منگل، 7 مئی، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔21)

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔21)
آج اتنے عرصے بعد چھانگا مانگا کے جنگل کی بھیگی آنکھوں کی یاد نے دل گرفتہ کر ڈالا ، تو اپنے پیارے دوست " چھِدرے جنگل " کے پاس چلی گئی ۔ یہ محفل میرے لئے غم غلط کرنے کی بہترین تھیرپی بن جاتی تھی اور ابھی تک ہے !!
ان درختوں کے بھی کیا کہنے کہ آپ کے کچھ کہے بِنا ہی دل کی کیفیت اور چہروں کے تاثرات کو جانچ جاتے ہیں کہ ہمارے قریب آنے والا اس وقت کس اتھل پتھل کا شکار ہے ۔ وہ غم میں ہے یا خوشی میں ۔ اس کی خوشی میں خوش ہونا تو آسان ہے لیکن دوسرے کے غم کو کیسے کم کر سکتے ہیں ۔ اِس معاملے میں درخت ہمارے اچھّے استاد ہوتے ہیں ۔ " باڑ کے باہر کے چھِدرے جنگل" کے پاس پہنچتے پہنچتے جیسے ہی آہستہ سے سلام کیا اور ایک آہ بھر کر خاموش کھڑی ہو گئی کہ آج مزید کچھ کہنے کو نہ تھا ۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اچانک خراماں خراماں چلتا ہوا ایک خوبصورت جوان ہرن چرتا نظر آیا ،کیا ہی حسین منظر تھا ۔ جنگل اِس وقت اپنے مکمل حُسن کے ساتھ سامنے تھا ، خوبصورتی صرف چاندنی رات اور دریا کے کنارے کی موجودگی سے ہی نہیں ہوتی بلکہ جنگل اپنے درختوں ، پتوں ، چڑیوں ، تتلیوں اورجنگلی جانوروں کی موجودگی سے اپنے حُسن کو مکمل کر کے دِکھا رہا ہوتا ہے ۔
آج اس لمحے اس جنگل میں اطمینان سے چرتے ، خوبصورت دھبے دار ہرن کی موجودگی سے دل باغ باغ ہو گیا ۔ فطرت اپنے آپ کو عیاں کر کے خوشی دینے کا باعث بنتی ہے ۔ بس لمحے کی گرفت ہو اور درختوں سے دوستی ہو ۔ تو گویا آج کی اداسی کو رفع کرنے کی ایک پیاری سی کوشش تھی ۔ حالانکہ ، اس جگل سے دوستی کو کئی مہینے گزر چکے تھے ،تتلیوں ، چڑیوں اور گلہریوں سے دوستی کروا دی گئی تھی اور ایک دن لومڑی کی جھلک نے بھی دل شاد کیا تھا ،اور آج ہرن !!! ہرن مزید بےفکر ہو کر چَرتا چُگتا ٹہلتا رہا ۔ میَں بھول ہی گئی کہ کچھ دیر پہلے مجھے وطن ، اور اُس کے ساتھ زیادتی کرتے اہلِ وطن کے کرتوں نے کس قدر دلگرفتہ کر رکھا تھا ۔
دن گزرتے جا رہے تھے، اِس نئی سرزمین کے صاف ستھرے نظاروں نے جیسے پاؤں میں زنجیر ڈال دی تھی ۔ یہاں کی سب سے اہم بات ، انصاف و قانون کی بالا دستی اور صفائی نے دل کو سکون دیا ہوا تھا ۔ ایسا میرے وطن میں بھی ہو جائے ، ویسا میرے خطے میں ہو جائے ۔ جانے میرا وطن کب بھیڑیوں کے چُنگل سے آزاد ہو گا ؟، میری قوم کب با شعور ، اور با خبر ہو گی! اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہی اور اس پر عمل درآمد سے ہی ہم ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھ پائیں گے ۔
یہاں ایک جھیل پر بنے ڈیم کی طرف جانا ہوا ،ڈیم سے باہر کی دو فرلانگ کی گول چوڑائی کو باریک بجری سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ وہاں آس پاس کوئی درخت نہیں تھا ، لیکن ایک بڑا سا بورڈ ان ہدایات کے ساتھ لگا ہوا تھا ۔۔۔
" یہاں کسی قسم کے بار بی کیو ، یا پکنک کی اجازت نہیں ، عمل نہ کرنے والے پر ڈھائی ہزار پونڈ جرمانہ کیا جائے گا "
اب اگر کسی وزیر کی فیملی ہے یا بادشاہ کی اولاد ۔۔ اول تو قانون توڑیں گے نہیں ورنہ اتنا بھاری جرمانہ اور بدنامی الگ سہنا پڑے گی ۔ میرے ملک کوایک عام پولیس کا سپاہی یا آفس کا کلرک بھی اپنی ذاتی جائیداد سمجھ کر لؤٹ رہا ہے تو بڑے عہدے دار تو مکمل فرعون بنے بیٹھے ہیں ۔ ایسی سوچ کب بدلے گی ؟ جانے کب ؟۔

( منیرہ قریشی ، 8 مئی 2024ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں