بدھ، 13 مارچ، 2024

"جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (2 )

"جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (2 )
پُلوں کے نیچے سے پانی گزرتا چلا گیا ۔ لوحِ محفوظ میں جو لکھا ہو وہ اپنے وقت پر ہی سامنے آتا ہے ۔ چاہے ، کسی سے ملاقات ہو ؛ چاہے کسی واقعہ کا پیش آنا ہو ۔۔ یا کسی کام کا یکدم ہو جانا ہو ۔
کچھ ایسے ہی بباطن کی اس انوکھے ذوق اور چھٹی حّس میں سے اس سمت کی عجب حساسیت تھی جو ساتھ ساتھ تھی ،،، درختوں کی موجودگی مجھےبےچین کر دیتی ہے ،،، کیوں وہ کچھ باتیں کرتے ،، اشارے کنائے سے متوجہ کرتے محسوس ہوتے ہیں ،،، ایسی پیام رسانی کوئی اور کیوں محسوس نہیں کرتے ، اس بات پربمیں حیران رہتی تھی۔
درختوں کی موجودگی سے لوگوں کی گفتگو پر متوجہ ہونے کے لئے مجھے کچھ مائل و قائل ہونا پڑتا تھا اور ہے !! ،،، لیکن یہ سب گفت و شُنید ،،، مجھے اپنے سفر کا حاصل وصول ہوتی تھی ،،، اور ہے !
مری میں نتھیا گلی ، ایک شام کو پہنچے ،،، ایک اونچی پہاڑی پر بنے ریسٹ ہاؤس میں ایک رات کا قیام تھا ۔ شام تھی اور وہ بھی پہاڑ کی شام ،،، اونچے لمبے چیڑ اور کچھ مختلف النوع درختوں سے گھِِرا ۔۔۔ آس پاس کی خاموش فضا میں لپٹا ماحول تھا، ہم دنیاوی مصروفیات کو اولیت دیتے ہوئے محض یہاں کی ٹھنڈک کو انجوائے کرتے ہوئے ، کمروں کے آرام و سکون کو جانچتے رہے ، ،،، جانے کب کی رہتی ایک جوان لڑکی کی آتما سے بھی کچھ لمحوں کی رونمائی ہوئی ۔ پھر رات بھر کے لئے غائب بھی ہوئی ،،، صبح خیزی ،، کے ذہنی الارم نے جگایا ، اس رب کائنات کے آگے سر بسجود ہونے کے لئے ٹیرس کو پسند کیا ،جس کے ساتھ لگے چند چیڑ کے درخت اپنے تنوں کو جیسے ٹیرس کو سہارا دے رہے تھے ۔، حمد و ثنا کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ،،، لیکن یہ کیا ۔۔۔ صبح کی نو خیز کرنیں ابھی درختوں کی اونچی چوٹیوں کو چُھو ہی رہی تھیں ،، لیکن سارا ماحول مصورِ کائنات نے اپنی پینسل سکیچ سے آوٹ لائن دے کر اس کے خدو خال کو نمایاں کر دیا تھا ، خالق نے عجب نظارے سے آگاہی دی ۔ سیدھے ، اونچے سرسبز درختوں نے بیک وقت رُخ موڑا ،، واضح مسکراہٹ کے ساتھ ہلکا سا ہلکورا لیا ۔ اور اپنا پیغام مجھ تک ٹیلی پیتھی کر دیا " جس رب نے تمہیں بنایا ، اسی نے ہمیں بنایا ،،، گہرے لمبے سانس لو ، اس شفاف ہوا کا ذریعہ ہمیں بنایا گیا ہے ۔اپنے جسم کے ہر مسّام تک آکسیجن پہنچاؤ ،،، کہ ہم تک تمہارا آنا سالوں کا پروگرام ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور پھر بتدریج نرم کرنوں نے سہج سہج کر پہآڑی سے اور درختوں کی چوٹیوں سے اُترنا شروع کر دیا ۔ وہی آسمان جو رات بھر سیاہ لحاف اوڑھے ڈراتا رہا تھا ۔ کہ کھڑکیوں سے جھانکنا بھی دو بھر تھا ،،، اس نوخیز سِحر نے آتے ہی رات کا سَحر دھو ڈالا ۔۔۔۔ سبز ، گھنے درختوں کی سائیں سائیں ، اور گہری سبز گھاس کا ہلکورے لیتی کرنوں کو خود میں جذب ہوتے دیکھنا ، جنتِ ارضی کا دلفریب نظارہ تھا جس نے کتنی ہی دیر مبہوت کئے رکھا ۔ آنکھیں اس رب کی خلاّقی پر بھیگ گئیں ۔ اُف ،،، اتنی پاکیزگی !! اتنی کومَلتا ،،، شکریہ اے مالک ! صبحء سبز کا اور یوں جھومتی کائنات دکھانے کا ۔
اور درختوں نے بھی جلوے دکھانے میں کچھ بخل نہیں کیا ،،، ناشتہ تیار ہے کا بلاوا آیا ۔ تو سبھی گروپ ارکان ،،، میدانوں کی گرمی اور شہری شور و غُل سے اظہارِ ناراضگی کر رہے تھے ۔ موسم و ماحول نے بھر پور ناشتے کی اشتہاء دی ،،، اور جیسے ہی غسل خانے میں ہاتھ دھوئے گئے ،،، گروپ کی نوجوان بیٹی کو آئینے میں وہی جوان لڑکی اس کے پیچھےمسکراتی کھڑی نظر آئی ، لمحے بھر کے لئے اس کا دل لرزا ،،، لیکن جوں ہی وہ پیچھے مُڑی ، جوان روح غائب تھی ،، جانے کتنی صدیوں پرانی تھی ،،، یا چند سال پہلے کی بھٹکی ہوئی تھی ۔ لیکن ہم بھی یہاں مسافر تھے ،، اس نے بھی مروت دکھائی اور ایک یاد گار رات کی جھلک درختوں ، کرنوں اور پہاڑیوں کے سنگ گزار کر اس ذی روح کی چند منٹوں کی رات اور چند سیکنڈوں کی دن کی سنگت کے بعد واپسی کی راہ پکڑی ۔ آتے وقت چند لمحوں کے لئے اپنے پسندیدہ ٹیرس کے ساتھ لگے درختوں کا شکریہ ادا کرنے ضرور گئی ،، انھوں نے محبت کی نگاہ ڈالی ، اور کہا " ہو سکے تو پھر آنا ، تب یہ مسافر روح شائید تمہیں اپنی کہانی کہہ ڈالے !!
( منیرہ قریشی ، 13 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) (جاری )

"جنگل کچھ کہتے ہیں " ( تصور 2) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں