اتوار، 18 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں( سلسلہ ہاۓسفر)"سفرِِ حج" (15)۔

 یادوں کی تتلیاں"( سلسلہ ہاۓسفر)۔"
سفرِِ حج" (15) (آخری قسط)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مجھے اُس بلڈنگ کا نام تو یاد نہیں ، لیکن ہمیں اِس کے نزدیک ہونے کا بہت فائدہ ہوا، کہ ہر نماز وہیں ادا ہونے لگی، اللہ کا شکر کہ ہم سب کی صحت بھی ٹھیک رہی،، اپنی چھوٹی موٹی خریداری بھی ہو چکی ، اب واپسی کے صرف سات دن رہ گئے تھے۔ اس دوران بہت طواف کرتے رہے ، بہت سے حاجی اپنے وقت پر واپس اپنے اپنے دیس لوٹ رہے تھے ،،، یہ کیسا عجیب وقت تھا ، کہ غم اس "مرکزِ دین و آخرت" سے دوری کا اور خوشی اُسی" مرکز کے خالق و مالک" کے بلاوے پر ، ایک فریضہ مکمل کرنے کی ،،،، ! اِن لوٹ جانے والے شمال جنوب ، مشرق ،مغرب کے مسلمان ، جن کی شکلیں ، پہناوے ، اُطوار سبھی میں اتنی رنگا رنگی تھی کہ ، سمجھ نہیں آتا تھا کہ ، خالق کے گھر کو دیکھیں یا خالق کی اِس تخلیق کو دیکھیں ۔ مجھے نیگرو ، لوگوں کے اتنے متفرق خدو خال دیکھنے کو ملے ، کہ سفیدی کے حُسن کے اُلٹ بھی خوب صورتی نے دنگ کیا ،، جب ہم مسجدِ نبوی ﷺ میں تھے ،، تو ایک جمعہ بھی پڑھنے کو مل گیا ،، اور تب ، اُس جمعۃالمبارک کا جو اہتمام ، ان نیگرو خواتین میں نظر آیا ،، یہ خوش کن نظارہ تھا،،جو بہت ذیادہ خوش حال بھی نہیں تھیں ،اُن کی تیاری پر بھی رشک آرہا تھا۔ ہم نماز کے لیۓ جس صف میں کھڑی تھیں ، اس کے بالکل سامنے ایک نیگرو " حُسن کا مجسمہ" صلاۃ التسبیح پڑھ رہی تھی ،، اُس نے بہت نفاست سے سر سے پاؤں تک خوبصورت فریش سبز رنگ کا لباس پہن رکھا تھا ،،، جب وہ فارغ ہوئی ، تو اس کا لمبا قد ، ، اُسے مزید شاندار بنا رہا تھا ۔ اسی طرح ، دو سناگالین بہنیں ہمارے ساتھ آبیٹھیں ، جن میں سے بڑی بہن صرف سکول تک پڑھی تھی جب کہ دوسری نے فرانس سے پی ایچ ڈی کیا ہوا تھا ، دونوں نے اپنی حیثیت کے مطابق بہترین لباس پہنا ہوا تھا ،،، اور یہ نوٹس کیا کہ ذیادہ تر نیگرو خواتین کے لباس میں" لیسسز " کا استعمال بہت وافر اور سلیقے سے ہوا ، تھا ۔ اسی طرح ہم نے مراکش کی خواتین کے شنگھائی کے عبائیہ ٹائپ لمبے کوٹ اور خوبصورت سکارف پہنے دیکھے، تو ہماری ستائشی نظریں ان کو دیکھتی چلی گئیں، کہ اُن کا حسن بھی دوبالا ہو رہا تھا ، چینی حجاج خواتین اپنی ہی نفاست سے آئی تھیں لیکن ترکی ، چیچنیا ، اور ملائیشین ، انڈونیشین خواتین کی سج دھج الگ ہی تھی کہ ان کے لباس ، اس تمام عرصے میں ، کسی وقت گندے نظر نہیں آۓ ۔ اور جمعے کے دن کا اُن کا اہتمام مزید قابلِ رشک تھا ،،،، آہ مگر ایک پاکستان ، ہندوستان ، بنگلہ دیشی ، سری لنکا ،،، ہمارا حلیہ بالکل کسی اہتمام کے بغیر ،، کوئی سجاوٹ نہیں، کوئی ذوق نہیں ،،، ! کچھ سمجھ نہیں آیا  ، ہمیں تو کسی ایک حاجی نے اس طرف متوجہ نہیں کیا کہ اچھے ، خوب صورت حلیۓ میں رہنا ، خاص طور پر جمعے کے دن اور حج کے دنوں میں ،،، خیر ،،،بات ہو رہی تھی کہ اب حج فلائیٹس جلدی جلدی واپس جا رہی تھیں ،،،خانہ کعبہ میں رش کم ہو رہا تھا اُس دن شاید ترکی   کے اُس حاجی کی فلائیٹ تھی ، جو میرے ذہن سے ، کبھی محو نہیں ہوا ،،، اس نے شاید طوافِ وداع کر لیا تھا ، وہ حلیے  سے کوئی کسان یا محنت کش لگ رہا تھا ، ، ، دبلا سا ، جینز ، بشرٹ میں وہ خانہ کعبہ کے کافی قریب ، گُھٹنوں کے بل بیٹھ کر ، اپنی زبان میں ،، باآواز بلند اشعار پڑھ رہا تھا ، اور کعبہ کی طرف کبھی ایک ہاتھ اور کبھی دونوں ہاتھ اُٹھا کر ، جس درد مندی اور سوز سے وہ اشعار پڑھ بلکہ گا رہا تھا ،،،،،، کہ کچھ سمجھ نہ آنے کے باوجود ، ہمارے آنسو رواں ہو گۓ ۔ ہمیں خود بخود اس کے جذبہء عشق کا احساس ہو رہا تھا ،( جو ہم سب کا مشترکہ تھا ) اس ترکی کے 60 ،65 سال کے حاجی کو پتہ تھا ، دوبارہ آنا ہو نہ ہو ،،، اسکا یہ والہانہ پن ہر گزرنے والے حاجی کو رُلا رہا تھا ۔ ،، کچھ لوگ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں ، جو برملا اپنے اظہارِ محبت کا سلیقہ رکھتا ہے ۔
اب ہم جس بلڈنگ میں تھے ،، اس کے کچن میں برتن کم تھے ،، یا یہ برتن بھی ، پچھلے حاجیوں کے ہو سکتے تھے ، بلڈنگ سے روانگی کے وقت ہم نے بھی اپنے ساتھ لاۓ کافی برتن چھوڑ دیۓ ،،، سامانِ سفر باندھا گیا اور 19جنوری 2006ء کی صبح ہم نے طوافِ وداع کیا ،،، اور ، کن جذبات کے ساتھ واپس آۓ ،،، یہ سب کے اپنے اپنے تھے ۔ دوپہر تک بسیں آن پہنچیں ، ، ، طبیعت کی خرابی پھر شروع ہوگئی ،، سفر مجھے خوف میں مبتلا کر رہا تھا ،، جدہ ائرپورٹ پہنچے اور دو گھنٹے کی کڑی دیکھ بھال کے بعد ، جب جہاز کی طرف جانے کے لیۓ قدم بڑھاۓ تو سعودی حکومت کی طرف سے ہر حاجی کو اردو ترجمہ و تفسیر کے قرآن پاک ، دیۓ گۓ ،۔ ہم نے جہاز کی سیٹیں سنبھالیں ،، بیٹھ کر اپنے آنے والے استقبال کا تصور کیا ،، اور کچھ دیر آنکھیں بند کرلیں ،،، عصر اور مغرب جہاز میں ادا ہوئیں ،، اور عین مغرب کےبعد جہاز راولپنڈی ایر پورٹ پر اترا ،، ہمارے سامان لانے ، اور ہمیں مزید چیکنگ تک ایک ویٹنگ لاؤنج میں بٹھایا گیا ،، معلوم ہوا ، میرے گھر سے علی آگیا تھا ،، لیکن باقی تینوں نگہت ، اقبال بھائی اور ان کے بھتیجے پاشا کا استقبال ان کے گھر کے پانچ ، چھے لوگ آۓ ہوۓ تھے ،،، ایئر پورٹ کے حکام کا انتظام اور رویہ ، افسوس ناک تھا ۔ لاؤنج میں زم زم کی بوتلیں پھٹ چکی تھیں ۔ اور سارے میں پانی ہی پانی پھیل ہوا تھا ۔ عشاء کی نماز یہیں لاؤنج میں پڑھ لی گئی ، اور جب باہر آۓ تو پاشا کی پھوپھی کی طرف سے ہمیں بھی گلاب کے ہار پہناۓ گۓ ۔ ہم اس قسم کے استقبال کی قائل نہیں ہیں ، اس لیۓ علی کو پہلے ہی منع کر رکھا تھا ،،، ہم نے ایک فریضہ ادا کیا ہے ،،، اللہ کی جتنی شکرگزاری کی جاۓ، اتنا کم ہے ،،،، باہر آکر جوجی نے اور میَں نے علی کو پیار کیا ، ہاشم بہت  پُرجوش تھا ۔ سامانِ زیست کار میں رکھا گیا، پاشا کے گھر والوں نے سب اپنے مہمانوں کے لیۓ گرینڈ کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا ، اور کہا گیا ،" آپ نے بھی آنا ہے " ،، لیکن ہم نے معذرت کر لی ۔ اور واہ کینٹ کی طرف روانہ ہو گۓ ،، راستے بھر سب کی خیریت اور نئے مہمان کا پو چھتے رہے ،، ایمن ثمن ، ماہرہ ، جوجی کی بیٹیاں، آپا کے گھر میں آچکی تھیں ، میری بیٹی بھی پنڈی سے واہ آ چکی تھی ۔ اور ہم سیدھے آپا کے گھر ، داخل ہوۓ تو رات دس ، بج چکے تھے ، بر آمدے میں سارا ہمارا خاندان موجود تھا ، باری باری سب سے گلے ملے اور، ، ، پھر نۓ مہمان محمد عمر علی قریشی کو گود میں لیا ،،تو وہ ہو بہو ، ویسا ہی تھا ، جیسا میں نے خواب میں دیکھا تھا ،،،،،، کھانا کھایا گیا ، اور تھکاوٹ سے چُور ، ہم جلد سونے چل پڑیں ،،، اور صبح ملاقات کا کہا۔
اور اگلا دن ،،، اور اسکے بعد اگلا پورا مہینہ ، ہمارے مہمان کا بلامبالغہ ، وہ رَش رہا کہ ، ، ہمیں آرام کا موقع بھی نہیں مل رہا تھا ،،،جس کا نتیجہ تھا کہ کئی مرتبہ ہم مہمان کے بیٹھنے ، کے دوران نیند سے بےحال ہو جاتیں، کہ آنکھیں بند ہو ہو جاتیں۔ نمازیں پڑھنے کا موقع بہ مشکل ملتا ،،، محبتیں پہنچانے والوں کی محبتوں کا بےحد شکریہ ۔ ،، ہمیں تو خود اندازہ نہ تھا کہ ہم اتنے استقبال کے مستحق ہیں ۔ الحمدُ للہ ، آخر کار ، دو ماہ تک یہ سلسلہ کچھ کم ہوا ،،،،،،،!! ۔
اگلے سال کا حج پھر جنوری 2006ء میں آیا ، اور میں نے نگہت ، اقبال بھائی ، کو فون کیا ،، میَں نے دلی شکریہ کہا کہ آپ کے ساتھ نے ہمیں نہایت تسلی ، اور اطمینان سے یہ فریضہ ادا کرنے کا موقع دیا ،،، میں آپ کی مشکور ہوں ،، وغیرہ ، پاشا کو الگ فون کرکے اس کی خوشگوار طبیعت کے تحت ، ہمارا بہت اچھا وقت گزرا ، اصل میں میَں ،،، تو بس وہیں مکہ اور مدینہ کے روز و شب میں اٹک گئی تھی ۔ ( ہو سکتا ہے وہ اس سپل میں نہ ہوں ) اس سے اگلے سال ، پہلی حج فلائیٹ گئی ،، پھر نگہت اور اقبال بھائی کو شکریہ کے جملے بولے ،،، میَں واقعی ان تینوں کی مشکور تھی ،، کہ ایک شریف اور  کوآپریٹو, , فیملی نے ہمیں ، محبت ، عزت اور تحفظ کا احساس دیۓ رکھا ،،، اور ،پھر تیسرے سال بھی میں نے شکرئیے کا فون کیا ،، لیکن چوتھے سال فون " نہ "کیا کہ وہ کہیں گے اسے اور کوئی کام نہیں ،،،تو جواباً تینوں فیملی ممبرز اگلے دن  میرے گھر آگۓ ،،، کہ ہم بھی حج کی پہلی فلائیٹ کے ساتھ ، تمہارے فون کا انتظار کرتے رہے اس دفعہ تمہارا فون نہ آیا ،، تو سوچا ہم ، تمہیں سرپرائز دیں ، میں نے کہا " دراصل میں حج کے" سِحر" ،، مکہ ، مدینہ کے شب و روز سے نکل ہی نہیں پائی تھی ، میں اپنے ساتھیوں کا شکریہ کیوں نہ ادا کروں کہ جن کے ساتھ نے ہمیں مطمئن کیۓ رکھا ، خاص طور پر پاشا کا شکریہ کہ ، اس کی خوش مزاجی سے سارا وقت ماحول خوش گوار رہا، اور ہاشم کو ایک اچھا دوست بھی،مل گیا ، جس نے اسے کمپنی دی ، کہ مَیں بھی بےفکر رہی ،،، یہ بہرحال ماننے والی بات ہے کہ اگر سفر میں گروپ ممبران ، تعاون ، و احترام کرنے والے ہوں ، سب کا نقطۂ نظر سننے والے ہوں ،، تو سفر میں ٹینشن نہیں رہتی۔ 
آج یہ ہمارے یا میرے" سفرِ حج " کا آخری صفحہ تھا ،،، مَیں نے بہت سے سفرِحج پڑھے ہیں ،، وہاں کی تاریخی معلومات دینا ، بہت اچھی بات لگتی ہے لیکن ، مجھے یوں لگا کہ یادگار ، ناقابلِ فراموش سفر بس سادے انداز سے ،، صرف اپنے جذبات کے تحت اس سفرِحج کو بیان کیا جاۓ ،،، جو میَں نے محسوس کیا ،لکھ دیا ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ میرے احساسات ، سب گروپ ممبران کے ہوں ۔ حالانکہ اس سارے سفر میں " ہمارے " کا صیغہ ذیادہ استعمال ہوتا رہا ۔ کہ "ہمسفر" ، سارے سفرکے دوران ایک یونٹ کی طرح ہوتے ہیں ،، اللہ اُن سب کو دنیا و آخرت میں آسانیاں عطا کرے آمین ۔ اور ہمارے حج کو قبول فرما لے آمین۔
دو سال بعد مجھے " الھُدیٰ سکول " میں حج سے متعلق لیکچر دینے کے لیۓ بلایا گیا ،، یعنی ویسی ہی ایک ورکشاپ کروائی گئی ، جیسی ہم نے ایٹینڈ کی تھیں ۔ تب میں نے وہ تمام پوائنٹس یہاں بیان کر دیۓ کہ آپ کا حلیہ ، آپ کا دوسروں سے رویہ ،، اور ، آپ کا ہر قدم پر دوسروں کے ساتھ تعاون ، نا صرف اللہ کے نزدیک پسندیدہ افعال ہوں گے ، بلکہ آپ اپنی قوم کی نمائندگی کر رہے ہوں گے ،، اسے آسان نہ لیں ، سنجیدگی سے لیں اور ان پر عمل کریں ۔ نیز میَں نے لیکچر کے دوران بتایا کہ میَں ،نے کبھی مکمل چیک اَپ نہیں کروایا تھا کہ مجھے کیا ہوناہے ؟ ۔ کوئی بی پی نہیں کوئی شوگر نہیں ،،، لیکن وہاں کی مسلسل طبیعت کی خرابی ، بھوک ختم ، ہو گئی تھی میرا ، 8 کلو وزن کم ہو گیا تھا ،، واپس آکر چیک اَپ کرایا ، تو علم ہوا ، گال بلیڈر ( پِتہ) ، سٹونز (پتھروں)سے بھرا ہوا ہے اور فوری آپریشن ہونا ضروری ہے ، چنانچہ آپریشن ہوا ،، اور اب میَں بالکل ٹھیک ہوں ، آپ لوگ بھی اپنا چیک اَپ کروا لیں" ۔ 
مجھے اکثر لوگ پوچھتے ہیں ،، آپ دوبارہ حج پر نہیں گئیں ، ، میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ " پہلے کے سِحر سے نکلوں تو اگلے کا سوچوں " ،، اور یہ بات تو طے ہے کہ اس رب ِ ذوالجلال والاکرام کا بلاوہ جب تک نہ ہو ،کوئی وہاں قدم نہیں رکھ سکتا ، ! 
واپس آکر ایک نظم جو اپنے رب کی میزبانی کی محبت میں لکھی تھی ، پیشِ خدمت ہے اسے صرف " والہانہ عشقِ " کے اظہار کا طریقہ جانیۓ ، ۔
 حرمِ کعبہ پر پہلی نظر " (جنوری 2006ء)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، 
میَں آج کس مقام پر ہوں 
یہ خواب ہے یا حقیقت ،، 
میرا جسم ، میرے ساتھ ہے ؟
یا ۔۔۔ شاید مَیں اپنے مکاں میں نہیں ہوں ،
تُو نے مجھے میزبانی بخشی ، 
میرے منہ میں وہ لفظ بھی ڈال دے 
کہ تُو راضی ہو جاۓ ،،،،
تیری شکرگزاری کا حق ادا ہو جاۓ 
میرے مالک وخالِق !!
زمین کے ذروں ،،،
آسمان کے تاروں ،،،
زمین کے پتوں ،،،
آسمان کے قطروں سے بھی ذیادہ ،
تشکر ،، تشکر ،، تشکر !
کہ میَں حاضر ہوں ، 
تیرا کوئی شریک نہیں
کہ میَں سرتاپا ،،،،
لرزیدہ آنسو ،
میَں حاضر ہوں 
میرا اندر باہر کالا 
میرا دامن لِیرو لِیر 
تُو غنی از ہر دو عالم ، مَن فقیر ( علامہ اقبالؒ)
مَیں سراپا آنسو !
تُو بخش دے ، اے سمیع و بصیر !!!!
( منیرہ قریشی 18فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

جمعہ، 16 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں( سلسلہ ہاۓ سفر)"سفرِِ حج " (14)۔

یادوں کی تتلیاں " ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
سفرِِ حج " (14)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
خیال تھا کہ خانہ کعبہ ، کی سب سے اونچی چھت پر رَش کم ہو گا ، لیکن یہاں بھی کندھے سے کندھا جُڑا ہوا تھا ۔ جب ہم نے طواف شروع کیا تو ہم نے اپنی آگے پیچھے والی لائن بنائی ، پاشا سب سے آگے ، پھر اقبال بھائی ، پھر نگہت اور اسکے پیچھے ، جوجی ، پھر مَیں ، اور آخر میں ہاشم ،،، رَش تو ہونا ہی تھا ، کہ 25 لاکھ ، 65 ہزار میں سے اگر آدھے حاجی بھی پہنچ چکے تھے ، تو یہ وقت ، سب کے جذبات کے کا نقطہء عروج بھی تھا کہ آج رات طوافِ زیارہ مکمل ہونے جا رہا ہے،، گویا " حدتِ جذبات ،، حدتِ وجود ہاۓ انساں ،، اور حدتِ الفاظ اِلہیٰ،،،،،،،،،،،،،،میَں اُس " تپش" کو محسوس کر رہی تھی ،، لیکن بیان سے قاصر تھی ،، ،طواف ، اور تلبیہ کا جو ردھم اِس طواف میں ہوتا ہے ،،( اگراُن قارئین نے محسوس کیا ہو گا ، جو حج کر چکے ہیں ،، یا بعد میں اس " احساس کو " ذرا ری کال ،کر کے محسوس کریں تو یاد آجاۓ گا ) کہ ایسا ردھم ،، ایسی گونج ،، زمین اور آسمان کے درمیان تھی کہ ، طواف کے دوران سارے،۔۔" خانہ کعبہ ، کی مساجد ،، اور جس منزل پر ہم مصروفِ طواف تھے ،، سبھی پر ایک لرزا سا طاری محسوس ہورہا تھا ،،فضا میں عجیب سا بھاری پن تھا ، مَیں اپنے حواس میں صرف اور صرف ، ہلکی ہلکی گونج محسوسکر رہی تھی ،، بلکہ مَیں سراپا " گونج ِ تلبیہ " بن چکی تھی ،،،، "سات چکر ختم ہوۓ ، کب اور کیسے ،،، مجھے ڈولنے اور گرنے سے اللہ نے بچاۓ رکھا ،، اور اس کے لیۓ ہاشم بیٹے کے دو ہاتھ مسلسل میرے کندھوں پر ٹِکے رہے !!! اللہ ہی اسے ہر قدم کا اجر عطا کرے ،، یہ طواف جو عام حالات میں ایک یا ڈیڑھ گھنٹے میں ہو جاتا تھا ،، آج دو ، ڈھائی گھنٹے میں مکمل ہوا ،،ہم نے دو نفل کتنی مشکل سے پڑھے ، کیوں کہ جگہ سجدے کے لیۓ بھی نہ مل سکی تھی،،،،،لمحے بھر کے لیۓ نیچے جھانکا ، تو پھر ، دل ڈول گیا کہ عشاق کا دیوانہ وار ، طواف دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ، محسوس ایسا تھا کہ" نیوکلس ' کے گرد مالیکیولز،،، رقص کر رہے تھے ، ۔
؎ حرمِ پاک ، عُشاق سے بھرا ہوا تھا
آنسوؤں سے پیالہ چھلک رہا تھا !
تیرا دَر ، فریاد سے لرز رہا تھا
کرم ، رحم ،فضل ، یا رب العالمین
کسی طرح جب نیچے بازار تک پہنچے ،،، تو رات کا ایک بج چکا تھا ، مختصرروحانی سفر کے بعد،،اب ہم "دنیا " میں واپس آچکے تھے،، اور کھانے پینے کی فکر ہوئی۔ کسی چھوٹے ، کسی بڑے ، کسی درمیانے کسی بھی ہوٹل ، ڈھابے ، میں کہیں جگہ نہ مل رہی تھی ، آخر ایک ریسٹورنٹ کی دوسری منزل میں ، ایک خوب لمبی میز ، جس کے ایک سِرے پر دو لڑکے اور دو لڑکیاں بیٹھی تھیں ،،اور کوئی میز خالی نہ تھی ، لہذٰا ہم بھی اُسی میز کے دوسرے سِرے پر بیٹھ گۓ ،،، کھانے میں صرف دال ، چاول تھے ،، جو غنیمت لگے اسی کا آرڈر دیا ،، ہم آپس میں گفتگو کرنے لگے ،، ہر ایک اپنے آپ کو یقین دلا رہا تھا کہ " ہم نے حج کر لیا ہے " ،،، یہ احساس ، یہ تاثر ، یہ خوشی ،،، کچھ ایسی تھی کہ ، لگتا تھا ، جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں ، ( مجھے تو یوں ہی لگ رہا تھا ، باقی اللہ بہتر جانتا ہے) ۔۔ ابھی ہمیں ، 15 منٹ ہی ہوۓ تھے کہ ، ہم سے ایک ڈیڑھ گز پرے بیٹھے ، چاروں حاجی، صاحبان کی بات چیت کانوں میں پڑنے لگی ، جو باوجود ، کوشش کے کہ ہم نظر انداز کر دیں ، سنائ دیئۓ جا رہی تھی ، ان میں سے ایک باریش لڑکا ، 30 ،32 سال کا ،،، مسلسل اپنے سامنے بیٹھی ،نوجوان ، عبائیہ میں ملبوس ، دبلی سی لڑکی کو مخاطب کر کے ا عتراضی جملے بولے جا رہا تھا ، اور لمحے بھر کو اُن پر نظر ڈالتے ہی ، لڑکی کی حیران شکل اور افسردہ آنکھوں میں اٹکے آنسو ، نظر آگۓ ،،میرا دل سخت رنجیدہ ہو گیا ،،، ابھی ابھی ،، بس ابھی ابھی ،،، ہم سب نے جو روحانی ، سفر کیا تھا ،، اس کے قدموں کے نشان تو یہ پیچھے نظر آرہے ہیں ،،، کیا شیطان کے اثرات اتنے طاقتور ہو جاتے ہیں ،،، کہ ہم نے " احرام " نہیں اُتارا ،،، اخلاق کا چوغہ اتار ڈالا ہو،،، ،،، باقی تینوں افراد خاموش تھے ،، ہم سب بھی اداس سے ہو گۓ ، ، کہ اس دوران ویٹر نے ، دال چاول سَرو کیۓ ، سب نے پلیٹوں میں ڈالنے شروع کیۓ ،،، بھٹکا ہوا انسان مسلسل اُس کمزور پر اپنا رعب ، اپنا غصہ نکال رہا تھا ،، آواز اگرچہ بہت بلند نہ تھی ،لیکن ایسی کہ ہم تک پہنچ رہی تھی ،، میں نے اپنی چالوں کی ڈش ، اور دال کا ڈونگا اُٹھایا اور ، اُن کے قریب جا کر کہا " بچو ،،السلامُ علیکم ،، اور حج مبارک ، حج مبارک !۔
وہ مجھے حیران ہو کر دیکھنے لگے ،،، لیکن میَں نے انھیں کوئی موقع دیۓ بغیر کہا ،، لو بھائی ، کچھ ہمارے کھانے میں سے بھی لو ، آج بہت خوشی کا موقع ہے ،،، اللہ کا شکر جس نے حج پورا کروایا ،، آپ لوگ کہاں سے آۓ ہیں ، مَیں پاکستان سے ہوں ،، وہ سب ساکت مجھے دیکھ رہے تھے ،،، لیکن ، مجھے باقی تینوں افراد کے چہروں پر فوراً ریلیکس ہونے کے واضح تاثرات نظر آۓ ،، اور بولنے والا لڑکا تو چُپ ہو کر رہ گیا ، دوسرا باریش ، اُسی عمر کے لڑکے نے مسکرا کر انڈیا کہا ،، ! مَیں اتنی جلدی انھیں چھوڑنا نہیں چاہتی تھی ، چنانچہ دال چاول تو انھوں نے یہ کہہ کر واپس کیۓ کہ نہیں آنٹی ، ہم کھانا کھا چکے ہیں ،،، لیکن میَں نے پوچھا آپ سب آپس میں کیا لگتے ہیں ،، تب مسکراتے لڑکے نے بتایا ہم ، وٹے سٹے والے، شادی کے جوڑے ہیں ،،، وہ کتنا شریف لڑکا تھا ، جو اپنی بیوی کے بھائی سے جو اُس کا بہنوئی تھا ، صبر سے بہنوئی کی فضول باتیں سن رہا تھا ، لیکن مَیں نے یہ جملہ ضرور کہا " بچو،، یہاں شیطان خصوصی طور پر اپنی ڈیوٹی خود دیتا ہے ،،، اور ہمارے راستے کھوٹے کرتا ہے ، ہماری نیکیاں ڈبوتا ہے ، ہوشیار رہنا ،" ،، سب مجھے غور سے دیکھ رہے تھے ،، خاص طور پر ، اداس آنکھوں والی نے اپنے اٹکے آنسو پونچھ کر ، فوراً پوری توجہ میری طرف کر دی ، ، اس سب واقعے کو لکھتے ہوۓ بھی میری آنکھوں کے سامنے ، حج جیسے بہت اہم بہت بڑے فریضے کو مکمل ہونے کی خوشی اس کے چہرے پر نہ تھی ،، بلکہ اس کی آنکھوں میں دکھ اور حیرانی ، ٹھہر سی گئی تھی ،،، آہ ، انسان ، بے صبر اور خسارہ پانے والا۔۔۔ 
مجھے اپنے گروپ سے جوجی اور نگہت کے بلاوے والے جملے سنائی دیۓ ۔ آجاؤ ، کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے ،،، تب میں نے انھیں دوبارہ حج مبرور کہا ،، وہ تینوں مسکراۓ ، اور اللہ حافظ کہہ کر اپنے گروپ میں آگئی ،، قریباً سب نے ہی مجھے تنبیہ کی،"ایسے ہر کسی کے معاملے میں ٹانگ نہ اٹکایا کریں ،، لوگ برا منا جاتے ہیں ، وہ اگر کہہ دیتے ، جائیں اپنا کام کریں ،،، وغیرہ وغیرہ ،،، ! میَں نے کہہ دیا بھئ ، میری ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے ، شاید آئندہ بھی نہ رک سکوں ،، میرے چند الفاظ نے انھیں وقتی ریلیف تو دیا ۔ ،اور آج بھی یہی عادت ہے ، بلکہ اب تو اپنے بڑھاپے کا خوب فائدہ اُٹھاتی ہوں ،، ہنسی میں یا سنجیدگی سے ایسی فضولیات پر بول پڑتی ہوں ،،، اب ہم نے ٹیکسی لی ،، یا بس میں گۓ یاد نہیں ، واپس عزیزیہ پہنچے ،، تب تک صبح کاذب ہونے والی تھی ،، کچھ دیر سب فریش ہونے میں لگے ،، اور جب فجر ہوئی تو ، اللہ پاک کے آگے دیر تک سجدے میں پڑی رہی کہ ، جو سجدے ، جو قرآن مکمل ہوا ، جو مشقت یہاں سہی ،، سب تیرے حکم اور ، محبت کی وجہ سے ادا ہوا انھیں قبول کرنا ،، ہمارے لیۓ باعثِ نجات ، ومغفرت کرنا ،،، آمین ثم آمین۔ 
صبح ہوتے ہی ہم ، اپنے "کمرہ پڑوسی" کے پاس گئیں ، اُن سب کو حج کی مبارک دی ،، اتنے میں ، عاطف مٹھائی لے آیا جو ہم نے خوشی خوشی کھائی ،،بزرگ خاتون بہت خوش تھیں کہ اللہ نے وہیل چیئر کے باوجود اتنے بڑھاپے اور طبیعت ،کی خرابی ،کے باوجود حج کے تمام ارکان کو مکمل کروا دیا ، اب 40 دن میں سے باقی دن بھی خیریت سے گزر جائیں گے ،، ہم نے اُن کے تبلیغی بیٹے کو ایک دن نہیں دیکھا تھا ، وہ ہمارے کمرے میں آمد کے ساتھ ہی نکل جاتا ،، حالانکہ اس کی بیوی بہت خوش مزاج لڑکی تھی ،، ہم سب نے ایک دوسرے کے ایڈریس اور فون نمبر لیۓ اور دیۓ ، ثمینہ ، بہت باشعور اور میچور لڑکی تھی ،، وہ اور اس کے بھائی میجر عاطف ، نے والدہ کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ، بلکہ ثمینہ ایک دفعہ بیمار بھی ہوئی لیکن ماں کے لیۓ ہر لمحہ کھڑی رہتی ،، اُن کی ماں کے دل سے پتہ نہیں کتنی دعائیں نکلتی ہوں گی ،،،لیکن ، اس پورے 41 دن کے قیام میں ، اتنے تھکے ہوۓ ہوتے کہ بےہوشی کی نیند سو جاتے ،، لیکن پھر بھی پہلا خواب ، اپنے پوتے کی خوشخبری کے سننے کے بعد دیکھا تھا کہ وہ میری گود ، میں ایک آنکھ کھول کر دیکھتا ہے ،، اور خوب صحت مند بچہ ہے ، مِنیٰ کے میدان میں حاجیوں کے خیموں کےدرمیان پتلی گلیاں بنی ہوئیں تھیں ، میَں نے وہیں کے قیام میں دیکھا ،، کہ انہی گلیوں میں سے گزر رہی ہوتی ہوں ، کہ ایک پھیری والا ، گلے میں معمولی سامان والا کا لکڑی کا بکس سا اُٹھاۓ جارہا ہے جس میں ربن ، بندے وغیرہ ہیں ۔میَں سوچتی ہوں ، بچوں کے لیۓ کچھ چیزیں اسی سے لے لیتی ہوں ،، اور چیزوں پر متوجہ ہوں ، گلی میں کوئی خاص لوگ نہیں ہیں ،، ایک دم میرے سامنے اباجی آجاتے ہیں ،، اور مجھ سے سیدھے سے پوچھتے ہیں " احسان تمہارے ساتھ نہیں آیا ؟ " مَیں انھیں خوشی والی حیرت سے دیکھتی ہوں کیوں کہ انھوں نے بیرٹ کیپ ، اور سفاری سوٹ اور لونگ بوٹ پہنے ہوتے ہیں ،، ہاتھ میں وہی فوجیوں والی چھڑی بھی ہے ، میں کہہ تو دیتی ہوں " اباجی آپ یہاں ،، اور بھائی جان تو نہیں آۓ " میرا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اباجی ، بھائی کا نام ' احسان ' اتنا اونچا پکارتے ہیں کہ سارے مِنیٰ کے میدان میں ان کی گونج سنائی دیتی ہے " ، ، مجھے عجب لگتا ہے کہ میَں کہہ رہی ہوں کہ بھائی جان نہیں آۓ پھر بھی پکار رہے ہیں !!! اور پھر آنکھ کھل گئی ،، واپس آکر میں نے بھائی جان کو یہ خواب سنایا ،،، میَں نے کہا کہ اب آپ تیاری کریں ،، لیکن اُن کا حج کا ارادہ ، سات سال بعد مکمل ہوا ،، اور اللہ کا شکر ، میرے خواب کی تعبیر سامنے آگئی ،، اور اُس رب کا مزید شکر کہ ہم سب بہنوں اور بھائی نے یہ فریضہ ادا کر لیا ،،۔
ایک اور خواب ، عزیزیہ کے قیام کے دوران دیکھا ،، کہ میں پرانی کوٹھیوں والے علاقے میں کسی کے گھر کو ڈھونڈ رہی ہوں ،، چلتے چلتے ایک کوٹھی ، جس کی بیرونی دیوار چھوٹی ہے اور اندر خوب باغ اور گھنے درخت ہیں ،، باہر گیٹ پر نام کی تختی پر " جنرل عاطف " لکھا ہوا ہوتا ہے ،، میَں رشک کر رہی ہوں " ،،، اگلے دن ہم جب ملے تو بزرگ خاتون کو یہ خواب سنایا ،، وہ بہت خوش ہوئیں ،،، میَں نے انھیں کہا کہ " عاطف سے کہنا جب کبھی ، جنرل بنا تو اطلاع ضرور دے " ،،، لیکن ضروری نہیں یہ اشارہ یہ عہدہ ، دنیاوی ترقی کا ہو ،، یہ اللہ کے پاس درجات میں سے بھی اشارہ ہو سکتا ہے ۔ لیکن اُس شریف النفس فیملی کو ہم دونوں بہنیں بھُلا نہیں پائیں ۔ اگرچہ ، ہم یا وہ حج سے واپسی پر کوئی تعلق نہ رکھ پاۓ۔ 
اب اگلے ہی دن سامانِ زیست سمیٹا اور مکہ شہر میں عازم سفر ہوۓ ،، یہ جاۓ رہائش عین بازار میں تھی ، اور خانہ کعبہ صرف  دس منٹ کی واک پر تھا ،،، اس بلڈنگ میں بھی دو کمرے ، کچن سمیت مل گۓ ، اور ، ہم نے اِن دِنوں کو غنیمت جانا اورکعبہ سے اور کعبہ کے مالک سے اپنی محبتوں کی بار بار تجدید کی ،،، میرے اللہ ،، تُو رحیم وکریم ہے ، تُو ہماری حاضری کو قبول کر لینا ۔ آمین ِ۔
( منیرہ قریشی ، 16 فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

جمعرات، 15 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں( سلسلہ ہاۓ سفر)۔" سفرِِ حج" (13)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
 سفرِِ حج" (13)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
عصر کی نماز تک اقبال بھائی کو  فون  پر قربانی ہو جانے کی اطلاع دی گئی ،، تو ہم سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی ، اللہ کا شکر ادا کیا ،، اور یہ ہی دعا بار بار مانگتے رہے ،، یا اللہ پاک ،، تو قبول کرنا اِن سجدوں کو ، اِن مشقتوں کو اور اس حج کو ،، جو تیری رضا کے ساتھ مکمل ہو آمین ثم آمین ،، ، ہاشم ، پاشا اور اقبال بھائی ، احرام کے اتارنے کا بندوبست کرنے چلے گۓ ،،،، اور ہم ( یا مَیں ) ایسے ہلکی پُھلکی ہو گئیں ،، جیسے ، " دنیا " کے سب کام ختم ہو گۓ ہیں ۔ جب مرد حضرات اپنے پرانے حلیۓ میں آۓ تو ، ہمیں بھی ساتھ آنے کا کہا کہ قریب کسی ڈھابے سے چاۓ پیتے ہیں ،، لاِس دوران لاہوری زندہ دل بہنوں کے خاوند حضرات نے بھی خیمے سے باہر کھڑے ہو کر بتایا "او بائ ، مبارکاں ،، قربانی ہو گئیں ، اسی وی انپڑے کپڑے پا لیۓ نے " ،،، یہ مبارک خبر سنتے ہی ،، تینوں خواتین نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنا میک اَپ باکس کھولا ،، اپنے بالوں کو سنوارا ، فل میک اَپ کیا ، ، اورباری باری کپڑے بدلے گۓ ،، وہ اچھی کاروباری ، امیر فیملی تھی ،،، مجھے اُن کے یوں چٹکی بجاتے تیاری کو دیکھ کر بہت دلچسپی ہو رہی تھی ، اور مزا آرہا تھا ۔ کیوں کہ زندگی کو اِس نہج اور سہج سے گزارنا بھی ایک اور ہی پہلو ہے ، ۔ وہ ساتھ ساتھ ہم سے مختلف باتیں بھی کرتی جا رہیں تھیں ۔ 
ہم سب چاۓ پینے نزدیک ہی ایک سڑک پر آۓ تو قطار سے بنے چاۓ خانوں میں سے ایک سے چاۓ کے کپ لیۓ ، اور کہیں بیٹھنے کی جگہ ، دیکھنے لگے ،،، سڑکوں کے کناروں تک لوگ ڈیرہ جماۓ بیٹھے تھے ،، اِن میں زیادہ وہ لوگ تھے جومقامی  تھے ، اور شاید صرف پانچ دن کی چھٹی لے کر آۓ ہوۓ تھے ،، بہت سے لوگ اپنے رنگین خیموں کے ساتھ ، اکیلے یا فیملی کے ساتھ آۓ ہوۓ تھے ،، ایک عمارت کے تھڑے پر بھی اکیلے حاجیوں نے اپنے بستر جماۓ ہوۓ تھے ، ابھی ہم ایک جگہ کھڑے ہی ہوۓ تھے کہ اُس تھڑے پر بیٹھے ایک 35، 36 سالہ جوان آدمی نے ہمیں بیٹھنے کی دعوت دی ،،، اور ہم خواتین اور اقبال بھائی تو اُن کے بستر پر بیٹھ گۓ ، لڑکے اس حاجی کے ساتھ باتیں کرنے لگے ، اُس نے بتایا ، میں یہاں ملازمت کرتا ہوں ، پانچ دن کی چھٹی لے کر حج کرنے آیا ہوں ۔ باتوں باتوں میں جب اُس نے یہ دو چار جملے کہے ،، جو مجھے بہت اچھے لگے ،کہنے لگے " یہاں کے انتظامات سے کچھ لوگ مطمئن نہیں ہوتے ،،، آپ خود سوچیں ، ہمارے گھروں میں چار بندے آجائیں ، اور کچھ دن ٹھہریں بھی ،،، تو سارا گھر الرٹ رہتا ہے ، اِن کے آرام کا خیال رکھا جاتا ہے ، اور ایسا نہ جاۓ ، کہ طبیعت خراب ہو جاۓ ،، ایسا نہ ہو کہ کوئی حادثہ ہو جاۓ وغیرہ ،،، تو سوچیں یہاں لاکھوں لوگوں کو سنبھالنے کا کام ہے اور وہ بھی کئی کئی دن ٹھہرنے کا ۔ اُن کے کھانے ، رہائش ، صحت ، اور خوراک ،،، واقعی اس کی بات میں وزن تھا ، یہ اللہ کے گھر کی خدمت اور نگرانی کرتے ہیں ، اسی لیۓ اتنی حیران کن برکت اِن کے نصیب میں آئی۔
اگلے روز تینوں جمروں پر کنکریاں مارنی تھیں ، اور اِ س بار مجھے بھی جانا تھا ، سب نےتیاری کی اور چل پڑے ۔ واقعی کچھ فرلانگ کے بعد ہی پہلا جمرہ ، پھر دوسرا اور پھر تیسرا ،،، اتنا آسان عمل ،، اور مَیں خواہ مخواہ گھبراتی رہی ،، لیکن آج رَش براۓ نام تھا ۔ اس لیۓ میرا اطمینان بلاوجہ نہ تھا ۔ آس پاس کچھ دیکھا ، جو منظر حج کے دنوں کا ہوتا ہے ،،، وہ ، وہ منظر نہیں ہوتا ، جب ہم حج کے دنوں سے پہلے زیارت کرنے آۓ تھے ۔ واپس خیموں کی طرف آگۓ ،، رات کا کھانا کھایا گیا لیکن ، پتہ نہیں اُس دن جو قربانی کے دن کا کیسا عجب کھانا تھا ،،کھانے کا پھر ویسا ذائقہ، آج بارہ سال بعد بھی کبھی نہ ملا ،،، اللہ کا شکر ۔
آج 12 ذِالحج تھا ،اُن حاجیوں کے احرام اُتر چکےتھے ، جنھوں نے قربانی کا فرض ادا کر لیاتھا ،،، آج سارا وقت تکبیر پڑھنا تھی ،،  اورسننی تھی ،،کہ اُس میدان میں آج آخری دن تھا ،، اِ س سال 21 لاکھ، 65 ہزار ( دوسری رپورٹ کے مطابق 25 لاکھ 65 ہزار ) رجسٹرڈ حاجیوں نے اللہ کے گھر کا طواف اور ارکانِ حج پورے کرنا تھے ۔ اور باوجود اس کے کہ فتویٰ دیا جا چکا تھا کہ صبح صادق سے لے کر رات گۓ ، بلکہ اگلی فجر تک ، اور یہ بھی کہ زیادہ رَش کی صورت میں 13 ذوالحجہ کے دن بھی کنکریاں ماری جا سکتی ہیں ۔ ،،، لیکن وہی اقبال بھائی ، اور وہی اُن کے اُستادِ محترم کی تربیت ، ،،،، چناچہ ہم 12 زِوالحجہ کو صبح ناشتے کے بعد ہی چل پڑے ،اس دفعہ جو سامان ساتھ لاۓ تھے اس کے چھوٹے چھوٹے بیگز تیار کر کے ساتھ لےگۓ ،،، کوئ  رہنمائی نہ تھی آگے ، سامان ساتھ ہونا چائیے یا نہیں ۔ پاشا ایک بینکر ہے ،، اُس کالیپ ٹاپ بھی ساتھ ساتھ تھا ، میرے ہاتھ میں تو سواۓ پانی کی بوتل کچھ نہ تھا اور میرا اور جوجی کا بھی بیگ ،ہاشم کے کندھے پر تھا ،، ،،،،،، اور جمروں کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی تکبیر کی ریکارڈنگ ،، تسلسل سے چل ہی تھی ،، یہاں تو انسانوں کا ہجوم نہیں ،، سمندر تھا جو خود بھی تکبیر پڑھ رہے تھے،،، اور اِن سب کے چہروں کا رُخ ، صرف چھوٹے شیطان کی طرف تھا ،،، میری حسیات تیز ہو چکی تھیں ،،، مجھے یوں محسوس ہوا میں ایک بہت بڑے بحری جہاز پر ہوں جو ہلکے ہلکے ڈول رہا ہے ، سارے ماحول پر تکبیر کے الفاظ کاوہ سحر پھیلا ہوا تھا ،، جیسے پوری کائنات ایک ردھم میں آگئی ہو ،،، یہ سحر ، یہ الفاظ ، یہ سب کا فوکسِ خیال ،،، اتنا طاقتور تھا کہ صاف لگ رہا تھا ، کہ کچھ ہونے والا ہے اور اِس ردھم کا والیوم بتدریج بڑھ رہا ہے ،،، یہ بہتا ہوا انسانی سمندر ،، مجھے حیران کر رہا تھا ، مَیں دم بخود تھی ،، اور قدموں نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا ،، میَں نے ہاشم سے کہا مجھے ایک جگہ بِٹھا دو مَیں سامان کی نگرانی بھی کرلوں گی ، میرے حصے کی کنکریاں تم ہی مار لینا ،، کسی نے میرے فیصلے پر اعتراض نہیں کیا ،،، اور ایک عمارت کے قریب سب کے سامان سمیت بیٹھ گئی ۔ایک گھنٹہ ، دو گھنٹے ، تین گھنٹے گزر گۓ ،، تکبیر پڑھنے کے دوران ، ظہر پڑھی ،، پھر عصر قریب آگئی ،،،،،، بے پناہ رِش ،ایک جانب سے آنے لگا ،، ایک "شُرطے "نے مجھے کچھ کہا جو مَیں سمجھی کہ پیچھے جاؤ ،، سامان کو اُٹھا نے میں مدد بھی دی ، اس وقت مجھے احساس ہوا سب کے چھوٹے بیگ نارمل وزن کے ہیں ، سواۓ پاشا کے ، تب پتہ چلا کہ لیپ ٹاپ ساتھ لایا گیا تھا کہ بینک افسران کا حکم بھی تھا ۔ ابھی بیٹھے 10 ،،15 منٹ ہوۓ تھے کہ لوگوں کا ایک ریلہ اور آگیا ،، مشکل سے سارا سامان گھسیٹا اور جس عمارت کا ذکر کیا تھا اس کی دیوار کے ساتھ جُڑ کر بیٹھ گئی ۔ میرے ساتھ بہت سے حجاج مرد ، عورتیں سب تھے۔ میرے بالکل ساتھ ایک الجزیرین ، جوان میاں بیوی بیٹھے تھے ،، یہاں سب کے چہروں پرعجیب سی پریشانی تھی۔ اتنے میں سٹریچرز آنے شروع ہو گۓ، جو اِسی عمارت میں جا رہے تھے،تو مَیں سمجھی یہ وہ لوگ ہیں جو بے ہوش ہو گۓ ہوں گے ۔ لیکن سٹریچرز کے قطار لگ گئی ، اور یہ ہاسپٹل ، یا ڈسپینسری تھی ،،، اب مجھے گھبراہٹ ہونے لگی ، کیوں کہ کافی دیر بھی ہو چکی تھی ،، اُس وقت یہ معمولی سا موبائل کام آیا مَیں نے اپنے پرس سے نکالا ، اور نمبرز والا کارڈ ، اُن الجیرین میاں بیوی کے آگے رکھا ، انھوں نے فوراً ایک کے بعد دوسرا نمبر ملایا ،، صرف آخری کوشش میں ہاشم کا مل گیا ، اس نے بتایا ، اماں سب خیریت ہے ، بس ہم پہنچ رہے ہیں ۔ اور واقعی 10 منٹ کے بعد یہ سب سامنے آۓ ، لیکن ،،،،، اِن سب کے حلیۓ کچھ عجیب سے لگے ، سب کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں ۔ میری نظریں ، اِن کے پاؤں پر پڑی ، سب کے پاؤں ننگے تھے ،، نگہت کے پاؤں میں تسموں والے جاگرز تھے ، اب اس کے پاؤں میں ایک جاگر تھا ،،،،، اور پہلا جملہ اقبال بھائی نے مجھے دیکھتے ہی کہا " منیرہ تمہاری کوئی نیکی کام آگئی آج ،،، کہ تم نہیں گئیں " ِِِ ،،، ! ابھی تک صورتِ حال واضح نہیں ہوئی تھی ،،، لیکن سب سے پہلے پھیری والے جوتے بیچنے والوں سےسلیپرز خریدے گۓ۔ اب ہم چلتے جا رہے تھے، اور مجھے کچھ واقعات بتاۓ جانے لگے ، کہ""" ہم سب آگے پیچھے چل رہے تھے ، کہ پیچھے سے دھکا لگا ، ہماری رفتا ر تیز ہوگئی ۔ سب سے آگے پاشا ، پھر اقبال بھائی ، پھر نگہت ، پھر جوجی اور آخر میں ہاشم تھا راستے میں کہیں ، کسی کا بیگ ، کسی کا کمبل پڑا ہوتا جس سے ٹکرا کر کئی حاجی گِر رہے تھے اور جب یہ لوگ جمرہ کے قریب پہنچنے لگے تو ایک وہیل چیئر سےنگہت ٹکرائی ، لیکن ہاشم کے بر وقت ہاتھ بڑھا کر اُٹھانے سے اُٹھ گئی ۔ اور پیچھے کے دھکوں نے انھیں مزید جکڑ دیا ،، اوراس دوران کچھ حاجی ، کچھ ان حجاج کو کنٹرول کرنے والے گارڈز ،، بھی زد میں آگۓ ،، اور آس پاس ان سب کے لیۓ ناقابلِ  برداشت مناظر پھیل گۓ ،، ہاشم نے جوجی سے کہا ،، خالہ آپ نے آس پاس نظر نہیں ڈالنی ،، سیدھا دیکھتی رہیں ،، سب نے اپنی کنکریاں ماریں ،،، اگلے مرحلے تک صورتِ حا ل مزید خراب ہو گئی،لیکن ان میں سے کس نے کس حد تک اپنا فریضہ پورا کیا ،،لیکن ہاشم کو شک پڑ گیا کہ ساری کنکریاں ماری نہیں گئیں ،، (چنانچہ مکہ پہنچ کر اُس نے میری اور اپنی ، دو قربانیاں دیں )،، ہم چلتے چلتے بس تک پہنچے ، جس نے ہمیں ایک خاص مقام تک پہنچایا ، جہاں سے خانہ کعبہ نزدیک تھا لیکن تھوڑا تو چلنا تھا ،، ہاشم کے کندھوں پر دو بیگز تھے نگہت اور جوجی کے ہاتھوں میں ایک ایک ٹرالی تھی جس پر ایک چھوٹا بیگ آسکتا تھا ،، یعنی اِس سامان نے ہمیں جلد تھکا دیا ،،،، اور  آرام  کرنے کے لیۓ ایک جگہ فٹ پاتھ پر بیٹھ گۓ ،،،، سبھی چُپ تھے ، یہ سب بہت دہلا دینے والے واقعہ سے گزر کر آۓ تھے ،، ابھی وہ نارمل نہیں ہو پاۓ تھے ۔ابھی ہم فٹ پاتھ پر بیٹھے ہی تھے کہ بغلی سڑک سے ، گولڈن ، اور سُرخ یونیفارم پہنے ، کندھوں پر سنہرے ٹرے اُٹھاۓ جن پر مناسب سائز کے ڈبے پڑے تھے ، وہ سڑک کے یا چوراہے ، کے درمیان پہ پہنچے اور فوراًہر ایک نے یہ ڈبے لوگوں کی طرف اُچھالنا شروع کر دیۓ ،، اور ہم بیٹھے ہوؤں میں سے ایک ڈبہ ، نگہت کی اور ایک پاشا کی گود میں آگرا ،،، کھول کر دیکھا تو " بیکڈ مچھلی کے چھ پیس ایک ڈبے میں تھے ،،، یہ " البیک " فوڈ والوں کی طرف سے دعوت ِعام تھی،،، اُس وقت یہ "مَن وسلویٰ" لگا ، مزے دار مچھلی کھا کر توانائی آگئی ،، اور پھر " خانہ کعبہ " میں داخل ہوۓ تو رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے ،،اور خانہ کعبہ االلہ کے عشاق سے اس طرح لبا لب بھرا ہوا تھا ، کہ تِل  دھرنے کو جگہ نہ تھی تو ہم سب سے اوپر کی منزل پر چلے آۓ ،، ، اور طواف شروع ہوا !۔
( منیرہ قریشی ، 15 فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

منگل، 13 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں( سلسلہ ہاۓ سفر۔"سفرِِ حج" ( 12)۔

 یادوں کی تتلیاں "( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
 سفرِِ حج" ( 12)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب ہم چھے ارکان ہمسفر مِنیٰ جانے والی بس میں سوار ہو ۓ ،، تو دل بےیقینی کے جنگل میں بھٹک رہا تھا ،، اپنی ہر خوش نصیبی پر یقین کرنے کے لیۓ باربار خود کویقین دلانا پڑتا تھا ،،،کہ یہ خواب نہیں ،،حقیقت ہے! بس میں تلبیہ کی آوازیں بھی مجھے خود کو نامعلوم سی فضا میں جھومتے ہوۓ محسوس کروا رہی تھیں ،،،، میں اس کیفیت کا دو طرح سے تجزیہ کرتی ہوں ،،، 
اول ـ یہ کہ میں مسلسل طبیعت کی خرابی کا شکار رہی ،، کبھی بخار ،، اور بھوک نہ لگنا ،، زیادہ خاموشی طاری رہی ،،، اور وزن بھی کم ہو چکا تھا ۔
دوم- میں ذہنی طور پر حج کے لیۓ ، نا اُمید سی تھی ،، اب جب پہنچ بھی گئی ،، طواف، عمرے ، زیارتِ مسجدِنبوی،، کیا یہ سب سچ مچ میں دیکھ چکی ہوں ، ! کیا اب ارکانِ حج کے لیۓ جا رہی ہوں ،،، کیا یہ کرم ، یہ فضل ، یہ احسان ؟؟؟؟ مجھ پر ،،، میَں یہاں کسی اور کی بات نہیں کروں گی ، حالانکہ ہم سب چھے بندوں کا بھی پہلا پہلا حج ہی تھا ،، لیکن مجھے تو یہ لگ رہا تھا ،، یہ سب تو پہلے آچکے ہیں ، مَیں ہی پہلی مرتبہ حاضر ہو رہی ہوں ۔ میں ایسی کیفیت میں تھی کہ ،
٭ یا تو خود کو فضا میں تیرتا محسوس کر رہی ہوں ۔ ،،، یا ،٭ خواب سی کیفیت ہے ، اور دل کہہ رہا ہے ، میرا خیال ہے میں مِنیٰ جا رہی ہوں ، شاید ،شاید !۔
اور جب ہم شام ، بلکہ عشاء کے وقت تک اپنے مکتب کے قریب پہنچے ، اور وہیں بسوں نے اتار دیا ،، تھوڑی  اُلجھن  ہوئی ،، کچھ ، منٹ اور گزرے اور پوچھتے ، پوچھاتے ، اپنے اپنے خیمے تک پہنچ گۓ ، اس ایک خیمے میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی 10 خواتین کے بستر کی جگہ تھی ، اس خیمے کے بالکل ساتھ دوسرا خیمہ بھی پاکستانی خواتین کا تھا ، نظر تو نہیں آتی تھیں ، البتہ آوازیں آ رہی تھیں ،،، اور ہمارے خیمے کے بالکل پیچھے کا جڑا خیمہ ، مرد حضرات کا تھا ، جس کی ڈائریکشن ، اقبال بھائی اور ہاشم نے ہمیں فوراً مو بائل سے کلیئر کر دی ، تاکہ ہمیں کسی چیز  کی ضرورت ہو تو پریشانی نہ ہو ،،، اس جگہ آتے ہی ، ، میری پانچ سالہ پوتی ، ملائکہ کو دیا گیا ایک کافی پرانا ، اور گھر کا فالتو موبائل ، جو علی نے زبردستی ساتھ کر دیا تھا، میرے گلے میں لٹکے بیگ میں ڈال دیا تھا ،،، یہ موبائل میرے لیۓ دیا گیا تھا کہ جب حج شروع ہو گا تو یہ نہ ہو آپ گم ہو جاہیں ،،اس لیۓ گلے میں لٹکاۓ بیگ میں موبائل ڈالا گیا اور اس کے ساتھ ہی باقی ہمسفرانِ حج کے نمبر لکھ کر ایک کارڈ بھی اس کے ساتھ اُس ربن میں پرو دیا گیا ، جس میں مکتب کا شناختی کارڈ تھا۔کہ مجھے کسی کے نمبر زبانی یاد نہیں تھے ،،، یہ سب اہتمام اس لیۓ کرنا پڑا ، کہ میَں نے اُس وقت تک ، کوئی موبائل نہیں رکھا تھا ، اس لیۓ اسے آپریٹ کرنا بھی نہیں سیکھا تھا ،، حالانکہ مجھے بہت کہا گیا تھا کہ ایک موبائل لے لیں ،، مگر مجھے اس کے استعمال کرنے والے لوگوں کو دیکھ دیکھ کر چِڑ ہو چکی تھی کہ محفل میں بیٹھے ہیں ،، اور نظریں موبائل پر ہیں ، دوسرے کی کوئی پروا نہیں ، اور نظریں وہیں اٹکاۓ ، جواب دیۓ جارہے ہیں ،، مجھے لگا ہم اس ٹیکنالوجی سے مزید بدتہذیب ہو رہۓ ہیں ،، اس لیۓ کم ازکم جب تک اسکے بغیر گزارا ہو سکتا ہے ، کرو ،،، !۔
اور اب مِنیٰ کے خیمے میں ، مَیں تھی ، بخار تھا اور موبائل تھا ،، وہی دو چیزیں ، جن کو مَیں اپنے سے دور رکھنا چا رہی تھی ،،، اس خیمے میں خوب بڑا " بلوئر " یا " ائر کُولر" لگا ہوا تھا ، اور اس کے عین ہوا کی رینج میں نگہت، میرا اور جوجی کا بستر تھا ، ، مجھے آدھ گھنٹے میں احساس ہو گیا ، کہ جگہ نہ بدلی تو مزید خرابی ہوگی ،، دوسری طرف کی خواتین ، تو جیسے تیاربیٹھی تھیں ، وہ دو ہم دونوں کی جگہ آ گئیں ، میرا یہ حال کہ موٹے کپڑے ، سویٹر ، اور عبائیہ ،، جرابیں ،،، لیکن بخار کی دوا کے باوجود آرام نہیں آ رہا تھا ،، اللہ کا شکر اس دوران نماز کی پابندی رہی اب یہاں تو جماعت کا سلسلہ بھی نہ تھا ،، ہمارے خیمے کی خواتین ، سبھی تمیز دار اور تعاون والی تھیں ، ، عشاء پڑھ کر سوۓ تونمازِ فجر پڑھ کر صبح ، 6 بجے ہی عرفات ،،،،جانے کے لیۓ تیاری پکڑی ، اقبال بھائی ، سب کچھ اپنے حج کے "استاد" کے کہنے کے مطابق کر رہے تھے ،،، ہماری ایک اچھی سہیلی نسرین خلیل ، ہم سے پہلے حج کر آئی تھی ،، اس نے ہمارے حج پر جانے کا سُنا ، تو خاص طور پر تاکید کی ، عرفات کے لیۓ پیدل چل پڑنا ، یا ٹیکسی کروا لینا ،، لیکن بسوں پر نہ جانا ، یہ بسوں کو بہت بھر لیتے ہیں ، پھر رینگ رینگ کر چلتی ہیں ، اس لیۓ بہت دیر سے پہنچتے ہیں ، لیکن چونکہ اقبال بھائی کا حکم تھا ، اس لیۓ منیٰ کے اس مقام سے جہاں بسیں حجاج کو لے کر جا رہیں تھیں ، ہم سب بھی ایک بس میں بیٹھ گۓ ،، اور واقعی کچھ ہی دیر میں جس بس میں 40 ، 45 لوگ ہونے چائیں تھے ، اِس میں70، 65 ٹھس گۓ اور عورت مرد کی کوئی تخصیص نہ رہی ،، اس قدر حبس تھی کہ الاماں ،، ہم تینوں کھڑی تھیں ، جوجی مجھ سے پیچھے تھی ،، لمحے بھر کے لیۓ مَیں نے اسے دیکھا تو اُس کا رنگ پیلا ہو چکا تھا ، اور پسینے ، میں تو سب شرابور تھے ،لیکن اُس کا پسینہ ٹپک رہا تھا ۔ اور لگ رہا تھا کچھ دیر اور یہ صورتِ حال رہی تو وہ بےہوش ہو جاۓ گی ، ، حیرت انگیز طور پر مَیں بالکل ٹھیک رہی ، ہمیں بس میں بیٹھے ، دو گھنٹے ہو چکے تھے ،، "بس" ایک جگہ رُک گئی کیوں کہ اسے ہم آسیان والوں کا نہ راستہ مل رہا تھا نہ خیمے کی سمجھ آرہی تھی ۔ اسی وقت کو غنیمت جانا اور ، زیادہ حاجی اُتر گۓ ، ہم نے جلدی سے اتر کر جوجی کو کنارے پر ڈیرا جماۓ ، نیگرو فیملی کے چٹائی ٹائپ بستر پر لیٹا دیا ،، وہاں ایک آدمی اور ایک عورت تھی ، ایک سیکنڈ کے لیۓ انھیں سمجھ نہ آیا کہ ، یہ کون اور کیوں آ کر لیٹ گیا ہے ،، جب ہم نے ،معذرت کے ساتھ پانی بھی مانگا ،، تو انھوں نے پہلے فوراً پانی دیا ، پھر جوس کا ڈبہ آگے رکھا ، اور دوسرے منٹ میں دوائیوں کا پیکٹ سامنے رکھ دیا ،،، انھیں اپنی زبان کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی ، لیکن جب میں نے پوچھا کوئی" کینڈی " یا چوکلیٹ ، تو انھوں نے فوراً وہ بھی پیش کردیں ،،، جوجی نے پانی پیا ، کینڈی ٹافی کھائی، ، کچھ حواس درست ہوۓ تو اُن کے دوائیوں کے پیکٹ سے اپنے مطلب کی ایک ٹیبلٹ نکالی ، اور وہیں کھا لی ،،، ہم  اُن کا بہت شکریہ ادا کرتی رہیں ،مشترکہ لفظ " جزاک اللہ " کی تکرار کرتے ہوئے ۔ جو لوگ حج کر کے آتے تھے وہ اکثر یہ کہتے سنے گۓ کہ " یہ کالے بہت سخت ہوتے ہیں ، دھکے بہت دیتے ہیں ، ان کو دوسروں کا خیال نہیں ہوتا " اول تو میں ، کالے ، نیلے ،پیلے کے اچھے برے کی قائل نہیں تھی ،اور اب تک اگر حرم میں ، مسجدِ نبویؐﷺ میں ہمیں جو نیگرو خواتین ملیں ، نہایت مہذب ، اور تعاون والے ۔ اب یہاں بھی ہمیں اپنائیت کے ساتھ ہر مدد پہنچائی گئی ، تو انہی نیگرو نے ، یہ ،15 منٹ ہمارے لیۓ ، بہت غنیمت رہے ، اور تب تک حاجی واپس بس میں نہیں آۓ تھے کہ ہم نے جوجی کو سیٹ پر بٹھایا ،، خود مَیں اور نگہت کھڑی رہیں ،، مرد حضرات کو اس سارے واقعہ کا کچھ علم نہ ہوا کیوں کہ وہ ہماری نظروں سے اوجھل تھے ۔ خیر اب آس پاس کی نظر ڈالی ،، تو انسانوں کا سمندر تھا ، خوب چوڑی سڑکیں ، جن پر باریک پھوار پھینکتے  بجلی کے فوارے ، انسانوں کو سکون دے رہے تھے ،، ہم جلد ازجلد اپنے خیمے میں پہنچنا چاہتے تھے ، آج جمعہ بھی تھا ( اگر میری یاداشت غلط نہیں تو ) ہم جمعہ کی نماز کے لیۓ بھی بےچین تھیں ،،، آخر کار ایک بجے کے قریب ، بس ایک جگہ رکی اور کہلا دیا گیا یہاں سے کچھ دیر چلنا ہوگا ، پھر خیمہ مل جاۓ گا ،،، مرد حضرات جب ملے تو جوجی کی طبیعت کی خرابی کا بتایا ۔ لیکن چلتے چلتے اذان کی آواز آئی تو ،، ہمیں اپنا خیمہ کہیں نہیں مل رہا تھا تو ایک کھلے گیٹ سے ،، ایک سنگل منزل دو چار کمروں کی عمارت نظر آئی اور اِس کے گیٹ سے عمارت کے دروازے تک سُرخ اور سیاہ پرنٹ کے قالین بچھے چلے گۓ تھے ،، ایک طرف ایک نلکہ بھی نظر آیا ۔ ہم خواتین ، اس صورتِ حال سے کچھ ایسی پریشان تھیں کہ اسی میں گھُس گئیں ، ، کوئی بندہ نظر نہ آیا ۔ ہم تینوں نےفوراً وُضو کرنا شروع کیا ، تو ایک ملازم ٹائپ بندے نے آکر ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا ،، یہ پرائیویٹ ایریا ہے ،، اجازت نہیں ،، لیکن میں نے اور جوجی نے پرواء نہیں کی اور نماز نیت کر لی ،،، نگہت ، بھی پڑھنے لگی تو وہ بندہ شرمندہ ہو کر واپس چلا گیا ،، جب ہم نے تسلی سے ان کے قالینوں پر نماز پڑھ لی ، تو ایک عربی صاحب کمروں کی طرف سے نکلے ، لیکن خاموشی سے واپس چلے گۓ ،،، گویا ، انھیں اعتراض نہ ہوا ،، دعائیں کیں ، اور پھر اپنے خیمے کی طرف چل پڑے ،،، اس دوران مرد حضرات کہیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھآۓ تھے ۔ چند منٹ اور چلے تو خیمہ نظر آگیا ،، اندر داخل ہوۓ تو ہم سے پہلے پہنچ جانے والے ہمارے پیارے پاکستانی حاجیوں نے کھانا کھایا تھا ،،، جو آدھا کھایا گیا ہو گا لیکن باقی پورے خیمے میں چاول اور ہڈیاں فرش پر بکھری ہوئی تھیں ،،، ایک ، دو ، تخت وہاں پڑے تھے۔ کچھ دیر کے بعد ہی ہم تینوں دعا کے لیۓ خیمے سے باہر ہی آگئیں ، اور کھلے آسمان کے نیچے ، اپنے پیارے اللہ پاک کو دعاؤں کی فہرست سنانی شروع کر دی ۔ جوجی تو کچھ دیر بعد ہی پھر بےحال ہو کر اندر تخت پر جا لیٹی اور گہری نیند سو گئی ، ، ، میں اور نگہت ، ہر آدھ پونے گھنٹے بعد اسے جا کر دیکھتے ،، اور باہر آنے کا کہتیں ،، جس جس نے دعائیں لکھائیں تھیں ، اللہ پاک کے آگے اُن کی عرضیاں ، عرض کر دیں ،، جس انداز سے دعا کی جاتی ہے ،،، کاش مَیں ، وہ الفاظ ، وہ انداز اپنا سکتی ،، جو اس ربِ کریم کے حضور قبول ہو جائیں ، عرفات کا وقت اپنے اور ، والدین ، اور بچوں کے لیۓ دعائیں مانگتے گزارا ،،، اور بہت کچھ !!!عصر پڑھی، اور مرد حضرات آگۓ ، کہ سامنے صاف ستھرے غسل موجود ہیں ،، آپ لوگ فریش ہو جائیں ، تاکہ مغرب تک یہ جگہ چھوڑنی ہے ، پھر بسوں میں جگہ نہیں ملے گی ،،، اقبال بھائی نے حسبِ معمول اپنا پروگرام دہرایا ، بلکہ سنا دیا ۔اور ہم کچھ سستی سے تیاری کرنے لگیں ، جوجی بھی خیمے سے باہر آچکی تھی ،،، عرفات کی شام تیزی سے آچکی تھی ،، اور ہم وہیں تھے ،،، پتہ نہیں کیا ہوا کہ ہم کسی بس میں نہ جا سکے ، ، ، ہم نے مغرب اور عشا ،،، مزدلفہ جا کر پڑھنی تھی ،،، اور پورا میدانِ عرفات قریباً  خالی ہو گیا ،، صرف ہم چھے ،، میجر آفتاب کی ساری فیملی ،، اور شاید دو حاجی حضرات تھے ، جو بس سٹاپ پر کھڑے تھے،، اور اپنی جلدی واپسی کے پروگرام پر غور کر رہے تھے ،،، چند پولیس کے سپاہی تھے ،، جو ایک بہت بوڑھے بزرگ کو سٹریچر پر اُٹھاۓ ، لاۓ ،،وہ ایمبولینس کا انتظار کرنے لگے ،،، آفتاب کی بیوی ڈاکٹر عظمیٰ فوراً انھیں دیکھنے چلی گئی ،،، تو پتہ چلا ، ڈی ہائیڈریٹ ہو گۓ ہیں ، اور اب وہ سیدھے ہاسپٹل جا رہے تھے ، کیوں کہ عرفات میں دن گزار لیا ،، حج ہو گیا ۔۔۔ اتنے میں بس آئی اور ہم سب بیٹھ گۓ ،، رات کے 11 بج چکے تھے ، مزدلفہ میں چپہ چپہ لوگوں سے بھر چکا تھا ،، ہم چلنے لگے کہ شاید کہیں  رات گزارنے کی جگہ مل جاۓ ، کہ اچانک جوجی کو ایک چھوٹا سا گیٹ نظر آیا اور ہم سب اس کے پیچھے پیچھے اندر بہت بڑے سے لان میں داخل ہو گۓ ،، سب سے پہلے نمازیں ادا کیں ،، اور اپنی اپنی چٹائیاں بچھا کر ، سُنت کی پیروی میں لیٹ گۓ ،، کچھ پتہ نہیں تھا کہ آس پاس ، کیسا منظر ہے ،، ڈیڑھ یا دو گھنٹے ہی گزرے کہ اُٹھ کھڑے ہوۓ ، لڑکوں نے اُٹھ کر آس پاس  وُضو کے لیۓ نلکا ، یا غسل خانہ تلاش کرنے کی کوشش کی ، تو چند منٹ کے بعد ہی واپس آۓ اور بتایا کہ سامنے ہی کچھ دور جو چھوٹی سی بلڈنگ نظر آ رہی ہے دراصل صاف ستھرے واش رومز ہیں اور گرم پانی بھی موجود ہے ،، ہم نے شکر کیا ، وضو ہوا،، پاشا نے خوب صورت ، اذان دی ،، اور ہم نے اسی کے پیچھے فجر پڑھی ، اور ابھی سامان  سمیٹنا شروع ہی کیا تھا ،، کہ قریب کے شیڈ سے زندگی کے آثار نظر آۓ ، وہاں کوئی لمبی چوڑی عرب فیملی ٹھہری ہوئی تھی ، جس میں بزرگ ، جوان آدمی اور برقعہ پوش خواتین ، نظر آئیں ،، ذرا سی روشنی اَور ہوئی تو اُس امیر ، کبیر فیملی کی شاندار گاڑیاں ، اور ایک آدھ بس بھی نظر آگئیں ،،، تو دراصل یہ اِ ن کا مخصوص ایریا تھا ، اسی لیۓ وہاں گیٹ لگا ہوا تھا ، جو اتفاق سے کھلا ہوا تھا ،،، اور اللہ ہی کی طرف سے ہمیں آرام کے چند گھنٹے بھی مل گۓ اور گرم پانی سمیت غسل خانے بھی ،،، لیکن اُس وقت ، اس بات پر کوئی اختلافی خیال ذہن میں نہ آیا کہ یہ لوگ اپنے حج کو اتنے کروفر سے ، آرام و آسائش سے کیوں کرتے ہیں ،، کیا اللہ کے لیۓ حج کے صرف یہ پانچ دن عام عوام جیسے کیوں نہیں گزار لیتے ، ، اپنے لیۓ اتنے بڑے ایریا کو کیوں مخصوص کر لیتے ہیں کہ ہزار بندہ تو اِس جگہ رات گزار سکتا تھا ،،، شکر ہے کہ اُس وقت ہمارے ذہن میں نہ کوئی منفی خیال آیا ،، نہ اُن کے لیۓ کسی ستائش کا خیال آیا ،، ہم نے ہر چیز کو مِن جانبِ اللہ سمجھ لیا تھا ،، خیر ہم اللہ کا نام لے کر مزدلفہ سے باہر نکلنے والے راستے پر ہو لیۓ اور اب ہر چیز صاف اور واضح نظر آرہی تھی ،، ہم ابھی فرلانگ بھر چلے تھے اور ایک پُل پر سے گزر رہے تھے ، کہ ایک 30، 32 سال کی لڑکی ہمارے سامنے آئی اور زارو قطار رو کر کہنے لگی " مَیں گُم ہو گئی ہوں ، اپنے خیمے کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ، اور میرے پاس مو بائل بھی نہیں ہے ، پاشا نے اُس سے پوچھا ، اپنے شوہر کا موبائل نمبر یاد ہے تو اُس نے بتا دیا ،، شوہر نے بات سنی اور بتایا کہ یہ غسل خانوں کی تلاش میں کہاں سے کہاں نکل گئی ہے ،، اب اُس نے فرمایا آپ ،، میرے اس خیمے کی طرف آئیں ،، مَیں آپ کی طرف آؤں گا " پاشا کو یہ سن کر غصہ بھی آیا کہ جب لوکیشن سمجھادی ہے تو آجاۓ ،، لیکن ہم خواتین کی ہمدردی اس لڑکی کے ساتھ تھی ،،'" پاشا ، صرف تم نہیں ، ہاشم بھی ساتھ جاۓ گا ، اور یہ نیکی کا کام ہے وغیرہ ،،، چنانچہ دونوں جوانوں کو یہ نیکی کمانے کے لیۓ میل بھر جانا اور آنا پڑ گیا ،،، خیر یہاں سے فی بندے کے حساب سے کنکریاں بھی اُٹھا لی گئی تھیں ،، اور ہم بہ آسانی بس سٹاپ ،تک پہنچے ، لیکن بس نے ہمیں کچھ پہلے ہی اتار دیا ، مِنیٰ کے خیموں تک پہنچنے تک ، مَیں تو نڈھال ہو چکی تھی ،، لیکن باقی سب پُرجوش تھے ، کچھ لمحے  آرام کر کے جمرہ عقبیٰ پر کنکریا ں ما رنے جانے کے لیۓ تیار ہو گۓ ،،  مَیں نے معذرت کر لی ،، اور اپنے بیٹے ہاشم کو یہ اختیار دیا کہ یہ میری جگہ کنکریاں مارے گا ،،، وہاں سے یہ جمرہ عقبیٰ ، خیمے سے تین فرلانگ پر تھا ،، چناچہ یہ لوگ چلے گئے تو ، مَیں نے آرام کیا ، تھکاوٹ سے جسم سُن ہو چکا تھا ، دوا لی ، اور بخار تھا یا نہیں لیکن طبیعت بحال ہونے لگی ، ابھی بہ مشکل ایک گھنٹہ بھی نہ ہوا تھا کہ یہ سب واپس آگۓ ، اس وقت دن کے گیارہ بجے تھے ، ، اور سب بہت  پُرجوش تھے کہ ذرا رَش نہیں تھا ، ہم نے آرام سے یہ مرحلہ طے کیا ،،، ہاشم اور جوجی کہنے لگے ، اب تم بھی کل چلنا ، تاکہ ایک دفعہ تم خود بھی دیکھ لو ،، اب واپس آتے ہی مرد حضرات ، قربانی کروانے چلے گۓ ، ، ، میَں نے طبیعت کی بحالی ، محسوس کی اورظہر کے وُضو کے لیۓ خیمے سے باہر ہی آئی تھی ، کہ لگارتار اُلٹیاں آئیں ،،، لیکن طبیعت کا بوجھ جیسے ختم ہو گیا ، وضو کر کے آئی ، اس سے پہلے ، نگہت ، نے خوب ڈٹ کر ناشتہ کیا ، اور یہ کہہ کر لیٹ گئی ،، " بھئ میں نے تو سمجھو دوپہر کا کھانا بھی کھا لیا ہے ، بس نماز کے وقت اُٹھا دینا " ،، اور جوجی اور میں ابھی اردگرد کی خواتین سے بات چیت اور اپنے اپنے ، تجربات و احساسات شیئر کرنے لگیں ۔، ان میں ایک جوان لڑکی جس بنک میں ملازمت کرتی تھی ، اپنے والد کے ساتھ آئی ہوئی تھی ،، اور اس نے واہ کینٹ میں ملازمت بھی کی تھی ،، واہ کا ذکر محبت سے کرتی رہی ،، ہمارے سامنے تین بہنیں بھی تھیں ، جن میں سے سب سے بڑی کچھ مسئلے کی وجہ سے وہیل چیئر پر تھی ، لیکن باقی دونوں اُس کا خیال کر رہی تھیں ، اگر سب سے بڑی 60 سے کچھ اوپر تھی ، تو باقی دونوں 40،،45 کی ہوں گی ،،، یہ سب لاہور کے زندہ دل لوگوں کی مثال تھیں ، ، ، اُن کی کھلی کھلی ، بےتکلف باتیں ، چل رہیں تھیں ،، کہ اتنے میں ساتھ کے خیمے سے  اُن کی ملنے والی ذرا زیادہ بڑی عمر کی خاتون آگئیں ،، جو دبلی پتلی ، سی ، چست مزاج والی ، پان کھا رہی تھیں ،،، اور آتے ہی سب بہنوں کو سلام کے بعد بتایا میَں خود ، کنکریاں مار کر آرہی ہوں ،، اور پوچھا ، تم لوگ ہو آئیں ؟؟؟ دونوں چھوٹی بہنوں نے قدرِ شرمندہ سا ہو کر کہا " نہیں ہمارے شوہر ہی کنکریا ں لے گۓ تھے ،، انھوں نے یہ فرض ادا کر دیا تو مجھے اُن خاتون کا یہ جملہ یاد رہ گیا " ہائیں ،، ہری ہریالی ہو کر ، خود کیوں نہ گئیں "!!! ۔
اور ہم سب مسکرانے لگیں ،،، ! مرد حضرات ، تو قربانی کا پتہ کرنے گۓ ہوۓ تھے ۔ اِس دوران ظہر ہوئی اور ساتھ ہی کھانے کے پیکٹ خیمے میں پہنچاۓ گۓ ،، میرا پیکٹ ، اب تک واپس کر دیا جاتا تھا ، نگہت سوئی  ہوئی تھی ، لیکن جوجی کو بھوک لگی ، مٹن شوربا اور روٹی تھی ،، اس نے مجھے دو تین  بارکہا ،، دو نوالے کھا کر تو دیکھو ، اُس کے اصرار پر دو نوالے کیا کھاۓ ،،، آہستہ آہستہ ساری روٹی کھا لی ،،، آج تک ، مجھے اور جوجی کو اُس دن کے کھانے کا ذائقہ نہیں بُھولا ،، دوسری طرف ،پاشا اور ہاشم جاگ رہے تھے (اور قربانی والوں نے انھیں موبائل پر قربانی ہو جانے کی اطلاع دینے کا کہہ دیا تھا ) ،، انھوں نے کھانا کھایا تو وہ بھی نہال ہو گۓ ،،، اور اقبال بھائی سوۓ ہوۓ تھے ،، ہاشم نے بعد میں بتایا کہ مَیں آپ کو فون کرنے لگا تھا کہ اماں آج کا کھانا کسی صورت نہ چھوڑنا ،،، لیکن مجھے کچھ شرم سی آ گئی کہ ، اس بات کے لیۓ فون کروں ،،، لیکن پاشا اور مَیں بھی اِتنے لاجواب ذائقے والے کھانے پر حیران ہو رہے تھے ۔ اس دوران کھانے تقسیم کرنے والے دوبارہ آتے تھے وہ آۓ تو تیسرا پیکٹ اس لیۓ واپس کر دیا کہ نگہت نے کہا تھا ، مَیں نے خوب ناشتہ کر لیا ہے ، صرف نماز کے لیۓ جگانا ،، ہم نے وہ پیکٹ واپس کر دیا ۔ جب وہ سو کر اُٹھی ، اور ہم نےکھانے کی تعریف کی ،تو وہ بھی پچھتائی ،،، دوسری طرف اقبال بھائی بھی ناشتہ کر کے سوۓ تھے ، ان کے حصے کا پیکٹ بھی واپس چلا گیا ،،، یہ باتیں صرف نصیب کی ہوتی ہیں ، کہ کس کو ،،کون سا رزق ملنا ہے !!۔
( منیرہ قریشی ، 13 فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

پیر، 12 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں(سلسلہ ہاۓ سفر)۔" سفرِِ حج" (11)۔

یادوں کی تتلیاں"(سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
 سفرِِ حج" (11)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
عمرہ خیروعافیت سے کرنے کے بعد ، اس مرتبہ پتہ چلا کہ اب حج کے شروع ہونے تک ہم " عزیزیہ " میں ٹھیریں گے ،، چناچہ بہت سی حاجی فیملز بس میں ہی " عزیزیہ" پہنچیں ۔ اس مناسب سی بلڈنگ کی تین یا چار منازل تھیں ، بس سے سب کا سامان اتارا گیا، اور ہوٹل ملازمین کے ذریعے ان کے کمروں تک پہنچایا گیا ۔ ہمیں ایک بڑا اور ایک چھوٹا کمرہ ملا ، اس کی بالکنی بھی تھی، ان دونوں کمروں کے ساتھ مزید ایک بڑا سا کمرہ تھا جو، ایک اور فیملی کو ملا ،، اور اب ہم چند دن کے لیۓ پڑوسی تھے۔ لڑکوں نے جلدی جلدی ہمارے بستر ٹھیک کیۓ اور کاؤنٹر پر چلے گۓ کہ باقی معلومات لی جائیں۔ اس سارے میں قریباً عصر ہونے والی تھی ، اور میں کمرے کے بستروں سے ذرا مایوس ہو کر نیچے کے لان میں کرسیاں بچھیں تھیں ، وہاں دھوپ میں آبیٹھی،، اب مجھے ہلکا ہلکا بخار محسوس ہو رہا تھا ،، اور بہت بےزاار شکل کے ساتھ بیٹھی تھی ، جوجی بھی آ بیٹھی ، اور اسی نے بتایا اوپر کے کمرے کے ساتھ اچھا بڑا کچن ہے جس میں کچھ برتن بھی ہیں ، یعنی چاۓ ، یا ، کھانا پکایا جا سکتا ہے ۔ اور ایک کپڑے دھونے کی مشین بھی ہے ، سرف بھی پڑا تھا ، میں نے اور نگہت نے 15 ،20 منٹ میں سب بستر کی چادریں اور تکیوں کے غلاف دھو دیۓ ہیں ۔ اب تم آرام کرنا چاہتی ہو ، تو چلی جاؤ۔ میں دھوپ کو انجواۓ کر رہی تھی،کہ اتنے میںعربی لباس میں  ملبوس ہماری عمر کے ایک معزز سے  صاحب  وہاں سےگزرتے ہوۓ ، رُک گۓ اور قریب آکر انگلش میں پوچھا " کیا سب خیریت ہے ، آپ دھوپ میں بیٹھی ہیں ؟ ہم نے بتایا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ، انھوں نے جنراسٹی سے پوچھا ،، کسی  چیز   کی ضرورت ہو تو بتائیں ،،،! میں نے کہہ دیا ، آپ کے کمرے صاف نہیں ، اور مجھے تو کمبل بھی ضرورت ہے ،، انھوں نے وہیں سے ایک جوان سے لڑکے کو بلایا ،،، اور عربی میں ہدایات دیں ،، اور خود بھی کرسی لے کر بیٹھ گئے،، اور پوچھنے لگے ، کیا آپ دونوں ، جاب میں ہیں؟ جب ہم نے بتایا کہ ہم ایک چھوٹا سا سکول چلا رہی ہیں ، تو انہوں نے بتایا میں دو سکول چلا رہا ہوں ایک مکہ میں ، ایک جدہ میں ۔ اور ہر سکول میں دو دو ہزار بچے ہیں ، اور میں نے اکثر انڈین اور پاکستانی ٹیچرز کو سلیکٹ کیا ہواہے۔ کیوں کہ وہ قابل ہوتی ہیں ۔ ،،، اس نے اپنے مینیجر کو پھر بلایا ، اور کہا ، یہ میری بلڈنگ ہے، اور یہ میرا بھتیجا ہے ، آپ کو کوئی چیز چاہیے ہو ، اسی کو کہہ دیں ۔ 
خیر کمرے میں آکر دیکھا ، تو اچھے کمبل پڑے تھے ، اور کمرے بھی صاف ہو چکے تھے ۔لیکن لڑکے جب واپس آۓ تو پتہ چلا ،، اس بلڈنگ میں اپنی روم سروس نہیں ہے ،ہمیں کھانے کا اپنا انتظام کرنا ہو گا ،، تو ہم سب ، ٹیکسی میں چل پڑے ،،، ٹیکسی ڈرائیور عربی کے علاوہ اور کسی بھی زبان سے نا بلد تھا ۔ تین ، چار میل ، بھٹکنے کے بعد ، اس نے اقبال بھائی ، اور دونوں لڑکوں سے پوچھا ،کہاں جاؤں ؟؟ اب " طعام" کے علاو کوئی لفظ نہیں آیا ،،، تو اس نے عربی میں جو کہا ہمیں سمجھ نہ آیا ، اور اب وہ کہنے لگا " آپ کا ہوٹل ؟ " ،،، تو اس وقت سب کو احساس ہوا کہ ہم نے نہ کوئ ڈائیریکشن دیکھی ، نہ ہوٹل کانام ،،، مرد حضرات تو فکر مند ہو گۓ ،،لیکن ہم خواتین پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا کہ ، ہم کیسے پڑھے لکھے " اَن پڑھ " ہیں جنھوں نے نہ ہوٹل کا نام دیکھا نہ روڈ اور ، کھانے کی فکر میں چل پڑے ۔ خیر ہم نے ٹیکسی کو کرایا دے کر فارغ کیا ، پیدل چل پڑے ، بہ مشکل 15 منٹ چلے تھے کہ اپنا ہوٹل نظر آگیا ۔ شکر کیا ،، اب پھر جوان بچوں نے کمال دکھایا کہ وہی دونوں گۓ ، مزید آدھے گھنٹے میں وافر ، کھانے کی چیزیں لے آۓ ،، معلوم ہوا ، اسی بلڈنگ کی بیک پر جو سڑک تھی ، سبھی کھانے پینے کی چیزیں ، اسی پر ہیں ۔بلکہ صبح کے ناشتے کا سامان بھی آگیا ،،، پتہ چلا ، حرمِ پاک ، یہاں سے ڈھائ ، میل کے فاصلے پر ہے ، اسی لیۓ روزانہ وہاں جانا ممکن نہیں ، صرف جمعہ وہاں پڑھا جاۓ گا ۔ ٹیکسیوں کے کراۓ ٹرپل ہو چکے ہیں ، اس لیۓ اب حج کے 6 ، دنوں تک صبر سے کام لینا ہو گا ،،، یہ بات اگرچہ قابلِ قبول نہیں تھی ، لیکن چارہ بھی نہ تھا ،، اب ساتھ والے پڑوسی کمرے کے افراد نظر آۓ۔ کیوں کہ ہمیں ایک باتھ روم شیئر کرنا پڑ رہا تھا ، اس کمرے میں تین خواتین اور دو مرد حضرات تھے ،، جوجی ، کی بے تکلف طبیعت نے اِس کمرے کی جوان لڑکیوں سے فوراً  سلام ، دعا ، کر لی ،اور انھیں کھانے کی کچھ چیزیں بھیجیں ، ، اور یہ بات مزید محبت کا باعث بنی ۔ بہت بزرگ ، خاتون ، ان میں سے دونوں لڑکوں کی اور ثمینہ کی امی تھیں ، جبکہ دوسری لڑکی ، چھوٹے بیٹے کی بیوی تھی ،،، ان پانچ ، چھے دنوں میں ، ان کا بہت سا تعارف ہو گیا ، بڑا بیٹا ، آرمی میں میجر تھا ، چھوٹا اپنا بزنس کرتا تھا ۔ جو اپنی بیوی کے ساتھ آیا تھا اور چوں کہ تبلیغی جماعت سے بھی تعلق تھا ، اس لیۓ کمرے میں ہی ایک پردہ لٹکایا گیا تھا ، جس کے ایک طرف ان میاں بیوی کے پلنگ تھے اور باقی کمرے میں والدہ ،ایک بیٹے عاطف ،اور بیٹی ثمینہ کے پلنگ بچھے تھے ۔ ساری فیملی خوش اخلاق ، مہذب ، اور بہت تعاون کرنے والی تھی ،، دوسرے ہی دن ہم خواتین ، انہی کے کمرے میں جا کر گپ شپ لگانے پہنچ گئیں ،، بزرگ خاتون کا نام بھول گئی ہوں ، لیکن وہ بھی ایک " منفرد کردار تھیں " اِن دنوں تو وہ وہیل چیئر پر تھیں ۔ لیکن اُن کی اور بیٹی ثمینہ کی زبانی علم ہوا کہ ، خاتون ، جوانی میں بیوہ ہو گئیں ، شوہر کوئ سرکاری ملازم تھے ،، گورنمنٹ کی طرف سے انھیں جو پیسہ ملا ، ، والدہ نے جو بہت پڑھی نہ تھیں ، لیکن برقعہ پہن کر ، ٹھیکیدار کے سر پر کھڑے ہو کر سرگودھا میں اپنا گھر بنوایا ، اپنی دو بیٹیوں ، دو بیٹوں کو اس خوب صورت عورت نے بہت سختی سے پالا ،، تاکہ یہ بچے ٹریک پر رہیں ،،، اور وہ رہے بھی ۔ اب دونوں بیٹیاں ، ایم ایس سی ،، بیٹا آرمی آفیسر ، اور چھوٹا کامیاب بزنس مین تھا ،،، بزرگ خاتون کی سختی ، نے ان کے مزاج کو تھوڑا کڑوا کر دیا تھا کہ ، لیکن ان کے چہرے پر نور اور وقار تھا ،، انھوں نے کسی کا احسان لینے کے بجاۓ اپنے وسائل ، اور عقل کے مطابق اپنے گھر اور بچوں کو گرم سرد سے بچایا تھا ،،، آج بچے ان کو حج پر لاۓ تھے لیکن اتنے تعبیدار ، اتنے شریف الفطرت بچے !،،، کہ ہم آج بھی ان کے لیۓ دعا گو ہیں اور وہ اُن 6 دنوں کے پڑوس نے ہمیں 12 سال بعد بھی ان کی یاد نہیں بُھلائ ،،، آج وہ جہاں ہیں ، اللہ سبحان تعالیٰ انھیں ، دنیا و آخرت کی آسانیوں سے نوازے آمین ،،، ایسے مواقع پرہم اکثر کتنے کم فہم ، کم ظرف ہو جاتے ہیں ، جب پتہ بھی ہوتا ہےکہ ، ہم کچھ دنوں ، کچھ گھنٹوں ، کچھ مہینوں کے لیۓ ایک دوسرے کے پڑوس میں ہیں ،،، اس دوران ، ہم آپس کے عارضی پڑوسی ، نہ تو جائیداد پر قبضہ کرنے والے ہوتے ہیں ، نہ ، چند دنوں کی بےآرامی سے ہم بیمار ہوں گے ، ہمیں چائیۓ اس بےآرامی ،بدمزاجی میں مبتلا ہو کراپنی تربیت پر حرف نہ آنے دیں ۔ ہمارے یہ شریف النفس پڑوسی،، ہمارے لیۓ مثال قائم کر گۓ ،،، ہم 11 بندوں کو ایک باتھ روم دیا گیا تھا ،، لیکن کیا مجال کہ ایک دن بھی "پہلے ہم " والا رویہ اپنایا ہو ، بلکہ غسل خانہ صاف بھی رہتا ،، ،،اگلے دن پتہ چلا ، ونگ کمانڈر منیب کی فیملی ، اور رومانہ اور عارف بھی اسی فلور پر آچکے تھے ،، یہ دونوں میاں بیوی آ جاتے اور روزانہ ، رات کو ایک ایک کپ قہوے کا دور چلتا ، اپنی اپنی معلومات شیئر کی جاتیں۔ 
دو دن تک تو ہاشم اور پاشا بازار کا کھانا لاتے رہے لیکن ، میرا کسی چیز کا دل نہ چاہتا ،، میں نے ہاشم سے کہا ، دال مسور ، اور چاول لے آؤ ،، آج وہ پکاتے ہیں ،، برتن اورکچن تو موجود تھا ،، چاول ، دال ، نمک آیا تو ، جوجی اور نگہت کے اندر کی گھریلو عورت ، فورا" باہر آگئ۔ اور انھوں نے ، رات کے کھانے پر دال چاول پکا کر ، ابھی کمرے میں لاۓ گۓ ، کہ عارف کا گزر ہوا ، ،، کہنے لگا آنٹی بہت اچھی خوش بو آرہی ہے ،، اور دال چاول دیکھ کر خوش ہو کر صاف کہا ، میں نے بھی کھانا ہے اور رومانہ کے لیۓ بھی دیں ،، اور ہم نے خوشی خوشی دیا ، ساتھ کے پڑوس ثمینہ کو ایک پلیٹ ، اور منیب فیملی کو ایک پلیٹ بھجوا ئ ،،، ایسی برکت پڑی کہ ہم سب نے بھی خوب اچھی طرح کھایا ، اور ایک پلیٹ بچ بھی گئی ،، یہ سب اس لیۓ خوشی کا باعث ہوا ، کہ ہم سب گھر کے کھانے کے عادی تھے ، اور اب جب پاکستانی انداز کا کھانا ملا ، تو سب نے مزے سے کھایا ،،، اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم دوسروں کی خوشی کا باعث بنے ، اور اتنا معمولی کھانا ، مَن و سلویٰ محسوس ہوا ۔
اِس دوران ہم سب نے ایک دو دن یہاں کے بازار کا چکر لگایا ،، بچوں کے لیۓ کچھ چیزیں خریدیں ،،،،، ۔
اب جمعہ آگیا ، خوب تیاری کی ، ٹیکسی لی اور مکہ پہنچے ،،،، مجھے اوروں کا نہیں علم ،،، لیکن خانہ کعبہ ، کو دیکھ کر دھاڑیں مار کر رونے کو دل چاہا ، یوں لگ رہا تھا ، کعبہ ہمیں دیکھ کر خوش ہوا ہے ، اور جیسے پوچھ رہا ہو ،، " کہاں تھے آپ لوگ " ،،، مجھے یوں لگا جیسے میں اپنے گھر آگئی ہوں ،، میرا بس چلتا تو میں فٹ پاتھ پر ٹھکانہ کر لیتی ،لیکن خانہ کعبہ سے دور نہ جاتی ،،، صرف چند دن ،، صرف چند دن ، یعنی شاید پندرہ سولہ دن ،، ہم نے خانہ کعبہ کی معیت میں گزارے تھے ،، ، ( پھر مدینہ روانگی ہوئی تھی ) ،،، اور اب یہ حال ہو گیا تھا کہ ،، کعبہ میرا ، اور میں کعبے کی ،، والا احساس ہو رہا تھا ،،،،، اُس وقت مجھے نبی پاک ﷺ کی ہجرت کا وقت یاد آیا کہ جب آپؐ ﷺکو مکہ چھوڑنے کا حکمِ ربانی ہوا تو آپؐﷺ نے کعبہ کو مخاطب ہو کر کہا تھا ، " اگر اللہ کا حکم نہ ہوتا ، تو اے مکہ ، مجھے روۓ زمین پر تجھ سے ذیادہ کوئ عزیز نہیں " ،،،،، ہم نے جمعہ پڑھا ،، طواف کیۓ ۔ اور ایک جگہ بیٹھ گئیں ،، جب مرد حضرات کی طرف سے موبائل میسج آیا ، کہ اب چلنا ہے ،، مخصوص جگہ پہنچ جائیں ،، تو باہر آکر ، یہیں سے کھانا کھایا ،، اب کی بار بس فوراً نظر آگئی اور ہم اسی پر واپس عزیزیہ پہنچے ۔ 
اس سے پہلے کہ ہم حج کے لیۓ منیٰ روانہ ہو جائیں ۔ یہاں میں اپنے بچپن کی سہیلی نسرین اور اس کی فیملی کا ذکر کر چکی ہوں ، جو بھوپال سے آکر ہمارے پنڈی والے گھر کے قریب ایک گھر میں ٹھہرے تھے ،،، عارفہ آپا ،، کو اللہ نے دو بیٹیاں ، اور ایک بیٹا عطا کیا تھا ،، ان کے سب بچے لائق ہیں لیکن سب سے بڑی بیٹی روبینہ بہت قابل تھی بعد میں وہ ڈاکٹر بنی ، اور اس کی شادی اپنے رشتہ داروں میں ہوئ ، مسرور، نے ،سی اے ، کر رکھا تھا ، دونوں میاں بیوی کی طائف میں جاب تھی ، یاد نہیں اسے کس نے بتایا کہ " منیرہ خالہ ، جوجی خالہ" حج کے لیۓ مکہ میں ہیں ،، روبینہ نے کسی طرح ، جوجی کا موبائل نمبر ٹریس کیا ،، اور جوجی کو رابطہ کیا کہ میں ویک اینڈ پر فلاں وقت ، فلاں جگہ آپ سب سے ملنے آؤنگی ۔ چناچہ ، مکہ میں قیام کے دوران جب ہم دس دن ، گزار چکے تھے۔ وہ اپنے میاں مسرور کے ساتھ آئ ، مغرب کی نماز ہو چکی تھی ،،، جیسی روبینہ ، ہمبل ، دینی سوجھ بُوجھ ، سادہ مزاج ، اور عاجزانہ فطرت والی تھی ،،، اللہ نے اسے شوہر بھی ویسا عطا کر دیا تھا ، اللہ کے کرم سے وہ چار بیٹوں کے والدین ہیں ،، وہ اُس دن خانہ کعبہ کی حدود کے باہر کم رش والی جگہ چٹائی بچھاۓ ہماری منتظر تھے ، اور رات کے کھانے پر" دعوت" جیسا اہتمام کر کے آئ ہوئ تھی ۔ دو سالن ، توے پر پکی روٹیاں ، دہی چٹنی ، میٹھا ، اور آخر میں قہوہ بھی ،،، اور ہم نے ندیدوں کی طرح یہ دعوت اُڑائی ۔ کہ ہوٹل کے کھانے کے بعد گھر کے پکے اس کھانے کا کتنا لطف آیا ،، کیا لکھوں ،،، بس یہ سب اللہ کا کرم تھا کہ، ہم جن کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ، انھوں نے ہمیں ڈھونڈ نکالا ۔ اور محبتوں کا مظاہرہ کیا ، کہ دل ، شاد ہو گیا، اُس نے اپنا اور ، میاں کا موبائل نمبرز دیۓ کہ کسی وقت کوئی چیز ضرورت ہو ، کسی دوا کا پوچھنا ہو ، بس آپ کال کر لیں ۔
واپس عزیزیہ پہنچے اور اب یہاں چھٹا دن تھا آج ہماری بسیں آرہی تھیں ، جو ہمیں ،،،،،،،،" مِنیٰ "لے جائیں گی ۔ صبح نماز کے بعد کچھ دیر سوۓ ،، اور پھر تیاری شروع کی ۔ہم سب ،نے نہا دھو کر اچھے کپڑے پہنے ، مردوں نے احرام پہنا ،،، سامان سمیٹا ۔ اور نیچے گراؤنڈ فلور پر آکر بسوں کے انتظار میں بیٹھ گۓ ،، اِس وقت ظہر ہوئی ، تو نماز لان میں پڑھی گئی ، پھر عصر ہوئی، تو وہ بھی لان میں پڑھی گئی ، آہستہ آہستہ صبر پر ضرب لگنے لگی تھی ۔ لیکن شُکر کہ بسیں پہنچ گئیں ،، اور ہم اپنے مقصدِ اولیٰ کی طرف گامزن ہو گۓ ، لبیک کا ورد آج ذیادہ آواز کے ساتھ ہونے لگا ،،،، اور مجھے پھر بخار نے آ لیا تھا ،، ہاشم سارا وقت ، میری دوائیوں کے لیۓ فکر مند ہوتا رہا ،،، لیکن مجھے خوشی نے ہر فکر بھلا دی تھی ۔۔ !
( منیرہ قریشی ، 12 فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

ہفتہ، 10 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں( سلسلہ ہاۓ سفر)۔" سفرِِحج" (10)۔

 یادوں کی تتلیاں" ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
سفرِِحج" (10)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اللہ کے حکم ، اور نبی پاکؐﷺ کے کرم سے ، ہم نے آٹھ دن مدینہ میں خیریت سے گزارے ، اور واپسی کا سفر ، عصر کے وقت شروع ہوا ،، بہترین بسیں ، حاجیوں سے بھرتیں ،، اور چل پڑتیں ۔ نہیں معلوم ، ہم میں سے کون ، دوبارہ اس "دنیا کی جنت" میں آ سکے گا ،، اور کس کا آخری پھیرا ۔
ایک عجیب سی کیفیت تھی ،،بس دل و دماغ پرایک خالی پن تھا ، ،،،،میَں ، جب بھی کوئی نعت سنتی ، یا آپؐﷺ کی محبت میں ڈوبا کوئی شعر پڑھتی ، یا جب آپؐﷺ کی سیرت میں آۓ مشکل لمحوں کو پڑھتی ،اس کو تصور میں لاتی تھی ، تو بہت دیر مجھے نارمل ہونے میں لگتے،، آنسو مجھے ہلکا تو کر دیتے لیکن دل بھاری رہتا ، کہ مَیں کہاں ،،، اور آپؐﷺ کا دیار کہاں ،،، مجھے ایک فیصد بھی یقین نہیں تھا کہ اللہ مجھ پر یہ رحمت کرے گا ، کہ اتنا بڑا انعام ، اتنا بڑا کرم ،،،! 1977ء میں ایک چھوٹی سی نظم لکھی تھی ، ( اس نظم کو صرف میرے احساساتِ محبت کو مدِنظر رکھ کر پڑھیۓ )۔
" مرکزِ محبت"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب کبھی مَیں مانگ مانگ کر تھک گئی
اور انتظار کی دھوپ ،سر پہ آچکی
چھاؤں پہاڑ کی چوٹی پہ جا بسی ،،،
میرا دل چاہا ۔۔۔
تُجھ سے گِلوں ، شِکوؤں کی بھر مار کر دوں 
تیرے وجود سے انکاری بنوں 
مگر ، " اُن ؐ " کی محبت نے
تجھ سے میرے معاملے فوراً سنوار دیۓ 
اور مَیں ،،،،،،
جو نہایت حقیر ہوں 
اور بھی حقیر ہو کر
دل اور پیشانی کو ،
جاۓ نماز پر جھکا دیتی ہوں !!!
اور اب جب اللہ نے ہمیں حیران کر دیا ۔ اور مَیں نے دن رات اِن پُرسکون ، معطر فضاؤں میں ، یہ آٹھ دن نہیں ، پندرہ سو سال گزارے ، کیوں کہ مجھ پر بار ، بار یہ احساس حاوی ہو جاتا ،، ان ہی راستوں پر آپؐﷺ کے قدم مبارک پڑے ہوں گے ،،، کیا پتہ ان درختوں ، ان پہاڑوں نے کیسی کیسی ہستیوں کو دیکھا ہو ،،، اور یہاں آپؐ ﷺکی آواز گونجی ہو گی ، اور خاص طور پر مسجدِ قُبا ، سے جبلِ احد سے لے کر مسجدِ نبویﷺ تک ،، کس ، کس ریت کے ذرے کو چوُموں کہ ، میرے نبیؐ ﷺکے پاؤںکو چھُوا ہو گا ،،، میں تو ماضی اور حال کو بیلنس کرنے میں کوشاں رہی۔
اورجب ہم کھجوروں کے اُس باغ کے قریب سے گزرے ، جو حضرت عمر رض نے اپنی زندگی میں بیت المال کو دے دیا تھا ، جس کے درخت آج بھی پھل دے رہے ہیں اور اس مال کو صدقہ کی مد پر خرچ کیا جا رہا ہے ،، تو اِس باغ کے پتے پتے نے آپؐ ﷺکی خوشبو پائی ہو گی ،،،،،،، میں کیا لکھوں کہ میرے پاس نہ الفاظ ہیں ، نہ بیانِ سلیقہ ، کہ اللہ رحیم کی اِس نعمتِ عظمیٰ کا شکریہ ادا کر سکوں ۔
حضور پاکﷺ سے شدت کی محبت کا اظہار ،،، ہم بہنوں ، اور بھائی نے اپنی اماں جی سے سیکھا ، وہ آپؐﷺ کے ذکر پر ہمیشہ آبدیدہ ہو جاتیں ، اور آج ، جب آپؐ ﷺکے شہر میں دن اور راتیں گزار کر ، اپنے اگلے فرض کو مکمل کرنے جا رہے ہیں ، تو سمجھ نہیں آرہا ، میرے اللہ کی محبت نے دل کو گھیرا ہوا ہے ، یا نبیؐ جیﷺ کی محبت نے ،،،،،، ایسے ہی احساس نے ان لفظوں کا لبادہ پہن لیا ہے !۔
" لذتِ عشقِ حقیقی"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مدت سے 
میرے نہاں خانۂ دل میں 
اِک روزن تھا ،
ٹھنڈی ہوا وہاں سے آتی 
کہ مشامِ جاں معؑطر ہو جاتی
اِس ہوا میں سکون وسکوت تھا عجب
کہ روح شدتِ محبت میں نِچڑ جاتی 
تحیر و تعجب بھی تھا ساتھ ساتھ ،،،
کہ اِک دن اِس خیال نے 
ہچکیاں باندھ دیں نماز میں 
یہ کیسا ہے " واحد " ، جس نے
اپنی " محبت " میں دوؐجا شامل کیا
اب عبد سے عبدؐ کی محبت کا ، لطف لے رہا ہے
عبؐد کی شفاعت کو شرط قرار دے رہا ہے !!
،،،،، اور بسیں بھری گئیں ، اور ہم نبیؐ جیﷺ سے رخصت لے کر چل پڑے ،، اب واپسی کے راستے کو غور سے دیکھنے کا پھر موقع مل گیا تھا ،، جب بسیں ، میقات کے مقام پر پہنچیں ، تو یہاں ہم نے صبح کی نماز ادا کی، اور پھر احرام کے تقاضے پورے کیۓ ! کہ اب ہم پر عمرہ واجب ہو گیا تھا ،،۔
تلبیہ کی گونج پھر سنائی دینے لگی ،،، تھکاوٹ کے باوجود ،،، دل اللہ کی محبت میں سرشار ہونے لگا ،،، اس کا شکر ایک مرتبہ پھر اپنے گھر کے دیدار کے لیۓ میزبانی کر رہا تھا ، یہ کتنی پیاری بات ہے کہ اُس رب نے اپنی شکر گزاری کا سلیقہ سیکھا دیا کہ جب دوسرے شہر سے آؤ تو میرے گھر میں آکر والہانہ محبت کا اظہار کر لو ،، پھر دنیا کے جو کام کرنے ہیں بھلے کرتے پھرو،، اور جب ہم مکہ میں حرمِ پاک میں پہنچے تو ابھی ظہر کا وقت نہیں ہوا تھا ،،، ہم خواتین اب اس سارے عمل سے بخوبی واقف ہو گئی تھیں ،، ہم الگ اور مرد حضرات الگ ہو گۓ ۔ بغیر تھکاوٹ کے تیسرا عمرہ مکمل ہوا ،،الحمدُ للہ ،، الحمدُللہ ،!!!!۔
( منیرہ قریشی ، 10 فروری2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

جمعرات، 8 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں(سلسلہ ہائےسفر)۔" سفرِِحج" (9)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
 سفرِِحج" (9)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہم خواتین نے نیگرو عورتوں سے کافی ڈوپٹے اور اونی خوبصورت جرابیں خریدیں ،، ذیادہ کوشش تھی کہ جس کسی کے لیۓ کچھ سوغات لینی ہے تویہیں سے لیں ، کیوں کہ اب مکہ میں خوب رش ہو چکا ہو گا ، ،۔
مدینہ پہنچنے کے دوسرے دن ، صبح 10 بجے ہم نے ایک ٹیکسی کرائے پر لی، اور اب اُن یادگار زیارتوں کی طرف عازمِ سفر ہوۓ ، جن کی حسرت ، ہراُس دل میں ہوتی ہے ، جو ایک دفعہ مکہ یا مدینہ پہنچ جاۓ۔ مدینہ سے 25، 20 ، منٹ کی ڈرائیو پر مسجدِِ" قُبا" پہنچے ،اور ایک دفعہ پھر دل ، و دماغ میں ہلچل مچ گئی ،، اُس پاکیزہ ہستیؐ کی آمد کا نظارہ ، آنکھوں میں پھرنے لگا ۔ میں جب بھی آپﷺ کی مدینہ ہجرت سے متعلق پڑھتی ہوں ،، تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتےہیں ۔ اور اب جب مکہ سے روانگی ہوئی،،، تو سارے راستے کو دیکھتی چلی گئی تھی کہ اتنے طویل راستے میں کوئی بڑا درخت نہ تھا کہ اُسی کی اوٹ لے کر سایہ میں کچھ دیر کو سستا لیا ہوتا ،،، یا ، ،، دشمن کے تعاقب پر خود کو یا اونٹوں کو ان درختوں کے پیچھے چُھپا لیا ہوتا ،،، اور پھر آمدِ رسولﷺ ،، اور آپؐ کی قصویٰ کا آپُ کے لیۓ پڑاؤ پر پہنچنا ،، اب مسجدِ قُبا ، ، ایک مرتبہ پھر آنکھوں نے محبت کے پھول پیش کیۓ ،، مَیں تو اس سارے سفر میں ، ماضی ، اور حال کے فلیش بیک سے اتنی دفعہ گزری کہ اب میں جسمانی سے ذیادہ ،، ذہنئ طور پر تھک گئی تھی ۔ لیکن مسجدِقُبا بےشک اب جدیدترین رنگ میں ہے لیکن ،، اس کی فضا میں آج بھی تاریخی لمحوں کی موجودگی کا احساس شدید تھا ،، یہاں کن جگہوں پر ،، کیسی کیسی ہستیوں کے قدم پڑے ہوں گے۔
آج اس چھوٹی سی مسجد میں رش بھی نہیں تھا ، آرام سے بہت سے نفل پڑھے ، پھر باہر آکر اس کے اردگرد پھر کر اسے عقیدت سے دیکھا ،، اور ان نظاروں کو دل میں بسا کر آگے بڑھے ۔ کیا پتہ پھر آنا ہو کہ نہ ہو !۔
بہ واپسی ، راستے بھر ،عربی ڈرائیور نے جسے کچھ لفظ، انگلش ،کچھ اردو کے آتے تھے، اس نے دور سے ہی مسجدِ بلال ؒ ، مسجدِفتح ، مسجدِعمر دکھائیں ،، اور ٹیکسی ، سیدھا " جبلِ احد " تک لے گیا ،، وہاں حاجیوں کی بہت سی بسیں موجود تھیں ،، کافی حاجنیں ، شاپرز میں جبلِ احد کی مٹی ڈال رہی تھیں ،، دل تو چاہا کہ ہم بھی ایسا کریں ،، لیکن نگہت ، کی پریکٹیکل سوچ نے منع کر دیا ۔ اس پہاڑ کے سامنے " جنت البقیع " کے باہر کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھی ۔ باہر بورڈ لگا تھا جس پر لکھا تھا، " یہاں گِریہ کرنا ، اور یہاں سے مٹی اُٹھانا غیرشرعی حرکات ہیں " جبلِ احدسیاہی مائل کافی اونچا چٹیل پہاڑ ہے ۔اور پھر جنگِ احد کا نقشہ آنکھوں میں پھرنے لگا۔ ،، اور پھر ماضی ، اور وہ بھی قابلِ فخر ، شاندار ماضی ،،،، !!ہم بہ مشکل عشاء کی نمازتک مسجدِ نبویؐ پہنچے۔ رات کو بستر پر لیٹتے ہوۓ ، خود پر حیرت ہو رہی تھی ، کیا ہم وہ مقامات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں !!کیا میں اتنے نصیب والی ہو سکتی ہوں۔
ؔ یہ بڑے نصیب کی بات ہے ، یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے ،
دو دن ایسی مزید مصروفیت میں گزرے کہ کبھی کسی شاپنگ مال ، یا کسی گلی کوچے میں ویسے ہی نکل جاتیں ۔ 
ایک دن مسجدِ نبویؐ میں ظہر کی نماز سے پہلے ، علی کے بچپن کےدوست عمر رضا کی بہن ، رومانہ سے ملاقات ہوئی ، بہت خوشی ہوئی ، وہ اپنے شوہر عارف کے ساتھ حج پرآئی ہوئی تھیں ، اور اُسی گروپ میں شامل تھے جب ہم نے ظہر پڑھ لی ۔ تو جوجی اور نگہت ، اب تیسری مرتبہ " ریاض الجنہ " جانے کی تیاری کرنےلگیں ۔ مجھے اتنے رش اور بھگدڑ میں جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ، حالانکہ دل چاہ رہا تھا ،،، میں دعاؤں میں مصروف ہو گئی ۔ کہ رومانہ کہنے لگی ، کیا آپ نہیں چلیں گی ،، میں نے کہا " بھئ خود میں ہمت نہیں آ رہی ،،، کہنے لگی ، آنٹی ، میں ہوں نا ،، سب سنبھال لوں گی ،، اس نیک بی بی نے میرے ریاض الجنہ پہنچنے تک ، اور پھر وہاں پہنچ کر خود کو ڈھال بنا کر کھڑی ہو گئی کہ آپ نفل پڑھیں ، میَں نے نفل تو پڑھے ، لیکن مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اسے کیسے دھکے پڑ رہے ہیں ،، ،،، اللہ اسے جزاۓ خیر دے ، اور دنیا و آخرت میں آسانیاں عطا کرے ۔ سلام پھرتے ہی اس نے مجھے بازو سے پکڑا اور کہا آپ باہر میرا انتظار کریں میں بھی نفل پڑھ کر آتی ہوں ،، جب وہ آئی ، تو اس کا سانس پھولا ہوا تھا ،،،میَں تو راستے بھر اس کا شکریہ ادا کرتی رہی ، ، اور وہ مجھے ، کوئی ایسی بات نہیں ،، کے لفظ کہتی رہی ،، وہ خوب وزن دار ، اور اونچی لمبی لڑکی تھی ،، اس لیۓ اتنے رش کا مقابلہ کر پائی ،، اللہ اسے اجر دے۔
اس دوران کبھی کبھی وہ لوگ مل جاتے ہیں ، کہ جیسے ہماری یادوں میں رہ جانے کے لیۓ ملتے ہیں ،،، ایک دن مسجدِ نبوی کے باہر ہی جگہ ملی عصر کی نماز میں ابھی کچھ وقت تھا ،، مَیں ، جس خاتون کے ساتھ جا بیٹھی ،،اس سے سلام دعاہوئی ،، اسکی انگلش بہت بہتر تھی ، اس نے ایرانی طرز کا برقعہ پہنا ہوا تھا،، جیسے ہی میں نے بتایا ، ہم پاکستان سے ہیں ۔اس نے بتایا میَں " زاہدان " سے ہوں اور سُنی ہوں ،،وہاں شیعہ کے درمیان ، اپنے مسلک پر رہنا بڑی بات ہے کہ اس شہر میں ہم وہاں تھوڑے سے ہیں "!جب ، ہم پہلی مرتبہ " ریاض الجنہ " کے لیۓ بنے راستے میں تھیں اور داخل نہیں ہوئیں تھیں،،کہ ،، سیکیورٹی پر معمور خاتون نے سب کی تلاشی لینی شروع کر دی۔ تو میرے ساتھ ایک انڈونیشی لڑکی کھڑی تھی ، اور وہ اپنے پینٹ جیسے پاجامے کے گرد ایک فیروزی سی سوُتی چادر لپیٹ رہی تھی،، میَں اسے دیکھ رہی تھی اس نے بتایا ،، ہم نماز کے وقت ایسی چادریں لپیٹ لیتی ہیں ،، ریاض الجنہ سے اتفاق سے ہم دونوں ایک وقت میں باہر کے دروازے سے نکلیں ،،، اس نے مجھے دیکھا ، تو فوراً اپنی فیروزی چادر اتار کر مجھے دے دی ،، یہ میری طرف سے ، اب میں بتیرا ، کہہ رہی ہوں ،، میں نہیں لوں گی ، ، لیکن اس نے ایسی زبردستی دی ،، کہ میں شرمندہ سی ہو گئی ،، وہ چادر ، آج بارہ سال بعد بھی میری الماری کے ایک کونے میں دھری ہے ، یہ نہ خود استعمال کی ہے ، نہ کسی کو دینے کو دل چاہا ،، بس کبھی صفائی کے دوران ، ایک فیروزی سی جھلک نظر آجاۓ ، تو مسجدِ نبویؐ ، انڈونیشیا ، اور وہ لڑکی ،،، یہ" منظر" لمحہ بھر کے لیۓ آنکھوں ، اور ذہن کے سامنے پھر جاتا ہے ،،مَیں ایک دن ایک چھوٹی سی دکان پر کچھ چیزیں دیکھ رہی تھی ، میرے پیچھے ، بہت چوڑا سا راستہ ، بلکہ چوڑی سڑک تھی ، مجھے نگہت ، اور جوجی نظر نہ آئیں ، تو انھیں دیکھنے کے لیۓ نظر دوڑائی ، کہ دُور سے ایک بہت لمبا ، متناسب جسامت ، والا ، خوب صورت چہرے پر ، سنہری فریم کی نظر کی عینک ، صاف رنگ ، شیروانی ٹائپ کرتا ، پاجامہ ، ،، ناف تک لمبی لیکن ہلکی، کچھ گرے ڈاڑھی ، جب وہ اُسی دکان کی طرف آتا نظر آیا ،،، تو آتے ہوۓ ، اس کی لمبی ڈاڑھی خوب لہرا رہی تھی ،، مجھے اعتراف ہے کہ وہ اتنا خوب صورت تھا کہ " فرشتہ " لگ رہا تھا ، اور میری نظریں مسلسل اسے ستائشی اندازسے دیکھے جا رہیں تھیں ،، ( اللہ مجھے معاف کرے ) لیکن ، اس پورے قیام کے دوران ہزاروں ، لاکھوں لوگوں میں یہ ایک ہی عجیب سا خوب صورت انسان تھا ،، جب وہ اُسی دکان پر آ پہنچا ، تو دیکھا ، وہ بہ مشکل میرے بڑے بیٹے جتنا ہو گا ،، اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور نور سا تھا ۔مَیں نے پوچھ ہی لیا ،،" کس ملک سے تعلق ہے " اس نے انگلش میں ہی جواب دیا " بوسنیا " ،،، اس نے بھی پوچھا ، تو مَیں نے بتایا " پاکستان "! !" بوسنیا " کا نام سن کر اور اس لڑکے سے مل کر علم ہوا ،، کہ لوگ کہتے تھے کہ بوسنیا کے لوگ بہت حسین ہوتے ہیں تو اب یقین آگیا ،، یقیناً اور قومیتوں میں بھی اپنے ہی الگ رنگ کا حسن تھا ،، سیاہ نیگرو خواتین میں ایسی پُرکشش خواتین تھیں ، کہ اللہ کی شان نظر آتی، ترکی اور چیچنیا کی ذیادہ تر خواتین خوب صورت تھیں ،، کچھ ان کے صاف ستھرے اور نہایت ڈیسنٹ حلیۓ ،، انھیں خوب صورت بنا رہے تھے ،، اور کچھ قوم کے افراد میں بہت خوب صورتی نہیں تھی ، لیکن ان کے چہروں پر عجیب شان اور دبدبہ نظر آتا ،، اور وہی بات سچل سرمست کی ،،ؔ وہ اپنا رنگ دیکھنے کے لیۓ لاکھوں بیکھ بنا رہا ہے ،،،،کچھ دیر کے بعد جوجی اور نگہت مل گئیں ، تو میں نے انھیں بتایا ،، آج میں نے اللہ کی بنائی مخلوق میں سے ایسا حُسن شاید ہی کبھی دیکھا ہو !!۔
مدینہ سے ہی کھجوریں ، خریدنا ہیں ،،، اقبال بھائی نے ہمیں پہلے ہی کہہ  دیا تھا ، چنانچہ مدینہ سے رخصت ہونے کے دو دن پہلے ، تینوں مرد حضرات ظہر اورعصر کے دوران کے گھنٹے ، کھجور بازار میں گزار کر آۓ ، اور فی بندہ 15 ،، 15 کلو کھجوروں کے کارٹن لے آۓ ،، ساتھ ہی پرُجوش انداز سے بتایا ،، صرف چکھنے میں ہی اتنی کھجور کھائی گئیں کہ ، زندگی بھر کی کسر پوری ہو گئی ۔ 
کیپٹن آفتاب ، اس کی ہمبل سی ڈاکٹر بیوی ، بہن اور بھانجے سے روزانہ ملاقات ہوتی رہی ۔ کبھی قہوے کی دعوت بھی دی جاتی ۔ آفتاب سے میرے والد کی طرف سے رشتہ داری تھی۔ 
پاشا نے ہمیشہ اپنے خوش گوار موڈ سے سب کے چہروں کو مسکراہٹ ، دینے کی کوشش کی ، اور وہ اس میں کامیاب بھی رہتا ،، اس نے یہاں بھی مختلف رنگوں کے عربی " توپ "پہن کر ایسے پوز بنا کر پروفیشنل فوٹو گرافر سے تصویریں بنوائیں ،، جیسے کوئی " ان پڑھ " بندہ ہو ،،، ہم نے انجواۓ کیا ، اور اس کا مذاق اڑایا ،، لیکن اس کا کہنا تھا " یہ سب پوز فوٹوگرافر کی مرضی سے بناۓ گۓ ہیں ،، لیکن اب ہاشم اور پاشا میں کافی بےتکلفی ہو چکی تھی ،، جب ہاشم کھُل کر ہنستا ، تو میرادل کھِل اُٹھتا ،، مَیں اور جوجی ،، یہ حج اس کے محرِم ہونے کی وجہ سے کر رہیں تھیں ،، میں تو ہر لمحہ اس کو دعائیں دیتی۔مجھ میں خوداعتمادی کی کمی رہی ،،اس لیۓ آج بھی اکیلے سفر کا حوصلہ نہیں کر پاتی ،، اور یہ تو پہلا غیرملکی سفر بھی تھا ، ہمارے لیۓ اپنے بچے کا ساتھ ہونا ، بہت معنی رکھتا تھا ،، ہاشم نے ہمارے ساتھ آ کر بہت دعائیں سمیٹی تھیں ، اللہ سے دعا ہے ، اس بات کا اجر دنیا اور آخرت دونوں میں عطا کرے ۔ آمین !۔
( منیرہ قریشی، 8 فروری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )