بدھ، 13 ستمبر، 2023

'' اِک پرخیال"۔۔۔"عشق"

'' اِک پر خیال"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اے خالق و مالک مجھے تجھ سے بہت محبت ہے ،،، لیکن ،،، ابھی تک ضمیر کی طرف سے گواہی نہیں آئی ،،، اور میرا دعویٰ ء محبت درِ قبولیت کے باہر کھڑا ہے ، کہ ابھی محبت کو ،،،"عشق" کی سیڑھی پر قدم تو رکھنے دو !!

( منیرہ قریشی 13 ستمبر 2023ء واہ کینٹ ) 

بدھ، 23 اگست، 2023

" اِک پَرِخیال" .." دستک"

" اِک پَرِ خیال"
' دستک '
۔۔۔۔۔۔۔
ناسا سے بھیجی گئی وائیجر 1 ،،،، سیٹلائٹ نے 1977ء سے سفر کی ابتداء کی ، اور 20 جولائی 2023ء تک وہ اپنے بہت سے فرائض انجام دے کر ہمیشہ کے لئے خلا کی لا محدود وسعتوں کو پیاری ہو گئی ،،، لیکن جاتے جاتے ،،، اپنی شاندار کامیابیوں پر نازاں سائنسدانوں کو جہاں اطمینان اور خوشی دی کہ انسانی ہا تھوں اور اذہان سے تراشے اس ہتھیار نے ان پر بے شمار خلائی راز منکشف کیے ،،، وہیں انھوں نے ایک روشن ستارے کی آواز سن لی ،،، یہ وہ لمحات تھے جس نے انھیں گنگ کر دیا ،،، کہ اس روشن ستارے کا ذکر تو کائنات کی آ خری الہامی کتاب میں 1400 سال پہلے سے موجود ہے ،،، اور اس ستارے کو " طارق" کا نام دیا گیا ،،" طارق یعنی طرق"۔۔۔۔۔۔۔۔
طرق ،،، یعنی ٹھک ٹھکا ٹھک کی آواز ،،، یا ،، کسی چیز پر ضرب لگائی جا رہی ہو تو اس کی آواز ،،، یا "دستک" کی آواز دیتا ستارہ !!!
سورہ الطارق ، پارہ 30 ،،، آیت نمبر 1،2،3
" قسم ہے آسمان کی ، اور رات کو آنے والے کی ، اور کیا چیز بتائے تجھ کو ، وہ رات کو آنے والا کیا ہے ، تارہ چمکتا ہوا "
اس تارے کی دستک دیتی آواز نے کائنات کے رازوں میں سے ایک راز کے عیاں ہونے پر مغربی سائنسدان نہ صرف خوش ہیں وہیں وہ حیرت سے ساکت ہو گئے ، اور سائنسدانوں کی حالیہ تحقیق کو حق تعالیٰ نے آخری الہامی کتاب میں پہلے ہی لکھ دیا ہے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے !!!
دیکھا جائے ،، تو یہ دستک کی آواز،،، انسانی جسم کا حصہ ہے جو اس کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی آچکی ہوتی ہے ،،،، ماں کے پیٹ میں جب چند ہفتوں بعد ہی اس کے دل کی دھڑکن سنائی دینے لگتی ہے تو اس کی آواز بھی کچھ ایسی ضرب لگتی محسوس ہوتی ہے ،،، آگے چل کر یہ وجود لفظ " زندگی " سے تیار ہو کر اس دنیاۓ رنگ و بُو میں بھیجا جاتا ہے تو اس کے اندر اللہ نے اپنے نام جیسے لفظ کا ایک "عُضو" دل کو رکھ چھوڑا ہوتا ہے ،،، اسی دل سے زندگی کے موجود ہونے تک کی ٹھک ٹھکا ٹھک ،،،، کی دستک دی جاتی رہتی ہے ۔۔۔کہ
اے انسان !! ذرا ادھر توجہ کر ،،،، ذرا اس دستک کا پیغام سن !! اور یہیں آس پاس احساس کا ایک عجب وجود بھی موجود ہوتا ہے ،،، جسے " ضمیر " کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کا کام تو ہے ہی دستک دیتے رہنا ۔

ضمیر ،،،کی یہ دستک ، ہمارے ہر بُرے کام پر ضرب لگاتی ہے ، کبھی یہ آواز آہستہ ،،، اور کبھی بہت تیز دستک سنائی دیتی ہے ،، جتنا بڑا اور بُرا کام ہو گا ،،، ٹھک ٹھکا ٹھک کی آواز اتنی ہی بلند ہو گی ،،، جو ہمارے اندر کی دنیا میں تیز تیز چمک پیدا کر رہی ہوتی ہے ۔۔۔۔ یعنی "متوجہ ہو ،،، یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔ کیوں سازشیں بُنی جا رہی ہیں ،،، مت بھولو ،، یہ عارضی پڑاؤ ہے ،،، بہت جلد ان سب حرکات کا حساب ہو گا ۔ لیکن ،،، انسان اپنے مال ، آل ، اور اقتدار کے زعم میں فرعون بنا ،،، اندر کے " طارق " کو نظر انداز کرتا چلا جاتا ہے ،،، تب اس تارے کی چمک مدھم ہوتے ہوتے ، معدوم ہو جاتی ہے ،،، اور حلق کا گھنگھرو بج اُٹھتا ہے ۔ گویا اب دوسری موسیقی کا وقت ہو چلا ہوتا ہے ،،، جَسے مدفن کا سُر کہیں گے ۔  

The symphony of death

The song of eternity
The rise of late night star
Signs of the call of Almighty
( Ghazala Siddiqui )
انگریزی کے یہ خوبصورت اشعار جو غزالہ صدیقی کے ذہنِ رسا نے اس کالم کے جواب میں فی البد یہہ کہے ،،، ایسے تھے کہ جیسے اس کا اختتامیہ ہو ،،
اس کی اجازت اور شکرئیے سے شاملِ انشائیہ کر رہی ہوں ، شکریہ غزالہ !
پیاری خوش گمان غزالہ۔۔اس بات کی وضاحت کر دوں کہ جیسے ہی ستارے طارق کی قریبی دھڑکتی ویڈیو اور پھر آواز اور اس کا دستک دینے کا انداز سیٹلائٹ نے بھیجا ۔۔ تو اس وقت مسلم سائنسدانوں کی طرف سے اپنی الہامی کتاب کی سچائی بتانے کا اللہ نے یہ ایک اور موقع دیا ۔۔اور خود ناسا کے سائنسدان بھی قرآن پر مسلسل نظر رکھتے ہیں۔۔یہ ستارہ جس کا ذکر قرآن میں طارق کے نام سے مذکور ہے ۔ دل کی دھڑکن کی طرح سکڑنے اور پھیلنے کی اس کی ویڈیو دیکھی تومجھے اپنے رب نے یہ استعاراتی ۔۔۔ الفاظ عطا کیے جو کالم کی صورت میں لکھ دئیے کہ دستک تو وہ خالق اپنی ہر تخلیق کے ذریعے وا کر رہا ہے بس ہمیں غور کی فرصت نہیں۔
اور میں کہیں سے بھی دانشور کہلائے جانے لائق نہیں۔۔۔تمہاری محبت کا شکریہ۔ اور تمہاری اجازت سے یہ انگلش ہائیکو شامل کر کے خوشی ہو رہی ہے ۔یہ جو تم نے سوال اٹھایا ہے کہ دستک اب کیوں سنائی دی ہے ۔ تو یہ کہہ تو دیا ہے رب کائنات نے کہ ۔۔ یہ موجودات اللہ نے انسان کو مسخر کرنے کے لئے بھی پیدا کئے ہیں۔۔۔۔ اب جس نے محنت کی اسی کو صلہ ملا ۔۔تو اس رب کو غور وفکر تو ویسے بھی پسند ہے۔۔۔وہ انہی کو نتیجہ بھی عطا کر دیتا ہے ۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔۔۔۔ والا حساب ہے۔
( منیرہ قریشی 23 اگست 2023ء واہ کینٹ )
"محترمہ غزالہ صدیقی کا "دستک" پر اظہارِ خیال"۔۔۔
بے حد دانشورا نہ ، عالمانہ اور دل پہ دستک دیتی تحریر - طارق کی لفظ طرق سے وضاحت پہلی بار جانی کہ ٹھک ٹھک کرنا یا دستک دینا کو کہتے ہیں - فیس بک پہ اس ستارے کی دھڑکن سنی تھی بالکل دھڑکن ہی ہے - اس میں اللہ کی قدرت کے کتنے اسرار ہونگے جس کی وجہ سے اللہ نے اس ستارے کی قسم کھائی !!! یہ دھڑکن جب اللہ نے چاہا تب انسان کو سنائی لیکن اب کیوں ؟ یہ بھی قابل غور بات ہے -- ہمیں کیا پیغام دیا جا رہا ہے ؟
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادی
کیا بساط لپٹنے کو ہے ؟
'مدفن کا سر ' خوب استعمال کیا آپ نے - دوسری موسیقی کا وقت ہوگیا -- واہ
The symphony of death
The song of eternity
The rise of late night star
Signs of the call of Almighty
( Ghazala Siddiqui )


بدھ، 16 اگست، 2023

" لمحے نے کہا،اِک پرِخیال، اور سلسلہ ہائے سفر"۔۔۔کومل ذیشان کی نظر سے

لمحے نے کہا 

کتاب "لمحے نے کہا" آج اختتام کو پہنچی۔ 2022 میں پہلی کتاب مکمل ہوئی۔
سمت، مشرقی عورت، بیوٹی پارلر، بہانے بہانے، من و تو، اذن، بھائی۔۔۔
کتنی پیارے الفاظ، کتنی احساس کی گہرائی۔۔۔
چھ سالہ عمر کے لیے لکھی نظمیں آنکھیں نم کرتی رہیں اور آپ کی اپنی والدہ کے لیے لکھی نظم۔۔۔ان کے آخری لمحے اور آپ کی خودکلامی اور چچا کے لیے نظم جن کا گلاسکو میں انتقال ہوا۔۔۔
وقت انسان کو ضعیفی کی طرف لے جاتا ہے شاید جو دنیا سے چلے جاتے ہیں وہ شاد ہو جاتے ہیں کہ زندگی کے کٹھن جھمیلے سے جان کی خلاصی ہوئی مگر پیچھے رہ جانے والے کیسے جییں یہ تو کسی کو معلوم نہیں۔ ماں باپ کو کمزور ہوتا دیکھنا کتنا کٹھن ہے۔دل چاہتا ہے وقت کو روک دیں۔
اس دفعہ پاکستان میں میں اپنے بزرگوں کو کتنی بے بسی سے دیکھتی رہی کہ بیتتے سال کیسے ان پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اور ایک وقت آئے گا کہ ہم ان کی جگہ لے لیں گے۔
مولانا روم نے فرمایا ہے، " زخم وہ جگہ ہے جہاں سے تمہارے اندر روشنی داخل ہوتی ہے۔" اور کتاب ایسے تھی جیسے زخم سے روشنی نکل کر باہر پھیل رہی ہو۔
منیرہ قریشی سے میرے تعارف کی وجہ لفظ اور کتابیں ہیں اور یہ تعارف بہت جلد گہری دوستی میں بدلا۔
جب میں نے پہلی بار ان کی نظمیں پڑھیں مجھے وہ پہلا پیغام اب بھی یاد ہے جو میں نے انہیں بھیجا تھا۔ "مجھے آپ کو پڑھتے ہوئے خلیل جبران کی یاد آتی ہے۔"
اس وقت کتاب پڑھنے سے پہلے میری پسندیدہ نظم "سوچیں" تھی
اور اب بھی دل کے سب سے زیادہ قریب یہی نظم ہے۔
آپ پہلی ملاقات سے اب تک میرے لیے مشعل راہ رہی ہیں۔ شخصیت، دین اور ادب کے حوالے سے میری رہنما۔
آپ کے لیے بہت محبت ایک بیٹی کی طرف سے۔
کومل ذیشان  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب کہانی "اک پَرِ خیال" کی۔
ایک خوشبو جیسی کتاب تھی۔ بہت بڑی اور اہم باتیں بہت سہل انداز میں بیان کی گئی ہیں۔بہت آسانی سے روانی کے ساتھ، روزمرہ کے تجربات کے ذریعے۔میری خوش نصیبی ہے کہ بطور دوست آپ میری زندگی میں شامل ہیں۔ پڑھتے ہوئے خیال آیا بچپن میں جو سہیلیاں آپ کے گھرکے سامنے رہتی تھیں ان میں سے ایک مجھے ہونا چاہیے تھا۔
"ہار اور ہتھکڑی" میں طاقتور نسائی نقتہ نظر ابھرتا ہے۔
میرے پسندیدہ انشائیے مینا بازار، سخاوت ، عالی نسب یا خاندانی، کارکن چیونٹیاں، ستاروں پر کمند، سقراط ارسطو اور جبران،
اور سود و زیاں ہیں۔اور "اکتارا" نے میری بھی آنکھیں نم کر دیں۔
بہاد الدین زکریا کے مزار پر جب وہ سانولا لڑکا ہلکے سروں میں ہارمونیم کے ساتھ سرائیکی زبان میں صوفیانہ کلام گاتا ہے۔
مجھے محسوس ہوا میں وہیں ہوں آپ کے ساتھ۔
" ابھی اس نے پہلے کے روپے بھی نہیں اٹھائے تھے۔ بند آنکھوں سے ہی اس کی ہلکی سی مسکراہٹ محسوس ہوئی اور میری آنکھوں میں نمی آگئی ۔"
تیس سال کے وقفے کے بعد لندن میں ایک نیگرو مدھم سروں میں گٹار بجاتے ہوئے غیر ملکی زبان میں گا رہا ہے۔
"اس نے نیم وا آنکھوں سے شکریہ کی ہلکی مسکراہٹ دی پھر آنکھیں بند کر لیں اور میری آنکھیں نم ہو گئیں۔"
اور آپ کالکھا یہ جملہ 
۔"سوائے تیری رحمت کے میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں امید واثق ہے یہ ہتھیار کند نہیں ہو گا کیونکہ زنگ سے بچانے کے لیے اسے نمکین پانی ملتا رہتا ہے۔"۔
"سقراط ارسطو اور جبران" میں لکھا یہ جملہ :
"اور یِن یَن کہتا ہے 'نیکی کو انتہا پر لے جائیں گےتو بدی بن سکتی ہے اور بدی حد سے بڑھ جائے تو اِسی میں سے خیر نکل سکتی ہے۔'"
اور بلھے شاہ کا یہ شعر
کن فیکون ہالے کل دی گل اے
اسی پہلے پینگاں لائیاں
اس شعر نے مجھ پر جذب کی کیفیت طاری کر دی تھی اور ڈی این اے کی ایک انسان کے اندر کل لمبائی کا زمین سے پلوٹو تک فاصلے سے موازنہ۔ 
 کتاب کے لیے بہت شکریہ منیرہ آنٹی۔ سلامت رہیں لکھتی رہیں۔
کومل ذیشان 
۔۔۔۔۔۔۔
سلسلہ ہائے سفر
منیرہ قریشی
سفر حج، سفر ملائیشیا، سفر تھائی لینڈ، سفر دبئی، سفر ولایت، ترکیہ جدید 
دریا کوائی کا پل، میگنا کارٹا، کونجوں کی ڈاریں، موبائل کتب خانہ، ٹاور بریج لندن جواونچے بحری جہازوں کے گزرنے کے لیے دوحصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے، کیمبریج یونیورسٹی، بزرگوں کے پیروں کے مطابق مخصوص جوتے، بچوں میں قدرت سےمحبت پیدا کرنا، خاموشی کی جہتیں، ٹکسلا شلا پتھروں کا شہر جسے بعد میں ٹیکسلا کہا جانے لگا، پی آئی اے کا پاکستانی اہلکار، موسیؑ کا عصا ، میرا ذکر شکریہ بہت محبت آپ کے لیے،محل، یوشعؑ کا مزار
 اور"کبھی صبح ایسی نظر آتی کہ باہر پورے ماحول پر بے آواز بارش ہورہی ہوتی اور اندر ایک کمرے میں سناٹا جم کے بیٹھا ہوتا، تضادات کا اپنا حسن  نظر آتا۔"
اتنا ذکر کرنا تھا کہ نہر سے تھوڑا سا پانی پینے کی اجازت والا واقعہ قرآن میں طالوتؑ سے منسوب ہے۔
کومل ذیشان 
۔۔۔۔۔۔۔

 اظہارِ تشکر از منیرہ قریشی

میں اپنے الفاظ کی اتنی پیاری اور دلنشیں پذیرائی پر نازاں ہوں ۔۔۔اور ایسے لمحے بے حد انمول ہوتے ہیں ۔۔۔کیوں کہ یہ بعض اوقات پوری زندگی میں گنے چنے ملتے ہیں ۔۔۔
بہت دعائیں کومل بیٹی کے لئے ! جس نے میری کتابوں کو اپنا قیمتی وقت دیا ۔

پیر، 14 اگست، 2023

" پہچان "( 14 اگست 2023ء)

" پہچان "( 14 اگست 2023ء)
دعائیں تھیں ، کہ اِک ٹکڑا زمین کا ملے
پاؤں کسی سطحء مرتفع کو چُھوئیں
آسماں تو اپنا ہو
تب ہی اپنی پہچان ہو !!!!
یوں اِک وطن ملا
پاکستان بنا، نام مِلا ، اور پہچان بنا
غیروں نے استعجاب سے دیکھا !!
تو تم ہو اس خطہء ارض کے باسی ؟
جوابا" آوازیں بلند ہوئیں ،،،،
ہاں! یہ اس جہاں میں ہمارا جہاں ہے ،
کوشش ہے آبیاری کی
ویرانوں کو بدلنے کی
صحراؤں میں گلستانوں کی
چاہت ہے سر بلندی کی
منزل گرچہ دور ہے بہت دور
اور , بد راہ بیٹھے ہیں ، ہر سنگ مِیل
تعصب و جُہل کے کھنکھناتے سِکوں سے لُبھاتے
لیکن کچھ لوگ انمول ہوتے ہیں !!
باعث بیداری ء شُعور ہوتے ہیں ،
یہ از خُود وطن کی پہچان ہوتے ہیں !
کبھی جناحؒ ،کبھی عمران خان ہوتے ہیں

( منیرہ قریشی ، 14 اگست 2023ء واہ کینٹ ) 

ہفتہ، 22 جولائی، 2023

" پردۂ سیمیں "

" پردۂ سیمیں "
سبھی چہرے تھے حَسیں
سبھی جسم تھے جواں
مدھر دن تھے ، اور افسوں راتاں
زندگی کے باغ کے کیا عجب تھے وجُود
کہ دیدار سے ان کے بھر پاتی تھیں آنکھیں !
مگر ، کچھ وقت کی ڈھیل تھی انھیں
بیشک چند لوگ تھے ہر دور میں ،،،،
لاکھوں کے لئے پُھلجڑیاں !!
خوابناک زندگیاں تھیں بظاہر
تھے وہ بھی تلخیوں کی سیج پر رواں
جکڑ لیتا تھا ان کا حُسنِِ سحر زدہ
بِگل بجتا ہے جب ، ادھیڑ عمری کا
ہر عاشق ڈالتا ہے سرسری نظراں
یہی وقت ہوتا ہے ، ان کی پہلی موت کا !!
اور اِ ک دن حُسن زمیں میں جا اُترا
یادوں کی البم مگر جب کھولو !!
دل دھڑکا ہے ، لب پہ مسکان ہر بار
یہیں کہیں موت کھڑی مسکراتی ہے
مانو نہ مانو میرے وجُود سے ہے یہ بہار
مانو نہ مانو میَں ہی ہوں پردۂ سیمیں کا حقیقی کردار۔

( منیرہ قریشی ، 22 جولائی 2023ء واہ کینٹ ) 

اتوار، 9 جولائی، 2023

" اختیار"(پنجابی )

" اختیار"(پنجابی )
مَیں دعا نہ کر ساں تے کونڑ کرسی
تُو دعا نہ سُنڑسیں ، تے کونڑ سنڑسی
آپے اس تھُڑ دلے ٰآں تُو اختیار دِتا ،،،،،،،،،،،،
ہنڑ او لمی جِیب نہ کرسی تے کونڑ کرسی
۔۔۔۔
" ترجمہ "
میں دعا نہ کروں ، تو بھلا کون کرے گا
تُو دعا نہیں سنے گا تو کون سُنے گا !؟
خود ہی تُو نے بندے کو با اختیار کیا ہے !!
وہ بے کار بحث نہیں کرے گا تو پھر کون کرے گا !!
( منیرہ قریشی ، 9 جولائی 2023ءواہ کینٹ )

جمعہ، 7 جولائی، 2023

" خواب "

" خواب "
کچھ گلیاں سبزہ و گوہر سی
کچھ رستے تھے ، ذمردیں !!
درختوں کی گھنی چھاؤں ٹھنڈی ، ٹھنڈی سی
چھنتی تھی دھوپ بھی کہیں کہیں !
خوان سجے تھے ، طعام تھے رنگا رنگ
میزوں پر تھے برتن قدیم
کھانے کھاتے سنجیدہ لوگ !
ہم پر سرسری نظر ڈالتے ، دبی مسکان کیساتھ
کون تھے وہ جہاندیدہ لوگ
مناظر تھے ، نایاب وہاں
وقت تھا کم یاب وہاں
بند آنکھوں نے یہ منظر محفوظ کیے
دل میں اتارے اور حوالۂ شعور کئے
خوابوں کے نگر بھی کیا خُوب ہوئے
( منیرہ قریشی ، 7 جولائی 2023ء واہ کینٹ )
پسِ احساس۔۔
یہ میرا ایک خواب تھا۔۔۔جو مجسم صورت میں اس وقت سامنے آ گیا جب ایملی برونٹے کے گاؤں کی طرف جا رہی تھیں اور راستے کے ایک گاؤں یا فارم ہاؤس کا یہ منظر مجھے بہت کچھ یاد دلا گیا ۔ اور میں نے جلدی سے یہ تصویریں لے لیں ،،، کاش میں وہاں کچھ دیر رک سکتی ۔۔

پیر، 26 جون، 2023

" اِک پَرِخیال " "کائنات کی مُہر"

" اِک پَرِ خیال "
"کائنات کی مُہر"
جب سے ماہرینِ اناٹمی اور بہترین علماء جنھوں نے اپنی تحقیق میں الہامی کتب کے الفاظ پر عمیق غور و فِکر کیا اور انھوں نے یہ انکشافات کیۓ کہ ، انسانی ریڑھ کے بالکل آخری مُہرے کو اللہ کی ذات مٹی بُرد ہونے سے بچا لیتی ہے اور اس کے ایک جرثومے سے ہی قیامت کے دن قبر سے انسان کو دوبارہ جسم دے کر اٹھایا جاۓ گا ۔ اور یوں انسان کو دوبارہ زندہ کیا جاۓ گا ، خالق کائنات نے اپنی ہی تخلیق کو خود ہی محفوظ کر لیا ۔۔۔۔۔
اب انسانی زندگی میں چلتے پھرتے میں بھی ایک شناخت رکھ دی اور وہ ہے انسان کے ہاتھوں کے انگوٹھے کے چکر ،،، دنیا میں اگر سات ارب لوگ ہیں تو سبھی کے انگوٹھوں کے چکر مختلف بنا دئیے ۔۔ اور یہ کائنات کا وہ سچ ہے کہ جسے کوئی قوم ، جھٹلا نہیں سکی ۔
صدیوں سے نہ تصویر ، نہ جسمانی نشان ، نہ کوئی معذوری ، نہ ہی انسان کی کوئی ذاتی عادت اس کی شناخت کو حتمی و آخری مانا گیا ہے ۔۔
بلکہ انگوٹھے کا پرنٹ ہی زندہ انسان کی حتمی و آخری شناخت قرار پا چکا ہے ۔۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے دنیا کی آخری الہامی کتاب میں واضح کر دیا " کہ میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ، " ،،، اور اپنے رب کے گھر کا طواف کرو نماز پڑھو اور قربانی کرو " ،،،،، اور ،،،، اس طواف کے عمل میں سفید لبادے کو پسندیدہ سمجھا دیا گیا ۔ مشرق ، مغرب ، شمال ، جنوب ،، سبھی رنگ و نسل نے ایک لبادہ پہنا ، اور حکم کی بجا آوری کر ڈالی ۔ اس منظر کو باطن کی آنکھ سے دیکھا تو یوں لگا ،، " کائنات کا بھی ایک پرنٹ " تھم پرنٹ ،،، جو طواف کرتے حجاج ،،، یا سجدہ ریز حجاج ، مکمل کرتے نظر آتے ہیں ،،
انسانی ہاتھ کے انگوٹھے کے عجیب دائرے اور حج کرتے طواف کے والہانہ پن سے مکمل ہوتے دائرے میں کتنی " مماثلت " ہے ۔ اُف ! عجیب ہیں قدرت کے راز ،،،،، عجیب ہیں اُس کے اشارے ، اور استعارے !!

( منیرہ قریشی ، 26 جون ، 2023ء واہ کینٹ ) 

جمعرات، 22 جون، 2023

" اباّ سین کنارے"

" اباّ سین کنارے"
ملگجا اندھیرا تھا چاروں اَور، رُوبرو
دھندلے منظرمیں تھی،مَیں خود کے روبرو
نہ جانے کتنی شبیہیں تھیں آس پاس
وقت تو ساکت تھا، صدیاں گزرتی گئیں رُوبرو

( منیرہ قریشی 22 جون 2023ء واہ کینٹ ) 

بدھ، 21 جون، 2023

" زائچہ"

" زائچہ"
میز پر بچھا کاغذ کا ٹکڑا
زائچے کا دائرہ ہے کھنچا
سبھی شمس و قمر ، ستارے اور سیارے
اپنے اپنے خانوں میں ہاتھ باندھے ہیں کھڑے
مظاہرِ فطرت سے امید ہے قوی
لے کر آئیں گے آسماں سے کوئی خوشخبری
قدم جمے ہیں زمین پر ، نگاہیں ہیں عرش پر
کاسۂ سر کے اندر کی سلوٹیں بھی ہیں منتظر،،،،
کچھ ان کو بھی کھوج لو، زائچہ یہاں بھی ہے بِچھا
ارسطو ، زرتشت، بُدھ یا کنفیوشس !!
سبھی نے پایا ، نروان ، گیان ، مُکت وجدان کا
سبھی نے توڑے بُت ہائے نفس !!
بعد از انبیاء آخرِ زماںﷺ
کامل الکاملاں ، ہاتھ میں فرقاں
آہ ! جلد باز سا جلد باز انساں
کیوں ،، کیا،، کیسے کے چکر
مگر نظریں ہیں عرش پر
مُٹھی بھر مِٹی کھوج رہی ہے سوالوں کے جواب
زائچے کا دائرہ کھنچا ہے میز پر
موجودات سماء اپنے خانوں کے اندر
پانی ، مٹی،آگ، گیسوں کے یہ مظہر
اور ،،، مٹی پوچھتی ہے مٹی سے
کائنات کے اسرار، خلوتوں کے راز
دائرہ کھنچا ہے زمین پر
نگاہیں ٹِکی ہیں عرش پر
تکبّر ،،، یا ، تفاخر
خبریں مانگتا ہے عرش کی ، یہ سادہ بشر
صرف زائچے کے زور پر !!

( منیرہ قریشی ، واہ کینٹ ، 21 جون 2023ء) 

بدھ، 8 فروری، 2023

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( 2)

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( 2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی بچپن کے دور میں جب کبھی گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑی علاقے میں رہنے کا موقع ملتا ،، اتفاق سے اس گھر کے ساتھ چھوٹا سا لان بھی تھا ، جس کے گرد ، اونچے ، لمبے ، گہرے سبز لباس پہنے درختوں کا بے ترتیب سا گھیرا تھا ۔ اور ہم دونوں بہنیں ، چھٹیوں کے بور کام سے فارغ ہوتے ہی اپنے چھوٹے سائز کے کھرپے پکڑ کر اس لان میں چند کونوں میں اس خیال سے گوڈی کرتیں کہ یہاں سے شاید کوئی خزانہ نکل آۓ ، ہم خوب امیر ہو جائیں گے ،،یہ مؑعصومیت کا وہ دور تھا کہ ہر خیال ، سُچا ، اور یقینی لگتا تھا ،، اس لان کے گرد خاموش ، نیم اندھرے میں باوقار پہرے دار بنے کھڑے ہوتے ۔ اور ہمیں ساحرانہ انداز سے اپنے خیال میں پورا یقین ہونے کا یقین دلانے لگتے ۔،، گویا پُراسراریت ، انوکھی سوچ ، اور سچائی کا وہ جذبہ شاید درختوں کی موجودگی کے ساتھ جُڑا ہوا ہوتا ہے ۔ اس دور میں اس لان میں آتے ہی لمبے لمبے سانس لیتیں ، اور اکثر یوں محسوس ہوتا،، ہمارے اس عمل سے درخت ہلکا سے جھوم جاتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں " دیکھا ہم کتنے خوبصورت طریقے سے سبھی جانداروں کی خدمت کر رہے ہیں "۔ لان میں گزرتا وقت ہمیں سحر اور حفاظت کا احساس دیتا ۔ ۔۔ دو ، ڈھائی ماہ بعد شہر واپسی ہوتی ، چند دن اچھے گزرتے ، لیکن درخت ، پہاڑ ، مختلف النوؑع سبزے کے " شیڈز " ،،، یاد آنے لگتے۔ اور گھر کے صحن کے واحد سفیدے کے درخت کے تنے پر آتے جاتے ہاتھ پھیرتی ۔ صحن کے دائیں ،اور بائیں انگور اور چنبیلی کی چھت تک جاتی بیلوں کو پیار سے دیکھتی ۔۔۔ لیکن شہر کی گہما گہمی ، یکسانیت مصروفیت ، اور آکٹوپس جیسی زندگی ،،، اندر ہی اندر بے زار کر دیتی ،، یہ بچپن کا دور کتنا سادہ تھا کہ گھر سے نکل کر چند میل دور کے پارک میں جا کر ہی دل کی دھڑکن تیز رہتی ، اس پارک کے ساتھ بنے ڈیم ، اور اس ڈیم کو مضبوط بنانے کے لیے درختوں کے ایک ذخیرے کو محفوظ کیا گیا تھا ،، اس منظر کے رنگ ،، آج بھی آنکھوں میں بسے ہوۓ ہیں ،،، نیلا پانی ، مٹیالا ، اور گرے تعمیراتی سامان سے بنا ڈیم ،،، سبز درختوں کا جھنڈ ،،، اور بالکل دوسری جانب سرخ چھتوں والی چند دکانیں اور ان کے بنچ ۔ ،،، مختلف رنگوں کی یہ سینری جس میں سبز رنگ نمایاں محسوس ہوتا ہے ۔دل کو عجب شانتی سی مل جاتی ۔ شہر سے دور رہنے والے ، میرے نزدیک خوش نصیب لوگ ہیں ۔ درختوں کی موجودگی مجھے زمین سے تھوڑا اوپر اُڑائے رکھتی۔ مجھے اپنے اصل دوست یہ درخت محسوس ہوتے ، کچھ دیر میں ہی تازہ دم ہو کر اگلے دو تین ماہ کی آکسیجن بھر جاتی اور جیسے نئے حوصلے سے چارج ہوجاتی ۔ درختوں کے جھنڈ خدا حافظ ، خدا حافظ کہتےصاف سنائی دیتے ۔ چھوٹی کیاریوں میں لگے پھول ، بہت نزاکت سے سر گھماتے اور ایک دوسرے سے قدرِ متکبرانہ انداز کا رویہ دکھاتے محسوس ہوتے ، ہُنہ !! ہمیں نظر انداز کرنا کوئی آسان نہیں ، اور واقعی گھر آکر ایک ایک پھول ، ایک ایک پتّا ۔ ایک ایک اینٹ مجھے یاد آتی اور جیسے دماغ میں نقش رہتی ۔ درختوں کے باوقار روئیے ، کا احترام تو جیسے ضروری تھا ۔ اور یوں سلسلہء ہاۓ سوچ چلتے چلتے ، کبھی گھر میں مہمانوں کی آمد سے ٹوٹتا ، اپنی سیر و تفریح کو تفصیل سے بتایا جاتا ،، اور یوں روح کی تسکین ہو جاتی ۔ خاص طور پر جب سامنے بیٹھا مہمان بھی درختوں سے اپنے لگاؤ کا اظہار کرتا ۔ یوں لگتا مہمان کے یہ جملے میزبان کو تمغے پہنا رہے ہوں ۔
( عرصہ بعد نصیبوں کے اچھے ، بُرے کے اصل معنی سمجھ آۓ ) ۔
زندگی نے بتدریج ،،،یہ خفیہ پیغام سکھایا ،،،کہ درخت اکیلا ہے یا ذخیرے کی صورت ،،،باتیں کرتے ہیں ،، صرف سُننے والا ہو ، ان درختوں کو بھی انتظار ہوتا ہے ، کوئی ایسا ہو ، جو سراپا کان ہو ، کون ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہم سے کہے ، " میں ہوں نا " !!!

(منیرہ قریشی ، 8فروری 2023ء واہ کینٹ ) 

پیر، 6 فروری، 2023

" جنگل کچھ کہتےہیں " ( ا)

" جنگل کچھ کہتےہیں " ( ا)
،،،،،،،،،،،،،،،،، انتساب،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مقامِ حدیبیہ کے اس درخت کے نام ،، جس کا ذکر سورہ فتح میں قیامت تک کے لیے امَر ہو گیا اور ، جس کے نیچے کائنات کی عظیم ترین ہستی نے اپنے صحابہ کے ساتھ قیام فرمایا ، اور اعلیٰ و ارفعٰ فیصلے کیے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم اشفاق احمد صاحب رح ،،، اپنے ایک نہایت با ذوق دوست محمد حسین نقش کو تھر سے خط لکھتے ہیں ، " میَں آج کل تھر میں ہوں ، اور یہاں کے مختلف گوشوں کی خاموشیوں کو "ریکارڈ "کر رہا ہوں ۔ سچ پوچھو تو کمرے کے ایک کونے کی خاموشی ،، دوسرے کونے سے مختلف ہوتی ہے ۔ اور یہاں تو علاقہ اور قدرتی ماحول ہی فرق ہے "
کچھ ایسے ہی جنگل یا درختوں کی محبت نہ جانے کب ، کس دور میں دل کے کونے میں ایسی جا گزیں ہوئی ، کہ پتہ بھی نہ چلا اور جڑیں مضبوط ہوتی چلی گئیں ۔ جب کبھی سیر کا موقع ملتا ،، تو نظریں درختوں کے جھُنڈ ، درختوں کی چوٹیوں اور ان کے سایوں کو تلاشتیں ۔ اپنے سرسبز گاؤں کبھی جانا ہوتا ، تو مزاج میں نخرے پن کا احساس غالب رہتا ، بھلے وہ چند گھنٹوں کا قیام ہوتا ، یا دو دن ٹھہرنے کا ،،، لیکن اس قیام کے دوران نو عمری کی تنقیدی سوچ غالب رہتی ،،،لیکن جوں ہی سڑک سے اتر کر گاؤں پہنچنے تک کے کھیت کھلیان کو دیکھتے تو دل جھوم جھوم جاتا ،، قیام چند دن کا ہوتا ، تو قریبی پہاڑی کا ایک چکر ضرور لگتا ،،اس کے ٹیڑھے میڑھے راستے کی گھنی جھاڑیوں کو محبت سے دیکھتی ،، ان جھاڑیوں کی جڑوں میں چھپی ننھی منی مخلوق نظر آتی تو مزید نہال ہو جاتی ،، کہ انہی میں سُرخ مخملیں گاؤن اوڑھے مختلف جسامت کی " بیر بہوٹیا ں ، دل کی دنیا میں پُھلجھڑیاں چھوڑنے لگتیں ،،، کہ ساتھ لی ہوئیں ماچس کی خالی ڈبیوں میں انھیں جمع کیا جاتا ،،، اب وہ ہمارے شہر میں جائیں گی ۔ ( اس بات سے لاعلم کہ یہ کیا کھاتی ہیں ، ان کی خوراک کا انتظام بھی کیا جائے )، نتیجہ یہ کہ گھر واپس پہنچنے تک ایک دو بیر بہؤٹیاں اداس پھر رہی ہوتیں ، دوتین مر چکی ہوتیں ۔۔ لیکن خوشی اس بات کی ہوتی کہ فطرت کے ایک عکس کو شہری شب و روز میں دو چار دن دیکھیں گے ۔ اور یہ حسین کیڑے مر جاتے تو اپنے گھر کے صحن کے ایک ستون کی جڑ میں لگی انگور کی بیل ،، اور دوسرے ستون کی جڑ میں لگی چنبیلی کی بیل میں سے کسی ایک کو ایک طرف ، دوسری کو دوسری بیل کی مٹی میں دفن کر دیتیں ۔ ،،، قدرت اپنی فطرت کبھی نہیں بدلتی ۔ انسان دنیا میں آنکھ کھولنے سے لے کر شہر کی گہما گہمی ، اور کنکریت ، لوہے ا ور جدید ترین طرزِ زندگی کا چاہے کتنا عادی کیوں نہ ہو ، قدرتی نظاروں کے لوازمات سے مزّین دنیا کا جب بھی سامنا ہوا ،اُس مشینی انسان کی آنکھیں شوقِ نظارہ میں ٹھہر سی جاتی ہیں ۔ اور ایک پُر تجسس " آہ ،،، اس کے ہونٹوں سے نکل جاتی ، جیسے دل ،، اس کے دماغ سے پوچھ رہا ہو " پہلے کیوں نہیں ،، ؟ پہلے کیوں نہیں دھیان دلایا " ،،،،،یہ اَور بات کہ آج کا مشین زدہ انسان ،، پھر اسی آرام دہ رہن سہن کو یاد کرنے لگتا ہے ،،، اور آج کا انسان ، روح اور بدن کی دو کشتیوں کا سوار ،،، ہو کر ، دوسری اَن دیکھی دنیا کی تھاہ میں اُتر جاتا ہے ۔
بچپن کے اُس سادہ دور میں بھی درختوں تلے پہنچ کے لمبے لمبے سانس ضرور لیے جاتے ،، کہ والدین کا تعلق زمینوں سے بہت گہرا جڑا ہوا تھا ،، اس وقت کے حساب سے سبزے ، درخت ، اور عام چھوٹے پودوں کی محبت میں غرق تھے ،، درختوں کی میٹھی ٹھنڈک کی اہمیت بتا اور جتا دی گئی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اس شہری ، صحن والے گھر میں بھی ایک سفیدے کا خوب قد آور درخت لگایا گیا تھا ،، جگہ کی کمی تھی لیکن سفیدے کی دوستی کے لیۓ ،،، چنبیلی اور انگور کی بیلیں ، گھر کی دوسری منزل تک پہنچی ہوئی تھٰیں ۔ ایسے محسوس ہوتا ،، جیسے تینوں چوٹیوں کی آپس میں سرگوشیوں میں بات چیت رات ہوتے ہی شروع ہو جاتی ہے ، شاید وہ اپنی خفیہ باتیں ،، گھر میں موجود ستر ، اسّی گملوں کے پودوں سے چھُپانا چاہ رہی ہوتیں ۔۔ سخت آندھی کے دن ،،، سفیدے کے درخت کا بے اختیار ہو کر جھومنا ، ڈرانے لگتا ،، ایسے موقع پر اس کے تنے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے شانت ہونے کا کہتی ،،، اور اکثر محسوس ہوتا کہ وہ پُر سکون ہو گیا ہے ۔۔۔ یا تو وہ میری بات سمجھ جاتا تھا ، یا ،، میَں اس کی وارفتگی کو جان جاتی تھی ،، لیکن ایک خاموشی کی زبان ہم دونوں کے درمیان تھی ضرور !!

( منیرہ قریشی ، 6 فروری 2023ء واہ کینٹ ) 

بدھ، 1 فروری، 2023

" اِک پَرخیال " " احساسِ تفاخر "

" اِک پَرِ خیال "
" احساسِ تفاخر "
پرانی ملازمہ ، ایک دن ملنے آگئی ،، ہم دونوں گپ شپ میں مصروف تھیں کہ نئی ملازمہ کمرے میں داخل ہوئی دونوں ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ علیک سلیک کی ۔ پرانی نے پوچھا " سنا ہے مکان مکمل ہو گیا ہے !؟ "
نئی نے جواب دیا " اوو،، بالکل "! 'او 'کی " و " ذرا لمبی تھی ۔ میں یہ منظر دلچسپی سے دیکھ رہی تھی ،،، پھر سوال ہوا ۔۔۔ " لنٹر ؟؟؟" ۔۔۔۔۔۔۔
اب کی دفعہ جواب میں" و" ذرا زیادہ لمبا آیا " اوووو ، لنٹر " !! اور ساتھ ہی سَر بھی کچھ ٹیڑھا ہوا ۔۔۔جو احساسِ تفاخر سے سرشار تھا ۔
بنک جانا ہوا ، کچھ دیر انتظار کرنا پڑا اتنے میں ایک معززخاتون ، اچھا لباس ، ہاتھوں ، کانوں بانہوں میں مناسب سونے کے زیورات ۔ اسّی کے قریب قریب عمر،، انھوں نےمیچنگ لپ سٹک بھی لگا رکھی تھی ،، کچھ دیر سلام کے بعد چُپ رہیں ،، پھر خود ہی کہنے لگیں" اب میں ریٹائرڈ لائف گزار رہی ہوں ، تیس سال سرکاری سکول میں استانی رہی ہوں ، بال بچوں کو پڑھایا ، بیاھا ، اور اب گرینڈ چلڈرنز کو انجواۓ کرتی ہوں ،،، پھر ان کے چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ آئی ،، اتنے میں ان کا نام پکارا گیا ،،، مینیجر نے نرم لہجے میں پوچھا
آپ کا ٹوٹل اماؤنٹ ،،،، سوال پورا ہونے سے پہلے ہی انھوں نے پُر اعتماد لہجے میں ذرا بلند آواز میں کہا " ستتتر لاکھ " ،،، یہاں احساسِ تفاخر میں اطمینان جھلک رہا تھا ، یہاں " ت" پر پورا زور تھا اور ساتھ ہی انھوں نے مینیجر کی میز پر بایاں ہاتھ بھی کچھ زور سے تھپتھپایا ،،،، گویا کہنا چاہ رہی ہوں ،،، کیا سمجھے !!
فوتگی کے گھر سے جنازہ جا چکا تھا ، غم زدہ خاتون کے گرد دس بارہ خواتین کا گروپ بیٹھا ، ہلکی آواز میں تعزیتی جملے بول رہا تھا ۔ اسی دوران ایک خوشحال خاتون نے دوسری زیادہ خوشحال خاتون سے حال احوال پوچھا ،،،
زیادہ خوشحال کے پوچھنے پر پہلی نے بتایا ،،، سب سے بڑی بیٹی میڈیکل کے آخری سال میں ہے ، دوسرا بیٹا آرمی سے کمیشن لینے والا ہے ،، اس سے چھوٹا او لیول کے دوسرے سمسٹر میں ہے ،،،، میں سینئر لیکچرار بن چکی ہوں ، اب کام کا بوجھ نہیں رہا ،، میاں کو سعودیہ میں پانچ سال سے نوکری ملی ہوئی ہے ،،، بس جی دو حج کر چکی ہوں ،،، مصروفیت ہی مصروفیت ہے ،،، انھوں نے احساسِ تفاخر سے ذرا نظریں ادھر اُدھر دوڑائیں ،، تاکہ جائزہ لیں کہ کچھ لوگ متوجہ بھی ہیں ،،، یا ،،یہ سب کہا ضائع تو نہیں ہو گیا ۔
دوسری زیادہ خوشحال نے بتایا ،،، میرا بھی سب سے چھوٹا ، اولیول کے آخری سمسٹر میں ہے ،، اس سے بڑے ، جڑواں بیٹا اور بیٹی ابھی کالج سے فارغ ہوۓ ہیں اور انھوں نے تو کہا ہے ،، پاکستان کی یونیورسٹیاں کسی قابل نہیں ، ہم تو یا امریکا جائیں گے یا ،، یو کے ۔ اور سب سے بڑی بیٹی فلاں فیکٹری کے مالک کے بیٹے سے پچھلے سال بیاہ دی ہے ،، اور تمہیں تو پتہ ہی ہے ،، ( احساسِ تفاخُر نے ٹھمکا لگایا ) مجھے تو پاکستان کی آب و ہوا میں اب کافی الرجی رہنے لگی ہے ،، اسی لیۓ آدھا سال کسی غیر ملک میں اور آدھا سال پاکستان میں گزرتا ہے ،،میَں انھیں دیکھتی رہی ،، الرجی والے ملک سے ہی
خوشحالی سمیٹی گئی ہے اور اب ،،،،،
دونوں ہاتھوں میں سبزیوںاور پھلوں کے شاپر پکڑے وہ سَرِ راہ ملیں ،، تو بہت ہی اخلاق سے سب کا احوال پوچھا ، میرا بھی فرض بنتا تھا چنانچہ ، پوتے پوتیوں ، نواسوں ، نواسی کا پوچھا ۔۔ کہنے لگیں " ارے بھئی کیا پوچھتی ہو۔ ،، ایک سے بڑھ کر ایک لائق ، فائق ۔۔۔ میرے سبھی بچے غیر ممالک میں سیٹل ہیں ،ان کی اولادیں بھی وہیں پڑھیں گی ،، لیکن بڑے بیٹے کا بیٹا تو اس قدر قابل ہے کہ اسے اُس یونیورسٹی میں داخلہ ملا ہے جہان کسی کو مل ہی نہیں سکتا ،،، لاکھوں میں اکّا دُکا ہی وہاں داخل ہوسکتے ہیں ،، میں ان کی باتیں غورسے سنتی رہی ،، انھوں نے یہ جملہ دو تین دفعہ دہرایا ،،، ان کے اس زور دار اندازِ تفاخُر ،،، سے کچھ ایسا تصور بندھا ،،، کہ امریکا کی اس اتنی بڑی یونیورسٹی میں صرف ، دس بارہ طالب علم ،،، سہمے سہمے پھر رہے ہوں گے ،، جیسے وہ " ہانٹڈ " عمارت ہو َ ۔ اس تصور سے میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ،،، قابل بچے کی دادی نے محسوس کیا کہ مجھے یقین نہیں آرہا ،،، تو انھوں یہ جملے پھر دو دفعہ دہرایا ،، ہم بتا رہے ہیں کہ واقعی وہاں کسی کو داخلہ نہیں ملتا ۔۔تو پھر کس کو داخلہ ملتا ہے ؟ ۔ احساسِ تفاخُر یا احساسِ کمتری ۔
میری تو تینوں بیٹیوں کی شادی ، صحیح وقت پر ہو گئیں ،،، بس جی لوگوں کی تو اکلوتی بیٹھی رہتی ہے ۔۔۔ میری تو پچیس سال سے اوپر ہوئی نہیں کہ
کہ رشتے آۓ ، اور کھٹ سے رخصتی ہوتی گئیں ،،، لوگوں کی تو تیس اور اوپر ہو رہی ہیں ۔۔۔ بس جی نیتوں کا کمال ہے ،،، عقل کُل سے معمُور احساسِ تفاخُر ۔نے سگریٹ سے فاتحانہ راکھ جھاڑی ،،، ( تو پھر تمہارا کمال کیا ہوا )۔۔
ہاتھوں سے محنت کر کے ، یا ، ذہن اور علمی کمائی پر ،،یا ، بچوں کی ڈگریوں ، فیکٹریوں کی ملکیت پر ہر طبقہء سوچ کے لوگ اپنے اپنے " احساسِ تفاخر کے گرد کولہو کے بیل کی طرح گھوم رہے ہیں،،، آنکھوں پر کھوپے تو چڑھے ہیں ، لیکن اپنی مرضیوں سے !!!

( منیرہ قریشی یکم فروری 2023ء واہ کینٹ )