پیر، 30 جولائی، 2018

سفرانگلستان(26)۔

 سفرِ ولایت ، یو کے " (26آخری قسط)۔
لندن میں ٹھہرنے کا ارادہ آٹھ ، نو دن کا ہی تھا اور جن اہم جگہوں کی سیر ممکن تھی ، وہ ہو چکی ،میری دلچسپی تو جیسے ختم ہو گئی،،، مجھے مانچسٹر کے اس خاموش ، ہرے بھرے ، گاؤں کی یاد ایسے ستانے لگی جیسے میَں مدتوں سے وہاں رہ رہی ہوں ۔ اور مجھے " اپنے گھر " جلدی واپس جانا ہو گا ،،، اور یہ احساس صرف اس لیۓ تھا کہ انسان " ارکانِ فطرت " کا حصہ ہوتا ،،، تھا ،،اور ،ہے ! جب وہ ان ارکان فطرت سے دوری پر رہتا ہے ، تو اس کے اندر بےسکونی اور بےچینی کا لیول آہستہ آہستہ اونچا ہونے لگتاہے ، لیکن انسان اپنے اندر کی اس سیلابی کیفیت سے بےخبر رہتا ہے ،، یہ ہی بےخبری اس کے مزاج کو غیرمحسوس طور سے چڑ چڑا بناتی چلی جاتی ہے ،،، اگر ایسے میں ، جنگل ، وادی ، خاموشی ، اور پرندوں کی آوازوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملے تو،،،، انسان کے اندر کے بے سکونی کے چڑھتے دریا کا لیول نیچے ہونے لگتا ہے ۔ اور چڑچڑا پن ، اُڑن چھُو ہو جاتا ہے ،،،( یہ ایسا آزمودہ نسخہ ہے ، کہ تجربہ کر کے دیکھۓ ، سچا ثابت نہ ہوتو پیسے واپس) 😍😃۔۔لندن سے میری دلچسپی جلد ختم ہو گئی ،، لیکن ایک دن مزید رکنا پڑا کہ ٹرین کا ٹکٹ اگلے دن کا تھا ،، اس ایک دن کو پھر " مَڈ شوٹ پارک " اور قریب ہی ایک واکنگ ٹریک کے لیۓ مختص کیا ، میَں نےاور جوجی نے آدھا دن انہی دونوں جگہ گزارا ۔ یہ واکنگ ٹریک ، ایمن ثمن کے گھر سے پانچ منٹ کی پیدل دوری پر تھا اور یہ دریاۓ ٹیمز کے کنارے پر تھا ،، یہاں خوش مزاج ، بوڑھے اور جوان خواتین و حضرات ، ہلکی سی مسکراہٹ دے کراپنا پیدل چلنے کا سٹیمنا بنا رہے تھے ،، اور حسبِ معمول میَں اپنے ملک کی سہولیات ، اور لوگوں کے متفکر، چہروں کا موازنہ اِن سے کرتی جا رہی تھی ،،، ہم تیسری دنیا کے لوگ واک کرتے وقت بھی ، کسی گھریلو مسئلے، یا ، نوکری کے مسائل کو کسی کونے میں پھینک کر نہیں آتے ، بلکہ انھیں بھی " واک " کروانے ساتھ لے آتے ہیں ، یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے چہرے " متفکرخدو خال " کے ٹھپے سمیت ہوتے ہیں ،،، لیکن یہاں کے متفکر یا بےحسی لیۓ چہرے ، صرف اپنی غرض کی دنیا میں گُم نظر آۓٹھنڈک ہو گی ، اور لوگ گھروں میں بند ہو جائیں گے،یہ دن ہم مشکل سے گزارتے ہیں "!! شاید یہ لوگ قریبی رشتوں سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ ان " اداس  ،، ہمیں مانچسٹر کے ایک بازار میں پچھتر ، چھہتر سالہ ایک خوش مزاج برٹش خاتون نے ہمیں مسکرا کر ہیلو کہا ، تو حیرت ہوئی کہ یہ تو خود سے وقت دے رہی ہے ،، میَں نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر کہا " آپ کا یہ گاؤں بہت خوبصورت ہے ، یہاں بہت سکون ہے ،، اس نے اداس لہجے میں کہا " لیکن تنہائی کے چھے مہینے آنے والے ہیں ، اور ہر طرف دھند اور دنوں " کو پہلے ہی سوچ سوچ کر اداس ہو رہے ہوتے ہیں۔ 
شاید اسی امپریشن کے تحت ایک نظم لکھی تھی اگریہیں پڑھ لیں تو بہتر ہو گا ۔۔۔
" یہ گوری قومیں "
جانی انجانی اجنبی دنیائیں 
یہاں عجب نسل بَس رہی ہے
اِن کے ہاتھوں کی ٹھنڈک
اور لبوں کا سکوت ،،،
ایسا، کہ کچھ بھی نہ کہا اور سب کہہ بھی گۓ 
آسیب ذدہ گھروں کے مکیں
چہرے پہ چہرہ سجاۓ 
بے نیازی کی بُکل اوڑھے
قریب سے گزرتی یہ مشینیں
جیسے وقت کے کوڑے کے غلام !!!۔
بہرحال ہم یہاں واکنگ ٹریک اور پارکوں میں جب بھی بیٹھتیں، سامنے گزرتے چہروں کے " صفحے " پڑھتیں ، اندازے لگاتیں ،اور اپنے تئیں بہت عقلمند سمجھتیں ۔ انکے لیۓ دیۓ رویوں پر حیرت ہوتی کہ اپنے والدین کی غلطیوں کو نئی نسل بہ خوشی قبول کر کے " پرائیویسی "کے چکر میں تنہائی خرید رہی ہے ،، لیکن ساتھ رہنے کی " سمجھوتہ گاڑی " نہیں چلانی ۔ جو آسان حل ہو سکتا ہے۔
اگلا دن لندن سے رخصتی کا تھا ،، عام ریلوے سٹیشن پہنچے ، جو ہمارے ملک کےمیں ابھی تک نہیں بنا ، بہت صاف ، اور ٹرین بھی بہت صاف ستھری ، ۔ ہمارا یہ سفر دو گھنٹے اور چند منٹ کا تھا ،، سارا وقت ،اے سی چلتا رہا ، کھڑکی سے باہر کے دو گھنٹے مسلسل کھیتوں ، فیکٹریوں کے شیڈ گزرتے رہے ، غربت کا تصور یہاں کچھ اور ہے ،،، اور ہمارے ہاں کچھ اور ،،، حال یہ ہے کہ ہم جب ٹرین میں سفر کرتے ہیں ، تو کسی شہر کے قریب آنے ، یا شہر کے نکلنے کے منظر شدید گندگی اور بد رنگی سے بھرے ہوۓ ہوتے ہیں ۔ بس درمیان کا کھیتوں کا نظارہ کچھ طراوت بخشتا ہے ۔ ،،، اور اگر کوئی گاؤں ٹرین کی کھڑکی سے نظر آجاتا ہے ، تو سادہ گھروں کے ساتھ، ان کی مفلوک الحالی ، صاف نظرآجاتی ہے ، ایک تو ہمارے سخت گرم موسم ، کہ جس میں بارش بھی نہ ہو، سارا ماحول مٹیالہ نظر آتا ہے ،، اور یہاں میرا یہ حال کہ اس دو گھنٹے میَں کھڑکی سے چپکی بیٹھی رہی اور لمحے بھر کے لیۓ نہ اُکتائی ،، اور یہ بھی کہ ٹرین ایسی سموتھ چلی کہ ، مانچسٹر سٹیشن آیا تو، دل چاہا ، کہ ایک گھنٹہ اوریہ سفر رہتا۔ 
سٹیشن پر مائرہ مسکراتی شکل سے نظرآئی۔ اور کچھ سیڑھیاں اتر ، کچھ چڑھ کر ہم کار تک پہنچیں۔ کیوں کہ اب ہم نیم پہاڑی علاقے میں پہنچی تھیں ۔ اس لیۓ یہاں کچھ ایسی حالت نظر آجاتی ہے۔ اسی دوران مائرہ ہمیں ایک مال میں لے گئی کہ اب آپ صرف شاپنگ کریں ،، جواب تک کافی کم کی گئی تھی ۔ 
سویٹروں کی شاپنگ کے بعد اسی مال کے ایک خوبصورت "لبنانی ریسٹورنٹ ، پو پو " سے ہلکا پھلکا کھانا کھایا ۔ اور اسکے برآمدے میں آکر قہوہ سے لطف اندوز ہونے لگیں ، یہ ریسٹورنٹ دوسری منزل پر تھا ۔ ہم نیچے کے ہال کو دیکھ رہیں تھیں ، اتنے میں آرکسٹرا کی بھرپور آواز نےہمیں متوجہ کیا ،، ایک لڑکے نے اناؤنسمنٹ کی اور مائیک پرچند "جوڑوں" کا نام پکارا ۔۔ اور فلور پر چند بزرگ جوڑے ، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ، آرکسٹرا کے ردھم پر ڈانس کرنے لگے ،، ،۔تب مائرہ نے معلومات لے کربتایا ،، یہ یہاں اس شاپنگ مال کی طرف سے منگل اور بُدھ کو بزرگ جوڑوں کے لیۓ شام6 بجے سے آٹھ بجے تک " مفت تفریح" مہیا کی جاتی ہے ۔ ڈانس سے پہلے اور بعد میں انھیں قہوہ یا چاۓ بھی مفت پیش کی جاتی ہے ۔ اور بزرگوں کے احساسات اور ان کی مصروفیات کا خیال کن معاشروں میں کیا جاتا ہے ،، صرف اسلامی معاشرے میں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ جی ہاں ، ان احساسات کا خیال رکھنا تو اسی دین نے سکھایا لیکن اسے اپنایا ، ان قوموں نے جن پر یہ احکامات نہیں اترے ،،، لیکن آج ان کی ویلفیر سٹیٹ کے بہت سے بنیادی احکامات اِسی دین سے حاصل کیۓ گۓ ہیں ، بزرگ طبقہ سواۓ تنہائی کے کسی ایسے ویسےخدشات کا شکار نہیں ۔ ہم تو اپنے بچوں کے لیۓ پہلے جوانی کی محنت سے کماۓ پیسے کو دانتوں سے پکڑ پکڑکرجمع کرتے اور ایک گھر بناتے ہیں ، پھر اس گھر میں بچوں کی شادیاں ہوتی ہیں ، اگر بیمار ہوۓ تو ہر حال میں اپنے علاج خود کریں ۔ اور کبھی کبھی ایسی بیماری ، جو لمبی ہو جاۓ تو وہی گھر بکنے پر آجاتا ہے ۔ گویا پینشن والا بزرگ بہت خوش قسمت سمجھا جاتا ہے ، کہ وہ چند پیسوں سے ابھی بھی گھرکو مدد دے رہا ہوتا ہے،،، بس یہ توقع کی جاتی ہے کہ بزرگ حضرت ، یا خاتون ،، اپنے تمام اخراجات بھی کم کر لیں ، ہو سکے تو دوائیاں بھی نہ خریدیں ، اور کسی صحت مند غذا کی فرمائشیں نہ کریں ،، اور کہیں جانے کا تو نہ ہی بولیں ،،، بات تو لمبی ہو جاۓ گی ،، لیکن یہ طے ہے کہ بڑھاپے میں سواۓ اللہ اللہ کرنے کے کسی تفریح کا سوچنا بھی گناہ ہو جاتا ہے ،، اور یہ باتیں اگرچہ اب بہت حد تک کم ہو گئی ہیں ، لیکن 50 فیصد آج بھی ایسے خیالات لیۓ زندگی گزار رہے ہیں ،، ۔
مزید تین دن " بےکپ " رہنے کے بعد آج 2 نومبر کی شام ہے ایمن ثمن بھی کل پہنچ چکی ہیں ، بچیوں نے ہمارا سامان نہایت محنت سے پیک کیا ،، اور سات بجے شام ہم ایئر پورٹ پہنچیں ،، لائن میں لگے آدھ گھنٹہ گزرا ،، تو جلدی کرو کا شور بلند ہوا ۔ اور جب ہمارا سامان کا وزن کیا گیا وہ کچھ زیادہ تھا ، ایمن ثمن نے فورا بیلنس کیا ، اور کچھ سامان واپس گاڑی میں لے گئیں ۔ اب خداحافظ کہا گیا ، لائن میں ہم قدرِِ پیچھے چلتی رہیں ، اور جہاں چیکنگ کا وقت آیا ، مائرہ کی طرف سے میری درد کی ٹیوبز آخری وقت پر ملیں جسے میں نے اپنے پرس میں رکھ لیا ، ان کی چیکنگ ہوئی مجھے کلیئر کر دیا ،، لیکن جوجی کے ہاتھ میں پکڑے قرآن اور اس کے لیپ ٹاپ نے اسے لمبی چیکنگ سے گزرنا پڑا ، اور اس دوران اس کا ہینڈ کیری ، اپنا بڑا پرس ، اور ہاتھ میں پکڑے بورڈنگ کارڈ وغیرہ نے مجھے تھکا دیا ،، اور سب سے تکلیف دہ بات وہاں کھڑے پی آئی اے کے پاکستانی اہلکار کہتے رہے ،، " جلدی کریں ، ورنہ ہم جہاز چلوا رہۓ ہیں ، ، ، ایک تو ان جاہل پاکستانیوں نے بےتحاشا شاپنگ ضرور کرنا ہوتی ہے ،،، ایک تو اِن لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کی کیا لے کر جانا ہے ، کیا نہیں ،،"" ،،، سوچیۓ ان غیر اخلاقی ، بےحوصلہ کرنے والے جملوں نے میری کیا حالت کردی کہ، اپنی تمام تر بولڈ نیس کے باوجود میں ٹینشن میں آگئی۔ لیکن بس اتنا کہا " بے شک جہاز چلوا دو ، ، وہ منہ ہی منہ میں بُڑبڑانے لگا ،، اتنے میں جوجی فارغ ہو کر آگئ،، اب ہم نے تمام ہمت جمع کر کے دوڑنا شروع کیا ،، وہ آدمی ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ، اور کچھ نا کچھ کہتا جا رہا تھا ، اور اس دوران ایکسیلیٹر سے مجھے سامان سنبھالنا عذاب لگا ، کہ اچانک میرے ہاتھ سے ہینڈ کیری ایک جوان انگریز ( یا کوئ نیشنل) نے پکڑا اور مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ، میں لیپ ٹاپ اور اپنے بیگ کے ساتھ پوری ہمت سے بھاگتی ہوئ ، جہاز کے دروازے میں داخل ہوئی ،لیکن میرے دل کی دھڑکن اپنے کانوں میں سنائی دے رہی تھی ، جو ایئر ہوسٹس دروازے پر کھڑی تھی ، میں سامان اس کے آگے پھینکا ، اور اسی نے اشارے سے بتایا سب سے پیچھے چلی جائیں ، میَں آخری سیٹ تک کتنی مشکل سے پہنچی ، اور اسکے بعد مجھے جو کھانسی شروع ہوئی ،، تو میری حا لت دیکھ کرایئر ہوسٹس گلاس پانی کا لے آئی ، چند گھونٹ پیۓ ، جہاز چلا ، بتیاں روشن ہوئیں ،، لیکن کھانسی دو گھنٹے تک رُکی ،، اس کے بعد صبح 9 بجے پنڈی ایئر پورٹ تک کا دورانیہ جو گزرا ، میں ایک جملہ نہ بول سکی کہ ہمت بالکل ختم تھی ،،،نقاہت سے ہلنا مشکل تھا ،،تو گویا ، اتنے زبردست خوشیِ پُرلطف اور بہت بےفکری کے سفر کے آخر میں ، جس اذیت ، اور ناگوار صورتِ حال سے گزرنا پڑا ،، وہ ساری رات اور اپنے پاکستانی عملے کا تعاون سے عاری رویہ ، مجھے یاد آتا ہے تو دل اداس ہو جاتا ہے ، وہ دیکھ رہاتھا کہ میَں مشکل سے چل پا رہی تھی بجاۓ مدد کرنے کے طنزیہ باتیں کرتا جا رہا تھا ، اورغیر ملکی نا معلوم مسافر کا شکریہ جس نے بغیر میرے کہے میرا بیگ لے کر پہنچایا ،، گھر آکر اپنے بچوں کو سنایا ، تو وہ بہت خفا ہوۓ کہ آپ نے اسی وقت اس کی شکایت کرنا تھی ،،، وہ کسی صورت جہاز چلانے کے مجاز نہیں تھے ،، اور جب مائرہ کو پتہ چلا ، تو اس نے ہمیں صرف اس کا حلیہ بتانے پر اصرار کیا کہ اس دن اتنے سے اتنے بجے جن کی ڈیوٹی تھے ، میں یہاں سے پتہ کروالیتی ہوں ،، میں نبٹ لوں گی وغیرہ ،وغیرہ ،،، لیکن جب تک ہمارے لوگ سیاسی بھرتیوں سے نااہل اور نان پروفیشنل لوگ ان عہدوں پر آئیں گے، ہمیں ایسے ہی " حراساں " کیا جاتا رہۓ گا ،، جس چیز کی ہمیں سب سے ذیادہ ضرورت ہے وہ " خوش اخلاقی ، اور بھرپور تعاون کی شخصیت بننا ہے ،، ۔
میَں آج اس سفرِِ ولایت کا اختتام کرتی ہوں ، یہ اور پہلے لکھے گۓ سفرنامے ،، میَں نے اپنے شوق ، اور یاداشتوں کو اکٹھا کر لینے کےلیے ، اور خود کی سیٹس فیکشن کے لیۓ لکھے ہیں ، درخواست ہے ، ان سفرناموں سے کسی "معیار" کو نہ ڈھونڈا جاۓ ، نہ ادبی نہ تکنیکی ، نہ کسی قسم کے نثر پارے کے طور پر ،،، یہ اپنی پیاری یادوں کو اپنے پیارے احباب سے شیئر کرنا تھا ،اور بس،،چوں کہ ہر تحریر جب لکھی جاتی ہے اور کسی کے سامنے آ ہی جاتی ہے تو وہ اپنے " قاری " کی منتظر بھی ہو جاتی ہے ،،، ۔
دعاؤں کے ساتھ ! ۔
( منیرہ قریشی 30 جولائی 2018ء واہ کینٹ ) 

" یہ گوری قومیں "

" یہ گوری قومیں "
جانی انجانی اجنبی دنیائیں
یہاں عجب نسل بَس رہی ہے
اِن کے ہاتھوں کی ٹھنڈک
اور لبوں کا سکوت ،،،
ایسا، کہ کچھ بھی نہ کہا اور سب کہہ بھی گۓ
آسیب ذدہ گھروں کے مکیں
چہرے پہ چہرہ سجاۓ
بے نیازی کی بُکل اوڑھے
قریب سے گزرتی یہ مشینیں
جیسے وقت کے کوڑے کے غلام !!!۔

اتوار، 22 جولائی، 2018

سفرِانگلستان (25)۔

"سلسلہ ہاۓ سفر "
' سفرِِ ولایت ، یو کے ' ( 25)۔
اور دل میں میوزیم ، کے باقی حصوں کو دیکھنے کی حسرت لیۓ واپسی اختیار کی ۔ اگلے دن ایمن ثمن نے پھر ہمارے لیۓ ، وہی لندن کے ان گوشوں کو دکھانے کا فیصلہ کیا ،، جو اُن کے مطابق ہر سیاح کو دیکھنا ضروری ہے ، ورنہ لندن ہی نہ دیکھا ،،، جی ہاں وہی " لندن آئی ،، 10 ڈاؤننگ سٹریٹ ،اور کچھ مشہورشاپنگ سینٹر ہیریلڈ اور نواز شریف کے فلیٹس والی سٹریٹس ،، اور کچھ اہم اور پیارے لوگوں سے ملنا بھی ضروری تھا ،، اس لیۓ اب دو دن تھے اور ہمیں مصروف ہی رہنا تھا ،،، اگلے دن ، کی سیر خاصی لمبی پیدل کی جانے والی سیر تھی ،، کیوں کہ جگہیں ایسی تھیں کہ بار بار بس کا سفر کرنا پڑنا تھا ، ، بہر حال اسی میں ایڈونچر تھا ( ہمارے لحاظ سے ) ۔ اور اگلے دن کی سیر کے لیۓ ایک مرتبہ پھر " ٹیوب سٹیشن " پہنچیں ، اور کانوں نے ایک دفعہ پھر اس انگریز بھکاری کی پُرسوز آواز سنی ۔ وہ واقعی ایک خوبصورت آوازتھی ، اور اسے قسمت کہتے ہیں کہ اب تک کسی موسیقار کی توجہ اس کی طرف نہیں گئی تھی کہ ،، ریشماں جیسی قسمت بھی کوئی کوئی لے کر آتا ہے ۔ ایمن ثمن ہمیں سیدھے " ملکہ " کے سلام کے لیۓ لے گئیں ،، یہ ایک خوب وسیع ، پرانے طرزِ تعمیر کی عمارت جس کے باہر خوب چوڑی ڈرائیو وے اور پھر اونچا گیٹ تھا ، اور دیوار !! جس کے باہر " ہم عوام " اسی شہزادے ، شہزادیوں ، کی محبت کی میٹھی 
نشہ آورگولیاں چوستے ہوۓ ،، عمارت کو شوق سے دیکھ رہے تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں انسانوں کے ہمیشہ سےتین طبقے نمایاں رہے ہیں ،ایک طبقہء امراء ،، جن کا رہن سہن ایسا شاہانہ ہوتا ، جو عام عوام سوچ بھی نہیں سکتے ، اور کوئی انکے اس شاہانہ طرز کو نہ چیلنج کر سکتا تھا ،، نہ آج تک کیا جاتا ہے !! ( کہ اس بات کوغداری سمجھا جاتا ہے )۔
کہ اپنا ذریعہء آمدن بتاؤبھئ !؟؟ اور یہ ہی مختصر طبقہ حکمران ہوتا ہے ، ملک کے جاندار اور بےجان اشیاء کے مالک و مختار بھی ہوتے ہیں وغیرہ دوسرا طبقہ ، اسی طبقہء امرا و حکما کو مدد دیتا کہ ،، ذہنی قابلیت رکھنے والے یا تھنک ٹینک ، اسی " دوسرے طبقے" سے فراہم ہوتے تھے اور آج بھی ہیں۔ ،،، اور تیسرا طبقہ حکمران کے تالی بجانے پر" کیا حکم ہے میرے آقا !! " والا ہوتا ہے ،،،اور دیکھا جاۓ تو شاہی خاندان تو اب چند ملکوں میں رہ گۓ ہیں ،، تاریخ نے بار ہا، ان بےچارے شاہی خاندانوں کو تخت سے تختے یا فٹ پاتھوں تک پہنچایا ،،، لیکن عبرت کسی نے حاصل نہ کی " شاید ، یہ ہی اگاڑ پچھاڑ لوح محفوظ " میں لکھ دی گئ ہے ، ، ، اور اب جہاں جمہوریت کی کونین والی گولی معہ میٹھی کوٹنگ کے کھلائی جاتی ہے ،، وہاں بھی ایسے ہی تین طبقے ہیں ، وہی " طریقہء حکمرانی ، وہی طریقہء واردات ،، وہی تاریخ کے صفحوں پر کالے ٹھپے ،، " یعنی مدت پوری ، اب نا اہل " ،، وہی تھنک ٹینک کی بادشاہ گری اور وہی ہم عام عوام '' کیا حکم ہے میرے آقا "" ! اور آج ہم بھی عام عوام بنے نہایت آرام سکون سے گیٹ سے ،باہر مختلف تصاویر اتروا رہے تھے ،، کہ شاید اس دوران "ملکہ " کی آمد کا غلغلہ اُٹھے ،، اور رعایا احمقوں اور خوش آمدیوں کی طرح تالیاں بجاۓ ،،، اور بعد میں دیر تک اُن چند لمحوں کو یاد کی جاتا رہے،،، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا ، اور ، عام عوام نےصرف خوبصورت بنے پارک میں کچھ دیر تصاویرلیں ،، اور اگلا " ٹِک مارک " 10 ڈاؤننگ کے سامنے لمحہ بھر رک کر لگایا ، ذرا آگے بڑھیں۔
تو ایک " احاطہ " نظر آیا جو ملکہ کے گرد روایتی لباس والے پولیس کا ٹریننگ سینٹر تھا ،، وہاں بھی وہی روایتی اونچی سیاہ ٹوپی ، اور سرخ کوٹ ، اور سیاہ پینٹ میں ملبوس چند معصوم شکل پولیس کے سپاہی اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے ، ایک بچونگڑے سے سپاہی کو جوجی نے پوچھا " کتنے گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے؟ اور کیا تم لوگوں نے اسی طرح ساکت رہنا ہوتا ہے ؟ ،، جواب میں مکمل خاموشی ،،، بلکہ اس نے نظریں ٹیڑھی کر کے بھی ہمیں نہیں دیکھا اور ناک کی سیدھ میں دیکھتا رہا،،،خیر اس بچارے کے ساتھ ہم نے تصاویر لیں ، اور آگے چل پڑیں ،، ٹونزوں کو ہماری ہر " فری ہو جانے والی حرکت " بہت دیسی لگتی تھی ، ، لیکن جیسا میں نے پہلے کسی قسط میں لکھا تھا کہ ہم ایک کان سے سُنتیں اور دوسرے سے نکال دیتیں ،، انھوں نے بتایا یہ بغیر اپنے آفیسرکی اجازت کے جواب بھی نہیں دے سکتے ۔ ،، کچھ دیر اس احاطے میں ٹریننگ لیتے پولیس ٹرینیز کو گھوڑوں کی ہلکی چال سے ٹریننگ لیتے دیکھا،، اور سیدھے پہنچیں "لندن آئی "،، اور بگ بین کے مشہورِ زمانہ چوک پر یہ دونوں آمنے سامنے تھے ، صرف آنکھوں دیکھا حال والا قصہ کیا ،، اور پندرہ بیس منٹ گزار کر اُس بس میں بیٹھیں ، جو سینٹرل لندن کی طرف جا رہی تھی ۔ ایمن نے اپنی تعلیمی درسگاہ یہ کہہ کر وزٹ کروانے سے انکار کر دیا تھا کہ آپ کیمبریج جیسی شاندار اور گرین ایچ جیسی ستھری ، وسیع لان والی یونیورسٹیز کو دیکھ آئی ہیں ،، اب یہ " لندن سکول آف اکنامکس " محض معیار کی وجہ سے بلند ہے ورنہ بلڈنگ وہی جدید طرز کی ، اوپر تلے کی منزلیں ہیں ، ہم نے بھی اصرار نہیں کیا ، کہ تھکن بھی ہم پر سوار تھی ،،لیکن اس کے قریب سے گزریں  تو قریب ہی " ایک اور قدیم اور خاص پس منظر رکھنے والی عمارت نظر آئی ،، جسے دیکھ کر جماعت دہم میں پڑھی ، نظمیں اور مضمون بھی یاد آگۓ ، "ویسٹ منسٹر ایبے"،، جو یہاں کے شاہی خاندان یا اہم خاندانوں کا مشہور چرچ ہے ، جو آج ایک ہزار سال کا ہونے والا ہے لیکن مناسب دیکھ بھال نے اسے قابلِ دید بنا رکھا ہے،، اور ہم نے اگرچہ برٹش حکمرانی کا دور نہیں دیکھا ،، لیکن ہمارے بچپن تک تادیر ، برٹش شخصیات ، عمارات ، اور ڈیفوڈلز کا ذکر ہماری درسی کتب میں رہا ، ، ہمیں ان مشہور جگہوں ، اور شخصیات سے متعلق پڑھنا ، برا نہیں لگتا تھا ، لیکن تصورات میں یہ امیج کسی طرح صحیح بیٹھتا بھی نہ تھا ، اور انتہائی مشکل سے حاصل کیۓ گۓ وطن کی کم اور سابقہ حاکم کے ملک کی ذیادہ معلومات ہوتیں۔ 
لندن کے آخری دن کو ہم نے " بشیر بھائی اور شاہدہ " کے لیۓ وقف رکھا ہوا تھا ،، " محمد بشیر بھائی " واہ فیکٹری کے ان انجینئرز میں سے تھے ، جنھوں نے دیانت داری سے کام کو اپنا " موٹو " بناۓ رکھا ، میرے والد ، کے لیۓ ان کے ذہن میں ہمیشہ بہت اچھا امیج رہا ،، کہ اباجی چیف سیکیورٹی آفیسر ہونے کے ناطے ، نئے افسران ،کی تمام تر تحقیق کی رپورٹ دینے کے پابند تھے ، اور بشیر بھائی اس بات کو بہت  فخر سے بیان کرتے کہ " میجر صاحب " کے  دستخط  سے ہمارے پیپرز فائنل ہوۓ ، یہ کوئی خاص بات نہ تھی کیونکہ وہ اپنی ڈیوٹی دیتے تھے ،، لیکن بشیر بھائی کے دل میں وہ اچھا امیج آج بھی قائم ہے ،، اتفاق سے ان کی اکلوتی بیٹی " مہوش بشیر " میری بیٹی نشل اور بھانجی ماہرہ کی کلاس فیلو رہی ، کانووینٹ میں پڑھتی یہ تین ، اور ایک دو اور بچیاں صائمہ ناز ، ( جو اب انگلینڈ میں ہی ڈاکٹر ہے ) اور ماہم شاہد ،، کا گروپ ایسا تھا ، جو اگر چند دن گزارنے کا پروگرام ترتیب دیتیں تو سبھی بچیوں کے والدین " مہوش " کے گھر رہنے کی اجازت بخوشی دے دیتے ۔ اور وہاں بشیر بھائی اور شاہدہ دلی محبت اور کیئرنگ سے انھیں گھر میں رکھتے ،، یوں لگتا کہ وہ سب وہاں پکنک منانے پہنچی ہیں ۔ بچپن سے لے کر آج تک ان کی دوستی بہت خوبصورتی سے چل رہی ہے ، نشل پاکستان میں ، ماہرہ انگلینڈ میں اور مہوش امریکا میں رہتی ہیں ، ، لیکن یہ فاصلے ان کے آپس کی پیاری دوستی کو مدھم نہیں کر سکے ۔ دعا ہے کہ یہ سب بوڑھی ہو کر بھی ملتی رہیں ، اور اپنے بچپن کے گزارے بےفکری کے دنوں کی کہانیاں اگلی نسل کو سناتی رہیں آمین !۔
بشیر بھائی فیکٹری سے ایم ، ڈی کے اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوۓ ، اور اکلوتے بیٹے کی محبت میں انگلینڈ کی شہریت لے کر لندن شفٹ ہو گۓ ، یہاں سیٹل ہوۓ قریباً 10 یا 12 سال ہو چکے ہیں ،، لیکن پاکستان سے محبت کا یہ حال ہے کہ صبح کا آغاز اگر نماز سے ہوتا ہے ، تو دوسرا کام وطن کی خبر لینے کے لیۓ خبروں کا ہوتا ہے ، ، ، وہ میرے اس پیج کے بھی مستقل قاری ہیں ، شاہدہ ایک سگھڑ اور با ذوق وہ خاتون ِ خانہ ہے ، جس کی زندگی صرف شوہر اور ان دو بچوں بیٹا اور بیٹی کے گرد گھومتی تھی اور گھوم رہی ہے ،،، اس نے واہ فیکٹری میں ملے خوب بڑے گھر کو نہایت سیلقے اور ذوق سے سجایا ہوا تھا ،،، اور اب جب انگلینڈ کے اس چھوٹے گھر میں گئیں تو ،، یہاں اس کے ذوق اور سگھڑاپے کا الگ روپ نظر آیا ، جو کم گھروں میں ہی نظر آتا ہے ، ، دونوں نے بہت اپنائیت سے استقبال کیا ، گھر میں بنی کھانے کی مزیدار اشیاء شاہدہ کی محبت کا اظہار کر رہیں تھیں ، حالانکہ اب وہ صحت کے لحاظ سے بہت فٹ نہیں رہتی ، لیکن گھر داری ، اس کی" تھیریپی " ہے ، ، میَں تو اس کے سلیقے سے پہلے ہی متاثر تھی ، انگلینڈ کے گھروں کو سجانا اور وہ بھی بغیر ملازمین کے ،، یہ اچھی خاتونِ خانہ کا اظہار تھا ۔ بشیر بھائ نے بھی اپنی مصروفیات فکس کر رکھی ہیں ، لیکن پاکستان کی محبت اور اس کی فکر میں گھُلے نظر آۓ ،، جو ایک محبِ وطن پاکستانی کی خاص صفت ہے ۔ ( مجھے یاد نہیں کہ ان کا علاقہ کون تھا ، وہ اس قسط کو پڑھ کر مجھے یاد دلا دیں ) لیکن جب ہم اس علاقے کی ایک سڑک پر مڑیں ، تو اس سٹریٹ پر بہت سے یہودی خواتین و حضرات ، نظر آۓ ، جو اس وقت سکول سے چھٹی ہونے پر بچوں کو لینے آۓ ہوۓ تھے نیزشام کی آفسسز کی چھٹی ہونے پر گھر جاتے نظر آۓ ،، مجھے مانچسٹر میں بھی یہودی افراد نظر آۓ تھے لیکن یہاں یہ خاصی تعداد میں تھے ، مرد حضرات نے سیاہ کوٹ پینٹ ، ہیٹ ، اور ہمارے مولانا حضرات جیسی لمبی داڑھیاں رکھی ہوئیں تھیں ، لیکن دونوں کانوں کے پاس کے لمبے بالوں کی مینڈھیاں کر کے داڑھی جتنی لمبی چھوڑی ہوئ تھیں ، ان کے بچوں کے سروں پر وہ گول ٹوپی چپکی ہوئ تھی جو بہ مشکل ایک چھوٹی سی "پرچ " جتنی ہوتی ہے ،اور ایسے میٹریل کی تھی جو چِپکی رہتی ہے ، یہودی اپنے بچوں کی گُھٹی میں اپنے عقائد ، اور روایات کو ایسا گھول کر پلا دیتے ہیں کہ ، صدیوں پہلے بھی اور آج بھی ، وہ خود کو خالص اور دوسروں کو " نا خالص " سمجھتے ہیں ، ایسا زعم صرف براۓ زعم نہیں چلا ۔ بلکہ اپنی عرب سر زمین سے لی گئ ذہانت کے بل بوتے پر ، خود کو ہر طرح ان تھک محنت اور ا"پنی قوم "سے وفاداری سے دنیا میں کی گئی" ایجادات" کا لوہا منوا لیا ہے ۔ یہ اور بات کہ ان میں " محبت اور جنگ میں سب جائز ہے " والا فارمولا بہت عمل پیرا رہتا ہے ،، خود کواللہ کی چنیدہ قوم کا زعم ،انھیں متکبر کر دیا ہے ، یہ تکبربِل آخر انھیں کس انجام سے دوچار کرے گا ، یہ تاریخ رقم ہو کر رہۓ گی ، ان شا اللہ !۔
بشیر بھائی اور شاہدہ کی محبت بھری میزبانی کا لطف اُٹھاتے ،، لندن کا یہ علاقہ دیکھتے ، انھیں اللہ حافظ کہا ، اور گھر آکر ٹونزوں نے ہمارے ہینڈ کیری جیسے دو بیگز ، اور ایک عجیب و غریب شکل کا تھیلا تیار کیا ، جو ہم دونوں سے اُٹھایا جانا ممکن ہی نہ تھا ،، ہم دونوں تو بیگم صاحب بن کر اپنے اپنے ہینڈ کیریز کے ساتھ آگے چل پڑیں اور ایمن ثمن نے وہ عجیب سا تھیلا خود اُٹھاۓ رکھا، ریلوے سٹیشن پہنچیں ، یہ ٹیوب سٹیشن نہیں تھا بلکہ نارمل ٹرین تھی ، ٹکٹ چند دن پہلے لے لیۓ گۓ تھے ،، اور اپنی پیاری ، نہایت مہمان نواز اور میری ہر بات اور حرکت کو محبت و احترام سے برداشت کرنے والی ٹونزوں سے رخصت ہوئی ،، تو دل بہت اداس تھا حالانکہ انھوں نے چند دن بعد مانچسٹر آکر ہمیں ائر پورٹ سے رخصت کرنا تھا ،، لیکن مَیں نے واضح کر دیا کہ مجھے لندن سے جدائی کا کوئی افسوس نہیں ،، جس پر انھوں نے لمبا سا کہا " خالاآآآآآا " ، کیؤنکہ وہ لندن 4 سال سے رہ رہی تھیں ، اور اب اس کے پانی اور نمک نے انھیں اپنا اثیر کر لیا تھا ،، سڑک سے مانچسٹر اور لندن کا فاصلہ 4 گھنٹے کا اور ٹرین سے لندن سے مانچسٹر تک کا سفر صرف دو گھنٹے کا تھا ۔ انتہائ آرام دہ سفر ،، بہت صاف ، ستھری سیٹس ، ، میَں نے حسبِ عادت کھڑکی والی سیٹ سنبھالی ،، کہ نئے ملک کے نظارے کھڑکی سے نظارت دیتے چلے جائیں تو اس خوشی کا نہ پوچھیۓ ،، دو گھنٹے کا سفر یوں گزرا کہ دل نے کہا یہ " کیوں۔ گزرا " ۔
(منیرہ قریشی 22 جولائی 201ء واہ کینٹ  ( جاری

منگل، 17 جولائی، 2018

سفرِانگلستان(24)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
 سفرِِ ولایت، یوکے  (24)۔
ہم " کوئین وکٹوریہ اور البرٹ" میوزیم کی طرف چل پڑیں ،، کہ وہ بہت دور نہیں تھا ۔ اس میوزیم کو یہاں "وی اینڈ اے"  بھی کہا جاتا ہے ، لندن کی آبادی 2011ء کے مطابق 80 لاکھ تھی ۔ اور صرف لندن میں 23 میوزیمز ہیں ، جن کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے ، کچھ سائنس ، کچھ ہسٹوریکل ، کچھ کو " نیچرل ہسٹری میوزیم " کا نام دیا گیا ہے ، وغیرہ ،، ان میں کچھ بڑے ، کچھ چھوٹے میوزیم ہیں ، اور "وکٹوریہ اور البرٹ " میوزیم کو لندن کاتیسرا بڑا میوزیم مانا جاتا ہے ،، یہاں داخلے کا کوئ ٹکٹ نہیں ۔ اندر داخل ہوتے ہی ،میوزیم کے سجانے ، سنوارنے ، یا یہاں مختلف تہذیبوں کو الگ الگ نمایاں کرنے کا نہایت اعلیٰ انتظام کیا گیا تھا ،، خوب اونچی چھتوں نے اور سفید دیواروں نے دسعت کا انوکھا احساس   دیاہواتھا،،،،،کبھی انگلینڈ نے "برِ اعظموں" پر حکومت کی تھی ،، جوں جوں ، حاکموں کی حکومتی سرحدیں سکڑتی گئیں ،، ان کے اپنے " ذاتی " ( انگلینڈ) گھر کے فراوانی اور آسانی میں کمی کے اندیشے بڑھتے گۓ ،،، ان کے ذہین اذہان نے ہوا کا رُخ دیکھا اور آنے والے وقت کا اندازہ لگا لیا ، اس کےساتھ ہی اپنی پالیسیوں کو بدلایا ۔ ان کے نزدیک تعلیم عام اور آسان کرنا پہلا مقصدتھا جسے انھوں نے " حدف " قرار دیا ۔ اور اس کے ساتھ تحقیقی ، تدریس کے میدان کو بھی فتح کا ٹارگٹ بنایا ،، اس کے لیۓ لائیبریریوں ، میوزیمز ، اور لیبارٹریز کی سہولتوں کو اتنا وافر کیا کہ ، بیرونی ممالک کے طلباء کی توجہ ان کی طرف ہوئی،، اور اس ملک کے لیۓ آج بھی آمدن کا خاصا بڑا ذریعہ ان غیر ملکی طلباء کی آمد ورفت بن گیا ہے ،، لیکن یہاں کے بہت سے میوزیمز میں برٹش ایمپائر" نے اپنی پرانی کالونیوں سے قیمتی اور نہایت تاریخی نوادرات لا کر دھڑلے سے یہاں سجا لیۓ ہیں ۔ یہی حال یہاں کی لائیبریریوں میں موجود قیمتی ، اور نہایت پرانی اور تاریخی کتب کا ہے ،، اور یہی تحقیقی ماحول دیکھ کر طلباء جوق در جوق یہاں کی یونیورسٹیز میں آتے ہیں ، اور کوئ شک نہیں کہ شاد کام ہوتے ہیں ! لیکن ان ہی قیمتی خزانوں کو دیکھ کر حضرتِ علامہؒ نے فر مایا تھا ۔۔۔
ؔ مگر و علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا ء کی
جو دیکھیں اِن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا 
اور ہمارے لیۓ آج بھی صورتِ حال کچھ بہت ذیادہ تبدیل نہیں ہوئی ،، کیوں کہ ،
 ؔ خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سُلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
جب ہم اس زبردست میوزیم میں داخل ہوئیں ، تو دوپہر کے تین بجے تھے ، اور عین اس وقت نکلیں ، جب پانچ بج گۓ اور میوزیم کے بند ہونے کا اشارہ ملا ،، اور اس وقت تک ہم ہندوستان ، کوریا ، اور یونان کے حصے کو دیکھ پائیں ،،، جبکہ چین کی اور مصر کی قدیم ، اور شاندار تاریخی نمونے دیکھنے کی ابتدا ہی کی تھی ، کہ میوزیم بند کیا جانے لگا اورہم حسرت لے کر واپس آگئیں ،، ایک ایک ملک کو الگ سے ، آرام سے دیکھیں تب ہی اس ملک سے متعلق بہت سی معلومات ، آسانی اور دلچسپی ،،
سےسمجھ آتی ہیں ،، میَں اپنا تاثر بیان کر رہی ہوں کہ جب بھی کسی میوزیم میں جاتی تھی ،، اور ،، ہوں ، آنکھیں اس دور کی اشیاء دیکھ رہی ہوتی ہیں لیکن بہ باطن اسی دور میں گم ہو جاتی ہوں ، ،، اور یہاں مجھے خود پر اس وقت کافی قابو پانا پڑا ، جب ہندوستانی کارنر میں ٹیپو سلطان کے لباس ، تلوار ، اور اس کی تصویر کے پاس کچھ وقت گزارنا پڑا ،،، میَں ہرگز یہ جملے لفاظی کے طور پرنہیں لکھ رہی ،، میں واقعی شدید جذباتی ہو گئ تھی ،، لیکن ،،، یہاں کچھ وقت گزار کر اس کے ساتھ ہی ، کوریا کی قدیم تہذیب کے نمونے ہیں ،، جس نے ہمارادھیان بہ خوبی اپنی جانب متوجہ کیا ، اسی کے ساتھ یونان سے لاۓ گۓ آرٹ کے اعلیٰ ترین نمونے سامنے آۓ ، اور روح کا بھٹکنا تو قدرتی ہوا ،، مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی ، اس ساری تہذیبی مناظر کو کہاں کہاں سے دیکھوں ، ، ، ایمن ثمن ہم دونوں کو گھسیٹ کرچین اور مصر کے کارنرز کی طرف لے کر گئیں ،، کہ وقت کم رہ گیا تھا،، جبکہ ہمیں یونانی دیو مالائ تہذیب نے جکڑا ہوا تھا ،، کوئ شک نہیں مصر اور چین کی تہذیبوں کا جادو چلا ،،،تو اب ہم یہاں جا براجمان ہوئیں ۔ اگر ایمن ثمن نہ ہوتیں ، تو ہم دونوں نے رات میوزیم میں ہی گزارنا تھی ،،، اور شاید " دی میوزیم " جیسی فلم کے واقعات ہم پر بھی پیش آجاتے ،، 😝🙂، میَں جس علاقے سے تعلق رکھتی ہوں ، وہ دنیا کی سب سے پرانی تہذیبوں میں سے ایک ہے ، یعنی " ٹکسا شلا " ( اصل تلفظ،، معنی، پتھروں کا شہر )جسے بعد میں " ٹیکسلا " کہا جانے لگا ،، یہاں قدیم تہذیب ، چپے چپے پر بکھری ہوئی ہے ،اس کی دریافت کا سہرا ، ایک برٹش " سَر الیگزنڈر کنگین ہیم " 
کے سر ہے ،، جس نے انیسویں صدی میں ٹیکسلا کے کھنڈرات کو دریافت کیا ،، اور آج اسی کی اَن تھک محنت نے صدیوں پرانی تہذیب ، دنیا کے سامنے رکھی ہے ،، یہاں سے نکلنے والے دفینوں کو ٹیکسلا میوزیم کی صورت میں محفوظ کیا گیا ،، یہاں سے دریافت شدہ بدھا کے بڑے چھوٹے مجسمے اور گندھارا تمدن میں استعمال ہونے والی بہت سی اشیاء کچھ تو میوزیم میں سج گئیں ، اور کچھ " نہایت بے علمی ، بے حسی ، اور بد دیانتی " کے احساس کے تحت ، انہی غیر ملکی میوزیمز کو غیر قانونی طور پر بیچ دی گئیں ،، لینے والوں نے بھی ہاتھوں ہاتھ لیۓ ، اور چند سکوں کے لالچی تو خوش تھے ہی ۔ اور کچھ ہمارے لاعلم حکمران طبقہ بھی لے اُڑا ، کہ یہ بھی فیشن میں داخل ہے ، کہ اپنے گھر کے باہری بر آمدے کو بدھا کے 25000 سال پرانے مجسمے سے آراستہ کیا جاۓ ،،، میری خوبصورت وادی ٹیکسلا کی تاریخی اہمیت تو ہے ہی لیکن خوبصورتی کا بھی جواب نہیں ،، لیکن یہاں ایسا کوئ انتظام نہیں کہ ایک تحقیقی یونیورسٹی ہوتی ،اور ہمارے ملک میں جگہ جگہ بکھری تاریخ کے نودرات کو بے قدر لوگوں کے ہاتھوں میں دیۓ جانے سے روکا جا سکے ،، میَں اپنے بچپن سے ٹیکسلا میوزیم جا رہی ہوں ،، ہر دفعہ اسکے شو کیس میں، کچھ چیزوں کی کمی دیکھتی ہوں ، حالانکہ یہاں مہاتما بُدھ کے عقیدت مند ، دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں ،،اور یہ پاکستانی حکومت کے لیۓ آمدن کا بہترین ذریعہ ہے ۔ ، یہاں کے کھنڈرات ، تیزی سے نابود ہوتے جا رہے ہیں ،، یہاں موجود عملہ اورگائیڈ بہت کم پڑھے لکھے ہیں ، جو چند رٹی رٹائی باتوں کو ، بغیر کسی علمی حوالے کے سیاحوں کے سامنے دہرا دیتے ہیں  اور ایسا بےعلمی کا مظاہرہ ، تقریباً ہمارے ملک کے سبھی کھنڈرات میں نظر آتا ہے ۔ مجھے دوسرے ممالک کے میوزیم اور لائیبریرز دیکھ کر ہمیشہ " ڈیپریشن " ہونے لگتا ہے ،،،،،،،!۔
( منیرہ قریشی 17 جولائی 2018ء واہ کینٹ ( ( جاری )

جمعرات، 12 جولائی، 2018

سفرِانگلستان (23)۔

سلسلہ ہاۓ سفر" 
سفرِ ولایت ، یو کے ( 23)۔
گرین ایچ یونیورسٹی ،، اور اسکے ٹاؤن میں کچھ گھنٹے گزارنابہت ہی خوبصورت تجربہ رہا۔ اور پھر واپس اسی ٹنل سے آنا ، ہمیشہ یاد گار رہے گا ۔ ایمن ثمن نے اگلے دن کا پروگرام " وہی  روایتی سیاحوں والا بنا کر پیش کیا ، کہ کل ہم مادام تساؤ کے میوزیم اور " وکٹوریہ اور ایلبرٹ "میوزیم بھی وہیں ہے ، اس لیۓ کہ یہ سب قریب قریب ہیں ،،، اس لیۓ ایکدن ہی یہاں جانا ہو گا ۔ 
اب پھر صبح جلد تیاری پکڑی اور، پہلے نزدیکی ( صرف تین چار منٹ دور) بس سٹاپ تھا ، جہاں سے " کنیری وورف" کے ایریا تک پہنچیں ، اور پہلی مرتبہ" ٹیوب " کا تجربہ ہوا،، بس اسٹاپ سے اتر کر ٹیوب سٹیشن تک پہنچنے اور بےشمار سیڑھیاں اُتر کر سٹیشن پہنچیں ،، اور ایک وسیع لاؤنج ،، جہاں صفائی کا معیار نظر آرہاتھا ،، اور اس لاؤنج کے اکثر پلرز کے ساتھ کوئی نا کوئی " معزز بھکاری " ایک ہیٹ رکھے ، یا تو اپنے گلے کے سُر بکھیر رہا ہوتا ،، یا کسی کے ہاتھ میں گٹار بھی ہوتا ،،، اور وہ اس کے ساتھ اپنی آؤاز کا جادو جگا رہا ہوتا ،، لاؤنج میں داخل ہوتے ہی نظر کی عینک لگاۓ ، لمبے بالوں ، جیکٹ اور جینز میں ملبوس ، ایک 35،36 کی عمر کا بھکاری ،، جس کی آواز پورے لاؤنج میں بغیر مائیک کے گونج رہی تھی ،، اس کی آواز میں اتنا سوز اور ردھم تھا کہ مجھے اسے کچھ دیر کھڑے ہو کر سننا اچھا لگا ، اور ایک پونڈ بھی اس کے ہیٹ میں ڈالا ،،، ایمن نے بتایا ، اسے اپنی یونیورسٹی ( لندن سکول آف اکنامکس ) جانے کے لیۓ کبھی بس اور کبھی ٹیوب سے جانا پڑتا ہے ، ، اور مجھے بھی اس " بھکاری فنکار" کی آواز اچھی لگتی ہے ، ، ذرا آگے بڑھیں تو مزید کاریڈورز اور پھر ایک لمبی انتظار گاہ میں کھڑی ہو گئیں ،، ایک بچی جاکر ٹکٹ لے آئی ،، ہم جہاں کھڑی تھیں ، اسی جگہ ٹیوب ٹرین نے آکر کھڑا ہونا تھا ،، اور جب ٹرین آئی، اور بغیر افراتفری ، کے آٹومیٹک دروازے کھلے ، پہلے لوگ اترے پھر سٹیشن پر کھڑے لوگ اندر داخل ہوۓ ،، یہ وقت بہت رش کا نہ تھا سب آرام سے بیٹھ گۓ ، دنیا کے ہر ملک کے لوگ یہاں نظر آرہے تھے ،،،، یہاں لڑکیاں ،اور خواتین ، گھر سے نکلنے سے پہلے خوب میک اَپ کر لیتی ہیں ،، یہ جملہ اس لیۓ لکھ رہی ہوں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اس طرح تیار ہوتی ہیں ،، جیسے ہمارے ہاں کی لڑکیاں کسی فنگشن کے لیۓ کبھی کبھار تیار ہوتی ہیں ۔ ایسا شاید یہاں کے ٹھنڈے موسم سے بچنے کے لیۓ کیا جاتا ہوگا ،،، لیکن پرانی ایشین النسل خواتین ،، اپنے پرانے خیال کے مطابق سواۓ کریم لگانے یا لپ سٹک کے کچھ نہیں لگاتیں ،، اور ان کی سکن اُن لڑکیوں سے کہیں بہتر تھی ، جو بہت لیپا پوتی کرتی ہیں ، اور اسی لیپا پوتی کے قبیلے میں ہماری ٹونزوں کا نام بھی شامل تھا ،،، اسی لیۓ میَں انھیں " پیسٹری " کہتی ہوں ،،، لیکن وہ بالکل برا مناۓ بغیر اپنے اس کام کو یکسوئی سے کرتی ہیں ،،، حالانکہ اللہ نے انہیں رنگ ، روپ سے خوب نوازا ہوا ہے ،، بات چل نکلی تو کہاں پہنچ گئی ،، کہ اب ٹیوب میں بیٹھی خواتین اور لڑکیاں ،، اسی لیپا پوتی میں پیک ہونے کے باوجود ، چند ایک نے اپنے بیگز سے مرر نکالے اور لپ سٹک یا مسکارا ٹھیک کرنے لگیں ،، گویا مزید " پیسٹری " بن رہی تھیں ۔ یہ نظارہ اکثر نظر آتا رہا ،،! صرف 20 منٹ کی رائیڈ کے بعد جس ایریا پہنچیں ،، وہاں سے مادام تساؤ کا مشہورِ زمانہ میوزیم بالکل قریب تھا ،، ایمن ثمن پہلے آچکی تھیں ، یہاں "مقامی طلباء" کو ان کے" پاس " کی وجہ سے اتنی آسانیاں مہیا ہیں کہ رشک آتا ہے ،، اب اس میوزیم کا ٹکٹ 30 پونڈ فی ٹورسٹ تھا ، لیکن ایمن سمن نے صرف دو ، دو پونڈ دیۓ ، اسی طرح سفر میں کم ریٹ کے ٹکٹ، بیرونی سفر میں ایک فائدہ تو برطانوی شہری ہونے کا ، اور دوسرا فائدہ مقامی سٹوڈنٹ ہونے کا ،، اتنے فائدے ، بیرونی طلباء سوچ بھی نہیں سکتے ۔"میوزیم " کے باہر پرانے زمانے کا لباس پہنے گارڈ سب کو خوش مزاجی سے چند ویلکمنگ جملے بول کر خوش کر رہا تھا ۔ وہ لباس سے شیکسپئر کے کسی ڈرامے کا کردار لگ رہا تھا ،، ٹکٹ لے کر اور چند سیڑھیاں اُتر کر پہلے لاؤنج پہنچیں تو ، سامنے مشہور کریکٹر " شرگ" کا خوب براڈ مسکراہٹ کے ساتھ بہت ہی بڑا مجسمہ کھڑا تھا ، چونکہ اس کی فلم دیکھ رکھی تھی ، اس لیۓ پہلی تصویر اس کے ساتھ لی گئ ،، اور جب مختلف سٹپس پر مشتمل چھوٹے ہالز ، میں پھرنا ہوا ، تو ،،،، ( یہاں میَں صرف اپنا خیال ظاہر کر رہی ہوں )،،،، مجھے لگا کہ میَں نے 30 پونڈ ضائع کیۓ ۔
مختلف ملکوں کے مشہور ومعروف ادیبوں ، سائنسدانوں ، ایکٹرز اور شاہی خاندان کے افراد کی مختلف پوزز اور لباس میں مجسمے الگ الگ کھڑے ،، اور کہیں کسی کے ساتھ کھڑے تھے ،، اور مجھے تو ان مجسموں نے بہت ذیادہ متاثر نہیں کیا ، ،، لیکن اپنے پسندیدہ کرداروں کے ساتھ میں نے بھی تصاویر بنوائیں ،، مثلا" چارلس ڈکنز ، سٹیفن ہاکنگ ، اور چارلی چپلن ، لیکن انڈین ایکٹر سلمان خان کے ساتھ صرف اپنے پوتے " سلمان " کی وجہ سے تصویر لی ،، چند کردار ایسے بھی تھی جن کے بارے میں میَں لاعلم تھی کہ یہ کون ہیں ، اور ان کا کیا نام ہے ؟ یہاں نہ قائدِ اعظمؒ کا نہ علامہ اقبالؒ کا نہ ہی کسی اور پاکستانی نامور شخصیت کا کوئی مجسمہ نہیں تھا ،، جبکہ انڈیا کے سیاست دان نہرو ،، اور چند ایک اور انڈین کردار موجود تھے ،جب ہمیں اندر لاؤنج میں " شَرگ " کا مجسمہ نظر آیا ، تو اسکے ساتھ ہی گائیڈ نے اس 30یا35 سیاحوں کے گروپ کے لیۓ اعلان کیا کہ، پہلے ایک تعارفی فلم دکھائی جاۓ گی ، یہ ایک چھوٹا سا سینما ہال تھا ،، جہاں آنکھوں کے لوازمات کے ساتھ 20/25 منٹ کی فلم تھی جو 4 ڈی تھی اور یہ اب تک بناۓ گۓ چند معروف کارٹون کرداروں کے بارے میں تھی،، مجھے تو بہت مزا آیا ،، (کہ ہر ہر بوڑھے کے اندر ایک بچہ موجود ہوتا ہے ، اور ایسی فلم بچوں ، بوڑھوں سب کے لیۓ تھی)۔
اس فلم کے بعد ہی ہم نے مختلف مجسموں کو دیکھا ، کوئی شک نہیں کہ یہ ایک منفرد آرٹ تھا ، جسے پہلی جنگِ عظیم کے بعد مقبولیت حاصل ہوئی   اور مادام تساؤ اور ان کے خاندان نے آج تک اسے زندہ رکھا ۔ مجسموں کو دیکھنے کے بعد پھر اعلان ہوا ،  ّہارر گیلری" کی طرف آئیں ، جس عمر میں ہوں ، خود اپنے آپ سے ڈر لگ سکتا ہے ، ایک تنگ گیلری میں جہاں اندھیرا تھا ،،سے لائن سے گزرتے ہوۓ ، سائڈز سے سیاہ کپڑے پہنے ، چہروں پر ماسک لگاۓ یا پینٹ کیۓ کچھ خواتین و حضرات یکدم آتے اور " ہاؤ ہو"کی آوازیں نکالتے ، سیاحوں میں سے بھی چند ایک کی ڈری آوازیں آئیں،،، اور بس ! یہ سنسناہٹ پیدا کرنے کی ایک پھسپھسی کوشش تھی !لیکن شکر صرف 5 منٹ اس سے گزر کر ایک ایسی جگہ آئ ، جیسے کوئلا کی کان میں اندر جانے کے لیۓ چھوٹی سی پٹڑی بچھی ہوئ ہے ،، ایسے ہی یہاں ایک چھوٹی زگ زیگ کرتی پٹڑی بچھی تھی ،، پتہ چلا ، اس جگہ ہم بہت چھوٹے چھوٹے ایسے کیبن میں بیٹھیں گے ، جس میں صرف دو بندے بیٹھ سکتے ہیں ، اور یہ " کیبل کار " کی طرح ہوا میں رسے سے چلنے کے بجاۓ پٹری پر چلے گی ،، اسے یہ لوگ " ٹیکسی رائیڈ " کہتے ہیں !یہ جہاں جہاں سے گزر رہی تھی ، آس پاس انگلینڈ کی پرانی تاریخ کے مناظر کچھ گھروں ، کچھ مجسموں ، کچھ دوسرے ماڈلز سے واضح کی گئی تھی ،، یہیں مادام تساؤ کا مجسمہ بھی رکھا گیا تھا ،، جو اس دور کا تھا جب وہ کافی بزرگ ہو چکی تھی ۔ 
یہاں آکر آخری سٹاپ تھا ،، اور جب باہر آئیں ، تو دوپہر کے 3 بج چکے تھے ،،، مادام تساؤ میوزیم اتنے چھوٹے ایریا میں ہے اور انگریز نے کیا کیا تفریح کے سامان سجا لیۓ تھے ، کہ تین گھنٹے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔ ابھی دن کافی لمبے چل رہے تھے،، اس لیۓ " البرٹ اور وکٹوریہ " میوزیم دیکھنے کا ارادہ کیا ، ،،لیکن اس سے پہلے چاۓ اور سینڈوچ کھاۓ گۓ ،، اور پتہ چلا ،، ذرا یہاں سے فارغ ہوں جائیں ، تو بس صرف نظر ڈالنے کچھ چیزیں دکھانی ہیں آپ کو بقول ایمن ثمن ، اور میں تو آئی ہی اس لیۓ تھی کہ ،،، اس تاریخی شہرِ کی ہر گلی دیکھ لوں ، جبکہ ایسا ممکن نہ تھی ،، لیکن ایمن ثمن بلاناغہ کچھ نا کچھ دکھا رہیں تھیں ، تاکہ ہمارا کوئ دن ضائع نہ ہو جاۓ اور میرا یہ عالم کہ " یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جاۓ والا حساب ہو رہا تھا ۔،لیکن سیاح کی عمر اور پسند ، نا پسند ، ذوق و شوق کا اس سیر سپاٹے میں بہت عمل دخل ہوتا ہے ۔ بعض مہمان ایک شاپنگ مال سے نکل کو ایک ریسٹورنٹ میں گھس جاتے ہیں اور ریسٹورنٹ سے پھر شاپنگ مال ،، اُن کی تسلی اسی طرح ہو جاتی ہے ۔ اور اب ہم " البرٹ اور وکٹوریہ " میوزیم کی طرف جا رہیں تھیں ۔ 
( منیرہ قریشی 12 جولائی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

منگل، 10 جولائی، 2018

سفرِانگلستان(22)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
سفرِ ولایت ، یو کے(22)۔
۔"مڈ شوٹ پارک " کے اندر سے گزرنے والی پتلی سی سڑک ذیادہ سے ذیادہ میل بھر لمبی تھی ،، اور یہاں سے کوئی ٹریفک نہیں گزر سکتی، اسکے آخر میں دو تین چھوٹے پلرز لگا دیۓ گۓ تھے، البتہ سائیکل گزاری جاسکتی تھی ،، کیوں کہ پارک کی سیر کے اگلے دن ایمن ثمن کی چھٹی تھی، ہم گیارہ بارہ بجے تک گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر ، اور گراسری لسٹ تیار کر لی ،، اور ہم اچھے موسم کا لطف اُٹھاتے ہوۓ اسی پارک کے درمیان سے گزر کر آخر میں ایک چوڑی سڑک پر پہنچیں ۔ اور چند منٹ مزید چلنے کے بعد سامنے یہاں کی مشہور " شاپنگ چَین ، ایستا ،یا ،ایسدا " تھا ،،، جہاں ضرورت کی ہر چیز مل رہی تھی ، اور خاص طور پر کھانے پینے کی چیزوں میں " ہلال کاؤنٹر " بھی الگ تھا،،، جہاں سے مکمل اعتماد سے صاف کیا گیا گوشت لیا جا سکتا ہے ۔ گویا ، کفار نے اعتماد ، ایمانداری اور ملاوٹ کے بغیر خوراک فراہم کر دی تھی ،،، ایمن ثمن نے اپنی ڈیوٹی سنبھالی اور ، کچھ دیر جوجی نے ان کا ساتھ دیا ، پھر میَں اور جوجی ، کچھ تحائف لینے کے لیۓ سر گرم ہو گئیں ، اور دو گھنٹے کے بعد وہیں باہر نکل کر ایک کافی بار سے کافی پی ،، ایمن ثمن نے پہلے نمبر پر ، ذیادہ بوجھ اُٹھایا ، دوسرے نمبر پر جوجی نے ،،، اور حسبِ عادت میں نے خود کو " چالاکی " سے ہلکا پھلکا رکھا ،،، اور ایمن ثمن نے نہایت مروت سے مجھے " بےچاری خالہ "
بناۓ رکھا ۔ حالانکہ جوجی اس" بیان " سے بالکل متفق نہیں رہی کہ خالہ کو بےچارہ سمجھا جاۓ ،،( واپسی پر سامان کے بوجھ کی وجہ سے رفتار سست رہی اور اسی بہانے مڈ شوٹ پارک کے عین درمیان میں ایک بنچ پر بیٹھیں اور اس سہ پہر کی خاموشی کے تجربے کو خود پر وارد ہوتے محسوس کیا ،، ! اور میرے " مکرم و محترم اشفاق احمد صاحب " ایک خط میں، رفیق احمد نقش " کو لکھتے ہیں ۔،،، " "میَں میر پُور خاص آیا تھا ، تھر کے صحرا کی سیر کی، میر پور خاص سے باہرکھپرُو روڈ پر ایک قدیم مدرسے میں گیا ،،مختلف جگہوں کی " خاموشی " ریکارڈ کی ،،، کیوں کہ ایک جگہ کی خاموشی،،،، دوسری جگہ کی خاموشی سے مختلف ہوتی ہے ۔ گویا خاموشی کی بھی جہتیں ہوتی ہیں "مشہور و معروف ادیب ، لیو ٹالسٹائی نے اپنے ناول " جنگ اور امن " میں لکھا ، ،، " ایک گھر کے ہر کونے ،اور کمرے کی کیفیت الگ ہوتی ہے "تو مجھے بھی اب تک ان خاموشیوں نے " سرگوشیوں " میں اپنا نا معلوم ، نام ، کان میں سنایا اور محسوس کرایا تھا،،،،،،،اگلے دن " عید الاضحیٰ " تھی ، ،، سواۓ ایک دوسرے کو عید مبارک کہنے کے اور کوئ انداز ،یا، نشانی نہ تھی کہ عید کے تہوار کو محسوس کر لیتیں ،، یہاں نزدیک کوئ ایسا اسلامک سینٹر بھی نہ تھا جہاں ، باقی امت مسلماء میں سے کوئ مل جاتا ،،، اسلیۓ سوچا ویسے بھی ورکنگ دن ہے ،، ثمن نے کہا " چلیں آج آپ میری یونیورسٹی دیکھیں " ،،، جلدی سے تیاری کی ،، ثمن نے پوچھا ، " بس سے جانا پسند کریں گی ، یا ، جس طرح میَں روز جاتی ہوں ، ایسے ،،، میَں نے کہا َ میں تمہاری روٹین سے جانا چاہوں گی کہ یہ اچھا تجربہ ہو گا ،، کیوں کہ اس نے مجھے بتایا ہوا تھا کہ میَں روزانہ دریاۓ ٹیمز کے اندر بنی ٹنل سے ہو کر جاتی ہوں " ،، یہ جملہ خود ایک ایڈونچرتھا ،اس لیۓ 15 منٹ کی واک کے بعد،، ایک سٹیشن پر آ رُکیں ،، جہاں لفٹ کے ذریعے کئ فٹ نیچے ، پہنچیں ،، اور ایک وسیع احاطے میں جہاں کچھ درخت اور بنچز بھی تھے اور یہیں ،، ٹنل کا دہانہ بھی نظر آرہا تھا ،، اور ،،، یہیں ایک فیملی نظر آئ ،، جو کچھ مردوں ، کچھ عورتوں اورچند بچوں پر مشتمل تھی ،، ہم دونوں کو فوراً کلک کیا کہ یہ پاکستانی لگ رہے ہیں ،،کیوں کہ انھوں نے ذرا جھلمل سے کپڑے پہن رکھے تو ، جو ہمارے خیال کے مطابق عید کے دن کی مناسبت سے ہو سکتے تھے۔ جھجکتے ہوۓ ہم نے دونوں نے انھیں سلام کیا ،، اور پوچھا پاکستانی ؟ انھوں نے ٹھیٹ لاہوری یا فیصل آبادی ، اردو میں جواب دیا ،، " آہو جی ، پاکستانی ہوں ، ہم فورا" خواتین کو گلے ملنے اور عید مبارک ، عید مبارک کہا جانے لگیں ،،، انھوں نے دوسرے منٹ میں اپنا سارا تعارف شروع کر دیا ،،، خاص طور پر ان کے ساتھ آۓ دونوں مرد حضرات نے اگلے 15 منٹ اپنے انگلینڈ آنے ، 15 سالہ جدوجہد ، یہاں سیٹل ہونے کی داستان ، اور پھر گروپ میں موجود افرد کی آپسی رشتہ داری بھی بتا دی ،،، یہ سب ہم دونوں بہت خوشی اور محبت سے دیکھ اور سن رہیں تھیں ،،، لیکن ، " اے پڑھنے والو،!،، ثمن ایمن کی حالت کا ضرور تصور کر لو ،،، کہ وہ ، جو فالتو بات چیت سے ہمیں بارہا منع کرتی رہیں تھیں ،، لیکن اسوقت ان کی بےبسی کی مسکراہٹ ،، سے ہم مزید لطف اندوز ہو رہیں تھیں ،، بلکہ ہم انھیں یوں نظر انداز کر رہیں تھیں ،، جیسے یہ ہماری  سیکٹریز ہیں ، جو صرف ہمارے حکم کی پابند ہیں ،، فی الحال ،، میَں نے انھیں کہا ،، بھئ آج مجھے وطن سے دور عید کا موقع ملا ہے اور اب اپنے ہم وطنوں کے ملنے سے "عید کی خوشی" مکمل ہو گئی اب تم ہماری فوٹو لو تاکہ یہ لمحے یاد گار ہو جائیں ،،، اور ( اس سادہ ، محبتی اور ٹپیکل ، کھلی ڈُلی بات چیت والے ،، جینوئن پاکستانیوں سے مل کر ہمیں بہت خوشی ہوئی ، لیکن اس کے بعد ایک دبا دبا غصے والا چھوٹا سا لیکچر بھی ایمن ثمن سے سننا پڑا ، جو ہم نے ایک کان سے سنا دوسرے سے نکال دیا )۔
لیکن ،،، ٹنل کے اندر جانا میرے لیۓ ، بہت پُر جوش تجربہ تھا ، وہ اتنی بڑی گولائی میں تھی کہ کھینچ کر ہاتھوں ہاتھ پکڑ کر 7یا 8 لوگ کھڑے ہو سکتے تھے، یہاں سے صرف پیدل ہی آنے جانے کی اجازت ہے ،، البتہ کچھ سائیکل سوار ، اور موٹر سائیکل مالکان ، انھیں پیدل چلاتے ہوۓ لے جارہے تھے کہ یونیورسٹی میں انھیں یہ وہیکل ضرورت تھی ۔ ٹنل میں روشنی کا 
انتظام توتھا ہی ، لیکن اسمیں تازہ ہوا کا بھی اچھا انتظام تھا ،، ہم ٹیمز کے اندر سے چلتے چلتے میل بھر سے بھی ذیادہ آچکیں ، تو پھر ایک احاطہ آیا ،، اور اب یہاں تک پہنچنے والے لوگو ں کولائن سے لفٹ کے ذریعے، اوپر لے جایا جاتا ہے ،اور ہم چند منٹوں کے بعد اپنی جانی پہچانی دنیا میں پہنچ گئیں ،،، لیکن یہ دنیا خدو خال اور تعمیرات اور پتھریلے فرش ، اور بہت چھوٹی چھوٹی ستھری دکانوں کی دنیا تھی ، یوں جیسے ہم " وکٹورین " دور میں چل پھر رہے ہوں ۔ اور چند منٹ کی مزید واک کے بعد ثمن کی " گرینوچ یونیورسٹی" میں غیر محسوس انداز سے داخل ہو گئیں ،، سب سے پہلے خوب لش گرین ، دور تک پھیلے لان تھے ۔ اور ذرا دور نہایت خوبصورت ، قلعے ، چرچ اور سمندر کو دور تک دیکھنے کے لیۓ اونچے خوبصورت ٹاورز کی عمارات تھیں ، جنھیں کچھ دیر کھڑے دیکھتی رہیں ۔ یہ سب عمارات ریکٹینگل انداز سے پھیلی ہوئ تھیں ۔۔ اور سبھی کو باہر سے ہلکے پیلے رنگ میں پینٹ کیا گیا تھا ،،، دراصل یہ سمندر کنارے ایک ڈسٹرکٹ وولُوچ تھا جس کے کنارے کنگ جارج کی رہائش ، اور عبادت کے لیۓ ایک چرچ اور ایک ایسی ڈرامیٹری بنائ گئ تھی ،، جو اس بندرگاہ تک آنے والے خصؤصی بحری جہاز ، جو بادشاہ کی اجازت سے لنگر انداز ہوتے ، آنے والے ڈیلی گیشنز سے اسکی ملاقاتیں اور معاہدے طے ہوتے ، اور یہاں , سے یہ لوگ ہر قوم ، کے ساتھ ہر چیز کی تجارت کرتے ،،،لیکن ہر دور میں ، ان کے حکمران اپنی قوم کی بہتری کو مقدم رکھتے ،، اگر 100 کا معاہدہ ہوتا تو 50/ 50 کھایا اور لگایا جاتا ،،، آج ہمارے حکمران کم ازکم یہ ہی کرتے رہتے تب بھی پاکستان مسائل کے ڈھیر کے ساتھ نہ چل رہا ہوتا ،، لیکن یہاں تو 100 میں سے 95 اپنی جیب میں اور باقی 5 فیصد اس قوم پر لگاتے ہیں جیسے ہم پر احسان کر رہے ہوں ۔ ،،، اور ہر عروج کے بعد زوال بھی ہے ،،، لہذٰا ،،، برطانوی سلطنت ،،جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ،، اس کے اقتدار کا سورج کہیں غروب نہیں ہوتا ، کہ امریکا ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، اور پھر برِ صغیر ،، ان میں سے کسی نا کسی جگہ تو سورج نکل ہی رہا ہوتا ،، اور یوں ملکہ یا بادشاہ کی سلطنت کو دوام تھا ،، لیکن اب وہ سورج کئ عشروں سے اس جزیرے میں سمٹ چکا ہے۔ لیکن اِنھوں نے اپنی ذہانت اور قانون کی بالادستی کو مقدم رکھنے کا گُر سیکھ لیا تھا ،،، آج اپنی سوچ کو تعلیم اور ٹورزم کی طرف موڑ لیا ہے ، کہ آنے والے وقت کی دھار کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اسی دھارے کے مطابق اپنی پالیسیاں اور نظریات بھی بدل ڈالے ۔ گرین وچ یونیورسٹی ہو ،، یا کیمبریج ، ہر طرح کی ایسی بڑی بڑی ، شاندار رہائشی عمارات کا بہترین استعمال تعلیم ہے ،، کوئی دو سو سال اور کوئ چھے سو سال سے بنی یہ عمارتیں ، دہرا فائدہ دے رہی ہیں ،، ہم جیسے آکر ان عمارات کی تاریخ کھوجتے ہیں اور سیاح کی آنکھ سے انھیں دیکھتے ہیں ،،، علم کے طالب آکرعلوم کا خزانہ سمیٹتے ہیں ،،، اور یہ سب اس لیۓ فائدہ مند تھا ،کہ آمدن اور خرچ کا حساب بھی دیانت داروں کے ہاتھ میں ہے اور ، معیارِ تعلم پر بھی کڑی نظر رکھی گئ ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج اگرچہ سورج اسی جزیرے کی حدود میں غروب ہو رہا ہے ،، لیکن یہ سلطنت ، آج بھی چھوٹے ملکوں کو " امداد " بانٹتی رہتی ہے ۔ صدیوں کی برِ صغیر سے لُوٹ مار ،، بھی انہی کی ذہانت (یا مکارانہ ذہانت) کا نتیجہ تھی ۔ لیکن اب ان کے ملک آکر ، ان کی ذہانتوں کا قائل ہونا پڑتا ہے ۔ ،،، یونیورسٹی کی پہلی عمارت جس میں ثمن ہمیں لے گئ ،، یہ شروع دور میں صرف بطورِ چرچ استعمال ہوتی تھی ،، بعد میں اسے مختلف کمیونٹی، کانفرنسسز ، اور اجلاسوں کے لیۓ اور اب آرکیٹیکس کے لیۓ ایک لیکچر ہال بن چکا ہے ،، اس کے چپے چپے کو نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ،، اور اب بھی اسی طرح ہے ،،، اسکی چھتیں ، فرش ، دیواریں ، فرنیچر، پلرز ، ہر ایک میں نفاست اور آرٹ کو عرق ریزی سے نمایاں کیا گیا ہے ۔ ہمیں یہاں اتنی معلومات دینے والا کوئی نہ تھا ، سواۓ ایمن ثمن کے گگل کے ،،، !اس کے بعد ہمیں کنگ کا گھر دکھانے لے گئیں ۔ جو ساتھ ہی تھا ،، یہ ایک مکمل چوکور ، دو منزلہ گھر تھا ،، جو درمیان میں صحن اور آس پاس کمرے ہی کمرے تھے ،، کوئی پہلی بیگم کا تو کوئی کسی شہزادی کا ،، لیکن ذیادہ بڑا اور اچھا کمرہ بادشاہ سلامت کی " سہیلی " ( گرل فرینڈ) کا تھا ۔ جو دیدہ دلیری سے بادشاہ سلامت ، ہر جگہ ایک یا ذیادہ ہر جگہ مختلف رکھیل ، رکھتے تھے،، تو گویا ، مرد مشرق کا ہو یا مغرب کا ،، طبقہء امراء سے ہو یا غرباء سے ، اپنی حاکمیت کا ایک اظہار اور حق یہ بھی رکھتا ہے کہ وہ زندگی مرضی سے گزارے۔ بےچارے بادشاہوں کا ایک المیہ یہ ہوتا ہے کہ ، ان کی زندگیوں کے اچھے پہلو کے ساتھ ساتھ ، ان کی کمزوریاں بھی تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں ۔ اور اب جب تک یہ عمارات ہیں ،، یہاں کے مخصوص کمرے ، انکے کردار ، لفظوں ، جملوں میں یاد کیۓ جاتے رہیں گے۔ ان کمروں کی سجاوٹ بہرحال بہت سادہ تھی  یا قیمتی اشیاء کہیں اور رکھوا دی گئی تھیں ۔ یہ سب اتنا سادہ تھا کہ ہمارے ہاں کے امراء کے گھر اس سے ذیادہ خوبصورت تھااسکے دیکھنے سے جلد فارغ ہو گئیں ،، اور اب آخر میں اس اونچےسٹیج کی طرف جانا ہوا جہاں کھڑے ہو کر بادشاہ سلامت ، اور اسکے وزراء ، دور بینیں ، آنکھوں پر دھرے ، تادیر آنے والے جہاز کا نظارہ کرتے تھے ۔ 
اس سٹیج کے پیچھے وہ ہال تھا جہاں آنے والے جہاز کا کیپٹن اپنے ساتھیوں کے ساتھ آتا ، اور اسے یہاں ٹھہرایا جاتا ،،، اس کے بعد کی خوب پھیلی عمارت ،مختلف کلاسسز تھیں ۔ اور اب مزید پیدل چلنے کی ہمت نہیں تھی ،، اس لیۓ ، یونیورسٹی سے باہر موجود اس پرانی طرزکے ، پتھروں کے فرش والے بازار میں پہنچیں ،، یہاں چھوٹی دکانیں اور ریسٹورنٹس تھے ،، یہاں کھانے کی چیزوں کے ریٹس بھی بہت کم تھے ، تاکہ طلباء کی جیبوں پر بار نہ ہو ۔
ہم نے ایک چھوٹے سے چائینیز ریسٹورنٹ کو کھانا کھانے کے لیۓ پسند کیا ،، ٹونزوں نے مینؤ دیکھا ، حلال کی بحث کے بعد ، آرڈر دیا ،،اس کھانے کے ساتھ کھانا کھانے کی سٹکس بھی تھیں ، جسے میَں نے اور ثمن نے ٹرائی کرنے کے کوشش کی ، کچھ حد تک کامیابی ہوئی ۔ ان دو چار چیزوں کا ذائقہ واجبی تھا ، کہ حلال کی احتیاط میں ہم نے ذائقے کو کبھی اہمیت نہیں دی ، کھانا کھا کر ، کچھ سوینئرز خریدے گۓ ، اور کچھ ونڈو شاپنگ کی !اور اب شام کے 6 بج چکے تھے ، واپسی کی راہ لی،،، اور پھر اسی طرح لفٹ پر بیٹھے ، زیرِ زمین ، اور ٹنل سے گزر کر بذریعہ  لفٹ ،، سطحء زمین ،، اور پھر ہوم سویٹ ہوم ،،۔،😎🙂
( منیرہ قریشی 10 جولائی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )