"چھانگا مانگا کا دُکھ"
باب ۔۔20
دل پر پڑا بوجھ تھا کہ جانے کا نام نہیں لے رہا تھا ،انسان کی عمر بہت ہوا تو اسّی یا سو سال ہی ہو پاتی ہے ۔اُس میں بھی آخری دس ، بیس سال دماغی کمزوری یا یاداشت کے چلے جانے کے مرض سے وہ حالاتِ حاضرہ سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ ہر غم اور خوشی سے بھی ماورا ہو جاتا ہے ۔لیکن یہ بزرگ درخت جنھیں کہیں پانچ سو ، کبھی ایک ہزار اور کبھی دس ہزار سال کی عمر دے کر بھیجا گیا ہوتا ہے ، وہ کیسے کیسے دل فگار مناظر کو دیکھتے اور چُپ سادھے خدمات بجا لاتے رہتے ہیں ۔ ایسے نا قابلِ برداشت حالات میں بھی وہ اپنی طرف سے کوئی انتہائی قدم نہیں اُٹھاتے ، صبر اور خدمت کے جذبے سے سرشار حکمِ خداوندی پر سرِ تسلیمِ خم کیے رہتے ہیں ، اسی لیے تو اُن کے سینے میں کتنے گھاؤ ہوتے ہیں، ان کا سینہ کیسے کیسے رازوں کا امین ہوتا ہے مگر اپنی خدمت میں کیا مجال کوئی کوتاہی کر جائیں ۔ کمرے کی فضا میں بھی اداسی گُھلی محسوس ہوتی رہی ۔
؎ دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
اور اُسی دن مجھے چند وہ اداس لمحات پھر یاد آگئے ، جو کبھی بھول نہ پاؤں گی ۔۔۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر "پتّوکی " سے سات کلو میٹر کے فاصلے پر بارہ ہزار ایکڑ پر محیط ،انسانی ہاتھوں سے ترتیب اور تکمیل پائے گئے جنگل کی سیر کا موقع ملا ،جِسے دنیا کا ایک بڑا مصنوعی جنگل بھی کہا جاتا ہے اور چھانگا مانگا کا نام دیا گیا ہے ،یہاں شیشم ، کیکر کی بہتات تھی ۔ خوبصورت درختوں ، جگہ جگہ بنچ ، کچھ قطعات پر پُھولوں کے تختے ،کہیں پانی کی رکاوٹ سے بنی جھیل اور اسی کے کنارے خوبصورت ریسٹ ہاؤس ، عجب دل پذیر مناظر تھے ۔ خوب صورت جنگلی حیات اور پرندوں کی چہکار سے ، سکون ہی سکون پھیلا محسوس ہوا ۔ ادھر اُدھر کی سیر کے بعد درختوں کے ایک جھُنڈ تلے ڈیرہ ڈالا گیا اور طعام کے بعد قیام بھی کیا جانے لگا ، تو اِرد گِرد پھیلی نرم میٹھی دوپہر کی غنودگی میں جیسے کِسی نے چھینٹے گرائے ۔ یوں محسوس ہوا ، شاید کِن مِن بارش آ گئی ہے ، آسمان پر آوارہ بادل تو تھے ، ساتھ نرم دھوپ بھی تھی ، فضا میں بھی سکوت و سکون تھا کہ چند قطرے پھر گِرے توجھُنڈ کے خوبصورت چھتنار درختوں کی طرف نظر پڑی ، تو ڈُبڈبائی آنکھوں کے آنسو مزید پھیل گئے ،اوہ ! میَں اپنے گروپ کی سنگت کی خوشی اور اس جنگل کی خوبصورتی میں محو ہو کر اپنے دیرینہ دوستوں کو نظر انداز کر بیٹھی تھی ۔انسان بھی کیسا خود غرض ہو جاتا ہے ۔ اپنی خوشیاں کتنی عزیز ہوتی ہیں کہ باقی سب کچھ پس منظر میں چلا جاتا ہے لیکن درخت ہوں اور کچھ کہا کچھ سُنا کی کیفیت سے گزرے بغیر آ جاؤں ، ایسا کبھی ہوا نہیں تھا ، یہ آج کیوں کر ایسا ہو گیا ؟
جلدی سے ذرا اُس حصے کی طرف قدم بڑھائے کہ راز و نیاز کے لئے وہ خوبصورت گوشہ سامنے تھا جہاں لمبے ، پتلے تنّوں والے سفیدے کے جوان درختوں کے ساتھ دو پختہ عمر شیشم کے درخت اپنی لمبی گھنی ٹہنیوں کو اتنا پھیلا چکے تھے کہ بیچارے سفیدے کے درخت قدرے ٹیڑھے ہو چکے تھے لیکن سفیدے کے درخت ایسے مطمئن نظر آئے جیسے اچھا شاگرد ، استاد کی تعظیم کرتے ہوئے اُس کی گھمبیر خاموشی اور سخت رویے کو بھی خوش دلی سے سہہ جاتا ہے ۔ پانی کے چھینٹے انہی شیشم کے درختوں نے چھڑکے تھے جو دوسو سال پرانے تھے ، جانے لالچی ٹمبر مافیا سے کیسے بچ گئے !! اُن کی اداسی اور عمیق فراست اُن کے ٹھہرے ٹھہرے لہجے پر اتنی حاوی تھی کہ نظریں خود بخود جھک سی گئیں ، یہ ملاقات اُس وقت ہوئی تھی جب ان پاکیزہ فضاؤں کو متعفن کرنے والے اذہان نے انھیں اپنی طمع کے لئے استعمال کیا تھا۔ شیشم کے درختوں نے یاد دلایا ،
" تم شاید پہلی مرتبہ یہاں آئی ہو ، اسی لئے تم نے ہماری دکھی فضاؤں کو فوری محسوس نہیں کیا ،کیوں کہ ہمیں حکمِ الٰہی ہے کہ کوئی بھی تمہاری چھاؤں تلے بیٹھے ، اُنھیں خوش آمدید کہنا ہے ۔ آج تم یہاں آئی ہو ، ہمیں سوات ریسٹ ہاؤس کے قدیم درختوں نے صبح پیغام دیا تھا ، آج درختوں کی عاشق ، انھیں سراہنے والی پہنچے گی ، بے شک اُسے وطن کی تاریخ کے سیاہ صفحات سنا دینا ۔ وہ نئی نسل کو اپنی زندگی میں کبھی کبھار یاد دلاتی رہے گی کہ کیسے تمہارے نام نہاد رہنماؤں نے شراب ، کباب ، اور دوسرے لوازمات سے چند ضمیر فروشوں کو اُسی طرح گھیرا ، جیسے ہر دور کی تاریخ میں دُنیاوی لالچ میں پھنس جانے والے میر جعفر ، میر صادق خریدے جاتے رہے ہیں اور یہ بے ضمیراپنے آپ کو تھوڑے سے مال کے بدلے لالچ کی دلدل میں دھنسا کر آگ کا سودا کر تے رہے ہیں۔غیر ملکی آقا اپنی بادشاہت کی مضبوطی کی خاطر اگر نام نہاد اسمبلیوں میں چند بکاؤ مال خریدتے رہے تو وہ "پُھوٹ ڈالو اور حکومت کرو " کی پالیسی پر عمل کرنا اپنا حق سمجھتے تھے لیکن یہاں ان کے اپنے ہم وطن ، ہم مذہب تھے کسی دوسرے ملک و مذہب کے لوگ نہیں تھے ۔ وہ سمجھتے ہیں " ووٹ ، اور جمہوریت کی سیاست کا یہ اہم رُکن ہے کہ آزاد ارکان خریدو اور حکومت بنا لو " !! جیسے اللہ کے نام پر اور اس کی کتاب پر حلف اٹھا لینا اور پھر توڑ دینا آج کی سیاست کا حصہ ہے ! اُن بکاؤ مال کے نزدیک اخلاقیات کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا ۔
بے ضمیری نے انہی کی نسلیں تباہ نہیں کیں ، بلکہ لفظ " خاندانی ، اصلی نسلی " کے معنی تبدیل کر دئیے ۔ پاک وطن کی آنے والی نسلوں نے ایسوں کو کامیاب دیکھا تو یہی سبق سیکھا کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لو ۔ کون سا عہد ، کیسی وفاداری ؟"۔
اِس خوبصورت جنگل میں سب سے پہلے 1988ء میں نواز شریف نے جواُس دور میں پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ تھا اپنی اگلی وزارتِ اعلیٰ کی سیٹ کی خاطر چالیس آزاد ارکان ِصوبائی اسمبلی کو یہاں کے ریسٹ ہاؤس میں قید کیا ۔ یہ قید ان ارکان کی اپنی خواہش پر تھی ۔ نواز حکومت نے انھیں ہر وہ سہولت بہم پہنچائی جس سے گِدھ خوش ہو جائیں ، پھر عین ووٹ ڈالنے کے دن انہی بے ضمیروں نے حقِ نمک ادا کیا اور یہ حسین جنگل اب ایک بُرے فعل کے نتیجے میں بدنامِ زمانہ بنا دیا گیا ہے ۔دنیا کی گندگی کھانے والے گِدھ ، جن کے ناپاک اذہان نے گندگی بھرے معاہدوں پر دستخط کیے ۔ جیسے یہ سب کرتوت انجام دینے میں کوئی قباحت ہی نہیں ۔ جانے اُن کا کیا انجام ہوا ؟ جانے انھیں وہ دولت کتنے دن استعمال کرنا نصیب ہوئی ؟ بالکل یہی حرکات بے نظیر نے جاری رکھیں اور اس کے ضمیر فروشوں کو سوات کے ایک ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا ،جو بھی حکومت میں بیٹھا ، اُس نے ببانگِ دہل یہ گناہ کیے ۔ اور " لوٹا کریسی ، ہارس ٹریڈنگ ، فلور کراسنگ اور نہ جانے کیا کیا اصطلاحات ایجاد ہوئیں، کیوں کہ انسانوں نے مویشی منڈی کا روپ خوب دکھایا ،اِس جوڑ توڑ میں محو لوگوں کو شطرنج کی سب چالیں آ گئی تھیں اور ہیں !! نہیں آیا تو یہ کہ " روزِ محشر بھی کچھ پوچھا جائے گا ۔ عہد توڑنے کی وعید بھی بتا دی گئی ہے ،اُن کے فیصلوں نے جانے کتنے کروڑ نصیبوں پر سیاہ لکیر پھیر دی!" ۔
شیشم کے درختوں نے شدید دکھ میں ڈوبے لیجے میں بتایا ،" ہماری آنکھوں کی طرف دیکھو ، آنسو مستقل اِن میں ٹھہر گئے ہیں ، ہم سوات کے اُس ریسٹ ہاؤس کے درختوں کی طرح جھومتے نہیں ، بے آواز بین کرتے ہیں ۔ جانے اِس پاک سر زمین کے سادہ لوح لوگوں کو کب تک احمق سمجھا جاتا رہے گا ؟ جانے ان کے بے ضمیر لیڈروں کو عبرت ناک سزا کب ملے گی ؟ جانے تم لوگ کب شعور کی منزل پاؤ گے ؟ کب تمہارے اندر کی محدود سوچ بدلے گی ، دُور مستقبل کی روشنی جو دکھائی دے رہی ہے، اسے پانے کی کوشش نہیں کر رہے ؟ کب تک شاندار لوگوں کا استحصال ہوتا رہے گا ؟ ،کب تک اپنے دشمنوں کے لئے تر نوالہ بنتے رہو گے، کب ایکا کرو گے ؟ جانے ہمارے سایوں تلے کب تک گھناؤنے کھیل رچائے جاتے رہیں گے ، کب تک ؟ ۔ہم درخت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن ہوا اور پرندے ہمارے لئے وہ پیام بر مقرر کیے گئے ہیں جن کی خبروں سے ہی ہم اپنے دکھی ساتھیوں کے دکھ سے پل بھر میں آگاہ ہو جاتے ہیں ۔ ہم مل کر اُن کے لئے دعا گو رہتے ہیں۔ ہمارے اتفاق و اتحاد سے کچھ سیکھو ۔اُس دن کے بعد سے چھانگا مانگا کے اِس جنگل کو اِیسی مذموم سازشوں کے لئے جیسے چُن لیا گیا ہو ایک وقت ایسا بھی آیا جب رمضان کا مہینہ تھا جس کا احترام بھُلا دیا گیا اور شراب و کباب کی محفلیں ایسے منعقد کی گئیں جیسے خالق کائنات ،کہیں اور گیا ہوا ہے اور یہ خود دنیا کے مالک بن گئے ہیں ، ان کو یومِ محشر بھُولا ہوا تھا ۔ تمہیں جب موقع ملے ، اِس تاریخ کو نئی نسل تک پہنچانے کا فریضہ ادا کرتی رہنا کہ اسی طرح ہی زندگی سبق سکھاتی ہے ۔ آنکھیں کھلی رکھو کہ دشمن کبھی غافل نہیں ہوتا ، اُٹھو ، اور اُسی با وقار دور کو پا لو ، جب یہ ملک دوسرے ممالک کو قرضہ دیتا تھا ۔ یہاں غیر ملکی آتے اور ہمارے بہترین پالیسیوں سے سیکھتے اور آج وہ ہم پر ہنستے ہیں ۔ غلط کار حکمران کے منحوس اثرات " !۔
شیشم کے درختوں نے آہ بھری اور آنکھیں موند لیں ۔ اچانک مجھے یہ جنت ، یہ بےفکری ، بے معنی لگنے لگی ۔ جب قوم کے ہر فرد کو مستقل نہ سہی ، کبھی کبھی کی تفریح کی بنیادی سہولتیں ستتر (77) سال میں نہ مل سکیں ۔ تو گویا اپنے دشمن ہم خود ہیں ۔!!
( منیرہ قریشی یکم مئی 2024ء واہ کینٹ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں