جمعہ، 26 مئی، 2017

"راز"

۔" سچل سرمَست جو مشہور سندھی شاعر تھے کی ایک نظم جس کااردو ترجمہ شیخ ایاز نے کیا اور یہ ہی وہ چھوٹی سی نظم تھی جس نے 32 سال پہلے جو اثرات مرتب  کیے وہ آج بھی اسی گہرائی سے ہیں اسی نظم نے مجھے آزاد نظم کی طرف ایسا مائل کیا کہ آج بھی کچھ کہنے کے" مفہوم" کو زیادہ معتبر سمجھتی ہوں بہ نسبت خود کوشاعری کی پابندیوں میں رکھنا ، سچل سرمست ایک صوفی اور 7 زبانوں میں شاعری کرنے والے ملنگ سے انسان تھے! یہ نظم بھی اللہ کی محبت میں ڈوب کر لکھی گئی  ہے جو دل پر عجیب کیفیت طاری کرتی  ہے ! یا مجھے یوں محسوس  ہوتا ہے ! "۔
" وہ سر تا پا راز ہے"
کبھی سچل ہے کبھی سچل کی ذات ہے !
حباب کو موج نے دریا بنا دیا ہے ،
اس میں شک کی کوئی گُنجائش نہیں
کہ وہ خود اپنے رنگ دیکھنے کے لیے
اب تک لاکھوں بیکھ بنا رہا ہے !!! "
( منیرہ قریشی ، 1982ء )
( اس میں " حباب " سے مراد انسان ہے اور " موج " اللہ کی صفات اور " دریا " ،،، اعلیٰ ارفعٰ درجات ہیں ،،،، اور بیکھ " چہرے یا نفوس 2017ء واہ کینٹ ! اے کاش میں اس نظم کی کیفیات بھی شیئر کر سکتی )۔

منگل، 23 مئی، 2017

"بھنور"

"بھنور"
آج پھر شبِ تنہائی میں 
سر ہاتھوں میں تھامے
ناقابلِ حل سوالوں کے بھنورمیں ہوں 
یہ جانتے ہوۓ بھی کہ، 
وقت تو گزر جانے کے لیے بنا ہے !
تو یہ گھڑیاں بھی گزر جائیں گی
پھر میری مٹی پر ، منوں مٹی ہو گی!
تفکر ، ذیانت ،مایوسی اور مَیں دھول صورت بکھر جاۓ گی !
صدیوں بعد ایک اور مَیں ،،،،
پھر اک اور میَں !!!
اِک شبِ تنہائی میں
ناقابلِ حل سوال لیے
وقت کے تیز آرے کی زد میں ہو گی !!!!
( منیرہ قریشی 1995 ء واہ کینٹ )

پیر، 22 مئی، 2017

"سودوزیاں"

" ذرا سوچیں "
(آج اپنی ڈائری کا ایک اور صفحہ شیئر کررہی ہوں ! کہ سُودو زیاں کا کچھ حساب ہوتا رہے تو اچھا ہے )
۔" پلوٹو ،نظامِ شمسی میں سورج سے بعید ترین سیارہ  ہے۔ زماں و مکاں کا تصور اس طرح سامنے آتا ہے کہ پلوٹو کا ایک سال دنیاوی 248 سالوں کے برابر ہے۔ یعنی پلوٹو سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرتا ہےتو اس عرصےمیں زمین248  برس گزارچکی  ہوتی ہے۔،وقت کی اضافیت کا اندازہ قرآنِ پاک کی آیات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ہمارا راب فرماتا ہے،،،۔
ہمارا ایک دن دنیا کے ایک ہزار برس کے برابر ہے (سورۃ الحج 47)۔
لیکن یہی موازنہ " عرش " کے سیاق و سباق میں ہوا ، تو فرمایا ہمارے مالک وخالق نے ،،،،، " ہمارا ایک دن دنیا کے پچاس ہزار برسوں کے برابر ہے!۔
( سورۃ المعارج 4 )
اگر انسان کی زندگی کی مدت کائناتی یا عرشی دنوں میں تبدیل کردی جاۓ تو دنیا کی بے ثباتی کا یہ حال ہےکہ دنیا میں گزارے 80 سال کائناتی وقت کے" 5" گھنٹوں سے بھی کم بنتے ہیں،،، اور عرشی وقت کا پیمانہ 2منٹ 30 سیکنڈ سے بھی کم بنتے ہیں ۔ اس " ڈھائی منٹ " کی زندگی کے لۓ آدمی
آخرت کی دائمی زندگی پر نظر ڈالۓ!!!۔ 
ہم 5 گھنٹے ،،، یا ڈھائی منٹ کے لۓ کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں ،،، کتنے جھوٹ سچ بولتے ہیں ،،، کتنی چالاکیاں ، چالبازیاں کرتے  ہوۓ خوش ہوتے ہیں کہ واہ بھئ ، ہمارا بھی جواب نہیں ! اور ہم اپنے سوال جواب کا حساب لینے والے کو بھولے ہوتے ہیں ،، سب پتا ہے پھر بھی " دیکھا جاۓ گا " کا رویہ اپناۓ اپنے حصے کے 5 گھنٹے یا ڈھائی منٹ گزار لیتے ہیں ، استغفرُاللہ۔
۔(منیرہ قریشی 2007 ءواہ کینٹ )۔

