اتوار، 28 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں" (رپور تاژ) 19


" جنگل کچھ کہتے ہیں" (رپور تاژ) 19
پُھولوں کی صحبت نے دل کو کچھ شاد کیا ، کچھ پُر امید کیا ،،، ہلکی ہلکی پُروا سے سبھی پُھول مُسکرا مسکرا کر یوں جھوم رہے تھے ، جیسے دنیا میں کوئی غم نہ ہو ۔ ہاں ،،کیوں نہیں جب ہر بات ہر حکمِ الہیٰ کو راضی بہ رضا ہو کر تسلیمِ کر لیا جائے ،، جب احکامِ انبیاء پر کامل یقین کے ساتھ عمل کر لیا جائے تو ،،، دل اور روح سکون سے ایسے ہی سر شار رہتی ہے ، یہ کومل ، نازک ، دلفریب پھول لہلہا رہے تھے ۔۔ جیسے کہہ رہے ہوں " زندگی چند روزہ ہے ۔اِسے ہنس کے گزارو یا رو کر ،، یہ تو تم پر منحصر ہے ۔۔۔
؎ یہی سننے کی خواہش ہے تو پھر دہرائے دیتے ہیں
کہ ہم سے پیڑ چاہے بےثمر ہوں سائے دیتے ہیں
نئی رُت میں نئے پھولوں کا استقبال کرتے ہیں
پُرانی رنجشوں کو ہم ، یہیں دفنائے دیتے ہیں
(کنول جوئیہ)
ساتھ رہتے ہیں تو کچھ ایسی دو ا دیتے ہیں
سارے دُکھ درد کو پل بھر میں بھُلا دیتے ہیں ( شکیل حنیف)
سامنے پارک میں پھرتے خوش باش لوگ ،، خراماں خراماں یہاں وہاں جاتے ہوئے لوگ اُن غلط کاروں کو بالکل نظر انداز کر کے گزر رہے تھے ۔۔ میرے لئے شاید یہ برسرِ عام گناہ ناقابلِ برداشت تھا ،، کیوں کہ ایسی سرِ عام بے حیائی کو کم ازکم مشرقی ممالک میں اُن کی روایات نے روک رکھا تھا ۔ اور نام نہاد ہی سہی ،،، مذہب کے کمزور رسّے کو بھی تھام رکھا ہے ۔
مَرے قدموں سے میں گھر کی راہ ہو لی ۔ اگرچہ مجھے ہر صورت بوڑھے بزرگ درخت کے قریب سے ہو کر گزرنا تھا ۔ اپنے دل کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے چلتے ہوئے اس کے پاس رُک گئی ،، اس کے فراخ تنے پر اداسی سے ہاتھ پھیرا ۔ " تمہیں کیا کیا سہنا پڑا ،، اور سہنا پڑرہا ہے ۔" میں نے اُسے ہمدردی سے کہا ۔،،، اور اسی محویت میں، مَیں نے اُس کے تنّے کے تھم پرنٹ یعنی دائروں پر محبت کی نظر ڈالی ۔ یہ کیا ، یہاں تو پانچ سو سال کے سبھی واقعات پرنٹ تھے ،، جوں ہی میری نظروں نے انھیں تلاشا ،، جیسے فلم کی ریل چل پڑی ۔۔ تیز چلتی گھوڑا گاڑیاں ، حملہ آوروں کے جتھے ،، مقابلے کرتے سپاہی ، اس علاقے کی جنگلی حیات ، سازشیں کرتے باغی ،، خوبصورت لمبے لبادوں میں ملبوس ، نازک اور موٹی خواتین ،، اُن کے اغوا ہوتے مناظر اور اُن کے مختلف عمروں کے بچے ،، جن میں سے کچھ گھائل نظر آئے ، اور کچھ بھاگ نکلے ،، گھنے جنگل کی تاریکی میں گُم ہوتے چلے گئے ،،، میَں چونک گئی ،، کہیں میری تصویر بھی اس دائرے میں ثبت نہ ہو جائے ،،، کہیں میں بھی یہیں محفوظ نہ ہو جاؤں ۔۔ بے معنی خوف نے مجھے آ گھیرا ،، اور تیز قدموں سے اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑی ،، تبھی مجھے یاد آیا ،، لندن کے دس ہزار سالہ "ایپنگ فارسٹ " نے کہا تھا ۔۔ "وہاں تمہارے گھر کے قریب کے پارک میں پانچ سو سال کے درخت سے ملنا ،، وہ تمہیں بہت سی کہانیاں کہہ دے گا ،، کیوں کہ تمہیں اس سے بار بار ملنے کا موقع مل رہا ہے ۔ ،، وہ ایسے ہی دلی دوستوں کو اپنے کچھ راز بتا دیا کرتا ہے " کیوں کہ
؎وہ ایک بات جو تم نے کہی درختوں میں
اِسی لئے تو ہوئی دوستی درختوں میں !! ( ظہیر قندیل )
لیکن راستے میں موجود ،، کئی درخت اپنے بزرگ درخت کی ترجمانی کرتے ہوئے بولتے جا رہےتھے ۔
"دیکھو ،، کبھی اپنے وطن میں قوانینِ قدرت کو توڑنے کی اجازت نہ دینا ،، اِس سے ماحول کی " پاکیزگی" مجروح ہوتی ہے ۔ آہ ،، انسان نے فضائی آلودگی ،، آبی آلودگی ،، اور ماحولیاتی آلودگیوں کو جان لیا ،،، اُن پر لمبے چوڑے مضامین پڑھے اور چھاپے جاتے ہیں ،، سیمینار ہوتے ہیں ،،،،، لیکن اپنی نئی نسل کو تباہی سے بچانے کے لئے " اخلاقی آلودگی " کو کیوں نظر انداز کر بیٹھا ؟؟""
" یہاں تو معصوم جنگلی حیات بھی ، اِن کی بے شرم حرکتوں سے نالاں ہے ۔ کچھ تو کرو ، یہ کیسی ترقی اور خوشحالی ہے ،،کہ اب تو اِن کی ستر فیصد عبادت گائیں ویران ہو چلی ہیں ۔ وہاں سکول اور شادی ہال بنائے جا رہے ہیں ۔ جانے انسان کیوں اتنا بے حِسّ ہو گیا ہے ؟ وہ کیوں اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھ رہا ہے ؟؟"

( منیرہ قریشی ، 29 اپریل 2024ء واہ کینٹ ) 

جمعرات، 25 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) 18

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) 18
فینس سے باہر کے چھِدرے جنگل سے کبھی چند منٹ کی اور کبھی ایک گھنٹے کی مجلس جمتی ۔ اور وہ میری ساری باتیں ، مکمل ذوق شوق سے سنتا ،، یہ دوستی کا ایک گُر بھی تھا کہ ، کہنے والے کے دل تک پہنچنے کے لئے اُس کی باتوں کو یوں سنا جائے جیسے وہ پہلی مرتبہ یہ سب سُن رہا ہے ۔ " اوہ! اچھا مجھے تو یہ پتہ ہی نہیں تھا" ،،والا رویہ ہوتا ہے ۔
کوئنز پارک کا چکر لگائے چند دن گزر چکے تھے ۔ موسم بھی خزاں کی آمد کی خبر دینے کے لئے دبے پاؤں آ رہا تھا ۔ اور اُس دوپہر ' پارک' ،،،جو کبھی گھنّا جنگل تھا ۔ باوجود خوش باش ، سیر کرتے لوگوں کے ،،، کچھ مراقبے میں ڈوبا لگا ۔ ،،، یا حسب سابق ،،، میری حسیّات نے یہ خبر دی ۔ کچھ دیر اسی پارک کی جھیل کنارے ،، بسنے والی بے تکلف بطخوں کے اچھے بڑے خاندان کی صحبت رہی ،،، اس جھیل کے گرد خوبصورتی سے بنائے گئے واکنگ ٹریک پر بہت سے بچے ، اپنے والدین یا ٹیچرز کے ساتھ گھوم پھر رہے تھے ،،، اور کئی اداس دل بھی انہی تمانت چہروں کی وجہ سے اپنی تفکرات بھول گئے تھے ۔۔ ایک مخصوس راہ پر چلتے چلتے اپنے پسندیدہ درختوں کے جُھنڈ کی طرف چلتی گئی ،،، اس جھنڈ میں شامل سب سے بڑے گھیر کے تنّے والے سے خاص سلام دُعا ہو چلی تھی ،،، لیکن آج اِس جھُنڈ پر صاف محسوس ہوا کہ یہاں خاموشی کچھ گہری ہے ۔۔ جہاندیدہ بزرگ درخت کے پتے ہلکی پیلاہٹ کے رنگ میں آیا چاہتے تھے ، اور وہ آنکھین بند کیے مراقبے کی کیفیت میں نظر آیا،، جب کہ کچھ نزدیکی نسبتاً کم عمر درخت کے سبز پتے سُرخ رنگت میں تبدیل ہونے کی تیاری میں نظر آئے ،، سوچا ،!! شاید بزرگ درخت اس لئے پیلے رنگ میں رنگا جا رہا ہے کہ سوچ رہا ہو " شاید یہ میری آخری بہار تھی ، شاید یہ آخری خزاں بِتا کر جا رہا ہوں" ،، اور باقی قدرِ جوان درخت سُرخ لبادے اوڑھ کر یہ ظاہر کر رہے ہیں،،، " ہمیں لمبی خزاں کا سامنا ہوا تو پھر کیا ؟؟ پھر سے بہار آ ہی جائے گی ۔ پُر اُمید رہنا چائیے ۔"
لیکن کچھ دیر وہیں رُکی رہی تو یکدم زیادہ سُرخ پتوں والے ایک کم عمر درخت نے بولنا شروع کیا ،، تو بولتا چلا گیا ۔ " ہم پر وقت کے اُتار چڑھاؤ کے رنگ آتے اور چلے جاتے ہیں ۔۔ یہ ازل سے لکھ دیا گیا ۔۔ ہم یہ تبدیلیاں خوش دلی سے قبول کرتے اور گزارتے ہیں ۔۔یہ نیچے گرے پتے ہمارے ہی لیے کھاد کی وہ خوراک بن جاتے ہیں جس کی طاقت سے ہماری بیماریاں دور ہوتی ہیں ،،، ہر جنگل اپنے آپ میں محسوسات کا خزانہ بھی سمیٹے ہوئے ہوتا ہے ۔ ہمیں بھی سکون ، اور گیان دھیان کے لئے پاکیزہ فضا درکار ہوتی ہے ۔ خاموشی کی ضرورت ہوتی ہے،،، لیکن اب کئی سالوں سے شخصی آزادی کے نام پر ، نو عمر ،، یا پختہ عمر کے انسان ،اپنی غلط کاریوں کے لئے ہماری چھاؤں کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہیں ۔ ہم خزاں میں بے لباس ہو جاتے ہیں ، شدید ٹھنڈ ہمیں بیزار بھی کر دیتی ہے ۔ لیکن ، کم از کم اِن قبیح نظاروں سے تو جان چھُٹ جاتی ہے ۔""
تو اس خاموشی اور مراقبے جیسی کیفیت کی یہ وجہ تھی!!! بزرگ درخت تو پھر بھی مراقبے کے ھالے میں ساکت کھڑا رہا ،، جب کہ کم عمر درخت نے دل کی بات کہہ ڈالی ،،، " تمیں علم تو ہو چکا ہے نا ،!! یہ پارک بعد میں بنا ، پہلے گھّنا جنگل تھا ،،، جہاں ہرنوں کی ڈاریں بے فکری سے چَرتی چُگتیں تھیں ۔
گچھے دار دُموں والی لومڑیاں ، خرگوش اور سہہ ( خار پُشت ) اور گوہ (monitor lizard ) اٹھکیلیاں کرتی پھرتی تھیں ۔ بیشک ایسے جنگل ، انسان کو ڈراؤنے لگتے تھے ۔ لیکن یہی ڈر کا غلبہ ہم درختوں کی زندگی کا باعث بھی بنا رہا ۔ البتہ صاحبِ اقتدار طبقہ جنگل کے خوف سے تو آزاد تھا کیوں کہ وہ اپنے اقتدار کو خظرہ سمجھ کر گھنے جنگلوں کی کانٹ چھانٹ کرتے رہتے ،، کہیں یہاں باغیوں کے مستقل ٹھکانے نہ بن جائیں ،،، کہیں ہمیں چیلنج کرنے والے عناصر ، یہیں چھُپ کر ہمارے خلاف سازشوں میں کامیاب نہ ہو جائیں ،،،، ایسے ہی بے معنی خدشات کے تحت اس طبقے کے مُٹھی بھر انسان ہمارے دشمن بنے رہے ۔ ہمارے ساتھیوں کو شہید کرتے رہے ،،، جنگلوں کے درمیان راستے بنے ،،، پھر انھیں تفریحی پارکوں میں بدلایا گیا اور اِسی کوشش میں جنگلی حیات سِمٹ سُکڑ کر رہ گئی ۔ یاد رکھو ،،، وہی جنگل ، مکمل جنگل کہلاتا ہے ،، جہاں ہمارے تنوں کے گِرد چھوٹے بڑے جانور چُہلیں کرتے ہوں ۔ اُن کی خوبصورت بولیاں فضا میں موسیقیت پیدا کرتی ہوں ۔۔ وہی جنگل خاص دبدبہ اور خاص چھَب کا مالک ہوتا ہے ۔۔ اب جنگلی جانور کم بھی ہو گئے ہیں ،،، جو ہیں وہ دن بھر اپنے بِلوں اور پرانے نالوں کے محفوظ کونوں میں چھُپ کر بیٹھے رہتے ہیں ۔ شام ہو تو انسانوں کی چلت پھرت ختم ہو ،، تو پھر خوراک کے لئے نکلیں ۔ ،،، اور ،،، اور ۔۔۔ تم نے دیکھا !!؟ اب پارک تو بن گئے لیکن اب اکا دُکا درختوں کے جھُنڈ تلے آج کا انسان وہ حرکتیں کر رہا ہوتا ہے ،، جو شریف لوگ اپنے گھروں کے اندر ، کھڑکیوں کے پردے برابر کر کے کرتے ہیں اپنے محرم رشتوں کے ساتھ وقت گزارتے اور آج کل ۔۔۔ نہ صرف نا محرم مرد و زن یہاں ہمارے سائیوں مٰیں ہمیں اپنے گناہوں کے گواہ بنا رہے ہوتے ہیں ،، بلکہ اِسی دوران ہم جنسی کے بد بودار طوفان کے افعال ہمارے سائیوں تلے روا رکھے جاتے ہیں ۔ یہ سب ہمیں بیزار کر دیتا ہے۔ ہم دکھ سہنے اور کڑھنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں ،، تم دیکھو ہم انھیں آکسیجن جیسی قیمتی چیز مفت بانٹتے ہیں ۔ اور انسان مادر پدر آزادی ، اور میرا جسم میری مرضی کے گھٹیا خیالات کو اپنا کر ہمارے سائیوں تلے کیا کر رہا ہوتا ہے ؟ جب بھی یہ منظر دہرایا جاتا ہے ،، ہمارا غصہ کئی گُنا بڑھ جاتا ہے ۔،،، تم جہاں سے گزریں ، وہاں ابھی تک نوجوان لڑکے اُسی قبیح حرکت میں مصروف تھے ،،، جس کی وجہ سے ربِ کائنات کا غضب بھڑکا تھا ،، اور سب سے زیادہ عذاب اِسی گھناؤنے فعل کی وجہ سے بھیجا گیا تھا ،،، اپنی نئی نسل کو "پرائیویسی "کے نام پر آزاد چھوڑ دینا ،،، والدین کا یہ رویہ ناقابلِ معافی ہے ۔۔ !"
کیا ہم سمیت کائنات کے سب مظاہر اُس ضابطہء حیات کے پابند نہیں ، جو اُس نے مقرر کر دئیے ہیں ، ہم میں سے جب کوئی یہ ضابطہ توڑتا ہے تو ،،، نتیجے میں ، کائنات میں غضب و قہر کی لہر پیدا ہو جاتی ہے ۔ جو انسانی جانوں ، علاقے کے خدو خال کو شدید نقصان پہنچا کر دم لیتی ہے ۔ خود سوچو ،،، یہ گندی حرکات ہمارے غصے کو نہیں بھڑکا سکتیں ۔۔"" یکدم ، نگاہ اُسی درخت کی اُوپر شاخوں کی طرف گئی ، تو سبھی کم عمر درختوں کے پتّے بھی جیسے شعلہ زن تھے ،،، ان کی آنکھیں انگارے برساتی محسوس ہوئیں ۔ ایسا لگا جیسے وہ اِن خلافِ فطرت حرکات کے مرتکب لوگوں کو جلا ڈالیں گے ، یا اُن پر خود کو گرا دیں گے ۔ تاکہ اُنھیں کچل ڈالیں ۔
مجھے جلد وہاں سے ہٹنا پڑا ۔ کہ بزرگ درخت کی گھمبر خاموشی ،، اور کم عمر درختوں کی غضب ناکی نے خوف ذدہ کر دیا تھا ۔
دل اداسی کی گہرائی میں جا گرا ۔ شیطان کے چھاپے ، اور تانے بانوں میں انسان کیسے بہ آسانی پھنس جاتا ہے جیسے ، مکڑی ساکن اور جامد ہو کر کامیابی سے شکار کو اپنے جال میں پھنسا لیتی ہے ۔ کاش اے انسان !! عارضی ، آزادیوں کے بدلے اپنے ضمیر کو نہ مار ۔۔۔ کہ یہ ضمیر وہی ہمزاد ہے جس کی گواہی پر وہ جکڑا جائے گا ۔ چلئے ،، وہ بعد کا دربار سہی ۔ لیکن دنیا میں اس کے اثراتِ ظاہری و باطنی کی تباہ کن حالتیں ہو سکتی ہیں ۔اور ہو رہی ہیں ۔ اُس انجام سے ڈریں !!
کوئنز پارک کا وہ دن ، درختوں کے غم اور خوشی اور غصّہ و شانتی سبھی کیفیات نے دل و دماغ پر ایسا اثر ڈالا کہ ،،، جلدی سے اپنی من پسند کیاریوں کے پاس جا کر بیٹھ گئی کہ ،،، پھولوں کی معصومیت ، لطافت ، خوش نمائی ، اور خوش ادائی ، انسانی مزاج پر عجب خوشگوار اثرات ڈالتے ہیں ۔ اور ان کی صحبت سے انسان مایوسی کی دلدل سے نکل جاتا ہے ۔ وہ پھر سے امید کے چراغ روشن کرنے لگتا ہے ۔ جلد انسان فطرت کی طرف لوٹے گا ۔ اور پھر ہر کسی کے مطالبات دائرہء فطرت کے تحت پورے کئے جائیں گے۔

( منیرہ قریشی ، 26 اپریل 2024ء واہ کینٹ ) 

جمعہ، 19 اپریل، 2024

جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) 17



جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) 17
بچپن جس گھر میں گزرا ، وہ مکمل شہری علاقہ تھا ۔۔ گھر اگرچہ 8 مرلے تک کا تھا لیکن صحن اتنا مناسب تھا کہ کناروں پر لگی ایک طرف چنبیلی کی بیل اور دوسری طرف موتیے کے جھاڑ کے ساتھ انگور کی بیل بھی دوسری منزل تک چلی گئی تھیں ۔۔ گھر کے دونوں بڑے فطرت کے شیدائی ۔ اس صحن کے درمیان میں سفیدے کا ایک درخت بھی لگا دیا گیا ،، تیس ، چالیس گملوں کی ترتیب موجود تھی ۔ ہمارے بچپن میں ہی دیکھتے ہی دیکھتے سفیدے کا درخت جوان ہو گیا اور اس کی چوٹی دوسری منزل کی دیوار تک جا پہنچی ۔۔ ایسے جیسے ، اُسے انگور اور چنبیلی کی بیلوں کی دوسراہٹ کی خواہش تھی ،، وہ بھی ان دونوں کی دوستی میں وقت گزارنا چاہتا ہو ۔۔ لیکن جب بھی ہَوا تیز چلتی تو ، سفیدے ( پاپوپلر) کا درخت ایسے جھومتا ، جیسے رقص کر رہا ہو ،،ہلکے ہلکے ہلکورے لیتا ہوا ،،، بہت بعد میں ترکیہ جانا ہوا،، اور وہاں "رقصِ درویش" کی محفل نصیب ہوئی ،،، اور جانے کیوں اُس چھوٹے سے ہال کے نیم اندھیرے میں تین ، سادہ ترین لبادے میں مختلف عمروں کے درویش کبھی ہولے ہولے ،، اور کسی وقت تیز اپنے ہی قدموں پر والہانہ گھوم رہے تھے ،،، اور مجھے سفیدے کا درخت شدت سے یاد آگیا ،، جیسے یہ اپنے ہی قدموں کے دائرے میں گھوم رہے تھے ،، ویسے ہی سفیدے کا درخت جھومتا ،، جیسے ہوا اسے موسیقی کے سُر سنا رہی ہو ،،،،،لیکن جب کبھی ہوا تیز ہوتی ،، سفیدے کا جھومنا ،، بالکل ایسی تڑپ لئے ہوتا کہ جیسے وہ اُڑ جانا چایتا ہو ، میَں کم عمری کے باوجود اس خیال سے اس کے تنے پر دونوں ہاتھ رکھ دیتی ،، جیسے میں اپنے ننھے ہاتھوں سے اُسے گرنے سے بچا لوں گی ،، اور کئی دفعہ اُسے گلے لگا لیتی ،میرا خیال ہوتا یہ بہت تیز ہوا سے خوف زدہ ہے کیوں کہ مجھے وہ اندر ہی اندر سسکتا ، روتا محسوس ہوتا ۔
یہ ساری دلی کیفیات میں نے فینس کے باہر کے چھَدرے جنگل کو سنا ڈالیں ۔ آج ہم کافی دنوں بعد محفل سجا پائے تھے ۔ اور یہاں بھی آج ہوا تیز تھی ،، سفیدے کے درخت کی یاد نے مجھے گرفت میں لے لیا تھا ، تب چھِدرے جنگل کے ایک بزرگ درخت نے ساری روداد تحمل سے سن کر اتنا ہی کہا
" وہ اکیلا درخت تھا ۔۔۔ اور یاد رکھو اکلاپے کا اپنا منفرد دُکھ ہوتا ہے ، جب وہ دُکھ کا رَس مسلسل پیتا رہتا ہے ۔ تو یا تو وہ بیمار ہو جاتا ہے ،،، یا ، ابدال بن جاتا ہے ،، one and only ,,, وہ آس پاس کے علاقوں کے دور دراز کے درختوں کو ہیغام رسانی کر رہا ہوتا ، تیز ہوا سیکنڈوں میں یہ پیغامات آگے پہنچاتی ہے ۔ تاکہ مختلف مسائل میں جکڑے درختوں کو حل بتا سکے ۔"
" جس طرح انسانوں میں روحانی دنیا کی عجب توجیحات ، آداب ، و درجات ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی ہم درختوں کی دنیا میں بھی اللہ کے حکم سے درجات بانٹے جاتے ہیں ِ ابھی تم نے ترکیہ کا ذکر کیا ،، وہاں بھی کسی سے ملیں ، یا مال و اسباب کی محبت میں غرق رہیں " ؟؟؟؟؟
مجھے اُس کے تبصرے پر شرم آ گئی ،، واقعی جب ہم کسی دوسرے ملک ، یا علاقے کی سیر کو جاتے ہیں ۔ تو پہلی کوشش یہی ہوتی ہے ، تھوڑی بہت یہاں کی سوغات اکٹھی کی جائیں ، کچھ خود رکھیں گے ، کہ یاد گار ہوں گی ، اور کچھ تحائف کے طور پر بھی دینی ہوں گی ۔ اسی لین دین سے ہمارا بہت قیمتی وقت ، بے قیمت چیزوں کی نذر ہو جاتا ہے ۔ لیکن ترکیہ کی سیر میں چپے چپے نے مسحور کئے رکھا ،، کہ ہر کونا ، ہر تاریخی عمارت ، ہر چوراہا ،، یوں جانا پہچانا لگا تھا جیسے ،،، میں تو یہاں وقت گزار چکی ہوں ۔ میرے لئے کوئی جگہ اجنبی نہیں تھی ۔ شاید اس کی یہی محبت تھی کہ وہ نو دن یوں گزارے جیسے مجھ میں کسی درویش کی روح حلول کر چکی ہو۔،، میرے پاؤں تھک چکے تھے ،، لیکن جسم سفیدے کے درخت کی طرح اپنے ہی قدموں پر جھوم جھوم رہا تھا ۔ تب میں نے چھِدرے جنگل کے بزرگ درخت کو بتایا ۔۔۔
" جب بُرصہ شہر پہنچے تو وہاں اس دن روشن دن تھا ، صاف ستھرے شہر کے خوبصورت ، صحت مند ، مطمئن لوگ ،، دلوں کو تقویت دے رہے تھے ۔ کہ دنیا میں پُر اعتماد چہروں کی بھی الگ اُٹھان ، اور شان ہوتی ہے ۔ اِس شہر نے داخلے کے وقت ہی اپنے نام دو تائثر درج کروا دئیے تھے ،، پُرسکون فضا اور سبز ٹھنڈے رنگ کا منظر و پس منظر ،، ۔۔ پھر جب ہمیں وہاں کی جدید تفریح یعنی کیبل کا میں بیٹھنے کا موقع ملا ،،، تو بُرسہ جو پہلے ہی پہاڑی علاقہ ، اور سطح سمندر سے 150 میٹر اونچا ہے ،، پھر بتدریج اوپر ہی اُوپر چڑھتی کیبل کار ،، اور نیچے وہ لمبے پتلے ذمردیں رنگ کے پتوں والے انتہائی اونچے درخت ،، جب کیبل کار چڑھتی چلی گئی تو ان درختوں کی چوٹیاں ہماری کیبل کار سے چُھو کر سرسراتیں چلی جا رہی تھیں ۔ اُس دن خواجہ غلام فرید رح کی خوبصورت ترین کافی کے اِس شعر کی سمجھ بخوبی آئی تھی ،،،،
؎ اُچیاں لمبیاں لال کھجوراں
تے پَتر جنھاں دے ساوے !
اور میں اُن کی اونچائی اور لمبائی کو سراہتی جا رہی تھی کہ ،، اچانک گھّنے درختوں کی باوقار سرگوشی نے چونکا دیا ۔ "'' ہم تمہیں پہچان گئے ہیں ،کیوں کہ تم ہمیں جانتی ہو ! ہاں اِس سرزمین ،،، پر آتے ہی تمہیں سکون ، ٹھنڈک ، اور سبز کے ہر شیڈ نے سرشار کر دیا ۔ اس لئے کہ ہم درختوں نے ظالم حملہ آوروں کو بھاگتے دیکھا ہے ،، اور صاحبِ ایمان فوجوں کی استقامت دیکھی ہے ،،یہ جو ہمارے سبز رنگ اتنے خوش نما ہیں ،، اور اِن میں سبز کا ہر سبھاؤ جھلک رہا ہے ،، اور ہم جو اتنے تن آور اور سَر بلند ہیں تو دراصل اِس سر زمین میں کیسی کیسی معرکتہ ا لآراء ہستیاں ابدی نیند سو رہی ہیں ۔ عثمان غازی ، علاو الدین غازی ، اورحان غازی ،،اور اُن کے جانثار ، جانباز ساتھی، یہ سب اِس زمین پر آئے اور یہیں مدفون ہوئے۔
یہاں تم جہاں جہاں سے گزرو گی ، کسی نا کسی شہید کا خون وہاں گرا ہو گا ۔ یہ اُسی خون کی آبیاری کا نتیجہ ہے کہ یہاں سبز رنگ کا ہر عکس جھلملاتا دکھائی دے گا ۔ تمہارے دریائے سوات جیسا زمردیں سبز رنگ ،، آذر بائی جان کی چراہ گاہوں جیسا ہلکا سبز رنگ ،،کہیں ڈھاکا کے سُندر بَن کے جیسا کائی رنگ ،، بُرسہ کے اُس جنگل نے اِک تفاخر سے اپنی چوٹیوں کو جھٹکا دیا ،،، ہمیں یہ فسوں و دبدبہ اُس آزادی کی تڑپ نے دیا ۔ جنھوں نے آزادی اور وقار پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا ۔ سو یہاں لوگوں میں ہی نہیں ،، درخت ، پہاڑ ، ویرانوں میں بھی رعب جھلکتا نظر آتا ہے کبھی دیکھا ہے ایسا
منفرد خطہ ؟؟ "" میں نے کھُلے دل سے اعتراف کیا ، کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد تادیر اُسے برقرار رکھنے سے ان کی کئی نسلوں کے رگ و پے میں اِک مزاجِ رندانہ آ چکا ہے ،، اور غیر قوم کی100 سالہ پابندیاں بھی اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں ۔
میری یہ یادیں اِس سارے چھدرے جنگل نے غور سے ساکت ہو کر سنیں،، مجھے اندازہ ہو گیا کہ ،، انھیں سب خبر ہے ، محض میری محبت میں سکون سے ساری روداد سنتے رہے ۔ کتنی پیاری بات ، کہ کبھی کبھی آپ اپنے دل کی ساری بات کہہ ڈالتے ہیں ، تب احساس ہوتا ہے ،، یہ باتیں سامنے والے کو معلوم تھیں اس نے صرف مروت میں میری داستان پھر سُن لی ۔۔ کتنا بڑا ظرف چائیے ،، کتنا حوصلہ چائیے ،، سنی بات کو سکون سے سنتے رہنا ، اور ظاہر کرنا کہ میں پہلی دفعہ یہ سن رہا / رہی ہوں ۔ مجھے بھول جاتا تھا کہ ،، ساری دنیا کے درخت ایک خاندان ہی تو ہیں ،اور ایک دوسرے کی خیر خبر
رکھنے کا اُصول اور طریقہ ان کو ودیعت کر دا گیا ہے ۔

( منیرہ قریشی 20 اپریل 2024ء واہ کینٹ )

سلطنتِ عثمانیہ کے دور کا قدیم چنار کا درخت ، جس کا ان سے روحانی تعلق رہا ۔اور اب صدر طیب نے قوم کو چنار کے درخت زیادہ سے زیادہ لگانے کا حُکم دیا ہے ۔

 

منگل، 16 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " (رپور تاژ) 16

" جنگل کچھ کہتے ہیں " (رپور تاژ) 16
سرگودھا کے بزرگ برگد کی ملاقات اگرچہ سَرسری سی تھی ،، اس حیرت انگیز درخت نے جانے ہمیں اور کتنی کہانیاں سنانی تھیں ،، بلکہ کچھ راز تھے ۔۔۔ جو عیاں کئے جانے تھے ۔ اس کی ہر ٹہنی ، بزبان خاموشی ہمیں کچھ دیر اَور ، کچھ دیر اَور رکنے کا کہہ رہی تھیں ۔ لیکن انسان ، کو جلد باز اور بے صبرا ایسے ہی تو نہیں کہا گیا ۔ وہ ایسے ہی گمان میں ،،، " چلو جلد چکر لگائیں گے "، لیکن وہ" جلد" یا تو پھر آتی نہیں ،،، آتی بھی ہے تو وقفہ اتنا لمبا ہو چکا ہوتا ہے کہ پہلے والی گرم جوشی اکثر مفقود ہو چکی ہوتی ہے ۔ شاید ایسے میں سامنے کے مظاہرِ فطرت بھی محتاط ہو چکے ہوتے ہیں ۔۔ اسے اگر چاہ نہیں تو ہمیں بھی پرواہ نہیں ، اور قسمت ہمیں بہترین موقع دیتی ہے لیکن ہم اسے جلد بازی کی نذر کر دیے ہیں ۔ کیا پتہ اس برگد کے جہاندیدہ ، کہنہ سال درخت کی جھکی کمر ، تجریدی آرٹ کے عجب نمونے میں ڈھلی لا تعداد جڑیں ، جو اب خود ایک درخت کے روپ میں ڈھل چکی تھیں ،،، اسی لئے تو جھکی کمر کے اصل درخت کے گرد جنگل نہیں بلکہ اسرار کا ہالہ کھڑا ہو چکا تھا ۔ جب اس نے کہا تھا ،، " '' دیکھو ! قدرت نے میرے وجود کو نہ صرف عجب ہییت دے دی ہے بلکہ اس میں سے دروازے اور کھڑکیاں کھلتی نظر آ رہی ہیں " اس وقت سوچا بھی تھا ، کیا پتہ یہ ایک اور اَن دیکھی دنیا کا دروازہ ہو ۔ کیا پتہ غور کرنے سے کسی کھڑکی سے کسی نئی دنیا کو دیکھ پاتی ،،کیا پتہ ؟؟؟
بالکل ایسا ہی پیغام ایک "ہوائی سفر "کے دوران ایک افریقی سر زمین نے دیا تھا ۔ جیسے ہی علم ہوا کہ ہم اس وقت ایمزون جنگل کے ساتھ جڑے ممالک کے اوپر سے گزر رہے ہیں ، تو آنکھ چھپکے بغیر یہ منظر اُس وقت تک دیکھا کئے ،، جب تک جنگل کی آخری قطار نہیں گزری ۔ آہ ! اُس کے ایرانی قالین کی طرح کے گُتھے درخت عجب منظر پیش کر رہے تھے ،،، نیرنگئ قدرت اپنے منفرد رنگ سے سامنے تھی ۔۔ کہ وہاں سبز رنگ کا ہر عکس جھلکیاں دکھا رہا تھا ۔ پہلے ہلکے سبز رنگ کی لہر آئی ، پھر بتدریج گہرا سبز سامنے آیا ،،، اور اس کے بعد کائی سبز ،، جو جنگل کا زیادہ حصہ سمیٹے ہوئے تھا اس کے فوری بعد سمندری سبز اور پھر جہاز کی پرواز کے دوسری جانب کے موڑ تک ذمردیں سبز نے دلبہار منظر دکھایا جو یادوں نے آج تک بسا رکھا ہے ۔ سب سے اہم یہ کہ ہر سبز رنگ الگ الگ پیغام دیتا چلا گیا ،،، " ہمارے راز جاننے ہیں ، تو نیچے اترو ہمارے درمیان آؤ ! ہم اس طرح فضا سے اپنی اصل خوب صورتی نہیں دکھاتے ،،،، تمہیں جاننا بھی چاہیئے کیوں کہ ہم تمہاری دنیا کو آکسیجن کا '6 فیصد' حصہ دیتے ہیں ۔ اور 25 فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں ۔ اسی لئے تو ہمیں دنیا کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے ۔۔۔ یہی علاقہ ہے ، جہاں سینکڑوں قبائل کے ساتھ ساتھ ان گنت جنگلی حیات ، پل بڑھ رہی ہے،،،ہم 5 کروڑ سال سے انسان کے لئے حیرت اور ہیبت کا علاقہ بنے ہوئے ہیں ۔۔۔ "
میں سبھی سبز رنگوں کے پیغامات سے تھک گئی ،، آنکھیں بند کیں اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی ،،، لیکن ابھی سبز رنگ مجھے چھوڑ نہیں رہا تھا ۔،، میری آنکھوں کی پُتلیاں سبز ہو چکی تھیں ،، میرے منہ کے اندر سبز رنگ کا ذائقہ گھل چکا تھا ، سبز رنگ مسلسل میرے گرد ہالہ بنا کر ہلکورے لے رہا تھا ،،، اس کے جملوں کی تکرار تھی ، "کبھی دیکھا ہے افریقی لوگوں کو ،، بھلے ان میں سے لا تعداد کے آباء دوسرے مغربی ممالک میں جا بسے ہیں لیکن ، ان میں چند باتیں مشترک ہیں ، وہ چلتے نہیں جھومتے ہیں ،، وہ انہی جنگلوں سے اِس فطری عمل کو اپنے خون میں لے کر گئے تھے ۔ ہم افریقی درخت بہت مضبوطی سے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اونچے ہوتے چلے جاتے ہیں ،،، ہمارے قدموں میں سے نئی پود پنپ رہی ہوتی ہے ۔ اب یہاں یہ چھوٹے پودے ہوں ، جھاڑیاں ہوں ، یا آسمان کو چھوتے خوب لمبے درخت ہم جھومنا نہیں چھوڑتے ،،، موسم چاہے جو بھی ہو ،،، ہمارے ڈال ڈال پات پات جھومتا رہتا ہے ،، یہی ہمارا حمد و ثنا کا انداز ہے ،"
۔ تب سوچ نے افریقی خدوخال کے سیاہ رنگ نے متوجہ کیا تو احساس ہو گیا یہ جھوم جھوم کر چلنا ، ان کے جینز میں ودیعت کر دیا گیا ،،، اب زندگی کا برش مصیبت کے منظر پینٹ کر رہا ہے ، یا خوشی کے چیختے چلاتے رنگوں کی بوچھاڑ دکھا رہا ہے ۔ افریقی وجود جھوم جھوم کر ہر طرح کے وقت کو گزار رہا ہوتا ہے ،، یہی جھومنا اُن کے اعصاب کو شانت رکھتا ہے ،،،،
مختلف سبز شیڈز کے ایرانی قالین کی طرح گُتھے جنگل نے جاتے جاتے جو پیغام دیا تھا ،، اس کی صدا بار بار کانوں میں گونج رہی تھی ۔
" ہم سے ملنے آؤ تو وقت طے کر لینا ،،، ہم چند گھنٹوں میں گھُل مِل جاتے ہیں ،،، تم نے انداہ لگایا افریقی سیاہ رنگ کتنے دوستانہ رنگ میں گندھا ہوا ہے ۔ " ہم ہزاروں سال سے دنیا کی خدمت میں جُتے ہوئے ہیں لیکن کیا ہم احسان جتاتے ہیں ، ؟ تم غور کرنا ،، افریقیوں میں بھی آحسان جتانے کی عادت نہیں ملے گی ،۔ ہم سے یہی اُصول سیکھ لو ،، خدمت ، صبر اور بے غرضی !!
" یہی پیغام قدرت الہیٰ کا ہر مظاہر دے تو رہا ہے ۔ تم غور ہی نہیں کر رہے ۔ آزادی اور خود مختاری کی چاہت رکھتے ہو ، جسمانی آزادی حاصل کر بھی لیتے ہو لیکن ، اخلاقی آزادی اپنانے کی رفتار کیوں تیز نہیں کرتے ، انسان کو یہ زندگی تو بہت تھوڑی ملی ہے ، اے فانی !!! بس یہی تم براؤن اور کالی قوموں کا المیہ ہے ۔ کہ سوچ کی بلند پروازی میں سست ہو ۔ تم میں موجود گنے چُنے بہادر نہ ہوتے تو تم کانوں کے کچے اپنی ہی جاتی کو مارنے لگتے ہو ،،، کب سنبھلو گے ؟؟ ہم درختوں تلے کیسے کیسے ظلم روا نہیں ہوتے ،،، اگر خالق کا حکم نہ ہوتا تو ہم خود کو ظالموں کے اوپر گرا دیتے ،،،،،، "

