جمعہ، 29 اپریل، 2022

" ستائیسویں" ( رمضان کےآخری عشرہ کی کوئی سی طاق رات)

" ستائیسویں" ( رمضان کےآخری عشرہ کی کوئی سی طاق رات)
=* کہا گیا ، آج کی رات ہے خاص
ہر گھڑی قیمتی ہر لمحہ موتیء آبدار
ہر دعا اہم ،،، ہر آنسو آبِ رواں
مانگ لو ، جو ہے مانگنا ,,,,
متوجہ ہے خالقِ کائنات
=* کیا ہی عجب ہے ستائیسویں کی رات !!
لمبی ہےفہرست ،،،
گناھوں کی ، خواہشوں کی
کہاں سے شروعات ہو ،کہاں ہو اختتام !
اسی شش و پنج میں
عرضیاں ، اہم اور غیر اہم میں غلطاں
شرمندگی کا یکدم بوجھ سا بڑھا
ٓ٭ ستائیسویں کی رات !!
شمس تھا درمیاں ( اک مرکزِ ترجیع اول و آخر )
اور دعائیں مانندِ مدار رقصاں
کسے پہلے چُنوں ، کسے بعد میں مانگوں
بہت سی ہیں رازداریاں ، اے راز دار
کرنا ہے تُو نے ہی ، صَرفِ نگاہ
دل سیاہ کو مانجھا تو بہت ہے
تیری حاضری کے لیۓ سنوارا تو بہت ہے
" اپنی مَیں " کو لتاڑا تو بہت ہے
نا معلوم سا اک بوجھ ہے آس پاس
جانے اب کب نصیب ہو ، نہ ہو ایسی رات
ٓ٭ ستائیسویں کی رات !!
شبِ پاکیزہ تھی عجب پھوار میں ڈوبی
سبھی لمحے تھے اَن مول ،سبھی نایاب!!
جیسے پھولوں کے گندھے ہار
آنکھیں بوجھل ہوئیں اور پھر
قطرے جیسے قطار اندر قطار
آنکھیں کچھ ہلکی ہوئیں ،،،
دل سے جیسے چھَٹ چکا تھا غبار
کہ ،،،،،،،،،،،،،،،،،
اللہُ اکبر ، اللہُ اکبر کی صدا مسکرائی
اپنا ہی وجُود یوں ہوا ،
جیسے تتلی ، جیسے اِک پَرِ خیال
اور قطروں کے جھاڑ میں
دھل چکی تھیں عرضیاں
کچھ عجیب ہی ہوتی ہے
تلاشِ ،،، محبت کی یہ رات

( منیرہ قریشی، جمعہ 29 اپریل 2022ء واہ کینٹ ) 

ہفتہ، 23 اپریل، 2022

اِک پرِخیال " " سواد " ( ذائقہ )

اِک پرِ خیال "
" سواد " ( ذائقہ )
جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے ، لفظ " سواد " پنجابی زبان کا لفظ ہے، اردو میں اس کا متبال لفظ ہو گا "ذائقہ "،،، لیکن ہر علاقائی یا قومی زبان ،، میں اور بھی الفاظ ضرور ہوں گے ،، جو بولتے ہی اپنی حلاوت کا احساس دینے لگتے ہیں ۔
جب کسی خوش ذائقہ کھانے سے لطف اُٹھاتے ہیں ، تو کہہ اُٹھتے ہیں۔ " مزا آگیا ،، یا بہت ہی تعریف پر دل چاہا تو کہا " واہ آج تو سواد ہی آگیا " ،
بِعَینہٖ              جب ہم کوئی خوبصورت گفتگو ،، سنتے یا پڑھتے ہیں تو بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں ،،" بھئ لطف آگیا " آج تو بس سواد ہی آگیا ۔
کچھ یہی حال روذ مرّہ زندگی کے حالات و واقعات کا بھی ہوتا ہے ، جن کے پیش آنے سے جب طبیعت میں تناؤ کم ہوتا محسوس ہوتا ہے ،،،، یا ،، جب ہمیں خود اس احساس سے آگاہی ہوتی ہے ،،، کہ اس واقعہ یا اس منظر سے مجھ میں تبدیلی کا احساس اجاگر ہوا ہے ۔ تو ہم زبان اور دل میں کچھ عجیب سی حلاوت محسوس کرتے ہیں ۔ گویا جیسے اردو زبان کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہوۓ کیا ہی خوبصورت شعر کہا گیا ہے کہ اس کی حلاوت منہ میں گھُلتی محسوس ہوتی ہے ۔۔
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں ! !
بس کچھ ایسا ہی ذائقہ ،، ایسی ہی گھلاوٹ کا احساس پچھلے کچھ دنوں میں ہوا ۔۔ کہ جب چلتی ٹرین کو انجن ڈرائیور نے ایک ویرانے میں روک دیا کہ ،، کہ کچھ صحیح نہیں چل رہی ،،، دیکھ لوں کیا مسئلہ ہے ،، اور ساری ٹرین کے مسافر ،،، منہ اٹھاۓ باہر نکل آۓ ،، کہ جناب " سٹیشن چند میل دور ہی رہ گیا تھا ،، چلتی ٹرین کو وہیں تک جانے دیتے ،، مدد بھی پہنچ جاتی اور ہم بھی اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف آرام سے پہنچ جاتے لیکن ٹرین کی چابی جس کے ہاتھ میں ہو ، فیصلے کی طاقت بھی اسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
چنانچہ ،،،، یہی ہوا کہ کچھ مسافر سامان اُٹھا کے تیزی سے سٹیشن کی طرف چل پڑے اور زیادہ تعداد میں وہ تھے ، جنھیں انجن ڈرائیور پر نہ صرف غصہ تھا ، بلکہ وہ اس سے وجہ پوچھ رہے تھے ،، ان کے ساتھ نہ صرف سامان تھا بلکہ بال بچوں کی وجہ بھی انھیں اس ویرانے میں ٹرین کے روکے جانے کی وجہ معلوم کرنا تھی ۔ جس کا انجن ڈرائیور کے پاس کوئی جواب نہ تھا ،،،،،،، !
تو ،،، پھر یوں ہوا کہ پچھلے چند دنوں کے گھنٹوں کے حساب سے لیۓ گئے فیصلوں نے وہی کیفیت پیدا کر دی ،، جب ریت اور مٹی کا طوفان آۓ تو منہ اور آنکھیں ریت اور مٹی سے بھر جاتے ہیں اور کچھ دیر تک اسی کیفیت میں کچھ سمجھ نہیں آتا ،، یہ کیا ہو رہا ہے " ،،،،؟؟؟
اور جب ریت اور مٹی کو آنسوؤں کے پانی سے دھویا گیا تو ،،، پوری قوم اصل رہنما کی ایک آواز پر لبیک کہتی ہوئی گھروں سے نکل آئی۔۔۔ وہ سراپا سوال بن گئی ۔۔
٭- چلتی ٹرین کو ویرانے میں کیوں روکا ؟
٭- کیا ہم آج بھی بہتر سال پہلے کی نو آزاد قوم ہیں ، جسے اپنا اچھا برا نہیں پتہ چل رہا ،،جو غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے جائیں گے ؟؟؟
٭- کیا ہم گاۓ ، بکریاں ہیں ، کہ جن کی اپنی کوئی سوچ نہیں ۔ کسی کے بھی ہاتھ میں لاٹھی پکڑا دو گے ، ہم اسی کے پیچھے چل پڑیں گے ؟؟؟
٭- کیا ہمیں نئی دنیا کی کچھ خبر نہیں کہ وہ کہاں جا رہی ہے اور ،،، ہم کہاں کھڑے ہیں ؟؟؟