ہفتہ، 20 مئی، 2017

" سُود و زیاں"

" سُود و زیاں "
شُبہاتِ سماعت و بَصرہیں
کشاکشِ نفس ہے برپا
بہ ظاہر فضا ہے ساکن 
کیوں کہ ،،،،،،
رموزِنبض جانتا ہے
کب ، کس نے ، کس کی کلائی پکڑنی ہے ،
کب ، زبان کے کیکٹس کُھبنے ہیں ، اور
بد ن اور زندگی کو چھیدنا ہے
اس لۓ کہ ،،،،،
جہالتِ آتش فشا ں پھٹ چکا !
رشتہء انساں،نظرِ شُبہات ہو چلے
 شک" کا الاؤ رسنے لگا ہے"
اُ ٹھو! کہ تربیتِ انساں ناپید ہو چلی
اُٹھو ! کہ " چَھتر " لوگ خاموش ہو چلے
اور خاموشی میں طوفا ن ہے
ایسا نہ ہو کہ ،،،،،،
محفوظ پناہ گاہیں ، غیرمحفوظ ہو جائیں
شُبہاتِ سماعت و بصر شک کی ذد میں آجائیں
شہر سے نکل چلو ، لوگو
!!!اُلٹی گنتی گننے کا آوازہ آ چکا لوگو
( منیرہ قریشی ، جنوری 2017ء واہ کینٹ )

جمعرات، 18 مئی، 2017

"چھڑے حروف"


کبھی کبھی کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں جو ہمارے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں ! ہم اپنی ذاتی ڈائری کا وہ صفحہ جب بھی کھولتے ہیں تو دل کی کیفیت بعینہ وہی ہو جاتی ھے ۔ جب وہ تحریر پہلی مرتبہ پڑھی ہوتی ہے۔ آنکھیں خواہ مخواہ نم ہو جاتیں ہیں اور دل دنیا بنانے والے کی محبت سے سرشار ہو ہو جاتا ہے۔ 
یہ چھوٹا سا پیرا میں نے ایک سکین کی گئی کتاب کے چند صفحات میں سے نوٹ کیا تھا کتاب کانام ہے "یادوں کی دھول" جس کے مصنف ہیں " ابوالعجاز حفیظ صدیقی " اب یہ کتاب صرف چند صفحات پر باقی رہ گئی ہے جسے " بر خوردار راشد اشرف " نے سکین کر کے محفوظ کرلیا تھا۔
" ؎ کوڑی نِم نوں پتاسے لگدے ،، ویڑے چھَڑیاں دے "
۔( نیم جیسے کڑوے درخت پر پتاشے جیسی میٹھاس ممکن ھے اگر کلمہ کے ماننے والے اور نبیﷺ کے چاہنے والے اپنے عشق میں خا لص ہیں)۔
بغیر نقطے کے حروف کو پنجابی میں " چھِڑے" (خالی) حروف کہا جاتا ہے۔الف اور م اللہ اور محمدﷺ بھی چَھڑے حروف ہیں۔بلکہ پورا کلمہ غیرمنقوطہ (خالی )ہے۔تمام اُمور جنھیں ہم ناممکن سمجھتے ہیں ،اللہ اور محمدﷺکے ہاں ممکن ہیں۔ اللہ اور رسولﷺ کے ہاں کڑوی نیم کو پتاشے جیسا میٹھا پھل لگ سکتا ہے۔بلکہ لگتا ہے۔
کلمہ طیبہ کے دو حصے ہیں ۔ دونوں حصوں میں حروف کی تعداد بارہ ، بارہ ہے اور نقطے کے بغیر ،،، پہلا حصہ زندگی کا مقصد بتاتا ہے اور دوسرا طرزِ زندگی سکھاتا ہے ،، نقطے نہ ہونے کی حکمت یہ ہے کہ ایک نقطے برابر بھی اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ، اور نبیﷺ کے قول وفعل سے آگے کچھ نہیں۔
( صدیقی صاحب کے لۓ جزاک اللہ )
( منیرہ قریشی 2009 ء واہ کینٹ )

ہفتہ، 13 مئی، 2017

"اماں جی"

"اماں جی "
ہر انسان کو اپنے ماں باپ بہت ارفعٰ لگتے ہیں لیکن ،،، میں اگر اپنی امی پر کچھ لکھ پائی تو بہت ہی لمبا مضمون بن جائے گا ! اللہ مجھے ہمت دے ! ان کو نہ صرف پامسٹری میں دلچسپی تھی بلکہ بے شمار لوگ ان سے اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنے آتے تھے ، ان کی ہسٹری کی کتابوں میں اتنی دلچسپی تھی کہ ان کی نالج سے میں بی ۔اے میں ہسٹری کے اکثر اسباق میں ان سے مدد لیتی تھی ! بہترین Aesthetic sense رکھتی تھیں ، کیا سوئی سلائی تھی ،، کیا کھانوں کا ذائقہ ، اور پھر پکی پنجابی خاتون ہونے پر بھی نہایت سُتھری اردو ،،، کہ ہمارے کالج کی پرنسپل مسز مسعود زیدی نے ایک بار پوچھ ہی لیا کہ " مسز ظفر آپ یوپی سے تعلق رکھتی ہیں یا سی۔ پی سائڈ سے !!! آج 42 سال کی جدائی میں بھی اماں جی کی یاد ہر روز آتی  ہے۔
اماں جی  نےکُل 53 سال کی عمرمیں زندگی کے تمام سرد گرم چکھ لیے اور 30 سال کی بیماری نے بھی حوصلہ مند رکھا ، صرف اپنے شوہر اور بچوں کے عشق میں اللہ کی شکر گزاری کرتے کرتے وقت گزار گئیں۔
وقتِ آخرقلم بند کیا ھے )
پی ۔ او ۔ ایف ہسپتال 
کمرہ نمبر تین ، 
بائیں ہاتھ کا بستر
جس پرایک پُرسکون وجود
آخری نیند میں ، محوِ خواب ہے  
یہ وجُود ،،،،،۔
جو چند حوادثِ زمانہ،کا 
حوصلے اور عزم کا شاہد ھے 
ہاں یہ ہماری ماں ھے 
کاش ایک بار اپنی آنکھیں کچھ دیر کو وا کر دے
ایک بار ،،،،۔
اپنی ادھوری خوشیوں کو دیکھ تو لو !
اے ھماری عظیم ماں !
تیرا فانی جسم ، لحد میں روپوش ہوا
تیری تُربت کے باہر!
بھاگ رہا ھے وقت ،،،،۔
ھم سب کے آگے آگے 
دنیا ویسی ہی مصروف ھے
اور تیری تُربت کے باہر!
فروری کی چمکیلی دھوپ میں نرگس کے پھول
شہرِ خاموشاں کو ڈھانپے ہوۓ ہیں ایسے
تیرے آنے پرتیرے قدموں پر بچھ سے گئے ہوں جیسے !!
( یہ اماں جی کی جدائی کے دنوں میں ہی لکھی ، شاید بےربط لگے لیکن ماں کے لئے ایک بیٹی کے جذبات کا اظہار ہے )
لوگ اپنے آئیڈیل گھر سے باہر ڈھونڈتے ہیں میری آئیڈیل میری اماں جی تھیں ! بچپن میں اکثر صبح کی آنکھ ان کے قدرِ اُونچی آواز میں " درودپاک ﷺ " سے کُھلتی ! ایک دن میں نے پوچھ لیا آپ روز اتنا درود پاک کیوں پڑھتی ہیں (بچپنے کا بچگانہ سوال ) کہنے لگیں " میری خواہش ھے کہ نبیﷺ مجھے خواب میں آئیں ! اور د مِ آخر ان کا آخری ایک گھنٹہ بےچینی کا تھا کہ سر دائیں طرف گھماتیں تو کہتیں " سبحان اللہ " اور سر بائیں طرف گھماتیں تو کہتیں " صدقے یا رسول اللہ " اور اس دوران ان کی آنکھیں مسلسل بند تھیں ! اس وقت ھم نے ان کے اس آخری وقت کی کیفیت کو نارمل لیا لیکن بعد میں جب بےشمار واقعات اور حالات سنے اور دین کی مزید معلومات ہوئیں تو پتہ چلا کہ وہ وقت کس قدر کڑا  ہوتا ہے کہ منہ سے اللہ کی مرضی سے ہی کچھ نکلتا  ہے بس اس کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوتا ! تب میں نے اللہ کا مزید شکر ادا کیا کہ اللہ نے وقتِ آخر اپنا نام اور اپنے حبیب کا نام ہی ان کے نصیب میں لکھا ، اللہ ان کی مغفرت کرے اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے آمین ثم آمین۔
" کچھ لوگ عجیب ہوتے ہیں"
(اپنی اماں جی کے لیے چند الفاظ ، لیکن یہ ایک اچھے انسان کوخراجِ تحسین ہے)
زمزمہ سی محبت تھی تیری
جانے کتنے فیض یاب ہوۓ تجھ سے 
فہم و اد راک کے خمیر میں گُندھا تھا تیرا وجود !
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں ،،،،،،
کڑوے پانی کو کیسےمیٹھا ہے بنانا وہ جانتی تھی 
کانٹوں سے بہ سلامتی کیسے ہے نکلنا،وہ سکھاتی تھی 
آنسوؤں کو اعتماد میں ھے بدلنا، وہ بتاتی تھی
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں ،،،،،،،۔
تقدیر کے ساتھ تدبیر کا ٹانکا کہاں  ہے لگانا ،وہ سعی کرلیتی
سوچ کے بھنور سے کیسے  ہےبچنا ، وہ ہا تھ پکڑ لیتی 
اور اگلا حیران رہ جاتا 
یہ کون مِلا تھا زندگی کے صحرا میں 
یہ کس نے ریت کو نخلستان سُجھا ڈالا
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں ،،،،،، 
اپنی ذات کو وقف کر کے 
دوسروں کے اندھیروں کو ، روشن کر کے
اللہ سے دوستی نبھائی، خدمتِ خلق کر کے 
حالانکہ عاشقِ رسُولؐ تھی وہ زمزمہ سی ہستی 
یادوں میں زندہ لوگ ایسے ہی ھوتے ہیں !۔
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں !!!۔
( منیرہ قریشی 13 مئی 2017ء واہ کینٹ )

"کچھ لوگ عجیب ہوتے ہیں"

" کچھ لوگ عجیب ہوتے ہیں"
( اپنی اماں جی کے لیے چند الفاظ ، لیکن یہ ایک اچھے انسان کوخراجِ تحسین ہے)
زمزمہ سی محبت تھی تیری
جانے کتنے فیض یاب ہوۓ تجھ سے
فہم و اد راک کے خمیر میں گُندھا تھا تیرا وجود !
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں ،،،،،،
کڑوے پانی کو کیسےمیٹھا ہے بنانا وہ جانتی تھی
کانٹوں سے بہ سلامتی کیسے ہے نکلنا،وہ سکھاتی تھی
آنسوؤن کو اعتماد میں  ہے بدلنا، وہ بتاتی تھی
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں ،،،،،،،
تقدیر کے ساتھ تدبیر کا ٹانکا کہاں ہے لگانا ،وہ سعی کرلیتی
سوچ کے بھنور سے کیسے ہے بچنا ، وہ ہا تھ پکڑ لیتی
اور اگلا حیران رہ جاتا ،
یہ کون مِلا تھا زندگی کے صحرا میں
یہ کس نے ریت کو نخلستان سُجھا ڈالا
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں ،،،،،،
اپنی ذات کو وقف کر کے
دوسروں کے اندھیروں کو ، روشن کر کے
اللہ سے دوستی نبھائ ، خد مت خلق کر کے
حالانکہ عاشقِ رسُولؐ تھی وہ زمزمہ سی ہستی
یادوں میں زندہ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں !
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں !!!
( منیرہ قریشی 13 مئی 2017ء واہ کینٹ )

جمعرات، 11 مئی، 2017

" کھنڈرات "

" کھنڈرات " 
کھنڈرات تکتے تکتے 
!!!کچھ مُردہ لوگوں کے زندہ کارنامے تھے یہاں وہاں
کچھ ترتیب سے اور کچھ بےترتیب سے بکھرےیہاں وہاں 
کچھ گلیاں ،کچھ محل ِ کچھ بازار بھی !
اور عدالتیں بھی لگتی تھیں ، وہاں
کیا عجب لوگ تھے ، پانی مقطر کر کے پیتے تھے
کتنے پُرسکون گھرانے تھے د یوار در دیوار !
یکدم زماں و مکاں کی قید سے چھوٹ کر
جانے کہاں گۓ یہ ذہین و حسین لوگ !
دل ڈول سا گیا ،،،،
ذہن پہ چھا گۓ ملگجے اندھیرے
ہم پیاسے ہوگئے ،،،،،،
اور لوٹ آۓ
اپنی ہنستی مسکراتی فانی دُنیا میں !!
( منیرہ قریشی ، ستمبر 1974 واہ کینٹ )
( اور مدت بعد آج کا مضمون تاریخ بھی شاید ایسے ہی خیالات کے تحت لکھا گیا )

پیر، 8 مئی، 2017

" ہائیکو "


" ہائیکو " 
الف) " برداشت)" 
بھاری ہیں برداشت بھری آنکھیں 
کتنے تیز ہیں لفظوں کے ٹُوٹے کانچ 
!دعا ہے ،تمہیں ہلکی سی بھی نہ آۓ آنچ
،،،،،،،،،،،،،،،
۔(ب) " رنگ "
پردۂ غیب ہٹے تو دیکھوں
من کی آنکھ کُھلے تو دیکھوں
اب لبادۂ وقت کس رنگ کا  ہے ؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،
(ج)
" چیتہ " ( یاددہانی )۔
!تیری رحمت تھلے
میں ذرا دُور اِک کونے چے آں
پُوچھیت نے عذاب چے آں
،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔(د) " خیال"
زاویۂ جذبات کے ، زیروزبربھی تُو
خیالِ خیر بھی تو، خیالِ شر بھی تُو
!!!زِیست ہےکتنی گُنجلک
،،،،،،،،،،،،،،،،
( منیرہ قریشی ، اکتوبر 2016 واہ کینٹ )

" تاریخ"

" تاریخ" 
 تاریخِ دنیا یا تاریخِ جذبات ،،،، آج پھر کچھ نثر پڑھ لیجئیے)۔)
مجھے تاریخِ دنیا پڑھنا پسند ھے ۔ ، تاریخِ یونانی ، مصری ، ہندوستانی ، یورپ کی یا اسلامی ،،، کوشش ہوتی ہے کہ کتاب خرید لوں یا مانگ کر پڑھ لوں ،،، شاہد یہی وجہ ہے کہ پرا نی چیزیں ، پرانی دوستیاں ، پرانی یادیں میری کمزوری ہیں ۔بھلے وہ چیزیں قیمتی ہوں یا معمولی، یادیں تلخ ہوں یا شیریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،،،، البتہ ہسٹری کی کتاب " پھر کیا ہوا " کے سحر میں مجھے جکڑ لیتی ہے اور ختم کرنے کے بعد،یاسیت،بے وقعتی اور اُداسی شدت سے حملہ آور ہوتی ہے ،دنیا کی بےثباتی اور کم مائیگی کا احساس اور پڑھ جاتا  ہے۔
کبھی بخت نصر کی تاراجیوں کا پڑھوں تو لاتعداد لوگوں کا خاتمہ ، بےشمار عالی نسب اور اعلیٰ دماغ لوگوں کی تذلیل،کبھی یونانی تاریخ ہے تو خوب صورت،حسین خاندان بیرونی حملہ آوروں کی زد میں آۓ تو ان کے محلوں کی شہزادیوں کو رکھیل بنا لیا گیا، اور انکے محافظ مرد تہہ تیغ کر دیے گۓ ، مصر کی تاریخ تو تھی ہی غلاموں کی بہترین " نرسری " ، ہند کی تاریخ ہےتو حُسن کو بیرونی،غیرملکی حُسن کی آمیزش سے اپنے ہاں کے سانولے نمکین پن کو مزید نکھار کا باعث سمجھا گیا اور اعلیٰ نسب ، لڑکے،لڑکیاں بکاؤ مال یا تحائف کی صورت پیش  کیے جاتے رہے ۔ ایسے ، جیسے یہ سب انسان نہیں ہیں یا ان کے کوئی احساسات ، جذبات ہی نہیں ہیں۔
اتنے اعلیٰ دماغ ، اتنی خوب صورت سوچ اوراتنے عالی مرتبت اعما ل والوں کو اعلیٰ ذوقِ سلیم رکھنے والوں کو فطرت کے قوانین کیوں پیس کر رکھ دیتے ہیں ! یہ سب کیا ھے اور کیوں تاریخ میں ملکوں کو فتح کرنا اور انھیں ملیا میٹ کرنا کارنامے قرار دیا گیا ھے ؟
تاریخِ میں تو پہاڑوں ، میدانوں ،کھیتوں کھلیانوں ، محلات کا ذکر تو کیا جاتا ہے ، اور انسانوں کی تعداد اور جسموں پر قابض ہونے کو فتح قرار دیا جاتا ہے ،،،،،،،ان سب کے درمیان انسانی جذبات ، احساسات کہاں گئے ؟ ان کا ذکر تاریخ میں کیوں نہیں ہوتا ؟ کیا یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ان کے دلوں کا ٹوٹنا ،، دلوں پر لگے چرکے ، نسلوں کا خاتمہ ،، اور انسانی خون کے دریا کے بہنے کا ذکر کیوں دردمندی سے نہیں کیا جاتا ؟ کیا جاتا  ہے تو ایسے کہ جیسے یہی ہوتا ہے جب ایک حملہ آور حکمران آتا  ہےاور دوسرا ، جاتا یا ختم کر دیا جاتا ہے!خون اتنا بہایا جاتا ہےکہ راستے پھسلواں ہو جائیں ،،،،، دجلہ وفرات ، نیل وآمو ، سندھ و چناب اپنا رنگ بدل دیتے ہیں نیلے سے سُرخ ،،، اور یہ تاریخ  ہے۔ 
