اتوار، 25 جون، 2017

"پراسرار گھنٹیاں"

۔" کامل علی کے نام" لکھی تھی جب وہ بارہویں برس میں لگا ،،،،یہ 1986ء کا سال تھا ،، اور اب 2017 ہے جب اس کا بیٹا ماشا اللہ بارہویں برس میں لگا ہے ! مزاج میں کتنی مطابقت پائی جا تی  ہے کہ مشہور انگریزی کوٹیشن یاد آ گئی "لائک فادر لائک سن" ! جواردو میں کچھ یوں کہا گیا ہے "باپ پر پوت ، پتا پر گھوڑا ،، بہت نہیں پر تھوڑا تھوڑا !۔
" بارہواں برس "
اس بارہویں برس میں 
تمہاری آنکھوں کا رنگ شربتی  ہو چلا  ہے
چہرے کی رنگت سنہری  ہو چلی  ہے
لکڑیوں کا کُلہاڑی سے چیرنا،باعثِ خوشی ہے
اور پھر اپنے مَسلز کا دیکھنا، باعثِ فخر ہے
یہ سخت کوشی ، سخت منزلوں کی تیاری ہے
ابھی تم اپنے مسلز بنانے میں محو ہو
ابھی تم اس جسم کی بھول بھلیوں سے آگاہ نہیں و
اس بارہویں برس میں ،،،،
غصہ تم سے مدھر سرگوشیاں کرے گا
ہر "انکار " اپنے خلاف محاذ لگے گا
بات مان ، لینا ناگوار سا لگے گا ،،،
یاد رکھنا ،،،!
جب بھی تمہارے جسم نے تمہیں
زندگی کی بھول بھلیوں میں دھکینا چاہا !
پاکیزہ جذبات کی کُلہاڑی سے ،،،
اسی جنگل سے راستہ نکال لینا !
بدی کی پُراسرار گھنٹیوں کا جواب کبھی نہ دینا
ہرگز نہ دینا ،،،،،!!
(منیرہ قریشی اکتوبر 1986 ء واہ کینٹ )

" نوحۃ عیدِ"

۔" یہ کیسی عید آئی " آج ہمارے ملک میں چاند رات  ہے ،،، اور چار پانچ دنوں میں کوئٹہ ، پارہ چنار میں خود کش بم دھماکوں نے 100 کے قریب لوگوں کو شہادت کے رتبے پر پہنچا دیا ، اور اب آج 135 لوگ شرقپور میں ٹینکر کا لیکیج آئل بالٹیوں ، اور شاپرز میں بھرتے ھوۓ یکدم آگ کی لپیٹ میں آۓ اور بھسم ھو گۓ ، زخمیوں کی تعداد کا کچھ پتہ نہیں !! 
انسان کیا چیز  ہے کہ پھر بھی کھا پی رہا  ہے ، ہنس بول رہا  ہے ،تھوڑی دیر کے لۓ اجنبی لوگ افسوس کرتے ہیں ، پھر " ان کی ایسے ہی لکھی تھی " کہہ کر روز مرہ میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔
لیکن ان چلے جانے والے وجود سے وابستہ لوگ سوچ رہے ہیں کیا ہم زندہ ہیں ؟ کیا ہمیں زندہ رہنا چاہیئے ؟؟ کیا  ہم  صرف رو ، دھو کر صبر کر لیں گے ؟ کیا ہمیں صبر آجا ۓ گا ؟؟ آہ ان چیتھڑے ہوۓ لوگوں اور اُن خاک شدہ لوگوں ،،،پر رونے والی آنکھوں کے آنسو خشک ھو سکیں گے ! کبھی نہیں ! لیکن پھر وقت کا مرحم اپنا کام دکھاتا چلا جاتا ھے !! اور لوگ کھاتے پیتے ، ہنستے بولتے ، اُس رب کی رضا پر راضی ھونے لگتے ہیں ! لیکن عید کا چاند جب، جب نکلے گا ،لوگوں میں خوشیوں کی پُھلجھڑیاں بانٹے گا ،،، لیکن اِن ریزہ ریزہ اور اُن راکھ ھو جانے والوں کے لواحقین میں آنسوؤں کی برسات بانٹے گا ،،،،بچھڑنے والوں کا غم پھر نۓ کپڑے پہن کر ان کے گلے لگے گا !
بازاروں میں اپنوں کے لۓ خوشیاں ، خریدنے والے جب گھروں کو چیتھڑوں کی صورت لوٹاۓ گۓ ھوں گے ،تو یہ غم نسلوں تک بُھلایا نہ جا سکے گا !!۔
مجھے اُن سادہ ، اور چند روپوں کی بچت کرنے والے خاک شدہ لوگوں نے اتنا اداس کر دیا کہ اپنے احساسات کو چند جملوں میں پہنچانے کی کوشش کی ھے ،، کاش ھماری قوم ،بدامنی ،، لاعلمی ، اور غلط فہمیوں کے چُنگل سے نکل جاۓ۔کاش ہم ایک  باشعور قوم بن جائیں ،،،۔
(منیرہ قریشی 25 جون 2017ءواہ کینٹ )

منگل، 20 جون، 2017

" مہربان مہربان موت "

" مہربان مہربان موت " 
ہم جب بھی کسی کی موت کی خبر سنتے ہیں تو منہ سے" انا للہِ وَانا علیہ راجعون "کا جملہ نکلتا ہےاور دل اداسی میں ڈوب جاتا ہے ۔ کوئ انجان ہو تو اداسی کےلمحےکم وقت لیتے ہیں ،کوئ جان پہچان والاہوتویہ دورانیہ قدرِ لمبا ہو جاتا ہے اوربہت قریبی شخصیت ہے تو نہ صرف اداسی کا ڈیرا ذیادہ دن رہتا ہے بلکہ اس کی باتیں ہوتی ہیں اور آنکھوں کے آگےانکے ساتھ گزرے وقت کی ریل چلنے لگتی ہے،کچھ ماہ یہی کیفیت رہتی ہے،اور وہی دنیا اوروہی دھندے، وہی دلچسپیاں ،،،،!
حالانکہ جو جملہ کسی کی موت پر فوری نکلتا ہے اس کا مطلب یہ واضع کرتا ہے کہ"بے شک ہم سب نے لوٹ کر اسی خالق کی جانب ہی جانا ہے ۔لیکن افسوس کی شدت کے باوجود ہم اپنی موت بھولے ہوتے ہیں ،،،،۔
؎ بُلیا اساں نائیں مرڑناں 
!!گور پیا کوئی ہور
آہ اور افسوس کا تاثر برِصغیر میں کچھ اور طرح، اہلِ عرب میں اور طرز پر اور سفید فام میں اور طریقے سے لیا اور منایا جاتا ہے ۔ ان سب کو زیرِبحث لانا مقصود نہیں ،،، خاندان کےوہ بزرگ جو آخری چند سال یا مہینے اپنوں کے درمیان میں گزارتےہیں تو دراصل ان پر قسمت کا آخری وار، آخری پیرا گراف کا مکمل ہونا ہوتا ہے ۔ اب یہ " ہیپی اینڈ " کے ساتھ جاتے ہیں یا ان دعاؤں کے ساتھ کہ" یا اللہ اِن کو اُٹھا لے یا ،،، اے اللہ مجھے سنبھال لے " یہ سٹیج کا آخری سین ہوتا ہے جو بظاہر لمبا چل رہا ہوتا ہے لیکن ساتھ ساتھ پیچھے رہ جانےوالوں کی تقدیر بھی رقم کر رہا ہوتا ہے ! ۔
یہ موضوع اگرچہ بحث طلب ہے ،،، لیکن جب سے دنیا بنی ہے بزرگوں کی " آخیر " اکثر سوالیہ اور بوجھ والا ،،،،،پہلو رہا ہے اور رہے گا ! سمجھ نہیں آتا کیوں ؟؟؟؟ حالانکہ اس میں بھی صرف اور صرف " صبر و تحمل " کے " ٹول " کی ضرورت ہوتی ہے ، بس ۔۔۔اصل میں خدمت کے لۓ چُنے جانے والے والے لوگ " چُنیدہ " ہوتے ہیں اور وہی خوش قسمت ہوتے ہیں ، اللہ ان میں تحمل ، محبت ، اور صبر کے ایلیمنٹ ڈال دیتا ہے اور وہ اپنی آخرت غیرمحسوس انداز سے سنوار لیتے ہیں ،،، کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں ، ان دعاؤں کے مرکز کے جانے کے بعد کم از کم بقایا زندگی سکون کی نیند سوتے ہیں اور مطمئن رہتے ہیں۔
آج میری ملازمہ کا فون آیا " باجی میں کچھ دن نہیں آسکوں گی ، میری نانی فوت ہو گئی ہےاور ہم سب گاؤں جا رہے ہیں "،،،، جوابا" میں نے اسے کہا " میری طرف سے اپنے 6 عدد ماموؤں کو مبارک باد کہنا ، کہ شکر کرو تمہاری ناگوار ڈیوٹیاں ختم ہو گئی ہیں " ،،، کچھ لمحوں کے لۓ اُس بوڑھی خاتون کے لۓ میرے دل میں غم کا احساس اُبھرا ، دوسرے لمحے میں نے سوچا " موت بھی کتنی مہربان ہے اور اللہ کی کتنی کرم نوازی کہ اس نے اپنے بندوںکو موت کی صورت میں تمام،شکائیتوں ، نفرتوں اور  ناگوار اخراجات کی صورت میں چھٹکارا دلا دیا ہے ! ،،،، نانی کے مرنے کاسن کر میری ذہن نے جو اس عورت کاتصور قائم کیا جسے میں نے زندگی میں نہیں دیکھا لیکن جس کی ضروریات ، بے چارگی اور لاچاری کی کہانیاں ، نواسی کی زبانی سُنتی رہتی تھی کہ ہمارے چھ ماموں ہیں سب ہی محنت کش ہیں لیکن ان کے نزدیک سب سے فالتو خرچہ " اس ماں " کا ہی ہوتا ہے وہ کبھی ایک بیٹے کبھی دوسرے ،، اور جب سب ہی اُکتا جاتے تو وہ مجبورا' بیٹیوں کو پیغام دیتی" مجھے آ کر لے جاؤ " لیکن بیٹیاں اپنے سخت گیر خاوندوں یا کثیر الایالی اور غربت کے ہا تھوں کبھی اس کی سنتیں کبھی کسی بھائی کو غیرت دلاتیں اور اب وہ اللہ نے اپنی تحویل میں لے لی ، یہاں نہ کوئی کمرہ گندہ کرنے کا طعنہ ، نہ پیمرز اور دوا خریدنے کا احسان ، نہ زیادہ یا کم کھانے کا نخرہ کرنے کے دلفگار الفاظ ہوتے ہیں ، بلکہ سکون ، سکھ اور ہمیشگی کی چھٹی ، ایک ماں نے 9 بچے پالے لیکن یہ نو بچے ایک ماں کو بوجھ سمجھتے ہوۓ اپنے آنے والے وقت کے دستاویز پر دستخط کر رہے ہوتے ہیں !۔
ایسا سلوک صرف غربت ہی کی وجہ سے نہیں ہوتا ۔ خوشحال گھرانے بھی خود تھکنے کے بجاۓ اپنے بیمار بزرگوں کے لیے کسی غریب رشتہ دار  یا ملازم کو رکھ کر ان کی خدمت سی فارغ  ہو جاتے ہیں ،،، ایسے بزرگ موت کا انتظار ایسے کرتے ہیں جیسے جوان دولہا اپنی دُلہن کا ،،،،، تمام تر گناہوں سمیت وہ ربِ رحیم و جلیل وکریم ہماری پردہ پوشی فرماتا ہے اور خاتمہ بالخیر کر کے دکھ کے سمندر سے اپنی محبت کے کنارے پر سمیٹ لیتا ہے ۔
الحمدُ للہ ،، یا رحمت العالمین ، تو نے موت کی صورت میں محبت کا عکس دیا ۔
" آپ کی اچھی سوچ اللہ کے کرم کا نتیجہ ہے " ( پروفیسر احمد رفیق صاحب)۔
( منیرہ قریشی  13نومبر 2016ء واہ کینٹ )

پیر، 19 جون، 2017

"تشکرِ"

" الحمدُللہ "
اک مدت سے میرے 
نہاں خانہء دل میں 
اِک روزن تھا ،،،
کبھی ٹھنڈی ہوا وہاں سے آتی
کبھی مشامِ جاں معطر ہو جاتی
اس ہوا میں عجب سکون و سکوت تھا
روح جذبہؑ شدت سے نچڑ جاتی !
تحیر و تعجب تھا ساتھ ساتھ
یہ کس سے انتہاۓ عشق ہے ؟
یہ کیسا ہے انتہاۓ خیال ،،،؟
کہ ،،،،،
اِک دن اس خیال نے
ہچکیاں باندھ دیں نماز میں
تُو کیسا " واحد " ہے ،جس نے
اپنی "محبت " میں " دُوجا ؐ" شامل کیا
عبد سے عبد کی محبت کو معراج کیا
عبد کی شفاعت کو بھی شمول کیا
سُبحانَ ربی الاعلیٰ ،سُبحانَ ربی الا علیٰ
( منیرہ قریشی ،، (23 رمضان ) 19 جون 2017 واہ کینٹ )

بدھ، 14 جون، 2017

"تضاد"

تضاد " ( مُستقل منظرِ دنیا )۔"
چیختی ٹریفک 
رنگ بدلتے سگنل 
جگمگاتی سڑکیں 
چم چم کرتیں بھری دکانیں
اور آس پاس ،،،
تیز دوڑتی پتلونیں
رعونت بھرے پرس
کچھ مانگتے ہاتھ
مایوس نگائیں
خُشک ہونٹ
بےحقیقت سے لوگ
اور ان سب کے اوپر
چودھویں کا چاند ،،،
پیلا پیلا اور بے نیاز
( منیرہ قریشی ، اکتوبر 1974ء راولپنڈی )
۔( 1974 کی شام کا منظر ، آج 2017 جون کی14 کا منظر اتنا ایک جیسا تھا کہ اپنی یہ نظم یاد آئی اور شیئر کردی ! اور یقیناً 2050 کا منظر کوئی اور محسوس کرے گا اور لکھے گا ،،، محسوس ہوتا ہے جیسے تضادات دنیا ، اس تخلیق کا حصہ ہو)۔

بدھ، 7 جون، 2017

"گواہی"

محترمہ  اسنیٰ بدر صاحبہ کی ایک نظم " آخری عرضی " کے شروع کے الفاظ نے میرے دل پر قبضہ کرلیا اور میں مجبور  ہو گئی کہ اس نظم کے دوسرے مصرعے کو " چُرا " کر استعمال کر لوں اور اُن الفاظ اور ان احساسات کو آپ سب سے شیئر کرلوں وہ مصرعہ ہے" اے اللہ میاں کچھ وقت تو دو یہ میری آخری عرضی ہے " !۔
" گواہی "
میری بھی ایک عرضی  ہے
تُو سُنے نہ سنے ، تیری مرضی  ہے
میرے مولا ،،،
میرے پاس تیری خوشنودی کے الفاظ
گُم  ہو گئے ہیں ،،،،
تُجھ سے اظہارِ محبت کے اعمال !
سُن  ہو گئےہیں ،،،
اندر سے خالی ہو چلی
احوال سے ماضی ہو چلی
وہ افعال سُجھا دے
وہ لفظ سُنوا دے
وہ لفظ سکھا دے
وہ لفظ بُلوا دے
کہ وہ لفظ ہو جائیں
عبد کی محبت کی گواہی
تُو کِھل اُٹھے جن سے
تری رحمت مسکرا اُٹھے جن سے
میری بس یہی عرضی  ہے
آگے تیری مرضی  ہے
( منیرہ قریشی 7 جون 2017ءواہ کینٹ )

"آگاہی"

