بدھ، 29 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(54)۔

 یادوں کی تتلیاں "(54)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اب 1993ء کا مارچ تھا ، اورمیری شدید مصروفیت ،،، ایک تو اپنے سکول کے ہر کونے کھدرے کو دیکھنا، ، ، بلکہ تنقیدی نگاہ سے دیکھنا ۔ پھر میں خود پرنسپل ، میں ہی اکاؤٹنٹ ، میں ہی پریپ ، کی اسلامیات اور اردو کی ٹیچر ! !،،، اور جیسا پچھلی قسط میں لکھا تھا کہ مجھے کانونٹ میں بھی مزید 5، 6 ماہ کے لیۓ نہم، دہم کی اردو کی کلاسز بھی لینا پڑ رہی تھیں ،،، اور وقت تیزی سے گزرا اور 6 ماہ کے بعد یہ ذمہ داری بھی ختم ہو گئی۔
لیکن اپنے سکول میں میری پوری توجہ سے بہت جلد مزید داخلے بھی ہوتے چلے گۓ ، ہماری فِیس اور داخلہ فیس بہت نارمل تھی ، اسی میں سے بچت کر کے ہم نے، اس گھر کی عمارت کے ساتھ ساتھ تین کمروں کا اضافہ کر لیا ،، جو بہت فائن تو نہیں تھے لیکن محفوظ تھے ! اور اللہ رحیم و نصیر کی یہ مدد بہت ہی بڑی تھی کہ ہمیں ذیادہ سٹاف اپنے کام سے لگن رکھنے والا اور مخلص ملا،،، حتیٰ کہ سکول کی آیا اور چوکیدار بھی اگر کوئی پرابلم دینے لگیں تو ذہن بھٹک جاتا ہے ۔ لیکن یہ معاملات بھی اچھے سے چلتے رہے۔ کیوں کہ اگر کسی ادارے میں ایک بھی رکن تکلیف دہ نکل آۓ تو ادارے کے چلانے والے ، اپنے فوکس سے ہٹنے لگتے ہیں.،،، ۔
ہمارا یہ سکول ،( دراصل جو اباجی کا گھر تھا )،،، قریباً 3 کنال میں ہے ، اور یہاں کا گھر بالکل درمیان میں بنا ہوا تھا ۔سامنے اور سائڈ کا لان اچھا خاصا بڑا تھا، اس میں تین بیڈ رومز اور ایک ڈرائنگ ، ڈائیننگ تھا ! فرنٹ پر بر آمدہ تھا جس کے پلرز ،،، آرچز کی طرز پر تھے۔یہ بلڈنگ ایسی کوئی  متاثرکُن تو نہ تھی لیکن اُس وقت کے یہاں سے پڑھ کر جانے بچوں کو آج بھی "وہ آرچز والا سکول " بہت یاد آتا ہے۔ ،،، اس میں ڈرائنگ ، ڈائننگ کو نرسری بنایا گیا ، اور اندر کا ایک بڑا کمرہ پلے گروپ اور ایک کمرہ پریپ کے لیۓ تھا جبکہ برآمدہ میں داخلے والی گیلری میں دائیں طرف کا پہلا چھوٹا کمرہ آفس قرار پایا۔اور ہم نے اسی میں 3 سال بعد ایک کمرہ اور مزید 4 سال بعد دو اور کمرے بنا لیۓ ، ،،، ! جیسا کہ پچھلی قسط میں لکھا تھا کہ جوجی نے بطور پہلی پرنسپل ، جب کام سنبھالا تو اس کے ساتھ تین یا چار لڑکیوں کا سٹاف تھا۔ اس پہلے بیج کے ٹوٹل بچوں کی تعداد شاید 20 ،22 ہوگی اور سال بھر بعد اتنے بچوں کے داخلے پر جوجی نے اِنھیں قریب کے بہترین ہوٹل میں ٹریٹ دی ۔جسے وہ ٹیچرز اب بھی یاد کرتی ہیں ۔ ہمارے والد صاحب کا تعلق فوج سے تھا ، انھوں نے ہمیں کہا " بھئ ، فوجیوں کے بچے آئیں تو ذرا لحاظ کرنا ،،، ان کی جیبوں میں کچھ خاص نہیں ہوتا ،،،،، اور یہ خیال اُن جیسے دیانت داروں کا تھا ! ! !مجھے ان شروع کے سالوں میں خود میں خود عتمادی لانے میں اچھی خاصی کوشش کرنا پڑی، کہ بنیادی طور پر میں نئے لوگوں ، نئے ماحول کو دیر سے قبول کرتی تھی ،،، حالانکہ کانونٹ کے ساڑھے 5 سال کی ملازمت نے مجھ میں بہت کچھ اعتماد بڑھا دیا تھا۔ اس دوران میری بہت پرانی اور اچھی سہیلی ، مہ جبین، واہ میں سیٹل ہو گئی، مجھے علم تھا کہ وہ سعودی عرب میں ایک سکول میں کچھ عرصہ پڑھا چکی تھی ، میں نے اسے سکول جوائن کرنے پر زور دیا تو وہ آگئی۔اس کی نالج ، اور اسے اپنےمضمون انگلش میں کمانڈ حاصل تھی۔ وہ اپنے کام کو ڈیڈیکیشن سے کرتی ، ،،، مہ جبین میرے گھر سے کچھ آگے رہتی تھی ، اس لیۓ سکول جانے کے لیۓ جب وہ گھر سے چلتی تو اس دوران میں تیار رہتی ، پھر ہم دونوں گپ شپ کرتی ، سکول پہنچتیں ،، میں اپنے کام سنبھالتی ،وہ اپنے کلاس روم میں چلی جاتی ،،، وہ بہت پُراعتماد شخصیت تھی،، اس کی باتوں ، اور خوداعتمادی نے مجھے بہت متاثر کیا ،، اورغیرمحسوس طور سے میں اُس سے یہ بات سیکھتی رہی،،،، ہمارے سکول کا یہ دور بہت جدو جہد والا تھا ، میں گھر شام 4 یا 5 بجے واپس آتی ، ، واپسی پر مہ جبین جا چکی ہوتی،،، میں دن بھر کا حساب ، کتاب صحیح کرتی ،، سارے سکول کے ڈیڑھ سو بچے ہو چکے تھے ، روازانہ دو یا تین کلاسز کی کوئی سے دو مضامین کی کاپیاں " ری چیک کرتی " ، اور تب تک آیا جی " سفیداں " صفائی کر لیتی ، اس دوران سکول چوکیدار فضل داد باہر بیٹھا رہتا ،،، وہ بہت ہی دبلا پتلا ، لمبا ، دیہاتی سا بندہ تھا ،، جو سکول کے سب سے پہلے چوکیدار کا بھائی تھا ، اُس نے چند ماہ ہی نوکری کی تھی کہ فیکٹری میں نوکری ملی تو وہ فوراً اپنے بھائ کو لے آیا ،،، کہ آپ اسے میری جگہ رکھ لیں ، وہ سگریٹ بےتحاشا پیتا ،، بال بچہ کوئی نہ تھا۔ تھا خوش مزاج ، اور سکول کے والدین اس سے مطمئن تھے ۔سگریٹ کے علاوہ ہمیں اُس سے کوئی شکایت نہ تھی ! سال بھر اسی روٹین میں گزرا ،، اباجی کے سرونٹ کواٹر میں جو فیملی رہ رہی تھی،اس کی سات بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ،، اِن کا باپ فوت ہو چکا تھا، بڑی بچیاں تو چار ، پانچ جماعت پڑھی ہوئی تھیں ، ان کی والدہ ایک آدھ بچی کو ساتھ لے جاتی اور لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ، یہ سب سے چھوٹا بیٹا ، نرسری کے قابل عمر میں تھا، میں نے اُسے ساتھ لے آنا ، اور اپنے سکول میں داخل کرلیا ۔ ایک دن بچہ ہمارے انتظار میں برآمدے میں بیٹھا ہوا تھا، سکول کی چھٹی ہو چکی تھی میں اور مہ جبین آفس میں بیٹھیں ، جلدی جلدی کام سمیٹ رہی تھی، آیاجی پیچھے کمروں میں صفائی کر رہی تھی ، اور فضل داد کسی کام سے بازار گیا ہوا تھا ،،، کہ بچہ آفس میں آیا ، اور اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں بتایا ،،، " بہت بڑا سا کیڑا اندر کلاس میں چلا گیا ہے " ،،،، میں فوراًاُٹھی ، کہ اسے جاکر جھاڑو سے مار دوں تاکہ بچہ نہ ڈر جاۓ " بچہ آفس میں ہی رہا ،، نرسری جماعت کا دروازہ ، اسی داخلی برآمدے میں ہی تھا ، ،،، جب میں وہاں گئی تو وہاں گولڈن رنگ کا قریبا" چار فٹ لمبا سانپ ، نرسری روم میں لہرا لہرا کے کبھی اُن کی میزوں اور کبھی کرسیوں پر چڑھ اور اُتر رہا تھا ،،،، سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں مجھے صرف ایک خیال آیا "یا اللہ تیرا شکر ،کہ بچے گھروں کو جا چکے ہیں "۔
مجھے نہیں معلوم ، کیسے ! لیکن میرے دل میں اس کا خوف نہ آیا ، اور آہستگی سے پیچھے ہوتے ہوۓ ، میں نے مہ جبین اور سفیداں کو آواز دی ،، مہ جبین نے آکر جھانکا اور کانوں پر ہاتھ رکھ کے فوراً آفس چلی گئی اور بچے کو ساتھ لے گئی۔ اس نے سفیداں کو آواز دے کر کہا ، کہ ان کی مدد کرو،،، سفیداں نے حواس قائم رکھے، ، اور میں نے بچوں کی ایک کرسی اُٹھالی ، ، اور سانپ پر نظر رکھتے ہوۓ سفیداں سے کہا " سٹور میں گھاس کاٹنے والی تلوار پڑی ہے وہ مجھے پکڑا دو ، میں سانپ کوکرسی کی حرکتوں میں مصروف رکھ کر کھڑکی کی طرف لاؤں گی ، جب وہ کھڑکی کے نیچے بنے سوراخ میں سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو اسکا سر پہلے باہر جاۓ گا،، تم جلدی سے باہر سے کھڑکی کا دوسرا پٹ دبانا ، اور دباۓ رکھنا" ! یہ سب ہدایات سانپ پر نظر رکھتے ہوۓ اور کرسی سے اسے متوجہ رکھتے ہوۓ دیں ! وہ کبھی بلیک بورڈ پر جاتا اور کبھی کمرے کے دوسرے دروازے کی جانب ،، لیکن وہ میری طرف بالکل نہ آیا ، ایک منٹ بعد سفیداں نے تلوار مجھے پکڑائی ، اور خود باہر بر آمدے کی کھڑکی کی طرف چلی گی ،، اب سانپ ، کھڑکی کی طرف آچکا تھا ،، جیسے ہی اس نے کرسی کی موومنٹ سے گھبرا کر کھڑکی کے نیچے بنے سوراخ میں سر دیا ، سفیداں نے دوسرا پٹ بند کر دیا ، اس طرح اسکا سر اس دوسرے 
پٹ کے درمیان پھنس گیا تھا،سانپ نے کمرے میں موجود جسم کو بری طرح بل دینے شروع کیۓ اور میں نے مسلسل اس کے جسم پر تلوار کے وار کیۓ ،،،، کمرے کے فرش پر اُس کا خون پھیل گیا ،، اور وہ چند منٹ بعد مر گیا ،،، جب میں نے اور سفیداں نے یہ " کارنامہ " ختم کیا ،،، تو تب مجھے احساس ہوا ،،، کہ کچھ ہوا ہے کچھ کیا ہے ! سفیداں مجھے شاباش اور میں اس کا شکریہ ادا کرنے لگی ،،، اگلے لمحے میں نے آفس میں جا کر " مشن " پورا ہونے کی اطلاع دی ، عین اُسی وقت فضل داد بھی نمودار ہوا ،، اور وہ ساکت سا ہو کر رہ گیا اور پہلا جملہ اس کے منہ سے نکلا " شکر ہے میں اُس وقت یہاں نہیں تھا " میں اور مہ جبین ہنس پڑیں ،،، کہ ایک ہی اس سکول کا " مرد " ہے اور وہ بھی اتنا ڈرپوک! میں نے سفیداں سے کہا تم ابھی فرش اچھی طرح دھو لو ،،، اور فضل داد سے کہا " اب تم سانپ کو کیاری میں گڑھا کھود کر دفنا دو" ،،، اور خود ہاتھ منہ دھونے چلی گئی ! مہ جبین نے صاف کہا " میں اگر یہاں اکیلی تمہارے پاس ہوتی ، تو تمہیں کوئی مدد نہ دے پاتی ، میں تو سخت گھبرا گئی تھی " ! میں نے گھر آکر سب سے پہلے شکرانے کے نفل پڑھے ، کہ چھٹی ہو چکی تھی اور اللہ نے بچوں کو محفوظ رکھا ! دوسرا خیال جو آتا رہا کہ ایک یتیم بچےکواس سکول سے فائدہ دیا جا رہا تھا ،اُس مالک وحافظ و ناصر نے سب بچوں کو اس بچے کے توسط سے محفوظ رکھا ،،، جو بھی تھا ، میں آج بھی اللہ پاک کی کرم نوازی پر شکرگزار ہوں ۔ اور اُس رب نے ہمیں ہمیشہ اس میدان میں ایسے بچایا کہ بس ،،،،،،،،،،،،،!۔
( منیرہ قریشی ، 29 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

منگل، 28 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(53)۔

یادوں کی تتلیاں" (53)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہ یادوں کی تتلیاں جب ذہن کے اُس پَرت کو کھولنے کی کوشش کرتی ہیں ، جو میرے ذہن سے محو ہو چکا ہو ، اور لکھتے ہوۓ یکدم ایسی بھولی بسری یاد سامنے آجانے سے، مسکراہٹ بھی خود بخودچہرے پر آجاتی ہے ، اور کبھی تتلیاں ایسے نیم اندھیرے کونے میں چلی جائیں ، جہاں کوئی پرانی تصویر ، یا کوئی تحریر رکھی ہو ، جسے دیکھ کر آنکھ کے کونے چمکنے لگتے ہیں!!! اور زندگی تو شاید اسی کا نام ہے!۔
کانونٹ سکول میں مجھے چار سال مکمل ہوچکے تھے ، جب ہمارے پرانے پڑوسی ( شاہدہ رشید ) اور ہماری عزیز سہیلی کے فون آنے لگے ،یا جب ہم ملتے تو یہ موضوع بھی ضرور زیرِبحث ہوتا کہ تم ، دونوں بہنیں مل کر واہ میں سکول شروع کرو ، وہاں اچھے سکولوں کی کمی ہے ، اب تم دونوں کا چھوٹے بچوں کی تعلیم کا کچھ تجربہ بھی ہو چلا ہے وغیرہ،،، لیکن ہم دونوں ( میں اور جوجی) اس کی باتیں سُنتیں اور انشا جی کےایک شعر کے اس مصرعے کوکچھ ردوبدل کے ساتھ چُپ ہو جاتیں ،،،،،،
؎ ہم ہنس دیۓ ، ہم چُپ رہے ، منظور تھا پردہ "اپنا " !
دراصل وہ قریباً دس سال سے اسلام آباد میں ایک کامیاب سکول چلا رہی تھی ، اور اب اس کا ارادہ کالج تک پہنچنے کا تھا۔ اس نے ایک نہایت مخلص دوست ہونے کے ناطے ہمیں یہ مشورہ دیا تھا،،،،،،، نیز یہ کہ اس کے پیچھے دو مردوں کی فُل سپورٹ تھی ایک اپنے والد اور دوسرے اس کے شوہر !!! لیکن وہ خود اپنی ذات میں بھی ایک باحوصلہ " مرد " ہے !!! ہم دونوں شاید اس دور میں بہت حوصلہ مند بھی نہ تھیں اور ہم اگر ، مگر کے چکروں میں تھیں ۔ جسے شاہدہ نے مسترد کر دیۓ اور ، ،، سب سے ذیادہ اباجی کے "گھر "نے ہمیں تقویت دی تو ہم نے یہ ناممکن قدم اُٹھالیا ،،،،، باقی حوصلہ بڑے بھائی جان کی وجہ سے ہوا ،،، جو شروع میں شاملِ پراجیکٹ تھے ،لیکن خودچند ما ہ بعدہی ہمارے اس پراجیکٹ سے نکل گۓ کہ اب میں اپنے دونوں بچوں کی شادی میں مصروف ہونے جا رہوں اس لیۓ مزید شاید ایکٹو نہ رہ سکوں گا! ۔
بہر حال بات ہورہی تھی کہ شاہدہ کا یہ اصرار کچھ عرصہ معمول کے مطابق چلتا رہا ، لیکن ایک دن اس نے صاف کہا ، اگر تم دونوں نے سکول کا پراجیکٹ شروع نہ کیا تو ،،،، میں نے وہاں سکول کھولنا ہے اور انچارج تمہی نے بننا ہو گا " !!! اس کی اس "" مخلصانہ ،،، اور قدرِ " ظالمانہ" دھمکی کام کر گئی۔تب ، انہی دنوں اباجی کا ذاتی گھر جو کراۓ پر لگا تھا ، خالی ہوا تو ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ اباجی سے آخری کراۓ کے حساب سے یہ گھر لے لیا جاۓ ، تاکہ کسی اور جگہ لیں گے ، تو کیا پتہ وہ کسی بھی وقت خالی کرنے کا نہ کہہ دے ، کرایا بڑھانے کا نہ کہہ دے وغیرہ ،،،،! ! ہم دونوں نے اپنی " بالکل ذاتی جمع پونجی" کا جائزہ لیا ،،، ( جو ہم دونوں نے سکول اور کالج کی جاب کے دوران اکٹھی کر رکھی تھی )اور اللہ کا نام لے کر استخارہ کر کے، ، ، اُس جدوجہد کا آغاز کیا ، جس کا ہمیں کوئی تجربہ نہیں تھا ،،،، جہاں تک تعلق تھا ، پڑھانے ، سلیبس سیٹ کرنے کا وہ تو ایک ٹیچر ہونے کے ناطے خودبخود ٹریننگ ہو ہی جاتی ہے۔ لیکن سکول چلانے کا ایک کاروباری انداز بھی، اب سیکھنے کی ضرورت تھی ، اور جب بات اُصول و ضوابط کے ساتھ نبھانے کی ہو! تو بہت احتیاط کی ضرورت تھی کہ " اباجی اور بڑے بھائی جان " کی صورت دو فوجی مزاج بندے ہم پر کڑی نگاہ بھی رکھے ہوۓتھے، ،! کہ ہم سے کوئی ایسا بلنڈر نہ ہو جاۓ جو قانون کے دائرے کو توڑے۔
سکول کی شروعات ہوئی تو ہم نےبڑے بھائی جان اور آپا کوبھی کہا کہ وہ بھی شامل ہو جائیں ، اب وہ ریٹائرڈ زندگی شروع کر چکے ہیں تو ان کی بھی مصروفیت ہو جاۓ گی، وہ بھی اس پراجیکٹ میں شامل ہو گئے ! گھر اباجی کی طرف سے ملنے پر ہمیں اطمینان ہو گیا کہ اگر کبھی کراۓ کے لیۓ پیسے نہ بھی ہوۓ تو کوئی نکالے گا نہیں ،،، شاہدہ نے لِسٹ بھیجی کہ سب سے پہلے فیصلہ کرنا ہے کہ کون کون سی کلاسز کا آغاز ہوگا ،،، تو وہ فیصلہ ہوا کہ صرف " پلے گروپ ، نرسری ، اور پریپ ، ہی سے شروع کیا جاۓ،، یہ 1990ء کے سال کے ستمبر ، اکتوبر کی بات ہے ۔جب جوجی ، اور آپاکی بیٹی نشمیہ، اپنی اپنی معلومات صفحات پر اکھٹی کرتیں !کیوں کہ نشمیہ (جسے پیار سے چندا کہا جاتا ہے) نے بھی واہ آنے سے پہلے کراچی میں سال بھرنرسری کلاس کو پڑھایا ہوا تھا ،،، میں نے باہمی مشارت سے، ابھی کانونٹ سکول نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ۔ اس لیۓکبھی مجھے انھیں دیکھنے کا وقت ملتا تو دیکھ لیتی ،، ورنہ سب بنیادی خریداری ، مثلاً فرنیچر، ،بورڈز، آیا اور چوکیدار کی سلیکشن ، آفس کا تمام سامان ، بچوں کے لیول کے " تعلیمی ایکوپمنٹس " وغیرہ ،، جوجی نے خریدےحتیٰ کہ سکول کے ایک کارنر میں ریت ڈلوا کر اس کے گرد " فینس" لگوا کر اسے بچوں کے کھیلنے کے لۓ تیار کرنا ،،، ایک پنجرے میں کچھ آسٹریلین طوطے ، رکھے جانا،،، یہ سب کام جوجی نے کرواۓ،،، یہ سب کچھ واہ کینٹ میں اتنا نیا اور تعلیمی لحاظ سے مختلف تھا۔ کہ ہر تعلیم یافتہ ماں اسے بہت سراہتی ! آج بھی ہمارے سکول کی شُہرت میں یہ لفظ شامل سمجھا جاتا ہے کہ " واہ میں پلے گروپ ، نرسری ، اور پریپ کے"پایونئیر" " صرف یہ ہیں۔جوجی کے انٹلیکچول اقدامات سے ہمارے سکول نے آس پاس کے ایف جی سکولوں کی قطار میں چند پرائیویٹ سکول بھی تھے  ان میں ایک خاص مقام پا لیا!،، یہ پرائیویٹ سکولز کچھ اچھے لوگوں نے چلا رکھےتھے لیکن وہ ایک مخصوص ، اور روایتی  سوچ کے مالک تھے ، جن کا ارادہ شاید صرف کاروبار کرنے کا تھا !لیکن ہمیں نہ تو کوئی جلدی تھی، نہ ہم نے کسی سے مسابقت کا سوچا ۔ دراصل ہم دونوں کے لیے آنکھیں سفید کر لینے کا فارمولا قابلِ قبول نہ ہو پایا۔
اللہ رحمت العالمین ، کا شکرادا کرنے کے لیۓ الفاظ کم ہیں جتنی اس کی نوازشیں ہیں، کہ اس نے ہمیں بتدریج ، سیڑھی در سیڑھی آگے بڑھایا ۔ جوجی کو چھوٹی ٹونز کی وجہ سے گھر بیٹھنا پڑا ۔ تو اس وقت تک میں اپنے کام نبٹا کر کانونٹ سے اب پوری طرح سکول میں محو ہو گئی تھی ،،، ،۔
ذرا سا میں سکول کے ابتدائی دنوں کا مزید ذکر کرنا چاہوں گی کہ ہم نے اس کے سلیبس کو بنانے کے لیۓ جینی کو ساتھ ساتھ رکھا کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے انگلش کی ٹیچر تھی اور اس فیلڈ میں اس کا بہت تجربہ تھا ،، ہم سب نے کئی ہفتے پنڈی کے بہت سے بکس سٹالز سے انگلش اردو اور میتھس کی کتابیں خریدنا اور پھر جس لیول کے بچوں سے ابتدا کرنی تھی ، اسی لیول کی کتابیں لے کر، آپس میں تقسیم کر لیتیں ، جوجی کاؤنٹنگ ، ڈرائنگ ، یا سٹوری بکس کا مطالعہ کرتی ،، میں نے صرف اردو اور جنرل نالج ، یا اسلامیات کا ذمہ اُٹھایا ، اور جینی کو انگریزی لیول کی مشاورت دی گئی ۔ ،،،،،، کہنے کا ، مقصد یہ ہے کہ اس پراجیکٹ کو چلانے سے پہلے ہم نے اٹکلپچو انداز اختیار نہیں کیا ،،، بلکہ اسے بہت ذمہ داری سے بہت کچھ سوچ بچار کے بعد شروع کیا۔ کیوں کہ ہم نے قوم کے بچوں سے مذاق نہیں کرنا تھا ، کہ چلو جی اب ہماری آمدن ، دن دُگنی رات چوگنی ترقی کرے گی،،،، ! ہم نےسوچاتھا کہ ہم مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کو پیشِ نظر رکھیں گے ، اور اُن تک بہترین تعلیم پہنچانے کی کوشش کریں گے ،،،،، اب یہ فیصلہ تو ہمارے ادارے سے فارغ التحصیل ہو کر جانے والے طلباء اور اُن کے والدین ہی کر یں گے کہ ہم کس حد تک کامیاب رہے ،،،، ،،، اس بارے کچھ واقعات ان شا اللہ آگے بیان کروں گی۔
( منیرہ قریشی ، 28 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

پیر، 27 نومبر، 2017

یاادوں کی تتلیاں (52)۔

یادوں کی تتلیاں "(52)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کانونٹ سکول میں 5 سال مکمل ہوۓ ،،، تو جیسا کہ میں نے پہلے لکھا تھا کہ ہم دونوں بہنوں نے اپنا سکول شروع کرنے کا ابتدا ئی کام بھی کرنا شروع کر دیا تھا،،، اس وقت 1990ء کا آخیر تھا، میں کلاس نہم ،دہم کو اردو ، اسلامیات پڑھا بھی رہی تھی ، اور نہم کی کلاس ٹیچر بھی تھی۔ انہی دنوں میں نے سسٹر مونیکا کو بتا دیا ،، یہ میرا آخری سال ہو گا ، موجودہ نہم کو دسویں کروا کر سکول چھوڑنے کا ارادہ ہے، کیوں کہ ہم ایک " ابتدائی کلاسز" کا اپنا تجربہ کرنے جا رہی ہیں ! لیکن میں بچوں کو درمیان میں نہیں چھوڑوں گی۔ سسٹر اس بات پر بہت خوش ہوئیں کہ لوگ چند دن پہلے یا چند ماہ پہلے بتادیتے ہیں ،، تم تو سال سے بھی ذیادہ وقت ہے اور ہمیں بتا رہی ہو ! انھوں نے دعا بھی کی کہ اللہ تمہیں کامیاب کرے ۔ اور انہی دنوں انھوں نے " ویل وِش " کے طور مجھے تین نئے رجسٹر دیۓ کہ یہ تمہارے کام آئیں گے ! یہ میری طرف سے تمہارے سکول کے لیۓ !! یہ میری زندگی کی پہلی ملازمت تھی ، لیکن بہت سے اچھے اُصول میں نے یہاں سے نہ صرف سیکھے بلکہ اَپلاۓ بھی کیۓ۔ ان میں سے جس اہم اُصؤل کو اپنایا،، وہ یہ بھی تھا( اور ہے) کہ جو ذمہ داری اُٹھائی ہے، چاہے کچھ ہو جاۓ اسے ایمانداری سے نبھاؤ، ،،، ہماری بہت سی اہم مجبوریاں آڑے آتی چلی جاتی ہیں لیکن ، وعدہ ، پورا کرنے سے جو اطمینان اور برکت ملتی ہے ،،، اس کا کوئی جواب ہی نہیں !!!۔
وقت چلتا جا رہاتھا کہ ، جینی کو انگلینڈ کی ایک یونیورسٹی میں " تھیالوجی " میں ایم اے کے لیۓ سکالر شپ پر داخلہ مل گیا ! اور ہم سب نے اسے محبتوں ،کے ساتھ رخصت کیا ۔ ہمارے گروپ سے مسز تاج کے جانے کے بعد ،، جینی کے غیر ملک جانے ، اور پھر نیلو کی شادی نے ہمارے ریسیس میں لگنے والے قہقہوں کی آواز کو کچھ مدھم کر دیا تھا ۔ لیکن مسز خان ہوں ، اور ان کے شرارتی کمنٹس نہ ہوں ، یہ ہو نہیں سکتا تھا۔ ان کے ساتھ جولیانہ اور نازش بھی کم نہ تھیں ، ہم باقی خواتین، اِنھیں انجواۓ کرتیں ! ،،، دوسری طرف اپنا سکول جس کا نام " مارگلہ گرامر سکول " تجویز ہوا ،،، اسے جوجی اور بڑے بھائی جان نے چلانا شروع کر دیا انکی کوششیں رنگ لانے لگیں ، بورڈ لگ گیا ،، ، جوجی بطورِ پرنسپل ، اور ہماری بھانجی نشمیہ پہلی ٹیچر مقرر ہوئی ،، کلاسز تو تین تھیں ، اس لیۓ دو اور ٹیچرز بھی سیلیکٹ کی گئیں، اِن میں ایک ازکیٰ عثمان تھی دوسری مسز فرزانہ عمران تھی،،، ان سب کی آپس میں"کوآرڈینیشن" اتنی اچھی ہوئی کہ اُس دور میں پڑی دوستی کی بنیاد آج تک چل رہی ہے ، سکول سے متعلق مزید تفصیلات آگے بیان کروں گی ،،،،، پہلے کونونٹ سکول سے رخصت ہونے کا ذکر کر دوں ،،، جیسے جیسے وقت اور آگے بڑھا ،1992ء آچکا تھا میں زور وشور سے اپنی کلاسز کا کورس ختم کروا رہی تھی، جماعت دہم ، جس کی میں کلاس ٹیچر تھی ، اِنھوں نے بطورِرخصت ہونے والی جماعت کے سکول کے لیۓ تحفہ میں" مائک" خریدا ،، کہ یہ ایک روایت تھی۔جانے والی کلاس سکول کی ضرورت کی کوئی چیز تحفہ دیتی تھی۔ اور اس دوران جوجی کو جو پریگرینٹ ہو چکی تھی ،، اور جڑواں بچوں کا علم ہونے پر اس حالت میں بھی سکول آتی رہی ، اس سے جتنا کام نبٹا یا جاسکتاتھا نبٹایا ۔،،، اس دوران سکول میں 70 ،80 بچوں کی تعداد ہو چکی تھی۔، اور ایک اور ٹیچر مسزانجم رضوی بھی اس سکول کو جوائن کر چکی تھی ،،، جوجی اور بھائ جان کا کہنا تھا کہ تم کانونٹ سے ریزائن کرو اور اس اپنے پراجیکٹ کو دیکھو کہ اس وقت سخت ضرورت ہے ،،،، لیکن میں نے صاف کہہ دیا ،چاہے کچھ ہو جاۓ ، میں نے جو وعدہ کیا ہے کہ مارچ کی الوداعی پارٹی دے کے دہم کو رخصت کر کے آ جاؤں گی ۔ 
میری ضد کے پیشِ نظر،بڑے بھائی جان نے کافی کام خود سنبھال لیۓ اور اکاؤنٹ اور پرنسپل کی سیٹ پر انجم رضوی کو بٹھایا ،،، اس دوران ، 16 دسمبر 1992ء کو اللہ پاک کی مدد سے جوجی کے گھر  جڑواں بیٹیاں آئیں ، جن کی آمد نے سب ہی کو مصروف کر دیا ۔دوسری طرف مارچ آگیا اور ہمارا نہم دہم کا سارا کورس مکمل ہو گیا،دہم کے اعزاز میں جو پارٹی ہوئی وہ یادگار رہی،،، اس سے ا گلے دن میرے لیۓ کانونٹ کی ٹیچرز نے پارٹی رکھی تھی اور یہاں بھی روایت تھی کہ جانے والی ٹیچر کو کوئی ٹی سیٹ ، یا جوڑا وغیرہ دیا جاتا تھا، ،،،،،،،،،، میں نے سختی سے کہا ،خبردار جو مجھے یہ چیزیں دیں ،،، دینا ہے تو صرف کتاب دینا ،،،، پوچھا گیا کون سی کتاب ! ! اس زمانے میں ممتاز مفتی صاحب کی " الکھ نگری" آچکی تھی ، اور ذرا ان کے بجٹ سے ذیادہ تھی ،،،، میں نے کہا جتنے پیسے کم پڑ  گئے میں خود شامل کر دوں گی ،،، ( اور میرا خیال ہے میں ہی اب تک کی مہمان ہوں جنھوں نے میزبانوں کی تحفے میں حصہ ڈالا تھا ) اور میں نے 300 روپے شامل کیۓ اور " الکھ نگری " آج بھی میرے بک شیلف پر موجود ہے ! ! ۔ 
جس وقت میں نے اس سکول کو چھوڑا ، ، ، سسٹر مو نیکا کی ٹرانسفر ہو چکی تھی اور ، ان کی جگہ سسٹر مارگریٹ آچکی تھیں ،،، جب بھی کسی ادارے میں نئے بندے کی بطورِ ہیڈ تعیناتی ہوتی ہے ،،، اس میں کچھ معاملات میں تبدیلیاں آتی ہیں،، ہر کسی کا اپنا مزاج بھی ان تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے ! میں خوش قسمت تھی کہ میں نے سسٹر مونیکا کے انڈر کام کیا ، وہ خود بھی اَنتھک خاتون تھیں اور کام کرنے والے کی بھی دلی قدر کرتیں تھیں ،، ساتھ ساتھ گائیڈ کرتیں اور ہمیشہ عزت و احترام کا رویہ اپناتیں ۔ ہم سب انہی کے عادی تھیں ۔ لیکن سسٹر مارگریٹ نے بھی آکر اپنا آپ منوانا شروع کیا ،،، ہمارا آپس میں اچھا ریلیشن قائم ہو گیا لیکن جیسے ہی میں مارچ میں رخصت ہوئی ،،،، انھوں نے مجھے آفس بلایا ، اور مجھے اردو پڑھانے والے ٹیچنگ سٹاف میں سے نہم دہم کے لیۓ تجویز مانگی کہ کس کو دوں ؟ یہ بات بھی میرے لیۓ اعزاز تھی ، ،، خیر میں نے دلی طور پر مشورہ دے دیا ۔ لیکن انھوں نے ایک ریکوئسٹ کی کہ " جب تک "یہ " مزید ٹرینڈ نہیں ہوتیں !!!آپ کو ریسیس کے بعد آپ کے اپنےسکول سے ہماری جیپ لینے آجایا کرے گی ! آپ صرف نہم ، دہم کے پیریڈ لے لیا کریں ،،،،،، یہ بات بھی میرے لیۓ خاصا مشکل تھی کہ صبح سویرے سے دوپہر 12 بجے تک میں ، اپنے اِس مارگلہ سکول میں رہوں ،،، اور 12 سے 2 بجے تک ان کے پاس آکر پڑھاؤں بھی ، کاپیاں بھی چیک کروں ،،،  صرف ان دو پیریڈ لینے کے بدلے انھوں نے فُل سیلری دینے کا کہا !! حالانکہ یہ تھکا دینے کا سلسلہ تھا ۔  میں نے اس ذمہ داری کولینے کی اس شرط پرکہا کہ یہ کام صرف دو ماہ کے لیۓ ہو گا ! وہ بھی مان  گئیں ۔ ،،، لیکن وہ ان  سے شاید مطمئن نہیں ہو پا رہی تھیں ، ،،، چنانچہ یہ سلسلہ 6 ماہ چلا ،لیکن میں اتنا تھک جاتی کہ میرا وزن بھی کم ہوا، اور میں ذرا چڑ چڑی بھی ہو گئی! آخر اپریل تا نومبر یہ سلسلہ چلا ،،، اور میں نے اپنا کورس کافی حد تک ختم کرادیا ! اور ایک دن سرینڈر کر دیا کہ اب نہیں آ سکتی ۔ مارگلہ سکول میری غیرموجودگی کے گھنٹوں میں انجم رضوی سنبھالتی ! وہ بہت مخلص ، دیانت دار اور ایک اچھی ٹیچر تھیں ، اور اس اضافی ڈیوٹی پر اس نے کبھی ناک منہ نہ چڑھایا۔ یہ اس کا بڑا پن تھا ! بڑے بھائی جان مسلسل اس کی مدد کے لیۓ دستیاب ہوتے ۔ ،،، اور یہ ایک ایساتجربہ رہا ،، جو بہت کچھ سکھاتا ہے ، ،،، !۔
(منیرہ قریشی، 27 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

ہفتہ، 25 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(51)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( 51) ۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کونونٹ سکول کو میں نے فروری1988ء میں جوائن کیا۔ اور جس طرح میرا ، اچھا وقت گزرا ، اسی لیۓ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ یہاں میرا " گولڈن پیریڈ" گزرا۔ اس لیۓ کہ میں اندر سے سراپا ٹیچر تھی ،، موقع تین بچوں کی اماں بننے کے بعد ملا،،، میں بھی عمر کے لحاظ سے میچور اور اپنے بچوں کو پڑھا ، پڑھا کر آدھی استانی تو بن ہی گئی تھی ،،، باقی آس پاس کے ہمدردوں نے کمی پوری کی ، اور پھر جو اپنے طور پر سیکھا ، پرنسپل نے ٹھیک 10 مہینے بعد بلا کر کہا،، بی ایڈ کے پیپرز ہونے والے ہیں آپ بھی داخلہ فارم فِل کریں اور بی ایڈ کر لیں ، اور دو ماہ بعد پیپرز بھی ہو گئے ، رزلٹ بھی آگیا ، اور مزید مجھے  مستقل بھی کر دیا گیا ، میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ مجھے شروع سے ہی نویں ،دسویں ،اور آٹھویں کی کلاسز ملیں۔،،،، صرف ایک سال ایسا آیا ،،،،، جب مجھے ساتویں کلاس کی سوشل سٹڈڈیز  دی گئی۔ ہمارے ملک میں یہ مضمون نہ معلوم کیوں ، بہت غیردلچسپ انداز سے ترتیب دیا جاتا ہے ،،، ( مجھے آج بھی یہ شکایت ہے ) ۔ میں تو خود اس مضمون کو بوجھ سمجھ کر پڑھتی رہی، اپنے بچوں کو بھی بڑی بےزاری سے پڑھایا ،،،تو میں اب کیسے ساتویں جماعت کے 55 بچوں سے بےانصافی کرتی ؟ دراصل ، اس سال ایک ٹیچر کی اتفاقی غیرموجودگی پر اس کے پیریڈز بانٹنا پڑ گۓ،، میں نے ذمہ داری لے تو لی لیکن ، اس شرط پر کہ اگلے سال یہ مضمون مجھے نہ دیا جاۓ۔اس کی کتاب لے کر گھر آکر 10 دن خوب اچھی طرح سٹڈی کی (چھٹیاں تھیں) اس دوران اسے دلچسپ بنانے کے طریقے سوچتی رہی سب سے پہلے اس کے تین حصے کیۓ ، ایک حصہ صرف "اوبجیکٹو سوالات کا " دوسرا " سبجیکٹو " ! اور تیسرا زبانی یا وائیوا ,,,,,,, اور جب میں نے بچوں کو بھی یہ ہی آؤٹ لائن لکھوا دی ، تو وہ کچھ حیران ہوۓ کہ وہی  روایتی سوال جواب سے ہٹ کر کیا ہو رہا ہے !!! اصل میں مجھے یہ نکتہ بھی سُوجھ گیا کہ یہ کون سی بورڈ کلاسز ہیں ، کہ مخصوص پڑھانے کی پابندی ہو ، چلو یہ تجربہ کر دیکھوں۔ اور جناب چند دن میں بچوں کا بھی یہ حال کہ وہ مزید پڑھنے پر اصرار کرتے ،،، اسی دوران وہ  باب آیا جب برِصغیر کی مختصر  تاریخ اور اس پر بیرونی حملہ آوروں کا حال بیان ہوا تھا ! تب میں نے ایک اور تجربہ کیا کہ ایک بہت صحت مند بچی کو بہت سستے کپڑے کاایک بڑا سا چوغہ پہنایا جس پر برِصغیر کا نقشہ بنا یا گیا تھا۔ اب دو بچیوں کو محض چہرے کے میک اَپ اور ایک ایک چوغہ ، اطالوی ، پھر دو کو فرانسیسی ، دو کو انگریزوں کے گیٹ اَپ کے ساتھ ،، بہت مختصر انداز سے ایکٹ کر کے کروایا ، اور وہ برِ صغیر پر حملہ کرتے ، پھر مقامی لوگوں کی جدو جہد دکھا دی !!! یہ سب اپنی ہی کلاس روم میں اسی ساتویں جماعت کے بچوں کے سامنے کیا گیا ،اور ان کے یونیفارم کے اوپر چوٖغے پہنا دیۓ، اور اسی سوشل سٹڈیز کے پیریڈ میں کیا ،، اس لیۓ کہ وقت ضائع نہ ہو، اور دوسرے یہ کہ بچے ڈرامے کے ذریعے اپنی معلومات کو دلچسپ انداز سے سیکھیں ،،، پھر مجھے خیال آیا ابھی 25 منٹ کی ریسیس ہونی ہے ،، کیوں نا اپنی واہ واہ کروا لوں ! چناچہ بچیوں سے کہا ، ایک دفعہ اور یہ ایکٹ کر دینا ،،، سسٹر مونیکا سے جا کر درخواست کی کہ آپ بھی بچوں کو " بَک اَپ " کر دیں وہ اور دو تین فارغ ٹیچرز کو بلا کر دکھایا ! سبھی نے اس آئیڈیا کو پسند کیا ، ، بلکہ مسز ظفر کم ہی تعریفی جملے بولتی تھیں ، اس موقع پر انھوں نے بھی دل کھول کر نہ صرف تعریف کی بلکہ ، باقی ٹیچرز سے کہا کہ مسز قریشی نے جس طرح سوشل سٹڈیز کی کتاب کو سیٹ کیا ہے ، آگے آنے والی ٹیچر کو اسے ہی فالو کرنا چایئے،، ایک مدت گزر گئی ،، وہ ساتوٰیں جماعت کہاں گئی! لیکن ایک دن ایک پیاری سی جوان بچی ایک مینا بازار میں ملی ، اور کچھ دیر غور کرنے کے بعد مجھ سے پوچھا، آپ مسز قریشی ہیں " ؟ ۔۔۔ میں نے جی کہا ،تو وہ محبت اور احترام کے ساتھ بولی " میم ،، آپ نے برِصغیر کی کہانی جس طرح ڈرامہ کر کے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی تھی ، اب میں اپنے بچوں کو اسی طریقے سے پڑھاتی ہوں ، تو وہ جلدی سمجھ لیتے ہیں ! میم ، میں نےاِن کی ٹیچر کو بھی یہ طریقہ بتایا تو وہ بھی کرواتی ہے۔  (یاد رہے یہ 28سال پہلے کا قصہ ہے ) اس بچی کا اس طرح کہنا ، مجھے کتنا اچھا لگا ،، میں بتا نہیں سکتی ، کیوں کہ چند ایک کے لیۓ بھی کسی مضمون کو راغب کر لینے میں کامیابی ہو جانا ، بہت کامیابی ہے ( میرے نزدیک)!میں نے کوشش کی اور الحمدُ للہ ! اکثر کامیابی ہوئی ! سکول میں  سالانہ ایسا " ایگزیبیشن " منعقد ہوتاتھا جو کلاس ٹیچرز کے اپنے ٹیلنٹ اور بچوں کی کاوش کا اظہار بھی ہوتا تھا ۔ میں نے پہلے سال دیکھا ، اور صرف سیکھا ! اگلے سال کی تیاری میں نے اس طرح کی کہ ایک طالبہ کو ڈیوٹی دی کہ ہر طالبہ سے ہر مہینہ دو روپے لے، اور ایک کاپی پرسارا حساب لکھتی رہے،جب " ایگزیبیشن " کے دن قریب آۓ ، طالبہ نے حساب دیا ، شاید 50 یا 60 روپے کم تھے وہ خود شامل کیۓ اور میٹریل لا کر سب طالبات سے کہا کہ " سولر سسٹم " ارینج کرنا ہے ،، بچیوں نے بہت ٹیکٹ سے یہ سسٹم بنایا ، اور نہایت آسان طریقے سے سمجھ آجانے والے انداز سے ، سب سوالوں کے جوابوں سمیت تیاری کر لی ۔ دوسرا پروجیکٹ ، پھر سوشل سٹڈیز سے متعلق تھا، بلکہ جنرل نالج ہی سمجھۓ ! کہ دنیا کے اہم پہاڑ جنھیں " سر " کیا جا چکا ہو ، یا کیا جاتا رہا ہے ،،، ان میں سے پانچ پاکستان میں ہیں ،، مٹی سے پہاڑ بناۓ گے اور اوپر روئ سے برف کا افیکٹ دیا ! اور ان پہاڑوں پر چھوٹے چھوٹے پاکستانی جھنڈے نصب کیۓ ان پہاڑوں کے ناموں کے ٹیگ لگاۓ ۔ اور باہر سے آئی ٹِیم ، جن میں دو آئرش سسٹرز اور دو پاکستانی سسٹرز تھیں ، نے اس سال میری کلاس کو سیکنڈ پوزیشن کا حقدار سمجھا ! اور مجھے " ایکسیلنٹ پرفامنس کاسرٹیفیکٹ ملا ، اور میرا خیال ہے کسی نئی ٹیچر کے لیۓ یہ حوصلہ افزائی بہت تھی۔ 
اسی طرح مجھے یہ قصہ بھی آپ سب سے شیئر کرتے ہوۓ خوشی ہو رہی ہے کہ مجھے سکول جوائن کرنے کے پہلے سال جو نویں ، دسویں دی گئیں ،، ان کے جانے کے دن قریب تھے ، اس لیۓ میں ان چند مہینوں ، یا سال بھر کی محنت کو میں اپنے کھاتے میں نہیں رکھوں گی ! البتہ جس کلاس کو آٹھویں سے دسویں تک پڑھایا ،،، وہ خاصی کمزور جماعت کہی جا سکتی ہے ، اصل میں ایک سیکشن سائنس کا تھا جس میں مقررہ پرسنٹیج لینے والی طالبات وہاں لی جاتیں ، دوسرا سیکشن آرٹس گروپ کا تھا ، بقایا سب لڑکیاں یہاں بیٹھتیں ، اب ان بچیوں میں اگر کوئی بہتر یا ذہین لڑکی آ جاتی تو ٹیچر کی خوشی دوبالا ہو جاتی ۔ سائنس گروپ مسز تاج لیتیں تھیں ، ، اور مجھے آرٹس گروپ ملا ، انہی میں چند بچیاں ، پڑھنے والیاں تھیں ، میں نہ صرف کلاس ٹیچر تھی بلکہ اردو ، اسلامیات پڑھاتی بھی تھی ۔ اپنی سی محنت جو کر سکی ، کی ،،، اس زمانے میں نویں ، دسویں کا بورڈ امتحان اکٹھا ہوتا تھا ! باقی آرٹس کے مضامین ، کی ٹیچرز سے اُن طالبات کی پراگریس معلوم کرتی رہتی تھی۔ خیر سالانہ امتحان ہوا ،، رزلٹ نکلا ، اور میری کلاس کی بچی " خمسہ عابد " نے بورڈ میں سیکنڈ پوزیشن لی ! ! ان دنوں  کُل نمبر 850 تھے خمسہ نے 715 نمبر آرٹس میں لیۓ ۔ بورڈ میں فسٹ آنے والی لڑکی کے 718 نمبر تھے ۔ اُس دور میں رزلٹ اخبار کے گزٹ کے ساتھ آتا ، اور بچوں کی تصاویر اور خبریں جن اخبارات میں چھپیں ! سکول نے بھی سنبھال کر رکھیں ، اور مجھے تو جینفر نے کہا یہ اخبار سنبھال کر رکھنا ، کبھی کام آۓ گا ، اب وہ "پرانے خزانے" میں تلاش کروں گی ، جس وقت ملا ، شامل کروں گی ،،،،، یہ ہی کامیابیاں ،،، اور کچھ سیکھنے کا جذبہ تھا جس نے مجھے " خود " کو دریافت کرنے کا موقع ، مجھے لگا کہ ٹیچنگ لائن میرے مزاج کےعین مطابق ہے ! یہ سب اُس رب کی مہربانیاں ہیں ، کہ اس نے میری انگلی پکڑ کر ، پہلے بی اے مکمل کروایا ، پھر سکول میں تربیت کروائی ،، بی ایڈ کر لیا ،پھر اچھے لوگوں کے درمیان وقت گزروایا ،،، اور ایسی کامیابیوں سے ہمکنار کیا جس سے اعتماد آتا چلا گیا ،،، میرے پیارے اللہ تعالیٰ ، میرے پاس تیری ان نعمتوں کے لیۓ کوئی اظہارِ الفاظ نہیں ! جو تیری شایانِ شان ہوں۔ الحمدُ للہ !!! ۔
( منیرہ قریشی ،25 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

جمعرات، 23 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(50)۔

یادوں کی تتلیاں (50)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کانونٹ سکول میں اس کلوز گروپ میں ایک ساتھی افتخاردلاور تھیں ، وہ بھی کئی سال پہلے بی اے کے فوراً بعد اس سکول میں آگئی تو ، نیلو کی طرح اب سینئر ٹیچرز میں شمار ہوتی تھیں، وہ اور اسکے شوہر اپنے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کے لیۓ سخت محنت کے دور سے گزر رہے تھے ، لیکن اس کا دل بہت بڑا ہے ، گھر میں خوش آمدید کہنا ، اور گروپ کی طرف سے چھوٹی بڑی ذمہ داریاں نبھاتی رہتی ،،، کیوں کی وہ حسن ابدال کے ان بہت پرانے وسیک خاندانوں میں سے ہیں جن کا تعلق حسن ابدال کی اینٹ اینٹ سے ہے ،، محلے داری سسٹم مضبوط ہے ،،، جُڑے جُڑے گھروں کے ایک جیسے ، کھانے ، ایک جیسے پہناوے، ایک جیسے مسائل ، ایک جیسی دوستیاں ، دشمنیاں ،،،، لہذٰا اس کی گھریلو سطح پر ، سُناروں کے گھر آنا ، جانا ہے ، تو رنگریز بھی اپنے ہی ہیں ،،، تو برتنوں والے بھی بس اپنے ہیں ،،، کوئی فکر نہیں ! کوئی مسئلہ ہی نہیں !! ،،، چناچہ ہم سب خواتین نے اپنی اپنی تنخواہوں سے وہیں" کمیٹی " ڈالی ہوئی تھی جس کی کمیٹی نکل آتی ! وہ سب سے پہلے افتخار کو اچھی خاصی رقم دے دیتی، کہ لو بھئ میرے لیۓ، فلاں برتن لے آنا ،، یا فلاں کپڑا ،، یا زیور ،،، اس لیۓ کہ اگر پسند نہ آیا تو واپس ، اگلی دفعہ بھی پسند نہ آیا پھر واپس ،،، اگلی باری ! !  اور یہ دلچسپ سلسلہ چلتا کہ، ایک کے لیۓچیز آتی تو مزید دس کو بھی پسند آجاتی،،، اور بےچاری افتحار کسی کو انکار نہ کرتی۔لیکن یہ ایک ایسا "کاروبار" تھا جو خالص زنانہ دلچسپی کا حامل تھا ،،، جو شاید آج بھی دل لگی کی خاطر جاری ہوگا ، اور افتخار کی جگہ کسی اور نے لے لی ہوگی ،،، لیکن بہت مزا رہتا ۔ افتخار اکثر گھبرائی سی بھی رہتی ،،اور شازیہ اُس کے اِس رویے سے بھی مزاح کا رنگ نکال لیتی ، لیکن اپنی محنت سے اس نے بچوں کو خاص مقام تک پہنچا دیا ۔ آج بڑا بیٹا ڈاکٹر ، چھوٹا انجینئر ہے،اور سب سے چھوٹا سی اے کر رہا ہے ، ایک بیٹی بی اے کے بعد اپنے فوجی شوہر کے ساتھ خوش آباد ہے ، دوسری نے سائیکالوجی میں ماسٹر کر لیا ہے ،،،،۔
ہم سب میں عمر میں کم کوکب تھی ، جو نفیس ذوق کی مالک،بی ایس سی کے بعد اس سکول میں بی ایڈ کے لیۓ آئی اور پھر یہیں کی ہو کر رہ گئی ۔ اپنے خالص اہلِ زبان ہونے کی سُتھری زبان سے ہمیں محظوظ کرتی ،لیکن اس کی چند عادتیں اچھی تھیں کہ ہر ایک کی بہت عزت کرتی ، جو بناتی پرفیکٹ ذائقے کے ساتھ بناتی ، ، جب بھی ہم سب نے اکھٹے کہیں جانا ہوتا، جہاں تحفہ دینا ہے تو یہ ذمہ داری اسی کے حصے میں آتی ،کہ وہ تحفہ خریدے سب کو دکھاۓ ، پیک کرے ، اور سب کی کنٹریبیوشن لیتی ،،،ہاں ایک اس کی بری عادت تھی کہ وہ جب ہمیں دعوت پر بلاتی تو ہم سب اپنی محبت سے اس کے کام کو ہلکا کرنے کے خیال سے ،،، اسکے برتن دھونے کی آفر کرتیں، لیکن وہ صاف کہہ دیتی، آپ لوگ بےشک مجھ سے ہمدردی کریں لیکن ،،، میں سارے برتن دوبارہ دھوؤں گی ! اور ہم کچن سے واپس ہو جاتیں ۔ کیوں کہ اسے کسی کے کام سے تسلی نہیں ہوتی تھی،، اور نہ اب تک ہے !!!، شادی کے دس یا بارہ سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے پہلی بیٹی دی ۔ یہ اتنی اہم خبر تھی کہ باقاعدہ سب نے دلی طور پر اس کی خیریت کی دعائیں کیں۔ اور جب ننھی بچی دنیا میں آگئی تو ہم سب نے بھی خوب خوشی منائی ،، اور پھر دوسال بعد دوسری بچی نے آکر ان کی فیملی کومکمل کر دیا ،،،، آج وہ وقت آچکا ہے کہ بڑی بیٹی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے گھر کی ہو چکی ہے اور دوسری کے نکاح کے بعد رخصتی کی تیاریاں جاری ہیں ۔ کوکب ، میری بھانجی لبنیٰ کی کلاس فیلو بھی ہے ، اور ان کلاس فیلوز کا گیٹ ٹو گیدر آج بھی ہوتا ہے،ان کا آپسی دوستی کا محبت کا دریا جاری ہے مللہ اسے دیر تک جاری رکھے آمین !۔
مسز نازش ظفر ،، اور میں نےتقریبا" ساتھ ہی سکول جوائن کیا تھا، وہ ایک پُرکشش ، لمبی سی ، خوب صورت ہاتھ پاؤں کی مالک خاتون تھیں۔اس کے ہاتھ، پاؤں کی رنگت ،، اس کے اصل رنگ سے کافی صاف تھی ، اور کھلی جوتی اس کے پاؤں میں نکھر جاتی ، میں نے اسی لیۓ اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ان کے سُتھرے ہاتھ ،پاؤں دیکھ کر مسز تاج نے کہا تھا " لگتا ہے ظفر صاحب نے آپ کو ان ہاتھوں ، پاؤں کو دیکھ کر پسند کیا ہوگا "،،،لیکن اس نے خود بھی اعتراف کیا کہ میں ان کی صفائی کا خاص خیال رکھتی ہوں ،،، شروع دور کے دو تین مہینوں میں جہاں مجھ سے حماقتیں ہوتی رہیں ،،، وہیں مسز ظفر کی بھی پہلی جاب تھی لیکن وہ ذرا رعب ڈالنے کے رویے کو اپناۓ ہوۓ تھی ، دراصل وہ آئی۔جی کی بیٹی تھی ، اور اسے رعب دار لہجہ شاید نارمل لگتا ہو گا۔ اس لیۓ شروع میں اس کا لہجہ اُونچا بھی ہو جاتا ، لیکن جینی ، اور نیلو نے بہ احسن ،،، ہمیں ٹریک پر کر لیا ، اور بعد میں آپس میں کبھی قیل قال ہو جاتا تو یہ ہی دونوں عقل مند بیبیاں ، درمیان میں آجاتیں ۔ اس سب کے قطع نظر، وہ ایک بہترین ، اور محنتی ٹیچر ثابت ہوئی ، جینی کے انگلینڈ جانے کے بعد نازش نے ہی بورڈ کلاسز کو انگلش لی ، اور بہت اچھے رزلٹ سامنے آۓ۔ نازش کے ایک بیٹا ایک بیٹی ہے،بیٹی کی شادی بی اے کے فوراً بعد کر دی اوروہ امریکا میں سیٹل ہے جبکہ نازش اور ظفر صاحب بھی اب امریکن شہری ہیں ، بیٹے کی شادی اس نے پاکستان میں کی کیوں کہ وہ یہیں رہتا ہے اس موقع پر اس نے سب پرانی کولیگز کو بلایا،اور ایک طرح سے ہماری " ری یونین "بھی  ہو گئی !۔ 
یہ جو میں مختلف لوگوں ،، یا اپنی کلاس فیلوز ،، یا کولیگز کی جوانی کی سچویشن لکھ رہی ہوں کہ شروع دور میں کیا کچھ حالات تھے، پھر سعی اور جہد کے دور کی سچویشن بھی لکھ رہی ہوں کہ اللہ نے انھیں کہاں تک پہنچایا۔تو اس لیۓ کہ ، اس قسم کے دور سے گزر، رہے لوگ صرف اللہ سے" بہترین گمان" کریں ، اللہ ضرور سب کی سنتا ہے اور حالات میں تبدیلی بھی آہی جاتی ہے، اور محنت کا اجر اللہ پاک ضائع نہیں کرتا ۔
صرف اُس ذات پر یقینِ کامل ہو ، اور یہ کہ میرے لیۓ جو بہترین ہے میرا اللہ وہ چیز ، مقام ضرور دے گا۔
کانونٹ سکول کی ٹیچرز کی تنخواہیں کم ہی تھیں ، لیکن اچھی بات یہ تھی کہ وہاں اس دور میں کوئی خاص سیاست نہ تھی ، ہر کوئی اپنے کام کو " دی بیسٹ " کرنے کی کوشش کرتا ، اور ماحول نہایت شریفانہ ، اور محفوظ بنا دیا گیا تھا کہ جو آیا پھر سالوں رہا ۔ لیکن اِن تھوڑی سیلریز میں بھی برکتیں ہوتیں ، انہی سے سکول میں ویلفیئر کے کام بھی ہورہے ہیں ، زیور ، کپڑے بھی آرہے ہیں ، اور سب سے بڑی بات کہ موقع کے مطابق "ٹریٹ " بھی شاندار طریقے سے دی جارہی ہیں ،،، مجھے آج بھی یاد ہے ، جس دن مجھے بی ایڈ کی ڈگری ملی ، تو سارا سٹاف سَر ہو گیا کہ دعوت ہونی چاہیے ، تو میں نے ان 70 کے قریب سٹاف کو نان کباب اور کھیر ، کھلائی ، اور بہت کچھ بچ بھی گیا ۔ اگرچہ اُس ایک ماہ کی  تنخواہ   وہیں لگ جاتی ،، لیکن ہر فرد سرخوشی میں ہوتا ، شاید کھلانا ،،،، اللہ کو پسند ہے اسی لیۓ دل بھی ایک عجیب خوشی کی کیفیت سے گزرتا ہے !! الحمدُ للہ !۔
( منیرہ قریشی ، 23 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری)

بدھ، 22 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(49)۔

یادوں کی تتلیاں "(49)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کانونٹ سکول کے گروپ میں اگلا ممبر جس کا ذکرخیرکر رہی ہوں ، وہ شازیہ اظہرخان ہیں جن کو مسز خان ہی کہا جاتا ہے۔ وہ اس گروپ کی سب سے چُلبلی ، ہر ایک سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہنا ، ہر بندہ کو اس آنکھ سے دیکھنا کہ اس سےمزاح کا کون سا رنگ نکل سکتا ہے،اس میں یہ " سینس آف آبزرویشن " اتنی گہری ہوتی کہ ہم سب بھی قہقہے لگانے پر مجبور ہو جاتیں۔ کہ جس طرف کسی کا ذرا سا بھی دھیان نہیں جا سکتا ہے، اس طرف اس کا دھیان جاتا ، وہ اگلے کی نقل اتارنا، دوسرے کے الفاظ کو پکڑ لینا، کسی بھی موقع محل کو خاطر میں لاۓ بغیر اگر اس کی حسِ مزاح پھڑک اُٹھتی تو پھر ہمارے لیۓ ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا ،،،،،اسی لیۓ اگر کبھی ایسے موقع پر اکھٹے ہونا پڑتا جہاں سخت سنجیدگی کی ضرورت ہوتی، تو کم ازکم میں اس سے دور بیٹھتی یا اس کی طرف نہ دیکھتی، تاکہ وہ کوئی ایسا جملہ نہ کہہ دے ،جو اس ماحول کے مدِنظر، میرے لیۓ خود کو سنبھالنا مشکل نہ بنا دے۔ اتنے کٹھن بددل کر دینے والے حالات سے ہم میں سے کچھ، کسی نا کسی طور گزر رہی تھیں ۔لیکن یہاں ہمیں آپس میں ریسیس کے 25 منٹ میں ہی اتنا ہنسی مذاق کا موقع مل جاتا کہ ہم ،،، (کم از کم میں ) سب فریش ہو جاتیں، جب میں نے سکول جوائن کیا تو شازیہ اظہر کو سکول میں آۓ، دو ، ڈھائی سال گزر چکے تھے وہ کلاس تھری کی بہت اچھی ٹیچر تھیں جن سے سسٹر مطمئن تھیں ،،،، اس نے بی اے ، میں اردو ادب پڑھا تھا ، لیکن اردو ادب سے بس واجبی سا واسطہ رہ گیا تھا ،،، اس کے شوہرکوڈیپوٹیشن پر تین سال انگلینڈ رہنے کا موقع ملا ، تو بچوں نے سکولوں کی وجہ سے صرف انگریزی بول چال رکھی، تو ماں باپ نے بھی اسی زبان کو آپس میں بول چال کا ذریعہ بنایا،اس لیۓ جب وہ وطن واپس آۓ تو یہ ہی زبان گھر میں بولنے کا رواج پڑ چکا تھا ، شاید اسی لیۓ اردو ادب سے دوری ہو گئی تھی ۔ حالانکہ خود اظہر صاحب انجینئر ہی نہیں بلکہ صاحب ذوق بندے ہیں ۔اور اچھی اردو کتب "پڑھ" لیتے ہیں ، جب کہ شازیہ اس کتاب کو کمرے میں برداشت کر ہی لیتی ہے ۔ بہرحال میری اس گروپ میں شمولیت کے بعد، شازیہ نے ازخود مجھ سے بےتکلفی میں پہل کی ،،، میں خود، ہنسی مذاق کو پسند کرتی ہوں لیکن کسی دوسرے کی اس عادت کو قبول کرنے میں کچھ وقت لیتی ہوں اور یہی ہوا ،،، کہ مجھے کچھ وقت لگا لیکن اب 88ء سے آج 2017ء تک سکول کا یہ گروپ کسی نا کسی طور ایک دوسرے سے جُڑا ہوا ہے۔ میں نے مارچ 1993ء میں سکول چھوڑا ، اور اپنا سکول شروع کیا لیکن اس تھکا دینے والے دور میں بھی ہم سب ہر چھوٹے، بڑے گھریلو ، دکھ سُکھ میں شریک رہیں ۔،،،،، بہر حال شازیہ کے مزاح کی پُھلجھڑیوں سے ہم خوب مستفیض ہوتیں ، اس دوران ہم سکول میں پیش آنے والے مسائل کو  آپس میں مل جل کر حل کرتیں ،یہ گروپ ٹوٹل خواتین کی دوستیوں پر مشتمل تھا، لیکن کسی نا کسی موقع پر مرد حضرات یا فیملیز بھی اکھٹی ہو جاتیں ۔۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے بچے بڑے ہوتے گئے،،،۔
،شازیہ اظہر خان  کی پیاری سی دو بیٹیاں اور ان دونوں سے چھوٹا گولو مولو سا بیٹا ہے ، جب بڑی بیٹی کلاس دہم میں تھی تو اللہ نے اسے ایک اور پیاری سی بیٹی سے نواز دیا۔شازیہ نے بچیوں کے نام بہت خوبصورت رکھے ہیں،بڑی شاہ رُخ،دوسری ماہ رُخ اور جبتیسری بچی آئی تو اس کا نام سمن رُخ ،،،سبھی بچے محنتی اور لائق،لیکن دوسری بچی ماہ رُخ سب میں ذیادہ نمایاں تھی۔ کہیں بچپن سے یعنی 8،،9 سال کی عمر میں اسے کبھی کان درد ، کبھی کان بہنے ، کے مسئلے رہتے ، علاج ہوتا ، اینٹی بائیوٹک کھائی جاتیں ، آرام بھی آ جاتا لیکن عارضی،!! دسویں تک بھی بچی اسی بیماری کو لیے بہترین  نمبرز سے پاس ہوئی ! وہ بھی اس جماعت میں تھی جس کی میں اردو ،اور اسلامیات لیتی تھی اور وہ کلاس کی ٹاپر طالبہ تھی ،، اور سیکنڈ ایئر کا امتحان ختم ہوتے ڈاکٹرز نے اسے ہسپتال داخل کرلیا اور میں جب دو مرتبہ اسے سی ایم ایچ دیکھنے گئ تو اس کے لیۓ پُرمزاح کتابیں لے کر گئی تاکہ بچی اپنی تکلیف کو کچھ دیر کے لیےبھول جایا کرے ۔ اس کے والد نے بتایا اس نے آپ کی پچھلی دی کتاب پڑھی اور انجواۓ کی ۔لیکن اس کے کمرے کے باہر ہی شازیہ کچھ دیر میرے گلے لگ کر جس طرح روئی ، ، ، مجھے تو اسکے دکھ کا اندازہ تھا لیکن ایسا نہیں کہ بچی کی بیماری سے متعلق مایوسی ہوتی ۔ لیکن جب علم ہوا کہ ڈاکٹرز نے انگلینڈ لے جانے کا کہا ہے،،، تو ہم سب سہیلیوں نے دعائیں کرنا ، شازیہ کو تسلیاں دینی،،،،، لیکن جب خالق کی طرف سےلکھا جا چکا ہو تو ، جانے والا کیسے روکا جا سکتا، شازیہ اور اظہر بھائی کو لندن گئے بہ مشکل دو ماہ گزرے ، کہ ،مجھے اپنے گروپ کی کوکب ناظم کا فون آیا کہ ماہ رُخ اب تمام تکلیفوں سے آزاد ہو گئی ہے، اس کو واپس لانے میں مزید 24 گھنٹے لگیں گے ،لیکن اسکے بچوں نے گھر کھول لیا ہے ، وہیں پہنچ جائیں۔ ،،،، ،،،،،،،، یہ ساری فیملی جس بہادری اور ہمت سے اتنے بڑے کرب سے گزری،، اس کا اندازہ کوئی کوئی کر سکتا ہے۔۔ شازیہ کافی عرصے کانونٹ سکول سےچُھٹی پر رہی ، لیکن جینی اور سسٹر بہ اصرار اسے واپس ڈیوٹی پر لے آئیں تاکہ گھر میں بچی کی یادوں کے ڈیپریشن سے نکلے ۔ اور وقت سے بڑا مرہم کیا ہوگا لیکن سالوں ، شازیہ کی شگفتگی واپس نہ آ سکی ،، اپنی پیاری بیٹی کے نام اور ذکر پر اسکے آنسو بےاختیار ہو جاتے۔۔۔۔۔ اور زندگی اسی کا نام ہے کبھی غم ، کبھی خوشی!!! اللہ نے بعد میں اسے بڑی بیٹی کی خوشی دکھائی کہ وہ ڈاکٹر بنی اور اپنے پھوپھی ذاد سے بیاہی گئی،اب شازیہ دو بچوں کی نانی ہے ، اور مصروفیت کا یہ حال ہے کہ اسے ہمیں فون کرنے کی فرصت نہیں ! ہم سب گروپ ممبرز، نانیاں دادیاں بن کر اس جوانی کے دور کی مصروفیت سے بھی ذیادہ مصروف ہو گئی ہیں ۔ اللہ ہماری یہ خوب صورت مصروفیتیں قائم رکھے آمین !۔ 
یہاں مسز شیلا تاج کا ذکر دوبارہ کر رہی ہوں کہ ان کے ساتھ تین سال ہی گزرے تھے کہ وہ بہادر خاتون مضمحل سی رہنے لگیں ، ان کا اپنا بیٹا ایک قابل ڈاکٹر تھا ، اس نے ٹسٹ کروانے شروع کیۓ ،، اور پتہ چلا کڈنی ٹھیک کام نہیں کر رہے ،، پہلے خود، واہ سے ڈئیلائسز کے لیۓ جاتیں ، پھر وہیں اسلام آباد کے ہاسپٹل میں داخل کروا دی گئیں ،، پھر بھی جب ہم سب ملنے جاتیں توخوب صورت جملوں سے ہمیں جزیات کے ساتھ بتاتیں،آج بوبی بیٹا مجھے کار میں اسلام آباد کی پہاڑیوں پر سیر کرانے لے گیا تھا ، ایک جگہ کار روک کر وہ جھاڑیوں سے ایک بہت خوبصورت " مکڑا پکڑا،،، جس کے اوپر کے پر سفید اور وہ خود باقی سارا کالا تھا ،، کہنے لگا ! "ممی دیکھیں ، یہ پادری مکڑا ہے جس نے گاؤن پہنا ہوا ہے ۔ وہ مجھے چھوٹی چھوٹی خوشیاں دینے کی بھی حتی الامکان کاشش کرتا ہے۔" میں نے انھیں غور سے دیکھا وہ ایک مطمئن ، اور پُرسکون ماں لگیں ، جس کے بچوں نے اس کی محبت سےبھرپور خدمت کی تھی ! ان کے تین بچے ڈاکٹر ایک انجینئر تھے اور درمیان والی بیٹی انگلش لیکچرار بنی ، اوریہ سب ان کے سامنے کی کامیابیاں تھیں ،،،، ان کی ایک اور بات یاد آگئی تو لکھ ہی دوں ، ایک دفعہ ہمارا گروپ ، گپ شپ میں مصروف تھا ، بات جنت اور اس کی نعمتوں اور انسان کی اپنی خواہشات کے پورے ہونے پر پہنچی تو کہنے لگیں " بھئ ، تاج صاھب ایک دن کہنے لگے ، میری دعا ہے مجھے جنت میں بھی تم ہی ساتھی کے طور پر ملو ،،، لیکن میں نے فوراًکہا ۔۔۔ لو ! اب جنت میں بھی تم میرا پیچھا نہ چھوڑنا ، وہاں تو کچھ نیا ہونا چاہیے!" ان کے اس برجستہ جواب سے ہم خوب محظوظ ہوئیں ،،، ،،، صرف 4 ساڑھے چار ماہ میں مسز تاج نے اپنی جنت کا راستہ ناپا ،،،،،،،،اس ہمدرد فطرت ، اور پُرخلوص خاتون ،،، جسے میں سہیلی بھی کہہ سکتی لیکن وہ مجھے بہت محبت سے " بیٹی " کہتی تھیں ،،، کو بھلا نہیں سکی ، البتہ میرے لیۓ وہ ایک ایسی محسن تھیں جنھوں نے مجھ نوآموز کو ہمارے مشترکہ مضمون سے جُڑے مسائل سے نکالا اور ٹریننگ کی! جب ان کی یاد آتی ہے! میں ان کے لیےدعاگو ہوتی ہوں ! وہ اپنی ذات میں اتنی مکمل " ٹیچر "تھیں کہ جن کا اُٹھنا ، بیٹھنا ، بات چیت ، سبھی سے ایک استاد کی جھلک آتی تھی ،، ان کی وفات کے بعد میں نے 1992ء کی"میٹرک کی فیئر ویل" پر ان کے اعزازمیں وہ نظم پڑھی ، جو سسٹر کو نیلو  کو ترجمہ کر کے بتائی، تو وہ آبدیدہ ہو گئیں!!!۔
"شفیق کولیگ مسز تاج کے لیے"
وہ آپ کا ادب کا قرینہ 
وہ ہم سُخن و ہم فہم ہونا
وہ ایک ہی میز پر مہماں و میزباں ہونا !
( اور چھیڑ چھاڑ میں )
ہمارا مشرق کو مغرب ، مغرب کو مشرق بتانا،
اور ہاں ،،،،،
وہ محبت( خان) کی باتیں محبت سے کرنا، 
ہمارا قابو سے باہر ہونا ،،،
اور بہانے بہانے ہمیں راہ پہ رکھنا ،
وہ دن اور یہ باتیں 
بھلا کیسے بھول جائیں !!!
کہ یہ تو زندگی کا اِک باب ٹھہریں !
اور یہ آپ کہاں چل دیں ، بہاروں کو چھوڑ کر؟
یہ آپ کہاں گم ہو گئیں بھرا میلہ چھوڑ کر ؟؟
( منیرہ قریشی ، 22 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

پیر، 20 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں (48)۔

 یادوں کی تتلیاں" (48)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔1988ءفروری سے میرا روٹین واہ سے حسن ابدال کا شروع ہوگیا ، اس دوران ابھی میرے تینوں بچے واہ کے سرسید سکول میں تھے ، بیٹی پریپ تک پہنچ چکی تھی۔ اور ہاشم جس کا نام قاسم رکھا گیا تھا ، جب اسے نرسری میں داخل کرانے گئےتھےتو اس نے سکول کے آفس میں ہی ضد شروع کردی ،،کہ میرا نام ہاشم رؤف لکھا جاۓ ،، مجبوراً بات ماننا پڑی ! اس بات کو نارمل سا لیا گیا کہ چلو ذرا بڑی کلاس میں دوبارہ قاسم لکھ لیں گے۔لیکن وہ"دوبارہ" نہ آئی اور، آج تک ہاشم ہی چل رہا ہے، یہ اور بات کہ گھر کے لوگوں کے منہ پر ابھی بھی قاسم چڑھا ہوا ہے۔ دراصل جن دنوں پی ٹی وی پر نورالہدیٰ شاہ کا ڈرامہ "دیواریں"چل رہا تھا ، اس کا ہیرو ، ایک مزاج دار ، بہادر اور غیرت مند بتایا گیا تھا۔اس نے پتہ نہیں کیسے ،کتنا یہ ڈرامہ دیکھا اور ہاشم نام اسے پسند آ گیا اور اسی پر اڑ گیا ، ،،وہ اُس وقت کلاس ون میں تھا۔ ایک سال کسی طرح گزرا ، اور نشل بیٹی تو میرے سا تھ ہی سکول میں داخل ہو گئی ، لیکن یہ سکول صرف لڑکیوں کا تھا،،اس لیے دونوں لڑکے وہیں سرسید میں ہی پڑھتے رہے ، علی اس وقت ساتویں میں تھا۔ اُن دنوں میرا روٹین خاصا تھکا دینے والا رہا ، لیکن جوانی میں طاقت اور ہمت ہوتی ہے ، سب کچھ ہموار طریقے سے چلتا رہا ، میں ، جینی اور ایک اور ہماری سمارٹ اور جولی فیلو نگہت بھی اِسی پک اَپ میں جاتیں ،،، کچھ طالبات بچیاں بھی تھیں ، اس طرح پک اَپ خوب بھر جاتی ،،،،، جی ہاں ! ہم ٹیچرز کو ان بچوں کو ہر صورت بیٹھنے کی جگہ دینا پڑتی کیوں کہ ہم اس میں کھڑے نہیں ہو سکتی تھیں ،، کلاس پریپ ، ون اور تھری ، فور کی بچیاں کھڑے ہو کر جاتیں ، باقی ساتویں ، آٹھویں کی طالبات بھی کھڑی نہیں ہوسکتی تھیں ، کہ وہ قد میں لمبی تھیں ، اس طرح کھچا کھچ بھرے ہونےکی وجہ سے بچیوں میں بدمزگی بھی ہو جاتی، تو اس وقت مجھے یہ ترکیب سوجھی کہ میں بیٹھتے ہی کہتی " تو بچو ،، کل میں نے ایک کہانی پڑھی کہ،،،،،، اور اگلے لمحے وین میں مکمل خاموشی چھا جاتی، بچے پوری طرح متوجہ ہو جاتے اور صرف 15،16 منٹ کا راستہ آرام سکون سے گزر جاتا ،،،، یہ کتنا پُراثر انداز تھا جس سے بچوں کو بدمزاجی سے بچایا لیا گیا،،،، گویا یہ ڈانٹ ڈپٹ کی بجاۓ ، ایک مؤثرطریقہ تھا ،،،، حالانکہ مجھے خوب اونچا بولنا پڑتا تاکہ سب تک میری آواز پہنچے ،،، ایک دن میری چھٹی تھی ، اگلے دن مجھے ڈرائیور نے کہا " مس صاب ،کل گاڑی میں بہت ہنگامہ رہا ، آپ نے بچوں کو خوب قابو کیا ہوا ہے ،،، اور کسی سے قابو بھی نہیں آرہے تھے، ،،، تب میں نے سوچا اس بات کا حل ہونا چاہیے، انہی بچوں میں سے دو بچیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ ایک دن آپ نے وہی کہانی سنانی ہے جو میں سنا چکی ہوں، اور دوسرے دن دوسری بچی سناۓگی ۔ خاص طور پر جس دن میں چھٹی کروں۔ لیکن اُن بچیوں سے یہ ڈیوٹی نہ نبھ سکی ،کہ بچیاں انھیں سیریس نہیں لے رہی تھیں۔لیکن میں نے کہانی سنانے کی پالیسی پورے پانچ سال جاری رکھی ، اسی طرح میں سکول میں کبھی کبھار فارغ ہو جاتی تو پریپ یا ون کی کلاسز میں اس چلی جاتی جب ٹیچر اپنی کاپیاں چیک کر رہی ہوتی ، بچے خاموشی سے بےکار مصروفیت میں ہوتے ، جب ایک دن میں پریپ میں گئی ، ٹیچر سے اجازت لی اور شیر اور گدھے کی کہانی شروع کی ، میں بچوں کی نفسیات کے مطابق اور کہانی کے کرداروں کے مطابق آوازیں بھی نکالتی ، 40 بچوں کی کلاس میں"پِن ڈراپ سائیلنس" تھا ، ان کی آنکھیں پوری طرح کھلی اور منہ بھی کھلے ہوۓ تھے ! کہ اتنے میں سسٹر مونیکا کمرے میں داخل ہوئیں ، اور دوسرے لمحے انھوں نے مجھے جاری رکھنے کا اشارہ کیا اور خود سب سے پیچھے ایک خالی کرسی پر بیٹھ گئیں۔ جب میں نے کہانی ختم کی تو سسٹر نے تالیاں بجائیں ،،، تو بچوں کو بھی ہوش آیا اور تالیاں بجائیں !اب میرے شرمندہ ہونے کی باری تھی کہ سسٹرسے اجازت کے بغیر میں اس کلاس میں آگئی تھی ۔ لیکن شکر کہ ان کو احساس تھا کہ کلاس ٹیچر وہیں موجود تھی اور کاپیاں چیک کرتی رہی ،،، باہر آکر میں نے انھیں سوری کہا اور بتایا کہ میں دراصل اس عمر کے بچوں کو پڑھانا چاہتی ہوں ، انھوں نے صاف کہا ، ہمیں ان کو پڑھانے کے لیۓ ٹیچرز مل جاتی ہیں لیکن بورڈ کلاسز کو اردو ، کے مسئلے ہی پڑے رہتے ہیں ، اس لیۓ آپ کبھی کبھی ٹیچر کی مرضی سے کہانی سنا لیں لیکن کلاس نہیں دے سکتی ،،،،،، اس تجربے سے ہمیں ( مجھے اور جوجی کو) علم ہوا کہ کہانی سننے کا بچوں پر کتنا خوشگوار اثر ہوتا ہے ! اور یہ حقیقت ہے کہ کہانی سننا ہر عمر کا بندہ پسند کرتا ہے ۔اس سے ذہنی تصورات کا کینوس ، وسیع ہوتا ہے ۔ اس لیۓ ہم نے اپنا سکول شروع کیا تو باقاعدہ ایک پیریڈ " کہانی " کا رکھا ،،، لیکن افسوس وقت کے ساتھ یہ پابندی جاری نہ رہ سکی۔ اور اس میں ایک وجہ بہت " ڈیڈیکیٹڈ " ٹیچرز کا نہ ملنا بھی تھا ۔
کونونٹ سکول کے گروپ سے متعلق تو پہلے ذکر کیا جا چکا ہےکہ ہم آپس میں اچھی دوستی کے رشتے سے ایسے منسلک ہوۓ کہ آج بھی ہم اگر ملنے ملانے میں کوتاہی کر بھی لیں تو فون پر حال احوال پوچھ لیا جاتا ہے ،،،، نیلو کا ذکرِخیر اس لیۓ مزید کررہی ہوں کہ ہم سب کا کہیں پکنک منانے کا پروگرام ہے یا اکھٹے شاپنگ کا پروگرام بن گیا ہے تو نیلو نے اپنے بھائی کامران صفدر سے کہنا ، وہ اپنی بڑی پیجیرو لے آتا اور ہمیں گھما پھرا کر سب کو ان کے گھروں پر اتارتا ۔ اور یہ محض بہن کی محبت میں ڈیوٹی نبھائی جاتی ۔ اسے بھی احساس تھا کہ یہ بہن ، ماں ، والے سلسلے کو بخیر وخوبی چلا رہی ہے ! تو میں بھی اس کی اتنی بات تو مان سکتا ہوں ،،، ! جب کبھی کہیں اور کا پروگرام نہ بن سکتا ، تو بھی محض دن گزارنے کے خیال سے ہم سب نیلو کی وسیع ، اور ایک نودرات جیسی حویلی میں ، بہترین مہمان نوازی کا لطف لیتیں ، وہ دونوں بہت محبت اور خوشی کے جذبات کے ساتھ یہ مہمان نوازی کرتے ، بلکہ میرے بچوں نے بھی ایک دو مرتبہ اس قسم کی مہمان نوازی کا لطف اُٹھایا۔ علی کچھ سمجھ دار تھا اسے تو یاد ہے لیکن ، چھوٹے دونوں بہت کم عمر تھے ،،، ! نیلو کی شادی میرے جاب جوائن کرنے کے چار سال بعد ہو گئی اور وہ لاہور چلی گئی، کامران نے اتنی بڑی ذمہ داری کو شاندار انداز سے نبٹایا ۔ اسے علم تھا اس کی بہن اپنی سہیلیوں کے اس گروپ میں خوش رہتی ہے ، ولیمے پر اس نے کوسٹر ارینج کی اور بہ اصرار سب کو لاہور جانے کے لیۓمنا لیا، کچھ اور رشتہ داروں اور نیلو کی دو بہنوں کے ساتھ ہم نے لاہور کا یاد گار سفر کیا ، وہاں کامران ( جسے سب کامی کہتے ہیں ) نے چنبہ ہاؤس میں ہمارے رہنے کا انتظام کیا ہوا تھا ! ولیمہ فنگشن کے بعد واپس آۓ ،،، راستہ بھر ہر دو گھنٹے بعد چاۓ کا پوچھتا، تاکہ ہم رکنا چائیں تو کوسٹر روک لے۔ لیکن وہ سفر ، چنبہ ہاؤس کا قیام ، اتنا دلچسپ تھا کہ ہم سب آج تک نہیں بھولیں !!! اور یقینًا اس میں کامی کا بہت ہاتھ تھا جس نے اس سارے سفر کے دوران ، احترام کا دامن لمحے بھر کے لیۓ بھی نہ چھوڑا ،،، اللہ نے اسے بہت نوازا ہوا ہے ، اور وہ آج بھی اسی احترام سے ملتا ہے اور ہمیں بڑی بہنوں جیسی عزت دیتا ہے، اب تو وہ خود ایک خوشگوار طبیعت والی بیوی اور ایک بیٹی ، اور تین بیٹوں کے ساتھ ، پرسکون زندگی گزار رہا ہے ! دعا ہے اللہ اسے دنیا و آخرت میں ہر کامیابی سے نوازے آمین !۔
اس گروپ میں مسز جولیانہ ناز کا اب ذکر کروں گی ،،، جن کا صاف گورا رنگ، دیکھ کر میں سمجھی یہ پٹھان النسل ہوں گی ،،، اس نے کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا ہوا ہے ، وہ بھی بہت اچھی ٹیچر ، ایک اچھی بیوی، اچھی بیٹی اور بہن کے ساتھ ساتھ، بہت اچھی سہیلی ہیں ، اس کے شوہر سرجن ہیں اور کرسچین ہاسپٹل ٹیکسلا کے ایم ایس ہیں ۔ اس کا گھر اس کے اعلیٰ ذوق کا عکس ہے ۔ وہ ایسی ہی دوست ہے جس کے ساتھ مل کر ، وقت گزار کر دوستی کی چاشنی ملتی ہے ، وہ ڈاکٹر صاحب کی لاڈلی بیوی ہے ، اور ڈاکٹر صاحب ، نہایت نرم مزاج ، نرمی سے بولنا اور سب سے بڑی بات کہ اردو ادب کے شوقین ہیں ۔ اور اِسے اردو ادب کا کچھ پتا نہیں ،جولیانہ ایک دفعہ بیمار ہوئی تو میں نے اسے وقت اچھا گزارنے کے لیۓ " اشفاق صاحب " کی کتاب زاویہ تحفہ دی ،، تاکہ وہ اپنی بیماری میں اسے پڑھے ،، بک کے اندر کے صفحے پر لکھا " پیاری جولیانہ کے لیے،،، ، کون کہتا ہے عقل بازار میں نہیں ملتی ، دیکھو میں نے تمہیں خرید کر دے دی ہے " ! کچھ ہی دنوں بعد اس نے اپنے مخصوص مزاح کے رنگ میں فون پر کہا " او یار ،،، عقل فیر وی نہیں پہنچ پائی " ،،،، اور وہ کتاب ڈاکٹر صاحب ہی پڑھ رہے ہیں ، میں نے انھیں کہہ دیا ہے جو آپ کو سمجھ آۓ مجھے آسان لفظوں میں سمجھا دینا " ،،،، کہنے کا مطلب ہے ، ہمارا بےتکلفانہ انداز ِدوستی آج بھی برقرار ہے ،، اب وہ بھی اپنے لائق فائق دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادیوں سے فارغ ہو چکی ہے ! میں جب اس کو فون کروں ، اور بچوں میں سے کوئی اُٹھاۓ ، تو میں کہتی ہوں " کہاں ہے تمہاری تھانیدارنی ماں ،،،؟ وہ فوراً ہنستے ہوۓ بتاتے ہیں وہ کہاں ہے ۔ اور اکثر اپنی ماں کو چھیڑنے کے لیے کہتے ہیں آپ کو یہ لقب خوب دیا گیا ہےَ! اور اتفاق سے میں دونوں قابل بیٹیاں کی ٹیچر بھی رہی ہوں ! اس لیۓ وہ آج بھی نہایت عزت و احترام سے ملیں گی اور " مس" کہہ کر مخاطب ہوتی ہیں ۔ اللہ انھیں اپنی عائلی زندگیوں میں شاد و آباد رکھے آمین !۔
( منیرہ قریشی ، 20 نومبر 2017ء واہ کینٹ) ( جاری

