ہفتہ، 21 دسمبر، 2024

"خط"

"خط"

تیرے ہر رنگ میں انوکھا رنگ بہار کی رنگینیوں میں ، خزاں رسیدہ درختوں کی جبینوں میں شدت برودت کی سنگینیوں میں اور قہر گرم لو کی حدتوں میں دل مطمئنہ ہلکے اور، بھاری ہچکولوں میں عجب تیری رنگین دنیا ،،،، صد ہا برس سے یہی ڈھنگ تکتی آنکھیں! مٹی ہوتی ،زندہ آنکھیں ! جانے تو خود کیسا ہو ،،، تیری محبتوں میں ڈوبی ہیں یہ منتظر آنکھیں ! معدوم جذبوں سے سرشار، یہ معصوم سطریں ! ایک خط ہے مولا تیرے نام

(منیرہ قریشی 21 دسمبر 2024۔ مانچسٹر)

جمعرات، 19 دسمبر، 2024

" یادوں کی تتلیاں" "کتاب کہانی" از کومل ذیشان "

" یادوں کی تتلیاں"

"کتاب کہانی" از کومل ذیشان " لکھنے والے تین طرح کے ہوتے ہیں : ایک وہ جو پیپ سے بھرے زخموں پر چاک لگاتے ہیں اور ایک وہ جو ادھڑے ہوئے زخموں پر سلائی لگاتے ہیں، ان پر مرہم لگاتے ہیں۔معاشرے میں دونوں اہم ہیں۔کچھ یہ دونوں کام اکٹھے کرتے ہیں۔ منیرہ قریشی آپ زخموں کو سینے والوں میں سے ہیں۔ ڈھانپنے والوں میں سے۔ جب آپ کے ابا اور حمید چچا کا واقعہ پڑھا تو آنکھیں نم ہو گئیں۔ یہ شے آپ کو اپنے ابا کی طرف سے ودیعت ہوئی ہے۔ آپ کی اماں میں میری نانی کی جھلک ہے۔ نانی نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی، پانچویں کے امتحان میں اول آئیں۔ ان کو انعام میں نقشہ ملا تھا۔ آخر وقت تک بالکل آپ کی اماں کی طرح غریبوں، ناداروں کے لیے ان کے گھر کے دروازے کسی لنگر خانے کی طرح کھلے رہے، جہاں سے ایک دنیا نے فیض اٹھایا۔ کاش میں آپ کی اماں سے بھی مل پاتی۔ آپ کا "کوشش پبلک سکول" ہو یا میری فیس بک دوستوں کی فہرست میں فرح دیبا ہیں ان کا "عالم بی بی فاؤنڈیشن" میں خود کو خوش قسمت گردانتی ہوں کہ میرے سامنے آپ کی مثالیں موجود ہیں۔ آپ نے ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ سے ملاقاتیں کروائیں اس کے لیے شکریہ 🤍۔ میں نے جب سے علی پور کا ایلی پڑھا ہے مجھے اب تک شہزاد اس نم اندھیری گلی کے ایک گھر کے چوبارے سے جھانکتی محسوس ہوتی ہے، اس کی اداس آنکھیں۔۔۔۔جیسے شاید ممتاز مفتی کو ان کی یاد آتی ہو گی مگر سچ تو یہ ہے کہ ان کی دو سال پہلے افسانوں کی ایک کتاب پڑھ کر میں الجھن کا شکار ہو گئی تھی۔ مجھے عورتوں سے متعلق ایک دو افسانے شدید کھٹکے۔شاید میں ناراض تھی لیکن اس کتاب کے ذریعے میں نے پھر سے ان کے لیے نرم گوشہ محسوس کیا۔ دو جگہوں پر میری آنکھیں برسنے لگی تھیں شاید لکھتے ہوئے آپ کی بھی برسی ہوں گی۔ ایک ممتاز مفتی کے حوالے سے آپ کے خواب کے ذکر پر اور ایک ابا جی جب پوچھتے تھے کہ "صبح ہوگئی؟" میرے بھائی علی اور میرے دادا کا بھی بالکل ایسا تعلق تھا جیسے آپ کے بیٹے علی اور ان کے نانا کا تھا۔ اشفاق احمد بانو قدسیہ کے وجود مجھے ہمیشہ ایسی ٹھنڈی چھاؤں محسوس ہوئے ہیں جہاں بیک وقت نور بھی پھوٹ رہا ہو۔ آپ کی ملاقات کے احوال سے بھی میرے تصور کی تائید ہوئی۔ آپ کی پیاری دوستوں کو سلام پہنچے۔ اس کتاب کے لیے بہت شکریہ منیرہ آنٹی۔ یہ میرے لیے ایک چراغ کی مانند ہے۔ میری اور آپ کی دوستی مزید گہری ہوئی۔

( کومل ذیشان 19دسمبر ،2024)

 

اتوار، 21 جولائی، 2024

" اِک پَرخیال. ڈنگ "

" اِک پَر خیال "
" ڈنگ "
'ڈنگ ' کے لفظ سے ذہن میں کبھی بھی اچھا خیال نہیں آتا ۔ کیڑوں مکوڑوں کے ڈنگ تو ہر چھوٹے بڑے کے ذہن میں واضح ہوتے ہیں ۔ کہ سانپ ، بچُھو ، مکوڑے ، بھِڑ ، اُڑتے کیڑوں کے ڈنگ ،،، انسانی اجسام کے لئے کتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ ، یا تو جان چلی جاتی ہے ، یا ، کچھ دیر یا تا دیر جسمانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے زہریلے ڈنگ کو علاج اور صبر سے رفع کیا جاتا ہے ۔
البتہ مدت دراز کے بعد انسانی تحقیقی اذہان نے انہی کیڑوں ، کے ڈنگ سے ہی انہی کے کاٹے کا علاج دریافت کر لیا ، اور یوں ، قیمتی جانوں کو بچانا ممکن ہو گیا ۔ دیکھا جائے تو سانپ ، یا بچھُو ، یا بھِڑ یا زہریلی مکڑیوں کے ڈنگ کی کٹیگریز ہیں ۔۔ کچھ کی کم ، کچھ کی زیادہ !
اس کے برعکس مکھی ، کھٹمل ، یا مچھر وغیرہ کے ڈنگ ایسے لیول کے ہوتے ہیں ،، جو کم طاقتور تو ہوتے ہیں لیکن ،، ان کے ڈنگ کے زہر کو حاصل کر کے بڑی بڑی بیماریوں کے علاج دریافت ہوچکے ہیں ۔ اسی طرح کچھ جانوروں کے تھوک یا لعاب اتنے زہریلے ہوتے ہیں کہ بظاہر ان کے کاٹے کا کوئی نشان نہیں ہوتا مگر جہاں ان کا لعاب گرا ،،، وہی جگہ سُن ہو کر انسان یا جانور کو بے بس کر ڈالتا ہے ۔ اور اس زہریلے تھوک سے اس میں ہلنے جلنے کی سکت نہیں رہتی پھر یہی وقت ہوتا ہے جب ایسے جانور کے لئے متاثرہ جسم تر نوالہ بن جاتا ہے ۔
' ڈنگ ' کی اِس کیٹگریز میں ،،، الفاظ کے ڈنگ بھی اپنی ہی طاقت رکھتے ہیں ۔ کچھ الفاظ کی پوٹینسی کم،، لیکن زیادہ تر ہائی پوٹینسی کے بولے جاتےہیں ۔ ایسے الفاظ کی پھوار زہریلے مادوں سے بھرپور ہوتی ہے ۔۔ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول کی صداقت پر یقینِ کامل ہو جاتا ہے ، " تلوار کا زخم تو بھر جاتا ہے ، لیکن زبان کا زخم کبھی نہیں بھرتا "
زہریلے الفاظ ، کم یا زیادہ نوعیت کے ہیں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ قدرت نے اس سلسلے میں اپنا قانون سختی سے لاگو کر رکھا ہے ، یہاں کان کے بدلے کان ، آنکھ کے بدلے آنکھ کے قرآنی احکامات نافذ کرنے کا حکم ہے تو ،،،، بے عزتی کے بدلے بے عزتی ،،، دوسرے کو ذلت دے رہے ہیں تو بدلے میں ذلت کا انتظار کریں ۔۔ البتہ اِس میں کچھ ماہ ، کچھ سال ، کچھ عشرے گزر سکتے ہیں ،، لیکن الفاظ کے ڈنگ کا جوابی ڈنگ کا وار ، قدرت کی طرف سے صحیح وقت اور صحیح جگہ کا منتظر ہوتا ہے ۔
آج کے دور کا ایک اور ڈنگ بھی ہے جسے عام طور پر ڈنگ نہیں سمجھا گیا ۔ وہ ہے " پرائیویسی " ( privacy ) کا ڈنگ ۔
میرا کمرہ الگ ہونا چائیے ، آخر کو میں 14 سال کی ہو گئی / ہو گیا ہوں ،،،
میری الماری کو کس نے کھولا ؟ میں کسی کو اس کی اجازت نہیں دیتا / دیتی ۔۔۔
یہ مہمان آ گئے تو ہماری پرائیویسی نہیں رہے گی ،،،،
میرے موبائل ، میرا پرس ، یہ سب کچھ صرف میرا ہے ، کسی کو اجازت نہیں کہ انھیں میری اجازت کے بغیر ہاتھ لگائے ۔
کچھ معاملات میں تربیت کے تقاضے ہوتے ہیں کہ وہ اہم ، ہمدرد رشتے ان اولادوں کی الماری ، کمرہ ، یا موبائل کا جائزہ لیں ، ہم دیکھیں یہاں کے کونے کھدروں میں کیا چل رہا ہے ؟ ایسا نہ ہو پرائیویسی کے ڈنگ سے ہماری اولاد بہت ہائی پوٹینسی کے زہر نگل چکی ہو ،، کہ تب تک مرض لا علاج ہو چکا ہو !
پرائیویسی کے نکتہء نظر سے مہمان نوازی کے خوبصورت رسم و رواج پر جو کاری ضرب پڑی ہے ، کہ پہلے دُور نہ سہی نزدیکی رشتوں کا جو والہانہ انتظار ہوتا تھا ۔ کہ سب کزنز مل کو چھٹیاں گزارتے ،،، رشتوں کی آپسی مٹھاس کچھ دنوں یا ہفتوں کے لئے 'ریوائز ' ہو جاتی ۔ اور دال ساگ کھا کر بھی بد مزہ نہیں ہوتے تھے ۔۔۔ اور اگلی محفلوں کو سجانے کے وعدے کر کے جدا ہو جاتے ،،،
کچھ ایسا رویہ بعض اوقات ہمارے خوشحال خاندان کا بھی دیکھنے میں آتا ہے جب ان کے لئے گھریلو چیزیں ، اُن کی ترتیب ،،، اور اپنے دن اور رات کے پروگرام اتنے عزیز ہوتے ہیں کہ اس شب و روز میں کسی " آنے والے " کی چند گھنٹوں کی آمد بھی " زہریلا ڈنگ " بن جاتی ہے ۔۔ آہ انسان کی کم فہمی !!
لیکن پرائیویسی کے ڈنگ نے ایسا ڈسا ہوا ہے کہ اس کے اثرات سے خون سفید ہو گیا ہے ۔ رشتے کڑوے ، اور اپنی ذات کے حصار میں رہنے میں ہی عافیت سمجھا جا رہا ہے ۔ اور یوں آدم و حوا کی اولاد غلطیوں کے پہاڑ پر چڑھتے چڑھتے اترنے کی راہ کھو بیٹھی ہے ! اللہ ہی بہترین جاننے والا ہے ۔

( منیرہ قریشی 21 جولائی 2024ء واہ کینٹ ) 

منگل، 11 جون، 2024

" اِک پَرِ خیال "۔۔۔" کشیدہ کاری "

" اِک پَرِ خیال "
،،، " کشیدہ کاری "
میَں نے ایک ایپ کو جوائن کیا ہوا ہے ۔ جو فلکیاتی دنیا کے نام سے ہے ،، اس میں ایپ چلانے والے سیٹلائٹ اور سپیس شٹلز سے لی گئی آسمانِِ تحیّر کی معلومات اور تصاویر ، ہم جیسوں تک آسان اردو میں پہنچاتے اور دلی دعائیں لیتے رہتے ہیؐں ۔ جب بھی وہاں کی کچھ نئی معلومات اور تصاویر پہنچتی ہیں تو انھیں دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہوں ۔ ،،، دل ساکت سا ہو جانے کا دورانیہ جتنا لمبا ہوتا ہے ،، دل کی کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ خالق کی محبت میں سر مستی سی آ جاتی ہے ۔ دنیائے آسمان کی یہ حیران کن دنیا مالک سے عشق کو مزید راسخ کر دیتی ہے ۔،،،، اُس خالق نے اپنی کائنات انتہائی محبت ، اور باریک بینی ،، اور کاری گری سے بنائی ہے ۔
انسان بذاتِ خود اس رب ِ مصور کا عجب شہکار ہے ،، اور اُس نے خود اس شہکار کو وہ ہُنر عطا کیا ۔ کہ جب بھی وہ کسی رنگ ، آہنگ سے کوئی تخلیق بناتا ہے تو خود ہی اس پر عاشق بھی ہو جاتا ہے ۔ یا دوسرے اس ہنر کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں ،،، کبھی کلام میں ، کبھی طعام میں ، کبھی لباس ، کبھی برتن ، کبھی رسوم کی کاریگری اور کبھی اُس دلربا رقص میں کہ جب پاؤں اٹھیں ،، نہ اٹھیں ،، لیکن جھومنا ہی اُس کی کاری گری دکھا جاتا ہے ۔ ہر دور میں ،، ہر تہذیب میں ایک طبقہ ایسا ودیعت کیا گیا ،، جو دوسروں کو نفاست ، لطافت ، نزاکت کے معنی سے آگاہی عطا کرنے کا فریضہ ادا کرتا رہا ۔ یہ کشیدہ کاری کبھی کمہار کے ہاتھوں میں ،، کبھی مصور کے رنگوں اور برش میں ،، کبھی کپڑے کے تھان پر ،،، اور کبھی سُر و چنگ کے ذریعے یا تحاریر کے باریک نکات کے ساتھ سامنے آتی چلی جاتی ہے ،،، تب سمجھ نہیں آتا ،،، اصل کو دیکھیں ،،یا نقل کو سراہیں !!
دیکھا جائے تو انسان کی بہترین ہنر مندی یہی ہے کہ وہ،،، خالقِ کائنات کی ان تخلیقات کو "پُر سکون ماحول میں احترام اور امن" سے رکھے ،،
انسان انہی جذبوں کی " کشیدہ کاری " سے شیطان کے منصوبے ناکام کر سکتا ہے ۔
کشیدہ کاری سیٹلائٹ سے دنیائے آسمانی کو دیکھنے سے ہی عیاں نہیں ہوتی ۔ بلکہ انسانی ہاتھوں میں پکڑے بُرش ، اور رنگوں کے سٹروک سے ،،، سُوئی اور رنگین دھاگوں کے امتزاج سے ،، ایک پُر شفقت لہجہ ،، ایک محبت بھرا لمس ! سامنے کے تاریک اور معدوم ہوتے دل کو یکدم جگانے کا باعث بن سکتا ہے ۔ کشیدہ کاری کے اصل ٹانکے کا ہنر پھٹے دل اور دُریدہ روحوں کو سینے سے نظر آئے گا ۔ انھیں نیا سٹروک دے ڈالیں ۔۔ اُن کے سوراخوں کو رنگین دھاگوں سے سی ڈالیں ۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ،، کائنات کی آسمانی کشیدہ کاری اپنا کام مسلسل کر رہی ہے ۔ زمینی کاری گری میں سُستی ناقابل قبول ہو گی ،، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ۔۔اِس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ۔

( منیرہ قریشی 11 جون 2024ء واہ کینٹ ) 

اتوار، 9 جون، 2024

" اور قسم ہے راتوں کی دَس "

" اور قسم ہے راتوں کی دَس "
" کچھ دن ہیں سُنہری سے
کچھ راتیں ہیں نیازوں کی
سجدے کچھ فرض کے ،
سجدے کچھ غرض کے
اور اِن میں ، دہرانے ہیں
کچھ شَبد ہیں نگینے سے
کچھ شَبد ہیں سکینت سے
دہرائیں تو فضیلت ہے
شادابی اور آبادی ہے ،
رضا اور ، رعنائی ہے ،
چاروں اَور مُشک چھائی ہے
یہ شَبد ہیں ، تکبیر کے ،تہلیل کے ، تمجید کے
عشرہ میں چُھپی ،،،، مستبشرہ
اور جو لُوٹ چاہو میلے کی
نقدی یاں صرف اَخلاص کی
سودا ملے دیدار کا
عشق کا سُرمہ آنکھوں میں
لڑیاں ہیں بہار کی !!
شبد ہیں نگینے سے
دہراؤ تو فضیلت ہے
سکینت ہی سکینت ہے

( منیرہ قریشی 9 جون 2024ء واہ کینٹ ) 

پیر، 3 جون، 2024

" اِک پَرِ خیال ۔۔ اندھیرا ، اندھیرے"

" اِک پَرِ خیال "
" اندھیرا ، اندھیرے"
دیکھا جائۓ ، تو اللہ تبارک تعالیٰ نے سوائے اپنے ہر چیز کو جوڑوں میں پیدا کیا ۔ زندگی اور موت ،،، خوشی اور غم ، بہار اور خزاں اندھیرا اور روشنی ،،، گویا ہر احساس کے ساتھ ساتھ ہر سانس لیتی مخلوق بھی جوڑوں میں زندگی گزار رہی ہوتی ہے ۔ لیکن اندھیرے پر غور کریں تو مکمل ، کامل اندھیرا تو نظر ہی نہیں آتا ۔ حالانکہ اندھیرے کے ساتھ اجالے کا جوڑا سمجھا جاتا ہے ۔
اندھیرا اگر پہاڑوں میں چھایا ہوا ہے تو ، وہ گھَور اندھیرا پھر بھی نہیں ہو گا ۔ بلکہ قدرِ ملگجا اندھیرا چھایا ہو گا ۔ اس لئے کہ پہاڑوں کی بلندی انھیں شفاف فضا مہیا کر رہی ہوتی ہے ۔ کہ جیسے ستاروں کی جگمگاہٹ اندھیرے کی دہشت کم کر رہی ہو۔ یہی شفافیت اور وسعتِ ،،، اندھیرا چھا جانے کے باوجود سارے میں نہایت ہلکی چاندنی کی ملاوٹ گھول رہی ہوتی ہے ۔ جیسے کوئی ہاتھ میں اجالے کی تلوار ،، وقفے وقفے سے لہرا رہا ہو ۔ اور اندھیرا مسکراتا ہوا ،، اندھیرے میں اتر جاتا ہے ۔
دیکھا جائے تو میدانوں کا اندھیرا ، آج کے دور کے لوازمات کے ساتھ زمین سے 30 یا 40 گز کے کہیں بعد شروع ہوتا ہے ۔ "رات " کو دیکھنے کے لئے منہ اُٹھا کر اندھیرے کو گھُورنا پڑتا ہے ۔ تب کچھ چھَب دکھاتا ہے لیکن تاروں کی موجودگی اسے بھی ملگجا بنا دیتی ہے ۔
بِعَینہٖ سمندر کی بظاہر ہیبت اور وسعت کے باوجود سورج اپنی کرنیں 200 میٹر تک پہنچا کر بے دم ہو جاتا ہے ۔ اب یہاں گَھور اندھیرے کا راج شروع ہوجاتا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ،،، لیکن یہ کیا !! اِس اندھیرے کی کاٹ کے لئے تو سمندر کی تہہ میں موجود بے شمار تیرتی پھرتی مچھلیاں اور گونگے ، اپنے اجسام سے روشنی چھوڑ رہے ہوتے ہیں ۔۔۔ نا شُکرے انسان کے لئے ، ہر لمحے کی شکر گزاری کے مواقع !!
تو پھر اندھیرا کہاں ہے ۔ ؟؟
اندھیرا تو دراصل ہمارے دلوں میں ہے،،
اندھیرے نے تو ہماری تنگ نظر سوچ پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔۔
اندھیرا ہمارے کردار کی گراوٹ پر پاؤں پھیلا کر بیٹھا ہوا ہے ،،،،
اب یہی سب اندھیرے مل کر ہماری قبر میں ایک ساتھ اُتریں گے ۔ تو کیا اپنی ذات کے اندھیروں کو دور کرنے کے لئے ،،، ہمارے پاس ابھی وقت نہیں ! تو پھر اِس زندگی کا مقصد کیا ہوا ؟؟ اور قبر کے مستقل اندھیروں کو دور کرنے کے لئے چاندنی کی کون سی لہر محفوظ کر لی جائے ،، کون سے چمکیلے اعمال کی مچھلیوں کو لبھا لیا جائے ؟؟؟ مستقل وِرد ، حُسں اخلاق ،،، حُسنِ طعام ،، حُسنِ کلام !!

( منیرہ قریشی 3 جون 2024ء واہ کینٹ ) 

جمعہ، 17 مئی، 2024

" پہچان "

" پہچان " ( 14 اگست 2023ء پر لکھی گئی اک نظم )
پہلے اِک خطۂ زمیں تو ملے
پاؤں کسی سطحء کو تو چھُوئیں
آسماں تو اپنا ہو !!
تب اِک پہچان ہو !
غیر دیکھیں تو کہہ اُٹھیں
اچھا ،، تو تم ہو اِس خطۂ سرسبز کے باسی،
یوں اِک وطن ملا !
پاکستان بنا ،، پہچان بنا
لیکن ،،،، کچھ لوگ انمول ہوتے ہیں
وہ خود وطن کی پہچان ہوتے ہیں
" کبھی جناحؒ اور کبھی عمران خان ہوتے ہیں "

( منیرہ قریشی 17 مئی 2024ء واہ کینٹ )( نشرِ مکرر) 

پیر، 13 مئی، 2024

" خانہ بدوش ۔۔ کل اور آج"

" عمر رفتہ "
"خیال" کھڑا ہے ساحل کنارے
ریت ہے پھسلتی پاؤں تلے ،،،،
خواہشوں کی کشتیاں ہیں رواں دواں
ڈوبتا ، اُبھرتا سورج بُلا رہا ہے
آو ، نا معلوم جزیروں کی جانب ،،،
اور کبھی ،،،
" خیال " کوہء تجسّس پر قدم جمائے
سرسراتی ہوائیں ، کریں سرگوشیاں !
آؤ نا ! نا معلوم جزیروں کی جانب ،،،،
مگر دنیا تو اب ہے ایک کمرے میں !!
جھولتی کرسی پر
ہاتھ میں ریموٹ لئے
وقت پر طعام ہے
وقت پر آرام ہے ،،،
زندگی کو کہاں دوام ہے ؟
" خیال " بھی سراب ہے
انت تو پُر حجاب ہے !!!

( منیرہ قریشی 14 مئی 2014ء واہ )

۔۔۔۔۔۔
" خانہ بدوش "
اگر تمہیں دوبارہ شروعات ملیں تَو !؟
سہیلیوں کے جھرمٹ نے سوال پو چھا
" میَں تو صرف فطرت کا حصہ بنتی
پہاڑ ، وادیاں ، صحرا اور جنگل پاٹتی
کبھی دریا ، کبھی سمندر سے خود کو سہماتی
میَں تو بس اِک ریوڑ لیتی ،،،
اور دنیا کو اِس کونے سے اُس کونے تک چھاپتی
موسموں کی سختیاں میری جِلد کو بوڑھا کرتیں
میَں وہیں کہیں کسی جنگل کنارے
کسی صحرا یا وادی کی کھائی میں ڈھیری بنتی
الفاظ اور نظروں کے سلگتے کوئلوں کی پروا نہ کرتی
کیوں ، کہاں ، کیسے ،، کے تفتیشی وار سے بہت اُوپر ہوتی
اب تو ،،، ستّر میں آ لگی ہوں ،،،
بس تھوڑا سا تو وقت ہے !
ریوڑ ہو گا اور میَں ،،،،
خانہ بدوشی کا ' اعزازیہ' پانے میں کیا دقت ہے!"
اُٹھو جوان سہیلیو ! ہم جولیو !!
( منیرہ قریشی 14 مئی 2024ء واہ کینٹ)
(یہ نظمیں دراصل 3 جون 2018ء کو لکھی تھیں ،، جب ہم پانچ جہاندیدہ سہیلیاں دس دن اکٹھی رہیں ، اور ہر موضوع کو زیرِ بحث رکھا تھا ، یہ نظمیں جس صفحے پر لکھی تھیں وہ گم ہو گیا اور اتفاق سے پرانے کاغذات میں سے یہ دونوں نظمیں نکل آئیں ، جنھیں درج کر رہی ہوں )
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 

"انتساب " ۔۔۔ "جنگل کچھ کہتے ہیں "

"انتساب"

" ببول کے اُس درخت کے نام جس کے سائے تلے عظیم ترین معاہدۂ حدیبیہ طے پایا " 



"فہرست "۔۔۔۔"جنگل کچھ کہتے ہیں "

"فہرست "

   ٭ ا ۔کبھی کبھی ہم بس یہی کچھ چاہتے ہیں

٭2۔ خیالات و الفاظ کا جنگل

٭3۔ نتھیا گلی کا سِحر

٭4۔ایپنگ فارسٹ کے مکین

٭5۔زمین بوس درخت کی کتھا

٭6۔ کوئینز پارک کے قدیم درخت

٭7۔ٹینڈل ہل پارک کی اُداسی

٭8۔ایش ورتھ سے باتیں

٭9۔خوشبو جیسی باتیں اور صندل کا جنگل

٭10۔بیک اپ کے جنگل سے مصنوعی جنگل تک

٭11۔سلطان صلاح الدین عبدالعزیز مسجد

٭12۔سوات ریسٹ ہاؤس ایک دل فگار یاد

٭13۔ریمز بوٹم انگلینڈ کی دردناک پہاڑی

٭14۔ مہاتمابدھ کا پسندیدہ انجیر کا درخت

٭15۔سرگودھا کا صدیوں پُرانا برگد کا درخت

٭16۔ افریقی جنگل کا فضائی نظارہ

٭17۔ رقصِ درویش اور ترکی کے تاریخی شہر بُرصہ کا فضائی نظارہ

٭18۔ میرا دوست چِھدرا جنگل

٭19۔ راہِ اُمید

٭20۔چھانگا مانگا کا دُکھ

٭21۔ خواہشِ ناتمام

٭22۔الوداع دوست

٭23۔سفر نصیب


              


اتوار، 12 مئی، 2024

"دیباچہ " ۔۔۔ "جنگل کچھ کہتے ہیں "

"دیباچہ "
دیکھا جائے تو کائنات میں دو رنگ حاوی ہیں ,ہلکا نیلا اور سبز !! نیلا آسمان ، نیلا پانی ، نیلی آنکھ اور نیلے رنگ کی دنیا میں جابجا بہاریں الگ ۔جب کہ سبز رنگ سبز درخت ، سبز پہاڑ اور بہت سے سبز دریا اورپھر سبز رنگ کی دنیا میں الگ ہی جہتیں ۔سمجھ نہیں آتا کہ سبز کے اتنے روپ کہ اُن کے منفرد نام لیتے ہوئے کچھ لمحے سوچنا پڑتا ہے ، زمردیں ، کاہی، مونگیا، سمندری سبز ، کاہی سبز ، یا پھر ہلکے پیلے سبز ۔گویا اللہ نے ہر رنگ کو صرف رنگ کے طور پر ہی تخلیق نہیں کیا بلکہ اس میں ہلکے سے لے کر گہرے سے گہرا شیڈ ایسا بنایا کہ رنگوں کی ہوس رکھنے والی آنکھوں کی تسکین ہو سکے۔
درختوں کی اپنی شکل و قامت ، تنّوں کی موٹائی ،رنگوں کے مختلف النوع عکس ، پتّوں کی بناوٹ اور پھر ان میں چھُپے خواص و صفات کی کشش اپنی جگہ لیکن جب یہ احساس جاگ جائے کہ یہ درخت میرا انتظار کرتا ہے ، مجھے بلاتا ہے اور کچھ کہنا بھی چاہتا ہے شاید وہ دُکھی ہے اور نہ جانے کیا دکھ سمیٹے کھڑا ہے۔ تو یہ سب دیکھ کر انسان مسحور نہ ہو تو کیوں کر نہ ہو ۔
والدین فطرت کے شیدائی رہے ۔ جس کے اثرات اولادپر ہونا ہی تھے ، بچپن سے درختوں ، پودوں کی محبت اور صُحبت ہماری فطرت کا حصہ بن گئی ۔ بچپن ایک شہری گھر میں گزرا جس کے صحن میں گملوں کی قطاریں تھیں جیسے کوئی نرسری ہو ۔ صحن کے وسط میں کسی کا تحفتاً دیا سفیدے کا درخت اور اس پہ مستزاد صحن کے دونوں اطراف چنبیلی اور موتیا کی بیلیں ۔ یہ وہ پُر بہار اور سر سبز ماحول تھا جس میں آنکھ کھُلی ، پھر درخت اور سبز رنگ ہمارے ساتھ ساتھ رہے ۔ سفیدے کے اس درخت نے خوب تیز رفتاری سے قد نکالا ، جب شمالی ہوا چلتی تو وہ پورے زور و شور سے جھومتا کہ جیسے ہوائیں اس کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہی ہوں اور وہ دھمال ڈال رہا ہو۔ میرے لئے اس کا یہ رُخ بہت دلچسپی کا باعث رہا ۔
کچھ وقت اور گزرا ،میرے جُڑواں بہت خوش مزاج بچپن گزار رہے تھے ۔ وہ چہکتے پرندوں کی طرح اپنی مَدُھر آوازوں سے ہر وہ گانا گاتے ، جو اِن دنوں ٹی وی پر مقبول ہوتا ، وہ گھر کے پچھلے باغیچے میں لوکاٹ کے درخت کے نیچے زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ۔ خاص طور پر لوکاٹ کی ایک ٹہنی اِن کی پہنچ میں تھی جس پر روزانہ دو تین گھنٹے گزارنا از بس ضروری ہوتا ۔ چھ سال کی عمر آتے ہی ایک جان کو خالق کا بلاوا آ گیا اور دوسرے کی دلچسپی لوکاٹ یا اس کی ٹہنی پر جھولنا یکسر ختم ہو گئی ۔ چند ماہ تک اپنے اندر کی دنیا نارمل کرنے کے بعد پچھلے لان میں گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ لوکاٹ کا سارا درخت توہرا بھرا تھا لیکن وہی ٹہنی سوکھ رہی تھی جس پر وہ بلا ناغہ بیٹھتے تھے ، مزید چند ہفتے گزرے اور ٹہنی ٹوٹ کر گر گئی۔ درخت کی حساسیت اور کرب و غم کے اس واقعہ نے مجھے درختوں اور اُن کی زبان کے مزید قریب کر دیا ۔ بہت بعد میں علم ہوا کہ درخت صرف سانس لینے والی مخلوق نہیں بلکہ وہ تو باتیں کرتے ہیں ، احساسات کی دنیا بسائے پوری دنیا کے درختوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں ۔ انھیں دُکھ اور خوشی کا بھرپور اظہار کرنا آتا ہے اور اِن کی دنیا میں انسانی یا جنگلی مخلوق کے لئے وسعتِ قلب ہے ، اِسی لئے تو جہاں درخت ہوں وہاں ، رنگ ، خوشبُو ، جنگلی حیات اور ہواؤں کے ساتھ رقصِ درویش سے ہی فطرت کی مکمل تصویر سامنے آ جاتی ہے ۔
درختوں پر لکھی کتاب "جنگل کچھ کہتے ہیں" کو مکمل کر لیا تو انتساب کا سوچا اور سوچ نے لمحہ بھی نہ لگایا کہ
" ببول کا وہ درخت ، جو مقام حدیبیہ میں ایک چھتنار درخت کی طرح موجود تھا اور جس کا ذکر سورہ فتح میں اللہ شان جل جلالہ' نے بہت اہمیت کے ساتھ کیا ہے ۔ جس کے سائے تلے ، ایک خاص وقت میں کائنات کی عظیم ترین ہستیؐﷺنے چند ارفع ساتھیوں کے ساتھ وہ معاہدہ کیا کہ ایسا منظر شاید ہی کسی اور درخت کے سائے تلے دِکھائی دیا ہو "۔ یہ درخت اس اہم واقعہ کے چند سال بعد ہی وہاں سے ایسا ناپید ہوا کہ جیسے وہ سر زمینِ حجاز پر تھا ہی نہیں ۔ شاید اس درخت کو اس پاکیزہ فرض کے بعد دنیا میں اپنا مقصد حیات پورا ہوتا محسوس ہوا اور مالکِ حقیقی نے اسے اوجھل کردیا ۔میں نے "جنگل کچھ کہتے ہیں " کا انتساب اس اہم ڈیوٹی دے کر چلے جانے والے ببول کے درخت کے نام کیا ہے ۔
منیر نیازی کا ایک خوبصورت شعر ہے
؎ ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو
جو شخص سُنتا ہے، وہ بول بھی تو سکتا ہے
مجھے یہ شعر صرف ایک لفظ کی تبدیلی سے اپنی کتاب میں درج خیالات کی عکاسی کرتا محسوس ہوا ،جو شاعر سے معذرت کے ساتھ لکھ رہی ہوں۔
ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو
جو "درخت " سُنتا ہے،وہ بول بھی تو سکتا ہے
منیرہ قریشی
اردو بلاگر"خانہ بدوش"
munirazafer.blogspot.com
یکم جون  2025
واہ کینٹ

 

ہفتہ، 11 مئی، 2024

"پیش لفظ "۔۔۔"جنگل کچھ کہتے ہیں "

"پیش لفظ" 

    منیرہ قریشی اور واہ کینٹ لازم وملزوم ہیں۔پینتیس برس پہلے ایک تعلیمی ادارے کی    بنیاد    رکھی، جو اب ایک شجرِسایہ دار کی صورت نونہالِانِ  وطن کی آبیاری میں سرگرم ِعمل ہے۔تعلیم کے فروغ کی کامیاب عملی کوشش کے بعد محترمہ منیرہ قریشی اب ایک لکھاری کے طور پر سامنے آئی ہیں۔اپنے تجربات،مشاہدات اور احساسات کو لفظوں  میں پرو کر کتابوں کی رنگارنگ مالا  ترتیب دی ہے۔

خودنوشت "یادوں کی تتلیاں" اگر جسم وجاں پر بیتے  حالات و واقعات کے موسموں کی کتھا ہے  تو "سلسلہ ہائے سفر" دیارِغیرکی فضاؤں میں حیرت وانبساط کے در کھولتے  تاثرات   کی   سرگوشیاں ہیں ۔

انشائیے "اِک پرِخیال"  اگر کھلی آنکھ سے دیکھے گئے معاشرتی مسائل پر خودکلامی ہے تو  "لمحے نے کہا" شاعری کی زبان میں اپنے جذبات کا اظہار ہے۔

نئی آنے والی کتاب" جنگل کچھ کہتے ہیں"لفظوں کے اس رنگارنگ گلدستے میں  ایک خوب صورت اضافہ ہے۔یہ اپنی نوعیت کا  ایک طویل مکالمہ ہے، شناسائی کا سلسلہ ہے جو نصف صدی    سے زائد کئی عشروں پر محيط ہے۔جیسا کہ       نام سے ظاہر ہے  یہ دوبدو بات چیت کی ایسی انوکھی داستان ہے کہ  قاری  خودبخود  اس   گفتگو میں شامل ہو جاتا ہے۔

اہم بات یہ  "جنگل کچھ کہتے ہیں "تخیل  کی انتہا پر جا کر دیوانہ وار رقص کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں  درختوں ، جنگلوں کےحوالے سے  نہ صرف  مادرِ وطن بلکہ   بیرونی ممالک  کے  بہت سے ایسے دل سوز تاریخی واقعات     و سانحات  کا تذکرہ ہے جن کو  پڑھ کر قاری لمحہ  بھر کو دکھ اور  تاسف کےجنگل میں بھٹک جاتا ہے تو  اگلے پل امید کی کرن اسے نئے  راستوں کی چھب  دِکھلا دیتی  ہے۔

