اتوار، 29 اپریل، 2018

سفرِانگلستان(3)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
 سفرِ ولایت ،، یو کے " ( 3) ۔"
پی آئی اے نے ٹھیک ایک بجے دوپہر یوکے کی طرف اُڑان بھری ، ، اور جب سیٹ بیلیٹ کھولنے کی اجازت مل گئ تو ادھر اُدھر دیکھا ،، ٹینشن بھی دور ہو چکی تھی ،، جوجی ،،اس سفر کی " ماہر ین " کے طور پر ساتھ آچکی تھی ،،، اب اس سے پوچھا ،، یہ ویزہ والوں کا کیا ڈرامہ ہوا ،، تب اس نے بتایا "'، تمہارے گھر سے نکلنے کے بعد ، میَں نے مائرہ کو فون کیا ، کہ میَں تو تمہاری شادی میں شریک نہیں ہو سکوں گی ، چیزیں ساری خالہ کے ہاتھ بھجوا دیں ہیں ، لے لینا " تو وہاں ، رونا دھونا مچ گیا ۔ مائرہ نے فون بند کرنے کا کہا ، اور پاکستان ویزہ سیکشن میں فون کیا ،،تو انھوں نے بتایا کہ ہم نے تو پیپرز چار ، پانچ دن پہلے ہی بھجوا دیۓ تھے ،، مائرہ نے اسی افسر سے کہا کہ میری والدہ کے  فون پر اطلاع دو ،،، تب موبائل پر میسیج آیا " ،، اور یوں میں سیکنڈوں میں تیار ہوئی ،، فیاض گاڑی لے آیا ، اور ہم مِنٹوں میں شدید بارش میں ، پہلے اسلام آباد ، ویزہ سیکشن پہنچے ، اور جب پنڈی کی طرف چلے تو راستے کو جگہ جگہ کنٹینرز سے بلاک کیا ہوا تھا ، فیاض نے آج ڈرائیونگ کا کمال دکھایا اور بہت پیچیدہ اور شارٹ کٹ کرتا ، مجھے پہنچا دیا ،، اور یوں جہاز کی آخری مسافر جوجی تھی ۔ ،،، 
جس وقت مسافر جہاز کے اندر ، یہاں وہاں کے چکر کے ساتھ بیٹھ رہے تھے ، تو میں نے اندازہ لگایا 90 فیصد مسافر پاکستانی ، تھے ، جن میں ذیادہ تعداد، ، میر پور اور گوجر خان سے تعلق رکھنے والوں کی تھی کہ ان کی بولیوں ، اور حلیۓ ان کی وابستگی واضع کر رہے تھے ، ، ، یہ میرے لیۓ بہت دلچسپ گروہ بن گیا ، میَں یکدم ، کیموفلاج ہو کر انھیں غور سے دیکھتی ،، اور ان سب کو رخصت کرنےآنے والوں ،، دور دیس جانے والوں کی سوچتی متفکر آنکھوں ، آسودہ حالی کے نشے میں ڈوبے لوگوں کو
اور حساس چہروں کو پڑھنا آسان تھا کہ ،، ملنے اور بچھڑنے کے لمحات میں انسان "جیوئن " یا خالص سا ہو جاتا ہے ،، میرے لیۓ "سفر" اور وہ بھی ایک مغربی ملک کے سفرکا موقع بہت پر جوش ثابت ہو رہا تھا ۔ اس لیۓ میری تمام سوئ حسیات بیدار ہو گئیں ، ان دو گھنٹے کے زمینی منظر ، یو کے کے ہمارے ہم وطنوں نے چند سطریں سُجھا دیں ،، پرس ٹٹولا ، تو پین موجود تھا ،، کسی وقت کے کیش میمو کی ایک پرچی پڑی تھی ، اسی کو نکال کر جلدی سے یہ احساسات ، لکھ لیۓ کہ ذہن سے نہ نکل جائیں ، ، ، ۔
" آنکھیں "
جہاز کی چھوٹی سی کھڑکی سے جھانکتی آنکھیں 
کچھ سوچتی آنکھیں ،،،
کچھ سہانے سپنے سجاۓ ، آنکھیں 
جدائ کی نمی پونچھتی آنکھیں 
سِکوں کی عینک پہنے ، کچھ بے حس آنکھیں ،
شوقِ تجسس سمیٹے کچھ پُر اُمید آنکھیں ،،
اور کھونٹے سے بندھے بیل سی لاتعلق آنکھیں 
سبھی مگر تقدیر کے جالے میں پھنسی آنکھیں ( 4 ستمبر ،)۔
اب جہاز محوِ پرواز تھا،، پاکستان کی حدود سے نکل کر افغانستان ، کے اوپر اُڑ رہا تھا ،، اور میَں آس پاس سے بےنیاز صرف اس چھوٹی سی کھڑکی سے دنیا کی وسعت کو دیکھ رہی تھی ، یہی کام اگلے آٹھ گھنٹے کا تھا ، ، جس سے میں ایک لمحے کے لیۓ نہیں اُکتائی ۔ حالانکہ رات بھی بےآرامی کی گزری تھی لیکن نیند کوسوں دور تھی ،، میں سفر کا ہر لمحہ کشید کرنا چاہتی تھی ۔ 
دن کی مکمل روشنی ، اور صاف موسم نے ہر منظر واضع کر رکھا تھا ،، افغانستان کے اوپر اُڑان کے دوران ،، نیچے سنگلاخ ، یا سفید پہاڑوں کا سلسلہ تھا ،، اسی لیۓ افغان ، مزاج بھی سخت سنگلاخ ہوتا ہے ، ان کی زمین سر سبز ضرور ہو گی ، لیکن دوری ، مناظر کو کچھ سے کچھ دکھاتی ہے ۔ ،،، کچھ منٹ ہی گزرے تھے کہ ، روس کی حدیں شروع ہوئیں ، اور جہاز بہت دیر اس کے خوب پھیلے رقبے پر اُڑتا رہا ،، اور ذہن ، روس افغان لڑائ ، اور پاکستان کی نازک ترین پوزیشن ، اور اس خطے پر دنیا کی سُپر پاورز کے ، چلاۓ گۓ شطرنج کے مُہرے ، ان کے نتائج ان کے اثرات ،،، کچھ دیر ہی ذہن پر آۓ ،، اور فورا" محو کر لیۓ ،،، کہ ایک تو میں " سفر " کے پر سکون جذبات کو انجواۓ کرنا چاہتی تھی دوسرے ،، اتنی بڑی دنیا کا خالق و مالک، جانتا ہے ، کیا ہونا ہے !!!!ساتھ ساتھ زمین سے نظر کو آسمان کے بدلتے رنگ بھی متوجہ کرتے رہے ۔ اور ہم جو دوپہر ایک بجے اُڑے تھے ، تو تادیر یوں لگا جیسے دوپہر ٹھہر سی گئ ہے ۔ اور جہاز پولینڈ کی طرف مڑا ، تو اب سہ پہر ہو چکی تھی ،، مجھے جہاز کے اندر کی دنیا تو بھولی ہوئ تھی ،،، جیسا میَں نے شروع میں ایک ہلکا سا ذکر کیا تھا کہ ہماری سیٹیں " بزنس " کلاس میں تھیں ،، اور ایسا ہاشم بیٹے نے کیا تھا ، اس کا خیال تھا ، آپ اس عمر میں اپنے آرام کا خیال رکھیں ، اور بزنس کلاس میں سفر کیا کریں ، اس دفعہ کی یو کے جانے کی ڈرامائ سچوایشن میں ہم اتنی مصروف تھیں کہ ہاشم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا ، اور جب ہم ائر پورٹ پہنچیں ، ٹکٹ ہمارے ہاتھ میں آۓ تب اس کلاس کا پتہ چلا ،، ہمیں بزنس کلاس کی سیٹیں بس آرام دہ لگیں لیکن ،، باقی پی آئ اے ، کی لاجواب سروس ماضی کا قصہ بن چکی ہے ،، بالکل بےمزہ کھانا ، کوئی خاص ورائٹی نہیں ، حتیٰ کہ ان میزبانوں کے چہروں پر مسکراہٹ تک نہ تھی ،محض اچھی کراکری سے کار کردگی ، بہتر نہیں ہو سکتی ،،، یقین کیجۓ مایوسی ہوٰئی ،، کیوں کہ اس سے کہیں ذیادہ ہر لحاظ سے اچھی سروس ، تھائ ایر اور ملئیشین ائر لائنز کی اکانمی کلاس کی تھی ، ، مجھے تو بس یہ خیال رہتا ہے ، کہ جہاز کو کچھ ہوا تو وہ اکانمی یا بزنس کو الگ الگ صورتِ حال سے سامنے نہیں لاۓ گا ، ایک جیسے طریقے سے نبٹاۓ گا ، تو خود کو اس کلاس کونشس کے چکر میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے ۔ بہرحال کھانا پیش ہوا ،، اس کے بعد وُضو تازہ کرنے اُٹھی ، تب تک جوجی اپنے ایریا کا چکر لگا کر ٹانگیں سیدھی کر چکی تھی، ائیرپورٹ میں ملے سمارٹ بزرگ جوڑے سے گپ شپ لگا رہی تھی ، بریگیڈئر انور صاحب ، ہمارے یوسف ماموں جان کے کورس میٹ نکلے اور اتفاق سے ان کا گھر پنڈی میں میری بیٹی کے گھر کی لین میں تھا یہ سب تعارف ہوتے ہی ، ان کی طرف سے بھر پور دعوتِ مل گئ کہ جب پنڈی آئیں ، ضرور ملیں ،، وہ مانچسٹر اپنی بیٹی کے پاس تین چار ماہ گزارنے کے لیۓ ہر گرمیوں میں جاتے تھے ،، اس مرتبہ لیٹ ہو گۓ تھے ، اس لیۓ اب ان کا ارادہ دو ماہ رہنے کا تھا ، کہ اس کے بعد سردی ذیادہ ہو جاۓ گی ۔ جہاز کی اڑان بہر حال بہت سموتھ رہی ،، جب انگلینڈ نزدیک آیا تو مانچسٹر کےبارے میں میرا خیال تھا ،، ایک چھؤٹا ساشہر ہو گا لیکن جہاز نے لینڈ کے لیۓنیچی پرواز کی تو اس وقت مغرب ہو چکی تھی ، لیکن نیچے کے مناظر واضع تھے ، اور مانچسٹر ائیر پورٹ ، کم ازکم پنڈی ائیر پورٹ سے کافی بڑا تھا ،،، جہاز لینڈ کر گیا ۔ ائیر پورٹ کی بلڈنگ میں چیک ان کے لیۓ داخل ہوۓ ، تو جہاز کے ہمسفر کا بہت بڑا کراؤڈ ساتھ ساتھ تھا صاف ستھری سادہ عمارت ،، دو ذرا بڑی عمر کی مسکراتی برٹش خواتین نے ہمارے پاسپورٹ چیک کیا ، اور صرف دو جملے بولے ،، کس کے پاس ٹھیریں گی ، اور کہاں ؟ میَں نے شادی کارڈ فورا" سامنے رکھا کہ میری بھانجی کی شادی ہے اور یہ ایڈریس ہے ،،، او کے ، وش یو گڈ لک !! اور ہم عمارت کے اندر داخل ہوئیں ،،، یہاں تک اگر یہ دو گوریاں نظر نہ آتیں اور ایک برٹش سارجنٹ، تو ،، اپنے گوجر خان اور کشمیر کے مرد و خواتین کا جمِ غفیر دیکھ کر یہ ہی لگ رہا تھا کہ " ہم گوجر خان ائیر پورٹ " پر اتری ہیں ،، خوب تگڑی خواتین نے کانوں میں اچھے بڑےجھمکے ، اور اونچی ہیل کی جوتیاں ، سفر کے دوران کے حلیۓ نے حیرت میں ڈال رکھا تھا ،،، لیکن یہ خواتین اتنی جگر دار تھیں کہ ، خوب بڑے بڑے سوٹ کیس اکیلے ہی بیلٹ سے اُٹھا رئیں تھیں ،، اور ان کے مرد دو دو بچوں کی انگلیاں پکڑے ، آرام سے کھڑے تھے ،،، وہ سب دو تہذیبوں کا عجیب سا امتزاج تھے ، ، جنھیں دیکھ کر کچھ بھی سوچنے کو دل نہیں چا ہ رہا تھا ۔ کہ کبھی کبھی آنکھ اپنے ،،،سامنے کے نئے مناظر کو اپنے " مشاہدے " کے طور پر دیکھ رہی ہوتی ہے ہمیں ہمارا سامان تلاش کرنے میں آدھ گھنٹہ لگا ،، اس دوران نظریں ، مائرہ کی آمد کی منتظر تھیں ،، رات کے 9 بج چکے تھے ،، سامان اکٹھا ہو گیااور میں کسی بھی احساس سے عاری ، سامنے کے منظر دیکھ رہی تھی ، سب کچھ پنڈی کی جدید دکانوں کی طرح کی کچھ شاپس تھیں ، ہم ایک بینچ پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگیں ، جوجی حیران تھی کہ اب تک کیوں نہیں پہنچی !اُٹھ کر سامنے شاپ پر کھڑے ایک نوجوان سے اس نے موبائل کی ریکویسٹ کی کیوں کہ یہاں کی سم ابھی نہیں لی گئ تھی ،، اورجیسے ہی ، اس نے مائرہ کانمبر ملایا ،، اس نے جواب دیا اماں میں بس پہنچ گئ ،، جوجی نے اس لڑکے کا شکریہ ادا کیا ،،، اور اس نے فورا" بتایا ،، میَں پاکستانی ہوں ، یہیں کھڑا ہوں ،، آپ کو جب فون کرنا ہو گا ،،مجھ سے ہی لیں ،، ،،، تو گویا ،، اقدار و اطوار ،،، ابھی زندہ ہیں ۔
جوجی ابھی واپس بینچ پر آکر بیٹھی ہی تھی کہ سامنے سے لمبی سی ایک لڑکی ، کالی ٹائٹس ، چھوٹی سی فراک اور کھلے بالوں سے لہراتی ہوئ نظر آئی ،،، خوب پھیلی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اپنی اماں کو سلام کے بعد صرف اتنا کہا " آج میری سالگرہ ہے اور آپ کے آنے سے بڑھ کر میرے لیۓ کوئ بڑا تحفہ ہو ہی نہیں سکتا تھا " ،،،، گلے ملے اور جذبات تو ہم پاکستانیوں کے پاس وافر ہوتے ہیں ۔
( منیرہ قریشی ، 29 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

ہفتہ، 28 اپریل، 2018

سفرِانگلستان(2)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
 سفرِ ولایت ، یو کے " (2)۔"
مائرہ ، کی شادی پر جن مہمانانِ گرامیء قدر نے پہنچنے کا کہا ، یا امکان ظاہر کیا ، اُن سب کے پاس یو کے کے ویزوں کے کوئ مسلےٗ نہ تھے ، جوجی بھی پانچ مرتبہ برطانیہ جا چکی تھی ،بس میَں ہی تھی ، جو پرانے " آقاؤں ' کے دیس پہلی مرتبہ جا رہی تھی ،،، اس لیۓ اپنے بیٹے کامل علی کی نگرانی میں جتنا ہو سکا اپنے کاغذات مکمل کیۓ ( وہ 13 سال کینیڈین ایمبیسی میں ایسی جاب پر رہا کہ وہ گائیڈکرسکتا تھا )،، حتیٰ کہ کامل کے کہنے پر اپنے سکول کا سالانہ میگزین بھی ساتھ لگایا ،،، تاکہ یوکے والوں کو یقین دلا دیاجاۓ ،،" بھئ صرف شادی اٹینڈ کرنی ہے ، ہم یہاں اپنے ملک میں بہت عزت سے رہ رہے ہیں ، ہمارا آپ کے ملک کو رہنے کے لیۓ اولیت دینے کا کوئی ارادہ نہیں ،، " ،، اور تو اور ،،، مائرہ کا شادی کارڈ بھی ساتھ پِن اَپ کر دیا گیا ۔ اپنا رشتہ بھی لکھ دیا وغیرہ ،،،
مائرہ کے واہ میں چھوٹے سے فنگشن کے بعد ہم نے فوراً بعد اپنے کاغذات ، اسلام آباد میں " فیڈیکس " میں جمع کروا دیۓ تھے ،،، شادی کی تاریخ 27 جولائی 2014ءمقرر ہوئ یتھی ۔ ویزہ لگنے کی صورت میں ہم دونوں کا 6 ماہ تک کا ویزہ لگنا تھا ہمارا ارادہ شادی سے چند ہفتے پہلے جانے کا تھا ، تاکہ "نۓ رشتہ داروں " سے بھی ملیں گے ، اور جو کمی بیشی شادی کے سلسلے میں رہ گئ ہے اسے پورا کر لیں گے ۔ ویزہ آفس سے اطلاع بذریعہ ، موبائل آنی تھی ،، اور ٹھیک تین ہفتے بعد اطلاع ملنے پر کہ " فیڈیکس " آفس آکر اپنے بند لفافے خود کھولیں ، (اس طرح عین اس وقت پتہ چلتا ہے کہ ویزہ لگا ،یا نہیں ) ہم دونوں بہت خوشی خوشی واہ کینٹ سے اسلام آباد تک ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد پہنچیں ،،، اس وقت سہ پہر ہو چکی تھی ،، ہم دونوں کو نام کے مطابق لفافے کھولنے کے لیۓ دیۓ گۓ ، میں نے مکمل یقین کے ساتھ کہ ویزہ " نہیں " لگا ، کا جملہ لکھا ہو گا ۔ لفافہ کھولا ،،، تو ویزہ لگاۓ جانے کی خبر تھی ،،،،، اور ناقابلِ یقین بات یہ سامنے آئی کہ " دلہن کی اماں " کا ویزہ  مسترد  ہو گیا تھا ،،،،،،!مجھے ہنسی کے ساتھ ساتھ رونے کی ملی جُلی کیفیت کا ایک دفعہ پھر تجربہ ہوا۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ (جب جوجی سات آٹھ ماہ پہلے مانچسٹر گئی تھی تو اسے کان میں شدید تکلیف کی بنا پررات ایمرجنسی میں ہاسپٹل جانا پڑا ، اور چیک اَپ پر صبح سویرے ڈسچارج ہو کر آ بھی گئی تھی ، اور ساری پے منٹ مکمل تھی) !! آپ نے اپنے کان کی تکلیف پر چند گھنٹے کے لیۓ ہاسپٹل میں داخلے پر ادائیگی نہیں کی تھی ،،، اس لیۓ ویزہ نہیں ملے گا ، کہ آپ نیشنل بھی نہیں ،،،، یہ ایک مایوس کن اعتراض تھا ۔ 
("" کتنا اچھا ہے میرا وطن ، بل ادا ہوا نہیں ہوا ، روکنا کسی کو نہیں "")
شادی کی تاریخ میں دو ہفتے رہ گۓتھے ،اور ہمیں اب دوبارہ اپلائی کرنا تھا۔اس دوبارہ کا مطلب تھا مزید تین ہفتے انتظار ،،! اور یہ کہ تمام پیپرز کا دوبارہ ترتیب دے کر دوبارہ جمع کروانا ،، یعنی کھلا ایک ماہ ،،، ! یہ ساری اطلاع جب ، یو کے ،پہنچی تو بچیوں کا رونا دھونا ختم ہی نہیں رہا تھا ۔ بڑی مشکل سے حالات کو سمجھا گیا ۔ اور مائرہ یعنی " یو کے " کی دلہن نے صاف کہہ دیا " میَں شادی ایک ماہ آگے کر دیتی ہوں ، لیکن اب کاغذات یہاں کی وکیل کے ذریعے مکمل کروا کر اپلائ کیۓ جائیں گے ،،، چناچہ شادی کی نئ تاریخ 5 ستمبر نکاح اور 7 ستمبر 2014ء شادی ( ولیمہ + رخصتی ) فکس کی گئی ،،،،، !نیا کارڈ ، نئ تاریخ کے ساتھ جلدی سے چھپوایا گیا ،، تاکہ اسے بھی اور، جس جھیل کنارے ،
" مارکی " کی بکنگ تھی اسکی رسیدیں وغیرہ اور ہاسپٹل کے تمام ادائیگی ، کی رسیدیں ، ساتھ لگائی گئیں ۔ اور وکیل نے کاغذات مکمل کروا کے بھجواۓ ، جمع کرواۓ گۓ ، اور پھر انتظار شروع ہوا ،،،! ہاشم (چھوٹا بیٹا ) نے ہماری 4 ستمبر کی پی۔ آئ ۔ اے کی دو سیٹ کی بکنگ کروا دی تھی ،،، اور ،،، 2 ستمبر آگیا ،، ویزہ آفس کی طرف سے کوئ اطلاع نہ ملی ،، جوجی کا مایوس اور اداس ہونا تو بنتا تھا ،،، میں جتنی بہادر ہوں ،، باہر سے ہوں ،، اور فوری ایکشن کے طور پر بھی بہادر ہوں ،،، لیکن اکیلے سفر اور وہ بھی اتنے لمبے سفرکے لیۓ مجھے خود کو بھی خوب تیار کرنا پڑ رہا تھا ۔ میرا سوٹ کیس تیار تھا ، اور دلہن کا شادی کا جوڑا ، زیور اور ٹونزوں کے دونوںدنوں کے فنگشنز کے کپڑے ایک الگ سوٹ کیس میں تھے ،، نۓ رشتہ داروں کے لیۓ بھی کچھ تحائف اُسی بکس میں تھے ، ،،، 2 ستمبر اور پھر 3 ستمبر بھی گزر گیا ، اور 4ستمبر صبح 12 بجے والی فلائیٹ کے لیۓ ، مجھے ہاشم چھوڑنے کے لیۓ میرا بکس اور دلہن کا سوٹ کیس گاڑی میں رکھا۔ 
۔8 بجے ہم گھر سے نکلنے کے لیۓ تیار ہو گۓ میَں روانہ ہونے لگی تو ،،جوجی نے بہت بھاری دل کے ساتھ بیٹی کی ساس کے لیۓ لیا گیا ایک بینگل پکڑایا ،،، کہ یہ تم اچھے الفاظ کے ساتھ اسے میری طرف سے تحفہ پیش کرنا ،، میَں نے اسے کہا " اب مجھے جملے نہ سکھانا ، کہ یہ کہنا اور وہ کہنا میَں نے تین بچوں کی" ساسوں " کو اپنے الفاظ سے نبٹایا ہوا ہے ! نہ فکر کرو ۔"میَں دل میں بہت ہی خفا تھی ، کہ ایک ماں کے لیۓ یہ مبارک دن بہت انتظار کے بعد آتا ہے ۔ اور اس کی پہلوٹھی کی بیٹی کی شادی ہو رہی تھی ،،، اور وہ خود نہیں جا ، پا رہی تھی ۔ بینگل اور دونوں نندوں کے لیۓ ٹاپس ، اپنے پرس میں ڈالے ،، سب کو اللہ کی حفاظت میں دے کر ، بچوں سے اور جوجی سے بھاری دل سے الوداع ہوئ ،، ہاشم نے گاڑی دوڑائ ،، بادل سخت گھِِر آۓ تھے ، یوں کہ بارش کسی لمحے برس سکتی تھی ،، گھر سے نکلے صرف 15 منٹ گزرے تھے کہ ،، ہاشم کا موبائل بجا۔،،
جوجی کی آواز تھی ،، "ہاشم ، مجھے ابھی ابھی فیڈیکس کی طرف سے میسیج آیا ہے کہ آپ کے پیپرز آ گۓ ہیں ، آکر لے لیں ،، ہاشم نے جواب دیا " خالہ ! آپ ڈرائیور فیاض کو لے کر دوسری گاڑی سے اسلام آباد پہنچیں ، اپنا سوٹ کیس ساتھ رکھیں ۔ اگر ویزہ لگ گیا تو وئیں سے پنڈی ائیر پورٹ پہنچ جائیں ،،، میَں اماں کو تو ائیر پورٹ پہنچاؤں ! یہ نہ ہو کہ یہ بھی اپنی فلائیٹ سے رہ جائیں ،،، کم از کم یہ تو انگلینڈ پہنچ جائیں " ،،، جوجی نے بھی حامی بھری ، کہ ٹھیک ہے تم چلتے جاؤ ، اب میری اطمینان اور بے چینی کی ملی جلی کیفیت شروع ہو گئ ،، اور ہم ایک گھنٹے کے بعد پنڈیائیر پورٹ پہنچے ۔ تو وہاں میری پیاری بیٹی نشل اپنے دونوں بچوں کے ساتھ موجود تھی ،، میری نواسی حمنہٰ نے مجھے اپنا گلے سے لٹکانے والا ، بہت بے وزن اور بہت سے سے خانوں والا پرس دیا کہ اماں یہ اپنے گلے سے لٹکا لیں ، اپنا پاسپورٹ وغیرہ اسی میں رکھیں ۔ آپ کو وزنی پرس پسند نہیں ہوتے ،،، نشل نے بھی مجھے ایک پیکٹ پکڑایا ،،، لیکن مجھے کسی کی کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی ، ہاشم نے نشل کو ساری  صورتِ حال  بتائی ، کہ جوجی خالہ ویزہ سیکشن پہنچیں تو ہی سیٹ کنفرم کروائیں گیں،،، اتنی " فلمی صورتِ حال " تھی کہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہو گا یا نہیں ہو گا ، نشل ، ایمن کے لیۓ " لیمن ٹاٹ پیسٹریز " کے ڈبے لائ تھی ،، میَں نے صاف کہہ دیا ، یہ میں نہ پکڑ سکوں گی ، جوجی خالہ آ گئ تو اسے دینا ،، اب میَں ہاشم اور بیٹی نشل اسکے بچوں سے ایک ٹینشن سے رخصت ہوئ ،، اندر میرے سوٹ کیس بھی چلے گۓ ،، میں چیک اِن ہوگئ ،،، باہر سخت بارش ہو رہی تھی ۔ اور میں بار بار جوجی کو فون ملا رہی تھی ، کیا بنا ؟؟؟
تب اس نے خوش خبری سنائی کہ ویزہ لگ گیا ہے ،، اور میں ائیر پورٹ پہنچ رہی ہوں ،، ہمارے چچا جلیل قریشی کا بیٹا عامر جلیل پی آئ اے میں اچھی پوسٹ پر ہے ،، جوجی نے اسی کو رابطے میں رکھا کہ تم میری سیٹ کینسل نہ کروانا ،، اور میں بس پہنچ رہی ہوں ، بس چند منٹ دیر ہو گی ،، اور ایسی گھبرائی ، گھبرائی چار پانچ فون وہ عامر کو کرتی اور میَں اسے ،،اور ہاشم پھر خالہ کو ۔ اور آخر لائن میں لگ کر جہاز کی طرف روانہ ہوئ ۔ میرے گلے میں دو پرس لٹک رہے تھے ، آخری چیکنگ کے لیۓ گھبراہٹ میں دونوں پرس ٹٹولے تب بورڈنگ کارڈ ملا ،، اور چھاجوں برستے مینہ میں جہاز کی سیڑھی پر چڑھتے چڑھتے سب مسافر گیلے ہو گۓ ۔ لیکن اندر بزنس کلاس میں کچھ ذیادہ مسافر نہیں تھے ،، کھڑکی والی سیٹ پر بٹھایا گیا ،،، جس سے باہر میری نظریں جہاز کی سیڑھی کی طرف تھیں ،، اور جوجی سے رابطے پر پتہ چلا وہ ائر پورٹ کے وزیٹرز لاؤنج میں بیٹھ گئی ہے ،، اس دوران نشل پیسٹریز کے پیکٹ دے کر چلی گئ ۔ جوجی بھی اتنی ٹینس تھی کہ کہیں یہ فلائیٹ رہ نہ جاۓ ۔ اور اسی دوران اس نے قریب بیٹھے ذرا بزرگ ،، لیکن ماڈرن کپل کو دعا کے لیۓ کہا ،، کہ میری سیٹ صرف چانس پر ہے ،، آپ دعا کریں " ! آخر وہ جہاز کی سیڑھیاں چڑھتی نظر آئ ،، تو میں نے اطمینان سے ، موبائل بند کر دیا ،،،، جب وہ میری ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ، تو ہم دونوں نےایک دوسرے کی طرف صرف دیکھا اور ہنس دیں ،، اور تب تک دوپہر کےساڑھے بارہ ہو چکے تھے ، ہم دونوں نے شکرانے کے نفل پڑھے ۔ ماڈرن بزرگ جوڑا ، ہم سے اگلی سیٹ پر تھا ۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا اور مبارک ہو کے الفاظ بولے ،،، جوجی نے تب بتایا کہ جوں ہی میرا نام بولا گیا ، میں نے فٹ ایمن کے لیۓ آئی پیسٹریوں کا ڈبہ کھول کر انھیں پیش کر دیا کہ شکر ہے میری سیٹ کنفرم ہوگئی ہے آپ منہ میٹھا کریں ،، میَں یو کے جا رہی ہوں "۔
بہت شادیاں بھگتائیں ،، لیکن " مائرہ کی شادی " نہایت منفرد انداز اور دلچسپ واقعات سے بھرپور رہی ،،، ! یادگار شادیوں کے لیۓ بہت سی حماقتوں کا ہونا " شاید " ضروری ہوتا ہے !!  ۔
آج 4 ستمبر 2014ء جمعرات کا دن تھا ، اور 2013ء کے دوبئی کے وزٹ کے بعد ایک بار پھر سفر سے لطف اندوز ہونے جا رہی تھی ، اور حسب عادت ، اس وقت سفرکی خوشی اور نئی دنیائیں دیکھنے کی سرشاری نے میرا احاطہ کر لیا تھا ،،، ! " اور اللہ نے کتنی اور کیسی کیسی نعمتیں عطا کیں ، کہ شکر کے الفاظ کم پڑ گۓ ہیں ۔ 
( منیرہ قریشی 28 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )
🙂😍

جمعہ، 27 اپریل، 2018

سفرِانگلستان(1)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
سفرِ ولایت " یو کے" (1)۔"
برطانیہ کانام ، کام ، اور اثر ،،، اپنے بچپن سے اردو اخبار ، اپنی ہسٹری کی کتابوں میں پڑھتی رہی ،،، اس کی ہسٹری کا علم جوں جوں بڑھا ،، پتہ چلا ،، اللہ کی مخلوق کی رنگا ، رنگی معہ ان کی عادات و خصائل ، معہ رسوم ورواج و عقائد کے ایسا بنایا ہے کہ جس قوم سے واسطہ پڑے ، انسان حیرت کے دریا میں غوطے لگانے لگتا ہے ۔ کہ انسانی تاریخ، بارے کسی تحقیق کو حتمی و آخری قرار نہیں دیا جا سکتا ،،، !۔
صرف برِ صغیر پر ہی چھوٹے سے"جزیرے" سے آئی اس گوری قوم نے مکمل اختیار سے حکومت نہیں کی ، بلکہ امریکا ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، جیسے بڑے ممالک پر اگر حکومت کی، یا قبضہ کیا ، تو اس میں اِس برطانوی دماغ کا حصہ تھا ،، ( میَں صرف اپنے خیال کا اظہار کر رہی ہوں ) اس میں کوئ شک نہیں ، دنیا کی ذہین ترین قوم میں یہودی سرِفہرست ہیں ،، تعلیمی میدان میں ان کے تحقیقی کام سے کسی کو انکار نہیں ،،، لیکن ان کے بعد عرب قوم کو ذہانت کا خزانہ ملا رہا ،،، ان دونوں اقوام کی ذہانتیں ، محدود ہو گئیں ۔ یا غیر متوازن ہوتی گئیں ، اور اس دوران حضرت عیسیٰ رح ، کے ماننے والوں نے اپنی ذہانت کو دین اور عام طرزِ زندگی ، اور حکومت کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر لیا ۔ اور دنیاوی لحاظ سے ترقی کے زینے چڑھتی چلی گئ ۔ برطانوی قوم نے کوشش کی کہ اپنے آس پاس جھانکیں , کہ اِن کی معیشت کو کہاں کہاں سے مضبوطی مل سکتی ہے ۔ اور یوں پہلے قریب کے " تر نوالے " چنے گۓ ،، لیکن موسموں کی سختی سے نڈھال ، یہ تر نوالے ، بے کار ثابت ہوۓ ، اور آخر کار ، اِس قوم نے جواپنے ارد گرد پانی کی تنی چادرکی وجہ سے انتہائی ماہر سیلر تھے ۔ انھوں نے مزید دُور کے " تر نوالوں " کی طرف توجہ دی ،،، لیکن ساتھ ساتھ ، تعلیمی میدان کو مسلسل توجہ دیۓ رکھی ،، اپنی دینی غیر متوان پلڑے کو ، دنیاوی پلڑے کو بہترین طریقے سے توازن دینے میں لگے رہے ۔
بات ذرا لمبی ہوتی جا رہی ہے ،، لیکن ایک بڑا تاریخی پس منظر رکھنے والی قوم ، کے لا تعداد پہلو ہیں ، اور انھیں نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ اب مزید تاریخ کو کیا کھنگالنا، البتہ، یہاں اپنا بتا دوں کہ ،،، بچپن سے مجھے سفر نامے پڑھنے کا جنون ، سفر کرنے کا شوق ، اور سفر کر کے آنے والے سے سفرسے متعلق سننے کا ذوق رہا ، ، ، جو آج بھی ہے ، اور جب تک ہمت ہے کوشش رہے گی کہ یہ جذبے زندہ رکھوں ۔
لیکن دوسری طرف پاکستان کی شدید محبت نے مجھے " کچھ متعصب " بنا دیا ہے ،،، مجھے انڈیا کے " رچ کلچر " اور بہت مضبوط تاریخ کے باوجود ، اسے دیکھنے کی کبھی حسرت نہیں ہوئی ،،، بلکہ ایک دو انڈین خواتین ملیں بھی ،، تو ان پر بھی بہت واضع کر دیا ،، انڈیا کو کیا دیکھیں ، آدھا تو وہاں مسلم کلچر ، باقی مسلم عمارات ، ہیں ،، وہی آرکیٹیکچر جس کو اپنے ہاں دیکھ دیکھ کر عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ 
برطانیہ ، یا یو کے یا ، انگلینڈ ، دیکھنے کی بھی کبھی حسرت نہیں رہی تھی ،، وہی " اپنا تعصب " ( جو مجھے عزیز ہے ) کہ اس برِ صغیر کو خالی کر کے خود کو " سُپر پاور " بنا لیا ۔ خاص طور پر اس قوم کی حکمرانی کے ظالمانہ دور سے متعلق پڑھتی تو دلی دکھ محسوس ہوتا ،، ذہانت اپنی جگہ ،، لیکن یہ ہزاروں میل دور سے آۓ ہوۓ تھے ، یہاں ،، " لڑاؤ اور حکومت کرو " والا اُصول اپناۓ رکھا ۔ لیکن جوں جوں تاریخ پڑھی ، پہلی اور دوسری جنگِ ،،،عظیم میں اسی ذہین ، فطین ، چالاک قوم کو جس طرح خود کو بچانا پڑا ،،، وہ بھی بہر حال ان کی ذہانت ، ڈٹ جانے والے جرات مندانہ فیصلےاور خوب سوچ کر میدانِ جنگ کے مہرے چلانے کی صلاحیتوں کو دیکھ کر داد دینا پڑتی ہے،۔
انگلینڈ ، کو برِصغیرِ کے لوگ ولایت کہتے تھے ،، اردو یا ہندی میں لفظ " ولایت " کا مطلب ، اونچائی ،،یا بلندی ، یا اونچا رتبہ ، یا باعزت مرتبہ ہے، ، ، شاید انگلینڈ جانا ،، پہنچنا ایک حد درجہ مشکل کام ہوتا تھا ، اس لیۓ کوئی پہنچ جاتا ،، تو گویا اس نے بہت بلند مرتبہ حاصل کر لیا ۔ یا اس گوری قوم کی ذہانت ، شکل صورت ، رہن سہن میں نئے انداز، سے برِ صغیر کے لوگ اتنے متاثر ہوۓ کہ انُ ، کو ولائیتی قوم کہنے لگے ، اس کے علاوہ ، ولایت سے متعلق کتابوں کے بعد ، اگر کچھ تعارف ہوا تو وہ 1960 ء میں اپنے چھوٹے چچا ضیا الحق کے انگلینڈ جانے کے واقعہ سے ہوا ،، وہ بھائیوں میں چھوٹے تھے ، کچھ لاڈلے ، کہ ایک جگہ ٹک کر ملازمت مشکل بن گئی تھی ، اباجی نے سوچا اسے شوق بھی ہے ، اور حالات کے تحت اس کا باہر جانا ہی ٹھیک رہے گا ، کچھ ٹھکانہ بن گیا تو بیوی اور دو بچیوں کو بلا لے گا !! یہ اللہ توکل تجربہ کیا گیا ، ،، اور تجربہ کامیاب رہا ، انھوں نے بیوی بچے وئیں بلا لیۓ ، اور پھر کبھی دو سال کبھی چار سال بعد ملنے ملانے آتے رہتے ، اور پھر آخری دنوں میں ایک ہی حسرت ہونٹوں سے نکلتی رہی " ایک دفعہ اپنے گاؤں پھر لوں ،، وہاں کے کھیتوں کی گندم ، اور سرسوں کا ساگ کھا سکوں ،، صرف ایک دفعہ !! لیکن " گانگو ""( گاؤں کا نام ) ،،، سے ہجرت کر کے" گلاسگو " پہنچنے والے کی حسرتیں دل میں رہیئں ، اور گلاسگو کی مٹی ہی ان کا مقدر ٹھہری ۔ در اصل وہ پاکستان کے شیدائ تھے ، لیکن ان کا رزق اللہ نے گوروں کی سر زمین سے دینا تھا ، لہذٰاوہ وہیں پہنچے ،،، لیکن جوں ہی خوشحالی کے دور میں داخل ہوۓ ،، انھوں نے گلاسگو میں اپنے پڑھے لکھے دوستوں کے حلقے میں ایک اردو شعر وسخن کی تنظیم بنا لی ، اور ہر سال گلاسگو میں مشہور پاکستانی شعراِء ذیادہ اور چند ایک بھارتی شاعر بلاۓ جاتے ،، شاندار مشاعرے منعقد کیۓ جاتے ، ان مہمان شعراء کے قیام و طعام ، ٹرانسپورٹ ، سیر ، کا سارا انتظام یہ تنظیم کرتی ،اس میں ضیاء چچا کا نمایاں کردار ہوتا ،،، ان کی ساری فیملی آج 48، سال سے وئیں رچ ، بس چکی ہے۔ 
اور ،،، جس بات کا بندہ سوچتا بھی نہیں ، کبھی وہ بات سامنے آ کر رہتی ہے ،، اور انسان اپنے ارادے ، اپنے انکار ، اقرار ، یا تعصب کو لے کر " چُپ کا چُپ ہو کر رہ جاتا ہے ۔ 
" اور میرے ساتھ یہ ہی ہوا "،،،جیسا میں نے اپنی خود نوشت " یادوں کی تتلیاں " میں ذکر کیا ہے کہ جوجی ( میری چھوٹی بہن ) کے بچوں ( 2010ء)کو انکے والد کی برطانوی شہریت کی وجہ سے شہریت مل چکی تھی ۔ چھوٹی ٹونز ایمن ثمن بھی اے لیول وئیں مانچسٹر کے کسی کالج سے کرکے لندن ، پہنچ گئیں ، ایمن کو لندن سکول آف اکنامکس میں لاء میں داخلہ مل گیا اور ثمن کو " گرینچ یونیورسٹی " میں آرکیٹیکٹ بننے کا موقع مل گیا۔جوجی وقتاًفوقتاًانگلینڈ جاتی رہی،بچیاں جب تک مانچسٹر میں رہیں ، جوجی کی بڑی بیٹی مائرہ لیلیٰاعوان نے انکا "ماں" کی طرح خیال رکھا ۔ وہ ڈینٹسٹ بن کر وہاں گئی تھی ،، اسے اپنے اور نئے ملک کے معاملات سنبھالنے آتے تھے ، اور جب اتنی جوانی میں " خود انحصاری " کرنا پڑ جاۓ ،، تو" خود اعتمادی " کا لیول بھی کافی اونچا ہو جاتا ہے ۔
2014ء تک مانچسٹرمیں قیام کو 10 سال سے ذیادہ ہونے والے تھے ، ان تینوں بہنوں نے خوب بہادری سے وقت گزارا ، ،، لیور پول میں ان کا بھائی تیمور اپنی برٹش بیوی اور ایک بیٹا ایک بیٹی کے ساتھ رہتا تھا ، جو دو تین مہینہ بعد ان کی طرف چکر لگاتا رہتا ۔ اور اِ نکے گھرکے قریب چند منٹ کی ڈرائیو پر میرے چچاذاد اور اس کی بیوی میری پھوپھی ذاد کی رہائش تھی اور یوں خوشی ، غمی کے وقت یہ بھی آتے رہتے ، بچیاں بھی ان کے گھر جاتی رہتیں ۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ، ان سب کی آپسی گپ شپ سے وقت اچھا گزرتا رہا ۔ اور دونوں خاندان جب بھی رشتہ داری کی " مٹھاس " کی کمی محسوس کرتے ۔ ایک دوسرے سے ملتے رہتے ۔ اور یہ سلسلہ چلتا رہاتھا ۔ جوجی کی بہت دعا تھی کہ اب مائرہ کی شادی ہو جاۓ ،، لیکن مائرہ اب اس سٹیج پر تھی جب اس اہم فیصلے کا فیصلہ اس نے خود کرنا تھا ،، آخر اس کی " ہاں " کرنے کی اطلاع پر جوجی نے پاکستان میں بھی ایک فنگشن کرنے کا فیصلہ کیا ،، چناچہ مائرہ چند دنوں کے لیۓ " برائیڈل ڈریس " کا آرڈر دینے پاکستان آئ ، تو ایک چھوٹا سا فنگش ، آپا کے لان میں کیا گیا ،، تاکہ اپنے قریبی عزیز اور دوست جو انگلینڈ تو آ نہیں سکتے ان کا ایک رسمی ، سا دلہن کا تعارف بھی ہو جاۓ اور جوجی کی خواہش تھی کہ میرے پاکستانی احباب ، "شادی کھانے سے شاد کام" ہو جائیں ، یوں اس چھوٹے سے فنگشن میں بھی 70 ، 75 لوگ ہو گۓ ، یہ مارچ 2014ء کے دن تھے ۔
مائرہ نے خوب صورت سبز گھیردار انگرکھا ، پاجامہ پہنا ، اور ماتھے پر اپنی اماں کا شادی کا ٹیکہ سجایا ، اور ایمریلڈ کا پورا سیٹ پہنا، وہ بہت پیاری لگ رہی تھی !اس کی شادی کی تاریخ طے تھی ' مئی 2014ء ،،،، مائرہ اور جوجی کا خیال تھا ، مئی ،جون میں وہاں موسم بھی اچھا ہوتا ہے ، ، پاکستان میں چھٹیاں بھی ہوتی ہیں ، اس لیۓ امید ہے ، کہ اکثر انگلینڈ جانے والے اپنے قریبی عزیز،، تو آئیں گے ہی ،، انھوں نے وعدہ بھی کر لیا تھا ۔ جوجی کے اب تک انگلینڈ کے قریباً پانچ چکر لگ چکے تھے ، اور میَں نے وہاں کے لیۓ پہلی مرتبہ اپلائی کیا ،،،،،۔
( منیرہ قریشی ، 27اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

پیر، 16 اپریل، 2018

سفرِدبئی(5)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
 دوبئی" ( قسط پنجم) (آخری قسط)۔"
شام تک گھر پہنچ کر ذرا تیاری کی ، کہ آج رات خدیجہ کے گھر کی میزبانی کا لطف اُٹھانا تھا ، ڈھنگ کے کپڑے پہنے ،، رات کے ڈریسز بھی رکھے اور صبح کے بھی ،،، کہ صبح کا "برنچ " ( اب یہ لفظ اردو میں محبت سے شامل کیا جا چکا ہے ) حلیمہ کے گھر میں تھا ۔ بچے بھی خوش تھے ، کہ عنائیہ جیسی ، بھولی بھالی ، اور بہت ہی دوستانہ مزاج بچی تھی ،، جس کی ان 6 دن میں رونے کی آواز ایک دن نہیں سنی ،، اللہ کرے وہ ہمیشہ ایسی ہی خوش مزاج رہے ،آمین ! خدیجہ کا گھر ، اپنے والدین کے گھر سے چند منٹ دور تھا اس لیۓ ہم نے پیدل جانے کی خواہش کی ،، ہم نے اس چھوٹے سے راستے کواس لیۓ انجواۓ کیا کہ یہ اِن فلیٹس کی بیک سائیڈ تھی ،، یہاں کار پارکنگ کی کافی جگہیں تھیں ۔ یعنی دو منزلہ پارکنگ ، جو لوگوں کو کراۓ پر دستیاب تھیں ،، نیز پاکستان سے آۓ کچھ درزیوں کی دکانیں تھیں ، جو چھوٹی چھوٹی ان دکانوں سے " غیر ملکی کمائی " کر رہے تھے ،، وہی کمائی ،، جب پاکستان میں کوئی پوچھتا ہے ،، آپ کا بیٹا کہاں ہوتا ہے ، ؟ تو ماں ، یا بیوی یا بہن ، فخر سے بتاتی ہے ،،" جی ! وہ دوبئی ہوتے ہیں " ،، اور سننے والے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں ، واہ بھئ ریالوں میں کمائی ہو رہی ہے ،،، اور بالکل ایسے ہی یورپ ، یا امریکا ، وغیرہ میں رزق کی چکی میں پستے لوگوں کا بھی یہ ہی تاثر پڑتا ہے ،،،، اور جب ایک درزی کی دکان میں چندمنٹ کے لیۓ رُکے کہ خالدہ وہیں سے کپڑے سلواتی تھی ،،، تو یہ بھی پتہ چلا کہ انہی 6 بائی 6 کی اسی دکان کے فرش پر سو بھی جاتے ہیں ، اور قریبی پبلک باتھ رومز ، استعمال کر کے ، اور کسی نزدیکی ، ڈھابے ، یا پاکستانی ریسٹورنٹ سے کھانے کا انتظام کر لیا گیا جاتا ہے ،،، اور وہاں بہت دور ، بیٹھی ، ماں ، بہنیں ، بیویاں ،،،، ان تکالیف کا تصور نہیں کر سکتیں ، جن سے گزر کریہ ریال پہنچتے ہیں !! افسوس یہ کہ پاکستان میں ، ان کی واپسی کا سوچا بھی نہیں جاتا ،، اگر کبھی وہ واپسی کا ارادہ ظاہر کر بھی دیں ،،، تو انھیں کہا یہ ہی جاتا ہے " تو کیا ہوا ،، مرد ہو ، تکلیفیں سہہ سکتے ہو ، مرد بنو اور بس کچھ سا ل اور کی بات ہے ، وغیرہ !! ۔
جب ہم خدیجہ کے گھر پہنچیں ، تو اس کا صاف ستھرا ، سجا سجایا ، دو بیڈ رومز گھر بہت اچھا لگا ،،، یہاں کے جن گھروں میں ہمارا جانا ہوا وہ اگر ایک بیڈ روم ، اپارٹمنٹ بھی ہے تو واش رومز ان میں دو ہی بناۓ گۓ ہیں ۔ جب کہ انگلینڈ میں دو یا تین بیڈ رومز بھی ہیں ، تو واش رومز ایک ہی ہو گا ، اُس ملک کا یہ رواج سمجھ نہیں آیا ، ،، خیر حسن توقیر نے بہت اخلاق سے ہمارا استقبال کیا ۔ پُرتکلف کھانا چُنا گیا ، ابھی گپ شپ کا آغاز ہی ہواتھاکہ ،، بلڈ پریشر کا" ذکرِ خیر " ہوا ،، جو آج ہر گھر کے کسی نا کسی ممبر کا مستقل ساتھی ہے ۔ جب میَں نے حسن کو بتایا کہ حکیم آغا غفار کا یہ نسخہ اکثر جگہ بہت کار گر ہوا ہے ۔ 50 گرام سوکھا دھنیا ،، 50 گرام اَسرول ،، اور 10 گرام اجوائن خراسانی ،،، تمام الگ الگ پیس کر ، پھر مکس کر لیں ،، صرف 10 تا 15 دن ،،آدھی چمچ (چاۓ والی) رات کو ایک گلاس پانی میں بھگوۓ رکھیں ،، اور صبح چھان کر پی لیں (نہار منہ) ،،، اسکے بعد اسے ، مزید تب لیں جب ، بی پی کنٹرول نہ ہو رہا ہو ، صرف 5 دن تک مزید ، اس دوران بی، پی کی ریڈنگ کا ریکارڈ لیتے رہنا ہے، یعنی لکھتے رہنا ہے ، ، تاکہ ڈاکٹر یہ روزانہ کا ریکارڈ دیکھ کر اپنا علاج تجویز کرے ۔ لیکن مستقل یا مسلسل نہیں لینا ،،، یہ سب سن کر حسن ، نے بتایا ، مجھے کچھ عرصہ سے ہائی بلڈ پریشر رہنے لگا ہے ،،، آنٹی آپ میرے ساتھ ابھی چلیں ،، آپ کو " سپائس بازار " کی سیر بھی ہو جاۓ گی ،، اور میں آپ کی نگرانی میں دوا بھی لے لوں گا ،، ہمیں کیا اعتراض تھا سب اس کی کار میں بیٹھے ، اور بیس ، پچیس منٹ ڈرائیو کے بعد اُس بازار پہنچے ،، جو بالکل انار کلی ،، یا پنڈی کا موتی بازار کا منظر پیش کررہا تھا ،، صرف یہ کہ صاف ستھرا تھا ، بےشک تنگ گلیوں میں جڑی جڑی دکانیں تھیں ، لیکن گلیوں کے درمیان پتلی اور لمبی کیاریاں تھیں ،، جو اتنے رَش میں خوشگوار تائثر دے رہی تھیں ،، یہیں ، حسن ہمیں ایک ہندو دکاندارکی دکان پر لے گیا ،، جو بہت چھوٹی لیکن اونچائی میں تین گُنا اوپر کی طرف تھی ، جس میں قریباً ہر طرح کی نباتاتی دوائیاں موجود تھیں ، میَں نے لکھا نسخہ اس کے سامنے رکھا ، تو چند منٹ میں اس نے چیزیں حاضر کیں ،، موقع سے فائدہ اُٹھا کر میں نے " آمبا ہلدی " تھوڑی سی خرید لی ۔ ( جس کا ذکر زبیدہ طارق اکثر کرتیں تھیں ، جو ڑوں کے درد کے لیۓ ) ، ، یہاں سے حسن ہمیں سیدھا ، آئس کریم کھلانے لے گیا ، جس نے ہم بڑوں کو تو مزہ دیا ہی عنائیہ ، اور موسیٰ ، کی تو خوشی دیدنی تھی۔ اب گھر کو چلے ،، میَں نے اسے کہا ، دیکھو میَں " نیم حکیم خطرہء جان " والا حساب نہیں کرنا چاہتی ،، تم نے اپنے ،ایک ہفتے کا پلڈ پریشر، چیک کر کے ، یہ ریڈنگ ، اپنے ڈاکٹر کو دکھانا ہے کہ یہ ریڈنگ اب ٹھیک آرہی ہے ،، بی پی کی دوا کم کروں یا بند کر دوں ،،، کیوں کہ ،، مجھے 10 سال پہلے یہ تکلیف شروع ہوئی ، تو اُنہی دنوں آغا صاحب کے ایک پروگرام میں انھوں نے یہ نسخہ بتایا ،، میں نے یہ شروع کر دیا , صرف 10 دن لینے کے بعد مسلسل ریڈنگ لی ، ڈاکٹر کے خیال میں آپ کو بی پی کی دوا کی ضرورت نہیں ، اور الحمدُ للہ ، دو تین سال کبھی کچھ نہ ہوا ،،، البتہ اب کچھ کھانے میں بد پرہیزی کر لوں ،، یا ،، مسلسل دعوتیں کھانی پڑ جائیں تو چیک کروانے پر پھر 5 دن کے لیۓ یہ دوا لے لیتی ہوں ،،، اور بس ۔۔ کیوں کہ حکیم صاحب نے 10 ، 12 دن سے ذیادہ لینے پر منع کیا تھا ۔۔۔ حسن ، نے ساری باتیں دھیان سے سنیں ۔( اب ایک مدت گزر چکی ہے ، دوبارہ ملنا نہیں ہوا کہ پوچھوں۔ اس دوا یا معمول پر عمل در آمد ہوا یا نہیں ) لیکن رات ، گزری ،، اور بچوں کو تیا رکرتے ، کرواتے 10 بج گۓ ،، آج اتوار تھا ،، اور صبح کا وقت ، جب ہم حلیمہ کے گھر کی طرف چلے ، تو دیکھا سڑکوں پر بہت ہی کم رش تھا ۔ اور ہم چند منٹ میں اس کے گھر پہنچ گئیں ،، خدیجہ نے بتایا ،، اتوار کی یہاں چھٹی نہیں ہوتی ،، لیکن کچھ ایسا بھی ہے کہ کئی  دفاتر آج بند ہوتے ہیں ۔ صبح کا وقت ہے ، رش اسی لیۓ کم ہے ،، ورنہ یہ دس منٹ کی ڈرائیو ،، آدھ گھنٹے میں طے ہوتی ،، حلیمہ کا اپارٹمنٹ ، ایک مارکیٹ کی بیک پر موجود کئی منزلہ بلڈنگ میں تھا ،، یہ کچھ نئی بلڈنگ تھی کہ ، کافی صاف ، جدید ، اور ہر طرح کی سہولتوں سے آراستہ!،، حلیمہ اور فیصل ،، ابھی پہلے بچے کی آمد کے انتظار سے گزر رہے تھے ،، اس لیۓ انھوں نے ایک بیڈ روم اپارٹمنٹ لے رکھا تھا ،، جو بہت خوبصورت تھا ،بلکہ حلیمہ نے اسےاچھے، ذوق سے مزید خوب صورت بنا رکھا تھا ،، نشل نے اپنی چچا ذاد بہنوں کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا ۔ یہاں دو گھنٹے گزار کر واپس ، خالدہ کے گھرآئیں ،، کہ آج دوبئی کا آخری دورہ کرنا تھا ،، کچھ دیر تیاری میں گزرا ،، کہ میری پھوپھی ذاد بہن ، شاہدہ ، کا بیٹا لینے آگیا ،،، شعیب ،، اپنے والدین کے ساتھ پچھلے کئی سالوں سے ، دوبئی رہ رہا ہے ،، اور اب اپنی خالہ ذاد سارہ سے شادی کے بعد بھی یہیں رہ رہا ہے ،، ہم سب کی آپس میں سگی رشتہ داری ہے ،، لیکن سب سے ذیادہ محبت بھرا ، اور بےغرض رشتہ ، شعیب اور میرے چھوٹے بیٹے ہاشم کا ہے جو ہم عمر بھی ہیں اور بچپن کے دوست بھی ،،یہ دونوں اتنے ، خلوص سے یہ دوستی نبھاتے جا رہے ہیں کہ بہت فخر ہوتا ہے ، کہ درمیان میں آنے والی "خاندانی سیاست " کی انھوں نے کبھی پروا نہیں کی ۔ ،،یہ پُرخلوص دوستی کسی رکاوٹ کو قابلَ ذکر نہیں سمجھتی ۔ اللہ یہ دوستی ، بڑھاپے تک ایسے ہی چلاۓ آمین ! شعیب نے موبائل سے اپنی آمد کی اطلاع دی ، اور میَں ، نشل ، اور دونوں بچے ، خالدہ کو اللہ حافظ کہہ کر شعیب کے ساتھ اس  کے گھر دوبئی کی طرف چل پڑے ، ۔
راستے بھر شعیب ، بہت تحمل، اور محبت سے ہماری سیر سپاٹوں کا حال پوچھتا رہا ،، اور پورے گھنٹے بعد دوبئی ، میں اس کے فلیٹس کی طرف آۓ ، تو پہلے ہم نے اس کی بہن آمنہ کے گھر جانے کی خواہش کی ،، ۔
میری کزن شاہدہ کے تین بچے ہیں ، آمنہ ، شعیب اور انعم ،،، آمنہ ، شادی سے پہلے ، ہمارے سکول میں بطورِ آرٹ اور کمپیوٹر ، ٹیچر رہی ہے۔ اس دو سال میں ، اسکی عادات اور ٹیلنٹ کا علم ہوا، سکول بہت ڈیسنٹ انداز سے سجایا ،، اور بچوں کو اتنی محبت اور محنت سے کمپیوٹر کی تعلیم دی ، کہ بچے نہ صرف کمپیوٹر میں دلچسپی لینے لگے ، بلکہ آمنہ ایک ہر دلعزیز ٹیچر کے طور پر آج بھی یاد کی جاتی ہے ،، شادی کے بعد دوبئی ، آکر بھی کچھ عرصہ جاب کی ، لیکن اب دو بچوں کے ساتھ ، گھر کو سنبھال رہی ہے ،، آمنہ کے گھر پہنچیں ، ، تو اس نے سب کو اکٹھا کر رکھا ، یعنی اپنی امی ، ابا ، اور بہن کو ،، سب کے ساتھ ، محبت سے ملنا ہوا ، ایک دوسرے سے تحائف کا تبادلہ ہوا اور یہاں کچھ دیر گزار کر ، شاہدہ کزن کے گھر پہنچیں ،، رشید بھائ اور شاہدہ اپنی بیٹی انعم اور بہو بیٹے کے ساتھ تین بیڈ رومز فلیٹ میں رہتے ہیں ،،، ، شاہدہ میں بھی جو خصوصیات ہیں ،، ایسی کم ہی خواتین میں ہوتی ہیں ، ، ، ! ! آمنہ بیٹی اور شاہدہ ، آمنے سامنے کی بلڈنگ میں رہتی تھیں ، ، کچھ دیر شاہدہ کے گھر ٹھہر کر ، اسے خدا حافظ کہا ،، کہ اس دوران ندیم ( کزن ) واپس شارجہ لے جانے کے لیۓ آگیا تھا ۔ سب کی محبتوں کا شکریہ ادا کیا ،، اور جب واپس ہوۓ ، تو وہ پھر ایک شاپنگ مال لے گیا ،،، کہ بچیاں آخری وقت بھی کچھ اور ،،، کے چکر میں ،،، ایک نظر ڈالنا پسند کرتی ہیں ،، اس لیۓ میِں نے بھی کہا ،، چلو لے چلو ! ، اور اچھا ہوا کہ اتفاق سے کچھ کام کی چیزوں پر سیل تھی ،، جو معمول کے استعمال کے لیۓ ہوتی ہیں ،،، کچھ وقت گزار کر ، واپسی ہوئی ، آج بھی ندیم کی طرف سے ہوٹل کے کھانے پر اصرار تھا لیکن میَں نے صاف کہہ دیا ،، اب کل ہماری واپسی ہے ، اب تک ہم ٹھیک ہیں ، اس لیۓ ، گھر کا سادہ کھانا کھائیں گے ،، لیکن ، خوش اخلاق ، ندیم نے پھر تکلف سے کام لیا ، اور آئس کریم کے مختلف فلیور بچوں کو دیۓ ،، واپس خالدہ کی طرف پہنچے ،، تو لاؤنج ، ماشا اللہ ، ذوالفقار کی تین بیٹیوں ، بیٹا اور دو داماد ، اور ایک بچی عنائیہ سے بھرا ہوا تھا ،،، وہ سب ہمارے انتظار میں ،تھے ، کہ اللہ حافظ کر لیں ،، وہ لوگ ذیادہ دیر نہیں رُکے ، کہ اگلا دن بھی ان کے آفسسز کا دن بھی تھا ،، سب کی محبتوں اور احترام کے جذبوں کا شکریہ ادا کیا اور دوبئی کی سیر کی یادوں کوسمیٹتے ہوۓ ، سوموار کی دوپہر تک ائیر پورٹ ، اور شام تک اپنے پیارے وطن ، جنت نظیر وطن ، پہنچ گئیں ،، میرا بیٹا ہاشم اور داماد کامران ، ہمیں لینے پہنچے ہوۓ تھے ، اور اپنے اپنے راستوں پر روانہ ہوۓ کہ ابھی میَں نے مزید ایک گھنٹے کا فاصلہ طے کرنا تھا ۔ 
سفر ،، چند دن کا ہو ، یا چند گھنٹوں کا ،، گھر کی ایک جیسی روٹین اور ایک جیسے مسائل سے کچھ وقت کی دوری ،،، مزاج پر اچھا اثر ڈالتی ہے ،،، ناراض مزاج لوگ ،، یا ، خواہ مخواہ غصے میں رہنے والے افراد ،، یا ،، ہر وقت ، دو جمع دو کے چکر میں رہنے والے لوگ ،، یا ،، خدشات میں گھِرے لوگ ، (کہیں ایسا نہ ہو جاۓ کہیں ویسا نہ ہوجاۓ کی سوچوں میں گم رہنے والے )،،،، سبھی کے لیۓ لکھ رہی ہوں کہ ،، زندگی ، کی رنگینیاں آس پاس بکھری ہوئیں ہیں ۔ ،،، اللہ نے یہ کائنات انسانوں کے لیۓ مسخر کر دی ہے ،،، ہم اگر اپنی محدود سوچ ، محدود وسائل ، کے تحت ، کوئ تحقیقی کام نہیں کر سکتے ، کوئی لمبا سفر نہیں کر سکتے ،، تو نہ سہی !! اپنے وسائل کے اندر رہ کر کہیں نزدیک شہر کا چکر ہی لگا لیں ،، ( بھلے ایک دن کے لیۓ یا دو دن کے لیۓ ) ،، لیکن اس میں میری یہ درخواست ہے کہ ،، واپس آکر کبھی پیسوں کی جمع تفریق میں نہ پڑنا ،، ورنہ سیر سے حاصل ہوئی خوشی اور سکون ،، ہَوا ،، ہو جاۓ گا ،، ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ میرے اعصاب پرسکون ہو گۓ ہیں کہ نہیں ؟؟ اس سیر ، سپاٹے کے دورانیہ کو بھی ، اپنے ساتھ جانے والوں کے لیۓ پُرسکون بنانا ہے ۔ ورنہ ان کی سیر کا لطف غارت ہو سکتا ہے۔
میَں نے ایک بہت اچھا مضمون ، ایک پاکستانی سابق حکومتی افسر اور ادیب کا جب پڑھا ، تو اسے فوٹو کاپی کروا کر اپنی عمر کی سہیلیوں کو بھی دیا اور اپنے سکول کی ٹیچرز کو بھی بانٹا ،، تاکہ ہم اپنی  منفی سوچ کا جائزہ لیتے رہیں ،، اگر کہیں خرچہ کرنے کی ہمت نہیں ہو پا رہی ،، تو گھر کے نزدیک پارک میں چلے جائیں ،، ارد گرد کھیلتے بچوں کو دیکھیں ، ترتیب سے کھلے پھول نہیں ہیں ،، تو بے ترتیبی سے بکھری جھاڑیوں ، اور پھولوں کو ہی دیکھ لیں ،، ضرور کہیں چھوٹی سی تتلی اُڑتی نظر آۓ گی ،، اور ہماری آنکھوں کو خوشی کی چمک دے جاۓ گی ،،،زندگی بسُور کر گزارنے ، اور جو " نہیں ہے " ،،، اس کا " گِلہ شکوہ " کرنے کا نام نہیں ۔ اور کوشش کیجۓ کہ ، اپنے وزٹ میں کھانے کی ورائٹی کو آخری نمبر پر رکھیں ،، پیٹ سادہ چیز سے بھی بھر جاتا ہے ،،، اصل " حرص " کائنات کی نیرنگیوں کی رکھیں ،،،۔ 
یہاں میَں اس آرٹیکل کے صرف عنوانات درج کر رہی ہوں ،، یہ ذیادہ پوائنٹس ، بزرگی کی عمر تک آنے والوں کے لیۓ ہیں ،،لیکن جوان نسل ذرا اپنے حساب سے سیٹ کر کے عمل کر سکتی ہے ،،، !۔
٭ سوچ سمجھ کر عمل کریں ۔ ٭ راہء خدا میں ضرور خرچ کریں ،٭جائز کاموں پر خرچ کریں ٭اگلی نسل کی ذمہ داری ( گرینڈ چلڈرن ) آپ کی نہیں ٭اپنی صحت کا خود خیال رکھیں، دوسروں کو ہر وقت نہ کہیں ۔ ٭زمانہ حال میں خوش رہنا سیکھیں ٭محبت کا جذبہ قائم رکھیں ٭ فیشن وہ کیجیے جو آپ کے ساتھ اچھا لگے٭باخبر رہیئے ، روزانہ کی خبریں سنیں ، ورنہ حلقہء احباب سے رابطے میں رہیۓ ٭ تنقیدی رویہ ترک کر دیں ، ٭مثبت اور متحرک زندگی گزاریۓ ٭کوئی مفید مشغلہ اپنائیے ٭ گھر سے نکلیں ، چاہے سودا لینے ، یا دوسرے شہر یا دوسرے ملک ٭ دکھ اور پریشانیاں خود پر لاد کر نہ رکھیں ٭اپنا عقیدہ نہ ٹھونسیۓ ٭تخلیقی و تحقیقی ( کچھ بھی ) کام کرتے رہئے ، چاہے وہ گھر پر اگائی جانے والی سبزیوں ، یا پھولوں پر ہو یا ( کچھ یاداشتیں لکھنے پر ہو ) !۔
٭ اگر توفیق ہے تو دعوتیں کرتے رہیۓ ، لیکن اس میں بھی سادگی ہو ! ٭ کوئی اپنی مجبوری سے یا بجٹ سے آپ کو دعوت پر نہیں بلا پاۓ تو بالکل برا نہ منائیں ، بلکہ خوش دلی سے ملنا ملانا جاری رکھیۓ !!!۔ 
( منیرہ قریشی ، 16 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( اختتام دوبئی سفر نامہ)

ہفتہ، 14 اپریل، 2018

سفرِدبئی(4)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
دوبئی " (قسط چہارم)۔"
آج جمعہ تھا ،،اور جمعہ کی تیاری کر کے ہم کہیں نا کہیں سیر بھی کرنا چاہتی تھیں ،،، کہ اب ہمارے پاس صرف دو دن تھے ، ، اور آج یہاں چھٹی بھی تھی ،10 ، ساڑھے دس ،ناشتے اور تیاری میں ہو ہی گۓ ، خدیجہ اپنی بیٹی اور کار سمیت آچکی تھی ۔ خالدہ اورنزہت نے بھی ساتھ جانا تھا۔آج نزہت کی کار میں نشل اور دونوں بچے ، اور عنائیہ بیٹھیں ،میَں اور، خالدہ، خدیجہ کے ساتھ!،،، آج ہم پہلے " گولڈ مارکیٹ " پہنچیں ، کیوں کہ ایک تو ہم نے بھی اسکی سیر کرنی تھی ، دوسرے خالدہ نے کسی کے لیۓ ایک سیٹ سونے کا خریدنا تھا ،، جب ہم ایک تین منزلہ گلابی رنگ کی خوبصورت عمارت میں پہنچیں ، تو بالکل بھی رش نہ تھا ،، شاید یہاں خریداری کا ذیادہ رواج شام کو ہوتا ہو گا ،، ایک چوڑے کاریڈور کے ارد گرد چھوٹی ، بڑی دکانوں کا سلسلہ تھاجن میں صرف اور صرف سونا بک رہا تھا، اتنا پتہ چلا کہ اگر ایک گرام سونا بھی لینا ہے تو اس پر بھی " قیراط " کی مہر لگی ہو گی کہ یہ 22 کا ہے یا 24 کا ،،، اور یہ ہی شورٹٰی ، دوبئ کے سونے کی اہمیت بنا گئ تھی ۔ خیر نشل نے چند انگوٹھیاں رکھی ہوئیں تھیں ،کہ یہاں سے بدلوا لوں گی ۔ نزہت تینوں بچوں کو ادھر اُدھر گھمانے لگی ،، نشل نے بھی کچھ دیر انگوٹھیوں کا مسلہ حل کرنے کی کوشش کی ، لیکن ، کوئ فیصلہ نہ کر سکی ، تو وہ بھی نزہت کے ساتھ ساری گولڈ مارکیٹ ، دیکھتی پھری،،، کچھ دیر میَں نے بھی اُن کا ساتھ دیا ،،، یہاں کی ہر چھوٹی یا بڑی دکان میں سونا ، زیورات ، برتنوں ، اور " اینٹوں" کی شکل میں اتنا وافر تھا کہ لگتا تھا ہر دکان ، سے سونا اُبل ابل کر باہر پھسل رہا ہے ،، ہر چیز کی بہتات دیکھو تو ،، وہ غیر اہم لگنے لگتی ہے ،،،،، میرا تو کچھ ایسا ہی تائثر تھا ،،، یہاں ہم نے قریبا گھنٹے سے ذیادہ کا وقت گزارا ، کہ خالدہ اور خدیجہ کو چوائس میں مشکل ہو رہی تھی ۔ اس دوران بچے ، نشل کے ساتھ کبھی آئس کریم اور کبھی پاپ کارن سے اور کبھی لمبی کینڈیز سے لطف اندوز ہوتے رہے ، کہ دنیا کے ہر بچے کے نزدیک ، ان کی یہ پسندیدہ چیزیں کھانا ہی ، تفریح ہے ۔ میَں بھی اس خوبصورت ، صاف شفاف بلڈنگ کی اوپر کی دونوںمنزلیں دیکھ آئ ،تو دیکھا ابھی خالدہ اور خدیجہفارغ نہیں ہوئیں تھیں ۔ ایک جگہ بیٹھ کر وہی اپنا پسندیدہ مشغلہ کرنے لگی ،،" لوگوں کو دیکھنا ، ان کی حرکات ، لباس ، اور چہروں کو پڑھنا " ،،،، اور یہاں ایک اور خیال آیا کہ ، یہ کس شے کی مارکیٹ ہے!! جیسی اشیاء ہوں گی ویسے ہی لوگوں کی حرکات سکنات میں نمایاں تبدیلی آجاتی ہے ۔ اور یہاں تو ماحول پر " سونے کی سنہری چمک" حاوی تھی ۔ آنکھیں تو چندھیانہ ہی تھیں ،،، دماغ بھی مسحور ہوۓ جا رہے تھے ۔ میں تو اس سحر سے مدت ہوئ نکل چکی تھی ،لیکن میَں نے دیکھا کہ نشل اور نزہت نے بھی کوئ خاص دلچسپی نہیں لی تھی ۔ اور یہ ایک اچھی سوچ ہے کہ نئ نسل ،" سونے کی محبت میں " سے نکل رہی ہے ۔ ورنہ اس کی محبت میں پیسے جمع کرتے کرتے ، کئ دفعہ عورت اپنی خوراک ، اپنی تفریح ، اور اپنے علاج سے بھی غفلت برتنے لگتی ہے ،، اور زندگی کا سنہری دور ، بہت سی غیرمتوازن انداز سےخواہشوں کی تکمیل میں گزر جاتا ہے ، ، ، ۔
خیر خالدہ کا مسئلہ حل ہوا ۔اور ہم نے باہر نکل کر فرمائش کی کہ ہمیں کسی میوزیم کا وزٹ کرواؤ ،، نزہت نےاپنے موبائل نیٹ سے میوزیم کا پتہ کر لیا ، اتفاق سے چند منٹ کی ڈرائیو کے بعد ایک بورڈ " میوزیم " کا نظرآیا ، اور سب شوق سے اندر داخل ہوۓ ،،، لیکن یہ وہ میوزیم نہیں تھا ، جو ہر ملک میں لفظ " میوزیم " پر پورا اترتا ہو ،،، یہاں تنگ سی گلیاں "اَن گڑھ " پتھروں سے بنائ ہوئیں تھیں ۔ اِن گلیوں میں بہت چھوٹی چھوٹی دکانیں ، مختلف سامانوں سے سجی ہوئیں تھیں ، کسی میں روایتی ، شیشے کے یا رنگین دھاگوں سے کڑھائی والے یا دھات کے سکوں سے سجے لباس تھے ،، کہیں مصنوعی ، یا اصلی " سٹون " بِک رہے تھے ، اور کہیں" گہوہ " معہ روایاتی برتنوں میں پیسے دے کر پیا جا سکتا تھا ،،، گویا " دوبیئ " والوں کے نزدیک یہ میوزیم کہلاتا تھا ۔ اکا دکا فارنرز بھی تھے ، ، اس وزٹ کا مزہ نہیں آیا ،، لیکن ،سیاح کی بنی لسٹ میں ایک ٹِک مارک لگ گیا ۔
دوپہر ہوچکی تھی ، اور ہم دوبئی کی ایک خوبصورت مسجد کے قریب پہنچ چکی تھیں ،، مکہ ، مدینہ کی مساجدکی طرح یہاں بھی سُرخ اور سنہرے رنگوں کے امتزاج سے سجے قالین اور بہت کم فرنیچر کی صاف ستھری مسجد میں نمازِ جمعہ پڑھی ۔ بچوںمیں حمنہٰ نے شوق سے وُضو کیا اور نماز پڑھی ،،، نماز کے بعد باہر نکلیں ، تو اچانک ذرا دور سے ہمیں اپنا ایک رشتہ دار ، ظہور نظر آیا ، اس سے پہلے کہ ہم اُس تک پہنچتیں ، وہ دور جا چکا تھا ، لیکن میَں نے خالدہ سے اس کے نمبر کا پوچھا تو اس نے مجھے نمبر ملا دیا ، ظہور نے مجھ سے بات کی تو حیرت اور خوشی کا اظہار کیا ،، اس نے مجھے محبت سے ملنے کا کہا ،، میَں نے بتایا تم ابھی اسی مسجد سے نکل کر گۓ ہو ، جہاں تک پہنچے ہو وہیں کھڑے رہو ، ہم تمہارے پاس پہنچتیں ہیں ،، اس نے نزہت کو اپنی لوکیشن سمجھائی ۔ ہم دو تین منٹ میں اس تک پہنچے ، ،، ظہور کے ساتھ ہماری کوئی ڈائرکٹ رشتہ داری نہیں ، لیکن وہ خاندان میں سے ہے ، اس کے والدین بچپن میں راولپنڈی کےہمارے گھر کے ساتھ ،پڑوسی تھے۔بچپن میں نہ صرف بیمار رہتا تھا ، بلکہ یہ دیر سے بولا ، اور زندگی میں کبھی کسی سکول نہیں گیا ،، اس کا ایک بڑا بھائ اور بڑی بہن اور ایک اس سے چھوٹی بہن ہیں ،، والد بہت معمولی جاب پر تھا ، گھر میں غربت کا راج تھا ، ، لیکن جب یہ بڑا ہوا ،تو قد بت ، لمبا اور مضبوط جسم کا تھا ، اسکے ایک اور رشتہ دار نے اسے اس وقت دوبیئ بلا لیا جب پڑھے لکھے ہونا شرط نہ تھی ، ظہور کسی بنک میں چپڑاسی کے طور پر ملازم کروایا گیا ، اور اب اسے یہاں آٹھ ، نو سال ہوچکے تھے ۔ اور وہ اسی بنک میں چپڑاسی تھا ،،، سادہ ترین مزاج ، سادہ ترین زندگی ، سادہ ترین سوچ ،،، اسی لیۓ اسے میری اماں جی نے " سائیں ' کا خطاب دیا ہوا تھا ، ، لیکن اب ہم اسے ظہور کہہ کر بلاتیں تھیں ، وہ بہت خوش ہوا ،، میِں نے اسے کہا ، دن اب ہمارے پاس ایک اور رہ گیا ہے ، اس لیۓ دوبارہ ملنے کا چانس نہیں ۔ ابھی ہمارے ساتھ کچھ وقت گزارو ، میَں نے خالدہ سے کہا ، آج کا لنچ میری طرف سے ہو گا ، ، ایک نزدیک کے شاپنگ مال میں گئیں ، جہاں دوسرے فلور پر بہت بڑا اور بہترین ریسٹورنٹ تھا ،، یہیں جو جس کادل کیا آرڈرز دیۓ ، اور ظہور کو اپنے پاس بٹھا کر اس سے مختلف باتیں کرتی رہی ، ، ، اسے بچپن کی کسی محرومی کا نہ افسوس تھا نہ اس کی یاداشت میں سخت دنوں کی ریکارڈنگ تھی ، اور یہ مومن ہونے کی نشانی ہے،، کیوں کہ وہ سادہ دماغ کے ساتھ بڑا ہوا تھا ، جس میں صرف محبت کا بسیرا تھا ، جب سے دوبئی آیا تھا ،، ماں کی سب محرومیاں ختم کرنے کی کوشش کیں ۔ اپنی بہنوں کوبہت پیار سے ان کی پسند کی چیزیں بھیجتا ، بھائی کا تابعدار رہا ، والد اسکے بچپنے میں چل بسا تھا ،،، اور پھر جہاں ماں نے کہا وہیں شادی کر لی ،،، اللہ نے اسے دو بیٹے بھی عنایت کر دیۓ ،، اب جو کماتا ، پاکستان میں اپنے ایک کزن کو بھیجتا جو ایمان داری اور سلیقے سے اس کی کمائی میں سے اخراجات دے کر باقی رقم جمع کرتا رہتا ہے ( بعد میں چند سال کے اندر اُسی کزن نے اسکے دو گھر بنا دیۓ ، ایک میں اس کی فیملی رہتی ہے اور دوسرا کراۓ پر لگا دیا ہے ) انتہائ سادہ اور مکمل ان پڑھ اور کسی ہنر سے عاری ظہور ، کو اللہ نے بہت نواز دیا ، وہ آج لینے نہیں دینے لائق ہے ، رزقِ حلال کی برکتیں ہی برکتیں تھیں ! ہم سب بہنیں ، ہمیشہ اسے دعا کا کہتی رہتی ہیں ،، اور آج کے دن بھی میرا اصرار یہی تھا ،،، تم مجھے اپنی دعا میں یاد رکھو گے ،،،، کھانا کھا لیا گیا ، چاۓ بھی پی گئی ، ، میَں ظہور کو ذیادہ وقت دینا چاہتی تھی ، مجھے اندازہ تھا ، وہ مجھے خود بلانا چاہتا ہے لیکن وہ کسی کے ساتھ کمرہ شیئر کر کے رہ رہا تھا ،،اس لیۓ یہ اس کے لیۓ نا ممکن تھا ،،، باہر میِں اسےکچھ کھلانے نہ دیتی کہ میں عمر میں بڑی ہوں ، ، اور بڑے اپنا حق ذیادہ استعمال کر لیتے ہیں ! اس کو اللہ حافظ کیا ،، اور اب واپس شارجہ چلے کہ آج رات حلیمہ کے گھر نہ صرف رات کا قیام تھا ، بلکہ پُرتکلف ڈنر بھی تھا ۔ 
( منیرہ قریشی 14 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

جمعہ، 13 اپریل، 2018

سفرِدبئی(3)۔

سلسلہ ہاۓ سفر"
دوبئی " ( قسط سوم)۔"
اگلے دن صبح ناشتے کے بعد ، میرا ایک کزن ندیم اپنی کا ر لے آیا کہ" آج باجی میری مہمان ہوں گی"، کزن ندیم میرے والد کی پھوپھی کا بیٹا ہے ۔ لیکن مجھ سےعمر میں بہت چھوٹا ہے ،، اس سے بڑا بھائی نعیم ہے جو پاکستان میں رہائش پذیر ہے ، یہ دونوں بھائی اپنے والدین کی ایک طرح بڑھاپے کی اولاد ہیں ، انتہائی لاڈلے ،، لیکن انتہائی مؤدب !! خاندان کا شاید ہی کوئی بندہ ہو جس سے ان کے اچھے تعلقات نہ ہوں ،، کیوں کہ وہ خود ہمیشہ تمیز کے دائرے میں رہتے ہوۓ ہر ایک کو عزت دیتے ہیں ، ، یہ ان کے والدین کی تربیت ہے ،، جیسے ہی اسے پتہ چلا کہ میَں آئی ہوئی ہوں ، خود ہی ملنے آیا اور کہہ دیا کہ آج کادن میرے ساتھ !!!وہ کئی سالوں سے دوبئی میں کسی پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتا رہا ہے ، اب اپنا بزنس کر رہا ہے ، ! اسکی ، بیوی ( وہ بھی میری کزن ہے) اور دو بچیاں ،، پاکستان رہتی تھیں ۔ اس نے کار میں بیٹھتے ہی بتایا ۔ "باجی آج میں آپ کو میٹروسے اپنے آفس تک لے جاؤں گا۔ میٹرو کی سیر بھی ہو جاۓ گی " ،، ( اُس وقت 2013ء تک پاکستان میں صرف لاہورمیں میٹرو ٹرین تھی) ۔ بچوں کو اکسائٹمنٹ ، تھی ، موسیٰ ، ایک بھولا بھالا بچہ تو ہے، لیکن اندر سے سمجھ دار ہے ۔ اس نے ندیم ماموں سے فورا" دوستی کر لی ، گپ شپ سے ، وہ اس سے میٹرو کی معلومات لیتا رہا ، میٹرو سٹیشن پہنچ کر ندیم نے ہی ٹکٹ لیں ، اپنی کار کہیں پارک کی ۔ اور جب بیٹی اور بچوں نے میٹرو کی رائیڈ لی ، تو بہر حال یہ نیا اور خوب تجربہ رہا۔ یہ سفر شارجہ سے دوبئی کے مرکز تک کا تھا ،، یہاں ، ہم اُتر کر صرف چند منٹ پیدل چلے کہ ندیم کے آفس کی بلڈنگ میں پہنچے ۔ یہاں اس کا پارٹنر موجود تھا ، اُسی کی عمر کا ،، وہ بھی پرانے ملنے والوں کا بیٹا ہے ، دونوں محنتی بچے ہیں ، اور اچھی لوکیشن پر اچھا آفس لے رکھا تھا ۔ آئس کریم سے تواضع ہوئ اور ندیم ہمیں ایک قریبی شاپنگ مال " لے گیا ، یہاں کی سیر میں بھی نشل نے کچھ چیزیں لیں اور میَں نے کچھ تحائف لیۓ اور اسی سیر میں سہ پہر ہو گئی ۔ ندیم نے واپس میٹرو سٹیشن تک کا راستہ اختیار کیا ، اور دوبارہ میٹرو کی رائیڈ سے بچے فریش ہو گۓ ۔ کار پارکنگ سے کار لے کر سیدھا شارجہ کے اس ہوٹل لے گیا جہاں اس کے خیال میں بہترین مچھلی نان ، اور خاص پلاؤ ملتا تھا ،، میِرے انکار کے باوجود ، وہ بضد رہا کہ اگر ابھی بھوک نہیں ، تو پیک کروا لیتا ہوں ، ،، لیکن کھانا میری طرف سے ہی ہوگا ، چناچہ پیک کروا کر، خالدہ کے گھر تک آیا ، انھیں بھی سلا م علیک کر کے جانے لگا کہ میں نے آفس کے کچھ کام نبٹانے ہیں ، خالدہ، ذوالفقار 
نے ،اویس اور نزہت ہمارے انتظار میں تھے ، کھانا کھا کر قہوہ پی کر نشل پھر اپنی پیکنگ کرنے کمرے میں چلی گئ ، ، اور بزرگ افراد اپنی دلچسپی کی باتیں کرتے رہے ، اکثر ایک ڈیڑھ بج ہی جاتا ۔
اگلے دن اویس نے چھٹی لی تھی ، صبح کے 10 بجے چلے، وہ ہمیں سب سے پہلے " مال آف امارات" لے گیا نزہت ، اورخالدہ ساتھ تھیں ، یہاں آج بچوں نے ، " آئس ایریا ، کا "اِنڈورسکینگ " انجواۓ کرنا تھا ۔ جہاں کے ٹکٹ لیۓ گۓ اور ،،،،،
نشل اپنے دونوں بچوں کے ساتھ اور نزہت کے ساتھ چلی گئی۔ وہاں کی تفصیل اس نے بعد میں بتائی ، سکینگ ، اور وہاں کے خوب" فر" والے لباس نے اور وہاں کے ایک چھوٹے سے ریسٹورنت نے انھیں عیش کرا دی ،، بچوں کے چہرے خوشی، سے سُرخ ہو رہے تھے ،،، یہ سب دیکھنے کی ہی تو مجھے خواہش تھی ۔سکینگ کے اس ایریا میں انھوں نے گھنٹہ بھر 
سے ذیادہ وقت گزارنا تھا ، اس دوران وہیں مال کے اندرایک ریستورنٹ میں خالدہ، اس کا بیٹا اویس ، اور میَں بیٹھ کر چاۓ پینے لگے ، اتنے میں اویس کا ایک دوست ماجد آگیا ، پتہ چلا یہ اسی ریستورنٹ میں پارٹنر بھی ہے ،، اس نے ہمارے ساتھ چاۓ بھی پی اور اپنی کہانی بھی سنائ کہ انگلینڈ سے ایم بی اے کی ڈگری لے کر، وہیں بس جانے کا سوچا لیکن ،" پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب" سے مشاورت سے یہاں منتقل ہوا ہوں ، انھوں نے ہی کہا تھا ، کھانے پینے کی چیز کا ،کاروبارکرنا ،یہ ریسٹورنت ہم تین دوستوں نے مل کر کھولا ، اور اب حال یہ ہے کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں ، ،،، گھنٹے ڈیڑھ تک بچے آگۓ ،،، ہم سے ماجد نے بِل کہاں لینا تھا ! اب اویس ہمیں " بُرج الخلیفہ " کی طرف لے گیا ، اس جگہ سے پہلے ، اس نے کوشش کی کہ وہ " پائن ٹری آئی لینڈ" کی طرف لے گیا کہ ایک نظر وہاں ڈال لیں ، لیکن اس طرف کی سڑک بن تھی اور مرمت کا بڑا سا بورڈ لگا ہوا تھا ، وئیں سے برج الخلیفہ تک پہنچے ، قریب جانے کی کوئی خواہش نہ تھی ، اسی کے قریب ، ڈانسنگ فاؤنٹین اور ارد گرد کا بہت خوبصورت پارک تھا ، او رایک مختصر سی مسجد بھی ، عصر اور مغرب اسی مسجد میں ادا کی 
اتنے میں اونچی سی موسیقی کا ردھم سنائ دیا ،، جو شروع میں ناگوار محسوس ہوا۔ لیکن کچھ دیر بعد نہ صرف موسیقی کی دھن اچھی لگی بلکہ اسی میوزک کی لے پر، ڈانس کے انداز میں فواروں کا اونچا نیچا ہونا مسحور کن تھا ،،، ہم سب نے بہت لطف اُٹھایا ،، شام ہوئ اور واپسی کے سفر میں اویس ہمیں اس جانب لے گیا ، جہاں "ہمارے " ناقابلِ معافی فرعون مزاج" حکمرانوں کے نہایت شاندار گھر تھے ، دل شدید طور سے اداس ہو گیا کہ کیا ہم پر " ایسے اور ویسے" لوگوں نے حکمرانی کرنی ہے ،،، " کیا قحط الرجال " ہے ۔ شاندار رہائش ، محفوظ مستقبل ، عیش ہی عیش ،،، اللہ سے معاملہ " ؟؟؟ وہ دیکھا جاۓ گا "!!!
اویس کہنے لگا ڈوبتی شام میں اس " بیچ" کا منظر اچھا لگے گا ۔ اور کار ، "جومیرہ" بیچ پر جا کھڑی کی ، یہ اگست تھا اور ابھی شدید گرمی نہیں پڑی تھی ، ویسے تو ہر وقت ہوا چلتی رہتی تھی لیکن ، شام کو کچھ ذیادہ تیزی تھی ، لیکن خوشگوارہوا نہیں تھی ، اسلیۓ ، ذیادہ رکنے پر دل ہی نہیں چاہا ،واپسی کا رستہ لیا ، ،،، عنائیہ کی پیاری پیاری باتیں منتظر تھیں ۔
اور پھر اگلا دن ، حلیمہ ، اسکی بیٹی عنائیہ، اپنی کار میں اور اسکے ساتھ نزہت ، تھی ، جب کہ ہم اویس کی کار میں بیٹھیں ، آج ہم ڈولفن شو دیکھنے جا رہے تھے ، یہاں بھی ٹکٹ لیۓ اور جب شو شروع ہوا، تو مجھے ملائیشیا کے شوز یاد آ گۓ ۔ لیکن یہ ان سے فرق تھا ۔ یہاں تین ، یا چار جوان ڈولفنز کی ذہانت کے مظاہرے تھے ، ان کے ٹرینرز میں ایک خاتون اور دو مرد حضرات تھے ،،، اس میں ڈولفن کبھی بال منہ سے دھکیل کر نِٹ بال کھیلتیں ، کبھی وہ ٹرینر کی آواز پر ، سیٹی پر ڈانس کرتیں ، کبھی قہقہہ لگاتیں ، کبھی حاظرین کی طرف بال پھینکتیں ، اور کبھی شرارت سے اپنی دُم زور سے پانی پر مارتیں کہ قریب کے، ارد گرد کے لوگ بھیگ جاتے ،،، لیکن وہ سٹیڈیم جہاں 200 کے قریب لوگ بیٹھے تھے ، ہر چہرہ ، مسکراہٹ اور خوشی کے جذبات سے دمک رہا تھا ، آدھے لوگ تو اِس دو گھنٹے کے شو کے ہر لمحے کو کیمروں ، میں محفوظ کرنے میں لگے ہوۓ تھے ،، خود ہم سب کی نظریں لمحے بھر کے لیۓ بھی اُن سے ہٹ نہیں رہیں تھیں ، ،آخری آئٹم یہ تھا کہ جو ڈولفن پر سواری کرنا چاہتا ہے ، وہ صرف 10 ریال ہاتھ میں پکڑے ،، ڈولفن کو دکھاۓ تو، ٹرینر اسے اُس پر سواری کراۓ گا ،، رقم تو بہت معمولی تھی ،،، اصل بات ہمت اور جراؑت کی تھی ،،، جو ایک نو دس سال کے بچے نے کی ، صرف ایک ڈیڑھ منٹ کی ڈولفن رائیڈ ، سے سٹیڈیم تالیوں سے گونج اُٹھا ۔،،،، اور پھر بہت سلیقے سے سب اپنی سیٹوں سے اُٹھ کر باہر ارد گرد پھیلے سر سبز پارک میں آگۓ ،،،، اور باہر بچوں کی دلچسپی کی ایک اور فن تھا ،، سجے سجاۓ اونٹ ،جیسے ہمارے کراچی کے ساحل پر ہوتے ہیں ، میرے بچوں نے بھی خوشی سے اُونٹ کی سواری کی ،، اور اب اویس کی طرف سے ایک نزدیکی میکڈولڈ میں پیزہ پارٹی تھی ،، عین بچوں کی پسند کی دعوت ! آج ڈولفن شو ، اور پیزہ پارٹی نے یادگار دن بنا دیا ،، اور میَں ہر نعمت کے بعد ہمیشہ اداس ہو جاتی ہوں ،، اس لیۓ نہیں کہ میں " خدائ خدمت گار " بن جاتی ہوں ،، یا میں بہت قومی سطح کی کوئ ورکر ہوں ،، اور میَں قوم کے لیۓ ذیادہ درد محسوس کرنے والی ہوں ،،، آصل میں حساس فطرت لوگ کا مسلہء ہی الگ ہوتا ہے، ، ، اُونٹ تو ہمارے کراچی میں مدتوں سے ہیں ،، کیا محفوظ ماحول میں ہمارے بچے اِن کی سواریوں سے لطف اُٹھا رہے ہیں ، پاک وطن میں کس چیز کی کمی ہے ! لیکن عوامی سطح پر تفریح کے اتنے کم مواقع ہیں ، اتنے کم سٹیڈیمز ہیں ، کہ آج ہماری قو م کے پاس تفریح کے نام پر صرف " چلو کھانا کھاتے ہیں " کے علاوہ کوئ سوچ نہیں رہی ،، اگر کہیں کوئ فیٹیول ہے بھی تو دل ڈرتا ہی رہتا ہے ،،، کہیں کچھ ہو نہ جاۓ ! کہیں غنڈہ گرد عناصر ، پریشانی نہ کھڑی کر دیں ،،، یہ وساوس اسلیۓ آتے ہیں ، کہ ہمارا پاکستانی معاشرہ ، تفریح کے نام پرغیر محفوظ بن چکا ہے ( مکمل طور پر نہ سہی، جزوی طور پر) ،، کالج ، یونیورسٹیاں ، تفریح گاہئیں ، بد تہذیبی ، کے جال میں جکڑے چلے جا رہے ہیں ۔ اور ایسے سٹیڈیم ، جہاں چھوٹے چھوٹے ، شوز سےتھکےاعصاب کو پر سکون کرنے کے شوز ہوتے ، ، اگر آپ ایک بہت ہی مصروف شاہراہ کے کسی کونے میں چُھپ کر بیٹھ جائیں ، تو آپ کے سامنے سے عورتیں ، مرد ہزاروں کی تعداد میں گزریں گے،،، یہ ہر طبقے ہر عمرسے تعلق رکھتے ہوں گے ،،، لیکن ان کے چہرے ، پریشان ، متفکر ، بد دل یا اداس اور اردگرد سے بے نیاز ہوں گے ،،چلتے چلے جارہے ہوں گے ،،، اس ہزاروں کے مجمعے کے گزرنے پر آپ کو شاید ایک یا دو چہرے مطمئن یا پُرسکون نظر آئیں گے ،، شاید اسی لیۓ ویلفئر حکومتیں ، اپنے عام عوام کے رحجانات ، سوچ اور مصروفیات ،پر ہر لمحہ نظر رکھتیں ہیں ۔ تاکہ ان کے اعصاب پر مہنگائ ، کرپشنز ، صحت ، اپنے ساتھ ہونے والی ذیارتیاں ان کو شٹر نہ کر دیں ، وہ ہمت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ بیٹھیں ، انھیں مثبت تفریحات مہیا کرتے رہو۔ لیکن ، ہم کب ایسے بےفکر ماحول کا لطف اُٹھائیں گے ،، کب ، ؟؟ آخر کب ؟؟اور میَں سفر وسیلہء ظفر یا ،، وسیلہء فکر کی گرداب میں ضرور گھمن گھیری کھالیتی ہوں ، کہ جب کبھی خودغرضی سے کوئی تفریح کرتی ہوں ۔
عبدالحمید عدؔم کا ایک خوب صورت شعر ہے ،
؎ عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے 
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں !۔
( منیرہ قریشی ، 13 اپریل 2018ء واہ کینٹ) ( جاری)

جمعرات، 12 اپریل، 2018

سفرِدبئی(2)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
( دوبئی" ( قسط دوم "
اگلا دن اسی ذوق و شوق کا دن تھا جو لڑکیوں کی ذات کا حصہ ہوتا ہے، یعنی " شاپنگ میں دلچسپی " ! خاص طور سے نۓ ملک آکر تو یہ قدرتی بات تھی ،،، چنانچہ خالدہ اس کی دونوں بیٹیاں حلیمہ ، خدیجہ اور اس کی بیٹی عنائیہ، ، میَں ، اپنے بچوں سمیت خدیجہ کی کار میں بیٹھیں اور ، شارجہ سےدوبئ کی طرف روانہ ہوئیں ۔ صبح کے 10 بجے تھے ، ٹریفک کا وہ اژدہام نہ تھا ، جو دوپہر یا شام کا خاص منظر تھا ۔" دبئی مال " پہنچیں ،، میَں نے چند منٹ اس گروپ کا ساتھ دیا ۔ اب تک جو دوتین ملک دیکھے تھے ، سب کے شاپنگ مالز ، ایک جیسے تھے۔ اس لیۓ ایک چھوٹے سے فوارے کے پاس بینچ بھی تھے اور کچھ کھانے پینے کے سٹال تھے۔ اور ذرا ہٹ کر رش بھی نہ تھا ،، میَں نے بیٹی نشل اور دیوررانی خالدہ سے کہا " میَں یہاں انتظار کروں گی ، مجھ سے اتنا گھوما بھی نہیں جا رہا ، اور کوئ خاص شاپنگ بھی نہیں کرنی ،، تم سب پھرو ،،،! فارغ ہو کر یہیں آ جانا ، یہیں کھانا پینا ہو جاۓ گا ۔
مجھے یوں جب بھی کبھی موقع ملے، رش کی جگہ اکیلے بیٹھنا بہت پسند ہے ،، ایئر پورٹ ، سٹیشن ،یا بس اڈہ ، میرے لیۓ گھنٹوں کا شغل ہے ۔ میَں اس شغل سے کبھی نہیں اُ کتائی ۔ ( یہ بچپن سے آج بڑھاپےتک کا پسندیدہ کام ہے ) اللہ کی رنگا رنگی ، ان کے لباس ، حرکات ، اندازے ،،، بس میرے لیۓ صبح سے شام کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ، ۔
اس سلسلے میں اپنا ملک ہے ، یا غیر ملک ، اپنا شہر ہو یا اجنبی شہر ،،، اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا ۔ اور مجھے اپنی پسند سے وقت گزارنے کا آج موقع مل گیا تھا ،،، لیکن یہ موقع صرف تین گھنٹے بعد ختم ہو گیا ، نشل کچھ شاپنگ کر کے آگئی ،،، لیکن اس کی فرمائش تھی " آئیکیا"۔
 "( IKEA )"۔
شاپ میں آپ میرے ساتھ چلیں ، مجھے پسند کروانے میں مدد دیں ، ،،بیٹی کی خوشی سے ذیادہ کیا چیز ہو سکتی ہے ، حمنہٰ اور موسیٰ آگے آگے ایسے چل پھر رہے تھے ، جیسے یہ روز آتے رہتے ہیں ، اور انھیں ہر کونا کونا پتہ ہے ، آئیکیا کے شیڈمیں گھوم پھر کر لا تعداد اقسام کی اشیا دیکھیں ، ہر چیز میں ندرت ، نفاست تھی ،، نشل ایک گھریلو بیوی اور ایسی ماں ہےجسے گھر کے ہر کمرے کی سجاوٹ کی فکر ہوتی ہے ، اور ساتھ ہی یہ کہ بہت مہنگی بھی نہ ہووغیرہ ۔ اس نے صرف چند چیزیں خریدیں ! اور ہم واپس اسی برگر ، یا نوڈلز، اور شوارما کے کارنرز کی طرف آئیں ، خالدہ اور دونوں بیٹیاں پہنچ چکی تھیں۔اور ہم نے کافی کے ساتھ کھانا پینا کیا ، کچھ ریسٹ ہوا ، اور پروگرام بنا کہ ، اب نصرت باجی سے مل آتے ہیں ، یہ میری پھوپھی ذاد بہن ہیں ، اور کافی عرصہ دوبئ میں رہ کر اب پاکستان واپسی کے لیۓ سامان باندھ رہیں تھیں ، خالدہ نے انھیں فون پر پوچھ لیا کہ ہم آنا چاہتے ہیں ، انھوں نے کہا شام کی چاۓ میرے ساتھ ہو گی ۔ چناچہ اب اس مال میں پھرنے کا ایک گھنٹہ اور مل گیا ، چاکلیٹ کی بہت بڑی دکان نے بچوں کو وہاں سے ہلنا مشکل کر دیا ،،، اور کچھ عنائیہ کے لیے ، بھی لیا گیا ،،، کیوں وہ بچوں کی عین عادت کے مطابق پہلے دن سے حمنہٰ اور موسیٰ کو یوں وقت دینے لگی جیسے ہم صرف اسی سے ملنے دوبئی آۓ ہیں ،،، ہمارے ایک دن پہلے پہنچنے پر عنائیہ کے نانا ذوالفقار نے بتایا تھا کہ یہ سب سے ذیادہ مجھ سے مانوس ہے ، روزانہ کی ملاقات بھی ضروری ہے اور میرے پاس ہی اس کا ذیادہ وقت گزرتا ہے ،،، اور اگلے دن صبح 10 بجے جب یہ دو ڈھائی سالہ عنائیہ نانا کے گھر میں داخل ہوئ تو نانا ، نانی کو سلام کیۓ بغیر ،وہ ہمارے کمرے کی طرف بھاگ کر چلی گئی کہ کہیں نانا اسے رکنے کا بھی نہ کہہ دیں ، اس کے رویے کی تبدیلی کو سب نے انجواۓ کیا ۔ اور یوں ، وہ موسیٰ اور حمنہٰ کے لیۓ بھی ایک کھلونا بنی ہوئ تھی ، بہت سی چیزیں آج عنائیہ کے لیۓ بھی خریدی جا رہیں تھیں ۔ تاکہ اس سے مزید دوستی ہو سکے ۔ 
گھنٹے بعد نصرت باجی کے گھر پہنچ چکی تھیں جو دوبئی کے اچھے علاقے کا تین بیڈ روم اپارٹمنٹ تھا ۔ وہ ہمیشہ محبت اور اتنی اپنائیت سے ملتی ہیں ، کہ ہمیں اپنی سُستی پر افسوس ہونے لگتا ہے کہ جب وہ پاکستان آتی ہیں تو ہمارا ان سے ملنا کیوں نہیں ہو پاتا ،،، اور خاندانوں میں چلتی سیاست کیوں ہر جگہ آڑے آتی ہے ، حالانکہ زندگی تو بہت تھوڑی سی ہے ۔اور ہر گزرتا دن ، ، ، شب وروز کے درخت کے تنے پر پچھتاوے کی کیل ٹھونک کر گزر جاتا ہے ،،، چاۓ پر بہت فارمل باتیں ہوئیں ، صرف بچپن کو ذیادہ یاد کیا جاتا رہا ۔ 
واپسی پر رات ہو چکی تھی ،، دوبئی کی مصروف ترین سڑکوں کے نظارے کیۓ ، خدیجہ راستے میں آنے والی اہم عمارات بارے بتاتی رہی ، اس وقت وہ ہمیں لے کر اپنے گھر کے قریب واقع چھوٹی سی ، نہایت خوب صورت " سفید مسجد" لے گئی ،،، یہاں کے پارک میں بچے اور کچھ بڑے بیٹھے رہے لیکن میَں ، نشل اور خالدہ مسجد میں جا کر عشا کی نماز پڑھنے لگیں ، اس وقت چند خواتین ، نماز کے بعد کے نوافل پڑھنے میں مصروف تھیں ، ہم اِس چھوٹی سی ، حسین مسجد کو دیر تک سراہتی رہیں ،،،،، دوبئی کی ہر مسجد مدرسہ کے طور بھی استعمال ہوتی ہے ، جہاں صرف ناظرہ قر آن کی تعلیم دی جاتی ہے ( 2013ء تک میں یہ ہی بتایا گیا تھا )۔
کچھ اور رُک کر گھر واپس ہوئیں، نشل اپنی چیزیں ساتھ ساتھ سمیٹنے کی قائل ہے ۔ اور پھر رات تھی ، اور ہم ، دنیا جہان کی باتیں کرتیں ، ڈیڑھ بج گیا ، آنکھیں بند ہونے لگی تو بستر میں گُھسیں ۔
( منیرہ قریشی ، 12 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

منگل، 10 اپریل، 2018

سفرِدبئی(1)۔

" سلسلہء ہاۓ سفر" 
دوبئی " ( قسط اول )۔"
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں ، سکول کے میرے مصروف ترین دن ختم ہو گۓ ، جوجی اپنے بچوں کے پاس انگلینڈ جا چکی تھی،، چھٹیوں میں یہ بھی مصروفیت ہوتی ہے کہ ہم دونوں کچھ لمبے ، کچھ چھوٹے پروگرام بنا لیتیں ، اگر نزدیک کا ہے تو بچوں میں سے جو بھی ساتھ چلے ، ورنہ لمبے سفر میں ہم دونوں کا یا " شاہدہ " کا ساتھ مل جاتا تو چل سو چل !لیکن شاہدہ بھی سال میں ایک دو چکر کینیڈا کے لگاتی ہے کہ اسکے سب بچے وہیں ہیں ۔ میڈم شیما زاہد کی بےمثل ذمہ دارانہ شخصیت کی وجہ سے ہمیں بہت حد تک بےفکر رکھا ہوا تھا ۔ کہ اگر ہم کہیں پروگرام بنا بھی لیں تو ہمیں علم تھا کوئی بھی " مسئلہ" ہوا وہ سنبھال لیں گی  اور ویسے بھی 2009ء کے ملائیشا اور تھائی لینڈ کے سفر کےبعد میَں نےکسی دوسرے ملک کا سوچا بھی نہ تھا۔ 
چھٹیوں میں بہوئیں اگر اپنے میکے میں کچھ عرصہ گزارتی ہیں ،، تو اکثر دوسرے شہروں کی بیٹیاں ، میکے آکر " کچھ تبدیلی" کے دن گزارتی ہیں ، اور یوں ہر طرف یہ سلسلہ ، یا " سرکل " چلتا چلا جاتا ہے ،لیکن جب آپ عمر کے اُس دور میں آجائیں جب ہم ہی دوسروں کا میکہ ، دوسروں کا سسرال ، یا دوسروں کے لیۓ چھٹیاں گزارنے کا مرکز بن جائیں ، تو اپنی ترجیحات بدلانی پڑتی ہیں ،، بیٹیاں تو واپس والدین کے گھر میں آکر ، آرام سے پھر بھی نہیں بیٹھتیں ، بلکہ ماں کے گھر کے کونوں کھدروں کی صفائ ، ستھرائ میں جُت جاتی ہیں ، گویا ان کی چھٹیاں بھی ایک اور طرح کی ذمہ داریاں نبھاتے گزارتی ہیں ۔
۔2013ء کا جون آچکا تھا ، میَں نے اپنے داماد کامران کے ساتھ صلاح کی " کیا خیال ہے اس دفعہ نشل اور بچوں کو " سرپرائز " دوں "،،، اس نے پوچھا تو میں نے کہا تم نشل کے اور بچوں کے پاسپورٹ مجھے بھجوا دو ، میَں دوبئی  کا ویزا لے سکوں اور ہم کچھ دنوں کے لیۓ نزدیک ترین ملک سے ہو آتی ہیں ، اس معاملے میں میرا داماد ان ، پیارے لوگوں میں شامل ہے ، جس نے اپنے ان نئے رشتوں کا ہمیشہ احترام کیا ہے ، ۔ اس نے چپکے سے پاسپورٹ بھجواۓ ، ہمارا ٹریولر ایجنٹ بابر غوری ، ہماری ایسی کئی ایمر جینسی ، فرمائشوںاور آرڈرز کا عادی ہے ،، ایک فون اُسے جاتا ، بابر بیٹا ، سری لنکا کا ویزہ کتنے دن میں ہوگا ؟ اور وہاں دو دن کے اندر کون سی فلائیٹ جا رہی ہے ، ، ؟ اگلے دن نیا فون چلا جاتا،،،، بابر میرا خیال ہے ، دوبئی کی ساری معلومات ابھی دینا ،،، ! اور کبھی ترکی کے بارے یہ جملے اسے سناۓ جاتے اور کبھی ملائیشیا یا تھائی لینڈ کی باری آجاتی ، صحیح بات یہ ہے کہ میَں بہادر بننے کی کوشش کرتی ہوں ، ہوں نہیں !!!لیکن خیر اس دفعہ دوبئی کے چکر کا مجھے شوق ہوا ،، کیوں کہ دونوں بیٹے بہو ، کئی دفعہ جا چکے تھے۔ ان کی فی الحال کوئی دلچسپی نہ تھی ،، میَں نے اور نشل نے ابھی دوبئی نہیں دیکھا تھا ، بلکہ نشل نے ابھی تک کوئی غیرملکی سفر نہیں کیا تھا۔ 
جب ، ویزہ لگ گیا ، اور میَں نےنشل کو ،اپنی نواسی حمنہٰ اور محمد موسیٰ کامران ، کوجب اطلاع دی کہ جلدی سے بیگ تیار کر لو ہم 30 جون روانہ ہونگے ،، (23 جون تا 23 جولائ کا ویزہ لگوایا گیا تھا ۔) مجھے پتہ چلا ، دونوں بچوں کا خوشی کے مارے نیندیں اُڑ گئیں تھیں ۔ نشل ،، ایک ایسی بیٹی ہے ، اس میں وہ کوالٹیز ہیں ، کہ وہ بہت آرگنائز طریقے سے کام کرنا چاہتی ہے،،اس نے تحمل سے مجھے ڈانٹا کہ " آپ مجھے بتا تو دیا کریں ،تاکہ گھر کو سمیٹنا ہوتا ہے ، بچوں کی چیزیں ترتیب سے رکھنی ہوتی ہیں ۔ کامران کے لیۓ کچھ پکا کر رکھنا ہوتا ہے ، وغیرہ وغیرہ " !۔
میَں نے کہا ، رمضان شروع ہونے میں تین ہفتے رہ گۓ ہیں ، ہم دوبئی صرف نو دن ٹھہریں گے ،، اس لیۓ لمبی چوڑی تیاری کی کیا ضرورت ہے ،،میں نے نشل کی چچا اور چچی کو اطلاع دی کہ میں اور تینوں بچے تمہارے پاس رہیں گے ،،، دوبئ میں ہمارے کافی رشتے دار یا ملنے والے رہتے ہیں ۔ اللہ کا شکر ہر کوئ ویلکم کرنے والا ، محبت سے بلانے والے ہیں ۔اپنی دیورانی سے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں ، اس نے ایک عرصے سے کہہ رکھا تھا کہ تم جب دوبئی آئیں ، رہنا میرے پاس ہے ، پی آئ اے سے جب روانہ ہوئیں تو حمنہٰ ( 10 سالہ)، اور موسیٰ(5سال) کی خوشی دیدنی تھی ، دونوں کی ساتھ ساتھ سیٹیں تھیں اور دونوں باری باری کھڑکی کی طرف بیٹھتے اور تین ، ساڑھےتین گھنٹے کا پتہ بھی نہ چلا ،، دوبئ کے خوب صورت اور وسیع ایئر پورٹ پر پہنچ گئیں ۔ تمام تر چیکنگ کے مراحل سے گزر کر جب باہر کی طرف آئیں تو ، خالدہ ، کہیں نظر نہیں آئیں ، یہ ایک پریشانی کا لمحہ تھا ، کیوں میَں چاہتی تھی ، نشل اور بچوں کا یہ پہلا غیر ملکی سفر ہے ، اور اس بارےکسی مرحلہ پر کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ ہو، کہیں نشل جلد پریشان نہ ہو جاۓ ۔ فوراً اس کے گھر فون کیا ، ذولفقار نے فون اٹھایا ،
اور اس نے بتایا کہ خالدہ ،او رچھوٹی بیٹی خدیجہ پہنچنے والی ہوں گی ،، مزید پندرہ منٹ گزر گئے ، اور کوئی آثار نہیں،، لیکن پھر کچھ منٹ اور گزرے اور ایک سوِک کار پاس آرکی ، اور بےچاری خدیجہ اس طرح پریشانی اور شرمندگی سے اتری ، جیسے وہ ڈانٹ کھاۓ گی ، ہمیں سلام کیا گلے ملی ، بار بار معذرت کرتی ، ہمارا سامان بھی ڈگی میں رکھنے لگی ، ،، خالدہ نے اس کی دو سال کی بیٹی اٹھائی ہوئی تھی ، ملنا ملانا ہوا اور جلدی سے چل پڑے ، میری نظریں تو مسلسل باہر لگی تھیں ،، لیکن خدیجہ بے چاری معذرت کرتی جا رہی تھی کہ" ہم شارجہ میں رہتے ہیں ، اور دوبئ تک پہنچنے میں ٹریفک کا رش ہمیں لیٹ کر دیتا ہے "، اور ہم ابھی بھی دیکھ رہیں تھیں کہ واقعی رش سے خدیجہ کو کار بار بار آہستہ چلانا پڑ رہی تھی ،اس کی پیاری بیٹی عنائیہ ہم سب کو بہت دلچسپی اور مانوسیت سے دیکھ رہی تھی ، ،، ،،، دو بئی ایئر پورٹ سے نکلے تو خوب کھلا علاقہ تھا لیکن جلد ہی بڑے بڑے " شیڈز "بنے نظر آۓ ، جن میں مشہور برینڈز کے نام نظر آۓ۔ جیسے " آئیکیا " ، یا ، نائیکی یا کھانے پینے کی اشیاء کے بہت بڑے " شیڈز" تھے ، اور اسکے فورا" بعد ٹریفک کا اژدہام ،، اور دوبئی کی کئی کئی منزلہ عمارات ،،،، پھر رہائشی اونچے اونچے فلیٹس سسٹم پر بنی عمارات ،، ،، اور ان کے درمیان سے گزرتی ٹریفک بھری سڑکیں ۔ گویا ہم "' سیمنٹ ، کنکریٹ، ریت بجری اور لوہے" کے " جنگل " میں سے گزر رہے تھے ۔ ،، وہ جو کہا گیا ہے " فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امپریشن"! یعنی " پہلا تائثر ہی آخری تائثر ہوتا ہے " تو کم از کم میرے دل نے کنکریٹ کے اس خوب صورت جنگل کو یکدم افسردہ کر دیا ،، کوئی شک نہیں دنیا جہان کے تجارتی آئکونزکو جس بہترین اور محفوظ فضا میں دوبئی کی حکومت نے ایک مرکز پر اکٹھا کیا اور متوجہ کیا ،،، یہ ایک کمال تبدیلی تھی ۔ اور آج اس جیسی پورٹ کے لیۓ دنیا رشک کرتی ہے ، قریبا" آدھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد شارجہ میں داخل ہوۓ ۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ایک محلے سے دوسرے محلے میں داخل ہو جائیں ۔ کوئی حد بندی نہیں تھی ، سواۓ بورڈ کے ۔ اور کچھ اور منٹ کے بعد خالدہ کے گھر کا موڑ لیا ، ، البتہ شارجہ ، دوبئی کے مقابلے میں کچھ" کم اونچی" عمارات میں ِگھرا ہوا تھا ، ۔
خدیجہ نے گاڑی پارکنگ ایریا میں کھڑی کی ، اور ہم اپنے سامان سمیت لفٹ پر تیسری منزل تک پہنچیں ۔ ذوالفقار اب کام پر جانے کے لیۓ نکل رہا تھا ، جب ہم گھر داخل ہوئیں ، ملنا ملانا ہوا ۔اور وہ رات کو ملنے کا کہہ کر چلا گیا ،، اس وقت شام ہو چلی تھی ، خالدہ نے چاۓ کا اہتمام کر رکھا تھا ، اور بچوں کا یہ حال کہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے ،، بس باہر چلیں !! لیکن شام بھلا کہاں لے جایا جاۓ ،، پھر بھی بچوں کی بے چینی دیکھ کر خدیجہ ، نے کہا چلیں نزدیکی پارک تک چلتی ہیں ، بچوں کی خوشی ہی میرے لیۓ اصل چیز تھی ، اور ویسے بھی ہم چاۓ سے فریش ہو چکی تھیں ، اور پارک تک پیدل ہی پہنچیں ،، بہت ہی خوب صورت پارک ، جس میں کچھ جھولے تو تھےہی لیکن ،، شام ہو چلی تھی ، اور ایک طرف نہایت خوب صورت فواروں کی قطار تھی ، اور وہی وقت ، تھا کہ ڈانسنگ فواروں کا موسیقی کے ساتھ اور رنگین لہروں کے ساتھ مظاہرہ شروع ہوا ۔ آتے ہی بچوں کی دلچسپی کا اتنا خوبصورت شو سامنے آیا تو ان کی آنکھوں کی چمک اور مسکراہٹ نے مجھے نہال کر دیا ،،، ادھر اُدھر کچھ اور پھرنے کے بعد واپس گھر لوٹے ،، تو گھر میں ہمارا انتظار ہو رہا تھا ۔ خالدہ کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ، ایک بیٹی سمیعہ شادی ہو کر انگلینڈ ، اور خدیجہ اور حلیمہ شادی کے بعد یہیں شارجہ میں رہتی ہیں۔ اکلوتا بیٹا اویس اور نزہت ابھی غیر شادی شدہ تھےاور والدین کے ساتھ رہتے اور دونوں جابز پر جاتے تھے ۔ اِس وقت نہ صرف تینوں بیٹیاں ، بیٹا ، موجود تھے بلکہ دونوں داماد بھی ہم سے ملنے بیٹھے تھے ،، حلیمہ کا شوہر تو ہمارا رشتہ دار تھا ،، لیکن خدیجہ کا شوہر لاہور سے تعلق رکھنے والا کاروباری لڑکا تھا ۔ لیکن نہایت سلجھا ہوا ، سمجھدار، لڑکا تھا ،، اس کے ساتھ چند گھنٹوں کی ملاقات سے موضوعاتِ باہمی سے کافی اچھی صحبت رہی ، اور اس نے اپنے گھر آنے کی پر زور دعوت دی ۔ ایسے میچور لڑکے کم ہی ہوتے ہیں ، جو داماد ہوتے ہوۓ بھی صرف رشتوں کے احترام کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہیں، اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتےہیں ، کھانا اکھٹے کھایا گیا ،،، اور قہوے کے بعد محفل برخاست ہوئی ۔ہم سب آرام کرنے کمروں میں آگئیں ، دوبئ کی اگلی صبٰح نماز کے بعد کھڑکی کے پردے ہٹا کر مصروف سڑکوں اور چند ایک درختوں کو جھومتے دیکھا ،،، ذہن اور دل نے ، """ایک ریتلے صھرا پر اُگے کنکریٹ کے جنگل """کو پسند کے خانے میں جگہ دینے سے انکار کر دیا ، بلکہ اُن سب کو داد دیتی ہوں جو نیچر سے دوری کو قبول کیۓ سالہا سال سے بیٹھے ہیں ،،، انسانی مقدر ، جب لکھ دیا جاۓ تو پھر دل خود بخود ٹُھک ہی جاتے ہیں ۔
( منیرہ قریشی 10 اپریل 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

جمعہ، 6 اپریل، 2018

سفرِتھائی لینڈ(7)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
تھائی لینڈ" (7) ( سفرِ تھائی لینڈ کی آخری قسط)۔"
آج ، 2009ء اپریل کی 6 تاریخ تھی ،، اور ہم نے 12 بجے تک ائیر پورٹ پہنچنا تھا ایک ڈیڑھ بجے،کی فلائیٹ سے واپس پاکستان جانا تھا جبکہ شاہدہ نے ابھی واپس ملائیشیا جانا تھا ،، لیکن ہم سب کی فلائیٹ پندرہ ، بیس منٹ کے وقفے سےتھی ، اس لیۓ ائیر پورٹ ہمیں ایک ساتھ ہی جانا تھا ،، اب رضیہ اور خطیر بھائی کو اللہ حافظ کہا ،، انکے کُک اور کپڑے دھونے والی خاتون کا بھی شکریہ ادا کیا ، اور اپنا سامان ، خطیر بھائی کی اسی بڑی گاڑی میں رکھوا یا ، جو ہمیں لینے آئی تھی،، تھائ لینڈ کی گنجان سڑکوں پر آخری نظریں ڈالتے ہوۓ ،،، تھائی لینڈ کے بہت ہی خوبصورت ، صاف ستھرے ، اور جدید ائیر پورٹ کے اندر داخل ہوئیں ،،، یہاں ملائیشیا جاتے ہوۓ آدھ گھنٹہ رکنا ہوا تھا ، لیکن اس وقت صحیح لائن پر پہنچنےاور دوسری کنکٹڈ فلائیٹ کی اتنی فکر تھی کہ ، اتنے جدید ائیر پورٹ کو سرسری نظر سے دیکھا تھا ،، اب چوں کہ گھنٹہ بھر پہلے جا کر بیٹھنا ہوا ، اس لیۓ خوب آرام سے ، جائزہ لیتے ہوۓ ،، دکانوں پر پھر سےنظر ڈالتے جب ذرا ریسٹ کا دل چاہا ،، تو ایک بہت خوبصورت بینچ پر براجمان ہوئیں ،، جیسا میں نے اکثر لکھا ہے کہ شاہدہ ،،، کی شخصیت میں خود اعتمادی کا عنصر نمایاں ، ہمارے ملائیشیا اور اب تھائی لینڈ کی سیر کو ، "یاد گار اور بھر پور" بنانے میں اس کا جو حصہ ہے ،، وہ ناقابلِ فراموش ہے ،،، وہ نہ صرف بولڈ ہے ، بلکہ نئے تجربے کرنے ، اور ان پر فوراًعمل کر بیٹھنا ،، چاہے وہ کچھ بولنا ہے ، کھانا ہے ، کہیں پہنچنا ہے ،، یہ سب اس کی ذات کی وہ کوالٹیز ہیں ، جو ساتھ کی " ہم جیسی " خواتین کو بھی جو ذرا محتاط قدم اُٹھانے کی عادی ہوتی ہیں ،، کو بھی پُر اعتماد کر دیتی ہے ۔ شاہدہ کے ساتھ ہم نے جب بھی سفر کیا ، پُر لطف وقت گزارا ،، چاہے وہ سفر چند گھنٹوں کا ہوا ،یا راتیں گزارنے کا ،وہ اپنی کمپنی سے دوسرے کو خوش رکھنے اور آسانی دینے کی کوشش میں رہتی ہے ،، ہم جب اس کی باتیں گھر میں کرتی ہیں ، تو یہ باتیں سن سن کر میری پوتی ملائکہ اور نواسی حمنہٰ ، نے خواہش ظاہر کی کہ" کاش ہمیں بھی شاہدہ آنٹی کے ساتھ سفر کا موقع ملے " اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے ، کہ ایک نئ نسل بھی شاہدہ جیسے خوشگوار " بزرگوں " کی صحبت چاہتی ہے ( لفظ بزرگوں پر اعتراض کرنا منع ہے )(: 😄😃😎وہ ایک ایسی گائیڈ ہے ، جو سیر کے دوران ، مکمل انجواۓ کراتی ہے ،، کبھی راہ چلتے ، پھیری والوں سے ، کھانے کی چیزیں لینا کبھی ، اجنبی زبانوں کے چند الفاظ سیکھنا ، تاکہ کہیں بولنا ہوا، تو " کچھ پوچھنے میں آسانی رہے،،شاہدہ ، میں جتنی خوبیاں ہیں ،،، یہ اپنے پیچھے والدین کے ہاتھ اور شوہر کے تعاون کی وجہ سے ہوں گی ،،، لیکن ذیادہ خوبیاں ، اس کے اپنے طور پر خود کو پالش کرنے سے آگے بڑھی ہیں ۔ وہ اپنے مسائل چاہے گھریلو ہوں یا باہر کے ،،، سکول کے ہوں یا سفر کے ،،، سبھی کو خود حل کرنے کی پوری کوشش کرتی ہے ، نہ ہو سکیں تب کسی دوسرے کو کہتی ہے ،،اس کی یہ خوبی بھی قابلِ تعریف ہے کہ جو کام کرنا ہے " گھنٹوں کا کام منٹوں میں " کر کے فارغ !!! ہمارے اس غیر ملکی سفر میں ، اللہ نے اسے وسیلہ بنایا ،،، اور ہمارا یادگار سفر ، اسکی دریا دلی ،، مہمان نوازی ، اور اَن تھک طریقے سے ، آۓ ہوۓ مہمان کو پورا وقت دینے کے اوصاف کی وجہ سے ممکن ہوا ، جو بہت کم لوگوں میں ہوتے ہیں ،،اس کی پُرخلوص دوستی پر ہمیں ناز ہے ۔
تھائ لینڈ کے صاف ستھرے ائیر پورٹ پر اس خوب صورت بینچ پر بیٹھے، شاہدہ کی نظر سامنے کی دکان پر پڑی تو وہ فوار" اُٹھی ، اور بیٹھتے ہی ، ہمیں بھی پیش ہوئ ،، جی ہاں ، املی ، اس کی کمزوری ہے ،، املی یہاں " پھلیوں " کی صورت میں ملی تھی ، ایمن ، ثمن نے بھی جھجکتے ہوۓ ، چکھا ،، اتنی مزیدار کہ ہم سب نے ختم بھی کر لی ، اسی چکھنے میں کوشش کے باوجود ، کچھ نا کچھ " پھلی کے ذرے " ، فرش پر گرے ۔ کہ ایک منٹ بعد ہی قریب ہی فرش صآف کرتی ورکر آئ ، اور مسکرا کر صفائ کی ،، ہم نے اسے معذرت بھی کی لیکن ، یہ ایکشن مجھے پسند آیا ۔ 
شاہدہ کی فلائیٹ کا اعلان ہوا ،، بےحد شکریہ کے الفاظ سن کر وہ واپس ہوئی ،، ہمارے ابھی بھی 20 منٹ رہتے تھے ، ظہر ہو چکی تھی ، سوچا نماز پڑھ لیتی ہیں ، ٹونز وں نے بتایا یہ "پریئر روم "چند قدم پر ایک " " نماز کا کمرہ بنا ہوا ہے ۔ ہم گئیں تو صاف ستھری نمازیں بچھی ہوئیں تھیں 10 تک کے نمازیوں کی جگہ تھی۔ اور باقی کمرہ دوسرے مذاہب کے لیۓ تیار کیا ہوا تھا ۔ نماز کے بعد ، پھر تازہ وُضو کے لیے باتھ روم گئیں تو وہ بھی صاف ستھرے ۔ (مجھے یاد ہے ! ہم حج سے واپس اپنے پنڈی کے ائیر پورٹ پر اُتریں ، ، تو میَں واش روم جانا چاہتی تھی ، لیکن میرے بیٹے نے منع کر دیا کہ راستے میں کسی پٹرول سٹیشن میں چلی جایۓ گا ،، یہاں صورتِ حال ابتر ہے ،)ہماری فلائیٹ کا اعلان ہوا ، اور ہم اپنے پیارے وطن کے لیۓ چل پڑیں ، وہ وطن ، جس میں دنیا کے ہر ملک میں موجود اگر کوئ نعمت ہےتو وہ ہر نعمت یہاں موجود ہے ،،، صرف رہنما ، صاف نیت و صاف دل مل جائیں تو زمین پر جنت یہ ہی ہے ، اللہ ہمارے وطن کو تاقیامت قائم دائم رکھے آمین ثم آمین !۔
میری دعا ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی ، جو ذرا سا بھی خوشحال ہے ،، وہ سال میں ایک دفعہ اپنے کسی کم خوشحال رشتے دار کو ، یا سہیلی یا دوست کو ، اپنے گھر بلا کر ایک تفریحی ٹرپ کرواۓ ،،یا ، اپنے وسائل ہیں تو کسی دوسرے شہر میں چند دن کے یہ تفریحی دن گزرواۓ ،،، جب دوسرا بندہ خوش ہو گا ، اس کے اعصاب " ریلیکس " یعنی پُرسکون ہوں گے ،، تو وہ زندگی کے پُر آشوب دور سے نۓ سرے سے لڑنے کے قابل ہو جاۓ گا۔ ، اس وقت آپ کو یا اُسے محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کسی کو سکون کی دولت دے کر کتنی نیکی کما رہے ہوتے ہیں ۔ یہ صرف نیکی نہیں ، اپنے پیاروں کا علاج بھی ہو رہا ہوتا ہے کیوں کہ یکسانیت بیمار بنا دیتی ہے ،، زندگی کے مسائل سے لڑنے کا ،، اور اللہ کی دنیا کی خوب صورتیاں دیکھنے کا ،، یہ موقع دوسروں کو بھی دیں ،،،آپ کو بھی خوشیاں ،ملیں گی ، انشا اللہ !!!۔
( منیرہ قریشی 6 مارچ 2018ء واہ کینٹ )