جمعرات، 30 دسمبر، 2021

" اِک پرِخیال..مختصر مختصر "

" اِک پرِ خیال "
امیر انسان اپنی امارت ، اور عزت لینے کا عادی ہوتا ہے ۔ لیکن غریب اپنی غربت کا کبھی عادی نہیں ہوتا ، وہ تبدیلی کا منتظر رہتا ہے ۔

اسی طرح ، جس کی ذلت کی جاتی رہۓ ،، وہ بھی کبھی اس رویۓ کا عادی نہیں ہوتا ، بس وہ بے نیاز ہو جاتا ہے ، اور یہ بے نیازی ذلیل کرنے والے کے لیۓ عذاب کی ابتداء ہو سکتی ہے ، ہوشیار باش !!۔

۔۔۔۔۔

ضبطِ نفس کے بہت سے مظاہر ہیں ، "اسراف نہ کرنے والے ، غصہ پی جانے والے ، معاف کرنے والے یا اپنی چیز کو اپنا " نہ" کہنے والے ۔ ان چیزوں میں مال ، اولاد سبھی شامل ہیں ۔ ضبطِ نفس کی یہ منزل بھی بہت کڑی ہے کہ سب اپنی محنت سے حاصل کرنے کے باوجود آپ کو عاق 'سمجھا' جاتا ہے ۔
حیران کن !! حیران کن ،،،،
۔۔۔۔۔
"خوشی" دراصل آنکھ سے دیکھنے ، دل کی دھڑکنوں کے کان میں گونجنے ، ذائقوں اور خوشبوؤں کی تیزی ، اور خالی الذہنی کی کیفیت کا نام ہے کیوں کہ خوشی کا منظر تیزی سے بدلتا چلا جاتا ہے۔
غلط اور صحیح الفاظ ،،کچھ تیکھے ، میٹھے ، کچھ اداس کچھ پُرجوش جملے کانوں میں گھستے چلے جاتےہیں لیکن خالی الذہنی کی کیفیت برقرار رہتی ہے ۔ شاید " خوشی " ایسے ہی لمحے کا نام ہے ۔ مکمل سکون کا سناہے مگر کامل خوشی کی کیا تعریف ہوتی ہوگی؟

( منیرہ قریشی 30 دسمبر 2021ء واہ کینٹ )"

ہفتہ، 13 نومبر، 2021

" مستقل مزاج"

" مستقل مزاج"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنوعی لگاوٹ تھی اس کی باتوں میں
بناوٹ ہی بناوٹ تھی اس کی باتوں میں
سُنا کیۓ ، محویت سے ،،،
تا دیر اِک یکسانیت سے ،،،
پھر تھکے اتنے ،،،کہ ہر انگ میں تھکاوٹ تھی
کچھ لوگ ،کچھ عادتوں کے محتاج ہوتے ہیں
کچھ سُننے میں ، کچھ بولنے میں مستقل مزاج ہوتے ہیں ،
حالاں کہ بے خیالی سے ، بے ارادہ ہی
سر ہلایا ہے ، ہاں بھی اور نا بھی !!
خبر نہیں ، اس نے کیا کہا
معلوم نہیں ، میں نے کیا سنا
نہ جانے اس نے کیا سمجھا ،
عجیب کیفیت ، ہو ہی جاتی ہے ،،،
ہاں بھی ، اور نہ بھی
مستقل مزاجی بھی ،کیا گُل کھلاتی ہے،،
کچھ کی سماعت سے ، کچھ کی گویائی سے !!

( منیرہ قریشی ، 13 نومبر 2021ء واہ کینٹ ) 

جمعہ، 15 اکتوبر، 2021

" پیاری " کی اٹھارویں سالگرہ پر

" پیاری " کی اٹھارویں سالگرہ پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِک لمحہء دعا تھا
اِک لمحہء محبت
جو سامنے آیا ' حمنہٰ ' کی صورت
یہ بیٹیاں بھی کیا وجُود ہیں خدایا !
کہ دل کا عجب ہی سکون ہیں گویا
کبھی ہم نے تجھ کو
" سِمل " سے پکارا ،،کبھی کہا " پلوشے "
اور دل چاہا تو " نمُو " بھی کہہ لیا
نا سمجھی کی باتونی عمر میں
الگ ہی رُوپ تھا تیرا
اور نوجوانی میں خاموشی کا منفرد ہے " ھالہ "
زندگی میں سوچ کی " لو " نے تجھے ہے گھیرا
یہ کرنیں تیرے وجُود کی
ضَو بنیں تیرے کردار کی
کیسا سکُون ملا ہے تجھ سے
دعائیں ہیں تیرے سنگ
میری پیاری نواسی ،،،،
دِ لوں کی تُو شہزادی،
( منیرہ قریشی 15 اکتوبر 2021ء واہ کینٹ )
( محبتوں کے ساتھ )

۔ ( اپنے بچوں کو والدین " فرض " کے طور پر پالتے ہیں ،،، لیکن اگلی نسل کو انجواۓ کرتے ہیں ۔ اور جب بتدریج ان میں نئی نئی تبدیلیاں آتی ہیں تو ، زندگی ایک الگ پہلُو سے دکھائی دیتی ہے ، اللہ رب العالمین کی حفاظت میں رہیں آمین ،، ) 

ہفتہ، 25 ستمبر، 2021

"اِک پّرِخیال " " رازِِ نہاں"

"اِک پّرِ خیال "
" رازِِ نہاں"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہمیں حج کا بلاوا آیا ،،، تو اس خوش نصیبی کے سفر کا سن کر جاننے والے ، بہت سے لوگ ملنے آۓ ،،، اور ان میں سے بہت سے ملنے والوں نے اپنی خاص دعائیں لکھ کر دیں کہ " ،،، ہماری طرف سے یہ اور یہ عرض پیش کر دینا " میَں نے یہ پرچیاں اکھٹی کر کے سٹیپل کر لیں ،،، ڈیڑھ درجن سے شاید زیادہ کی عرضیاں میرے اس بیگ میں تھیں جو ہر لمحہ میرے گلے میں پہنا جانا تھا ۔ اللہ کے گھر پہنچنے کے بعد عمرہ مکمل ہوا تو پرچیاں یاد آئیں اور اسی کے گھر کے دَر کے سامنے ایک ایک کر کے پڑھ ڈالیں ،،، کہ " یہ امانت ہیں ، میں نے پڑھ دیں اب آگے تیری مرضی " ۔
عمرہ کے چند دن بعد مدینہ کے سفرَ محبت میں منزل پر پہنچ کر ایک جمعہ وہیں گزرا اور ایک دفعہ ان پرچیوں کی عرض یہاں بھی ایک ایک کر کے پڑھ دیں ۔ واپس خانہ کعبہ پہنچے اور اپنے بچوں ، اپنے والدین ، رشتہ داروں ، سبھی جو یاد آیا ،،،، ان کے لیۓ پھر دعائیں کیں ،،، " جو جہاں ہے ، ان کو آسانیاں عطا کرنا ، درجات بلند کرنا " ،،،، اور پرچیوں کی عرضیاں بھی ایک مرتبہ پڑھ ڈالیں ،،،،
منیٰ کے میدان میں ایک مرتبہ اور یہی عمل دہرایا ،،، اور آخر میں عرفات کا دن ،، بھر پور یقین کے ساتھ سب کےلیۓ دعاؤں کے ساتھ پرچیوں کو بھی پڑھ لیا ۔۔۔۔ لیکن اس کے بعد پرچیاں پھر نہیں پڑھیں ،،، کہ اب اس چالیس دن کے قیام اور مسلسل صحت کی طرف سے قدرِ کم توجہ کے باعث باقاعدگی نہ رہنے دی ،،،،،،،،
اس رب نے بلایا ،،، تو اسی سے اس سفر کے ہر عمل کی قبولیت کی دعائیں کرتے واپسی ہوئی ۔ کافی سال گزر گئے۔۔۔۔ اور ایک دن اسی پرس کی صفائی کے لیۓ اسے کھولا ،،، پرچیوں کا سٹیپل شدہ مٹھی بھر دستہ نظر آیا ۔۔۔ ایک دفعہ اور پڑھا ،،، نظر ڈالنے سے یہ یاد آیا کس کی کون کون سی دعا پوری ہوئی ،،،حیرت اور خوشی ہوئی کہ سواۓ دو کے سب ہی دعائیں قبولیت پا چکی تھیں ۔ الحمد للہ ۔۔۔ اپنے ِخاندان اور بچوں کے لیۓ تو نہ ختم ہونے کی دعائیں تھیں ۔۔۔ جو ہر لمحہ اب بھی جاری تھیں ،،،،،،،،، تو یکدم خیال آیا،،،،
" اپنے لیۓ کیا مانگا تھا ، کیا دعائیں کیں " ؟؟؟
یہ جملہ ذہن میں آتے ہی دل اور آنکھیں شرمندگی سے بھر بھر گئیں ۔۔ یہ کیا مجھے تو یاد ہی نہیں کہ مَیں نے اپنے لیۓ کچھ مانگا ہو ، میَں تو اتنی پُریقین ، اتنی سرشاری کی کیفیت میں رہی کہ جیسے کوئی نہایت ہموار کشتی چلتی چلی جاۓ ، چلتی چلی جاۓ ،،،، اور میں ایک ہلکی ہلکی غنودگی کی سی کیفیت میں چلی جا رہی تھی ۔ میں کوئی دواء بھی نہیں لے رہی تھی ، اس کے باوجود سارا ماحول ڈولتا محسوس ہوتارہا تھا ۔۔۔ مجھے اس کیفیت سے کسی لمحہ بھی چھٹکارا نہیں ملا کہ "میں کتنی خوش قسمت ہوں ،، میَں بلائی گئی ہوں ،، اس سے بڑھ کر بھی کوئی چیز مانگی جا سکتی ہے ؟"
لیکن آج بہت عرصے بعد جب یہ پرچیاں ،،، وہ دعائیں ،،، وہ کیفیت یاد آئی ،،، تو ایک اور خیال ذہن میں کوندا ۔ " کیا پتہ مجھ سے اپنی دعائیں نہیں کہلائی گئیں ،،، تاکہ ،،، ایک مرتبہ پھر بلاوہ آ جاۓ ، اور تب اپنی ذاتی ، دلی دعائیں عرض کرنے کا موقع دیا جاۓ گا " واہ ،،، کتنا خوش کن خیال ہے ،،،اس خیال نے پھر اسی " محبت ، سرشاری ، کی کیفیت کو محسوس کرنا شروع کر دیا " تو کیا تیاری پکڑوں ،،،!!
اے اعلیٰ و ارفعٰ میزبان ،،، " ؎ تو غنی از ہر دو عالم مَن فقیر"

( منیرہ قریشی 25 ستمبر 2021ء واہ کینٹ ) 

بدھ، 22 ستمبر، 2021

" اک پرِ خیال" عزت کی سنبھال "

" اک پرِ خیال"
"عزت کی سنبھال "
آج ایک عجیب سا دور ہے ۔۔۔شیطانی اور روحانی طاقتوں کا عروج دیکھنا پڑ رہا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی ابتداء ہی انہی دو طاقتوں کے ٹکراؤ سے ہوئی ۔ ہابیل اور قابیل عزت اور بے عزتی کے نمائندہ اولین سردار بنے اور پھر شیطان اپنی تمام تر صلاحیتوں اور طاقتوں کو بروۓ کار لاتا چلا گیا ، جو اسے عبادت گزاری کے دور میں مل چکی تھیں لیکن اب وہ منفی استعمال کا منبع بنا ، نسل انسانی کو ہر ممکن وہ سوچیں ،وہ طریقے سُجھاتا چلا جا رہا ہے جن پر بعض اوقات تو مثبت عقل ششدر رہ جاتی ہے کہ ابھی میں نے اس کی تازہ ترین چالوں کا توڑ کیا ہی تھا کہ یہ اس سے بھی بڑی شیطانی حرکات سامنے لے آیا ۔ چاہے یہ شیطانی تجاویز ۔۔دوسرے کمزور قبیلوں ، ملکوں پر زبردستی قبضہ ہو یا محض خون خرابے کا لطف اُٹھانا ۔چاہے یہ کھوپڑیوں کے مینار بنا کر مطمئن ہونا ہو یا محض دہشت پھیلانا۔
چاہے یہ چند صدیاں پہلے کا منظر ہے یا چند ہزار سال پہلے کا۔۔۔شیطانی ٹولہ انہی گلے کاٹنے کے طریقوں کو مختلف انداز سے منفی سرشت رکھنے والوں کو سکھاتا چلا جا رہا ہے ۔وہ تو شکر ہے کہ روحانی طاقتیں پوری ذمہ داری سے "فرائض "سرانجام دے رہی ہیں تو معاشرہ نوے فیصد بچتا چلا جا رہا ہے ۔
آج اکیسویں صدی ہے بظاہر انسانی ذہن نے رہن سہن ، تمدن ، تماشے ، ہر طرح آسانیاں ہی آسانیاں بانٹ دی ہیں تاکہ انسان خوش ہو ،خوشیاں بانٹے اور دنیا تیز ترین ،بہترین اور بلند ترین سطح کی آسائشوں سے لطف اندوز ہو جاۓ ۔ لیکن انسانی منفی سرشت "ڈو مور "کے چکر میں گھمن گھیریاں کھا تے ہوۓ غیر مطمئن ہے ۔ یہ وہی لوگ ہیں جو گلیڈی ایٹرز جیسے کھیل ایجاد کرتے اور نہ جانے کون سی فطرت کو سکون دینے کی بےسکونی کو جسم میں لیے قبروں میں اترتے چلے جا رہے ہیں لیکن شیطانی ٹولہ نِت نئے ہتھیار پْرکشش انداز سے سکھاتا چلا رہا ہے ۔ تاوقتیکہ کْل کائنات کے خالق کا "کْن"آن پہنچے گا ۔
ہر خطے کا معاشرہ تین طبقوں پر مشتمل چلا آرہا ہے ،، ۔۔۔۔
غریب ۔۔جسے پیٹ کی بھوک اور تن ڈھانپنے کی فکر ،بے فکری کے کھیل تماشوں کی طرف کم ہی آمادہ کرتی ہے ۔
درمیانہ طبقہ ۔۔جسے ، لین دین ،اقدار اور رکھ رکھاؤ ،لوگ کیا کہیں گے ،کی اتنی فکر رہتی ہے کہ وہ اپنی کڑی محنت سے جو کماۓ اسے شکر گزاری سے مزید سنبھالتا ہے ، اور ایسا طبقہ تفریح کے لیۓ بھی سالانہ بجٹ بناتا ہے۔
طبقۂ اُمرا ۔۔جس نے آسودگی اگرپْشت در پْشت دیکھی ،،تو بھی اور اگر کسی قدر اپنی محنت اور کچھ چھوٹے رستے پار کر کے لی تب بھی ایک نسل تو نام ،کام اور مال سنبھالتی ہے ۔ آخر کو ،ہم وہ ہیں کہ " تالی بجائی ،کوئی ہے " کا جملہ بولتے ہیں ، چراغ کے جن کی طرح ملازم حاضر ،آرام ، طعام حاضر ۔ نفس کے تمام معاملات حاضر تو پھر خناس کیوں نہ آ جاۓ ۔بڑے نہ چھوٹے سبھی کی شامیں اپنی اپنی ذاتیات کے دائروں میں ! کیسی اقدار، کیسی روک ٹوک ، کیسا ادب ، کیسی پوچھ گچھ !!!میرے دوست، میری اپنی رہائش ، میرا اکاؤنٹ ، میری راتیں ، میرے دن !! کما کیا رہۓ ہو ؟ یہ کسی کو پوچھنے کا حق نہیں ۔۔والدین تو صرف نام کے ہو کر رہ گئے۔
انہی امراء کے طبقے کی دیکھا دیکھی ، ایک اور بےوقوف طبقے نے جنم لیا ،،، جو اپنی محنت سے صاحب جائیداد بنے ،خود کو منفرد دکھائی دیۓ جانے کے چکر میں عجب چکر میں ڈال لیا ۔ اولادیں تین میں نہ تیرہ میں ، دین کی خبر نہ دنیاوی آداب !! سارا وقت ان امیر امراء کی نقالی سے کچھ وقت گھر آ بھی گئے تو ذرا والدین کی پُرسش ہوئی نہیں کہ فوراًجواب ملا" آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے "حالانکہ اب تک کی تیس سالہ عمر تک وہ کسی کاج کو نہیں کر دکھا پاۓ ۔اور پھر جو شیطانی ٹولہ ان دو طبقوں کے ساتھ مل کر پنپتا ہے تو تاریخ گواہ ہے کہ پھر خونی کھیل کے نت نئے طریقے ایجاد ہونے لگتے ہیں ۔ سکون صرف نشے سے نہیں مل رہا ، کچھ نیا ، کچھ اورہونا چا ہیے ۔چلو شرطیں لگاتے ہیں ، سٹہ بازی کرتے ہیں ،ہر چیز کی ۔۔ انسانی جسم کی اورکبھی انسانی اجسام کے کاٹے جانے پر ، کبھی عزتوں کی پامالی پر ،کبھی ایک دوسرے کی ساتھی کے ادل بدل پر ۔تو پھر کیسی عزت دار فیملی ؟، کون سے خاندانی رئیس؟ کس مذہب کی نمائندگی ؟ ہم دین سے دور ہو کر کلنک کے ٹیکے بن گئے ہیں ، جنھیں دھونا آسان نہیں ۔
آج بھی اگر یہ سوچ لیں ، بطورِ سربراہ لکیریں کھینچ کر اپنے خاندان کو واضح کر دیں کہ انھیں پار کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ۔ ایسے لباس کو اللہ اور نبی پاک نے پسند نہیں کیا،ہم بھی نہیں پہنیں گے ۔ بیٹی /بیٹا جوان ہے ، اسے دنیا کی اونچ نیچ کے علاوہ اللہ کی پسند نا پسند سے بھی آگاہ کریں ۔ گھر میں اس بچے پر خاص نظر رکھیۓ کہ ایک خونی پنجہ ہر لمحہ دبوچنے کو تیار ہے ۔ اسے مضبوط خاندانی نظام تب ہی بچا سکتا ہے جب وہ اللہ کے اکبر ہونے کے تصور کو بھی دل میں پہچانتا ہو ۔ یہ رسمیں محض دکھاوا اور نمائش ہے ، ہم نےرواج نہیں ڈالنا ، گھر کی آرائش میں اتنا اسراف ؟ میںَ اجازت نہیں دیتا/ دیتی ۔
اللہ نے ایک عزت دار گھرانے میں پیدا کر ہی دیا ہے تو اس عزت کو سنبھال لیں ۔ ان پابندیوں کو جو دین نے ہمیں دی ہیں اپنی فلاح کی خاطر اپنا لیں ۔ اگر کسی قاتل ، ڈاکو ، یا، کسی کوٹھے والی کے گھر پیدا ہو جاتے تو اسی عزت کو کمانے کے لیۓ نہ جانے کتنی زندگیاں کام آتیں ۔ تب بھی لوگ ماضی نہیں بھولنے دیتے ۔ اس خالق کے کرم سے کسی عزت دار گھر میں آنکھ کھولی ہے تو اسے سنبھال لو،، تھوڑا رزق ہے تو قناعت کرو ، محنت کرو ۔ زیادہ ہے تو شکر گزاری کرو اور بانٹو ۔۔ ہر لمحہ اس رب سے ڈرو کہ نہ جانے کب ، کس وقت ہماری مجرمانہ کوتاہیاں ، اور خاموشی اس کی پکڑ کا باعث بن جاۓ ۔ ڈگریوں ، عہدوں ، کارخانوں ، محلات کو دائمی نہ جانو ، اولاد کی پرورش میں کڑی نگاہ ضروری ہے ، کہ
؎ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا ! !

( منیرہ قریشی 22 ستمبر 2021ء واہ کینٹ ) 

منگل، 20 جولائی، 2021

" اور قسم ہے ، راتوں کی دس" ( سورۃ فجر )

" اور قسم ہے ، راتوں کی دس" ( سورۃ فجر )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ راتیں ہیں نیازوں کی
سجدے کچھ فرض کے
سجدے کچھ عرض کے
سجدے کچھ غرض کے
اور پھر ،،،،،،،
کچھ شبد ہیں نگینے سے
کچھ شبد ہیں سکینت کے
دہرائیں ، تو فضیلت ہے
شادابی ہی شادابی ہے
یہ شبد ہیں تکبیر کے ، تہلیل و تمجید کے
عشرہ میں چھُپی ، مستبشرہ
اور جو لُوٹ چاہو مِیلے کی
نقدی صرف ، اخلاص کی
سودا ملے ، دیدار کا ،،،،
عشق کا سرمہ آنکھوں میں
" لڑیاں " ہیں بہار کی ،،،۔
" شبد" ہیں ،، نگینے سے
دہراؤ تو فضیلت ہے ۔ دہراؤ تو سکینت ہے ،
( منیرہ قریشی ، یومِ عرفہ ( بہ مطابق پاکستان )

(۔ 20 جولائی 2021ء واہ کینٹ )

جمعہ، 11 جون، 2021

" آخری منظر " ( معصوم شہداء کے لیۓ )

" آخری منظر " ( معصوم شہداء کے لیۓ )
" میں ابھی تین سال کا ہوں
میری ماما مجھے سِری لیک کھلا رہی تھی
ماما کی آنکھیں سبز تھیں
اور ہونٹ میٹھے تھے ،،،،،
کیوں کہ وہ جب مجھے چومتی
میَں میٹھے سے بھر جاتا !!
مگر اب ماما گم ہو گئی ہیں
یا،،،، مَیں گم ہو گیا ہوں !!
ہم ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں،،،
اور میری آنکھوں میں ٹھہرا منظر
تمہیں حیران کیوں کر رہا ہے ؟
سری لیک تو ابھی بھی میرے منہ میں گھُلا پڑا ہے !
میں حیران ہوں ، ماما کہاں گم ہو گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مَیں پانچ سال کا ہوں
میَں اور بابا نٹ بال کھیل رہے تھے
وہ کییچ لیتے تو نعرہ لگاتے ،
مَیں سرشار ہو ہو جاتا
کتنا زبردست ہے میرا بابا
ہے کوئی دنیا میں اس جیسا !!
مگر پھر یکدم ہم گم ہو گۓ ،،،،
کچھ تڑ پے ،، کچھ ٹھنڈے ہو گئے
میری آنکھوں کی پُتلیوں میں بابا کے ہاتھ ہیں ،،
نٹ بال کیچ کرتے ہوئے !
یہ منظر ساکت ہو گیا ہے
قیامت تک کے لیۓ ،،،،
( بموں کی تاریخ ،،، انسانیت کو کیا جواب دے گی )
منیرہ قریشی 11 جون 2021ء واہ کینٹ

پیر، 7 جون، 2021

" اک پرِخیال " " فطرت کرتی ہے نگہبانی'

" اک پرِ خیال "
" فطرت کرتی ہے نگہبانی'
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹیج یا فلم کے اداکار ،،،، ادکاری کے ساتھ مکالمے یاد کرتے ، اور تمام تر جذبات کو انہی مکالموں کے زیرِ اثر ادا کرنے میں بہت محنت کرتے ہیں ،،، تاکہ وہ اس شعبے کی جزیات کو مدِ نظر رکھ کر اپنی اعلیٰ کار کردگی دکھائیں ،،، اور حقِ محنت ادا ہو جاۓ ۔ پردہ گرنے کے بعد سٹیج کے ان اداکاروں کی تھکاوٹ تو بنتی ہے ،،، لیکن عجیب بات ہوتی ہے کہ سٹیج شو دیکھنے والے بھی گھر پہنچنے تک تھکن سےبےحال ہو چکے ہوتے ہیں ،،،،
بالکل ایسے ہی جب ہمارے گھروں میں ہماری حیثیت سے بڑھ کر کوئی مہمان آتا ہے تو ہم نہ صرف اس کی خاطر ، عزت کھانے پینے کے معاملے میں بڑھ چڑھ کر کام انجام دیتے ہیں ،،، بلکہ اس کی باتوں کے جواب ذرا سوچ سمجھ کر دیتے ہیں ،، تاکہ وہ ہمیں " گاؤدی " ہی نہ سمجھیں ،،، تو گویا ہم باتوں میں بھی بڑھ چڑھ کر معلوماتی گفتگو کرتے ہیں ، تاکہ وہ مزید متاثر ہو ۔۔ مہمان کے گھنٹہ ، دو گھنٹے بیٹھنے تک ،،، جب مہمان چلا جاتا ہے تو ،، تو ہم یوں تھک چکے ہوتے ہیں کہ جیسے ، ہم میلوں چل کر ابھی گھر پہنچے ہیں ،،، اف ،،،، ہم تو تھک گۓ ،،، سبھی کے چہروں پر یہ جملہ لکھا ہوتا ہے ۔
تو گویا ،،،" مصنوعی پن " ہماری تھکاوٹ کا اصل سبب بنتا ہے ۔۔۔ سٹیج ادکار،،، حالانکہ اپنے پیشے کا فرض ادا کر رہا ہوتا ہے ،، لیکن اپنا پسندیدہ پیشے کو اپنانے کے باوجود ،،، وہ جلدی تھک جاتا ہے ،، کچھ ایسے ہی دو وہ اشخاص جنھیں جوڑا بنایا جاتا ہے ،،، مزاج نہیں مل پاتے تو کچھ عرصہ کی ادکاری تو چل جاتی ہے ،،، شاید ،،، اداکاری ہٹ ہو جاۓ ،،، اور تالیاں بج اٹھیں ،،، لیکن ایسے اداکار ( دونوں طرف کے ) جلد ہی فلاپ ہو کر اتنی تھکن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ،،، اب نفرت کا دورانیہ شروع ہو جاتا ہے ،،،جس کے بعد دو طرفہ فریق اپنی کرسیوں سے اٹھ کر اپنی اپنی راہ لیتے ہیں ،،، اب وہ مطمئن ہیں ،،، اُف ہم تو تھک چکے تھے ،، اداکاری کر کر کے ۔
ہاں البتہ ،،، اس اداکاری کی رمز کو پہچان اور جان جانے والے ،،جلد ہی مزے سے زندگی بتانےلگتے ہیں کہ وہ مصنوعی طرزِ فکر و عمل ،،، ادھر چھُٹا ،، ادھر اعصاب پر سکون ہو گئے۔ چین کا فلاسفر کینفیوشس کہتا ہے " زندگی تو بہت آسان ہے ،لیکن ہم اسے پُر زور طریقے سے مشکل بناتے ہیں "۔
نہ جانے کیوں ہم زندگی کا ایک لمبا دورانیہ ،،، مصنوعی بات چیت ،، رہائش ، خوراک ،،،، لوگوں کی نظروں میں اہمیت لینے کے چکر میں گزارتے چلے جاتے ہیں ۔ اس مٹھاس کو چکھنے کا تجربہ کرنے سے گھبراتے ہیں ، جو خالص ، یعنی آرگینیک طرزِ زندگی کا ہے ،،
جو ہمیں سکون دیتا ہے ،،
جو بغیر ڈگریوں ، مال ، اور معلومات کے بغیر بھی " ہمیں " متعارف کراتا ہے !
جو ہمارے کندھوں سے " میَں تو تھک گیا/ گئی کی بوری اتار دیتا ہے !
جو بغیر دواؤں کے نیند عطا کرتا ہے !
جو ہمیں یاسیت بھرے چہروں کی طرف متوجہ کرتا ہے !
جو ہمیں اپنے مالک کی یاد دلاتا ہے!
اور جو ہمیں اپنے " آپ " سے ملواتا ہے !!
تجربہ کر کے تو دیکھیں ۔

( منیرہ قریشی 7 جون 2021ء واہ کینٹ ) 

منگل، 25 مئی، 2021

" ہم سب کا خدا بادشاہ " ( 2)

" ہم سب کا خدا بادشاہ " ( 2)
'' تقدیر یا تدبیر "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا جس کے دربار میں ایک جن بھی شامل تھا ۔دربار میں ایک دن ، انسانوں اور جنِوں کے درمیان ،،، تقدیر اور تدبیر کے اثرات کی بحث چل نکلی جن کے پاس بھی مضبوط دلائل تھے کہ اچھی اور محفوظ تدابیر سے تقدیر بدلی جا سکتی ہے ،، جبکہ کچھ اِنس و جِن کی طرف سے بھی تقدیر کے اٹل ہونے پر مضبوط دلائل تھے ،،، بادشاہء زماں نے بہت بڑھ بڑھ کر بولنے والے جِن سے کہا ،، " اگر تمہیں اپنی دلیل کے اٹل ہونے کا اتنا ہی یقین ہے تو ثابت کر کے دکھاؤ ،،، !! جن نے کچھ عرصہ کی اجازت مانگی ،،، جو اسے کچھ سالوں کے لیۓ مل گئی ،،،،!
یہ جن دن رات ترکیبیں سوچتا رہا کہ ایسا کیا کروں کہ اپنے دلائل ثابت کر سکوں " !
ایک دن انہی خیالوں میں اُڑتا ہوا جا رہا تھا ۔ کہ اس کی نظر پڑوسی بادشاہ کے محل پر پڑی ،،، اس کے وسیع و عریض چمن میں نو عمر شہزادی اپنی کنیزوں اور سہیلیوں کے ساتھ چھُپن چھُپائی کھیل رہی تھی ،،، وہ اپنی سہیلیوں سے چھپنے کے لیۓ ایک الگ تھلگ درخت کے پیچھے چھُپی ہوئی تھی ،،، کہ اس جِن نے فوراً شہزادی کو غائب حالت میں ایک رومال میں دوا سے سُنگھا کر بے ہوش کیا ،،، اور لے کر اُڑ چلا ۔ اس نے ایک بڑے اور گھنے
درخت ، کی شاخوں کے درمیان ایک دم ایک آرام دہ کمرہ بنایا ،،، اس میں شہزادی کی ضرورت کی اور کھانے پینے کی تمام اشیاء رکھ دیں ،، تاکہ شہزادی ہوش میں آۓ تو یکدم پریشان نہ ہو جاۓ ۔ یہ درخت ایک شوریدہ اور خوب چوڑے دریا کے درمیان تھا ،، دور دور تک صرف جنگل پیابان تھا ۔
ہوش آنے تک جن مناسب شکل میں ایک بزرگ آدمی کی صورت میں آ گیا ،، شہزادی ہوش میں آئی تو ظاہر ہے ،، رونا دھونا ہوا،، اور کھانے پینے سے انکار کر دیا ۔ کیوں کہ اس تبدیلی نے اس کے حواس گم کر دیۓ تھے ۔
جن کو اندازہ تھا ،، انسان تا دیر نئی جگہ ، لوگ اور ماحول کو اپنا نہیں پاتا ۔ اس لیۓ اس نے اس کی تمام ضرورت کی چیزیں رکھیں ،، اور یہ کہہ کر نکل گیا ،، " میں کل آؤں گا " ابھی تم آرام کرو " !
نو عمر شہزادی غم و دکھ میں روتے روتے سو گئی ،،، جن اگلے دن بزرگ کی شکل میں آیا ،، اور اس سے پُر شفقت انداز سے اسے جھوٹی سچی تسلیاں دیں ،، تاکہ وہ کہیں بیمار نہ ہو جاۓ ۔ کہیں بادشاہء معظم اسے سزا نہ دیں ۔ شہزادی کی پسند کی جیزوں سے متعلق پوچھا ، اور اگلے دن آنے کا کہہ کر چلا گیا ۔ بہت آہستہ آہستہ شہزادی جن کی عادی ہوتی چلی گئی اور وہ اسی کی وجہ سے اپنی ضرورت کی چیزیں منگوانے لگی ،، وہ آس پاس کی کھڑکیوں سے جنگل یا دریا کا نظارہ کرتی ،، اسے اپنے جیسا کوئی اور انسان نظر نہ آتا ،، لیکن جن جسے وہ بابا کہنے لگی تھی ، کے بارے میں جان چکی تھی کہ وہ ایک جن ہے ،، کہ کمرے سے نکلتے ہی وہ غائب ہو جاتا ، جبکہ باہر کوئی سیڑھی نہیں تھی ۔ وقت گزرتا گیا ،، اور شہزادی نو عمری کے دور سے نو جوانی میں داخل ہو گئی ، ،،جن کے آنے کے دورانیہ میں لمبا وقفہ آنے لگا ۔ کیوں کہ وہ اب مطمئن تھا ۔ کہ اب اس شہزادی کو پیش کرنے کا وقت آنے والا ہے ،،، اور وہ بادشاہء معظم کے سامنے اپنی شرط جیت جاۓ گا ، ،
ایک دن طوفان کے آثار تھے ،، دن میں بھی رات چھا گئی تھی ۔ شہزادی نے ایسی طوفانی کیفیت پہلی مرتبہ دیکھی تھی ،، ڈر اور خوف سے اس کا برا حال ہو گیا ۔ کافی دیر گزر گئی ،،، کہ اس دوران اسے دروازے پر دستک سنائی دی ،، ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا ۔ کہ کسی نے دستک دی ہو ،، ورنہ جن تو خود بخود اندر آ موجود ہوتا تھا ،، شہزادی نے خوف و دہشت سے پوچھا کون ،، تو اسے ایک گھبرائی آواز سنائی دی ،، ہمیں کچھ دیر کے لیۓ اندر پناہ دو ،، طوفان گزرنے تک ہم رکنا چاہیں گے ۔ " ، شہزادی نے دروازہ کھولا ،، تو وہاں دو جوان بہ مشکل ٹہنی پر بیٹھے ہوۓ تھے ۔ دروازہ کھلتے ہی دونوں جوان اندر داخل ہو گۓ ۔ شہزادی کو ایک مدت بعد اپنے جیسے انسانوں کو دیکھنا ہوا تو وہ اغواء ہونے سے پہلے کی مدت کی یادیں یاد آ گئیں کہ انسان ایسے ہوتے ہیں ۔ان میں سے ایک جوان اچھے حلیۓ میں اور دوسرا انتہائی غریبانہ حلیۓ میں تھا ۔ شہزادی نے امیر شخص کو جو کافی زخمی تھا کو اپنے پاس موجود مختلف دوائیں دیں ،، تو غریب آدمی نے اپنے ساتھی کی مرحم پٹی کی ،، کچھ کھانے کھاۓ اور آرام کرنے لگے ، دونوں جوان حیران تھے کہ اکیلی لڑکی کیسے ، کیوں کر یہاں اس طرح رہ رہی ہے ، لیکن انھیں فی الحال طوفان سے پناہ مل گئی تھی ۔ شہزادی نے اگلے دن ہی واضع کیا کہ میں ایک جن کی قید میں ہوں اور مجھے نہیں معلوم کتنا عرصہ گزر گیا ہے بس میں اس وقت اتنی سی تھی ،، شہزادی نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا تو جونوں کو اندازہ ہوا کہ وہ اس وقت سات آٹھ سال کی ہوگی اور اب ان کے اندازے سے بارہ سال گزر چکے ہوں گے ۔۔ شہزادی ،، جن کے آنے کے خوف سے انھیں جانے کا کہتی رہی لیکن ،، غریب لڑکے نے بتایا ،، یہ ایک ملک کا شہزادہ ہے ، اور میں اس کشتی کا ملاح ہوں جس پر سوار شہزادے کے ساتھی ، مچھلیوں کے شکار کے لیۓ نکلے تھے ،، کہ اس طوفان نے کشتی ، بری طرح تباہ کر دی ،، باقیوں کا کیا بنا ،، صرف ہم دونوں ایک تختے سے چمٹ کر اس درخت کی لمبی شاخوں سے اٹک گۓ ،، چڑھتی طوفانی لہروں سے بچنے کے لیۓ درخت پر چڑھے تو کمرہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور بچنے کی امید بھی ،،، اور یہاں تو ایک اور ہی ماجرہ نظر آ گیا ہے۔ شہزادے نے کچھ بہتر ہونے تک ٹھہرنے کی اجازت چاہی ،، شہزادی نے بتا دیا کہ جن انھیں زندہ نہیں چھوڑے گا ،،، حیرت انگیز طور پر جن کے آنے کا وقفہ لمبا ہوا ،، اور ان چند دنوں میں شہزادہ بہتر ہو گیا ،، اور وہی ہوا ،، جو تقدیر نے رنگ دکھانا ہوتا ہے ۔ کہ شہزادی ، شہزادے کی دلچسپی دیکھ کر سادہ دل ملاح نے کہا ،، جناب عالی ،میں آپ دونوں کا نکاح کر دیتا ہوں ،، کہ آپ کا یہاں اس طرح اکیلا رہنا ٹھیک نہیں ۔ اور اس کے بعد میں جلد از جلد شہر تک پہنچ کر آپ کے لیۓ مدد لے کر آ جاؤں گا ۔ طوفان کی وجہ سے لا تعداد تختے نیچے موجود ہیں میں کسی طرح پہنچ جاؤں گا ۔۔ یہ ساری بحث سن کر شہزادی اور شہزادہ راضی ہو گۓ ۔ اور ملاح نے ان کا نکاح پڑھایا ۔ اور اجازت لے کر چلا گیا ۔۔ لیکن چند دن گزر گۓ ،،، اور جن آ گیا ،، شہزادی نے شہزادے کو کسی طرح ایسے چھپایا ، کہ جن کو شک نہ ہوا ۔۔ جن نے آتے ہی نۓ انسان کی بُو کا ذکر کیا ،، شہزادی نے کہا ،، خود سوچو یہاں کیسے کوئی آسکتا ہے ، دریا کے درمیان ایک اکیلا درخت ،،، اس قدر بڑا طوفان گزرا ،، اس کی بُو سے تم پریشان ہو رہۓ ہو ۔ جن کچھ مطمئن ،، کچھ غیر مطمءن ہوا ،، اور شہزادی تک کھانے پینے کی اشیاء پہنچا کر ، واپس چلا گیا ۔ کہ آج کل دربار میں میری ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا ہے ،، اس لیۓ میرے آنے کا وقفہ ہو گا ۔۔ شہزادی مطمئن ہو گئی ۔ اب شہزادی کے دن خوشی خوشی گزرنے لگے ،، اور چند ماہ مزید گزر گۓ ، شہزادے کی بہتر صحت کے بعد ضد تھی کہ ہم دونوں ہمت کر کے فرار ہو جائیں ،، لیکن شہزادی جانتی تھی کہ جن ہر جگہ سے اسے تلاش کر لے گا اور شہزادے کو نقصان پہنچاۓ گا ،، شہزادے کو ملاح پر بھی حیرت تھی کہ وہ آج کئی مہینوں سے کمک لینے گیا اور پھر نہیں پلٹا ۔ اب شہزادی ماں بننے کے عمل سے گزرنے والی تھی ، شہزادہ سخت پریشان تھا ۔ کہ وہ اکیلے کیسے سنبھال سکے گا ۔ کہ ایک دن شہزادی کو جن کے آنے کا احساس ہوا ، جو اسے اندازہ ہو جاتا تھا ،، شہزادہ فورا" چھُپ گیا ، اور جن نے شہزادی کو آکر کہا ،، تیار رہنا ،، میں تمہیں اس کمرے سمیت اُٹھا کر آج بادشاہ سلامت کے حضور پیش کرنے جا رہا ہوں " یہ ایک شرط تھی ، جو میں نے جیتنی تھی ،،، اور اب جیت گیا ہوں ،، اب تمہیں شاہی دربار میں لے جانے آیا ہوں ۔ شہزادی ، حیران اور پریشان تھی کیوں کہ اس کے بچے کی پیدائش کا وقت شروع ہو چکا تھا،،، جن نے ایک نعرہ بلند کیا اور کمرہ ہاتھوں میں اٹھا کر پرواز شروع کردی ،، چند منٹوں میں جن بادشاہء زماں کے دربار میں پہنچا ،، اور فاتحانہ انداز سے درباریوں سے مخاطب کر کے کہا ، " بارہ سال پہلے تقدیر اور تدبیر کی جو بحث چلی تھی کہ جو لکھا گیا ،، وہ بدل نہیں سکتا ،، میں نے فلاں بادشاہ کی بیٹی کو اغواء کیا ، جس کی منگنی فلاں بادشاہ کے بیٹے ستے ہو چکی تھی ،، لیکن اب اس شہزادے کی کشتی کے حادثے میں انتقال کی تصدیق کروا لیا ، تو مجھے احساس ہوا کہ اب اس شہزادی کی شادی کہیں اور ہو سکے گی ،،، اور ہم تقدیر کو تدبیر سے بدل سکتے ہیں ۔ ورنہ اس شہزادی کی شادی اُسی شہزادے سے ہو جانی تھی ۔ بادشاہ سلامت نے دروازہ کھولنے کا حکم دیا تو ،،،،، اندر سے ایک شہزادی کے بجاۓ ،، تین افراد بر آمد ہوۓ ، شہزادی، شہزادہ ، اور ان کا بچہ !!! جن یہ سب دیکھ کر ششدر رہ گیا ۔ ،،، باشاہء وقت نے شہزادے سے پوچھا تم اسی فلاں ملک کے شہزادے ہو ؟ شہزادے کے اثبات پر ،،، اس نے سارا قصہ ، شروع سے آخر تک سنایا ۔۔۔ جن بادشاہ کے قدموں پر گِر گیا ۔ لیکن بادشاہ نے اس جن کو عمر قید کی سزا دی کہ اللہ پر یقین محکم نہ ہو تو ایسی بحث میں قدرت کو چیلنج کرنے والی حرکت نا قابلِ معافی ہوتی ہے ۔ اور شہزادی ، اور شہزادے کو ان کے لواحقین کے آنے تک شاہی مہمان خانے میں ٹھہرا لیا،، (کہتے ہیں یہ کہانی ، حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور کی ہے لیکن ، ہماری والدہ نے ہمیں ایسے ہی سنائی ،جو آج لکھنے کو دل چاہا ،، تو لکھ دی کہ ہر کہانی ایک پیغام لیۓ ہوتی ہے )

( منیرہ قریشی 25 مئی 2021ء ) 

منگل، 4 مئی، 2021

" سب کا خدا بادشاہ "۔۔ " میں آ جاؤں۔۔3 " ( حصہ آخر )

" سب کا خدا بادشاہ "
" میں آ جاؤں "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،( حصہ آخر )
شام تک شہزادی نہا دھو کر جب قیمتی لباس میں مالکن کے سامنے لائی گئی ،، تو قدرِ بہتر لگ رہی تھی ،،، یہ اور بات کہ چھت سے کوّے اُڑانے کے کام میں اس کی سفید رنگت کو سیاہ کر ڈالا تھا ۔ لیکن اس کے انداز سے کہیں نہیں لگا کہ یہ غریب اور جاہل بھی ہو سکتی ہو ! ،،، مالکن کے اشارے پر محل کی منتظمہ نے ، شہزادی پر واضح کیا کہ " مالکن کا بھائی دو ماہ سے یہاں آیا ہوا ہے ،، اس کی شادی کی کوشش ہے ،،، لیکن اسے ابھی تک کوئی لڑکی نہیں بھائی ،، مالکن نے اپنے ملنے جلنے والوں کی سبھی لڑکیاں دکھا دیں ہیں لیکن اب تنگ آکر مالکن نے اپنے محل کی تمام ملازماؤں کو باری باری ہر رات اس کے کمرے میں بھیجا کہ اسے کہانی سناؤ،، شاید اسی بہانے اسے کوئی لڑکی پسند آ جاۓ اور اس کی شادی کرا دی جاۓ ۔،لیکن آج دو ماہ ہو گۓ ہیں ،،، ہر لڑکی صرف دو منٹ میں کمرے سے باہر بھیج دی جاتی
ہے ،،،، تنگ آکر مالکن نے آج تمہیں یہ کام سونپا ہے،، محض اپنے بھائی کو اپنی ناراضگی دکھانے کے لیۓ ،،، کہ حسین ، پُر کشش نہ سہی ،، تو یہ کالی کلوٹی سہی ۔۔۔۔لہٰذا آج تمہارا فرض ہے کہ شہزادے کو کہانی سناؤ ۔
وقتِ مقررہ پر شہزادی ،، شہزادے کے کمرے میں داخل ہوئی ،، آداب تسلیم کے بعد پوچھا " حضور کوئی حکم " ؟ ،،،، شہزادے نے بے زاری اور منہ دوسری جانب کیۓ کیۓ کہا ،،، " کوئی حکم نہیں ، بس چراغ کی لَو نیچی کرو ، اور جاؤ " ،،، شہزادی نے یہ سن کر پہلے " بسم اللہ کہا ، اور چراغ کی لَو نیچی کی " ،،، شہزادی کی آواز میں اللہ کے نام کو سن کر شہزادے نے پلٹ کر اس پر بے زاری سے نگاہ ڈالی ،،، اور یکدم کہا " بیٹھو ! اور اگر کوئی کہانی آتی ہے تو سناؤ " ،،،،
شہزادی نے قالین پر بیٹھتے ہوۓ ،، عاجزی سے کہا " جی ہاں شہزادہء عالم ایک ہی کہانی آتی ہے ،،،" حکم ہوا "سناؤ "،،، اور شہزادی نے کہانی شروع کی ۔
" ایک تھا بادشاہ ،،، لیکن ہم سب کا خدا بادشاہ ، ، اس بادشاہ کی ایک بیٹی تھی ،،، کہ باشاہ کی بیوی ناگہاں فوت ہو گئی ، اس غم نے
بادشاہ کو اندر ہی اندر کھا لیا ،،، بس اسے اپنی بیٹی کے پیار نے حوصلہ دیۓ رکھا ، خوش قسمتی سے اس شہزادی کو ایسی آیا ماں نے تربیت دی کہ ،، وہ وقت سے پہلے سوچ کی پختگی کے ساتھ بڑی ہو گئی ،،، آخر ایک دن اس کی شادی کا دن آگیا ،،، جبکہ اسے ایک پر اسرار آواز نے پریشان کیاہوا
تھا ،،، جب اس شہزادی نے اس آواز کا ذکر آیا ماں سے کیا تو اس نے کہا کہہ دو " اللہ کے حکم سے آرہی ہو تو آجاؤ " ،،، اور یوں عین شادی کی رات یکدم ایک بڑا خون آلود گوشت کا ٹکڑا ، جس میں چھرا گھونپا ہوا تھا ، شہزادی کے قدموں میں آگرا ۔ وہی وقت جب اُس کا دولہا شہزادہ ،،،،،،شہزادہ ،، فورا" اُٹھ کھڑا ہوا ،،،،
اور اس نے حیرت اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت سے پوچھا ،،، یہ تمہیں کیسے معلوم کہ وہ شہزادی ، گوشت کا ٹکڑا لیۓ کھڑی تھی ،،، ؟ اب شہزادی بھی اُٹھ کھڑی ہوئی ،،، وہ بھی حیران نظروں سے شہزادے کو تکنے لگی ،،،،، اور کمرے سے باہر منتظمہ حیران کہ یا تو شہزادہ ایک سے بڑھ کر ایک حسین اور امیر با عزت خاندانوں کو یکسر نظر انداز کرتا رہا ،، اور محل کی بیس ، بائیس خوبصورت ملازماؤں کو ایک منٹ میں کمرے سے باہر جانے کا حکم دیتا رہا ،،، یا ،، اب آدھ گھنٹے سے یہ کوّے اُڑانے والی کو روک رکھا ہے ،
وہ مالکن کو ساری خبر پہنچانے چل دی،، اور اندر شہزادے نے ،،، پوچھا ،،، پھر کیا ہوا ؟ ،،، شہزادی نے اطمینان سے کہانی کو ایسےجاری رکھا جیسے وہ ماضی میں پہنچ چکی ہو ، اور بتایا ،،، وہ گوشت کا ٹکڑا عین جس وقت کمرے سے باہر پھینکنے جا رہی تھی اسی لمحے شہزادہ سامنے آ گیا ،،، وہ چند گھڑی پہلے یا بعد میں بھی آ سکتا تھا ،،، لیکن عقلمند آیا ماں ،،،، کو اندازہ ہو چکا تھا ،، کہ بُرا وقت آواز دے چکا تھا ،، ابھی شہزادی کی بھر پور جوانی ہے ، طاقت ہے ، وہ یہ کڑا وقت جھیل جاۓ گی ،،، اور پھر شہزادہ نے نہ جانے کیا سمجھا ، کیا سوچا ، کہ اُلٹے پاؤں مڑا اور صبح سویرے بارات بغیر دلہن کے واپس چلی گئی ،،، یہاں سے مزید آزمائش ہوئی ،، بادشاہ کی شدید بیماری نے اس ملک کے دشمنوں کے لیۓ آسانی کر دی ، حملہ اتنا شدید ہوا کہ بادشاہ ، وزیروں سمیت مارا گیا ،،، شہزادی کو اسی آیا ماں نے بچاتے ہوۓ
اتنی تکلیفیں سہیں ، جو اس بوڑھے وجود کے لیۓ موت کا سبب بن گئیں ،،،، اس کی آیا ماں نے اسے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کا کہا تھا،،، تاکہ نۓ جگہ کے لوگ اسے دیوانی نہ سمجھیں ،، آیا نے شہزادی کو عاجزی ، اور گھریلو کام کاج کا اتنا عادی کر دیا کہ اسے زندگی نے جو سبق دیا ،،، وہ اس کے لیۓ باعثِ ذلت نہ ہوا ،بلکہ اس نے ہر حال میں " صبر" کو گلے سے اتار لیا تھا،،، اب شہزادہ نزدیک آیا ،،، اور پوچھا ؟ سچ سچ بتاؤ ، کون ہو تم ،،، یہ واقعہ تمہیں کس نے سنایا ۔۔۔ شہزادی نے حیرت سے کہا " عالی جاہ یہ محض ایک کہانی ہے ،،، نہیں یہ کہانی نہیں ،،، اس قصّے نے میرے بارہ سال کانٹوں پر گزروا دیۓ ،، اسی دوران دروازے پر محل کی مالکن اور شہزادے کی بہن نے اندر آنے کی اجازت چاہی ۔۔ اور وہ اس صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوۓ دونوں کو دیکھا کہ شہزادہ تو غصے اور غم کی ملی جلی کیفیت میں ملازمہ کو دیکھ رہا ہے ،،، اور مسلسل پوچھ رہا ہے ،" کون ہو تم ؟ جب تک سچ نہیں بولو گی ، چھوڑا نہیں جاۓ گا " یہ جملے شہزادے کی بہن کو حیران کرنے کے لیۓ کافی تھے ،،، آخر شہزادی نے پوچھ لیا ،، " آپ مجھ سے یہ کیسا سوال کر رہے ہیں ، میَں تو محل کی چھت پر سے کوّے اڑانے والی ہوں " لیکن جب شہزادے نے تلوار نکال کر اسے دھمکایا ،، تو وہ آنسوؤں کی لڑی ، جو کب سے دکھ و غم کی گوند سے جڑی ہوئی تھی ، ٹوٹ گئی !
اس وقت " کوّے اُڑانے والی نے اعتراف کیا ،،، " ہاں میں ہی وہ شہزادی ہوں ،،، جو کبھی شہزادی تھی " ،،، یہ سن کر شہزادے کے آنسو بھی بہنے لگے ،، اس نے شہزادی کے سیاہ سوکھ کر چمڑا بنے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر کہا " میَں ہی وہ بد نصیب شہزادہ ہوں جو ،، بارہ سال سے اس منظر کے بارے میں سوچ سوچ کر اور " کیوں کیوں " کی پکار کو سہتا رہا ہوں ، کہ کیا وہ عورت ، کوئی جادو گرنی تھی جو اس وقت کوئی عمل کر رہی تھی ؟ یا وہ کوئی اور مخلوق تھی ،،، جو بظاہر شہزادی تھی ، آہ میں نے بھی تحقیق کیۓ بغیر جلد بازی سے وہ فیصلہ کیا ، جو زندگیوں کو تباہ کر گیا ،، ہر عورت پر سے میرا اعتبار ختم ہو گیا ، اسی لیۓ عورت سے میری عدم دلچسپی نے مجھے لوگوں اور ذمہ داریوں سے دور کر دیا ،،، آہ میَں تحمل سے ساری بات کی تحقیق کروا لیتا ،، تم سے ہی پوچھ لیتا ، اور فوری کوئی قدم نہ اٹھاتا " ،،،، اب میرے پاس سواۓ معافی کے کوئی لفظ نہیں " !!
شہزادے کی بہن نے شہزادی کو گلے لگایا ،،، اور شہزادی تو اس تربیت سے پلی تھی ،، کہ اس خوشی کے موقع پر سواۓ اپنے رب کی شکر گزاری کے اس کے لیۓ منہ سے کوئی الفاظ نہیں نکل رہۓ تھے ،، اس نے شہزادے سے کہا " میَں آپ کو دل سے معاف کرتی ہوں ،، "میرا یہ وہ دور تھا ، جسے جلد یا بدیر آنا ہی تھا ،، صرف ہم میں گلِے ، شکوے کے بجاۓ ، قبولیت کی صفت باقی رہۓ کہ جو رب جانتا ہے ، وہ کوئی نہیں جان سکتا ،، اور جب رّب کی مدد کا مقرّر شدہ وقت آتا ہے ، تو کوئی روک نہیں سکتا ،، تب بھی ایک لمحہ ہی کافی
ہوتا ہے ، رہے نام اللہ کا ۔
(منیرہ قریشی 4 مئی 2021ء واہ کینٹ)


" سب کا اللہ بادشاہ "

" سب کا اللہ بادشاہ "
اپنے بچپن میں ہم نے اپنی والدہ سے جنھیں ہم " اماں جی " کہتی تھیں ،، سے روزانہ ایک کہانی سنتیں ۔ ہم تین بہنیں اور ایک بھائی تھے،ہمارے والد نے کہانیاں نہیں سنائیں ،، لیکن کتابوں کی لائن لگی رہی ، جس نے ہم بہن بھائی کا رحجان کتب بینی کی طرف لگا دیا ،،، البتہ والدہ ،، سے ایک کہانی سننا اور وہ بھی با معنی کہانیاں سنتے بچپن گزرا ،، لیکن سب سے بڑی بہن ، کی جب شادی ہوئی ، میں پانچ سال اور چھوٹی جوجی چار سال کی تھی ،، اور بھائی اس وقت تک کیڈٹ کالج حسن ابدال جا چکے تھے ،، اب یاد نہیں ، وہ دونوں بھی اسی شوق سے کہانیاں سنتے رہے تھے یا نہیں ،، ہم دونوں بہنیں ،، اپنی ماں کے دائیں ، بائیں لیٹتیں ، اور، کہانی سنائیں کی فرمائش ہوتی ،، کبھی کبھی کوئی نئی کہانی ہوتی لیکن ،،، زیادہ دفعہ دہرائی گئی کہانیاں مجھے یاد رہ گئیں ،،یہ بہت پرانی کہانیاں ، پرانے ہی انداز سے شروع ہوتی تھیں ،،،،
" ایک تھا بادشاہ ،،لیکن ہمارا ،تمہارا خدا بادشاہ "
ایک تھا بڑھئی ، ہم سب کا خدا بادشاہ "
گویا کہانی کے شروع میں ہی اللہ کا تصور اولینِ اول بن کر کانوں میں ڈالا جاتا ،،،، اور بچہ اس تصور کی پختگی کو دل میں سموتا رہتا ۔ ایک دفعہ اماں جی سے پوچھا آپ نے یہ کہانیاں پڑھی تھیں یا سنی تھیں ؟ کپنے لگیں ان کی دادی نے اسی طرح راتوں کو سونے سے پہلے کے وقت میں ہمیں کہانیاں سنائیں ، ہو سکتا ہے ان کی ماں یا دادی نے انھیں سنائی ہوں ، گویا سینہ با سینہ کہانیاں گردش میں رہتی ہیں ۔۔ پھر میَں نے اپنے بچوں ،،کو سنائیں ، اور اپنی اس عمر میں جب دادی ، نانی بن چکی ہوں ،، تو اپنے پوتے ، پوتی، نواسی ، نواسے کو سنائیں ۔۔۔ لیکن میں نے محسوس کیا ہے،،
1) کہانی اگر کہنے کا ذوق ہوتا ہے تو کہانی " سننے " کا بھی شوق ہوتا ہے ، اگر یہ شوق نہ ہو تو اول تو کہانی بھول جاتی ہے ،، یا ،، یہ محض ایک ہلکی سی یاد رہ جاتی ہے ،،
2) کہانیاں جو ہماری اماں جی نے سنائیں ،، وہ انھوں نے اپنے بڑوں سے نارمل انداز سے سنی ہوں گی ،،، لیکن اماں جی نے اپنی ذہانت کی وجہ سے ان کہانیوں میں ایک پیغام اور تربیت کا رنگ دے دیا ،، جو اپنی پختگی کی عمر میں محسوس ہوا ۔۔۔ تو ، مجھے بھی کچھ کہانیوں میں رنگ آمیزی کر کے اپنے بچوں کو سنانا اچھا لگا ،
3) کہانی انسانی محسوسات ، کی عکاسی کرتی بلکہ " بولتی " نظر آتی ہے ،،، یعنی کون سافرد کس قسم کی کہانیاں سنانا ،،، پسند کرتا ہے ،وہ ماحول کو کس حد تک بیان کرسکتا ہے کہ سننے والا ڈوب جاۓ ، کھو جاۓ ،، کہ اگر جنگل کی تفصیل تو اس کی ہیبت سے دل ڈرنے لگے ، اور اگر محل تو اس کی تفصیل سحر زدہ کر ڈالے ،،، تو ،،، میرا خیال ہے ایسی کہانیاں، یاد بھی رہ جاتی ہیں ، اور سننے والے کے اندر بھی تخلیقی مادہ نمو پانے لگتا ہے ۔
4) مجھے احساس ہے کہ اس کہانی میں کچھ ایسا بھی سسپینس نہیں تھا ، جسے لمبا کھینچا جاتا ،،، لیکن مجھے یہ بھی لگا کہ کبھی کبھی " بڑے " بھی ،،،،اور پھر،،،" بوڑھے " بھی ایسی بادشاہ ، ملکہ والی کہانیوں کو پسند کرتے ہیں ۔
(منیرہ قریشی ،4 مئی 2021ء واہ کینٹ)


پیر، 3 مئی، 2021

" سب کا خدا بادشاہ" ۔۔" میَں آ جاؤں " ( حصہ دوم)

" سب کا خدا بادشاہ"
" میَں آ جاؤں "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،( حصہ دوم)
" جیسے ہی شہزادی نے یہ جملہ کہا ،، یکدم چھت سے ایک کافی بڑا کچے گوشت کا ٹکڑا ،،، جس کے اندر ایک چھُرا گھونپا ہوا تھا،،، شہزادی کے پلنگ کے پاس آ کر گرا ،، فوری طور پر تو شہزادی چکرا گئی لیکن ،،،، اس کی دانا آیا نے اسے جس "ذہنی پختگی" سے پالا تھا ،، وہی تربیت کام آئی اور چند منٹ میں اس نے اللہ کا نام لیا اور چھُرے والا گوشت کا ٹکڑاکمرے سے ملحقہ چھوٹے لان میں پھینکنے چل پڑی ،،،، یہی وقت تھا کہ سامنے سے اس کا دُلہا شہزادہ کمرے تک پہنچ چکا تھا ،،، اس نے حیرت اور خوف سے یہ منظر دیکھا کہ ایک حسین و جمیل دلہن خون آلود گوشت کا ٹکڑا ہاتھوں میں لیۓ باہر نکل رہی ہے ،،، شہزادی نے بھی اسے دیکھا ،،، لیکن صورتِ حال اتنی عجیب تھی کہ چند لمحے بعد ہی شہزادہ واپس پلٹا ،، اور اپنے خاندان اور دوستوں کی طرف چلا گیا،،، اور کچھ اس انداز سے ضد کی کہ ابھی واپس اپنے وطن واپس چلیں ،،، حتیٰ کہ بہت پوچھنے پر بھی کچھ نہ بتایا ،،، اور صبح کاذب ہوتے ہی شاہی قافلہ بغیر دلہن کے واپس روانہ ہو گۓ ،،، دلہن کےگھر والے ، سہیلیاں اور بادشاہ یہ سمجھے کہ ان میں یہ بھی کوئی رسم ہے ، کہ ابھی دلہن ساتھ نہیں جاۓ گی ،،،، لیکن جب تک آیا ماں ،،، شہزادی کے کمرے میں آئی وہ گوشت پھینک کر خون آلود ہاتھوں کی دھلائی کی منتظر تھی ، اور چونکہ صرف اسی آیا ماں کو اس کے کمرے کی اجازت تھی وہی فورا" پہنچی ، چند لمحے نے اسے بہت کچھ سُجھا دیا ۔ اس نے شہزادی کے ہاتھ دھلاۓ اور اس سے سارا قصہ سنا ،،، اور آہ بھر کر چُپ ہو گئی ۔ شہزادی غم سے نڈھال تھی ،، آیا ماں ، نے اسے صرف اتنا کیا " خود کو سنبھالو ،،، اور سونے کی کوشش کرو ،،، کہ نیند اعصاب کو سکون دیتی اور ،، کسی نتیجے تک پہنچا ہی دیتی ہے " ،، صبح کا ہونا ،، اور بارات کا اچانک چلے جانا ،، سبھی درباریوں کے لیۓ افسردگی کا باعث تو تھا ہی ،،، لیکن بادشاہ اس غم میں بستر سے لگ گیا ، شہزادی کے لیۓ بھی دن میں چین ، نہ رات میں قرار ! اس نے اپنی آیا ماں سے پوچھا ، " یہ سب کیا تھا ، اور کیوں " ؟ آیا ماں نے جواب دیا " جب تم نے مجھے بتایا کہ چند دن سے ایک آواز تم سے آنے کی اجازت طلب کر رہی ہے تو ، پہلے یہ ہی سمجھی کہ تمہارا وہم ہو گا ،، پھر بھی آواز آتی رہی ،، تو مجھے اندازہ ہو گیا ،، تمہاری قسمت کا لکھا چکر ، آ کر رہنا ہے ،، بجاۓ اگلے گھر سے ، اور ملک سے نکالی جاتیں ،،، میں نے فیصلہ کیا ،جو ہونا ہے ابھی ہو جاۓ " اور یوں ایک ان ہونی ،، ہو کر رہی" ،،،، !
ادھر بادشاہ کی بیماری نے آس پاس کے دشمنوں کو موقع دے دیا کہ اب ریاست کمزور پڑ گئی ہے ،، یہ ہی موقع اچھا ہے اور ایک طاقتوردشمن حملہ آور ہوا ،،، اسی بھگ دھڑ میں شہزادی اور آیا ماں خفیہ راستے سے بھاگ نکلیں ۔ ساتھ دینے والے محافظین راستے میں ایک جنگل میں کھسک گۓ ،، یہ شہزادی کے لیۓ غم و دکھ کا طوفان تھا ،، لیکن پھر وہی اچھی اور برداشت والی تربیت کام آ رہی تھی ۔ لیکن چند دن مزید جنگل کے خوفناک سفر نے بوڑھی آیا ماں کو آخری دموں تک پہنچا دیا ۔ اور اس نے آخری سانس لیتے ہوۓ شہزادی سے کہا ،،، " تم ضرور سوچتی ہو گی ،، آیا ماں نے میری سہاگ رات کا بیڑہ غرق کر دیا ۔۔ لیکن بیٹی مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ تمہاری قسمت کا رولا آنا ہی آنا ہے ،،، میں نے سوچا ابھی یہ جوان اور طاقتور ہے ،، ہمت اور برداشت ہے ،، ہر غم انسان جوانی کے زور پر جھیل جاتا ہے ، اب دیکھو تمہیں ذہنی دکھ کے علاوہ ، جسمانی دکھ اور مشقت بھی سہنی پڑ گئی ،،، لیکن ایک بات یاد رکھنا ،،، بڑھاپے میں تکلیف اور غم سے پناہ مانگنا ،، یہ وقت گزر جاۓ گا ،، کیوں کہ ہر رات کی صبح ضرور ہوتی ہے ۔ میرا آخری وقت آ چکا ہے ،، تم جس نئی جگہ پہنچو گی ،، وہاں اپنی شناخت فی الحال چھپاۓ رکھنا ،، کیوں کہ تم اس وقت بغیر زمین کے ہو چھت ( وطن ) بھی نہیں ،۔ ایسا انسان اگر کچھ خود کو بڑا بتاۓ بھی ، تو اس پر کوئی یقین نہیں کرتا ۔ ،، مجھے دفنانے کے بجاۓ پتوں سے ہی ڈھانپ کر اپنی جان بچاؤ '' اور یہ وصیت کر کے آیا ماں آخری سانس لیا
۔ شہزادی کچھ دیر آنسو بہا کر اسے پتوں سے چھپا کر چل دی ،،، آخر کار چند دن مزید چلنے کے بعد آبادی کے آثار نظر آۓ ۔۔۔ لیکن اس وقت تک شہزادی کا رنگ روپ پھیکا پڑ چکا تھا ،، کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے ،، وہ بہ مشکل لوگون کے درمیان کچھ کھلی شاہراہوں کو پار کرتی چلی گئی ۔ چند راتیں مزید گلیوں اور غرباء کے محلے میں گزاریں ،، منہ مسلسل چھپاۓ ،، ایک دن بھوک سے نڈھال ،، ایک عورت سے کچھ کھانے کو مانگا ،، اس نے کہا ابھی تو میں یہ روٹی تمہیں دے رہی ہوں لیکن میِن جہاں کام کرنے جاتی ہوں میرے ساتھ چلو ، شاید کوئی کام مل جاۓ کیون کہ ہم بھی غریب لوگ ہیں ،، کسی کو فالتو کب تک کھلائیں گے ! " ،، شہزادی نے سوچا چلو کہیں سے عزت کی روٹی مل جاۓ ۔ اور یوں وہ ایک عالی شان گھر میں داخل ہوئیں ،،، اور وہ عورت اسے سیدھی مالکن کے پاس لے گئی ،،، کہ یہ کوئی کام ڈھونڈ رہی ہے میَں اسے آپ کے پاس لے آئی ہوں ،،، مالکن نے ایک نگاہء غلط ڈالی ،، برا حال اور کمزور سی لڑکی کو دیکھ کر کہا " اس وقت تو میرے ہاں سبھی کاموں کی ملازمائیں ہیں ،،، ہاں البتہ چھت پر کوّے بہت آتے ہیں ،، اسے کوّے اڑانے کی نوکری پر رکھ لو " ،،،، اور یوں شہزادی دو وقت کے کھانے پر کوّے اڑانے کے کام پر نوکر بن گئی ۔
اور ،،،، بارہ برس بیت گۓ ،، ایک دن اس چھوٹے سے محل کی منتظمہ خاتون نے اسے بلایا ۔۔۔ اور ماکن کی خدمت میں پیش کیا ۔۔۔ مالکن نے ایک نظر اس پر ڈالی ،، ایک سیاہ رنگت والی ، کمزور صحت والی لڑکی ،، جو کم ترین حال میں تھی ،،، کو دیکھ کر کہا ،،، " تیار کرو اسے بھی ،، دیکھتے ہیں ،، کہ میرے غصے کو شاید سمجھ جاۓ " ،
منتظمہ نے اسے اچھا لباس دیا ،اور کہا "، جاؤ نہا دھو کر اسے پہن کر آؤ ، پھر سارا قصہ بتائیں گے " ۔

( جاری)(3 مئی 2021ء ) 

اتوار، 2 مئی، 2021

" سب کا خدا بادشاہ " ۔۔" میں آ جاؤں " ( حصہ اول )

" سب کا خدا بادشاہ "
" میں آ جاؤں "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ( حصہ اول )
ایک دفعہ کا ذکر ہے ،، ایک بادشاہ تھا ، اپنی ملکہ اور ایک بیٹی کے ساتھ خوش خرم زندگی گزار رہا تھا ، سلطنت مضبوط ، اور رعایا خوشحال تھی ،،، بادشاہ کے کوئی بڑے تفکرات نہ تھے کہ جو اسے فکرمند کرتے ،،، کہ اچانک ملکہ کو کچھ ایسی بیماری چمٹی کہ آناًفاناًموت کے منہ میں چلی گئی۔
اور بادشاہ پیاری ملکہ کی جدائی سے غم و الم کے سمندر میں ڈوب گیا ،، کچھ وقت بعد سنبھلا، اور خود کو معمولاتِ زندگی میں اتنا محو کر لیا ،، کہ جیسے ملکہ کے غم کو بھلانے کا یہ ہی طریقہ ہو شہزادی ابھی بچپن کے معصوم دور سے گزر رہی تھی ،، اسے ماں باپ کے پیار اور تربیت کی ضرورت تھی ،،، اور جیسا ہر بادشاہ کے محل میں روایت رہی ہے کہ ہر شہزادے ، شہزادی کے لیۓ الگ الگ ایسے استاد یا دانا " آیا " رکھے جاتے ،جو ان کے آدابِ زندگی اور معمولاتِ زندگی اور تربیتِ خاص کا خیال رکھتے ۔ یہاں بھی شہزادی کے لیۓ ایک دانا ، اور فہیم " آیا " کو مقرر کیا ہوا تھا ،،، لہٰذا بادشاہ بیٹی کی طرف سے بھی بے نیاز رہنے لگا،،، عقلمند اور پختہ عمر آیا نے اپنی فراست کے مطابق ، شہزادی کو دینی ، دنیاوی اور کچھ روحانی تعلیم و تربیت دینے کا اہتمام کیۓ رکھا ،،، اور یوں ،،، شہزادی کی نوجوانی کی اُٹھان تک پہنچتے پہنچتے اس کی خوبصورتی اور خوب سیرتی کی شہرت ایسی پھیلی کہ آس پاس کی مملکتوں کے بہادر شہزادے ، اسے زندگی کا ساتھی بنانے کے لیۓ پیش پیش ہونے لگے ،،، بادشاہ جو خود کو ملک کے کاموں کے علاوہ ، باقی وقت اللہ کی یاد میں بسر کرتا ،،، کو ایک شہزادے میں وہ گن نظر آۓ ،جو اس کی بیٹی کے لیۓ بہتر تھا ،، اور یوں شہزادی کی شادی وہاں طے پا گئی ۔
جیسا کہ اس دور میں عام رواج تھا ،،، کہ بارات کو ایک رات یا چند راتوں تک ٹھہرایا جاتا ،،، خوب خاطر ، مدارات کی جاتی ،، تب دُلہن کی رخصتی ہوتی ،، یہاں بھی ایسا ہی ہوا ۔ شہزادی کی آیا ،، اب عمر رسیدہ ہو چکی تھی ، لیکن بہت مطمئن ، کہ اس نے فرض شناسی اور کامل فراست سے اپنا فرض نبھایا ہے ، اور یقینا" شہزادی بھی اُسی تحمل اور فراست سے اگلی زندگی کا آغاز کرے گی ۔ شادی کی تمام رسومات شاہانہ انداز سے ہو رہی تھیں۔ ابھی اس کی مہندی وغیرہ کی رسم ختم ہوئی ،،، جب رات کو " آیا " اپنی لاڈلی شہزادی کے کمرے میں ، شب بخیر کہنے آئی تو شہزادی نے اپنی ماں جیسی آیا کا ہاتھ پکڑ کر کہا " کل رات جب میں اکیلی اپنے کمرے میں تھی تو مجھے آواز آئی " میَں آؤں ؟ " ،،،، تو میں نے کہا ،، " میں پوچھ کر بتاؤں گی "!،،،،، اب اگر آج بھی وہ آواز آئی تو ؟؟ اور یہ کیا آواز ہے ، ؟؟ شہزادی پریشان تھی ،،، آیا نے تسلی دی ،، بیٹی تمہارا وہم بھی ہو سکتا ہے ،، ماں باپ کے گھر کو چھوڑنے والی ہو ،،، کوئی خواب نہ دیکھا ہو" ۔۔۔ وغیرہ ، اور یوں شہزادی چُپ ہو گئی ،،،،
اگلی رات شادی کی مزید رسومات کے بعد جب آیا شہزادی کو شب بخیر کہنے آئی ،،، تو شہزادی نے آیا کو آگاہ کیا کہ ، گذشتہ رات کے پہلے پہر مجھے وہی آواز آئی تھی " میَں آؤں " ،،،،، میں نے یہی جواب دیا ، " ابھی نہیں کل بتاؤں گی " ،،،،، اور دانا، بینا آیا سمجھ گئی اور کہنے لگی ،،، " اب آواز آئی تو کہنا " اللہ کے حکم سے آتی ہو تو آجاؤ " !!!! اور اب یہ رات شہزادی کے دلہن بن کر رخصتی کی رات تھی ،، جو محل کے ہی ایک کمرے کو شایانِ شان سجا کر تیار کیا گیا تھا،،،، شہزادہ بھی دوستوں ، رشتہ داروں میں مصروف تھا ،، لیکن رات کا پہلا پہر آچکا تھا ،،، شہزادی ، اپنے دولہا کی منتظر تھی ،،، کہ آواز آئی " میَں آ جاؤں ؟؟" ،،، شہزادی نے آیا کے کہنے کے مطابق جواب دیا " اللہ کے حکم سے آئی ہو تو آ جاؤ "،،،

( جاری ) ( 2 مئی 2021ء ) 

اتوار، 25 اپریل، 2021

" اِک پّرِخیال" ۔۔" سلطنتِ معصومیت "

" اِک پّرِ خیال"
" سلطنتِ معصومیت "
افطار کا وقت ہوا چاہتا تھا ،،، ابھی سبھی اہلِ خانہ میزبانی کی میز کے گرد نہیں پہنچے تھے ،،، دروازے کی گھنٹی بجی ،،، کیمرے سے دیکھا گیا تو کوئی مانگنے والی تھی ،،، دوسرے لمحے وہ کہیں دوسری جانب چلی گئی ، لیکن میرا یہ خیال ہے اور اصول بھی کہ عین روزے کے کھلنے کے وقت دروازے پر آۓ کو خالی نہ لوٹاؤ ۔۔ چناچہ فٹا فٹ جو چینج تھا ہاتھ میں لیۓ تیزی سے گیٹ تک گئی ،،، کہ اس دوران دونوں بیٹے جو ابھی لاؤنج میں نہیں آۓ تھے ،،، کے آنے سے پہلے اس بھکارن کو دے آؤں ، کیوں کہ " ایس ۔ او ۔ پیز ،،، کی خلاف ورزی کی کسی صورت اجازت نہیں تھی " مجھے " ،،،،،
گیٹ کھولا تو بھکارن اگلے گیٹ پر نظر آئی ،،اس کے ساتھ پانچ ، چھے سالہ بیٹی بھی تھی ، بھکارن نے مجھے دیکھ کر بچی کو اشارہ کیا ،،،، بچی میری طرف ، اٹھلاتی ، لہراتی ، رقاصانہ " انداز سے تیزی سے آئی ۔
بچی سانولے رنگ ، پرکشش نقش والی تھی، پاجامہ قمیض اور گلے میں " کراس پرس" لٹکا رکھا تھا ،، جس کی جیب پھولی ہوئی تھی ، میں نے اسے پیسے پکڑاۓ ، جو اس نے فٹ سے پرس میں ڈالے ،، اور میرے ساتھ فوراً ان ہچند مکالموں کا تبادلہ ہوا ،،،( پنجابی میں )
" کج کھانڑ واسطے وی دے" ! ( کچھ کھانے کو بھی دو )
" اچھا ٹھہرو ،،،
میں نے جلدی سے دو روٹیوں کے اوپر خشک سالن رکھا ، ایک شاپر پکڑا اور دو انڈے نظر آۓ وہ بھی ہاتھ میں لیۓ ، جلدی سے اس تک پہنچی ! جب اسے روٹی پکڑائی ، تو اس کے اگلے مکالمے شروع ہوۓ !
" شاپر تے کھول ،،، ( میں نے شاپر اسے پکڑایا کہ تم کھولو)
روٹی اور انڈے ڈالے ،،، انڈے دیکھ کر اس نے کہا ،
" تیرے کار ککڑیاں وی ہین " ،،، ( تمہارے گھر مرغیاں بھی ہیں ؟ )
میَں نے کہا نہیں ،، یہ بازار سے لیۓ ہیں ۔۔۔میں نے پوچھا ،، کہاں سے آئی ہو ؟
" اسی خالد آباد ، گجرات سوں آئی ہاں "
میَں نے کہا ،، اتنے دور سے یہاں بھیک مانگنے آ گئی ہو ، کیا گجرات والے نہیں دے رہۓ ؟؟؟
" لگتا تے اینجے ہی اے ،، گجرات والے غریب ہو گۓ انڑ ،،، تُوں مینوں اناں کولوں منگ کے وکھا ،،، سانوں تے کج نئیں ملدا " ،( لگتا تو ایسے ہی ہے کہ گجرات والے غریب ہو گۓ ہیں ،، ذرا تو ان سے مانگ کر دکھا )
مجھے اس سے یہ چند منٹ کی گفتگو بہت اچھی لگ رہی تھی ،،،اگر افطار اور ایس او پیز کا سلسلہ نہ ہوتا تو مَیں اس سے آدھ گھنٹے کا انٹرویو کر ہی لیتی ،، کہ اس کی معصوم عمر ،، قدرتی انداز سے بولے جانے والے بے ساختہ جملے ،،، اور غربت کے باوجود اس کے جسم میں بچپنے کا اِٹھلانا ،،، دیکھ کر لگ رہا تھا ،، """ وہ اپنی بے نام سلطنت کی حکمران ہے ، فی الحال ، حدودِ آپ و تُو ، کے آداب سے ماوراء تھی ،، وہ " معصومیت کی مملکت " کی مشترکہ حکمران تھی ،، جیسے بنگلوں میں رہنے والا / والی کوئی اور بچہ ،یا ، یہ بھکاری بچی ،،،،،،،،،،،،،،،
ہر وہ ماں بولی جو بچے بول رہے ہوں کچھ زیادہ ہی مزا دے جاتی ہے، اپنے بڑے بچوں سے ہم نے اردو بول چال رکھی ،، لیکن شکر کہ بڑے ہوتے ہوتے کچھ گھر میں ہر وقت پنجابی سن سن کر اور کچھ دوستوں کی محفل میں اب اُن سب کی پنجانی بہترین ہو گئی ہے ،،
چھوٹی بہن جوجی کے گھر اللہ نے لمبے وقفے کے بعد جڑواں بیٹیاں دیں ،، ان کے لیۓ جو آیا رکھی گئی اسے ہدایت ملی کہ تم نے ان کے ساتھ صرف پنجابی بولنا ہے ، " تاکہ ان کا لب و لہجہ خالص ہو سکے ۔ اور پھر ہر بندے نے ان کی " تُو " کہہ کر بولنے والی پنجابی کو اتنا انجواۓ کرنا شروع کیا ، کہ اکثر ملنے والے آتے ،، تو کہتے ،، آپ کی بیٹیاں کہاں ہیں ،، ہمارے سامنے بھی ان کو کچھ بلوائیں ۔۔ لیکن یہ فرمائش اکثر پوری نہ ہوتی کیوں کہ وہ آپس میں اتنی محو رہتیں کہ لوگوں کو دیکھ کر گھبرا جاتیں ، بلکہ اچھا خاصا رونا دھونا مچ جاتا ،، ایک دفعہ ہمیں چند دن مری نتھیا گلی رہنے کا موقع ملا ،، پہلی رات کو ہی " بجلی کی لوڈ شیڈنگ ،، سے بچیاں گھبرا گئیں ، اور رونا شروع کر دیا ،، ماں کی ڈانٹ سے ثمن تو چُپ کر کے دبک گئی ،، لیکن ایمن مسلسل پریشان رہی ،،، اس وقت یہ ڈھائی سال کی تھیں ،، اور ابھی فیڈر چل رہے تھے ،،، ایمن کو لے کر میں لاؤنج میں آگئی ،، اور کھڑکیوں کے پردے ہٹانے سے کچھ روشنی آئی تو بچی مطمئن ہو گئی ۔۔ اب اس نے سوچا ہو گا کہیں خالہ مجھے سونے کا نہ کہہ دے اس لیۓ اس نے چالاکی سے کہا ،،،،،
ایمن : ۔۔"' ما پُکھ لگی اے " ،،، ( مجھے بھوک لگی ہۓ )
مَیں : کے کھاسیں " ؟ ( کیا کھاؤ گی )
ایمن : انڈا تل دے !"
( میَں نے انڈا تلا ، ایک ٹوسٹ گرم کیا اور لاؤنج میں لا کر اسے کھلانا شروع کیا ،،، اب اس نے سوچا ہو گا کہ یہ کِھلا کر پھر سونے کا نہ کہہ دے ،، آخری نوالے کے ساتھ ہی اس نے کہا ،،،،
ایمن : ہنڑ ما چاء بنڑا دے " ( اب مجھے چاۓبنا کر دو )
میَں سمجھ گئی ، یہ مجھے مصروف رکھنا چاہتی ہے ،، تو مَیِں نے معصومیت سے کہا ،،
" ما تے چا ء بنانی نئیں آنی ،،، ( مجھے چاۓ بنانا نہیں آتی )
ایمن : " ایتنی وَڈی ہو گئی ایں ، تے تداں چاء نئیں بڑانی نئیں آنی " ( اتنی بڑی ہو گئی ہو اور چاۓ نہیں بنانی آتی ) ،،،
اب میرے قہقہۓ اندر ہی اندر گونج رہے تھے ،،، لیکن ایک ڈھائی سال کی وہ بچی جو بغل میں اپنی فیڈر دباۓ کھڑی تھی ، اور معصومیت کی انتہا پر تھی کہ جو مجھے طنز کر رہی تھی ۔ کہ تمہیں چاۓ بھی نہیں بنانی آتی ۔
،،، اور ایک مدت بعد ،،،، یہ بھکاری بچی آج معصومیت کی سلطنت کی شہزادی بنی جب مجھ سے مکالمے بول رہی تھی ،، تو مجھے معصومیت کے بہت سے اور مکالمے یاد آنے لگے ،،، مثلاً میرا ، بڑا بیٹا علی چھوٹا تھا تب وہ چار سال کا تھا ،، کار کے سفر کے دوران ، دوسرے بھائی نے باہر تھوکا ،،، اور وہ تھوک کے چند قطرے پلٹ کر علی پر پڑ گئے ۔ تو علی نے فوراً کہا " اماں ! اس نے مجھ پر ف فوارہ پھینکا ہے ! ،،،،
بعد میں ایک دفعہ ٹیپ ریکاڈر لیا ،، تو میرے تینوں بچے ہر روز مائک لے کر ایک دوسرے کے انٹرویو لیتے تھے ۔ ایک دن یہ انٹرویو سننے میں آیا " دس سالہ علی اپنے پانچ سالہ بھائی ہاشم سے انٹرویو لیتے ہوۓ ،،،
علی : آپ کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے ؟
ہاشم : ( بہت سوچ کر) ،، " میری خواہش ہے کہ میَں کالی چاۓ پیؤں "
( اپنی تین سالہ بہن نشل سے )
علی : آپ کی سب سے یادہ پسندیدہ خواہش کیا ہے ،، ؟ ( جسے لفظ خواہش کا مطلب بھی نہیں پتہ تھا )
نشل : میں چاہتی ہوں ، کہ روز امرُود کھاؤں ،"
،،، اب چھوٹے بھائی کی انٹرویو لینے کی باری آئی تو اس نے بڑے بھائی سے پوچھا
ہاشم ؛ آپ کی سب سے ذیادہ بڑی خواہش کیا ہے ؟
علی: یہ کہ اماں ، ابو مجھے دو کتے پالنے کی اجازت دے دیں ! ( ایک کی بھی اجازت نہیں تھی کجا دو ، دو )
" اور مجھے پتہ ہے اچار کو اچار اس لیۓ کہتے ہیں کہ یہ چار دن میں تیار ہو جاتا یے ، یہ تم لوگوں کو نہیں پتہ " ،،،( معلومات کا رعب ڈالا گیا )
یہ خوبصورت معصوم دور گزرا ،، اور انہی کے بچوں کی باری آئی ، پھر اس اگلی پیڑھی کی نہایت خوبصورت ، معصوم اور خوش کن باتوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع اللہ رب العالمین نے دیا ،،، الحمدُ للہ !!
اور ،،،،، آج اس بھکای بچی نے مجھے احساس دلایا ،،، کہ " سلطنتِ معصومیت " ہر بچے کی ملکیت ہے ،،، معصومیت میں کتنا قدرتی پن ہے " ،، ہر چیز خالص ،، ہر حرکت دھلی دھلائی ،،، بس کچھ عرصہ ہی یہ مملکت معصوم ،،، جب دنیا کے اونچے دروازے میں داخل ہوتے ہیں تو قدرت کی یہ خالص الخاص تخلیق بڑوں کے ہاتھوں میں پہنچ کر ،، خود غرض ، منہ پھٹ ، لالچی ، اور منافقت کے وہ رنگا رنگ شربت پیتی ہے ،،، کہ اس کا اپنا معصوم کومل رنگ کہیں کھو جاتا ہے ،،، یا گم کر دیا جاتا ہے !

( منیرہ قریشی 25 اپریل 2021ء واہ کینٹ )