اتوار، 10 مارچ، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (1)

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (1)
( حدیبہ کے ببول کے اس درخت کے نام ۔ جس کے چھتنار سائے تلے عظیم ترین ہستی نے عظیم ہستیوں سے عہد لیا تھا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم و مکرم اشفاق احمد صاحب نے اپنے دوست محمد حسین نقش کو ایک خط میں لکھا کہ " میں آجکل تھر میں ہوں " اور یہاں کے مختلف گوشوں کی خاموشی کو ریکارڈ کر رہا ہوں ، سچ پوچھو ! تو ایک کمرے کے ایک کونے کی خاموشی دوسرے گوشے سے مختلف ہوتی ہے ،۔۔۔
اور آج یہاں کی ایک بہت سادہ اور چھوٹی سی مسجد کی خاموشی محسوس کرنے جا رہا ہوں !!!
کیسے کیسے منفرد لوگ اپنے انوکھے اور ارفع خیالات لکھتے رہے ،، اور آنے والی نسلوں کے لئے عجب سنگ میل چھوڑ گئے ۔
جانے کب ' کس دورمیں جنگل کی محبت دل و دماغ میں جا گزیں ہوئی کہ پتہ بھی نہ چلا ۔ جب کبھی سیر کا موقع ملا ، نظریں درختوں کے جُھنڈ ، درختوں کی چوٹیوں ،،، اور درختوں کی چھاؤں کو تلاشتیں ۔ جب کبھی اپنے ہرے بھرے گاؤں جانا ہوتا ،،، تو لڑکپن کے اس دور میں یہ سفر کچھ ایسا خوشگوار دورانیہ نہ ہوتا ،،، لیکن کچھ دیر گزار کر جب کھیتوں ، کھلیانوں میں جانا ہوتا ،، ایک چکر گھنے درختوں میں گھِِرے قبرستان کا لگتا ،، تو وہاں جاکر جیسے سکون مل جاتا ، اس شہرِِ خاموش میں سوئے لوگوں پر رشک آتا کہ ،، لو کیسے پُر سکون ماحول میں " مزے " کر رہے ہیں ،،، لیکن ظاہر ہے اس سوچ میں بتدریج تبدیلی آتی چلی گئی ۔ اور اگر کسی خوشی یا غمی کے موقع پر کچھ دن رہنا ہوتا ، تو نزدیکی چھوٹی پہاڑی پر ضرور جانا ہوتا ، وہاں اگرچہ درختوں کا کوئی خاندان نہ تھا ،، اور نہ ہے ! لیکن جھاڑیوں کی ایسی اقسام ہوتیں جو ، ایک فٹ سے پانچ فٹ تک ہوتیں ، انہی کی جڑوں میں رہتی ننؔھی منی مخلوق ،، کو والد صاحب ، یا اگر بڑے چچا ساتھ ہوتے تو بے دھڑک ہاتھوں میں اُٹھا لیتے ۔ ان کے نام اردو ، انگریزی میں بتاتے ۔ ایک کمبل کیڑا ہوتا ،،، جس کے وجود سے کبھی دوستی نہ ہو سکی ،، اور اگر ہلکی بارش ہو چکی ہوتی تو ہر سائز کی بیر بہوٹیوں کے خاندان کے خاندان انہی جھاڑیوں کی جڑوں میں آباد ہوتے ، ان کی سرخ مخملی جسامت اتنی پُر کشش لگتی کہ چند منٹوں میں انھیں مٹھی میں لینے پر کوئی خوف محسوس نہ ہوتا ، یہ پودوں ،،، درختوں اور فطرت کے نظاروں سے عشق کی ابتداء تھی ،۔۔ اس عشق کو قدرت خود ودیعت تو کرتی ہی ہے ، لیکن اکثر یہ لڑی وراثت میں بھی آتی چلی جاتی ہے ۔ اور بندہ ۔۔ گنجان شہروں میں رہے ،،، یا ،، بھرے پُرے گھروں میں رہ کر بھی اندر دل و دماغ کی دنیا میں ایک گھنے درختوں والے جنگل میں بھی رہ رہا ہوتا ہے ، وہیں ایک ہی پیارا سا کمرہ ہوتا ہے اور جب اس کا دل چاہتا ہے ،،، اس کمرے میں جا کر اس کی کھڑکی سے جنگل کا نظارہ بھی کرتا ہے اور حال احوال بھی پوچھا جاتا ہے ۔ ،، درخت اسے مختلف کہانیاں سناتے ہیں ۔۔ اور یوں کچھ دیر کو ہی سہی ، لیکن فطرت اپنی باہنوں میں لے کر اس کی روح کو پُر سکون کر دیتی ہے۔
اسی بچپن اور لڑکپن کے دور میں مری جانا ہوتا ،، زندگی کے بے فکر ترین ڈھائی ماہ وہاں گزرتے ،، یہاں کم آبادی ،، کم شور ،، زیادہ درخت ، زیادہ نظارے ،،زیادہ سکون ہوتا ،،، دور اور نزدیک کے پہاڑوں سے دور بین لگا کر دوستیاں کی جاتیں ۔ بلیک بورڈ پر چاک سے کھچی لکیروں جیسے راستے اور ان پر چلتی چیونٹیوں جیسی گاڑیاں ،، اور لوگ وہ نظارے ہوتے جنھیں اندھیرا چھا جانے تک دیکھتے رہنے سے کبھی اکتاہٹ نہ ہوئی ، آہ انسان ، انسانوں اور عمارتوں کے جنگل میں رہ کر بھی اکیلا ہو سکتا ہے ،،، اور بے آباد جنگل میں رہ کر بھی اکلاپے کا شکار نہیں ہو سکتا ۔
مری کے گھر کے ساتھ ہی گھنے درختوں سے گھرا لان تھا ،، جہاں پہلے ہی دن پہنچ کر لمبے لمبے سانس لیے جاتے ،،، سفر کی تکان ،، اور سر چکرانے کی کیفیت سے ایسے نجات مل جاتی جیسے ہم تو یہیں تھے ،،، ایک مدت سے ۔ اور درخت اپنی مانوسیت کو ظاہر کرنے میں ذرا بخل نہ کرتے ، " تم لوگ پہنچ گئے !! ابھی دس ماہ پہلے ہی تو گئے تھے ،، ہم پھر سے تمہارے منتظر تھے " ۔۔۔اور یوں ہمیں تجدید محبت کی کبھی ضرورت نہ پڑتی ، چند دن گھر کی سیٹنگ ،، اور والدہ کی طرف سے ملے روٹین کو سن کر اپنا ،،کر ہم دونوں اوپر تلے کی بہنوں کا اگلا اہم اور خفیہ کام شروع ہو جاتا ۔۔۔ یعنی اپنی عمر کے لحاظ سے کھرپے ،، بیلچے ،، اور کلہاڑی لے کراسی لان کے گھنے درختوں کی کسی ایک صاف جگہ پر کھدائی کرتیں ۔۔۔ ایک دن ہمیں کوئی خزانہ ضرور ملے گا ،،، اور ہم بہت امیر ہو جائیں گے ،، یہ چھوٹا سا ، معصوم خیال اس دور کے پڑھے جانے والے ادب سے ماخوذ ہوتا ۔۔۔ اگرچہ اس کھدائی کی نوبت کہیں ہفتے میں ایک دو دن ہی آتی ، درخت ہمیں مسکرا مسکرا کر کبھی ہلکورے لیتی ہوا کے ساتھ جھوم کر محبت بھری نظروں سے دیکھتے ،، مجھے نہیں یاد کبھی اس ماحول نے ہمیں خوف زدہ کیا ہو ،، یا کبھی اکتاہٹ محسوس ہونے دی ہو ۔ جب کہ وہاں آس پاس کوئی گھر نہیں تھا ،،
کچھ مزید وقت گزرا ،، ایسے ہی نظاروں نے یہ پیغام دیا کہ " یہ جو تم درختوں سے اتنی محبت کرتی ہو ، کبھی غور کیا ،، یہ بھی تمہارے آتے ہی کیوں یکدم کھِل اٹھتے ہیں ،،، کیوں وہ بھی تمہیں پہچان چکے ہیں ،، ان کے پاس بھی ہاتھی جیسی ذہانت کا وہ ذخیرہ ہے جو سال ہا سال کے بعد بھی اپنے ذہن کے کمپیوٹر میں محفوظ اس شخص کی محبت یا نفرت کو یاد کے فرنٹ فٹ بورڈ میں لے آتی ہے ، ،، بس درخت بھی اپنے ہم نفسوں کو ہواؤں کے ذریعے پیغام دے چکے ہوتے ہیں ،،
ہمیں سراہنے اور چاہنے والا آیا چاہتا ہے ، اسے خوش آمدید کہنا ،، تب احساس ہونے لگا ، جنگل تو کچھ کہنے ، کچھ سننے کو بیتاب ہوتے ہیں ۔ کبھی غور تو کرو ،،، وہ تو کسی کسی کو یہ شرف دوستی دیتے ہیں ، اب یہ دوستی نبھاتی رہنا کہ "" جنگل کچھ کہتے ہیں """ سنو تو سہی کیا بتا رہے ہیں ، کیسی کہانیاں سنا رہے ہیں !!!

( منیرہ قریشی 10 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) ( جاری ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں