بدھ، 28 اگست، 2019

" ملکۂ عالیہ"

 پیاری عالیہ عتیق ( جو میری سکول زمانے کی سہیلی کی بیٹی تھی) کو آج دنیا سے گئے قریباً ڈیڑھ ماہ ہو چلا ہے پھر ڈیڑھ سال گزرے گا ،، اور اس کے قریبی افراد کوبہت آہستگی سے اس کی غیر موجودگی کی عادت ہوتی چلی جاۓ گی ۔ لیکن کچھ لوگوں کا بے غرض پیار اتنا جینوئن ہوتا ہے کہ اُس جیسا کوئی دوسرا اس کی جگہ لینے والا نظر نہیں آتا ., اس نے صرف 34/35 سال کی عمر میں سب ہی کردار اپنے طور پر بہترین نبھاۓ اور مختصر علالت کے بعد،، اگلی دنیا میں خدمت اور محبتوں کا انعام وصولنے چلی گئی ،،، آج کچھ جملے اسی کی محبت کے لیۓ لکھے ہیں، کہ چند سال بطورِ شاگردہ ، اور بطورِ ٹیچر اس انداز سے گزارے کہ پیچھے صرف اس کی جوشیلی مسکراہٹ اور پُرجوش کام کی عادت یاد رہ گئی ۔ کچھ لوگ ، بھلے کم جیئیں ، لیکن پرائم ٹائم گزار جاتے ہیں ،، اللہ رب العالمین اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماۓ آمین !۔
،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
" ملکۂ عالیہ"
پُرکشش خدو خال
نمایاں قد و قامت
وافر جذبہء محبت
وافر جذبہء خدمت
زندگی سے بھرپُور
ہنسی سے معمُور !۔
چہکتی ، مہکتی ہر لمحہ
اُداسیوں سے دور
دونوں ہاتھوں سے
مسکراہٹیں لُٹاتی ، حوصلے بندھاتی
خود بن گئی اِک دن بےبس وجُود
کچھ دن خوب لڑتا رہا
جوان ، توانا وجود !!۔
جیسے قدرت سے کہہ رہا ہو
کیسے جاؤں ، ایسی خوبصورت دنیا سے دُور
لیکن وعدہ سچا ہے تیرا ربِ ودُود
کیا ہوگا میرا مقام ، مجھے ہے معلوم
وہ جوانا مرگ ، منوں مٹی اوڑھ کر
اُفق پر ، تارا بن کر چمک رہی ہو گی
جیسے کہہ رہی ہو،،،،۔
میَں تو کہیں نہیں گئی ، میَں تو یہیں ہوں کہیں !!۔
( منیرہ قریشی 28 اگست 2019ء واہ کینٹ )

ہفتہ، 24 اگست، 2019

" اِک پَرِ خیال(36) "

" اِک پَرِ خیال "
'ستاروں پر کمند'
نوجوان محمد شاہ زیب صدیقی،،، جس نے " فلکیاتی دنیا" کے عنوان سے اپنا پیج بنایا ہوا ہے ،، اور بہ زبانِ اردو ،، وہ ہمیں آسمانوں کی سیر کراتا رہتا ہے ، اور ہم انٹرنیٹ کی دی معلومات کے علاوہ بھی ایسے گروپس کے ذریعے بہت کچھ سیکھتے چلے جاتے ہیں ۔ ،،، پچھلے دنوں اس نے ایک عنوان لکھا ،" کچھ ایسی سائنسی سچائیاں جن کو ہضم کرنا مشکل ہے " اس کے 14 نکات ہیں جن میں سے پہلا پوائنٹ جس نے واقعی مجھے دنگ کر دیا ہے ،، اور کبھی کبھی کوئی لفظ ، کوئی واقعہ ، کسی شخصیت سے ملاقات ،کوئی انوکھی معلومات انسان کی سوچ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے ۔ ،،،۔
اس پہلے پوائنٹ کے مطابق" اگر آپ اپنے جسم میں موجود تمام ڈی این اے کو دھاگے کی طرح کھول کر سیدھاکر دیں ، تو اِن کی لمبائی 55 ارب کلو میٹربنتی ہے ۔اِس کا اندازہ ایسے لگائیے کہ زمین کا پلوٹو سے فاصلہ6  ارب کلو میٹر بنتا ہے، یعنی آپ ایک انسان کے ڈی این اےکے ذریعے ہمارے نظامِ شمسی کو ( سورج سے پلوٹو تک ) 4 مرتبہ لپیٹ سکتے ہیں ۔ پھر بھی اربوں کلو میٹر ' ڈی این اے' کا دھاگاآپ کے پاس باقی رہے گا"۔
جب سے میَں نے یہ معلومات پڑھیں ، جن سے پہلے لاعلم تھی ۔ میَں اس خالق و مالک کی محبت کو نئے سِرے سے نئے انداز سے محسوس کر رہی ہوں ۔ اس نے انسانی جسم کو کیا اِسرار بخشا ہے !کہ اگر ڈی این اے کی لمبائی اتنی ہے تو اسکے نہایت باریک نقطوں کی طرح اس شخص کا ڈیٹا بھی اسی طرح محفوظ کر دیا گیا ہو گا ۔اور ایک انسان کی ذہنی اور جسمانی صلاحتیں،جو لاتعداد ہوں گی ،، اسی لیۓ شاید کائنات کی اِس مخلوق کو"اشرف المخلوق" کہا گیا ۔انسان کی اس چھوٹی سی "سم" میں ماضی،حال ، کے تجربات ،،مستقبل کی منصوبی بندیاں ، تدبر ، تفکر ، اَن تھک ریسرچ ، اور اپنے مزاج کے نشیب و فراز کو نبھاتے نبھاتے ،،، ایک انسان اللہ کی بنائی دنیا کے کونے کھُدرےکو کھنگال ڈالتا ہے اور ،،،، بھی عمیق سمندروں کی دنیاؤں کو تلاش کر لیتا ہے،اور پھر ستاروں پر کمند ڈالنے کا وقت آ پہنچتا ہے ،، جو سوچ ، اور کاغذی تصورات ،اور لیب کی دنیا سے ماوراء ،، قدموں سے چھُو لینے کی کامیابی بنتی چلی جاتی ہے۔گویا آخری الہامی کتاب قرآنِ حکیم کے مطابق ،،،،،،
" اور ہم نے اس کائنات کو تمہارے لیۓ مسَخر کر دیا ہے "
یہ آیت ، نہ صرف انسان کی سوچ کو بلندیاں دے رہی ہے بلکہ اُسےاِس کی ارفعٰ صلاحیتوں کا قبل از وقت ہی احساس دلا رہی ہے ۔انسان ہر ریسرچ کرنے کے بعد، سائنس کی ہر دریافت کے بعد ،، اپنے خالق کے مزید قریب ہو رہا ہے ، ( اگر وہ خالق کا قُرب چاہنے والا ہے تو ) ۔
اور ہم انسان کیسے اس عظمت کو اس اعلیٰ مقام کو ایک دوجے کے لیۓ لگائی بجھائی ، غیبت ، چالبازیوں ، الزام تراشیوں ، اور شاطرانہ چالوں کی نظر کر دیتے ہیں ،،، ! اور احساسِ زیاں سے غافل ، قبر کے اندر جا سوتے ہیں ! محبت ، اَن تھک محنت ، اور خیر پھیلاؤ کے مشن کو بھُلا کر تہی دامن ہی اس حسین اور توانائی سے بھرپور وقت اور دنیا کو چھوڑ جاتے ہیں ۔ محض شیطان کے بہکاوں میں آکر ۔
ہماری ڈی این اے میں ہماری تقدیر کے راز بھی محفوظ کر دیۓ گۓ ہیں ،، اور اب انسان ان رازوں کو بتدریج دریافت کرتا چلا جا رہا ہے ، جیسے کچھ عرصہ پہلے تک تار گھر کی ،مخصوص " ٹِک ٹِک " کے بعد الفاظ کا روپ دینے والے ماہرین موجود تھے اور ہیں ، ،، یا ہاتھوں کی لکیروں کی چھوٹی بڑی سبھی لکیروں کی سمتوں کو ایک معنی ، ایک پیغام سمجھنے والا پامسٹ جب ماہر بن جاتا ہے تو وہ ہمارے ہی مستقبل کو ہم پر عیاں کر رہا ہوتا ہے ،، اور ہم کتنے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں ۔ کہ کیا پیشن گوئیاں ہیں ،، کیا ذہانت ہے!!! اور جب سائنس نے انسانی ڈی این اے کا تفصیلی ڈیٹاسامنے لا رکھا ہے تو اب ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ " انسان سائنس کی اس دریافت کو ہضم نہیں کر پا رہا " ؟؟؟ انسان نے خود اپنی دریافت کردہ موبائل کی نہات چھوٹی سی " سِم " سے دنیا جہان سے رابطہ کر لیا ہے ، تو ڈی این اے کی سِم کے خالق پر شک کیوں ؟؟؟
حضرتِ علامہ اقبال ؒ نے کیا واضع پیغام دے دیا تھا ،۔
ؔ تُو رازِ کُن فکاں ہے ، اپنی آنکھوں پہ عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا ، خُدا کا ترجماں ہو جا !!۔
کچھ ایسا ہی بُلھے شاہؒ نے فرمایا تھا ،،،۔
کُن فیکون ہالے کل دی گل اے
اَسی پہلے پینگاں لائیاں
( کُن فیکون تو ابھی کل کی بات ہے ، ہم انسان تو اُس سے بھی پہلے موجود تھے )
( پینگاں لائیاں ،،رابطے میں تھے ، اس خالق کے ساتھ عشق میں )
( منیرہ قریشی 24 اگست 2019ء واہ کینٹ )

اتوار، 11 اگست، 2019

"اِک پَرِ خیال(35) "

" اِک پَرِ خیال "
' چاشنی '
پچھلے دنوں ہم نوجوانی کے دور سے بنی " پکی سہیلیاں " ایک چھت تلے اکٹھی ہوئیں ،،، ایسا 'اِکٹھ ' دس سال پہلے بھی ہوا تھا ، اور اس دوران بھی ہمیں ایک ، دن یا چند گھنٹوں کے لۓ ملنا ہوا لیکن دس سال بعد ہم پورے " آٹھ دن کے لیۓ دوبارہ پندرہ یا اٹھارہ سال " کی لڑکیاں بن گئیں ۔ دوستی بھی کیا رشتہ ہوتا ہے اگر وہ بےلوث ہو ،، کہ جب ملے تو یوں جیسے ہم تو کہیں گئی ہی نہیں تھیں ۔
؎ اچھی کتابیں اور سچے لوگ
ہر کوئی کہاں سمجھ سکا ہے !
اور 1964ء سے چلی دوستی میں کوئی نشیب و فراز بھی نہ آۓ تو میرا خیال ہے ایسی دوستی " بےمثال یا نایاب " کہی جا سکتی ہے ۔دراصل تو ہم سات سہیلیاں بہت  قریبی دوست رہیں ، جن میں سے اب تین کا قیام جنت میں ہو چکا ہے ،،، لہٰذا ہم بقایا چار جب ملتے ہیں تو یوں جیسے ابھی بھی وہی نویں دسویں کا دور ہی چل رہا ہو ،،، ہم اپنی دوستی کے ہر لمحے کو بھر پور انداز سے انجواۓ کرتی ہیں ۔ میَں ، رفعت ،اور رخسانہ تو ایک ہی شہر کی رہائشی رہیں ، اور یوں اپنی خوشیوں غموں میں شاملِ احوال رہتی ہیں ،،،، لیکن نسرین چالیس دہائیوں سے امریکی شہری بنی ہوئی ہے ، جس کی پاکستان آمد ،،، ہمیں اسی طرح پُرجوش ،پُر مسرت اور شدتِ انتظار میں مبتلا کر دیتی ہے جیسے اپنے بچپن میں عید کے دن کا انتظار ہوتا تھا ۔ ،، اتفاق سے میرے پاس رہائش کا کوئی مسلہء نہیں ہوتا اسی لیۓ میَں پہلے ہی اپنے گھر سب سہیلیوں کے ٹھہرنے کا انتظام کر لیتی ہوں ،،، پہلی دفعہ ہم 25 سال بعد ملیں تو یوں کہ ہمیں ایک مرتبہ یہ جملہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی " ارے اب تمہاری یہ عادت ہو گئی ہے "! ،،، یا ،،، " کھانے میں کس قسم کا پرہیز چلے گا " !،،،، اور ہماری محبت بھری دوستی عین وہیں سے شروع ہوئی ، جہاں 25 سال پہلے اس کے امریکا جانے کے وقت کی تھی ،، سبھی فریق " ایٹ ایز " ہو گۓ ،،، اور اس وقت وہ پانچ دن گزار کر پاکستانی سہیلیوں کو واضع کر گئی کہ مجھے صرف " دوستی " کا مضبوط ناطہ چاہیۓ ،،، اَور کوئی تکلف نہیں ! اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا نے اس کا کچھ نہیں " بگاڑا " تھا ، ساتھ اس نے واضح کر دیا میرے لیۓ ادھر اُدھر سیر کا کوئی اہتمام نہ کرنا ،، میَں صرف تم لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہوں ، یا بہت ہوا تو نزدیکی بازار گھما دینا ۔
تو  قصۂ مختصر ،، انہی چھٹیوں میں نسرین سخت گرمی میَں آئی ، لیکن ہم " اولڈ سِٹیزن " کے لیے تو بہار لے آئی ۔حسبِ سابق رفعت اور رخسانہ بھی 8 دن کی میری مہمان بنیں ،، اور کیسے آٹھ دن کچھ اپنی کہتے ،، کچھ دوسروں کی سُنتے گزری ، کہ پتہ ہی نہ چلا اور آٹھویں دن نسرین کو رخصت بھی کر دیا ،،، سب سہلیوں  کے جانے کے بعد میری نوخیز پوتی مجھ سے پوچھنے لگی ،، " آخر آپ لوگ آٹھ دن کیا باتیں کرتی رہیں ، مجھے حیرت ہے ، آپ لوگ کسی وقت بھی بور نہیں ہوئیں " ؟ مجھے اس پر بہت پیار بھی آیا ، اور اِس نئی نسل کے لیۓ افسوس بھی ہوا کہ آج کے بچے محبت ، خلوص ، ایثار ، مہمان نوازی ، کھلے دل سے اپنے گھر اور اپنے وقت کو حاضرِ خدمت کے جذبوں سے سرشار " خالص دوستی " ،،، کے لُطف سے محروم ہیں ۔ آج کے بچے کسی کو اپنا " سچا دوست " نہیں کہہ سکتے ، آج کے بچے کسی کے لیۓ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ " یہ میرا / میری بےلوث دوست ہے ۔ آج کے بچوں کا یہ بھی المیہ ہے کہ " بڑے بھی ان دوستیوں کو مکمل چھان بین کیۓ بغیر دوستی رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے ، بلکہاعتبار ہو بھی جاۓ ، تو اُن گھروں میں رہنے کی اجازت نہیں مل سکتی ۔شاید اسی لیۓ ہماری موجودہ نسل نے " سیل فون " کو اپنی سہیلی / دوست بنا لیا ہے ۔آہ،،،،مشینی دور کے مشینی رشتے !! جن میں خوبصورت محبت بھرے جذبے نا پید ہیں ۔
ہمارے بچے ماحول اور معاشرے میں" اقدار کی پامالی " کے باعث بہت سی " چاشنیوں " سے محروم رہ گۓ ہیں ۔ انھیں یقین ہی نہیں آتا کہ امریکا سے ایک سہیلی صرف اس لیۓ واہ کینٹ آتی ہے کہ وہ باقی زندہ موجود " سہیلیوں سے ملے ۔ بلکہ کچھ دن رہتی ہے ۔ حالانکہ اس شہر میں اس کا کوئی رشتہ دار نہیں رہتا کہ جس کے بہانے وہ آۓ ۔ آج کی نسل کا جذبوں کی چاشنی پراعتبار اور اعتماد اگر ریزہ ریزہ نہیں ہوا ، تو کم از کم متزلزل ضرور ہو چکا ہے ۔ اللہ پاک ہمیں وہ توفیق عطا کر دے کہ ہم " پرانی پیڑھی " اِس اعتماد اور اعتبار کو بحال کر سکیں ،آمین !۔
میَں نے اپنی پوتی کو مُستننصرحسین تارڑ کا یہ قول سنایا " ستارے اور ( پُرخلوص) دوست ، دُور بھی ہوں تو اُن کی چمک ہم تک پہنچتی رہتی ہے"۔ کوئی شک نہیں وہ ابھی قائل ہونے کی عمر میں نہیں ہے لیکن جب بھی اِس نئی نسل کے ذہن نے اسے قائل کیا ، تو وہ ایسی محافل کے لیۓ وقت نکالنے کا سوچے گی،یہ وہ نئی نسل ہے جو کسی دوسرے کے اظہارِخیال ، یا تجربے سے جلد متاثر نہیں ہوتی ۔اللہ اِس ذہین فطین نسل کی رہنمائی کرے آمین ، یہی پُرانی ، لیکن بےغرض دوستیاں جب بھی باہم مل بیٹھتی ہیں ، تو پرانی یادوں کی البم نکل آتی ہے ، ہر تصویر ، ہر بندے کے ہر اینگل کو پھر سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے ،، پُرانی ،، دہرائی اور معلوم باتیں پھر دہرائی جاتی ہیں ، بلاوجہ کی باتوں پر خوب مزے لیتے اور ہنس ہنس کر دوبارہ سولہویں سال کی لڑکیاں بن جاتی ہیں ، اور یوں ہم سب زندگی کے اگلے دوارنیۓ کے لیۓ چارج ہو کر،اُسی روٹین کی دنیا کو پھر سے خوش دلی سے گلے لگا لیتے ہیں ،،جس سے کچھ دن پہلے تک شدت سے بےزار تھے ۔
" شاید شیخ سعدی ؒ کا قول ہے " وہ شخص امیر ترین ہے جس کے پاس پُرخلوص دوست ہوں " ! 
( منیرہ قریشی 11 اگست 2019ء واہ کینٹ )

جمعہ، 9 اگست، 2019

" اِک پَرِ خیال (34)"

" اِک پَرِ خیال "
ہجرت " ،،، ( منیٰ جاتے سمے )۔"
اور آخر کار ہمارے 40 /41 دن سرزمینِ حجاز میں گزارنے کے اصل مقصد ، کا لمحہ سامنے آگیا ،،، ہمارے گروپ نے نہایت ضروری سامان ساتھ لیا ، نہانے ، تیار ہونے اور پھر عزیزیہ کی جس ہاسٹل ٹائپ عمارت سے باہر آکر سڑک کنارے بنے اینٹوں کے چبوترے پرآ کربیٹھے،،، تو بیٹھے ہی رہ گئے ۔کیوں کہ ہمیں ظہر پڑھ کر فوراً باہر حاضر ہونے کو کہا گیا تھا ،، اور تسبیحوں پر اپنے رب کی ثناء کرتے کرتے عصر کا وقت ہو گیا ،، عمارت کے اندر جا نہیں سکتے کہ " بس پہنچ گئی تو انھیں کیسے پتہ چلے گا کہ چھے ،،، افراد کہاں ہیں ؟، ہیں بھی یا چلے گۓ ! یہ ہی سوچ کر مرد حضرات نے کہا ہم جلدی سے نزدیکی مسجد میں ( جو پندرہ بیس قدم دور تھی ) نماز پڑھ آتے ہیں ، خواتین ہمارے واپسی پر نماز پڑھیں ۔ مرد بھی نماز پڑھ کر آگئے ، خواتین نے بھی ادا کر لی ،، بس کا نام نہیں ، چبوتروں پر بیٹھے ، گزرتی ٹریفک کو دیکھتے ، تمام احرام والوں کی شکلوں پر چھاۓ کچھ تفکر ، کچھ بےزاری ، کچھ اُلجھن کے تاثرات محسوس ہوۓ ۔ آہستہ آہستہ یہ ہی تاثرات شاید ہمارے چہروں پر بھی آ چکے ہوں گے ،، کیوں کہ ہم آپس میں اب کوئی بات نہیں کر رہے تھے ۔ بس ہمارا ہر تائثر " سراپا انتظار " کا لیبل بنا ہوا تھا ، نمازِ مغرب کا وقت ہوا ہی تھا کہ بسیں پہنچ گئیں اورسب 25/26 افراد نہایت بےصبری سے اندر سیٹوں پر بیٹھ گئے ،، مغرب ہم نے تو بس میں ہی ادا کر دی کہ فاصلے کا تو اندازہ تھا کہ کم ہے لیکن ،، رَش کا اندازہ منیٰ کے قریب پہنچ کر ہوا ۔ جیسے ہی ہم اس کی حدود میں داخل ہوۓ ،، رَش تو تھا ہی ،،، مزید ہمارا ڈرئیور ، نہ صرف بے زاری ، بلکہ قدرِ غصے میں آیا ہوا تھا کہ اسے اِس " آسیان " والے گروپ کا داخلی گیٹ کہیں نہیں مل رہا تھا ،، آخر اس نے سواریوں کو اللہ توکل ایک جگہ اُتارا اور خود فوراً چلا گیا ،، کچھ شُرطوں ( پولیس )سے کسی طرح " آسیان " گروپ کی سمت معلوم ہوئی ۔ اور قریبا" 25/20 منٹ مزید چلنے کے بعد ہم اپنے خیموں میں پہنچ گئے، ، مردوں کا بڑا خیمہ ،، ہم خواتین کے ساتھ والا تھا اور ایک کونے سے پیغام رسانی ہو سکتی تھی ، اسی سہولت کے تحت ، جب اپنی اپنی جگہ سے شناسائی ہو گئی ، تو گروپ کے تینوں مرد حضرات نے چاۓ پینے کی تجویز دی ،، اور ہم تین خواتین بھی خیموں سے ہٹ کر ایک چوڑی کھلی سڑک پر پہنچ گئیں ۔ کچھ چھوٹے سٹالز کی صورت بنی دکانوں سے چاۓ کے کپ لا دیۓ گئے اور سڑک کنارے بنی ایک پُلی پر بیٹھے ،، چاۓ کے پہلے گھونٹ نے ، تھکن بھی دور کر دی اور ، تفکر بھی ۔۔ ۔۔۔کتنا تھوڑا سا سفر تھا ،،،صرف " چند میل "،،،، لیکن پہنچنے کے لیۓ سواری کے انتظار نے ،، اور خیموں تک میں جگہ کی پہچان کی فِکر نے ،،، مقصدِ حاضری ،، اور فوکسِ اعلیٰ و اکبر ،،، کو آؤٹ آف فوکس کر دیا تھا ،، چاۓ جیسی بےحقیقت چیز کی اہمیت یہ ہوئی کہ یاد آگیا ،، یہ کون سا مقام ہے؟ اور ہم کتنے خوش نصیب ،، اور ہمارا یہاں آنا کس قدر اہم ترین دن ،، جس دن کے لیۓ ہر مسلمان زندگی کے لمحہء آخر تک کی " حسرت " لیۓ ہوتا ہے ۔ آہ ،،، یہ اتنے کم فاصلے کی " ہجرت " نے دلوں کو دنیاوی کیوں ، کب ،کیسے کی " سکاچ ٹیپ " میں لپیٹ دیا تھا ، حالانکہ ضروری سامان ساتھ تھا ،جیبوں میں نقدی بھی تھی ، لیکن شیطانی وساوس نے گھیرا تنگ کرنے کی بھرپور کوشش کی ،، اور ہم بھی اس کے حربوں کو آسانی دیتے چلے گئے،،، ہم تو اپنے پیارے اللہ ،، اپنے پیارے رَب ،، اپنے والی وارث کے میزبان تھے ، وہ بھلا ہماری خاطرداری میں کیسے کمی آنے دیتا ۔ ،،،، وہ جو لطیف وخبیر ، وبصیر ہے ، جو ہمارے " پَرِِخیال " کو بھی جاننے والا ہے ،،، وہ ہماری ہجرت کو کتنی اہمیت دے رہا تھا کہ پہنچتے ہی تھکاوٹ دور کرنے اور ہمیں بشاش کرنے کے لیۓ ، ہمارے ہاتھوں میں گرم گرم چاۓ پکڑا دی ۔ نم آنکھوں اور شرمندہ دلوں کے ساتھ ، ، اللہ پاک سے شیطان سے پناہ چاہی ،، اس کی محبت ، رحمت کی طلب چاہی ،،، اور اس نے آسانیوں کے سلسلے جاری رکھے ،، دل نے لِسٹ پیش کرنے میں دیر نہیں کی، اے رحیم و کریم وقتِ نزاع ،،، اوقاتِ قیامِ قبور ،،، اور یومِ حشر میں بھی لمحہ بھر میں " اُس ہجرت کی تکالیف " کو دور کردینا ،،اور" طمانیت و سکینت "کی چاۓ ہمارے ہاتھوں میں تھامے ہو ،،، اور تیری رحمت کی پھوار سے بھیگے ہوں ،،،، " بے شک ،،،!"" تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھُٹلاؤ گے ""۔
( آج 8 اگست 2019 ہے ،، اور جب بھی حاجی منیٰ کی طرف جانا شروع ہوتے ہیں ،، مجھے دسمبر 2005ء میں کیۓ گۓ حج کا لمحہ لمحہ یاد آنے لگتا ہے ،، اور میرادل اپنے رب کی شکر گزاری سے لبریز ہوتا چلا جاتا ہے کہ ہمیں بھی اُس " شہنشاہوں کے شہنشاہ " نے مہمان نوازی کا شرف عطا کیا تھا ،)۔
بس یہ ہی دعا ہے وہ اُس سرزمین کے سجدوں کو قبول فرما لے ،، ہمارے ""دِلوں کی ہجرت "" کو قبول فرما لے ،، جسمانی ہجرت قبول فرما لے،بھلے وہ ہجرت جو چند دنوں کی تھی ،، آنکھیں اور دل تمام تر دنیا کی آسائشوں ، دلنواز اولادوں ، مال و دولت سے پھیر دیۓ گۓ تھے ،، اور چاروں سمتوں میں صرف تیری محبتوں کی بُوٹی کی مُشک مسحُور کر رہی تھی ، تیرے آگے ایک ہی لفظ کہہ رہے تھے ، الحمدُ للہ رب العالمین لبیک الھمَ لبیک ،،، آمین ثم آمین۔
یہ ہی الفاظ کہتے ہوۓ اگلی اور دائمی ہجرت کر جائیں ۔ آمین ثم آمین ۔
( منیرہ قریشی 9 اگست 2019ء واہ کینٹ )