ہفتہ، 27 فروری، 2021

"کیوں ؟؟؟"

گھوڑے اِک عجب سرکشی اور زور آوری سے بھاگتے ہیں

راستوں کے منظر اور رنگ مدغم ہیں باہم

اب کوئی فکر نہیں ہے

وہ ٹکراتے ہیں کہیں ، یا ٹھہرتے ہیں

لمبی دوپہروں میں،یا طویل راتوں میں

خنک شاموں میں ، یا سحر انگیز ، وقتِ سحر میں

،،،،،،،زندگی

کہ جس کے جُزو و کُل سے نا آسودگی نہ گئی

اور اسی جُزو کُل کے درمیاں " کیوں " کا پُل ہے

نا پائیداری ہی اول و آخر سبق ٹھہرا

کبھی کسی منظر میں ، کبھی کسی جذبے میں

!!! اے کائناتِ قدیم

ہر منظر کے پس منظر میں اِک سائیہء نامانوس

ہاتھوں کے اشاروں سے ،، ہلکی ہلکی سرگوشیوں سے

وہ کچھ کہہ تو رہا ہے ،

آسودہ قلب کہاں ہیں ،

آسودہ قلب کیوں نہیں ہیں ؟؟

خیالوں کے سرکش گھوڑے

کہاں ٹکرائیں ،، کیوں کر ٹھہریں

میَں کیوں جانوں !! میَں کیوں دہلوں !

احتیاطوں نے تھکا مارا ہے ،،

کیوں کی گونج نے ستا مارا ہے

( منیرہ قریشی 27 فروری 2021ء واہ کینٹ )

بدھ، 3 فروری، 2021

"لمحےنے کہا"

"لمحےنے کہا"

(اِک پرِِخیال)

اصل میں تو " اک پرِ خیال " کے چھپر تلے سبھی خیالات کو ذیلی عنوان دے کر الفاظ کا پیرہن پہنا کر قارئین کے سامنے لاتی رہی ہوں ،، کبھی یہ لباس خوش رنگ ، اور نظر پذیر ہوتے اور کبھی خاصے پھیکے ، بد رنگے ،،، کبھی قیمتی لفظوں کا جامہ ہوتا ،،، اور کبھی معمولی لباس اس کی حیثیت متعین کرتا رہا ،،،، لیکن شکریہ اُن لوگوں کا جنھوں نے ہر لباس کو کسی نا کسی ستائشی جملے سے سراہا ،، اور مجھے اپنے معیار کا اندازہ ہوتا رہا ،،، لیکن لکھنا نہ چھوڑا ۔ اور یوں " اک پرِ خیال " کے تحت اتنے انشائیۓ جمع ہو گئےکہ ایک کتاب بن سکے ،،، لیکن پنتالیس سال سے کبھی چھوٹے دورانییۓ اور کبھی لمبے وقفے سے نثری یا آزاد نظمیں لکھتی رہی اور اپنے ارد گرد کے لوگوں ، واقعات، ان کے تفکرات اپنے محسوسات کو ایسے لکھتی رہی ،، کہ جیسے اگر یہ الفاظ نظم کی صورت نہ لکھے تو لفظ سونے دیں گے ، نہ ضمیر چین سے بیٹھے گا ۔ چنانچہ دوسو سے زیادہ نظموں کو ایک عام سی ،، کسی حد تک ردی سی ڈائری میں لکھتی رہی ،،، ،،، کچھ مضمحل ،، کچھ متفکر دنوں کے وجود سے کبھی کبھی ،، ایک خوش رنگ خیال سامنے آ جاتا ہے تو متفکر فضا سے جیسے کثافت دْھل سی جاتی ہے ۔

اتنی تمہید باندھنے کی وجہ یہ بتانا تھا ،، کہ کُرونا 19 نے جہاں سب کو ہی محدود کر دیا ،، وہاں بزرگوں کو ان کی بزرگی کام آئی ، اور انھیں قیمتی جانتے ہوۓ " باہر آزادانہ جانے کی ممانعت کر دی گئی ۔ مجھے یوں لگا کہ یہ دن صرف سوچے جانے والے کاموں کو عملی جامہ پہنانے کے بھی ہو سکتےہیں ۔ تو چلو وہی کام نبٹا دیۓ جائیں ۔ اور یوں اپنی پنتالیس سالہ کاوش ، اپنے ذہن کی " کان " سے کان کنی کر کے نکالے گئے " نودرات " ترتیب دیۓ اور ، شائع کروانے دے کر سب کے سامنے رکھ دیۓ ۔ شاید پڑھنے والوں کے لیۓ " بس ٹھیک ہی ہیں " کا جملہ ہو لیکن میرے لیۓ یہ نوادرات ہیں،،،مجھے یوں لگا یہ الفاظ قیمتی لمحوں نے مجھے سکھاۓ ، مجھے سماعت پذیر کیۓ،دل میں اتارے ،، اور پھر صفحات میں پھیلا دیۓاسی لیۓ اپنی زندگی کے اس خوبصورت اور قیمتی کارنامے کو اُسی لمحے کے نام کر دیا ۔ اور اس طرح مجھے،، کرونا19 کے لمبے بے کار دنوں میں اپنی پہلی کتاب پر کام مکمل کرنے کا موقع اللہ رب العزت و الرحمٰن نے دے دیا اور تین فروری 2021 میرے لیۓ ایسا دن تھا ، جیسے میں چار سال کی ہوں ، آج میرا نتیجہ ہو اور غیرمتوقع طور پر پہلی پوزیشن مل جائے۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے اللہ کی رحمتِ خاص مجھ پر پھوار بن کر برس رہی ہے۔ مشہور مصنف شفیق الرحمٰن نے ایک جگہ لکھا ہے " بڑی عمر ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ جب چوٹ لگے تو آنسو روکنا ہیں لیکن چوٹ اتنی شدید ہوتی ہے ، کہ رونے کو جی چاہتا ہے اور میری اپنی اس کامیابی پر ( شاید باقی مصنفین ، و شعراء پر پہلی تصنیف کا یہ ردِ عمل نہ ہوا ہو ) یہ محسوس ہو رہا تھا اور مجھے یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ " یوں لگ رہا تھا کہ مجھے کم از کم فیس بک پر اشتہار دینا چاہیے،،،لوگو!اس عمر میں پہلی تصنیف کا سامنے آ جانا ،،ایک بڑا کار نامہ ہے؛؛؛،،،لیکن کیا کروں کہ عمر کا تقاضا کہ جذبات کو ضبط سے پیش کیا جاۓ ! "۔

میری آنکھوں سے اللہ کے بعد ہر اس شخص کے لیۓ تشکرکے آنسو تھے،،جنھوں نے مجھے آسانیاں دینے میں کوتاہی نہیں کی ، ،،" لمحے نے کہا " کے نام سے میری نظموں کی کتاب شائع ہو کر اب ہر اس گھر کے شیلف میں پہنچ رہی ہے، جو میرے بعد بھی کبھی کبھار مجھے محبتوں سے یاد کرتے رہیں گے،،،الحمدُ للہ ، الحمدُ للہ،۔

( منیرہ قریشی 3 فروری 2021 ء واہ کینٹ )

اپنی اب تک کی زندگی میں لا تعداد،،،ان گنت بے شمار نعمتوں کے لیۓ اپنے خالق کی شکر گزار ہوں !۔