اتوار، 17 مارچ، 2024

"جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (3)

"جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (3)
لفظ ' جنگل ' عجیب سا لفظ ہے ، یہ لفظ سنتے ، یا پڑھتے ہی ذہن میں درختوں کے جھنڈ کا تصور ابھرتا ہے ، جہاں چھتنار درختوں کے اندر ،، پُراسراریت ، خوف ، اور چھُپے رازوں کے دفینے ہو سکتے ہیں ۔ گویا قدرت اپنے اسرار عیاں کرنے کے لئے ویرانوں ، صحراؤں ، اور جنگلوں کو ایک سیڑھی کے طور پر مہیا کرتی ہے ۔ " اٹھو تو سہی ، کھوجو تو سہی ، سوچو تو ذرا ۔ یہ بظاہر بے زبان درخت ،، بے آب و گیا ویرانے ، صحرا میں بکھری ریت کچھ کہہ رہی ہے ،، لیکن کیا ؟؟؟
کبھی کبھی جنگل " گھنّے الفاظ " کی صورت دل و دماغ میں جگہ بنا لیتے ہیں ۔ یہ الفاظ یا تو بلند و بالا درختوں کی مانند ہوتے ہیں ،، یا کبھی چھدّرے درختوں کی طرح ،،، کبھی یہ خیالات خزاں رسیدہ ، پُژمردہ جنگل کی صورت میں ،، اور کبھی پھلوں ، پھُولوں ،، یا خوش رنگ پتّوں سے لَدے ،،، ہاتھ باندھے قطار در قطار خدمت گاروں کی صورت کھڑے نظر آجاتے ہیں ۔ بس یہ اشرف المخلوق کی کیفیت پر منحصر ہے ،، کہ جنگل کا فُسوں کس رنگ کی پچکاری چھوڑ رہا ہے ،،، حضرتِ انسان اس وقت کس دور سے گزر رہا ہے ،، کہ وہ جنگل کے اس رنگ کو کتنی توجہ دے رہا ہے ۔
الفاظ کے جنگل تو خود قدرت خداوندی کی عجب دین ہوتے ہیں ، کہ یہ جنگل " خوش حالی" کے نظاروں کو دکھا رہے ہیں تو ہر دن عید اور ہر شب ، شبِ برات ،،،، گویا جلترنگ لہجوں کی پسِ منظر موسیقی اس جنگل کو منگل بنا دیتی ہے ۔ یہ رنگین جنگل اندر کی قناعت سے ضرور مل جاتا ہے ، بس ذرا خلُوص اور شُکر گزاری کو آنکھوں کی نمی سے چھِڑکاؤ کرنا پڑتا ہے ۔
کبھی کبھار جنگل کا تصور ، تکلیف دِہ الفاظ ، کانٹے دار جھاڑیوں ،،، اور درندوں کی آوازوں کے خوف پر مبنی سفر بن جاتا ہے ، الفاظ کا جنگل ہر شخص اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتا رہتا ہے ۔ لیکن اسے محسوس نہیں ہونے دیتا کہ مَیں ، ہاں میں تمہارے ساتھ تھا ،، اور ہوں !!۔ کبھی یہ جنگل یا صحرا ، چھوٹا اور کبھی دمِ آخر تک ساتھ دیتا رہتا ہے ، لمبا راستہ ، لمبا فاصلہ، لمبی آزمائش،،،،
ایسے لوگ اگر اصل جنگلی حیاتِ و پات و بے زبانوں کے درمیان زندگی گزارنے کا ٹھان لیں تو ان کی روح تھور زدہ زندگی سے نجات پا سکتی ہے ۔ اسی لئے ایسے ہی گُھّنی لوگ جب دوسری دنیا میں منتقل ہوتے ہیں تو ان کی آخری آرام گاہ کی طرف پھیرا ڈالنے والے فوراً محسوس کر لیتے ہیں ،، "کیسا سکون ہے یہاں ، کتنی مدھرتا ہے ،، جیسے وقت رُک گیا ہو ،،، جیسے خاموشی کہہ رہی ہو ،
؎ میَں تھکیا ٹُٹیا ہویا راہئ !!
تُو ککراں دی چھاں نی کُڑیئے
( میں زندگی کے سفر سے تھک کر آیا ہوں ، اے میری ساتھی ، تمہارا وجود اس وقت میرے لئے ککر کی چھاؤں کی طرح ہے )
جنگل تو صاف پیغام دے رہے ہوتے ہیں ،، ہم سے دوستی کر کے تو دیکھو ! کبھی گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا ،
قدرت اللہ شہاب صاحب ،کو اپنے لڑکپن میں جس خالصہ سکول امتحان دینے جانا پڑا ،، انھیں یہ راستہ ایک چھوٹا لیکن ویران جنگل پار کر کے جانا پڑتا تھا ،، شروع کے دو چار دن ان کا پرانا بزرگ ملازم چھؤڑنے ، لے جانے کا فریضہ ادا کرتا رہا ، پھر اکیلے آنے جانے لگے ،، یہی دن تھے جب جنگل نے انھیں ،، خوف ، دہشت ، اور اسرار کے جذبوں سے آزاد کرنے کی تربیت دے ڈالی ۔ جس نے بعد کی زندگی میں بارہا ، دہشت اور اسرار سے مُکتی دلا دی ۔انھیں خاص تجربات کے لئے تیار کر دیا ، جرات ایمانی ایسے ہی لوگوں کے لئے ہر اَن دیکھی طاقت کے مقابلے کے لئے " گُرز" بن جاتی ہے ۔ اُسی جنگل نے انھیں سبق پڑھایا ،،
ڈرو مت ، یہ آوازیں درختوں کی سرگوشیاں ہیں ۔۔۔ ہوائیں ان درختوں تک دُور کے جنگلوں کے پیام لے کر آتی ہیں ۔
یہ کھَڑک ،یہ سایہ محض جھاڑیوں میں چُھپی کسی لومڑی ، کسی خرگوش یا کسی رینگتی مخلوق کا ہے ۔ جو تم سے خود ڈر رہی ہے ، شرما رہی ہے ۔
اور یہ جو تم کبھی ساکت و ساکن ماحول سے خوفزدہ ہوجاتے ہو ، کہ اتنی خاموشی کیوں ،،، تو جنگل بھی تو کبھی آرام کے لئے آنکھ چھپکا لیتے ہیں ۔
ایسے ہی جنگلوں نے ایسے نفُوس کو اپنی فراست سے قدرت الہی کے نرالے رُخ دکھا دئیے ، شہاب صاحب کی طرح کے نرالے تجربے سے وہ ملائیشین بزرگ بھی بچپن میں گزرا ، کہ اُسے بھی ایک چند میل کے گھنے جنگل سے گزر کر سکول پہنچنا ہوتا تھا ، اسے دو تین دن مسلسل رہ کر کلاسز لے کر پھر اسی جنگل کو پار کر کے واپس گاؤں پہنچنا پڑتا ، ایک چھوٹے بچے کو جنگل سے گزروانے کے لئے کسی بڑے کا ساتھ میسر نہیں تھا ،، اور سب گھر والے جو بدھ مت کے پیرو کار تھے اس فلسفے کے تحت کتنے شانت تھے کہ " جنگل بے ضرر انسان کی خود حفاظت کرتا ہے ،، اور واقعی جنگل کی ان دیکھی مخلوق نے اس دس بارہ سالہ بچے کو اکثر بھٹکنے سے بچایا ، اسے اپنی چھَٹی حِسّ سے تیزی سے کام لینا سکھایا ، جنگل نے اپنی خاموشی سے ڈرایا نہیں تھا بلکہ طبیعت پر خوف اور ڈر کے گڑھے پنجوں سے اسے آزاد کروا دیا ۔ اور یوں اپنے ہم عمر ساتھیوں کی نسبت اس میں سکون ،فراست ، بُردباری اور بہادری کی صفات بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ جنگل بھی کبھی کبھی کیسا دانا استاد کا کردار نبھاتا ہے ۔
اس نے اس ملائیشین جوان ہوتے لڑکے کو مستقل مزاجی سے حالات کا مقابلہ کرنے اور صبر سے نتیجہ آنے کی صلاحتیں پختہ کر کے انسانوں کے رنگین جنگل میں دھکیل دیا ، جاؤ کہ تم وہیں جچتے ہو ،،خوب کماؤ ، کھاؤ اور کھلاؤ ،، لیکن باطن کے صبر اور سکون کو نہ بھُلانا ،۔ ہم نے تمہیں کچھ دینے اور سِکھانے میں بُخل سے کام نہیں لیا ،،، تم بھی انسانوں کے جنگل میں کوئی بُخل نہ دکھانا ۔ اپنی اچھی صلاحیتوں اور محنت سے کمائے مال پر بُخل کا سانپ بن کر نہ بیٹھ جانا ۔ ورنہ باطن کا روشن چہرہ مسخ ہو جائے گا ۔
ہر جنگل بانٹو ،، بانٹو ،، کا نعرہ لگاتا رہتا ہے ،، چاہے یہ محبت کا جذبہ ہے ، یا کچھ سیکھے ہُنر کو بانٹنے کا ،،، چاہے پُر خلوص مشاورت کا ،، چاہے صبر و قناعت اپنانے کا گُر ،،، بانٹتے رہنا کہ کھڑا پانی ، بُو چھوڑ دیتا ہے ۔ اور بہتا پانی میٹھا اور خوشگوار ہوتا ہے ۔ اور یہ بزرگ جھونپڑی سے محل تک پہنچے لیکن بانٹتے چلے گئے ۔۔ اور اپنا قیام جنگل کنارے نہایت چھوٹے سے گھر پر رکھا ، کہ استاد سے دوری گوارا نہ تھی ۔ وہ جان چکا ہے کہ میری تیسری نسل ، میرے استاد کا احترام ، مجھ سے سیکھ گئی تو میری کامیابی کا راز جان لے گی ۔

( منیرہ قریشی ، 17 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) ( جاری ) (تصور 3) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں