پیر، 16 دسمبر، 2019

" میوزیم "

" میوزیم "
تم آج آنا میرے گھر،،،،۔
ہم تمہیں اپنا "ذاتی قیمتی" خزانہ دکھائیں گے
یہ دیکھو ،، اس شوکیس میں ایک آدھ جلی کتاب ہے،۔
اور اس کے ساتھ ہی اَدھ جلی کاپی بھی ،،۔
کاپی کے لکھے اس صفحے کو ہم روز پڑھتے ہیں
مگر اُکتاتے نہیں !!۔
اوریہ اس خانے میں اسکا بیگ بھی سجا ہے ،۔
مگر یہ اس کے سرخ لہو سے سرخ رنگ ہو گیا ہے
اور دیکھو تو ، اِس اگلے شوکیس میں اس کا یونیفارم ہے ،،،۔
جو اس کے دریدہ بدن کی طرح دُریدہ ہے
ہاں ، یہ چند بٹن اور یہ ایک بوٹ اس لیۓ سجالیا ہے
انھوں نے اُس کےمعصوم بدن کو چھُوا توہے،،،،،۔
اور یہ ٹفن ،، جس سے اس نے آدھا سینڈوچ کھایا تھا
اور باقی آدھے کا ہم نےتعویز بنا یا ہے !!۔
یہ دیکھو، آخری خانے میں اُس کی جاگتی مسکراہٹیں ہیں !!
کہ جب جب وہ کوئی ٹرافی لاتا تو مسکرا کراسے محفوظ کرواتا،،،،۔
اور یہ ایک البم ہے ،،۔
دنیا میں اُس کی آمد سے آخر تک کی اس میں مکمل کہانی ہے!!۔
ایسے ہی میوزیم تمہیں ایک سو اُنچاس اَور بھی ملیں گے ،،،،۔
تمہارے پاس وقت اور درد ہوا تو وزٹ ضرور کر لینا ،،،،۔
کہ یادوں کے اس میوزیم کا دروازہ کُھلا ہی رہتا ہے ۔
( منیرہ قریشی "دلفگار 16 دسمبر" 2019ء واہ کینٹ )
۔( اُن تمام معصوم فرشتوں کےماں ، باپ اور ٹیچنگ سٹاف کے لواحقین کی خدمت میں اس دلخراش دن 16 دسمبر 2016 کی یاد میں )۔

جمعرات، 12 دسمبر، 2019

" شہیدِانِ وطن "

" شہیدِانِ وطن "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کیا عجب تھے وہ نفوس
تجھ سے محبت میں بے ریا و پُرخلوص
کس قدر دل فریب ہے یہ دنیا
ربّ کی رحمت وکرم کی طلبگاری میں
فریبِ دنیا کو پسِ پُشت رکھے
تیرے حکم پر سَرنگوں کیۓ
طلبِ تُو کی مست نگاری میں
دنیا کو اُس کی اوقات میں رکھے
بس اِک شانِ اسغناء ہمراہ رکھے
توشہء غنا کو ساتھ رکھے
عَلم محبت ِ شہادت ، اُٹھاۓ
سکینت کا کوہء گراں اُٹھاۓ
تحفہ،،، مالکِ کن فکاں کے لیۓ
دلِ تقویٰ ء جاں لیۓ
چلے جا رہے ہیں، رواں دواں
اصل ،،اصل کی جانب ہے رواں
( منیرہ قریشی 12 دسمبر 2019ء واہ کینٹ ) ( پاکستان کے ہر شہید کے نام )

منگل، 10 دسمبر، 2019

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش " " ذاتی تجزیہ "

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش " " ذاتی تجزیہ "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ویسے تو یہ ایک " فری سکول کی شروعات اور پھر اس وقت 2019ء تک کی جدوجہد ، خیال جو سوچے تھے ، اس دوران کےاثرات جو بچوں پر دیکھے ،، اور خود پر محسوس ہوۓ" ، اس کا نچوڑ یا میرے نزدیک اسسمنٹ یہ ہے جو میں بلا کم وکاست لکھ رہی ہوں ۔
۔1) ،،، بہت اچھا خوشحال طبقہ ،، بہت پڑھا لکھا طبقہ ،، کم خوشحال طبقہ،، کم پڑھا لکھا طبقہ ،،،، بے حد غریب طبقہ ،، ان سب سے 30 سالہ تعلیمی روابط رہے ، اور یہ دیکھا محسوس کیا ، اور یقین کیا ہے کہ ،،،، پاکستان کا اصل مسلہء غریبی نہیں ، جہالت ہے ۔ اور جہالت صرف " علم " کی کمی سے نہیں ، بلکہ تربیت کی کمی سے ہے ۔
۔2) ،،،ٹیچرز ، وکیل اور ڈاکٹرز ،، کبھی ریٹائر نہیں ہوتے ،، ٹیچرز کی طرف سے تعمیری تربیت ، اور ڈاکٹرز اور وکیل کی طرف سےمخلص مشورہ ،، زندگی کے آخری سانس تک یہ فرض ادا کیا سکتا ہے۔
۔3) آج کے معاشرے میں موٹیویشنل افراد اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ، لیکن ابھی یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ،، ذیادہ ضرورت تربیتی سینٹرز کی ہے ، اور یہ ہر عمر کے لوگوں کے لیۓ ہو ۔تاکہ ، آداب کا ماحول عام ہو اور،، جنگلی خود سری ، اڑیل پن ختم ہو ۔
۔4) کچھ عرصے کے لیۓ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز ( سیاسی) ختم ہوں۔تاکہ ہماری قوم کے مزاج میں ٹہراؤ آجاۓ ،، بے نتیجہ بحث مباحثہ سے بہتر ہے کہ کہ اچھے موضوعات پر ٹاک شوز شروع ہوں ۔ نیز ان کے ڈراموں میں "معمولی افعال کو معمولی نہ سمجھیں ،، قوم کی تربیت کے پہلو کے تحت ہی انھیں رواج دیں " ،،،، مثلا" ڈراموں میں عام گھرانہ دکھاتے وقت کھانا پلنگ پر کھاتے دکھاتے ہیں ، خاص دھیان رکھیں کہ غریب سے غریب بھی کچن میں بیٹھ کر کھاۓ ، اور کھانے سے پہلے اور بعد میں "کردار ہاتھ ضرور دھوئیں " ۔ تب انتہائی آہستگی سے ہماری قوم اپنے بُھولے ہوۓ آداب کی عادی ہو گی ! کردار ٹیکسی ڈرائیور یا رکشا ڈرائیور ہے ، اترتے وقت سواریاں شکریہ ضرور بولیں !!!وغیرہ،،،۔
۔5) بہت بولنا ،، اوربالکل نہ بولنا ،، شاید دونوں ہی گناہ میں شمار ہوں گے ۔ ہمیں غلط کام پر ٹوکنا چاہیۓ ، اوراس بات کو یوں نہ سمجھیں کہ ،، یہ بندہ  ردِعمل میں  میری بے عزتی کر سکتا ہے ،،، یا ،،، میرا اس بات سے کیا لینا دینا ، مجھے کیا ؟؟؟؟؟ یہ رویہ مجرمانہ غفلت کا ہو گا !!۔
۔6) ہر لیول کے سکولوں کے  سلیبس میں ،، عملی کام کے اسباق ( چیپٹرز ) زیادہ ہوں ۔ اور اسے اساتذہ کی کارکردگی کے لیۓ ضروری خیال کیا جاۓ ،، کیونکہ یہ عملی اقدامات ( پریکٹیکلز ) بچوں کو ضرور یاد رہ جاتے ہیں مثلاًبےکار اشیاء کو کارآمد بنانا ،،، چھوٹے پیمانے پر کسی بزنس کو شروع کرنا ، اور اس کی آمدن کا ریشو ٹیچر کو بتانا ( یہ کام بچےگروپ کی صورت میں انجام دیں )۔ ہر طرح کی ایمرجنسی میں کیا عملی اقدامات کیۓ جائیں ، ٹیچر لازماً ہر بچے سے کروا کر اس کی کارکردگی کا اندراج کرے وغیرہ ! اس لیۓ کہ گھر یا باہر کسی بھی صورتِ حال سے بچے گھبراہٹ کے بغیر نبٹ سکیں ۔ یہ چیز اُن کی خوداعتمادی کو بڑھاۓ گی ۔
۔7) بچوں کو سال میں دو دفعہ ، (اگر گنجائش ہے تو ) ورنہ ایک دفعہ لازماً کسی بھی چھوٹی یا بڑی فیکٹری کا وزٹ کروائیں ،، بچے عملاً جب چاکلیٹ بنانے کی فیکٹری دیکھتے ہیں تب انھیں پتہ چلتا ہے کہ ایک چاکلیٹ جو اُن کے ہاتھ تک پہنچتی ہے کہ کتنے مرحلوں سے ہو کر آتی ہے ۔ ہمارے بچے بہت ذہین ہیں ، اور اس طرح اُن کا وژن دور تک پہنچتا ہے ۔
۔" مجھ سے ان اقساط میں جو کمی نظر آئی،اس کے لیۓ معذرت،اور اس تجزیۓ میں آپ نے اختلافِ راۓ کیا ہے تو بسم اللہ ،،، کہ "مثبت اختلافِ " راۓ اس فانی دنیا کا حُسن ہے ۔
آخر میں اس تجزیۓ پر آپ کی آراء کی منتظر رہوں گی !۔
( منیرہ قریشی 10 دسمبر 2019ء واہ کینٹ )

اتوار، 8 دسمبر، 2019

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہّ پنجم)

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہّ پنجم)
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اگر یہاں رُک کر ،،، میَں یہ کہوں کہ کوئی بھی پروجیکٹ یا سوچ عملی طور پر تب ہی اصل خدو خال کے ساتھ سامنے آتی ہے جب ، جذبہ صادق اور مضبوط ہو ،،خاص طور پر وہ کام ،، جسے آپ نے اپنے اللہ کی خوشنودی کے لیۓ شروع کرنا ہو ۔ کیوں کہ ایسی راہ میں رکاوٹیں آتی ہیں ، جو ہمارے ارادے اور کوشش کو متزلزل کر سکتی ہیں ۔
۔2005 سے شروع ہونے والا سکول پہلے چار سال کتب ، اور ٹیچرز کی سیلریز کا خرچ اُٹھاتا رہا ، ، لیکن جوں جوں بچوں کی تعداد بڑھی ، سٹاف ممبرز کی تعداد بھی بڑھی ،،، اس وقت بہت سے لوگوں نے ہمیں کہا کہ کسی " این جی او" سے اسے منسلک کروا لو ،، فائدے میں رہو گی ،، وغیرہ ،، اور دو تین این جی اوز کے نمائندے ہم سے بات چیت کرنے بھی آۓ لیکن ، ہم نے واضع کر دیا کہ ہم اس پروجیکٹ کو خود ہی چلائیں گی ۔ کیوں کہ ہم اسے اپنے والدین کے لیۓ صدقہ جاریہ کرنا ہے ، یہ انہی کا دکھایا رستہ ہے۔ چاہے جیسے بھی چلانا پڑے ۔
چار سال بعد ہم اس قابل تھیں کہ اپنے صبح کے سکول سے کچھ سرمائیہ کوشش سکول کے نام سے الگ اکاؤنٹ کھولا گیا ۔ تاکہ کبھی ہمیں صبح کے سکول سے لینے میں دقت پیش آۓ تو کوشش سکول کا اپنے اخراجات کے لیۓ پیسے موجود ہوں ۔ ( یہ اس لیۓ لکھ رہی ہوں کہ اگر کوئی سکول شروع کرنا چائیں تو کچھ بنیادی باتوں کا خیال رکھ سکیں ) ہمارا ارادہ اسے رجسٹر کروانے کا بھی تھا لیکن ،، 12 سال سے ہم یہ کام نہیں کر سکیں ، کیوں کہ اس کی فارمیلٹز ذیادہ تھیں ، دوسرے ہم نے سکول پانچویں تک ہی رکھنے کا ارادہ کر رکھا تھا لیکن ،،،پانچویں کے بعد بہت سی بچیوں اور لڑکوں کو سرکاری سکول میں داخل کروانے میں مدد دیتیں تھیں،، ایک تو وہ بچے بہ آسانی اینٹری ٹسٹ کلیئر کر لیتے ، دوسرے ان کی فیسیں پھر بھی ہم دیتی رہتیں ،، کیوں کہ ان میں کافی والدین ایسے بھی ہوتے ہیں ،،، جو اس معمولی فیس کو گنجائش نہ ہونے کا بہانہ بنا کر بچے کو سکول نہیں بھیجتے تھے ۔ جو ہمارے لیۓ شدید دکھ کا باعث بنتا ۔
تو یہاں ٹوٹا وہ سلسلہ جوڑتی ہوں ، جو کوشش سکول کے اُن بچوں کا ہے جو اڈلٹ کلاس میں داخل ہوتے ہیں ،، اس کلاس میں سبھی بچے ڈل نہیں ہیں ،، بلکہ انھیں کسی سکول میں جانے کا موقع کبھی ملا ہی نہیں ،،اس لیۓ انھیں ، نہایت ابتدائی تعلیم سے آشنا کیا گیا ،، اس کے بعد انھیں پریپ یا کلاس وَن کا سلیبس پڑھایا گیااور ،، وہ ٹیچر پُر امید ہوگئی کہ اب یہ پانچویں تک پہنچ جائیں گے ، ( لیکن صرف اردو ، حساب ، اسلامیات ذیادہ فوکس پر ہیں ،، انگریزی بہت ہی آسان ایک کتاب لگوائی گئی ہے )ان بچوں میں سے بیشتر چھُٹیاں بہت کرتے ہیں کہ وہ ،، صاحب جی کے گھر کے کام کرتے ہیں ،،، الیکن میَں نے ارادہ کرلیا کہ بے شک چھُٹیاں کریں ہم انھیں اس وقت تک داخل کیۓ رکھیں گے جب تک پانچ جماعت کا ایک سرٹیفیکیٹ نہ مل جاۓ ، اور اس وقت اڈلٹ کی" پہلی جماعت " پانچویں کے لیول کو پہنچ گئی ہے ، لیکن انگریزی کی ایک آسان کتاب پڑھا رہے ہیں ، کیوں کہ ہمیں ان کا ذہنی لیول ،، ان کی مصروفیت ، ان کو کوئی کوچنگ دینے والا ہے ؟ یہ سب مدِنظر رکھناپڑ رہا ہے ،،، کبھی بھی بھیڑ چال سے سلیبس نہیں بنانا چاہیۓ ، ہمیں ان کو نہ تو علامہ بنانا ہے نہ ہم انھیں کسی کالج ، یونیورسٹی تک پہنچا سکتے ہیں ،، لیکن وہ اپنے سامنے رکھی کتاب سے اردو پڑھ سکتے ہوں ، حساب کر سکتے ہوں ،، اپنے دین کا کچھ پتہ ہو اور انگریزی کی شُد بُد ہو ۔ اس کے بعد اِن کی قسمت !کیوں ہم سے یہ خط اور درخواست کی اہلیت لے چکے ہوتے ہیں ۔ اسی دوران ایسے مزید بچے آۓ کہ ایک اور اڈلٹ کلاس پریپ اور ون کی شروع کرنی پڑگئی ہے ،، ایسے بچے صرف اور صرف والدین کی غیر ذمہ دارانہ روئیے کی وجہ سے سکول سے محروم رہتے ہیں ،، کہ وہ جہالت میں ڈوبے ،زندگی کو نہایت محدود نظر سے دیکھ کر زندگی گزار رہۓ ہوتے ہیں ،، ہر سال ایک بچہ پیدا کر نا جیسے ان کا فرض ہے،، اور سامنے موجود بچوں کی لائن ،، ان کے لیۓ کمائی کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔
۔(دل تو چاہتا ہے کہ ان کے ماں باپ کی ٹریننگ کے لیے بھی ایک سکول ہو)۔
ان کی ٹیچرز سےبچوں کی اخلاقی تربیت کا ذیادہ خیال کرنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہوں ،،، اور جو ہو سکے عملی مظاہرہ بھی ہوتا رہتا ہے،،، کہ یہ حقیقت ہے کہ " نثر سے ذیادہ نظم یاد رہ جاتی ہے ، یعنی ڈرامہ ٹائز کیا سین یاد رہ جاتا ہے ،،، مثلاً ہفتے میں ایک دن بہت سے کیلے منگوا کر اسے کھانے کا صحیح طریقہ سکھایا گیا ،، کہ چھلکا پورا نہیں اتارنا ،، کیلا آخر تک ایسے کھاؤ کہ چھلکا کیلا ختم ہونے تک موجود رہے ،،، عادتا کلاس میں اسی جگہ چھلکےپھینک دیۓ گۓ ،، تب یہ ہی چیز مینشن کی گئی کہ آپ نے راستہ چلتے ، یا کہیں بھی کوئی چھلکا نہیں پھینکنا ،، اپنے ساتھ جو لفافہ ہے اس میں ہر طرح کا ریپر پھینکنا ہے ۔ یہ اس لیۓ بتا رہی ہوں کہ انتہائی بنیادی بات بھی کبھی کبھی جہالت کے سبب اہم نہیں لگتی اور ڈسپلے کر دیا جاۓ تو ،، 20 میں سے 10 بچے تو یاد رکھیں گے ۔۔۔ ( اور یاد رکھا )۔
میَں نے ٹیچرز سے کہہ رکھا ہے ،،، کہ کلاس میں جب جاؤ ،، تو جاتے ہی پڑھانا شروع نہ کر دیں ،، کچھ حال گزری رات کا یا گزرے ویک اینڈ کا پوچھیں ،، کیا خواب دیکھا ؟ ،،، کیا کھایا ؟ کہیں گۓ ؟ کوئی گھر مہمان آیا ؟؟/ اب ان عام سے جملوں سے ظاہر ہو گا کہ کون بچہ کتنی جلدی جواب دیتا ہے ،،، اس سے اس کی یاداشت ، اسکی جلدی جواب کی اہلیت ، اور گھر کے کاموں ،یا گھر آۓ گۓ لوگوں سے اس کی دلچسپی ظاہر ہو گی ۔ یا اس کی خود اعتمادی بڑھے گی کہ ،، کیا بولنا ہے۔
اس کے علاوہ ہم نے کلاس تھری تا پنجم کے بچوں کے لیۓ ہفتے میں ایک دن ڈرائنگ ، یا ایکٹیوٹی پیرئڈ رکھا ہے ،،، جس میں ہاتھوں سے کچھ نا کچھ بنوایا جاتا ،،، ایک دفعہ سب بچوں سے جوتوں کا ایک خالی ڈبہ لانے کا کہا گیا، اور بتایا اسے باہر سے اپنی مرضی سے سجاؤ ۔۔ لیکن اس پر " فسٹ ایڈ" کا نشان بنانا ہے اوریہ تھوڑا سا سامان بھی ہم آپ کو دے رہے ہیں ،، اس ڈبے میں ہر بچے کے ڈبے میں ایک چھوٹی قینچی ، ایک گاز کا رول ، ایک روئی کا چھوٹا پیکٹ ، ایک چھوٹی ڈیٹول کی بوتل ، ایک سنی پلاس کا پتہ،رکھی گئی،، تاکہ " تم لوگوں کے گھروں میں کسی کو چوٹ لگے ، تو گھبرانے کے بجاۓ اس میں سے فوری مدد پہنچاؤ ،، ،، آج یہ سکول نے بنا دیا ہے ، آئندہ خود بھی ان چیزوں میں اضافہ کرنا ، مثلا" تھرما میٹر ،، یا مختلف سَردرد ، پیٹ درد کی دوائیاں ۔ اس دن بچوں کی خوشی دیدنی تھی ،،،، میَں نے اپنی میڈ کی چھوٹی بہنوں کو جو اسی سکول جاتی ہیں ،،اپنی طرف سے ایک ڈیجیٹل تھرما میٹر بھی دیا ،، تاکہ کام آۓ ! اور آسانی سے وہ پڑھ سکیں ۔لیکن ،،،، وہ تھرمامیٹر دو دن کے اندر ٹوٹ گیا ، اور انھوں نے اس بات کو ہنس ہنس کر بتایا ،، جی" وہ سب گھر والے ایک دوسرے کا بخار چیک کرتے رہے تو اسی دوران " ،،، اور جب ایک ہفتے کے بعد کلاس تھری تا پنجم کے ٹوٹل 66 بچوں سے کہا گیا ، کہ " فسٹ ایڈ بکس" کل لے کر آئیں تاکہ ہم آپ کو اسکے نمبر دیں گے ،،، تو آپ یقین کیجۓ ،، کسی ایک کے گھر ایک چیز سلامت نہیں تھی" ! سب کے گھر والوں نے اس نئی تربیت کو جہالت کی نظر کر دیا ۔ اور ہر چیز کو یوں چند گھنٹوں یا چند دنوں میں استعمال کیا جیسے کھیلنے کا کھلونا تھا ۔ ٹیچرز کو تو ڈپریشن ہونے لگا !! تسلی دی کہ یہ پہلی کوشش تھی ۔ہم اب دوسری تیکنیک آزماتے ہیں ،، وہ یہ کہ جو بچہ اپنا فسٹ ایڈ بکس بنا کر لاۓ گا ، اسے آنے والے امتحان میں اضافی 10 نمبر ملیں گے ،" ،،، لیکن صرف 8 بچوں نے اس شوق کا مظاہرہ کیا ۔ گویا اگر صدیوں کی نہیں تو عشروں کی جہالت ایک کوشش سے تو نہٰ جاۓ گی۔
کچھ ہفتوں بعد کلاس چہارم اور پنجم کے سبھی طلباء کر ایسے ہی ڈبے لانے کا کہا اور ان کو " سوئینگ بکس" تیار کروا کر دیا گیا ، پہلے کی طرح ایک چھوٹی قینچی ، دو ریلیں کالی اور سفید ، اور کچھ مردانہ بٹن اور کچھ ٹچ بٹن ، ایک سوئی ( نیڈل) ڈالکر دیا گیا۔۔۔ اور شکر کہ یہ ڈبا " گم شُد نہی ہوا ۔۔ بلکہ کافی بچوں نے اس کے مال میں اضافہ بھی کیا ۔ یہ سب اس لیۓ لکھا ہے کہ کسی بھی قسم کی جہالت ہو اسےبہت صبر سے ختم کرنا پڑتا ہے۔
جس دن سے سکول شروع ہوا ہے ،،، شاید ہی کوئی دن جاتا ہو گا کہ اسمبلی میں نہ کہا جاتا ہو " بازار کی بنی چیزیں ، بالکل نہ کھائیں ،،، " لیز چپس ، ٹافیاں بالکل نہ خریں ،، اور کوئی کولڈ ڈرنک نہیں پینی "( چیونگم ہماری صبح یا شام دونوں میں بین ہے ) ،،، اِن بچوں کو ان چیزوں کے بد اثرات بھی بتاۓ جاتے ہیں،، لیکن ساتھ یہ بھی کہ ایک پیکٹ چپس خریدنے کے بجاۓ ایک سیب خرید لو۔۔۔ انہی 10 بارہ روپوں میں دو کیلے خرید لو ،،،، مسلسل کہنے سے صرف 20 فیصد بچوں نے عمل شروع کر لیا ہے ۔
شروع   چند سالوں میں کلاس روم میں داخل ہوتے ہی ناگوار بُو کا سامنا کرنا پڑتا ،، ظاہر ہے ہاجین کے اُصولوں کی عدم موجودگی ،،، ہر مہینے ہر بچے کو ایک صابن لائف بواۓ کا صابن دیا جانے لگا ، یہ کہہ کر کہ " یہ صرف تمہاراصابن ہے ، گرمیوں میں تم روز اسی سے نہا کر آیا کرو " الحمدُ للہ کہ اب صورتِ حال بہت بہتر ہوچکی ہے ،۔
اسی سال ہم نے چھٹی ، آٹھویں اور نویں جماعتیں شروع کی ہیں ، ،، یہ کلاسزز صرف لڑکیوں کی ہیں ۔ لیکن ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ بہت سی "مائیں " بےحد شکریۓ کے جملوں کو کہنے آئیں کہ جی ہماری لڑکی دور جانے کے چکر میں گھر بیٹھ رہی تھی ، آپ نے یہیں کلاسسز شروع کر کے ہماری دعائیں لیں ہیں وغیرہ اور ایک ماں تو مٹھائی کا ڈبہ بھی لے کر آئی ،،،،، یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے لگی ہیں !۔
چھَٹی تا دہم ،، کی جماعتوں میں اس عمر کی لڑکیوں کو مینرز اور اقدار کی سخت ضرورت ہے ،، اور اس تربیت کی ضرورت ، ہر طبقے کے بچوں کو ہے ۔ اس لیۓ " لفظ تعلیم و تربیت کو یوں لکھا جانا چاہیۓ " تربیت اور تعلیم " ،،،، !۔
آخر میں ان جملوں پر اب تک کی " کوشش پبلک سکول " کی کوشش بارے ختم کروں گی کہ ۔۔۔
۔1) " بھلے ایک بچہ پڑھا سکتے ہوں ،، تو ایک ہی پڑھا دیں ، اس کی صرف فیس ہی نہ دیں ، بلکہ اس کے لباس ، جوتے اور اس کی کار کردگی کا بھی جائزہ لیتے رہیۓ ۔ اور اگر صاحبِ حیثیت ہیں تو یہی کام بڑے پیمانے پر کریں ۔
۔2) حکومت کو چاہیے تمام پرائیویٹ سکولوں کو آرڈر دے کہ شام کو اپنی بلڈنگ اسی قسم کے سکولوں کے لیۓ استعمال کریں ، تاکہ ذیادہ سے ذیادہ بچے سکولوں سے استفادہ کر سکیں ۔
۔3) ہم نے یہ صرف نیکی سمجھ کر نہیں کیا ، بلکہ فرض سمجھ کر کیا ہے ۔ کیوں کہ جس کے پاس جو صلاحیت ہو اسے آگے نہ پھیلانا گناہ ہو گا ! اپنی زندگی کو کسی بھی مثبت مقصد سے جڑے رہیۓ !۔
ہم نے اِن 13 سالوں میں بہت سے انسانی کرداروں کو بھی پڑھا ،،، گویا ،،، ہم نے سکھایا ہی نہیں ،،، بہت کچھ سیکھا بھی ،،، الحمدُ للہ !!۔۔۔۔
(منیرہ قریشی 8 دسمبر 2019ء واہ کینٹ ) ( آخری قسط )

جمعہ، 6 دسمبر، 2019

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہ چہارم)۔۔

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہ چہارم)۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔جُوں جوں وقت گزرتا گیا ، بچوں کی تعداد بڑھنے لگی ، یہاں نرسری تا پنجم کے لیۓ 12 ٹیچرز کا سٹاف تھا، ، ( ایک ایک سیکشن تھا) لیکن ہم ہر بچے کو داخل نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ
۔ ،1) ،،کچھ بچے بہت دور سے آتے تھے ، شام ہو جانے پر انھیں لانے ، لے جانے کے پرابلمز آۓ دن پیش آتے ،، کہ بچہ رات سات بجے تک ہمارے سکول بیٹھے ہیں ،، گھر والوں نے جو فون نمبرز دیۓ ہوۓ تھے ان پر فون کرو کوئی جواب نہیں ، چناچہ بہت دُور کے بچوں کو انکار کر دیا ،،،والدین کا رویہ خاصا غیرسنجیدہ تھا ،،آج بھی ہے ( سواۓ چند کے ) یعنی وقت پر لینے نہ آنا ۔
۔2) سکول کے شروع دور میں ہمارے پاس وہ بچے آۓ جوبہت سےمسائل سے گِھرے گھروں سے آتے تھے ،، یعنی والدہ کسی بنگلے میں کام کر رہی ہے ، ان 250 بچوں میں سے 70 فیصد بچوں کے باپ ، نشئی ، یا ہڈحرام تھے ،، کوئی کام کاج نہیں ،، ایسی خواتین کی ہم قدر کرتی ہیں ، اور ان کے بچے جتنی بھی عمر کے تھے ، انھیں داخل کر لیتی تھیں ۔ کچھ بچے پڑھنے میں دلچسپی لیتے تھے ،،لیکن وہ جب سکول آتے ، تو تھکے تھکے سے لگتے ،،، کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ ، لڑکیاں تو ماں کے ساتھ صبح کچن میں کام کرواتیں ۔ اور لڑکے گھروں کے اوپر کے کام ،، مالی کا کام کر رہۓ ہوتے ،، یا ، کُوڑے کی "ویل بیرو " گلی کے فلیتھ ڈپو میں ڈالنے کی ڈیوٹی کرتے ،، آدھا ادھورا ناشتہ یا کھانا کھاتے اور دوپہر پونے دو بجے سکول پہنچ جاتے ، اب کچھ نا کچھ تھکاوٹ چڑھنی ہی تھی جو پہلے دو پیریڈ کے بعد ان کے چہروں پر نظر آنے لگتی ۔
۔3) اگر کوئی بچہ اپنی بنگلے والی بیگم صاحبہ کے ساتھ سکول آتا ،، تو وہ بہت شان سے پہلے " اپنا"تعارف کراتیں پھر بچے کے داخلے کی بات کرتیں ،، بتا یا جاتا ،، جی فِیس بھی نہیں ہے اور تمام کاپیاں کتابیں ہم ہی دیں گے ،، بس آپ اسے چھٹیاں نہ کروانا اور وقت پر سکول بھیج دیا کریں ، اس وقت یہ " بیگمات" ،،، جی بالکل ، کیوں نہیں ،، ضرور ضرور،،،، کے جملےبولتیں ،، لیکن ذیادہ تر خواتین ، جوخوشحال گھروں کی تعلیم یافتہ ہیں ۔ انھیں پسند نہیں تھا کہ ان کا کام رُکے ،،،، اس لیۓ ایسے بچے دیر سے آ رہے ہیں ،، تب ہم یہ ہی کر سکتی تھیں کہ بچے کی اس مجبوری پر سختی نہ کرتیں ۔ اور بہت سی بیگمات " اس انتہائی چھوٹی سی نیکی " کو بھی نہ کر پاتیں ۔ جو ایک افسوسناک بات رہی۔
۔4) انہی بنگلوں میں کہیں دوسرے شہر سے آۓ بچے ہیں ، جو وہیں رہتے ہیں، ان کے چھوٹے بچوں کی لُک آفٹر کرتے ہیں ،، یا گھر کے دوسرے چھوٹے ، چھوٹے کام کرتے ہیں جیسے گھر کے لوگوں کے جوتے پالش کر کے سونا ، ان کے کپڑے استری کرنا وغیرہ ، گھر میں پالتو جانور ہے تو اس کی دیکھ بھال بھی اسی پر تھی،، مجھے ان کے کام کرنے پر اعتراض نہیں تھا ،، نہ ہے ،،، کہ یہ اُن بچوں اور ان کے والدین کی مجبوری ہے کہ وہ بچہ اس غریبی میں " کماؤ یونٹ" بنا ہوتاہے ،، میَں انھیں اکثر یہ ہی کہتی "جنھوں نے پڑھنا ہے وہ سٹریٹ لائٹ میں بھی پڑھ لیتے ہیں ،، کم از کم آپ اپنے گھر میں بلب اور پنکھے کے نیچے بیٹھتے ہیں ،،، بس یہ ہی کافی ہے " باقی پڑھائی جیسی بھی ہے یہیں سے حاصل کرو ،، کسی ٹیوشن کے لیۓ نہیں جانا " ،،، مقصد انھیں محرومی کی دلدل سے نکالتے رہنا ہے ۔
۔5) کچھ بچے ایسے داخل ہوۓ جنھوں نے سکول کی شکل پہلی دفعہ دیکھی تھی ،،، میں نے پہلےبھی ذکر کردیا تھا کہ پہلے سات آٹھ مہینے تک وہ ایسا رویہ اپناۓ رکھتے جیسے میلے میں آگۓ ہیں ،، اس لیۓ ہنسی مزاق چل رہا ہوتا،، کاپیاں گھر بھول آۓ ہیں تو کوئی شرمندگی نہیں،، نرسری کا کورس ہے یا ، پریپ کا لیول ،،، ان بچوں کی عمریں 10 سے 14 سال تھیں ،، حال یہ تھا کہ اتنی عمر میں آنے کے باوجود دوسرے بچوں کو بھی تنگ کرتے ، نہ خود پڑھتے ،، نہ کلاس میں سنجیدگی سے بیٹھتے ۔۔ بہت سوچ کے بعد " ایڈلٹ کلاس"  کے نام سے الگ روم کیا اور ٹیچر اپوئنٹ کی گئی ،، اتفاق سے ایک محنتی اور نرم دل ٹیچر مسز طاہرہ ملیں ،، وہ نوجوان لڑکی گلگت سے تعلق رکھتی تھی ،، اور ایم اے ایجوکیشن کی ڈگری کے ساتھ بہت کم سیلری میں بھی راضی ہو گئی ، کہ گھر بھی نزدیک ہے اور صبح کی ڈیوٹی نہیں ہے ،، اس وقت ( چار سال پہلے ) یہ ایڈلٹ اس کے لیۓ چیلنج بن گئی ،، اس بچی نے جس طرح حوصلے ، مستقل مزاجی ،، اور نرمی سے اس " جنگلی کلاس " کو سُدھایا ،،، یہ اسی کا کمال تھا ،، میَں اسے سیلوٹ کرتی ہوں ،،جب اِنھیں آرگنائز کر لیا گیا تو ان کا ٹیلنٹ بھی اٗبھرنے لگا،،،، میَںہفتے ، میں ایک دفعہ ان کی کلاس میں محض ان کی باتیں سننے اور کچھ عام باتیں شیئر کرنے جاتی تھیں ،،، انہی میں دو تین بچے ایسے تھی ،، جن میں حسّںِ مزاح اچھی بھی تھی، اور کچھ سیکھنے کا شوق بھی نظر آیا   ۔اب میَں کبھی کبھار اپنا لیپ ٹاپ لے جاتی ،، پاکستان کے مختلف صوبوں کی تصاویر ، مشہور قلعے ، پارک ، پہاڑوں کی سیر کراتی ،، یقین کیجۓ انھیں ایک ایک منظر غور سے دیکھنا ، اور بار بار دیکھنا پسند آتا ۔
میرا خیال تھا دو تین ہفتوں میں سب بھول جائیں گے ،، لیکن انھوں نے مہینوں بعد بھی میرے سوالوں کے جوب دیۓ الحمدُ للہ !میَں یہ بھی بتا دوں کہ اس ایڈلٹ کلاس کا کورس بالکل ٹپیکل نہیں رکھا گیا ، بلکہ اردو ، انگلش ، اور میتھس تو ضروری تھا ،، باقی صرف جنرل نالج ، یا اسلامیات کے مضامین زبانی ہوتے ہیں ، دعائیں ، نماز سکھائی جاتی ہے ۔ اور یہی بچے جن کے لیۓ میَں نے آرڈر تھا،، انھیں انگلش نہیں پڑھانی ہے لیکن اے بی سی اور پھر تین لیٹر کے الفاظ   سے آگے نہیں پڑھانا۔منع کر دیا تو انھوں سال ڈیڑھ کے بعدٹیچر کے ذریعے سفارش کروائی کہ ہم انگریزی کی کتابیں پڑھنا چایتے ہیں ، تب ایک کتاب شروع کروا دی گئی۔
یہ اس لیۓ تھا کہ ان طلباء ( پانچ لڑکے ، تین لڑکیاں ) کو اچھی طرح اردو ، سکھا دی جاۓ کہ آئندہ خط لکھ سکیں کوئی درخواست لکھ سکیں ،، اور گھر چلانے کے قابل حساب آ جاۓ ، انگریزی سیکھنے میں توانائی ضائع نہ کریں ۔ خیر اب وہ لکھ پڑھ لیتے ہیں ، اور کلاس کے لحاظ سے لیول 4 میں آچکے ہیں ،۔ پانچ پوری کروا کے ،، ادھر اُدھر کے سکلز سکھانے والوں سے انھیں سکھانے کی درخواست کریں گے ،، ( اللہ کرے ہماری یہ دعا قبول ہو جاۓ ، آمین )۔
( منیرہ قریشی 6 دسمبر 2019ء واہ کینٹ )( جاری)

بدھ، 4 دسمبر، 2019

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہ سوم )

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہ سوم )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اللہ پاک نے اس کوشش پبلک سکول میں بتدریج برکت ڈالی ،،، اور دو سالوں کے اندر 200 بچے داخل ہوۓ ، ان دو سالوں میں ہم نے بھی بہت سے تجربے کیۓ ، کچھ غلطیوں کے بعد سیکھنے کا عمل جاری رہا ۔ اور ان غلطیوں کے بعد کچھ سموُتھ سلسلہ بھی چلا اور دوسروں کو  کچھ بتانے کے قابل بھی ہوۓ ۔ ان میں خاص نکات یہ ہیں !۔
۔(1) پہلا سال جس میں قریبا ً 90 بچے موجود رہے ،،، اور یہ سب 4 سال سے لے کر 10 سال تک کے لڑکے لڑکیاں تھے ۔ 4 تا 6 سال کے بچے تو معاف کیے جا سکتے ہیں کہ وہ کسی بھی وجہ سے سکول نہیں گۓ ،،، لیکن 7 تا 10 سال کے لیۓ لمحہء فکریہ تھا کہ " کیوں نہیں گۓ ؟؟؟ !
۔(2) ایسے اوور ایج بچوں کے لیۓ ہمیں وہ استانی رکھنی پڑی ،، جس میں " مامتا " کا جذبہ ذیادہ ہو ،،، اور وہ نرم زبان اور ہمدرد رویۓ سے اِن " بے مہار " جانوں کو سکول آنے کی طرف راغب کر سکے ۔ اللہ نے یہاں بھی مدد کی اور ایک ایف اے پاس اس خاتو ن نے کوشش
سکول کو جوائن کیا ،، جس کے تین بچے ہمارے صبح کے مارگلہ سکول میں پڑھ رہے تھے اور وہ بہت لائق بچے تھے ،، اسی سے اندازہ ہوا کہ وہ خاتون بہر حال با شعور ہے جو اپنے بچوں کو اتنا اچھا چلا رہی ہے ،، اسی لیۓ ہم نے پہلے تو اسے دو سال تک نرسری پھر ایک سال پریپ اور پھر جماعت اول کی ٹیچر بنایا ۔ مسز نسرین سہیل نے واقعی بچوں سے بہت محبت اور نرم مزاجی سے ٹیچر کا،، سکول کا ،،اور پابندئ وقت کا عادی کیا ۔ اور چھوٹے بچوں یا نرسری تا اول تک کے بچے کچھ راہ پر آ گۓ ۔ حالانکہ یہی بچے شروع کے چھے سات مہینے ایسا رویہ اپناۓ رہۓ ،جیسے میلے میں آۓ ہوں ۔ غیر سنجیدہ ، کوئی دلچسپی نہیں ، کوئی پرواء نہیں ، چاہے ڈانٹ ہے یا دھمکی ! ( جسمانی سزا کی بالکل اجازت نہ تھی ۔)
۔(3) جماعت دوم تا پنجم تک کے بچوں میں 8 تا 12 سال کے بچے آگۓ ،،لیکن یہ ہمارا پروگرام تھا کہ ہم لڑکیاں تو پھر بھی 12 سال سے اوپر کی رکھیں گے ،، لیکن لڑکے نہیں رکھے جائیں گے،، بلکہ لڑکے 10 سال سے ذرا اوپر ہوۓ تو نہیں رکھیں گے ، کیوں کہ لڑکے قابو کرنے مشکل ہوں گے ۔ لیکن بعد کے تین چار سالوں میں 12 سال تک کے لڑکوں کی ریلیکسیشن کر ڈالی ،، کیوں کہ چند پڑھنے والے لڑکے ایسے تھے ،، جن کو سکول میں رکھنے پر ہمیں کوئی حرج نہ لگا ۔( یعنی جماعت پنجم کے بچے 12 سال 13 سال کے تھے)
۔(4) ابتدائی دو سال ،، صرف جماعت دوم تک کی کلاسسز کا اجرا کیا گیا،، کیوں کہ 10 تا بارہ سال کے وہ طلباء جو کبھی آدھے ادھورے سکول گۓ تھے اور اب ہر لکھی بات بھول چکے تھے ،انھیں تین چار ماہ نرسری لیول اور پھر جب چل جاتے تو پریپ کا کورس کروایا گیا ، اور اس کے بعد کلاس ون انھیں ایک سال چار ماہ تک پڑھایا جاتا رہاتاکہ ان کی بنیادی کمی ذیادہ سے ذیادہ دور ہو سکے ، یاد رہے یہ ون کے طلباء 8 تا 10 سال کے تھے ۔
۔(5) شروع کے چار سال تک تمام سلیبس یعنی ، ہر مضمون کی کاپیاں ، کتابیں ، پنسل ، شاپنر ، اور ربر ،، دیۓ جاتے رہۓ ، تیسرے سال ،،، مجھے اسسٹ کرنے والی مس راضیہ نے کہا " آپ کچھ خرچ والدین پر بھی ڈالیں ، کیوں کہ ہر کلاس سے 10/12 بچے ایسے ہوتے ہیں جو ان چیزوں کو روزانہ کی بنیاد پر لے کر جاتے ہیں ، انھیں ان چیزوں کی قدر نہیں ۔ اور وہ بے دردی سے ضائع کر دیتے ہیں ۔ یہ بات مان لی گئی ،، اور یوں تیسرے سال سے پنسل ربر نہیں دیا ۔ تو واقعی ہر کلاس سے صرف ایک دو بچے رہ گۓ جو کبھی پنسل یا شاپر نہ لاتے اور سکول انھیں دے دیتا ،،،،، بہ عینہ کتابوں کاپیوں کا بیڑا غرق ہونے میں کوئی دیر نہ لگتی ، لیکن اس سلسلے میں " والدین " پر یہ ذمہ داریشک سارا  آج تک نہیں ڈالی گئی ۔ البتہ تین سال پہلے نئی پرنسپل تعینات کی گئیں ،،، اس نے صورتِ حالات کے تحت یہ تجویز دی کہ پہلی دفعہ بے سلیبس ہر بچے کو دیں ،، لیکن اگر سال کے اندر کتاب ورقہ ورقہ ہو جاۓ تو یا تو اسے سلائی کر لیں یا نئی لینی ہے تو یہ اس بُک شاپ کا پتہ ہے خود لے لیں ،،،، یقین کیجۓ ،،، ہمیں پہلے اکیڈمک سال کے اندر 70 فیصد بچوں کو کتب اور کاپیاں دو بار دینی پڑتیں تھیں،، لیکن اس قدم کے بعد یہ شکایت ایک فیصد رہ گئی ۔
۔( 6) اپنے طور  پر  چلاۓ گئے پروجیکٹ میں فنڈز کی کمی سے ہر قدم سوچ سوچ کر اُٹھانا پڑتا ہے ۔ تاکہ کسی کی اُمید پر نہ ہی رہنا پڑے ،،، مزے کی بات کہ چار سال تک ،، اکثر لوگوں نے ہمارے اس کام کی تعریف تو کی ۔ لیکن کسی قسم کی مالی یا اخلاقی مدد آفر نہیں کی ،،، اور اس دوران چار سال تک ہم اِن بچوں کو کسی یونیفارم یا بیگز کی سہولتیں نہیں دے سکتی تھیں ۔ اور پھر ہمارے پرانے پڑوسی انکل رشید جن کے ساتھ ہمارا دلی پیار اور تعلق تھا ،،اور وہ کافی عرصہ سے دوسرے شہر میں رہتے ہیں ۔ انھوں نے کہلوایا ،، ہمیں بھی کوئی نیکی کمانے دو ،، تب میں نے بتایا کہ جن کتب ، کاپیؤں پر ہمیں پہلے سال خرچ کرنا پڑا ،، اسی بُک ڈیلر بھٹی صاحب کو جب علم ہوا کہ یہ فری سکول ہے تو پھر آج 12 سال سے وہ فری آف کاسٹ کتابیں اور نوٹ بکس بھجواتے ہیں ،،، گویا ،، نیت صاف ،منزل آسان ! اور یوں ہمیں آسانیاں ملتی چلی گئیں ۔ انکل رشید کے پوچھنے پر ہم نے انھیں 250 بچوں کا بتایا تو انھوں نے لڑکے لڑکیوں کے لیۓ نہ صرف یونیفارمز بھجواۓ ، بلکہ جوتوں اور سویٹروں کے پیکٹ بھی بھجواۓ ،،، انہی کی بیٹی شاہدہ نعیم نے سبھی بچوں کے لیۓ سکول بیگز بھجوا دیۓ ، اور یوں ہم اس طرف سے بےفکر ہو کر بچوں کی تعلیم اور تربیت پر مکمل متوجہ ہو گئیں ۔ سکول شروع ہوۓ چوتھے سال سے اب تک 250 ، یا 230 اور کبھی 260 تک بچے موجود رہتے ہیں ۔ یہ فِگر اس لیۓ بھی کمی بیشی کا رہتا ہے کہ ہماری اپنی کوشش بھی ہوتی ہے کہ ان میں سے جن بچوں کا داخلہ سرکاری سکولوں میں ہو سکتا ہے ، ہو جاۓ ،،، کبھی تو ہمیں اس میں بہت کامیابی حاصل ہو جاتی ہے ،،، اور کبھی بالکل نہیں ہوتی ۔ البتہ بچہ خود کسی کی کوشش سے سرکاری سکول میں پہنچ جاۓ تو یہ بھی خوشی کی بات ہوتی ہے ۔ کہ ہمارے پاس صرف پانچویں تک کی سہولت " تھی " ،،،،،،،،۔
۔(7) " تھی " اس لیۓ لکھا ہے کہ دو سال پہلے صرف لڑکیوں کے لیۓ چَھٹی ،،،،، آٹھویں اور نویں کی کلاسسز شروع کر دیں ہیں ،،صرف لڑکیوں کے لیۓ اس لیۓ کہ انھیں دور نہ جانا پڑے ، اوروالدین سکول کی دوری کا بہانا بنا کر انھیں روک نہ سکیں ۔ لڑکے تو پھر بھی ذرا دور جا سکتے ہیں ۔ اور دوسرے پھر وہی بات کہ لڑکے قابو کرنا کچھ مشکل ہوتا ہے ۔ اس کے لیۓ فی میل ٹیچرکا ہونا ضروری ہے جو میں ابھی نہیں رکھنا چاہتی ،اور یہ الگ  موضوع  ہے ۔
( منیرہ قریشی 4 دسمبر 2019ء واہ کینٹ ) ( جاری)

" فیس بُک کی دنیا "

" فیس بُک کی دنیا "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اِک ہماری یہ دنیا
اِک روحانی وہ دنیا
اور اِک مشینی عجب دنیا
اجنبی نفوس سے بھری دنیا
مگرسکون ہی سکون ہے !۔
وہ ہمارے لیۓ، اور ہم اُن کے لیۓ
کسی حقوق وفرائض سے ماوراء
اَن دیکھے ، اَن چھُوۓ ، نا معلوم
اجنبی خِطوں میں بسے ،،،،،،۔
یہ نامانوس جیسے بھی ہیں ، قبول
دلوں میں خیال کی صورت بستے
کچھ دن لِنک ٹوٹا
تَو تعلق بھی ٹوٹا
نہ کوئی ملال !۔
نہ کوئی سوال!۔
آگے چلو کہ تجسّس کے دَر کھلے ہیں
آگے بڑھو کہ ندرتِ اذہان منتظر ہیں
کیسی ہے یہ فیس بُکی دُنیا
زبان و اذہان کے ذائقوں سے بھری
مگر گرمئ جذبات و کسک سے عنقا
( منیرہ قریشی 4 دسمبر 2019ء واہ کینٹ )

پیر، 2 دسمبر، 2019

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہ دوم )

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہ دوم )۔
اور یوں" مدثر " نام کا بچہ ہمارے اُس خیالی اور خواہشمندپروجیکٹ کی ابتدا بن گیا ،، یعنی وہ دلی خواہش کہ ہم کمزور ، طبقے کے لیۓ بھی اپنی " اوقات " کے مطابق کچھ کریں ۔ اس بچے کے ذریعے ہمیں اُس خیال نے تقویت دی۔
یہاں میں دو اہم باتیں بتانا چاہوں گی کہ اپنے مارگلہ سکول کو شروع کرنے سے پہلے ہی ہم بہنوں کو والدہ کے  حکم کے تحت اپنے ملازمین کے بچوں کو سکول کا کام کروانا روزانہ کا کام تھایا ،، پھر چھٹیوں کا ہوم ٹاسک مکمل کروایا جاتا تھا ۔ یہ بھی واضح کر دوں کہ میَں اس وقت نویں میں اور میری چھوٹی بہن آٹھویں جماعت میں تھی ( اپنی والدہ کے حکم پر اُ س وقت یہ کام بہت برا لگتا تھا اب خیال آتا ہے کہ ایسے کام سےغریب بچوں کی ذہنی سطح سمجھنے میں اُن سرونٹس کے بچوں کو پڑھانا مدت بعدکام آ گیا )،، اور یہ جذبہ ہم نے اپنے والدین سے حاصل کیا ،،، ہماری والدہ کبھی کسی سکول نہیں گئیں ، وہ اپنے والد سے ابتدائی چھے سات جماعت کا کورس پڑھ چکی تھیں ،، اللہ نے انھیں بہت ذہانت سے نوازا تھا ، اسی لیۓ وہ تعلیم کی اہمیت سے آگاہ تھیں ،، اباجی نے انھیں مکمل آزادی دے رکھی تھی کہ وہ کسی بھی قسم کا ویلفئر کا کام کرنا چاہیں تو کریں ،، ان کے حلقۃ احباب میں ، جوان ، بوڑھے ، تعلیم یافتہ ، اَن پڑھ ہر طرح کے لوگ تھے ،، جب بھی کوئی غریب یا اَن پڑھ ملاقاتی آتا تو وہ دو باتیں ،، لازما ً  پوچھتیں تھیں ،،، بچے سکول جاتے ہیں ؟؟ گھر اپنا ہے یا کراۓ کا ؟؟؟ اگر بچے داخل نہیں تو پہلے ڈانٹ پڑتی اور پھر فوراً ان کے داخلوں کے بندوبست کی فکر شروع ہو جاتی ۔۔ اور اگر گھر نہیں تو اسے کمیٹی ڈالنے اور وہ کمیٹی کے پیسے والدہ کے پاس رکھوانے کا آرڈر ہوتا ۔ اتنے پیسے جمع ہوتے کہ زمین کا سودا ہو سکتا ہے ،، تو یہ کام اباجی کے ایک حوالدار کے سپرد ہوتا ،، اور پھر گھر کی رجسٹری کے وقت اباجی کو مجبور کیا جاتا کہ آپ موجود ہوں گے ،، ایسے ہی تین گھروں ، کا تو مجھے اچھی طرح علم ہے ، نہ جانے اَور کتنے ہوں گے ۔ ( یہ ساری بات اس لیۓ لکھی ہے کہ بچوں کے سامنےوالدین جو اچھے کام کرتے ہیں ،، اس کے اُس بچپنے کے دور میں اگر اہمیت نہیں ہوتی ،، توسمجھ داری کی عمر میں پہنچ کر ضرور اثرات لیتے ، اور وہ بچے کچھ نا کچھ ویسے ہی عمل کرنا پسند کرتے ہیں ،، اور پھر نیکیوں کی جو فصل ہمارے والدین بَو جاتے ہیں ، دراصل اس فصل کا فائدہ ہمیں ضرور پہنچتا ہے ، وہ فائدہ اچھے خیال کی صورت میں ہو ،، یا اچھے اعمال کی صورت میں ہو ،،، لیکن ہم اپنے والدین کے لیۓ یہی کر سکتے ہیں ، کہ جو پروجیکٹ وہ چاہتے تھے کہ آگے بڑھائیں ، ہم انھیں آگے ضرور بڑھائیں )۔
دوسری بات کہ ہم نے اچھے طریقے سے اپنا صبح کا سکول چلا لیا تو " مدثر " جیسے مزید بچوں کو کیوں داخل نہیں کیا ؟
مجھے اپنے وطن سے تو پیار ہے ہی لیکن اپنے علاقے کے علاوہ اگر کہیں رہنے کا موقع ملتا تو وہ " لاہور " ہوتا ،،، اور لاہور میں داتا صاحب ؒ جیسے عظیم ہستیوں کے علاوہ زندہ لوگ بھی ایسے تھے کہ اگر میں وہاں رہ رہی ہوتی تو شاید انہی کے گھروں کے پھیروں میں زندگی گزار دیتی ،،، جناب اشفاق احمدؒ اور بانو قدسیہ صاحبہؒ جیسی ہستیوں سے دو مرتبہ لمبی سٹنگ ہوئی،اور ان کی صحبت سے فیض اُٹھانا ، یہ ہماری خوش قسمتی رہی ۔۔ ایک ملاقات میں ہم نے اُن سے کہا کہ " ہم نے ایک سکول شروع کر رکھا ہے " اب ایسی پوزیشن آ گئی ہے کہ ہر کلاس میں غریب طلباء کو بھی ساتھ رکھیں تو آپ کی اس بارے کیا راۓ ہو گی " ،،، دونوں ذہین دانشوروں نے کہا " الگ سکول بنا سکو تو ٹھیک ،، ورنہ غریب کو احساسِ کمتری میں نہ ڈالو " ، " اگر غریب بچہ اپنے ساتھ بیٹھے خوشحال کلاس فیلو کو تین سو کے لنچ باکس سےسو روپے کا برگر نکال کر کھاتا دیکھے گا ، تو غریب اپنے ہی خول میں سُکڑ سکتا ہے"،،،، ،،، اور یوں ہم نے ایک الگ سکول کا پروجیکٹ آگے آنے والے دور پر چھوڑ دیا ۔ یہ بات ہے 1994/95 کی !!۔
اور اللہ پاک کی مہربانی ، فضل و کرم سے 2005 میں اس پہلے بچے سے "خیال" شروع ہوا۔،، یہ بچہ مدثر ہمارے سکول میں6 سال پڑھا ،، اور کسی ٹیچر کو علم نہیں تھا کہ یہ کس کا بیٹا ہے ،، ورنہ کبھی کبھار ٹیچر بھی تفاوت برتنے لگتی ہے ،، اور خوشی اس بات کی کہ وہ 26 بچوں میں تعلیمی لحاظ سے پہلے دس بچوں میں شامل رہا ۔
اسی دوران ہماری سینئر برانچ میں ایک کمرہ خالی تھا ،، جہاں کبھی مدثر کو الگ بٹھا کر پڑھایا گیا تھا ،، اب مختلف " آیاز اور چوکیداروں " کے 20 بچے پڑھنے لگے ، اب اُن کے لیۓ ایک ٹیچر رکھی گئی ۔ جو ایم اے انگلش تھی ،، اس نے خوب جذبے سے اِن بچوں کی کوچنگ شروع کی ،، لیکن یہ سب وہ بچے تھے ،۔
۔1) جو مختلف عمروں کے تھے ۔
۔2) یہ اپنے اپنے خاندان کے پہلے بچے تھے جو سکول ، جماعت ، کتابوں ، اور قلم سے روشناس ہورہے تھے ۔
۔3) ان میں سے ذیادہ تر بچوں کے والد نشہ کرتے اور نکمے تھے ،، گھر میں اس قسم کے گھٹیا کردار والد کی موجودگی سے گھریلو ماحول کا جو حشر ہوتا ہے ،، اس کی وجہ سے یہ بچے بھی سکول ، اور کتابوں کو " مذاق " ( نان سیریس ) سمجھ رہۓ تھے  جو ہمارے لیۓ " جھنجھلاہٹ " کا باعث بن رہا تھا ۔
۔4) تمام کاپی کتابیں ، پنسل وغیرہ سکول دے رہا تھا ۔ اور بچے یہ پنسل ربر روزانہ کی بنیاد پر لیتے ،، کہ پہلے والا گم ہو گیا یا چُورا چُورا ہو چکا ہے۔
۔5) وقت کی پابندی کے لفظ اُن کی لغت میں نہیں تھے ۔
اب وقت آ گیا تھا کہ ایسے بچوں کے لیۓ پراپر ضوابط کے ساتھ سکول شروع کیا جاۓ ،،،ہماری مارگلہ سکول کی پہلی برانچ جسے ہم " مین برانچ " کہتے ہیں ،،میں شام کا سکول شروع کیا گیا ۔ یہ 2007ء کے تعلیمی سیشن کی ابتدا تھی ۔ شام کا وقت سے مراد دوپہر پونے دو بجے سے گرمیوں میں 6 بجے اور سردیوں میں پانچ بجے تک ہے ۔( کیونکہ صبح کا سکول ایک چالیس پر ختم ہو جاتا ہے )۔
۔2007 ء سے 2016 ء تک بطور پرنسپل میَں خود ہی اس سکول کا سلیبس ، اور باقی تمام اُمور انجام دیتی رہی ، اپنی اسسٹنٹ کے طور پر صبح کی اکاؤنٹنٹ کو درخواست کی کہ الگ  تنخواہ  کے ساتھ تم مجھے شام کو اسسٹ کرو ،، کیوں کہ وہ غیر شادی شدہ تھی اور جدوجہد کے اس دور سے گزر رہی تھی جہاں اسے ڈبل کام کر کے پیسے کمانا پڑ رہے تھے ۔ وہ باشعور لڑکی ، ایف ایس سی ، اور پھر اردو ایم اے کر چکی تھی ۔ اور یوں مس راضیہ ، میری بہن عذرا اورمیرا ساتھ ایسا رہا کہ ہمیں پتہ ہی نہ چلا 
اور بچوں کی تعداد پہلے سال میں90 ہو گئی ، جب کہ آج تک اس سکول کا کوئی اشتہار نہیں دیا گیا بلکہ زبانی کلامی سرونٹ کوارٹرز کی عورتوں نے ایک دوسرے کو بتانا ، اور پھر بچے آتے چلے گئے ۔
ہمارے مارگلہ سکول کا نرسری اور پریپ کا کورس بےشمار تجربات اور کاوشوں کے بعد ایسا " سیٹ ہوا " کہ اُس میں بہت ہی کم ردوبدل کی ضرورت پیش آتی ہے ،، ہم نے نرسری اور پریپ کا وہی کورس اس سکول کے لیۓ منتخب کیا ،،،" کہ بچے تو نرسری کی وہ کونپلیں ہوتے ہیں ، جن کےلیۓ احتیاط اور خوراک ایک جیسی ہوتی ہے ،اور ہونی چاہیۓ، چاہے وہ جس بھی سر زمین کے ہوں " ،،،۔
اور یوں ایک " پرانا ، دلی جذبہ ، اور خواہش " کوشش پبلک سکول" کی صورت میں سامنے آ گیا ،،، جو اللہ کہ مہربانی ، اس کے احسان، مدد اور کرم کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا کہ " کوشش " کو کسی بہتر راستے کی طرف رُخ عطا کرنے والی وہی ذات ہے ، ورنہ انسان تو صرف " کوشش " ہی کر سکتا ہے !۔
(منیرہ قریشی 2دسمبر 2019ء واہ کینٹ ) ( جاری )

" پہچان "

" پہچان "
،،،،،،،،،،،،،،،،
نام و نسب کیسا ؟
تاریخِ پیدائش و موت ، چہ معنی ؟؟
کہ جب میرا وجُودِخاکی
حوالہء اصل ہو گا ! !۔
تو سب سے پہلے دایاں انگوٹھا
میرے ہی خون میں رَچا
اِک نرم پتھر پر ثَبت کر لینا
کہ اس کی لکیریں ہی تو اصل نشانی ہیں
یہی اس تُربت کا تعویز کافی ہے !۔
یہی تعارف یہی نشانی ، کافی ہے !!۔
نام تو بس بے نام ہو کر رہ جاتا ہے
اِک "تھم پرنٹ" ہی کامل زندگانی ہے
اِک نشانِ انگوٹھا ہی تعارفی نشانی ہے !!۔
( منیرہ قریشی 2 دسمبر 2019ء واہ کینٹ )