٭- ہم بہتر سال سے ایک ہی بات سنتے آ رہۓ ہیں ، اس لیڈرنے یہ اور یہ غلطی کر ڈالی اس لیۓ اس کو یہ سزا دینا ضروری تھی ،،، اور جنھوں نے کروڑوں ووٹ دیۓ ہوۓ تھے ،، وہ کس کھو کھاتے ؟
٭- کیا انجن ڈرائیور کو اپنے مددگار ڈرائیور سے مشورہ نہیں لینا چاہیۓ ، کہ تمہارا کیا خیال ہے ،، ؟ آخر کو تم نے اس ادارے کو دنیا کا نمبر ون بنا لیا ہے تمہاری معلومات کیا کہتی ہیں ؟
٭ لیکن ،،، انجن ڈرائیور کے ،، حواس معطل تھے ،، اور وہ ایک غلط فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی تاویلوں میں پڑ گیا ۔۔ کسی سے مشورہ تک نہ لیا گیا ۔۔
اور وہ یہ واضح پیغام بھول گیا
؎ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات ! !
یہی سجدہء غیر ،،، کس قدر حقیر کر چھوڑتا ہے ۔ تاریخِ دنیا بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔۔۔
تو ،،، پھر یوں ہوا کہ ، کہ لوگ ،، ایک قوم بن گۓ ،،اپنے گھروں سے کھانے کھا کر ، اپنے کراۓ خرچ کر کے ،، اپنے بال بچوں کے ساتھ نکل آۓ ۔۔ سب کا ایک ہی نعرہ تھا ۔
" ابھی تو ایک میرِ کارواں ملا تھا ، جس نے بیدار کیا کہ عزتِ نفس کیا ہوتی ہے ! ،، خودی اور خود داری سے سر اُٹھا کر جینا سیکھو ،، ہم کسی کے غلام نہیں ،، ہم کیوں سارا وقت ، ان غیر ملکیوں کے آگے ،، ہاں جی ،، ہاں جی کرتے رہیں ،،، ہم کمی کمین نہیں ،، برابری چاہیۓ ، برابری کی سطح پر بات کرو ،، تم ہوتے کون ہو ، ہمیں اپنے مفادات پر استعمال کرنے والے ؟؟؟ "
یہ کون ہے ؟ یہ کون سا منفرد میرِ کارواں بول رہا ہے یہ کس نے اذان بے وقت دی کہ خوابِ غفلت سے جگا دیا ،، ہمیں سچ بولنے والی زبان دے دی ، ہمیں سوچ دے دی ،، ہمیں اقبالؐؒ کا پیغام یاد دلا دیا ؟، ہاں ،،، ہمیں آزادئ نفس ( سیلف ریسپیکٹ ) کا ذائقہ یاد دلا دیا۔ ہمیں سر اٹھا کر ایک با عزت ، با شعور بندے ہونے کا سبق یاد دلا دیا ۔ ورنہ ہم تو انہی دو چودھریوں کو باریاں لیتے دیکھنے کے عادی ہو چکے تھے ۔ ہاں ہمیں اپنے نبیﷺ کے پیغامات کو با آوازِ بلند دہرانے کی جرات دی ،،،
اور یہ جرات تب ہی آتی ہے جب میرِ کارواں کے دل میں لوگوں کے ہجوم کو قوم بنانے کا احساس نظر آنے لگے ۔ جب اسے اللہ کے آگے پیشی کا خیال ہو جاۓ ۔۔۔ تب آزادی کا وہ سواد ، ، وہ ذائقہ محسوس ہونے لگا جب اس خطے نے پہلی دفعہ قائد رح کی سرکردگی میں چکھا ہوا تھا ،،،، اور بہتر سال بعد اس میرِ کارواں نے جسے " عمران خان " سے ہی پہچان نہیں ملی ،، اس کے خلوصِ نیت نے اسے پہچان کروائی اور اب اسے دنیا یاد رکھے گی کہ اس نے ایک ہی ڈنڈے سے ہانکے جانے والی قوم کو ،غیر ملکی امداد کی افیم میں ڈوبی قوم کو " سوادِ آزادئء نفس چکھایا ،، ذائقہء آزادئء سوچ دیا ،، سر اٹھا کر جینے کا فخر کیسا ہوتا ہے ، اس کو یہ سواد بھی چکھا دیا ۔
اسی میرِ کارواں کا پیغام کچھ یوں ہے،
میں اس شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں ، خواب دیکھتا بھی نہیں
اسی قومی اعتماد اور عزتِ نفس کے" احساس" کو محسوس کرنے کے بعد ،
،،سوشل،میڈیا پر لا تعداد لوگوں کے جذبات کے بعد ،،، خانہ کعبہ اور روضہء رسولﷺ کے باہر آنسوؤں سے پاکستان کے لیۓ ایف آئی آر لکھوانے کے بعد ،،،،،،،
کہہ سکتی ہوں ۔۔۔ بھئ " سواد " آگیا ،، لطف آگیا " الحمد للہ ، الحمد للہ !!

( منیرہ قریشی ، 23 اپریل 2022ء واہ کینٹ )