جنگل کچھ کہتے ہیں بطور خاص رپورتاژ نہیں بلکہ فاضل  مصنفہ کےذہنی اور جسمانی سفر کا اپنی طرز کا ایک  منفرد سفرنامہ   ہے.  جس میں بچپن کی معصومیت دِکھتی ہے تو کبھی  لڑکپن کی حیرانی دم بخود کر دیتی ہے۔نوجوانی کی جذباتیت قدم روکتی ہے تو  ادھیڑ عمر کی تنقیدی نگاہ کہانیاں کہتی ہے۔کہیں کہیں گزرتی عمر کی چاپ سنتے ماضی اور حال کے تضادات اُداس بھی  کرتے ہیں۔تخيل  اور حقائق کے خوب صورت امتزاج سے گندھے لفظوں کی یہ مہک قاری کو   آخر تک اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔

 منیرہ قریشی  کی تمام تحاریر اُن کے بلاگ " خانہ بدوش" پر پڑھی جا سکتی ہیں۔

munirazafer.blogspot.com

  محترمہ پروین شاکر کا شعر آپ کے ادبی سفر  کے نام

خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے 

موجِ ہوا کے ہاتھ میں اُس کا سراغ  ہے

      نورین تبسم

اُردو بلاگر۔ "کائناتِ تخیل"۔

noureennoor.blogspot.com 

یکم  جون 2025

اسلام آباد 

جمعہ، 10 مئی، 2024

"سرورق " ۔۔ جنگل کچھ کہتے ہیں

تعارف مصنف

 منیرہ قریشی   درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ   سماجی اور رفاعی اداروں کے قیام کے حوالے سے  واہ کینٹ کا ایک معتبر نام  ہیں۔علمی اور ادبی ماحول نے ذوقِ مطالعہ کو مہمیز کیا۔کتابوں سے محبت اور لفظ سے  دوستی کے سفر میں اپنے احساسات     خاموشی   سے سپردِقلم کرتی رہیں۔وقت نے مہلت دی اور بخت نے اجازت دی تو   احباب کے اصرار پر   اپنے خیالات وتجرباتِ زندگی           کتاب  کی صورت مجتمع کر کے  سامنے لائیں۔

 منیرہ قریشی کی شائع ہونے والی کتابوں پر ایک نظر 

٭ لمحے نے کہا۔۔۔ شاعری 

٭یادوں کی تتلیاں۔۔۔۔ خودنوشت

٭سلسلہ ہائے سفر۔۔۔ سفرِ حج اور  بیرونِ ملک سفر(ملائیشیا،دوبئی ،تھائی لینڈ ،انگلستان  اور ترکی)   کا احوال

٭اِک پرِخیال۔۔۔انشائیے

٭ جنگل کچھ کہتے ہیں۔۔۔ رپور تاژ

 

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔23)

 "سفر نصیب "

باب۔۔23

جانے وہ کون سا لمحہ تھا ، یا قبولیت کی گھڑی تھی کہ میں ٹھیک دو سال بعد ، ہزاروں میل کا سفر طے کر کے ایک بار پھر چھدرے جنگل کے روبرو تھی، جبکہ اس سال کسی بھی مغربی ملک نا جانے کا تہیہ کر رکھا تھا ۔ ارادہ کسی مشرقی علاقے کی طرف پر سکون جگہ کی تلاش کا تھا ۔ لیکن جمع ، تفریق ،حفاظت ، اصرار اور محبت کے سارے جذبات کے شربت کو پینے ، پلانے کے بعد پھر سے وہیں اُسی طرف قدم اٹھ گئے ، جہاں کا دانا پانی لکھا تھا۔ اور یوں اپنے دوست جنگل کے سامنے جا پہنچی ، زوردار سلام کے بعد اٗس پر طائرانہ نظر ڈالی، تو مجھے واضح طور پر جنگل کی شرارتی مسکراہٹ محسوس ہوئی ۔ اوہ ! تو گویا یہ اس کی دعائیں تھیں جنھوں نے میرے ارادوں کو پلٹ کر رکھ دیا ۔ اگرچہ خواہش تو میری بھی تھی کہ اگلی بار دوست جنگل سے سر سبز لباس کے علاوہ کسی اور لبادے میں ملاقات ہو، اور یہ موسم شدت برودت کا ہو ، کہ جس میں جنگل کی الگ دنیا ، الگ رنگ ڈھنگ دیکھ پاؤں ۔ اب جب ارادوں کے برعکس پھر جنگل سے علیک سلیک کر رہی تھی تو سوائے جہاندیدہ درختوں کے ، نوجوان درخت کافی حد تک کم لباسی کا شکار ہو رہے تھے ۔ ان نوخیز درختوں کی جانب سے کچھ شرمیلا انداز بہت بھایا ۔ جہاندیدہ درختوں کے تنوں پر ہاتھ رکھ کر ، میں کچھ دیر آنکھیں بند کئے ، دل کی زبانی پیام رسانی کرتی رہی ۔ مضبوط تنوں کی دھڑکن سنائی دے رہی تھی ، ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ مجھے واقعی سنائی دے رہی ہے ؟ میں نے سوچا ہی تھا ، کہ درخت نے محبت بھری سرگوشی کی " اس لئے کہ تم ہماری دلی دوست بن گئی ہو اور دلی دوست سے ہی تو دل کی باتیں کیا کرتے ہیں ۔ دیکھو ذرا اپنی اس کتاب کا آخری پیرا گراف یاد کرو ، جس میں تم نے لکھا تھا " میری شدید خواہش تھی کہ تمہیں برف کے لحاف اوڑھے ، چُپ کی عبادتوں کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھا دیکھتی ، لیکن سب خواہشیں کہاں پوری ہوتی ہیں "۔لیکن تم کیوں بھول گئیں ، کہ اجتماعی دعا ایک خاص ردھم پیدا کرتی ہےاور جب یہ گونج قبولیت کے ساز کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے تب ساز اور الفاظ کی ہم آہنگی شیشے توڑ کر ، قفل کھول کر رکھ دیتی ہے ۔اور وہ بھی ہم جیسوں کی دعا !! تو تمہارے لئے ہم سب کی دعا قبول ہوئی ۔ اس موسم میں جب لوگ یہاں سے گرمائی علاقوں کی طرف کوچ کر جاتے ہیں ، ہم جانتے تھے، تم ان لوگوں کے برعکس خواہشات کو دل کے کسی گوشے میں پالتی رہتی ہو۔ بے شک ان خواہشات کے دروازے پر "شاید " کا قفل لگا ہوتا ہے اور اس کی کھڑکیوں پر "امید" کے پردے گرے رہتے ہیں ،جن کے ٹھنڈے شیشوں کے پیچھے تمہاری آنکھیں کبھی کبھی پردہ ہٹا کر باہر سے گزرتے "وقت" کے چوکیدار کو دیکھتی بھی ہیں کہ وقت ہی وہ پہریدار ہوتا ہے ۔ جو ہاتھ میں سٹاپ واچ تھامے ،ہماری ، تمہاری خواہشوں کے پورا ہونے یانہ ہونے کا اعلان کرتا چلا جاتا ہے اور پھر ہم اپنی دعاؤں یا خواہشوں کے پورا ہونے نہ ہونے کے ٹیلی گرام وصول کرتے چلے جاتے ہیں" ۔ جہاندیدہ درخت اپنے آس پاس کے سبھی درختوں کی نمائندگی کر رہا تھا ۔ میں نے بند آنکھیں کھولیں ، کیوں کہ میری آنکھیں نمی سے بھر چکی تھیں ۔ شکریہ کے دو آنسو گرے اور اس کی جڑوں میں ضم ہو گئے ۔ جیسے میں اس کے لئے اتنے دور سے یہی تحفہ لا سکی تھی ۔ درختوں کی ستائش بھری نظروں کو محسوس کرتے ہوئے گھر کے اندر چلی آئی ۔ چند دنوں میں ہی میری وہی دو سال پہلے کی لگی بندھی روٹین چل پڑی ،، جیسے میں تو کبھی یہاں سے کہیں گئی ہی نہ تھی۔ اس دفعہ میں خود پر نازاں تھی کہ فقط اس خوبصورت گھر کے مکینوں نے ہی نہیں بلکہ جنگل نے بھی مجھے محبت بھرا دعوت نامہ ارسال کیا تھا ۔ جس کے نیچے لکھا تھا۔ "آپ کی آمد کے منتظر "دعاؤں کے ساتھ " موسم عین اپنے رب کے حکم کے ساتھ ، سورج کے اس رُخ کے سامنے تھا ، جب اکثر ہی ٹھنڈی ہوائیں ، جھومتی ہوئی آتیں اور درختوں کے پیلے اور گہرے خاکی پتوں کو جھاڑ کر آگے بڑھ جاتیں ۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ، درخت اپنی کم لباسی پر شرمندہ شرمندہ سے ہیں ، اور کبھی یوں لگتا وہ مراقبے کے دورانیے کی تیاری میں ہیں۔ وہی منظر جسے دیکھنے کی خواہش جانے کتنے سالوں سے پال رہی تھی ۔ ایک ایک دن کے ہر منظر کو میں دل ، دماغ اور یادوں کی تجوری میں سینت سینت کر رکھتی جا رہی تھی ۔
ایک دوسرے پارک میں موجود درختوں کے ذخیرے میں خزاں اپنے جوبن پرتھی ۔ سبز پتے تو خال خال تھے البتہ پیلے اور سرخ درختوں نے آگ کے الاو دہکا رکھے تھے ۔ جو پورے ماحول کو مزید رومانوی بنا رہے تھے ۔ سردی کی شدت میں اضافے کے آگے ، جیسے ان شاندار درختوں نے ہتھیار ڈالنا شروع کر دئیے تھے ۔ وہ اپنی عمر رسیدگی ، مضبوطی ، اور خوب گھیردار تنوں کے ساتھ لمبی قامت اور شاخوں کے خوب پھیلاؤ کے باوجود موسم کے بے رحم احکامات کے سامنے سر جھکانے پر مجبور تھے ۔کہ پتوں کا گرنا ، دراصل انہی کی بقا کی علامت بن چکا ہے ۔ قدرت کسی پر خواہ مخواہ ظلم نہیں کرتی ، اس خالق نے ہر نمو کے لئے ، پہلے پرانی چھانٹی اور پھر نئی پوشاک دینے کا کھرا اصول وضع کر رکھا ہے اور اب یہی اصول لاگو ہوتے دیکھنا کیا ہی "رنگین تجربہ" تھا۔ اور پھر ایک مرحلہ وہ آگیا جب درجہ حرارت نے اعلان کیا ، بس آج کی شام یا رات ،، کچھ دیر کو وہ جادوئی منظر ، جسے میری آنکھوں نے اتنے برسوں کے عمر سفر میں پہلی بار دیکھنا تھا ، لیکن کائنات نے سہنا تھا ۔ شام سورج بہت پہلے ہی چھٹی پر جا چکا تھا ، ماحول پر ہلکا اندھیرا ٹھہر گیا تھا ۔ کھڑکی کے باہر سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں بے آواز روئی کے گالوں نے زمینی منظر کو نیا روپ دینا شروع کر دیا ۔ اور گھنٹے بعد اک تواتر سے برف کے گالوں کی وہ جھڑی لگی سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ روئی کے گالے ہیں یا موتیے کے پھولوں کی لڑیاں۔ قدرت نے مجھے اس نئے ، منفرد اور بے آواز تجربے سے آگاہ کیا ۔ کہ دل اور جسم رقصِ درویش کی کیفیت سے دو چار ہوتا محسوس ہوا۔ چند الفاظ بے اختیار دل کی دھڑکنوں میں آن بسے ۔ کبھی کبھی آ کھڑی ہوتی ہیں ،وہ ساعتیں" جیسے وحی کا نزول ہو کائناتِ مظہر پر کبھی کبھی آسمان برساتا ہے روئی کے گالے ،چپکے چپکے جیسے لڑیاں ہوں موتیے کے پھولوں کی صورت جھڑی تھی برف کے گالوں کی صورت بے آواز جلترنگ تھا ، سناٹے کی صورت اور کائنات تھی رقصاں ننگے پاؤں آگہی پانے کی مستی کیف کی صورت وہ آگہی کی ساعتیں ، ہم جیسوں کے لئے دل کھول کر دیدار کراتی رہیں۔ جو بیالیس درجہ حرارت سے آئے ، اور پھر سال بھر کے لئے اُن کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچائیں گی۔ اگلی صبح، جلدی سے دوست جنگل کی طرف گئی ۔ لیکن یہ کیا !! سارے درختوں نے برف کے لحاف اوڑھ لئے تھے ۔ اور ان کی کمزور اور مضبوط ٹہنیوں نے دعایہ انداز میں اپنے ہاتھوں پر برف کو ٹھہرایا ہوا تھا ۔ تا دیر ساکت ہو کر یہ نظارہ دیکھا ۔ چاروں طرف مقدس خاموشی کا پہرہ تھا ۔ کسی بھی درخت پر کوئی لرزہ طاری نہ تھا کہ اب ان کی روحانی تربیت کا دورانیہ چل پڑا تھا ۔ رات کی اوّلین برفباری گویا اٗن کو روحانی تجربے سے گزارے جانے کا آغاز تھی۔ آج ہر درخت نے ساکن ہو کر آنکھیں موند رکھی تھیں۔ وہ مراقبے کی اس کیفیت میں آچکے تھے کہ اگر ان پر کلہاڑی بھی چل جاتی تو وہ سر تسلیم خم کئے رہتے۔ یہ اعتکاف کبھی کم کبھی زیادہ دنوں پر محیط رہتا ہے ۔ اور جب وہ آنکھیں کھولیں گے ، تب مہاتما بدھ راجا سدھارت کی طرح گیان پا لیں گے ۔ وہ دوسروں کو پھر سے محبت ، شفقت اور بانٹنے کا سبق دیں گے کہ کائنات کے ہر مظہر میں یہ صفت سمو دی گئی ہے کہ میری مخلوق کو محبت کے ساتھ اپنی روشنی ، اپنی خصوصیات ، اپنا پھل بانٹتے رہو ، یہی نرمی ،یہی تعاون ، کا سبق وہ اوّل دن سے دے رہے ہیں ، یہ اور بات کہ کچھ قوموں نے اس سبق کو کسی حد تک اپنا لیا ۔ لیکن کچھ اقوام جہالت کے گڑھے سے نکل ہی نہیں پا رہیں ۔ وہ درختوں کو محض لکڑی سمجھ کر ان سے بے دردی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں ۔  
مجھے وقت نے مہلت نہیں دی کہ اپنے دوست جنگل کو اِن کے نئے ملبوسات پر انھیں مبارک باد کہہ سکتی ۔ لیکن جیسا پہلے لکھا ہے ۔۔

۔"کہ آرزوؤں کی ٹوکری کو کچھ ادھورا ہی رہنا چاہیے، تاکہ جینے کے کچھ جواز موجود رہیں"۔

بدھ، 8 مئی، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔ 22)


"الوداع دوست"
باب۔22
گھر کے لان کی باڑ سے باہر کے قدرتی جنگل سے ایسی دوستی ہو گئی گویا ہم عشروں سے اکٹھے رہ رہے ہوں ۔ اُس کے کونے کونے کے پودوں سے ، درختوں کے پتوں کے رنگوں کی تبدیلی سے ، وہاں کے مستقل باسیوں ، اور اُن کی چلنے پھرنے سے ایسی آشنائی ہو چلی تھی کہ جیسے میں ان کا ہی حصہ ہوں ۔ جنگل نے اپنی صنف کے علاوہ دوسروں کو محبتیں بانٹنے کا جو سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا ، یہی صفت ہر جنگل میں بھی ہوتی ہے ۔ مجھے لمبے عرصے تک اس چھدرے جنگل نے جس محبت سے اپنے حلقۂ احباب میں شامل کیا ہو ا تھا ، اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہوں ۔ اِس محبت کا ہی انداز تھا کہ وہ کبھی کوئی نظارہ میری آنکھوں کی چمک دوبالا کر دیتا، کبھی اُس رقص کا مظاہرہ ہوتا ، جو میرے انگ انگ کو سرور دے دیتا ، کبھی یہ درخت اپنے ساتھ رہتے ، چھوٹے ، خوبصورت پرندوں کی چہکار کو ایسے مختلف سُر میں پیش کرتے کہ انسان حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے معمور ہو جائے ، اِس لئے کہ عام روٹین میں اِن پرندوں کی بولیاں انہی کی ذات کا مقرر کردہ حصہ لگتیں ، لیکن خاص خاص لمحات میں اُن کی بولیوں میں وہ انفرادیت ہوتی جو جنگلوں کے شیدائی ہی محسوس کر سکتے ہیں ۔ اللہ کا کرم کہ یہ نیلے ، سُرمئی ، اناری اور سیاہ رنگوں کے مختلف جسامت کے پرندے اپنے خوشی اور بے چینی کے دورانیےمیں نکلتی آوازوں سے دل اور آنکھوں کو طمانیت بخشتے رہے ۔ نہایت چھوٹی اور کچھ بڑی گلہریاں ، شروع دنوں میں سہمی اور اَتھری رہیں لیکن آہستہ آہستہ اُن کے لئے انسانی موجودگی نارمل ہوتی گئی اور جنگل کے مکینوں نے مجھے بھی داخلِ خاندان کر لیا تھا ۔
لیکن ! اب وقت کا " کاؤنٹ ڈاؤن " شروع ہو چکا تھا ۔ میں دن میں دو اور کبھی تین مرتبہ " سلام کرتی اور احوال " پوچھتی !! یہی دلی رابطہ مضبوط ہوتا چلا گیا تھا ۔ لیکن الوداعی ملاقاتیں شروع ہو چکی تھیں اور جدائی سے دو دن قبل میں اپنے پیارے دوست سے ملنے گئی ، تو جنگل نے حیرت انگیز طور پر سَرد مہری دکھائی ۔ ہر چیز ، ہر پتّا ، ساکت تھا کسی شاخ پر ایک بھی پرندہ نہ تھا ۔ جیسے دن کا آغاز نہیں رات کا کوئی پہر ہو !
میں نے حیرت سے یہ سب دیکھا اور کچھ دیر بعد ہی کہا "اچھا چلتی ہوں ، اپنے وطن کی تیاری ہے ، شاید مزید ملاقاتیں نہ ہوں "، جواباًخاموشی اور گہری ہو گئی ۔
میں نے جنگل سے کہا " مجھے یاد کرتے رہنا ۔ میری تو شدید خواہش تھی کہ تمہیں برف کے لبادے اوڑھے ، چُپ کی عبادتوں کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھا دیکھتی ، لیکن سب خواہشیں کہاں پوری ہوتی ہیں ۔ ویسے بھی " آرزوؤں کی ٹوکری کو ادھورا ہی رہنا چاہیے، تاکہ جینے کے کچھ جواز رہیں ۔ پھر جنگل تو خزاں ، بہار ، گرمی ، سردی ، برسات میں الگ رنگ و انگ میں نظارے دیتے ہیں ، تمہارے وہ روپ جو تم کم ہی کسی پر عیاں کرتے ہو ، وہی تمہارے مہمانِ خصوصی ہوتے ہیں ۔شکریہ پیارے جنگل ! تم نے مجھے بہت سے رُوپ دکھائے ،اپنا گانا ، اپنے رقص ، اپنے راز ، خاموشی کی مخصوص زبان سُجھائی ۔ ان سب کے لئے شکریہ " ۔
لیکن اُس وقت اس دوست جنگل کی بے اعتنائی ، سرد مہری ، میرے روئیں روئیں کو دکھ اور کرب سے دوچار کر رہی تھی ۔ہاں البتہ یہی کرب ، جنگل بھی تو برداشت کر رہا ہو گا ، مجھے خیال آیا ۔ تو میری آنکھ سے اِک قطرۂ جدائی بزرگ درخت کی جڑ تک جا پہنچا ، دل گیر ہو کر میں نے اللہ حافظ کہا اور جوں ہی مڑ نے کے لیے قدم بڑھائے ،جنگل کا سرسراہٹ بھرا جملہ ٹکرایا ، " ہم اِس لئے اداس نہیں کہ تم جا رہی ہوں ، تم نے تو اپنی تحریر میں الفاظ کے جنگل میں ہمیں اسیر کر لیا ہے ، اِس تحریر کو جب تم پڑھو گی ، ہزاروں میل دور تصورات کی دنیا سجا کر ہمیں سامنے پاؤ گی ۔ ہم تو یہاں عشروں کے سَرد گرم سہہ سہہ کر شاید کبھی ڈھیر ہو چکے ہوں گے ۔ تم نہیں آؤ گی تو بس یہی ملال رہے گا کہ ہماری خاموشی کی زبان ، ہمارے لئے دل میں عجب محبت لیے ، جانچتی آنکھیں لیے ، ہماری داستانوں پر کامل کان دھرے ، کوئی تو سُنتا ہے ۔ ! ابھی تو ہم نے اپنی کہانی درمیان تک ہی سنائی ہے کہ یا تو تمہیں اپنی دنیا کا بلاوہ، یا مٹی کا بلاوہ آ جاتا ہے ۔ نہ ہم مکمل کہہ پائے نہ تم کامل سُن پائیں ۔ جانے اب ایسی سراہتی آنکھوں والا کوئی کب آئے ؟ یا کبھی نہ مل سکے !! بس یہی وجہ تھی ہماری اداسی کی "
یہ سارا جواب سن کر میرے دل کو سکون آ گیا تو گویا اب میں بھی کسی کے خیالوں اور یادوں میں دہرائی جاتی رہوں گی ۔
میں نے دوست جنگل کو یہ رباعی نذر کی کہ عین میرے حالِ دل کی عکاسی تھی اور کہا مجھے جب یاد کرو گے تو اس رباعی کے الفاظ پر غور کرنا ۔ میں تمہارے اور تم میرے آہنگ تک پہنچ جاؤ گے ۔۔۔
؎ پھر میَں نے قطرہ قطرہ یہ سب سبزہ پی لیا
جیون زمین کے ہر جیو کا میں نے جی لیا ! !
گُل ، پھل ، شجر ، پہاڑ ، سمندر ہیں آیتیں
قرآن میں نے سَو روح پہ یہ سارا سی لیا ( بشکریہ کومل ذیشان )

( منیرہ قریشی ، 9 مئی 2024ء واہ کینٹ )