اتوار، 1 دسمبر، 2019

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش " ( حصہ اول )۔۔

۔" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش " ( حصہ اول )۔
۔2004ء میں جب اپنے "مارگلہ گرامر سکول" کے لیۓ دن رات ،محنت اور مصروفیت سے بھرپور دن گزر رہے تھے ،،، تَو ریلیکس ہونے کے لیۓ اپنے گھر کے پہلے بچے یعنی اپنی پوتی ملائکہ کو لے کر اکثر لمبی واک یا کسی قریبی پارک کی طرف نکل جاتی ،،،،اکثر لوگوں کے انٹرویوز میں اس سوال کے جواب میں کہ " آپ کو اس کام کا شوق کب ہوا ؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ " جی بچپن سے شوق تھا " ! یہاں میَں بھی یہ جملہ کہنے پر مجبور ہوں کہ مجھے ٹیچر بننے کا شوق بچپن سے تھا ۔ اور " بالکل اتفاقاً " میَں ٹیچر بن گئی ، حالانکہ میَں تین بچوں کی ماں اور ٹوٹل گھریلو عورت تھی یہ اللہ کی طرف سے فیصلے ہوتے ہیں ، بس صرف وقت کی گھڑی کی سوئی" کلک " کر کے بجتی ہے، اور وہ واقعہ پیش آجاتا ہے ، جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہوتا ۔ کانووینٹ سکول کی نویں دسویں کی اردو اسلامیات کی ٹیچر کو اچانک ملک سے باہر جانا پڑا ،، اور مجھے ان کی جگہ با اصرار ٹیچر بنایا گیا ،، لیکن میَں نے یہ شرط رکھی کہ " جوں ہی آپ کو کوئی اور ٹرینڈ ٹیچر ملی ، میَں جاب چھوڑ دوں گی " ،،، فروری 88ء میں یہ جاب شروع ہوئی اور مجھے مزا آنے لگا ،، اچھے ہمدرد لوگوں کے درمیان بہت کچھ سیکھنے کے مواقع ملنے لگے ،، اور ساڑھے پانچ سال وہیں گزارنے پر جب چھوڑنا پڑا تو دلی اداسی نے تا دیر پیچھا نہ چھوڑا ۔ لیکن ،،،،،، ایک بات جسے میَں نے اس شعبے میں رہ کر سیکھا اس کا عنوان اگر لکھوں تو یہ ہے " ٹیچر ہر وقت آن جاب رہتی / رہتا ہے" ۔ چاہے وہ سکول سے ریٹائر ہو جاۓ ۔ ٹیچر راہ چلتے لوگوں کو بھی کچھ کہنے ، سکھانے سے رہ نہیں سکتی ، کہ یہ سب وہ اپنا فرض سمجھ کر کے کر رہی ہوتی ہے ، اور یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔
اور یہاں اپنا سکول 1992ء میں شروع کیا تو ایک نیا تجربہ ، نئی تگ و دو شروع ہو گئی ۔اب 2004ء آچکا تھا ۔ کسی بھی ذاتی پروجیکٹ کو شروع کرنے ،، اسے ایک خاص لائن کی طرف لانے میں اس وقت ذیادہ لوڈ پڑتا ہے جب آپ دو خواتین ، بہت ہی کم سرماۓ سے کوئی بڑا پروجیکٹ شروع کر دیں ۔ بے شک ہمارے پیچھے سب سے بڑی سپورٹ ہمارے والد کی تھی ،، جن کی طرف سے ملی جائیداد نے اور حوصلہ افزائی نے ہمیں بنیادیں دے دیں !۔
ایک بات کا شوق اور جذبہ ہم دونوں بہنوں کو سکول شروع کرنے کے اول دن سے تھا کہ ہم کمزور ، طبقے کو بھی ساتھ لے کر چلیں ۔ اس سلسلے میں ہم نے یہ ہی سوچا تھا کہ اپنے گاؤں میں بھی ایک سکول شروع کر لیتے ہیں ، جو اُسی لیول کے سلیبس کے مطابق ہو ، وغیرہ ۔ لیکن ہمارا گاؤں ہمارے گھر سے10/15 میل دور ہے ، اس تک روزانہ پہنچنا اس لیۓ بھی مشکل لگتا تھا کہ اس وقت سکول کی اپنی کوئی وین نہیں تھی ۔ اور اپنا سکول بہت ٹائم لے لیتا تھا ،، ہم نے اس پروجیکٹ کو اگلے کسی اچھےوقت کے لیے چھوڑ دیا لیکن دل میں یہ بات ہر وقت رہتی کہ " یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے مال اور صلاحیتوں میں کمزوروں کو بھی شامل کریں ، ورنہ ہمیں اللہ کی طرف سے پوچھ ہو گی " ( یہ حرف حرف سچائی ہے )۔
اور اب شاید اس نیک نیتی کے جذبے کا وقت آن پہنچا تھا کہ ،،،،،،،،میَں جب بھی کسی پارک ، میں جاتی ہوں ،، وہاں پھرتے بچوں سے کسی نا کسی قسم کی گفتگو کر تی ہوں ( ٹیچر جو ہوئی )۔ ستمبر کے خوشگوار دن تھے ، اور اس دن " ہفتہ" تھا ، چھٹی بھی تھی ، میَں اپنی تین سالہ پوتی ملائکہ کو پارک گھمانے لے گئی ،،صرف چار بچے اس وقت جھولوں پر کھیل رہے تھے ،، سرکاری سکول ہفتے کو کھلے رہتے ہیں ،، بچوں کے حُلیے غریبانہ سے تھے ۔ میَں نے پوچھ لیا ،،" تم لوگ سکول کیوں نہیں گۓ ؟ انھوں نے بتایا ، ہم سکول میں داخل ہی نہیں ہوۓ! کیوں بھئی اچھے خاصے بڑے ہو ،، یہ تین بھائی اور ایک بہن تھی ۔ انھوں نے بتایا ہم کچھ عرصہ پہلے واہ میں آۓ ہیں ،،، پوچھنے پر انھوں نے بتایا ، ہم نزدیک ہی ایک سرونٹ کواٹر میں رہتے ہیں ،، میَں اسی وقت ان کے سرونٹ کوارٹر میں آ ئی ،، ایک تندرست ، خوش مزاج 35،34 سالہ ماں نے استقبال کیا ،، سلام دعا کے بعد میَں نے اسے ڈانٹ کر پو چھا یہ بچے اور گھر میں موجود ایک اور خوش شکل 11 سالہ بیٹی بھی ،، سکول کیوں نہیں داخل کرواۓ ؟ اس نے عاجزی سے کہا کہ " ہم 6 /7 ماہ پہلے اپنے علاقے ضلع اٹک سے یہاں آۓ ہیں ،شوہر کسی صاحب کا ڈرائیور ہے ، صبح کا گیا شام کو آتا ہے ،، اور میَں اَن پڑھ ہوں ، یہ بھی نہیں پتہ سکول کس طرف ہیں ۔ انہی سے ایک کاپی کا ایک صفحہ لیا اور اس پر ایک سفارشی رقعہ لکھ کر اپنی ایک واقف سرکاری سکول کی ٹیچر کو ان بچوں کا ٹسٹ لینے اور انھیں داخلے کی درخواست لکھ دی ، سکول کا راستہ سمجھایا اور اگلے دن پھر آنے کا کہہ کر آگئی ، واقف ٹیچر " مس رضیہ " کو اللہ بہت جزاۓ خیر دے کہ انھوں نے بہت تعاون کیا اور دو لڑکیاں اور ایک لڑکا تو داخل ہو گۓ ،،،لیکن ایک لڑکا " مدثر"۔
وہاں کے سکول کے لیۓ ' اوور ایج ' نکلا ،، اور اسے داخل نہ کیا گیا ۔ اب ہم دونوں بہنوں کے لیۓ وہ ہماری ذمہ داری بن گیا ،، اسے میَں نے اپنی اسی برانچ میں بلانا شروع کر دیا جو ان کے گھر سے چند منٹ دور تھی ، اور اردو ، اور حساب میرے ذمے اور انگلش ،، عذرا کے ذمے ہو گئی ،، چند ہفتے اسے کوچنگ دینے سے اندازہ ہو گیا کہ بچہ ذہین ہے ،،،، اور 6 ماہ کے اندر ہمارے صبح کے سکول کا نرسری کا سارا کورس ختم کر لیا ، ،، اور پھر اسے ہم نے اپنے صبح کے سکول میں پریپ میں داخل کر لیا ،، جس کلاس میں میری پوتی داخل تھی اسی میں مدثر کو بھی موقع دیا گیا ۔ ( جاری )۔
( منیرہ قریشی ، یکم دسمبر 2019ء واہ کینٹ )

" اللہُ واحد "

" اللہُ واحد "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،
میرا پَور پَور ، میرا بال بال ، میرا ریشہ ریشہ
گُندھا ہے یہ آمیزہ ، ندامت کے پانی سے
اور بُنے وہ تانا بانا ، کہ چادر ہوئی تیار
کہ اوڑھوں تو دنیا، آنکھوں میں آ سماۓ
کائنات گود میں جگہ بناۓ
بند آنکھیں بہہ بہہ جائیں
اور لب بولیں ،،،،،،،،۔
اللہ ھُو ، اللہ ھُو ، اللہ ھُو
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
میرا پَور پَور ، میرا بال بال ، میرا ریشہ ریشہ
یکجائی سے بُنا ، وہ تانا بانا
کہ بنَ گیا ، " اِکتارا "
اَور اِکتارا جب بھی بولا !!۔
اللہ ھُو ، اللہ ھُو ، اللہ ھُو
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
میرا پَور پور ، میرا بال بال ، میرا ریشہ ریشہ
گُندھا ہے، آنسوؤں کے کیچڑ سے
اب بَنا ہے وہ بُت
سُنے کچھ اَور ، بولے کُچھ اَور
پھر رقص کناں
زیرِ زباں ، سلسلہ آشنا
اللہ ھُو ، اللہ ھُو ، اللہ ھُو !۔
،،،،،،،،،
( منیرہ قریشی ،یکم دسمبر 2019ء واہ کینٹ )