اتوار، 19 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں (47)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 47)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سامنےکے پڑوسی تو جیسے میرے فیملی ممبر بن گئے یا میں ان کی فیملی کی ممبر بن گئی۔ میں نے دوستی کا یہ سفر خاصا جلدی طے کیا اور آج بھی یہ دوستی ، اس محاورے پر مبنی لگتی ہے " دوستی ایسا ناطہ جو سونے سے بھی مہنگا "،،، مجھے آنٹی کی  شخصیت نے بہت متاثر کیا ، وہ ہر وقت کچھ نا کچھ کرتی نظر آتیں ، وہ دبلی پتلی اور مختصر قد وقامت کی بہادر ، باحوصلہ عورت ہیں ( آج اب وہ 89 سال کی ہو چکی ہیں )، جینی بھی دبلی پتلی مختصر قدو قامت کی وہ لڑکی تھی جو میچورٹی میں اب " عورت" بن چکی تھی ، اس وقت بھی اور آج بھی ہم سبھی سہیلیوں کو اگر ایک اچھا مشورہ لینا ہوتا تو جینی سے رجوع کیا جاتا۔اس کی پُرخلوص کوشش ہوتی کہ اپنے سے جُڑی سہیلیوں کے مسائل کو اگر ختم نہ کر سکوں تو کم ضرور کر دوں ! خاص طور پر جب ہم میں سے کسی دو کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت آجاتی تو جینی اس سلسلے کو کسی نا کسی طریقے سے آگے نہ بڑھنے دیتی۔اور صلح صفائی سے حالات کو خوشگوار بناۓ رکھنے کی کوشش کرتی ، میرا تو ان کے گھر ایسا ہی جانا آنا تھا کہ کبھی اجازت کی ضرورت نہ پڑی ،، اور منہ اُٹھا کے کچھ دیر بیٹھی اور آ گئی۔ جینی ، میرےسکول سے استعفٰی کو کبھی زیرِ بحث نہ لائی ، حالانکہ یہ اس کی خواہش تھی کہ میں جاب جاری رکھوں ! البتہ آنٹی نے بہت نرم اور محبت بھرے لہجے میں مجھے " بک اَپ " کرنا ! نہیں تم میں پوٹینشل ہے ، تم کر سکتی ہو ! تھوڑی ہمت کرو ،،، وغیرہ ۔ اور یوں اسی سکول سے مجھے مزید سہیلیوں کا وہ گروپ ملا جن کی صحبت نے مجھے زندگی کے رنگارنگ پہلو دکھاۓ ،،،، ان میں سب سے پہلے مسز شیلا تاج کا ذکر کروں گی ،، وہ لاہور کے کنیٹ کالج کی پڑھی ،انتہائی با ذوق ، اور خوش مزاج ، خوش لباس خاتون تھیں !! مزید تفصیل سے پہلے باقی لوگوں کا ذکرِخیر کر دوں ،،، اس گروپ کی ایک اور" لڑکی" جو وقت سے پہلے نہ صرف" عورت "بن چکی تھی بلکہ تین بہنوں اور ایک بھائی کی" اماں جان " بھی بن چکی تھی۔ نیلوفر صفدرخان ،،، !اگر میں اس پر لکھنے لگی تو شاید صفحے سیاہ ہوتے چلے جائیں ۔ جب میں نے سکول جائن کیا تو تب معلوم ہوا یہ ہماری کالج کی سینئر طالبہ عصمہ کی چھوٹی بہن ہے ، اوریہ بھی کہ یہ بی اے کے فوراً بعد اس سکول میں آچکی تھی ، اس کی امی اور اباجی کا انتقال ہو چکا تھا۔ اور اتفاق سے اس کی اور اکلوتے بھائی کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی ، نیلو سے بڑی ، اور نیلو سے دو چھوٹی بہنیں شادی شدہ تھیں، حویلی نما بڑے سے گھر کو نیلو اسی طرح چلا رہی تھی جیسے مائیں چلاتی ہیں، بہنیں ، ان کے شوہر، ان کے سسرالی، اپنے رشتہ دار، یا بھائی کے دوست ، اپنی سہیلیاں اور سہیلیوں کے بال بچے ،،،، جو آرہا ہے ، اخلاق ، اور محبت سے دونوں بہن بھائی تواضع کر رہے ہیں۔ یہ ظرف اس جوان لیکن" پکی خاتون " میں دیکھا ، اور ہر دفعہ میرے دل میں اس کی منزلت بڑھی۔ نیلو ، صرف سینئر ٹیچر کے طور پر نہیں، بلکہ اپنی محنت ، قابلیت اور اخلاق سے ، سسٹر مونیکا کا رائٹ ہینڈ بنا دی گئی تھی۔ ویسے تو وہ چھٹی ، ساتویں اور آٹھویں کی انگریزی ٹیچر اور ان میں سے کسی ایک کلاس کی کلاس ٹیچر بھی تھی،،،، مجھ سے پہلے نیلو اور جینی کے گرد، مسز تاج ، مسز افتخاردلاور، مسزجولیانہ ناز، مسز شازیہ اظہر ، مسز کوکب ناظم ، اور مس راحیلہ موجود تھیں۔اب میں اور مسز نازش ظفر قریباً اکٹھے شامل ہوئیں ،،،، ہم سب کے مزاجوں میں بہت بُعد نہیں تھا ،،، اگر کسی ایک میں تھا بھی تو، اسے پُلائٹ انداز سے رفع کر دیا جاتا ۔ میں حسبِ عادت ہر ایک سے بےتکلف ہونے میں وقت لے رہی تھی، مجھے اس دور میں کسی کابہت ہنسی مذاق کرنا اور جلد بےتکلف ہوناعجیب سا لگتا، کیوں کہ میں زندگی میں پہلی بار " کام ، یا جاب کے ماحول " کو جذب کررہی تھی۔ جینی ،کے بعد مجھے کسی کے ساتھ " ایٹ ایز " محسوس ہوتا تو مسز شیلا تاج اور نیلو سے ہوتا ،، یہ دونوں دوسرے کی طبیعت کے مطابق رویہ اپناتیں ، مسز تاج تو چارجوان ، انتہائی لائق بچوں کی ماں تھیں ، ان کی پانچویں نمبرکی سب سے چھوٹی بیٹی 88ء میں دسویں میں تھی ، اور وہ بھی لائق ترین تھی ، مسز تاج ان تھک خاتون تھیں ، ان کا مستقل پہناوا ساڑھی تھا جسے وہ سلیقے اور باوقار انداز سے پہنتیں۔ جس دن وہ ساڑھی کے ساتھ میچنگ ، پرس ، بُندے اور کلائی کا بریسلیٹ پہن کر آتیں ، ہم سب آٹھ ، نو کا ٹولہ اُن سے ایک مہذب چھیڑ چھاڑ کرتا ، ،، اور وہ بہت شرمیلی، لیکن کھلے دل سے اس چھیڑ کا جواب دیتیں ،، وہ گھر کی نہ صرف کوکنگ خود کرتیں ، بلکہ آۓ دن کبھی جیم ، کبھی،اچار ، کبھی مربہ بنا کر لاتیں ، مجھے میٹھا پسند تھا، وہ ایک دن مجھے خاموشی سے جیم کی بوتل پکڑا کر کہتیں " یہ لو ، بیٹی یہ تمہارا حصہ ہے ، اب ان سب کو باری باری دوں گی " یہ ان کا اتنا پیار بھرا انداز ہوتا ،،، جس میں مامتا کا پہلو ہوتا ، میرے بعد باقی سب کی بھی باری آتی چلی جاتی، ،،،، مجھے اب یاد آتا ہے اور افسوس ہوتا ہے،،، کہ میں نے شاید ہی کبھی کچھ بنا کر انھیں خوش کیا ہو ! بہت ہوا تو میں ایک کتاب کا تحفہ انھیں دیتی ، تو وہ نہال ہوجاتیں ۔۔۔ وہ نویں دسویں ،کے سائنس سیکشن کی اردو ٹیچر تھیں ، انھوں نے اردو ادب اور فارسی بھی پڑھی ہوئی تھی ،،، اسی لیۓ شاعری اور ادبی ذوق ان کی ذات میں وافر تھا۔ خود بھی کبھی کبھی شاعری کرتی تھیں ، لیکن جب میں نئی نئی ان سے واقف ہوئی تو ، فارغ وقت میں ہم آپس میں ، شعراء کی طرزِ شاعری پر گفتگو کرتیں، یا ، جو کتابیں میں نے پڑھی ہوتیں ، اس کا ذکر کرتی ،یا ، وہ جن کتب سے متاثر تھیں ، وہ بتاتیں !!! اور جوں ہی پیریڈ شروع ہوتا میں کلاس لینے کے بعد یا پہلے دوڑی ہوئی ان کے پاس جاتی کہ " اس لفظ کے آسان معنی کیا ہوں گے ؟ یا یہ پیرا گراف دراصل کیا پیغام دے رہا ہے وغیرہ " اور وہ مجھے نہایت مدلل طریقے سے بتاتیں ، میں شکریہ ادا کرتی ، اور اگلے دن پھر ایک آدھ دفعہ مجھے ان کی مدد کی ضرورت پڑ جاتی ، 5، 6 ماہ گزر گئے،،، ایک دن مسز تاج نے مجھے روک لیا اور کہا " منیرہ بیٹی ،،، جتنی کتابیں تم نے پڑھی ہیں میں نے تو اس سے آدھی بھی نہیں پڑھیں، تو تمہیں روزانہ مدد کی ضرورت کیوں پڑ جاتی ہے ،، کہیں تم مجھ سے مذاق تو نہیں کر رہیں " مجھے آج بھی ان کے یہ جملے یاد ہیں اور میں حیران سی ہو گئی ،،، اورلمحہ بھر توقف کے بعد میں نے کہا " مسز تاج پڑھنا اور بات ہوتی اور پڑھانا بالکل اور بات ،،، میں تو چاہتی ہوں آپ سے صحیح رہنمائی لوں اور بچوں کو آسانی کی طرف لاؤں "،،،، میرا جواب سنتے ہی انھوں نے مجھے گلے لگا لیا ، کُھلے دل سے کہا " سوری بیٹی ،، میں سمجھی کہ اتنی بکس پڑھنے والی کو میری کیا ضرورت ہو سکتی ہے ، واقعی تم ٹیچر بھی پہلی دفعہ بنی ہو " اتنا میچور اور اعلیٰ ظرف کوئی کوئی ہوتا ہے۔،،،، اس کے بعد ہماری مفاہمت مزید بڑھی کیوں کہ انھیں میرا پوچھنا ، بامقصد لگا،،،،، آج کی ٹیچرز کا یہ مزاج ہو چکا کہ " ہم سا ہو تو سامنے آۓ "کہ ہمیں سب کچھ آتا ہے ،،، ہمیں کسی کی  رہنمائی  کی کوئی ضرورت نہیں وغیرہ وغیرہ!!"۔
نیلو، اور جینی مجھے ، سکول اور " نوکری کے آداب " بتاتی رہتیں ،،،، مجھے اپنی شروع دور کی حماقتیں یاد ہیں ، خاص طور پر جب مجھے سکول جوائن کیۓ ابھی چند دن ہوۓ تھے،میں نے ایک کلاس کو پڑھا لیا ، کام ختم اور میں کلاس سے باہر چل پڑی ، ابھی پیریڈ کے خاتمے کی گھنٹی نہیں بجی تھی ،،، وہ کلاس پرنسپل کے آفس کے ساتھ تھی ، اتفاق سے سسٹر مانیکا راؤنڈ لینے بھی اسی وقت نکلیں ، مجھے دیکھ کر پوچھا " خیریت ہے آپ کلاس چھوڑ کر آگئی ہیں ؟ میں نے جواب دیا میں اپنا آج کا سبق ختم کر چکی تھی ، اس لیۓ سٹاف روم کی طرف جا رہی ہوں " سسٹر مونیکا انتہائی  منکسرالمزاج خاتون تھیں ، فوری طور پر وہ مسکرائیں ! اوہ آئی سی " کہہ کر چلی گئیں ،،،، فارغ ہو کر انھوں نے مجھے آفس میں بلایا اور بہت آرام سے بتایا " ایسا کالج میں ہوتا ہے ، سکولوں میں نہیں، ! آپ پیریڈ کی بیل ہونے کے بعد ہی کلاس سے نکل سکتی ہیں " ! میں شکریہ کہہ کر آگئی
،،، لیکن ان کے اس رویۓ کے بعد میں نے اکثر دیکھا ، جو ٹیچر کوئی حماقت کر جاتی تو اسے بالکل الگ بلا کر تنہائی میں جو سمجھانا ہوتا ، سمجھاتیں ! جب میں نے اپناسکول شروع کیا ، تو ان کے کچھ اصول و ضوابط کو میں نے بھی اپنایا اور چلایا کہ کسی کو دوسروں کے سامنے مت نصیحت کریں ، خاص طور پر اپنے سٹاف کو ! چاہے وہ آیا ہے یا ٹیچر ، چوکیدار ہے یا پی ٹی ماسٹر،،، ہر ایک کی عزتِ نفس ہوتی ہے ، اور  ہمیں اس عزت کو مجروح کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔
ایک اور حماقت کا بھی ذکر کروں،کہ "ریسیس"میں سٹاف کو چاۓ ، سکول کی طرف سے ملتی تھی اور ہے۔ بڑی بڑی کیتلیوں میں چاۓ آتی اور ہمارا گروپ جس میں نو، دس ٹیچرز تھیں اور ایک الگ ٹیبل پر بیٹھتیں تھیں ، ایک کیتلی تو اسی ٹیبل کے لیۓ مختص ہوتی، ،،سب کو ایک ایک پیالی مل جاتی ۔ لیکن ایک دن میرے سر میں درد تھا ، میں ریسیس کے بعد کچن کی طرف گئی اور وہاں موجود کک سے کہا " مجھے ایک پیالی چاۓ چاہیے " ،، کک نےمیری طرف حیران ہو کر دیکھا ، اس نے مجھے سٹاف روم میں جانے کا کہا ، خود سسٹر مونیکا کے پاس گیا ، میرا مطالبہ بتایا ۔ سسٹر نے مجھے کچھ کہنے کے بجاۓ چاۓ بنوا کر بھجوا دی! اور نیلو کو کچھ بتایا ہو گا ،،، چھٹی کے بعد نیلو نے اکیلے میں کہا " منیرہ باجی ! یہاں ریسیس میں جو چاۓ  سرو ہو جاتی ہے ! پھر چاۓ کا کام ختم کر دیا جاتا ہے ! اس لیۓ فالتو چاۓ کا یہاں رواج نہیں ،،، مجھے ایک دفعہ پھر اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ لیکن یہ سب ضابطے سیکھتی گئی۔ اور جب اپنے سکول کی شروعات کی، تو احساس ہوا چاۓ کا خرچ بھی کتنا ہوتا ہے ، اور وقت کا زیاں بھی کتنا ہوتا ہے۔
یادوں کی تتلیوں نے فروری 88ء کے باغ کی طرف رُخ کیا ہے جس باغ میں ، مَیں نے " سنہرا دور گزارا " ،،،، اور زندگی کے بہت سے تجربات کا کچھ میٹھا ، کچھ کھٹا لُطف بھی اُٹھایا ! اور ایسی کٹھالیوں سے گزر کر انسان بہت کچھ سیکھتا چلا جاتاہے، اور شاید ٹھاکر بھی بنتا ہے ، شاید !!!۔
( منیرہ قریشی ، 19 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

جمعہ، 17 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(46)

یادوں کی تتلیاں " ( 46)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اباجی اور اماں جی گھریلو ملازمین کے اعتبار سے اگرہمیشہ نہیں تو اکثر قسمت والے رہے ، اکثر لوگ اس معاملے میں ان پر رشک کرتے ،،، اسی لیۓ اس خود نوشت کی شروع کی اقساط میں تین چار اردلیوں اور دو تین ملازماؤں کا ذکر کیا ہے ، اسی لیۓ کہ ہمیں ذیادہ تر اچھے ، ایمان دار یا خدمت گار لوگ ملتے رہے ، ،،، یہ صرف اللہ پاک کی خصوصی مدد ہی ہوتی ہے ، اور بس ،،، !۔
جب اماں جی اپنے اللہ کے گھر چلی گئیں  تو فالتو کاموں کے لیۓ اور کپڑے دھونے کے لیۓ جس خاتون کو رکھا ہوا تھا،، کچن میں کام کرنے کے لیۓ الگ مددگار کی ضرورت پڑی تو وہ اپنی ، 16، 17 سال بیٹی لے آئی کہ جب تک اس کی شادی نہیں ہوتی آپ اسے رکھیں ، اس وقت میں ورکنگ عورت نہیں تھی ، اس لیۓ کھانا پکانا ،، یا مہمانوں کو نبٹانے کے کام خود کرتی تھی ۔ لیکن اس لڑکی کے آنے سے سہولت ہوگئی بہ مشکل ڈیڑھ سال گزرا کہ اس کی شادی کر دی گئی اسی کی چھوٹی اور بہنیں بھی تھیں ،،، گھر میں غریبی اور جہالت کے ڈیرے تھے ۔ اسی لیۓ دوسری آگئی ،،،دو سال ہی گزرے کہ اس کی شادی کی صورت میں ، تیسری آگئی! یہ تیسری بچپن سےدمہ کی مریضہ تھی، اس بیماری نے اسے خاصا مزاج دار بنا دیا تھا ، اِس کے وقت تک گھریلو کام کاج کے لیۓ " مین پاور " موجود تھی ،،، میرے ٹونز تین سال تک کے ہوچکے تھے ، اور بہت چُلبلے بھی ، ،، اس لیۓ ان کی ہر وقت نگرانی کرنا پڑتی ! ! بس شہناز کے ذمہ یہ ہی کام دیا گیا کہ تم بچوں کے ساتھ رہنا ، ان کے کھلونے ، باہر لان میں رکھنا ،ان کے ساتھ کھیلنا ! وغیرہ ،،، وہ یہ ڈیوٹی بےدلی سے کرتی رہی ، ہمارے گھر ہمارے والدین نے یہ ضرور سلسلہ رکھا کہ جو خود کھاؤ وہی نوکر کھاۓ گا ،،،، پہناوے کا دعویٰ نہیں ہے ، کہ یہ انھیں ان کی مرضی کا لے کر دے دیا جاتا ،، لیکن شہناز نے جوں ہی دوپہر ہوئی ، غائب ہو جانا ، پریشانی سے میں اس کے گھر پہنچ گئی کہ لڑکی کہاں گئی ، پتہ چلتا ، جی گھر پہنچ گئی ہے ! اس کا گھر ہمارے سے قریب ہی تھا ۔ بہت آہستہ آہستہ اس نے دل لگایا ،،، اور پھر وہ بچوں کے ساتھ شام تک رکنے لگی ! اس وقت وہ قریبا" ، 11،،12 سال کی تھی ! ایک ڈیڑھ سال میں اس کادل ایسا لگا کہ وہ کوئی چھٹی نہ کرتی ۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ،،، اس نے اباجی کے مزاج کو ،، ہمارے گھر کے اُصولوں کو سمجھنا شروع کردیا ،،،، اور ایک طرح سے میرے بچوں کو پالنے میں اس کا بہت ہاتھ شامل رہا ۔ حتیٰ کہ جب فروری1988ء میں مجھے یکدم کانونٹ سکول میں جاب ملی ، تو میں تین مہینے بعد ہی  استعفٰی کر کے آگئی ، کیوں کہ میں گھر اور سکول اور اپنے بچوں کو وقت دینے کے سلسلے کو مینیج نہ کر پا رہی تھی ، اس بارے میں اباجی کا مکمل تعاون بھی تھا کہ وہ بچوں کو سکول سے آنے پر کنٹرول میں رکھتے اور ان کے کھانے کا خیال رکھتے ، لیکن مجھے ملازمت کی بالکل عادت نہ تھی ، جس کی وجہ سے میرے کندھوں پر پریشر سا رہنے لگا ۔ میرے ریزائن کرنے پر پرنسپل سسٹر مونیکا ہمارے گھر آئیں اور اباجی سے مل کر کہنے لگیں " اس سے کہیں یہ جاب اس وقت تک جاری رکھیں جب تک ہمیں کوئی اور ٹیچر نہیں ملتی ،،، دراصل مجھے انھوں نے چھوٹتے ہی ، نویں ، دسویں کی جماعتیں پڑھانے دے دیں ، جب کہ میں چھوٹی کلاسسز کا سوچ کر گئی تھی ، وہ مجھے وہی کلاس دینے پر مجبور بھی تھیں جس   کی ٹیچر،کو اچانک غیر ملک جانا پڑگیا تھا ، اباجی نے بتایا ، گھر سے اسے کوئی پریشر نہیں ، اس نے اپنی مرضی سے جوائن کیا تھا اپنی مرضی سے چھوڑا ہے ، لیکن اباجی کی وجہ سے میں نے مزید ، گرمیوں کی چھٹیوں تک ان سے وعدہ کیا ،،، اور اس دوران شہناز نے بھی حامی بھری کہ"باجی اب کھانا پکانا مجھے سکھائیں ! تاکہ اس کی آپکو بےفکری ہو جاۓ" اس کی آفر نے بھی مجھے حوصلہ دیا ،،،، اور پھر " بلی" نے سب داؤ سیکھ لیۓ اور شیر ( یا شیرنی ) درخت کے نیچے بیٹھ گیا !!!  ۔
یہ شہناز میرے ہر دکھ سُکھ کی بھی ساتھی بن گئی ،،، اباجی کو اور ان کے دوستوں ، رشتہ داروںکو کس طرح ڈیل کرنا ہے اس نے سب سب سیکھ لیا ،،،،،،،،،،۔یہاں تک کہ اب اباجی جب بستر پر پڑگئے تو ، وہ نہ صرف گھر سنبھالے رہی ، بلکہ کبھی بچوں میں سے کوئی موجود نہیں تو وہ اور میں ہی مل کر اباجی کو سنبھال لیتیں ! ،،،، الحمدُ للہ ، آج 34 سال سے وہ ہمارے ساتھ ہے ، وہ میرے بچوں کے کھانے کی پسند ، ناپسند اتنی ذیادہ جانتی ہے کہ اب میں ان کی فرمائشوں کو نہیں سمجھ پاتی ! ! اس کی سانس کی بیماری چلتی آ رہی ہے لیکن وہ 20،25 منٹ کی واک کر کے روزانہ پہنچ جاتی ہے ، وہ آج بھی مزاج دار ہے ، اسی بیماری کی وجہ سے اس کی شادی نہیں ہو پائی ۔وہ آج بھی گھر میں قدرِحاکمانہ انداز سے رہتی ہے اور اللہ نے اسے میری آسانیوں کے لیۓ اس گھر کے لوگوں کے لیۓ ، اس کے دل میں محبت ڈال دی ،،، اباجی کی خدمت میں وہ پیش پیش رہی ہے اور ہم سب شہناز کے اِس احسان اور محبت کے ہمیشہ مشکور رہیں گے !!! ۔
اباجی کے گھر کے سامنے ، ایک  عیسائی فیملی آ کر سیٹل ہوئی ،،، انکل کا نام " ایلفرڈ جگ جیون " تھا اور وہ پاکستان کی نئی ائرفورس کے ایسے فوجی تھے جنھوں نے پارٹیشن کے وقت " ڈکوٹا جہاز " پر انڈین علاقوں میں پھنسے ہوۓ  مہاجرین  کو لانے کا خطرناک کام انجام دیا تھا ،، ، اور اس دوران ایک دفعہ ان کے جہاز پر فائرنگ بھی ہوئی جس کے نتیجے میں انکل بھی گولی کی زد میں آگئے اور بازو پر گولی سے زخمی ہوۓ ،،، یہ سب تو بعد میں پتہ چلا ! پہلے تو یہ ہی معلوم ہوا ، انکل ، آنٹی کے علاوہ تین بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا ہے ! ان کاسامان اس گھر میں اترنے لگا تو اباجی نے گھر میں بتایا سامنے والے آگئے ہیں ،،،، اور اماں جی کے چلے جانے کے بعد بھی یہ روایت نبھائی گئی کہ نئے پڑوسی کے گھر فوری طور پر ایک وقت کا کھانا پہنچا دیا جاۓ ،،، میں نے بھی جلدی سے ایک بڑا ڈونگہ سالن ، اور چاول ، اور روٹیاں بھجوا دیں ، انھوں نے اپنے برتنوں میں رکھوا کر ہمارے برتن بھجوا دیئے، لیکن ہمارا آنا جانا ، دو تین مہینے تک نہ ہو سکا ، ان دنوں میں اپنے تینوں بچوں کے ساتھ مصروف رہتی تھی ، اس دوران کچھ ماہ اور گزرے ، آتے جاتے اس گھر میں ایک موٹر بائک پر سوار دبلا پتلا لڑکا نظر آتا رہتا ! پھر محلے میں ایک شادی پر آنٹی ، ساڑھی میں ملبوس نظر آئیں ، سلام ، دعا ہوئی ،،، تو آنٹی نہایت محبت سے مجھے آنے کا کہتی رہیں ،،، نیز بتایا ، میرا بیٹا کچھ بیمار سا ہے ، تم بھی دعا کرنا آج کل اسے علاج کے لئے فلپائن بھیجا ہوا ہے ! یہ سب سن کر دکھ ہوا ،،، لیکن وہ ایک بہادر ماں نظر آئیں ۔ کچھ ماہ اور گزرے لیکن میری بہت بری عادت تھی کہ میں بہت جلدی ملنے ملانے کی جھجھک دور نہ کر پاتی تھی ،،، اسی وجہ سےبالکل سامنے بھی میرا جانا نہ ہو سکا۔اور میں ان دنوں گھر سے دور ہری پور میں تھی ، جب فون پر اباجی نے اطلاع دی ،،، " جگ جیون کے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے آج پہلادن ہے ،، میں نے ان کے گھر سالن کا دیگچہ اور روٹیاں بھجوا دی ہیں " ،،، کیوں کہ ان کے کوئی رشتہ دار نزدیک نہیں رہتے " ،! میں نےدل کے کہیں اندر اس دکھ کو پھر چھِلتے ہوۓ محسوس کیا ، جو میں نے وقت کی مرہم سے ڈھانپا ہوا تھا ،،،،،، جب میں کچھ دن بعد واہ  کینٹ آئی تو سہ پہر کا وقت تھا ، میں پہلی مرتبہ اس گھرانے سے ملی ۔ گھر میں سکوت اور اداسی کا ڈیرا تھا ، آنٹی نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا ،اور کوئی رونا ، دھونا نہیں ، بس چہرے کی ہر لکیر کے اندر دکھ دھنسا محسوس ہوا ، میں نے صرف اتنا کہا ، آنٹی میرے پاس الفاظ نہیں کہ اس اتنے بڑے دکھ پر کچھ کہوں !!! میں خاموش بیٹھی رہی تو آنٹی نے جواباً کیا کہا ، کچھ یاد نہیں لیکن میں تو اس عمر کی صابر عورت کو دیکھنے لگی ۔ میں نے اتنا ہی پوچھا آپ کی بیٹیاں جا چکی ہیں ؟ تب آنٹی نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کو آواز دی ! وہ بھی غم کی تصویر بنی سامنے آئی ، اس حادثے کو قریباً تین ہفتے گزر چکے تھے ، بڑی بیٹی جو شادی شدہ تھی انگلینڈ جا چکی تھی وہ اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ وہیں کی نیشنل تھی اور سکول ٹیچر تھی ، دوسری بھی سکول ٹیچر تھی جو مسقط میں جاب کر رہی تھی ، یہ بیٹا ان دونوں سے چھوٹا تھا اور 24 سال کا تھا کہ برین ٹیومر نے بقایا زندگی واپس لے لی، سب سے چھوٹی جینیفر بھی مری کے ایک اچھے ادارے میں ٹیچر تھی ، لیکن اب اس نے والدین کے شہر کےقریب حسن ابدال کے پریزنٹیشن کانووینٹ سکول میں آنے کا فیصلہ کر لیا تھا ، اسے سب جینی یا جینو کہتے تھی ، میں اس دن ذیادہ دیر بیٹھنے نہیں گئی تھی ، میں ان کے غم کو سمجھتے ہوۓ بھی ، سمجھ نہیں پا رہی تھی ، اور پہلی ملاقات تھی ، چند جملے ہی آپس میں ایکسچینج ہو پاۓ تھے،ہم ذیادہ جذباتی واقع ہوۓ ہیں اس لیۓ ایسے موقع پر ہمارے آنسو پلکوں پر دھرے ہوتے ہیں لیکن یہاں وہ دونوں اپنے " شدید غم " کا ماتم خاموشی کی زبان میں کر رہی تھیں ۔ میں جینی کے کمرے میں آنے ، بیٹھنے کے چند منٹ کے بعد ہی اُٹھنے لگی،،،، لیکن آنٹی نے مجھے مزید بیٹھنے کا کہا ،، کھانا بھیجنے کا شکریہ ادا کیا ،،،، ! جینی نے چند جملے بولے لیکن الفاظ یاد نہیں لیکن اس کا لہجہ یاد ہے ، کرب اور بےزاری ، سے بھرا ہوا،،،،، میں نے پھر اجازت چاہی لیکن اس دفعہ جینی نے روکا،چند منٹ کے لیۓ جینی دوسرے کمرے میں گئی تو آنٹی نے کہا،جینی نے کافی دنوں بعد کسی سے بات چیت کی ہے ،،،، تم پھر آنا ،، جینی آئی تو اجازت لے کر چلی آئی ۔ اور پھر ہماری ملاقاتیں بڑھتی رہیں ،،، ایک سال بعد مسقط والی بہن روبینہ آئی تو اُس سے بھی اتنی ہی بےتکلفی ہو گئی۔ گھر میں اسے بینو کہتے تھے۔ میں نے بھی انھیں بینو اور جینی ہی کہنا شروع کر دیا ۔شاید ہی کوئی دن گزرتا کہ ہماری ملاقات نہ ہوتی ہو ! شاید پہلےدن ہی ہم سب کی کیمسٹری آپس میں مل گئی تھی ، ورنہ اتنی جلدی نہ میں کسی سے بےتکلف ہوتی تھی نہ جینی کسی سے فرینک ہوتی تھی ، جینی مجھ سے کافی چھوٹی تھی لیکن دماغی طور پر وہ مجھ سے آگے تھی ۔ ہماری بےتکلفی کا یہ حال ہو گیا کہ وہ چھٹی کے دن اگر 11 بجے آتی تو دوپہر کا کھانا اور پھر شام کی چاۓ بھی اکٹھے پی جاتی ۔ دنیا جہان کی باتیں ہوتیں ، کبھی میں جاتی تو، تب بھی یہ ہی حال ہوتا ،کہ 4 ،5 گھنٹے سے پہلے محفل برخواست نہ ہوتی ۔ آنٹی ایک مہمان نواز خاتون ہیں ،،،، اس دوران کبھی موسم بہت ہی کچھ کہنے ، سننے والا ہوتا ، تو میں اپنی ایک آدھ نظم سنا دیتی ،،، چوں کہ ان سب کی اردو کمزور تھی اس لیۓ میں اس کی تشریح بھی کر دیتی تو وہ سب انجواۓ کرتیں ! وہ سارا گھرانہ بہت پڑھا لکھا تھا ، آنٹی کنیٹ کالج لاہور کی پڑھی ہوئی تھیں ، اِن سب کی انگلش بہت اعلیٰ تھی ، کچھ ہفتے میں نے بھی جینو سے انگریزی میں مدد لی ،،، انہی دنوں میرا بی اے کا رزلٹ نکلا اور میں ٹھیک ٹھاک پاس ہو گئی ۔ تو جینی نے سسٹر مونیکا سے میرا ذکر کیا کہ اس کی اردو اچھی ہے اسی لیۓ ان کی میٹرک کی ٹیچر کے اچانک جانے سے مجھے بلاوا آگیا ،،، اس وقت جینی نے اصرار کیا کہ ملنے میں کیا حرج ہے ، ملنے پر فوراً سیلیکٹ ہو گئی لیکن میں نے جیسا اوپر ذکر کیا کہ تیسرے مہینے ہی ریزائن کیا کہ میں ایک گھریلو عورت تھی اور گھر اور جاب نبھا نہیں پا رہی تھی ۔ ،،،، ایسا اُس وقت خیال تھا ، اب سوچتی ہوں تو اپنا تجزیہ کیا کہ دراصل میں خود کو اچھی ٹیچر ثابت کرنے کے چکر میں ، بچوں کو پڑھانے ، ان کے لیۓ صبح کےیونیفارم وغیرہ تیار کرنے کے بعد رات کے دس ، گیارہ بج جاتے تب اباجی کے پاس بیٹھ کر علامہ اقبالؒ کی اس نظم کی تیاری کرتی جو پڑھانی ہوتی ،،،، تب معلوم ہوا ،علامہؒ کا ایک ایک مصرعہ ، سمجھنے کے لیۓ ، پوری اسلامی تاریخ ، بلکہ جغرافیہ سمجھنا بھی کتنا ضروری تھا !! رات ہونے اور تھکاوٹ کی بنا پر میری آنکھیں بند ہو ،ہو جاتیں ،،، لیکن اپنی طالبات کو صحیح معلومات دینے کے لیۓ میں اس محنت کو ضروری خیال کرتی تھی ۔ اور اباجی تو جیسے اس ٹیچنگ کے منتظر ہوتے تھے ۔ وہ تو علامہ اقبالؒ کے عاشق تھے ، انھیں تو موقع مل گیا اپنے مرشد کے کلام کے ساتھ وقت گزارنے کا ،،،، لیکن میں نے ہمت ہار دی۔ طالبات کو اچھے انداز سے پڑھاتی تو رہی لیکن پہلا استعفیٰ تین ماہ بعد اور پھر آٹھ ماہ بعد دوسرا استعفیٰ ،،،،  پھر بہلا کر مجھے قائل کر کے واپس لایا گیا اور اس کے بعد میرے ساڑھے پانچ سال ہنستے کھیلتے گزرے کہ اب ان دِنوں کو یاد کرتی ہوں ،تو اس دور کو "گولڈن پیریڈ" کہتی ہوں۔اس دوران اپنے سے چھوٹی جینی نے قدم قدم رہنمائی کی ،،، سسٹر مونیکا کی ہمبل طبیعت نے میرے قدم جما دیۓ ! مجھے شروع میں آٹھویں جماعت کا ایک سیکشن اور نویں دسویں کے آرٹس کے سیکشن دیۓ گے ، اردو ، اسلامیات ہی میرے وہ مضمون تھے جن میں ، مَیں کمانڈ کہہ سکتی تھی !!!! دراصل ہمارا رب ہی بہتر جانتا ہے ،،،کہ کس کے لیۓ کیا ضروری ہے اور کیا غیر ضروری ہے۔اس نے میری انگلی پکڑ کر اس ادارے تک پہنچایا اور وہ ٹرینگ دلوائی جس نے آگے چل کر  میرے بہت کام آنا تھا۔ الحمدُ للہ ،،، الحمدُللہ رب العالمین!۔
( منیرہ قریشی ، 17 نومبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری 

جمعرات، 16 نومبر، 2017

یادوں کی تتلیاں(45)۔

 یادوں کی تتلیاں" ( 45)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اباجی کی فیکٹری سے بطور چیف سیکیورٹی آفیسر ریٹائرمنٹ 1973ء میں ہوئی۔ وہ اس فیکٹری میں لگاتار 9 سال رہنے والے اب تک کے واحد چیف سیکیورٹی آفیسرتھے ، ورنہ اس پوسٹ پر ذیادہ سے ذیادہ تین سال تعیناتی ہوتی ، اور ایسا اب بھی چل رہا ہے۔ الحمدُ للہ اباجی نے اپنے دور میں قریباًً چار میجر جنرلز کے انڈر کام کیا اور عزت سے ریٹائر ہوۓ ، اس دوران فیکٹری کے گرد بےشمار زمین ویران پڑی تھی وہاں دن کو بھی گیدڑ پھرتے اور لوگ سرِشام وہاں سے نہ گزر سکتے تھے ،،، اب فیکٹری ورکرز کے لیۓ مزید رہائش کی ضرورت پڑی تو اسی زمین پر سرکاری کواٹرز بناۓ گۓ ،،،، کچھ مجبوراً شفٹ ہو گۓ ہمارے رشتہ کے چچا کی شادی ہوئ ، انھیں وہیں  کوارٹر ملا !ایک دن انھوں نے ہماری دعوت کی اس وقت تک اباجی نے کارنہیں خریدی تھی ( 1965ء کے شروع کے دن تھے )، اباجی نے اس 4 میل کے فاصلے کے لیۓ آنے اور جانے کے لیۓ تانگہ " بُک" کرایا ،اور اہلِ خانہ سے کہا کہ شام کا کھانا سات بجے تک دے دیں ، اور جب ہم اُن کے گھر سے چلے تو یہ ایک ڈرانے والے 4 میل تھے ، آس پاس کوئی جاندار اگر راستے میں تھے تو صرف گیدڑ !! جو غول کی صورت پھر رہے تھے ، ان گیدڑوں نے فیکٹری کے اندر جہاں فیکٹری شاپس تھیں نہایت گھنے جنگل تھے انہی میں ان کے ٹھکانے تھے ، وہ آبادیوں میں آکر مرغیوں اور گھر کے پرندوں یا کبوتروں کا شکار کرتے ،،، سردیوں میں ان کی کورس میں آوازیں آتیں تو مجھے اور جوجی کو وہ کہانی یاد آجاتی ،جس میں ایک مالک نوکر سے پوچھتا ہے یہ کیوں چِلا رہے ہیں تو چالاک نوکر کہتا ہے "' انھیں سردی لگ رہی ہے یہ کمبل مانگ رہے ہیں " اور یوں مالک کی بیوقوفی ، نوکر کی چالاکی کو کامیاب کر دیتی !!! ہمیں بھی یوں لگتا جیسے یہ گیڈر کمبل مانگ رہے ہوں ، ہمارے گھر دو رشین کتے تھے ،،، اور ہمارے گھر کے سامنے والوں نے جرمن شیفرڈ پالا ہواتھا ان کے بھونکنےسے گیدڑ اس جانب کم رخ کرتے ،،،،، خیر، جنرل اُمراؤ خان نے اُس ویران جگہ کو استعمال کا سوچا اور انھوں نے نہایت نارمل قیمت پر پلاٹس کی بکنگ شروع کی ، پانچ مرلے سے سے 4 کنال تک کے گھروں کا آیئڈیا ،،، گھر بنا کر دینے کا ٹھیکہ دیا گیا اور اس نئی بستی کا نقشہ بھی بہت ہی اچھا تیار ہو کر بننا شروع ہو گیا ،،، جو" ورکر" فیکٹری سے ریٹائر ہوتا اس کے پیسوں سے جوں جوں گھر تیار ہوتے گئے وہ یہاں شفٹ ہوتے  چلے گئے ،، اور یہ بستی جسے " بستی کاریگر " کا نام دیا گیا ،،، آباد ہوتی چلی  گئی ، ،، اسی میں اباجی نے دو کنال والا گھر بک کرایا ہوا تھا ، ریٹائرمنٹ کے بعد اسی میں شفٹ ہوۓ، اس کے لان کو اماں جی نے بہت سی کیاریوں اور چند درختوں سے سجایا ، انھوں نے اس ذاتی گھر میں صرف تین سال گزارے ! اسی میں وہ میرے فرض سے فارغ ہوئیں ، اسی میں اُن کا انتقال ہوا ، یہیں میرا بیٹا عمررؤف بھی اپنے جنت کے گھر سدھارا اور باقی تینوں بہن بھائی اسی گھر میں اپنا بچپن گزارتے رہے ۔ یہیں جوجی اور بھائی جان کی شادی ہوئی ، اور ،،،، اسی گھر میں میرے تینوں بچے پڑھ لکھ کر فارغ ہوۓ ! ان میں سے لڑکوں نے ایم بی اے کیۓ اور بیٹی نے بی اے کے بعد فائن آرٹس میں ڈپلوما کیا ، اسی گھر میں بڑے بیٹے کامل علی اور چھوٹی بیٹی نشل کی شادیوں سے فارغ ہوئی ،،،اسی گھر میں ، میں پہلے دادی اور پھر نانی بنی ۔اسی گھر میں ہم نے اماں جی کے بعد اباجی کے زیرِسایہ بہت سی خوشیاں دیکھیں اور بہت کم پریشانیوں سے واسطہ پڑا، ،،،، جب اباجی بہت بزرگ ہوتے چلے گۓ ، تو انھیں کوئی جسمانی تکلیف نہ تھی ،،، وہ بہت اچھی صحت کو اپنے رشتہ داروں کے پاس آنے جانے کو تا دیر انجواۓ کرتے رہے ۔ قریباً 70 برس کی عمر تک کار چلاتے رہے ! ان کی بہنیں اکثر ان کے پاس وزٹ کرتیں ۔ ان کے چھوٹے دونوں بھائی 70 ، 72 سال کی عمر تک انتقال کر گئے لیکن دونوں بہنیں اور اباجی 82 ، 84 سال تک کی عمر دیکھ کر گئے ۔ یہ سب بہن بھائی خوش قسمت رہے کہ محتاجی والے بڑھاپے کا دورانیہ بہت ہی کم رہا ۔ اباجی نے صرف ڈیڑھ سال ایسا گزارا کہ انھیں چلنے پھرنے میں مشکل پیش آئی ،،، اصل بیماری اسی دوران " ڈمنشیا " کی تھی ،، اس میں بھی ان پر فیز آتے تھے! کبھی وہ بالکل ٹھیک ہو جاتے لیکن 24 گھنٹے بعد وہ اسی بلینک فیز میں چلے جاتے ۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ اباجی انتہائی تحمل اور صبر سے وقت گزارنے والے مریض تھے ، وہ کم آمیز تو تھے لیکن اس بڑھاپے میں مزید کم آمیز ہو گئے تھے ،،،،،،، انھیں کبھی بہت اچھے اچھے مرغن کھانوں کے شوق نہیں تھے ، ،، ہماری بھی اُن کی ان عادات کو فالو کرانے کا سہرا اماں جی کے سر جاتا ہے کہ وہ ہی پکتا جو اباجی کو پسند ہے ،،، اباجی سلاد پسندکرتے تھے ، اورایک عجیب عادت تھی کہ دوپہر 11 بجے والی چاۓ کے ساتھ ایک گاجر اورتھوڑی سی تازہ مولی ضرور کھاتے ، یا ایک کھیرا ہوتا ۔ کبھی بھی اباجی موٹے نہ ہوۓ ! خیر اس میں وراثتی جینز کاعمل دخل بھی تھا کہ یہ سب بہن بھائی نہ جوانی میں نہ بڑھاپےمیں " اوور ویٹ " نہیں ہوۓ ! اب جب اباجی بیمار ہوۓ ، اور انھیں سنبھال کر کرسی پر بٹھانا پڑتا ، یا نہلانے کے لیۓ واش روم لے جانا پڑتا تو کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی ،! اللہ کا لاکھ شکر ، ہم اولادوں نے تو جو خدمت کی تھی وہ ہمارا فرض تھا ، لیکن اباجی کو انھیں اگلی نسل یعنی میرے بچوں نے انھیں سنبھالنے میں وہ حصہ لیا جو ان بچوں کی خوش قسمتی کا باعث بنے گا آمین ! اس وقت علی ، ایم بی اے میں تھا اور باقی دونوں کالج میں تھے ، علی نے اپنے نانا کو ایک بےبی کی طرح سمجھ لیا تھا ،،، کھانا نہ کھاتے یا دوائ نہ لیتے وہ جس پیار ، سے منہ پر بوسہ دے  دے کر  کے انھیں کھلاتا ،،،، وہ منظر میں نے ابھی تک تو نہیں دیکھا ۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ایک دفعہ علی کو اپنے ایک دوست کی مہندی پر دوستوں نے زبردستی روک لیا ،،، تو اباجی نے مجھ سے بار بار پوچھا ،،،، وہ کہاں ہے ؟ میں پوچھتی ،،اباجی کون ؟ اس وقت وہ اس کا نام بھول گئے تھے ۔ آخر کہنے لگے ،،، وہ جو مجھے پیار کرتا ہے !!!!!!! تب میرے لیۓ یہ بات باعث ِسکون ہوئی کہ ہم نے اباجی کو محبتوں کے حصار میں رکھا ،، اور اس پارکنسن کی بیماری میں بھی انھیں احساس ہے کہ مجھے پیار کیا جاتا ہے !!اباجی کو نہلانے ، ان کی شیو کرنے ، انھیں سردیوں میں باہر دھوپ میں بٹھانے ، اور ان کے ساتھ گپ شپ کرنے میں علی پیش پیش رہا ، لیکن اباجی کو اخبار پڑھ کر سنانا ، اور انھیں لباس بدلانے میں ، کھانا کھلانے میں باقی دونوں بچے مجھے پوری مدد دیتے۔ ،،، اباجی کی تیمار داری میں آپا اور ہماری چھوٹی پھوپھی جی نے اپنی اپنی ، خدمت کی مثال قائم کی ، ،،،،،، اباجی کے اس گھر کو جو انھوں نے کراۓ پر چڑھایا ہوا تھا ، ،، جب ایک دفعہ خالی ہوا تو ہم دونوں بہنوں نے ان سے یہ اُتنے ہی کراۓ پر لے لیا ،،، جتنا کرایہ دار نے اس وقت چھوڑا تھا ،،، کیوں کہ جوجی ، کالج کی لیکچرر شپ سے فارغ ہوچکی تھی اور میں ان دنوں کانوونٹ سکول میں پڑھا رہی تھی ! جیسا میں پہلے ذکر کر چکی ہوں کہ ہماری بہت مخلص سہیلی شاہدہ نعیم نے ہمیں بزور یہ سکول (1991ء) میں کھلوانے کے خیال کو عملی جامہ پہنایا ! تو ہم نے بھی بہ مشکل رضا مندی ظاہر کر کے ، یہ سوچ کر اسی گھر میں سکول کھولا کہ ۔۔۔ چل گیا تو ٹھیک ، ورنہ بند کر لیں گے ! ،،،، اپنے قریباً سال کانووینٹ سکول میں پڑھانے کے تجربے نے بہت فائدہ دیا ۔ اور اباجی کی زندگی میں ہم نے اپنے سکول کا پہلا "پیرنٹ ڈے"(ء 1992) میں بھی منایا ،، ۔اس میں چیف گیسٹ " شاہدہ نعیم " کو بنایا ! اگرچہ ہماری صفِ اول ٹیم اباجی اور بڑے بھائی جان تھے جنھوں نے قدم قدم پر اپنی ، ہر قسم کی وہ سپورٹ ساتھ ساتھ رکھی جو اگر نہ ملتی تو ہم کبھی یہ ادارہ چلانے ،کی ہمت نہ کر پاتیں ۔ کیوں کہ ہمارا مختلف دفتری کاموں کا کوئی تجربہ نہ تھا ،،،، اور جب اباجی بیماری کے ہاتھوں بستر کے ہو کر رہ گۓ ، تو میں نے اور آپا نے فیصلہ کیا کہ صبح وہ آجایا کریں گی اور جب میں دو بجے سکول کی چھٹی کے بعد گھر آ جاؤں تو وہ واپس گھر چلی جایا کریں ،،، آپا بھی 20 منٹ کی واک پر رہتی تھیں اورچھوٹی پھوپھی جی ، تو 10 ، 15 منٹ کی واک پر رہتی تھیں ،، وہ تو اپنے بھائی کی محبت میں خود ہی " آن ڈیوٹی " ہو گئیں ! اس طرح یہ دونوں پھوپھی ، بھتیجی صبح آ جاتیں ، اور میں تسلی سے سکول چلی جاتی ، پھر بعد کا دن رات ،مَیں اور بچے مل کر سب کچھ سنبھال لیتے۔ ان دنوں جوجی کی ٹونز بیٹیاں بہت چھوٹی تھیں اس لیۓ اسے ان ذمہ داریوں سے فارغ رکھا ۔ ابا جی کی بیماری کا یہ دورانیہ ڈیڑھ ، پونے دو سال کا رہا ،،،، لیکن اللہ کا شکر کہ اباجی کو کبھی کسی بے زاری کا سامنا نہیں کرنا پڑا ،،،! ( یہ سچ صرف لکھ نہیں رہی بلکہ اللہ کا مزید شکر ادا کرتے ہوۓ بتا رہی ہوں ) جیسا اکثر بیماربوڑھے لوگوں سے اظہارِ تھکاوٹ ، یا اظہارِ بوریت دیکھنے میں نظر آجاتا ہے ،،، جو ہم سب کے لیۓ وہ امتحان ہے جس کا رزلٹ آنے والے وقت میں ہم نے کھول کر دیکھنا ہوگا۔
( منیرہ قریشی 17 نومبر 2017ءواہ کینٹ ) ( جاری )