خالق ومالک کے تصور سے کبھی کوئی معاشرہ خالی نہیں رہا ، سارا نہیں تو مخصوص طبقہ اپنے رب کی محبت میں ڈوبا رہا ۔اور اسی رب نے انسانی خمیر میں دُ کھ سُکھ ،محبت نفرت ،غیرت ،یہ تیری یہ میری کے احساسات گُوندھ دیۓ ،،،تو پھر رنگوں بھرے
  کینوس پر یوں یکد م خوب گیلا بُرش پھیر دینا کہ ہر رنگ فورا" پھیل جاۓ اور مناظر اور منا ظر میں موجود " وجود " خود دم بخود رہ جائیں کہ یہ کیا ہو ؟کیسے ہوا ؟
یہ تاراج ہونے والی روحیں کائنات کے ایک کونے میں حیران آنکھوں سے سوچ رہی ہیں  کہ"یہ ابھی ابھی جو منظر ہم  نے سہا ۔۔۔۔ وہ خواب تو نہیں ،،،،،،یا  ہم پہلے کوئی خواب دیکھ رہے تھے، ہر وجود اپنی جگہ ایک کہانی تھا ، ایک میں تھا ،،، انا اور خودداری کے پیکر تھے ، آنکھوں ہی آنکھوں میں باتوں کو سمجھانے والے ۔کم آمیز وجود،، خاندان کے مضبوط سسٹم سے جُڑے ایک لڑی ! ،،، یہ ہار ٹوٹا یا توڑ دیا گیا اور موتی شمالاًجنوباً بکھر گۓ ۔ وہ خوب صورت آنکھیں جو کاجل سے سیاہ کرتیں ،جسم نرم ریشم سے سنوارتیں ، مضبوط سراپے جن کو دیکھ کر عورت کا ہر رشتہ خود کو محفوظ سمجھتیں ۔جب تاریخ لکھی جاتی ہے تو ان کے دم بخود، خوفزدہ ، دکھ سے لبریز احساسات کا تو ذکر ہی نہیں ہوتا ۔ فاتحین کا کچھ عرصہ کے لۓ فاتح بن جانا ہی تاریخِ انسانی کی مکمل "ہسٹری"ہے اور جب فاتح کے مفتوح ہونے کا وقت آیا تو وہ انہی احساسات کے ساتھ "ناپید"ہوگۓ ! اس تاریخِ انسانی میں تو انسان کے " اصل " کا تو ذکر ہی نہیں ! یعنی "میں " تو کچھ بھی نہیں گویا انسانی جسم ایک مُٹھی مٹی بن گیا تو جذبات بھی ایک مُٹھی مٹی میں رل مل گۓ ! رہے نام اللہ کا !!۔
( منیرہ قریشی جولائی 2016ء واہ کینٹ )
( میں جب آس پاس کوئی ایسے لوگ دیکھوں جو دوسرے ممالک سے آکر یہاں کے مکیں بن گئے ،،، یا ،،، اب دوسرے ممالک میں بسے اپنے لوگ جو مِکس نسل کا حصہ بن رہے ہیں ! تواب جو ہسٹری لکھی جاۓ گی اس میں پوری دنیا کا عجب رُخ سامنے آۓ گا )۔

جمعہ، 5 مئی، 2017

"صبر کی مٹھاس"

"صبر کی مٹھاس" 
جب تک صبر کے میٹھے  ہونے کی سمجھ آتی  ہے ، تب تک قبر کی الاٹمنٹ کے کاغذ نظر کے سامنے پھرنے لگتے ہیں ،لیکن ہم پھر بھی بہت منافقت سے ،،،اپنے نفس کے دانت کچکچانے کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں کاش اس نفس کی طرف پہلے دھیان دے دیتے ، اس اندر کی آواز کو نظرانداز نہ کرتے ۔شروع جوانی میں ٰیہ بات سیکھ لیتے کہ یہ نسخۂ کیمیا ھے ۔60 کے پیٹھے میں سمجھ آیا تو کیا ؟؟ پُلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا  ہوتا ہے !بالوں کی سفیدی اورچہرے کی جھریاں دوسروں کو مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ ہماری عزت کریں ۔لوگ ہم سے مشورے مانگتے ہیں ، جیسے ہماری اب تک کی تھوڑی بہت دنیاوی کامیابی ہماری ہی عقل وفہم کی وجہ سے ہو ،، آہ انھیں کیا معلوم کہ  جوانی کے زور میں ہاتھوں میں اور زبان پر کتنے کانٹے دار جھاڑیاں اٹھاۓ گھر سے نکلا جایا جاتا تھا ، اوردوسروں کو اپنی مرضی کی عینک سے دیکھا جاتا  اور بعد میں ہم" ٹھاکر"بنے  نظر  آتے ہیں ! بہت دیر کی مہرباں آتے آتے والا حساب  ہوتا ہے۔ ساٹھ سال اور اس کے بعد کے دور میں کوئی فہم آیا بھی تو  کیا ،،،، وہ دور جو طاقت اور صحت کا گولڈن دور ہوتا ہے ،جب کم وسائل اور کم پیسے کے باوجود بندہ پہاڑ سے نہر نکال سکتا ہے  ،،،لیکن وہ دور چُٹکیوں میں گزر جاتا ہے،، اور ہم اس دور میں اپنی تھوڑی سی خوش حالی کے زعم میں اپنے قریبی رشتوں کو اپنے لہجے کی کڑواہٹ سے ،پتھر کا جواب اینٹ سے دینےکی حرکتوں سے اور سازشی شطرنج کے مہرے چلانے میں اتنے محو ہوچکے ہوتے ہیں کہ اپنے انجام کا کبھی سوچا ہی نہیں !! کہ کبھی یہ رشتے کبھی یہ آس پاس کے لوگ ہم سے اتنے متنفر ہو  سکتے ہیں کہ وہ بہت آہستگی سے ہمیں " اکلاپے " کا تحفہ دے کر جا چکے ہوں گے ،، اورہم مسلسل زبان کے گھوڑے کو
بےلگام رکھنے کی پالیسی پرجمے رہتے ہیں ۔ اپنے طنزیہ جملوں کی کاٹ کو فاتحانہ اندازسے بولنے اور اس کا اثر دوسروں پر ہوتا دیکھنا ،،، کیا آسودگی دے سکتا ہے ! کون سا سکھ مل سکتا ہے ؟ اور کتنے عرصے کا ؟ اور دوسروں کے ساتھ بلی چوہے کا کھیل کھیلنا ،،، انھیں آنسوؤں کی نمی دے ڈالنا کہاں کی فتح  ہوئی؟ 
رویوں کے تکبر کی گند گی ڈالتے رہنا دراصل خطرناک بیماری ہے۔یک دفعہ یہ احساس جاگ جاۓ کہ ہم نے "صبر"اور توکل سے زندگی کے ہر رشتے کو نبھانا  ہے تو ہم سے زیادہ خوش نصیب کون ہو گا ! کیوں کہ ہم سامنے والے ہاتھ سے کانٹےدار جھاڑیاں لے کر ایک طرف پھینک دیں اور بہ واپسی ایک " کشادہ " مسکراہٹ دے دیں ،،،یا ،، اس کی تنقیدی نظروں کے فوراً بعد ایک گلاس پانی لے کر حا ضر ہو جائیں تو سامنے والا کچھ نہ کچھ سوچے گا ،،، یہ بھی نہ ہو سکے ،،، تو کچھ عرصہ کے لیے خود کو اس کے حلقۂ ملاقات میں سے منفی کر لیں اور اب آپ ،،،،، صبر کی مٹھاس کا مزا لینا شروع کر لیں ،،، ایک لمبے وقفے کے بعد اگلے سے ملیں تو نارمل انداز سے گلے ملیں ۔کیوں کہ اب آپ اس کے  ترکش کے تمام تیروں کے جواب میں صرف ایک " ڈھا ل " پکڑے ہوۓ ہیں جس کا نام ہے " صبر "،،، آپ نے ٹھان لیا کہ میں نے پلٹ کر جواب نہیں دینا ،،، نہ پوچھیۓ اس احساس کا احساس کیسا ہوگا ! کہ جیسےہم کسی پرندے کے پر کی طرح ہلکے پھلکے ہوکر ہوا میں اُڑ رہے ہوں !
یقین  کیجئیے کہ "اس رب کا کرم اور احسان کا عکس ہوگا کہ آپ نے صبر کا بکتربند لبادہ اوڑھ لیا ہے اور خود کوطنزپروف کر لیا ہے ،،،،،کسی دانا کا قول ہے " اپنے موڈ اور غصے سے دوسروں کو تنگ کرنا کم ظرفی کی نشانی  ہے"۔
( یہ محض میرے خیا لات وتجربات پر مبنی تحریر ہے جو 2008 ء میں لکھی سوچا لگے ہاتھوں آپ سب سے شیئر کرلوں ! اس بارے کوئی بحث  نہیں  کہ " خیال اپنا اپنا ، " اور تجربہ بھی اپنا اپنا ،،،)۔
(منیرہ قرشی 2008ء واہ کینٹ )

منگل، 2 مئی، 2017

" بارش"

" بارش"
قطرے گرے جب زمیں پر 
ستارے سے ضم ہوتے رہے باہم
قطرے گرے جب زمیں پر 
اور پہنچے دھرتی کے دل تک 
سبزے نے سَر اُٹھا کرپلکوں پر سجا لیا
قطرے گرے جب گالوں پر
قد رت نے بڑھ کر ہاتھوں میں تھام لیا
پہنچے جو دل کی دھرتی تک
دُنیا ،،،، بے معنی ھو گئی
معمولاتِ عذاب و ثواب ،،،
قطروں کی زد میں بہہ گئے
( منیرہ قریشی ستمبر 2016ء واہ کینٹ)