلینڈ کی دردناک پہاڑی

٭14۔ مہاتمابدھ کا پسندیدہ انجیر کا درخت

٭15۔سرگودھا کا صدیوں پُرانا برگد کا درخت

٭16۔ افریقی جنگل کا فضائی نظارہ

٭17۔ رقصِ درویش اور ترکی کے تاریخی شہر بُرصہ کا فضائی نظارہ

٭18۔ میرا دوست چِھدرا جنگل

٭19۔ راہِ اُمید

٭20۔چھانگا مانگا کا دُکھ

٭21۔ خواہشِ ناتمام

٭22۔الوداع دوست

              


جمعہ، 13 ستمبر، 2024

"پیش لفظ "

"پیش لفظ" 

    منیرہ قریشی اور واہ کینٹ لازم وملزوم ہیں۔پینتیس برس پہلے ایک تعلیمی ادارے کی    بنیاد    رکھی، جو اب ایک شجرِسایہ دار کی صورت نونہالِ وطن کی آبیاری میں سرگرم ِعمل ہے۔تعلیم کے فروغ کی کامیاب عملی کوشش کے بعد محترمہ منیرہ قریشی اب ایک لکھاری کے طور پر سامنے آئی ہیں۔اپنے تجربات،مشاہدات اور احساسات کو لفظوں  میں پرو کر کتابوں کی رنگارنگ مالا  ترتیب دی ہے۔

خودنوشت "یادوں کی تتلیاں" اگر جسم وجاں پر بیتے  حالات و واقعات کے موسموں کی کتھا ہے  تو "سلسلہ ہائے سفر" دیارِغیرکی فضاؤں میں حیرت وانبساط کے در کھولتے  تاثرات   کی   سرگوشیاں ہیں ۔

انشائیے "اِک پرِخیال"  اگر کھلی آنکھ سے دیکھے گئے معاشرتی مسائل پر خودکلامی ہے تو  "لمحے نے کہا" شاعری کی زبان میں اپنے جذبات کا اظہار ہے۔

نئی آنے والی کتاب" جنگل کچھ کہتے ہیں"لفظوں کے اس رنگارنگ گلدستے میں  ایک خوب صورت اضافہ ہے۔یہ اپنی نوعیت کا  ایک طویل مکالمہ ہے، شناسائی کا سلسلہ ہے جو نصف صدی    سے زائد کئی عشروں پر محيط ہے۔جیسا کہ       نام سے ظاہر ہے  یہ دوبدو بات چیت کی ایسی انوکھی داستان ہے کہ  قاری  خودبخود  اس   گفتگو میں شامل ہو جاتا ہے۔

اہم بات یہ  "جنگل کچھ کہتے ہیں "تخیل  کی انتہا پر جا کر دیوانہ وار رقص کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں  درختوں ، جنگلوں کےحوالے سے  نہ صرف ہمارے وطن بلکہ  باہر کے ممالک  کے  بہت سے ایسے دل سوز تاریخی واقعات  و سانحات  کا ذکر ہے جن کو  پڑھ کر قاری لمحے بھر کو دکھ اور تاسف کےجنگل میں بھٹک جاتا ہے تو  اگلے پل امید کی کرن اسے نئے  راستوں کی چھب دکھلا دیتی  ہے۔

جنگل کچھ کہتے ہیں بطور خاص رپورتاژ نہیں بلکہ فاضل  مصنفہ کےذہنی اور جسمانی سفر کا اپنی طرز کا ایک  منفرد سفرنامہ   ہے.  جس میں بچپن کی معصومیت دِکھتی ہے تو کبھی  لڑکپن کی حیرانی دم بخود کر دیتی ہے۔نوجوانی کی جذباتیت قدم روکتی ہے تو  ادھیڑ عمر کی تنقیدی نگاہ کہانیاں کہتی ہے۔کہیں کہیں گزرتی عمر کی چاپ سنتے ماضی اور حال کے تضادات اُداس بھی  کرتے ہیں۔تخيل  اور حقائق کے خوب صورت امتزاج سے گندھے لفظوں کی یہ مہک قاری کو   آخر تک اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔

 منیرہ قریشی  کی تمام تحاریر اُن کے بلاگ " خانہ بدوش" پر پڑھی جا سکتی ہیں۔

munirazafer.blogspot.com

  محترمہ پروین شاکر کا شعر آپ کے ادبی سفر  کے نام

خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے 

موج ہوا کے ہاتھ میں اس کا سراغ  ہے

      نورین تبسم

اُردو بلاگر۔ "کائناتِ تخیل"۔

noureennoor.blogspot.com 

یکم اکتوبر  2024

اسلام آباد 

بدھ، 28 اگست، 2024

"دیباچہ "

"دیباچہ "
دیکھا جائے تو کائنات میں دو رنگ حاوی ہیں ,ہلکا نیلا اور سبز !! نیلا آسمان ، نیلا پانی ، نیلی آنکھ اور نیلے رنگ کی دنیا میں جابجا بہاریں الگ ۔جب کہ سبز رنگ سبز درخت ، سبز پہاڑ اور بہت سے سبز دریا اورپھر ساتھ ہی سبز کی دنیا میں الگ ہی جہتیں ۔سمجھ نہیں آتا کہ سبز کے اتنے شیڈز کہ ان کے منفرد نام رکھنے اور لینے کے لئے کچھ لمحے سوچنا پڑتا ہے ، زمردیں ، سمندری سبز ، کاہی سبز ، یا پھر ہلکے پیلے سبز ۔گویا اللہ نے ہر رنگ کو صرف رنگ کے طور پر ہی تخلیق نہیں کیا بلکہ اس میں ہلکے سے لے کر گہرے سے گہرا شیڈ ایسا بنایا کہ رنگوں کی ہوس رکھنے والی آنکھوں کی تسکین ہو سکے۔
درختوں کی اپنی شکل و قامت ، تنّوں کی موٹائی ،رنگوں کے مختلف النوع شیڈز ، پتّوں کی بناوٹ اور پھر ان میں چھُپے خواص و صفات اور جب یہ احساس جاگ جائے کہ یہ درخت میرا انتظار کرتا ہے ، مجھے بلاتا ہے اور کچھ کہنا بھی چاہتا ہے شاید وہ کچھ دکھی ہے نہ جانے کیا دکھ سمیٹے کھڑا ہے۔یہ سب دیکھ کر انسان مسحور نہ ہو تو کیوں کر نہ ہو ۔
والدین فطرت کے شیدائی رہے ۔ جس کے اثرات اولادپر ہونا ہی تھے ، بچپن سے درختوں ، پودوں کی محبت اور صحبت ہماری فطرت کا حصہ بن گئی ۔ بچپن ایک شہری گھر میں گزرا جس کے صحن میں گملوں کی قطاریں تھیں جیسے کوئی نرسری ہو ۔ صحن کے وسط میں کسی کا تحفہ دیا سفیدے کا درخت اور اس پہ مستزاد صحن کے دونوں اطراف چنبیلی اور موتیا کی بیلیں ۔ یہ وہ پُر بہار اور سر سبز ماحول تھا جس میں آنکھ کھُلی ، پھر درخت اور سبز رنگ ہمارے ساتھ ساتھ رہے ۔ سفیدے کے اس درخت نے تیز رفتاری سے قد نکالا ، جب شمالی ہوا چلتی تو وہ پورے زور و شور سے جھومتا کہ جیسے ہوائیں اس کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہی ہوں اور وہ دھمال ڈال رہا ہو۔ میرے لئے اس کا یہ رُخ بہت دلچسپی کا باعث رہا ۔
کچھ وقت اور گزرا ،میرے جُڑواں بہت خوش مزاج بچپن گزار رہے تھے ۔ وہ چہکتے پرندوں کی طرح اپنی مدھُر آوازوں سے ہر وہ گانا گاتے ، جو اِن دنوں ٹی وی پر مقبول ہوتا ، وہ گھر کے پچھلے باغیچے میں لوکاٹ کے درخت کے نیچے زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ۔ خاص طور پر لوکاٹ کی ایک ٹہنی اِن کی پہنچ میں تھی جس پر روزانہ دو تین گھنٹے گزارنا از بس ضروری ہوتا ۔ چھ سال کی عمر آتے ہی ایک جان کو خالق کا بلاوا آ گیا اور دوسرے کی دلچسپی لوکاٹ یا اس کی ٹہنی پر جھولنا یکسر ختم ہو گئی ۔ چند ماہ تک اپنے اندر کی دنیا نارمل کرنے کے بعد پچھلے لان میں گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ لوکاٹ کا سارا درخت توہرا بھرا تھا لیکن وہی ٹہنی سوکھ رہی تھی جس پر وہ بلا ناغہ بیٹھتے تھے ، مزید چند ہفتے گزرے اور ٹہنی ٹوٹ کر گر گئی۔ درخت کی حساسیت اور کرب و غم کے اس واقعہ نے مجھے درختوں کی صُحبت اور ان کی زبان کے مزید قریب کر دیا ۔ بہت بعد میں علم ہوا کہ درخت صرف سانس لینے والی مخلوق نہیں بلکہ وہ تو باتیں کرتے ہیں ، احساسات کی دنیا بسائے پوری دنیا کے درختوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں ۔ انھیں دکھ اور خوشی کا بھرپور اظہار کرنا آتا ہے اور ان کی دنیا میں انسانی یا جنگلی مخلوق کے لئے وسعتِ قلب ہے ، اسی لئے تو جہاں درخت ہوں وہاں ، رنگ ، خوشبُو ، جنگلی حیات ، اور ہواؤں کے ساتھ رقصِ درویش کرنے سے ہی فطرت کی مکمل تصویر سامنے آ جاتی ہے ۔
درختوں پر لکھی کتاب "جنگل کچھ کہتے ہیں" کو مکمل کر لیا تو انتساب کا سوچا اور سوچ نے لمحہ بھی نہ لگایا کہ
" ببول کا وہ درخت ، جو مقام حدیبیہ میں ایک چھتنار درخت کی طرح موجود تھا اور جس کا ذکر سورہ فتح میں اللہ شان جل جلالہ' نے بہت اہمیت کے ساتھ کیا ہے ۔ جس کے سائے تلے ، ایک خاص وقت میں کائنات کی عظیم ترین ہستیؐﷺنے چند ارفع ساتھیوں کے ساتھ وہ معاہدہ کیا کہ ایسا منظر شاید ہی کسی اور درخت کے سائے تلے نظر آیا ہو " یہ درخت اس اہم واقعہ کے چند سال بعد ہی وہاں سے ایسا ناپید ہوا کہ جیسے وہ سر زمینِ حجاز پر تھا ہی نہیں ۔ شاید اس درخت کو اس پاکیزہ فرض کے بعد دنیا میں اپنا مقصد حیات پورا ہوتا محسوس ہوا اور مالک حقیقی نے اسے اوجھل کردیا ۔میں نے "جنگل کچھ کہتے ہیں " کا انتساب اس اہم ڈیوٹی دے کر چلے جانے والے ببول کے درخت کے نام کیا ہے ۔
منیر نیازی کا ایک خوبصورت شعر ہے ،
؎ ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو
جو شخص سُنتا ہے، وہ بول بھی تو سکتا ہے
مجھے یہ شعر صرف ایک لفظ کی تبدیلی سے اپنی کتاب میں درج خیالات کی عکاسی کرتا محسوس ہوا ،جو شاعر سے معذرت کے ساتھ لکھ رہی ہوں۔
ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو
جو "درخت " سُنتا ہے،وہ بول بھی تو سکتا ہے
منیرہ قریشی
اردو بلاگر"خانہ بدوش"
munirazafer.blogspot.com
یکم اکتوبر 2024
واہ کینٹ