" آگاہی " ( بلھے شاہ سے متاثر ہو کر )۔
علموں بس کریں او یار 
کتابیں بہت پڑھ لیں 
کچھ فہم کی کچھ ادراک کی
کچھ فلسفہ و عرفان کی 
کچھ تدبر کی ، کچھ افکار کی
تُو سامنے تھا ،،،، مگر
آنکھ کی پُتلی سے اوجھل
تُو کچھ کہہ رہا تھا ،،،مگر
حسِ سماعت ، غارت تھی
میری لگن ہی کھوٹی تھی
میری تلاش ہی ماٹھی تھی
دراصل ،،،
کچھ نفس گُھلتے ہیں !
کچھ آنکھیں برستی ہیں
کچھ سجدے لمبے لمبے سے
کچھ کشکول لرزے لرزے سے
تب آنکھ کھل جاتی ہے
باطن میں جھاڑو دلتا ہے
جالے جھاڑے جاتے ہیں
شرمندگی کے در کھولے جاتے ہیں
تب ، رحمت رِم جھم ہوتی ھے
اور ،،،
سکونِ دریا چُھوتا ہے
ماٹی کی مورت کھِلتی ہے
بہت کشت نہیں جھیلنے
بہت پا پڑ نہیں بیلنے
بس صبر کا پنکھا جھلنا ہے
اور ٹھنڈا پانی پینا ہے
کتابوں نے کیا سکھانا ہے
ڈگریوں نے کیا منوانا ہے
کاسۂ سر کے خالی پن کو
بس ایک ہی سُر پے لانا ہے
اکو الف ، اللہ درکار
علمو بس کریں او یار !!
( منیرہ قریشی 7جون 2017ء واہ کینٹ )

اتوار، 4 جون، 2017

"کیفیت"

انسان زندگی بھر نا مطمؑن رہتا  ہے ، کبھی کبھار ایسے لوگ مل جاتے ہیں کہ " نہیں بھئ ہم تو بہت پُرسکون بندے ہیں ، وغیرہ ! لیکن جب تک کوئی" ترجیح اول و آخر " کو دل میں بسا نہیں لیتا وہ سکون نہیں پا سکتا ،،،، مجھے قطعی یہ دعویٰ نہیں کہ میں یہ کیفیت پا چکی ہوں ، ہر گز نہیں ،،، البتہ یہ ضرور کہوں گی کہ وہ اک لمحہ تھا جو مجھ پر طاری ہوا اور گزر گیا لیکن " سچل سرمست " کی پسندیدہ نظم کی طرح میری اس نظم نے مجھے ہمیشہ اس سحر میں لیے رکھا کہ جسے کوئی نام نہیں دے سکتی ۔ بس اللہ سے اس جذبے کی قبولیت کے لۓ دعا گو ہوں !۔
۔" اعترا ف " ( پنجابی نظم )۔
" مَل مَل کالک دلے نی تہُواں
اَتھروآں نا ل ،،
د لے نے اُبال آن ترونکے ماراں
ا تھروآں نال ،،،
را تاں گُزرَن تیرے اَگے
ا تھروآں نال ،،،
تیرے بُوہے میں سوالی !
اَ تھروآں نال ،،،
سِرے چایا فرمیشی تھا ل
شرمندہ ہوواں
اَتھروآں نا ل ،،،
مَیں جۓ گُناہ گار کتھے وِ نجنڑ
اَج گل مُکا ساں
اَتھروآں نال ،،،
( منیرہ قریشی ، 4 جون 2016 ء واہ کینٹ )
(کچھ احباب کے لۓ اردو میں )
دل کی سیاہی کو مل مل کر دھو رہی ہوں
آنسوؤں کے ساتھ ،،،
دل پر غم کا ابال  ہےآیا ، اس پر چھینٹے پھینکوں
آنسوؤں کے ساتھ ،،،
راتیں گزریں تیرے آگے
آنسو ؤں کے ساتھ ،،،
میں سوالی تیرے در کی
آنسوؤں کے ساتھ ،،،
سَر پر فرمائشوں کا تھا ل ھے
شرمندگی بےحساب ہے
آنسوؤں کے ساتھ ،،،
میرے جیسے گناہ گار آخر کہاں جائیں
آج فیصلہ  ہو ہی جاۓ
آنسوؤں کے ساتھ ،،،
( منیرہ قریشی )