جمعہ، 31 مارچ، 2017

" جنگل کنارے "

" جنگل کنارے "
شام کے دھندلکے میں 
اکتوبر کی خاموش جھڑی میں
ایستادہ جنگل ، جیسے بوڑھا فوجی
!اپنی کہانیاں سنانے کو بےقرار  ہو
اور سننے والا کوئی نہ  ہو
!!!دُکھ
کچھ کہنے کا ، کچھ سننے کا، کچھ چُپ رہنے کا
دُکھ
بےنیاز وقت کی ٹِک ٹِک کا
بقا کا عجیب دُکھ
فنا کا بےآواز دُکھ
نظاروں کو سراہتی آنکھیں اندھیروں میں اُتر جاتی ہیں
!ایستادہ جنگل، لبوں پرلفظ سجاۓ کھڑے رہ جاتے ہیں
( منیرہ قریشی ،اکتوبر 2014ء ما نچسٹر)

" ہائیکو "

" ہائیکو " 
۔(آ) " یاد"
پولا جۓ بُوآ کھول کے 
نِیویں پیراں نیڑے آ کے ، او بولی 
تُسی ما یاد کیتا سی ،،،،؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔(ب) " سنگدل موسم "
سیاہ بادلوں کے پرے آۓ
یخ بستہ ہوائیں ساتھ لاۓ
!کمزور دیواروں ، پھٹے کپڑوں میں گُھسنے کو
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔(ج) " اہمیت "
وقت آہستگی سے گزر رہا ہے
موت تیزی سے لپک رہی ہے
دم بخود ہیں ادھورے خواب کہاں سنبھا لیں ؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔(د) " رزلٹ "
دو گز ذِ می ہو وے ،،،،،!
نُوٹاں اکھاں ، تے فِر کھولاں ،
!وِچ وَسنی رحمت نی نمی ہو وۓ
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
( منیرہ قریشی ، 2016 ء واہ کینٹ)

جمعرات، 30 مارچ، 2017

" تھکن"

" تھکن "
مصروفیت سے بھرے لوگ تھک رہے ہیں
،،،سیاہ وسفید گھنٹوں کی مسافت کے بوجھ تلے
!کچھ بھرے پیٹوں تھک چُکے
،،کچھ خالی پیٹ ہار چکے
یہ غمِ روزگار ، غمِ دل فگار ، غمِ فکر وجاں
کس کس کو رویئیے،بس اب تھک چکے
یہ بازار ، یہ میلےٹھیلے ، یہ خوشیاں اور غم
!یہ دربار ، یہ مزار ، ہر جا منگتے ہی منگتے
دعائیں ،،، ناآسودہ روحیں
کب سے تھک چُکیں
بس اپنے نام کے آوازے کا ہے انتظار
،،،اک اور نیا سفر ہے تیار
پھر بھی ہوئی تھکن تو ،،،، تو ؟؟
!!شاید تھکن ہے ہی روح کی یار
( منیرہ قریشی 2013 ء واہ کینٹ

جمعرات، 23 مارچ، 2017

"جوان نسل"


۔( 23 مارچ) " پاکستان کی جوان نسل سے"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، 
!پُردم  رہو ، پُر اُمید رہو 
ذات کے حصار سے تو نکلو
!!دنیا ہے منتظر
تمہاری سوچ کی ، ہَمہ تن جوش کی
کون سی سمت کا ہے چُناؤ
سُر کو جا نو ، آواز کو پہچانو
وقتِ نبض پر کیسا ہے ردھم ،،،؟
!،،،،،،ایسا نہ ہو
قطرۂ بےحیثیت ہی نہ  ہو جاؤ
!!!موت نے بڑھ کر زندگی کو چھاپ لیا تو
سبھی حواسوں کے ہوتے ، بےنشاں نہ ہو جاؤ
!سازِزندگی بےآواز نہ رکھنا
!جہدِزندگی کو آزار نہ سمجھنا
( منیرہ قریشی 23 مارچ 2017 ء واہ کینٹ )

پیر، 20 مارچ، 2017

" سوال و جواب "

" سوال و جواب " 
اک مدت بعد قلم اُٹھایا ہے 
اک مدت بعد خود کو خود سے ملوایا ہے
!!!سمجھ نہیں پا رہی
کس کھیل کی کھلاڑی  ہوں 
کس میدان میں جیتی ہوں ،،،
!اور کس میں ہاری ہوں
جیتی بھی ہوں یا صرف ہاری ہوں
عجب ہیں وقت کی گھاتیں
کالے اور سفید لمحوں نے کیسا جال بُن ڈالا ہے
اس جال نے میرے وجود کو ،،،،
سراپا آنکھ بنا ڈالا ہے
وہ آنکھ ، کہ حیرت ٹھہر سی گئی  ہے اس کی پُتلیوں میں
وہ آنکھ ، کہ تصویریں دھندلا سی گئی ہیں اس کی پُتلیوں میں
جذبوں اور رشتوں کا عجب موتیا سا اُتر آیا ہے ،،،
اس کی پُتلیوں میں ،،،،،
!!!بےشک تیز ہیں وقت کی گھاتیں
نہ شمال کی سمجھ ، نہ جنوب کی سمت معلوم !
نہ مشرق آگے ، نہ مغرب پیچھے !
اک رقصِ ِدرویش  ہے درپیش
اور پھر ایک نئی دنیا  ہےسامنے شاید
میں سمجھ نہیں پا رہی
!!!ہاری بھی ہوں یا جیتی بھی ہوں
(منیرہ قریشی 2007 ء واہ کینٹ )

پیر، 13 مارچ، 2017

" سوچیں "

" سوچیں "
دسمبر ہے اور بےآواز گرتی پھوار
کہ ٹھنڈ سے پہاڑ نیلے ہو رہے ہیں 
باورچی خانے میں
کیتلی کا پانی اُبل اُبل کر پاگل  ہو چلا  ہے 
لیکن،،، اس کے پاس بیٹھی
پیلے چہرے والی لڑکی
خیالوں کی بُکل اوڑھے
سوچ رہی ہے
!اُس پر گزرے موسم کیسے تھے
بھورے ،،،؟ پیلے ،،،؟ سلیٹی ؟
یا ،،، گلا بی اور دھانی بھی ،،،؟؟؟؟؟
( منیرہ قریشی دسمبر 1986ء واہ کینٹ )

بدھ، 8 مارچ، 2017

" لمحہ"

" لمحہ "
سلیٹی اور سیاہ بادلوں سے سجا آسمان 
پیلے خزاں رسیدہ درخت
ٹھنڈ سے نیلے ہوتے پہاڑ
!جو سُرمئ لحا ف اوڑھنے میں مصروف ہیں
جنوری اور اس کی دل فگار پھوار
جھکی چھتوں والے محفوظ گھر
گیلری میں لٹکتی آرٹسٹک تصاویر
گُلدانوں سے جھانکتے پُھول
کچن سے آتی خوشبوئیں اور
آتش دان کے پاس بیٹھی اداس لڑکیاں
!ان کے اُس سے زیادہ اُداس خیالات
یہ سب کتنے فانی ہیں
،،،،لمحے نے سوچا
آگے بڑھا تو خود فانی تھا
( منیرہ قریشی ، جنوری1987ء واہ کینٹ )

منگل، 7 مارچ، 2017

" جہاز کی کھڑکی سے جھانکتے وقت"


 سفر چاہے نزدیک کا ہو یا دور کا ، انسان کے لۓ سوچ کے نئے در کھولتا  ہے سفر کا ذریعہ چاہے جو بھی ہو انسان پر اثرات ضرور چھوڑتا ہے، آئندہ چندنظمیں سفرِ انگلینڈ کے دوران ہوئیں آج کی نظم سفر کے ابتدا کی ہے )۔
" جہاز کی کھڑکی سے جھانکتے وقت"
جہاز کی چھوٹی سی کھڑکی سے جھانکتی
کچھ سوچتی آنکھیں 
کچھ سہانے سپنے سجاۓ ،آنکھیں 
کچھ جدائی کی نمی پونچھتی آنکھیں 
کچھ سِکوں کی عینک پہنے بےحِس آنکھیں 
شوقِ تجسس سمیٹے ، پُراُمید آنکھیں
!اور کھونٹے سے بندھے بیل جیسی لاتعلق آنکھیں
!!!سبھی مگر تقدیر کے جال میں پھنسی آنکھیں
( منیرہ قریشی 4 ستمبر 2014 ، )

پیر، 6 مارچ، 2017

" مشرقی عورت "

"مشرقی عورت "
!کبھی تُم نے بکھرے پُھول کا حشر دیکھا ہے
،،،کبھی تم نے 
!نیند کے پہلے جھونکے پر اُٹھاۓ جانے والی آنکھوں کو دیکھا ہے
!کبھی تم نے خوابوں سے مات کھاۓ چہرے کو دیکھا ہے 
اور جو کبھی ایسا وجود دیکھنا چاہو
تو مجھے دیکھ لینا
کہ میں نوادرات میں سے ہوں
!اس لیے کہ میں ، کئی سال قبلِ مسیح سے
آج بیسویں صدی میں بھی زندہ ہوں
!!!یقیناً میں نوادرات میں سے ہوں
( منیرہ قریشی 1988ء واہ کینٹ )

اتوار، 5 مارچ، 2017

"ایک خاص نظم"

" ایک نظم "
۔( میرے لیےیہ عام سی نظم تھی جسے میں نے 1978 کے موسمِ خزاں میں لکھا تھا۔لکھنے کے 20 سال بعد ایک اردو میگزین میں کچھ بہت پرانے شاعروں کی ترجمہ شُدہ نظمیں شائع ہوئیں وہ سب غیرملکی شعراء تھے ان میں ایک فرانسیسی شاعر  کی نظم پڑھ کر میں دنگ رہ گئی کہ ہُوبہُو یہی خیال نظم کی صورت میں تھا اور نظم قریبا" 1800 سو سال پہلے لکھی گئی تھی ! یہ سب کیا ہے ؟ لیکن اس دن سے میرے لیے یہ نظم "خاص" ہو گئی
!ایک نظم
میرے گھر کے آنگن کے گِرد 
چند سفیدے کے درخت ہیں
اور انہی میں ایک "یوکلپٹس "بھی ہے
!پت جھڑ کا آخیر ہے
سفیدے کے سبھی شجر ننگے ہوچلے ہیں
یوکلپٹس کی جُھکی ، سرسبز شاخیں،
!سفیدے کا ہر گِرتا پتا تکتی ہیں
جو اُسے اُداسیاں بخش رہا ہے
ہر گِرتا پتا ، بزبانِ خامشی کہتا چلا جاتا ہے
فنا کی بھی ایک انجانی لذ ت ہے
!اگلی دنیا کی اسراریت سے
!حُکمِ خداوندی کی سرشاری سے
صرف  ہم واقف ہیں
صرف ہم ۔۔۔۔۔۔
صرف ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( منیرہ قریشی ، 1978ء واہ کینٹ )

ہفتہ، 4 مارچ، 2017

" فتویٰ"

" فتویٰ "
خامشی روز عدالت لگاتی ہے
تواتر سے یہ بولنا مجھے تھکا چلا ہے
!خامشی میں وہ کڑوا سچ ہے
کہ میری جان لبوں تک آچلی ہے
،،،،سچ کے جال میں پھنسے
حسِ ششم عرُوج پر ہے
!لاحاصل دفاعِ ذات  ہےدرپیش
،اور ، اب خامشی کا فتویٰ ہے
،،،تم نا کام انسان ہو
!!!لہٰذا پھر نقطہؑ صِفر سے "سفر" پکڑو
( منیرہ قریشی ، جنوری 2016ء واہ کینٹ

"باطن نی اکھ"

" باطن نی اکھ "
میرے پِچھے میرے گٹھڑ، ( گناہوں کا گٹھڑ )۔
میرے اگے تیرا سوجھ ،( خوبصورتی)۔
اکھاں نُوٹاں یا کھولاں ،
کنجوں چاواں عِشکے نابوجھ !
کِنجوں کھولاں اکھاں نے جندرے ! ( تالے )۔
کِنجوں دساں دلے نا روگ ، 
کِنجوں آکھاں سونڑیا ربا ،،،،
میں کھلوتی بُوھے اَگے اتھرُوآں نی وازاں نال ،
تیرے سوجھ ساکن کیتا، تُو در کھول نہ کھول ،،!
منیرہ قریشی ستمبر 2016 ء واہ کینٹ ( میری پسندیدہ نظموں میں سے ایک )۔

جمعہ، 3 مارچ، 2017

" ہجرت "

۔( لیور پول کے ساحل پر ہزاروں کونجوں ، اور قازوں کی ہجرت نے مسحور کر دیا تو بےاختیا ر یہ چند سطریں ذ ہن میں اُتر آئیں ! اور نومبر کی شروعات تھی )۔
" ہجرت " 
کرسمس کے درخت سر خوشی سے لہلہاتے ہیں
برفانی ہواؤ ! خوش آمدید 
گرم موسموں کے متلاشی ہیں مگر باخبر 
کہ اب لمبی مسافتیں ہیں پیشِ نظر
کہ انہی ہجرتوں میں چُھپی  ہے زندگی
کہ انہی ہجرتوں میں ہےحُکمِ ربانی ،،
یہی تو موسم ھے پنپنے کا ، آدھی دُنیا کی خوشی کا
یہ ہجرت کُونجوں کی  ہو، یا قازوں کی
یہ ہجرت انساں کی ہو ، یا نفسِ انساں کی
یہ ہجرت خیال کی  ہو ، یا خیالِ یار کی
!ثواب وعذابِ ہجرت جھیلنا ہے بہرطور
!!!مقد ر کا لکھا تو پڑھنا ہے  بہرطور
( منیرہ قریشی ، نومبر 2014 لیور پول )

"مختصر ،مُختصر "

         "مختصر ،مُختصر "
بےنیازی
"خواب بُننے میں وقت لگتا ہے
اُن کی تعبیر تو عمر کھا جاتی ہے
تب لمحے صدیاں لگتے ہیں
اور پھر 
،،،،،،،،،،،،
بالوں میں سفیدی ،
لہجے میں ٹھہراؤ ،
چلنے میں عاجزی ِ 
سپنے کھو بھی جائیں،زندگی سے گِلہ نہیں رہتا !
،،،،،،،،،،،،،،،،
یادیں !
آہ ! یادیں رہ جاتی ہیں 
جب کچھ پُرانی تصویروں سے 
جب کچھ پُرانی تحریروں سے،
آنکھوں سے چھینٹا دے کر ،،،
گرد ہٹائی جاتی ہے !
تب آنکھیں پھُول چڑھاتی ہیں ،
آہ ! یا دیں ہی تو رہ جاتی ہیں !!!
( منیرہ قُریشی اکتوبر 2013ء )

بدھ، 1 مارچ، 2017

" بیوٹی پارلر "


                                                                                                                                                             " بیوٹی پارلر "

(الف)
میری آنکھوں کونشیلا بنا دیں
اِن بھنوؤں کو بھی کٹیلا بنا دیں 
مجھے ان ہونٹوں کے زاویوں کو بہتر ہے بنانا ،،
اِ نھیں لالی سے ہے سجانا ،،،
مجھے چہرے کی رنگت میں چمک بھی چاہیے 
کہ جس محفل میں جاؤں ،،،،
!نگاہوں ہی نگاہوں میں چاہی جاؤں 
( ب )
!اے مُشا طہ 
گھنی شام سی یہ زُلفیں 
کچھ یوں ہو جائیں ، جیسے سمندر کی لہریں 
کہ دیکھنے والے ڈُُ وب سے جائیں ،،،
انھیں یوں رنگ دے ،،، 
!کہ میری عمر چھُپ سی جاۓ ، ٹھہر سی جاۓ 
(ج)
!ان ہاتھوں کی ہر جُھری ختم کر دو
اِنھیں پھول سا نازُک تر کر دو ِ،،
میرے پاؤں کو یوں سُبک سر کر دو ،،
جیسے گیشاؤں سے فِدا کُن پاؤں ،،،،
(د)
اس جسم کے ڈھیلے پن کو نیا انگ دے دو
!میری کمر کا گھیراؤ ، سینے کا تناؤ 
جسم کے ہر پیچ وخم کو ،،،،
خوب ہنگامہ خیز کر دو ،،، 
کہ جہاں قدم رکھوں ، دلوں پر رکھوں 
(ہ )
( اور کورس کے بعد )
آئینے میں خود ہی خود پر قُربان ہو گئی ،،،
مگر ہنگامہء اِمروز سے فراغت کے بعد ،
اِک شب ، شبِ تنہائی میں ،
!!آئینے میں ، میرے سراپے نے اُداسی سے پو چھا
کیا یہ ہنگامہؑ محشر ہمیشہ کا ہے؟
کیا یہ جسم کبھی اکلاپے میں نہ ہو گا ؟
اور کیا معلوم یہ نشیلی آنکھیں چیونٹیوں کا گھر بنیں
اور ان رسیلے ہونٹوں کا دہانہ ، کاکروچ کا مسکن ہو ،،
"اور پَتلی کمریا کے گرد کوئی " مار،،،
دُلار سے لپٹا ہو ،،،،؟ 
گر انجام یہی ٹھہرا ،
تو اے بےوفا وقت ، اے بےثبات جسم ،،،،،
 !!!ہم کیوں تیری بھُول بُھلیوں میں گُم ہیں
( منیرہ قُریشی 1990ء ،، واہ کینٹ )