ہاں البتہ ،،، ہم نے خوب غربت اور ظلم ہوتے دیکھے ، لیکن افریقی ہوائیں ، اور ہم درخت فیاضی کو نہیں بھولے ۔ اسی لئے افریقی جہاں ہو ،، مہمان نوازی میں کمی نہیں کرتا ۔ افریقی جنگلات کو خوشحال قومیں تباہ کرنے ، اور اس کے وسائل پر قبضہ کے لئے بے چین رہتی ہیں ۔ لیکن ہم دیوارِ چین کی طرح ناقابلِ تسخیر ہیں ، یہ ایکا ہی ہمیں بچا رہا ہے کبھی افریقی نسل کے ماضی کو پڑھنا ،، غلامی کا کون سا رنگ ہے جو انھوں نے نہیں سہا ،،، لیکن صبر سے اپنی قسمت بدلنے میں لگے رہے ۔ ،، سیکھو ،، انسانو ں ! سیکھو ۔ خود میں ایکا مضبوط کرو ۔ ہم درختوں سے سیکھو !! ہم ہی تو اِس کائنات کا حُسن ہیں ۔ہمیں برباد ہونے دو اور نہ خود کو برباد کرنے کی کسی کو اجازت دو ۔ تمہارے ہی ایک خوبصورت ذہن کے درویش فطرت ادیب خلیل جبران نے کہا تھا ،،،" ۔ "درخت نظمیں ہیں جنہیں زمین آسمان پر لکھتی ہے"۔ 

( منیرہ قریشی ، 17 اپریل 2024ء واہ کینٹ )

اتوار، 14 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں" ( رپور تاژ) 15




" جنگل کچھ کہتے ہیں" ( رپور تاژ) 15
ہر دور میں ، فطرتِ انسانی نے اَن دیکھی قوت سے ہیبت محسوس کی ،،، تو دکھائی دی جانے والی وہ قوت جو حوّاس میں آجاتی ہو ،، انسان اس سے متاثر ہوا اور ،،اس کے سحر کے حصار میں چلا جاتا ہے ۔ اور یوں کبھی ، سورج ، چاند یا جلتا الاؤ اسے اپنے سے بہت بلند ، قوت اور ہیبت والا لگا ،،، تو اُسی سے منتیں ماننے لگتا ۔ اور کبھی کسی درخت کی قدامت ،منفرد رنگت ، جسمامت ، اونچائی ، لمبائی ، انسان کو اپنی محرومیوں کا مداوا کرتی محسوس ہونے لگتی ، تو وہ اسے اپنی دعاؤں کا مرکز سمجھنے لگتا ،،،،،
ایسے میں درخت مسکراتے !! " یہ فانی بھی کیا چیز ہے ،، اپنے عارضی مسائل کا حل ، فانی سے طلب کر رہا ہے ۔ اور یہ جسے خالق نے فرشتوں جیسی مخلوق سے علم کی بنیاد پر سجدہ کروایا ،، اسے جو فراست بخشی ، کمزور لمحات میں اسی فراست کو بے عقلی کے گڑھے میں دھکیلنے میں دیر نہیں لگاتا ۔ ،، اسی لئے دنیا کے مختلف خطوں میں لاتعداد ایسے درخت ہیں ،، جن کی ٹہنیوں اور تنّوں کے ساتھ دھاگے ، ربن یا دوپٹے بندھے نظر آئیں گے ۔ انہی جگہوں کی یہ روایات وہاں کی عوام کی ذہنی سطح اجاگر کرتی ہے ۔"" ہم درخت چُپکے چُپکے باتیں کرتے ہیں ،،، تمہیں ہماری زبان سمجھ نہیں آ سکتی اسے " چُپ کی زبان " کہتے ہیں ۔ اِسی لئے ہم ہر آنے والے مہمان کے دوست بن جاتے ہیں کہ یہی زبان " احترام " کی زبان بھی ہے" ،، یہ سب سر گوشیاں سرگودھا جاتے ہوئے موٹر وے کنارے ایک سایا دار درخت نے کیں ، جس کی چھاؤں میں کچھ منٹ بیٹھنا ہوا ۔ اور میَں دل ہی دل میں دنگ رہ گئی کہ اس وقت ہمارا سفر سرگودھا ہی کی طرف تھا ۔۔۔ لیکن اسے کیسے پتہ چلا ؟ دھریک کے درخت نے جیسے میرا خیال پڑھ لیا تھا ،، وہ جھوم کر کہنے لگا ۔۔ بے شک ہم کہیں نہیں جاتے ، نہ ہمیں کوئی بتاتا ہے ۔ لیکن ہمارے خالق نے ہمیں خیال پڑھنے کی یہ حّس دے رکھی ہے ۔
یہ بھی تو دیکھو ،، تم بھی تو ہم سے سوچ کی لہروں سے گفتگو کر لیتی ہو ، یہ اور بات کہ انسانوں میں ایسا بہت کم نظر آتا ہے ۔
"کبھی پاکستان کے ایک سر سبز شہر"" سرگودھا " کے نواحی علاقہ مڈ رانجھا جانا ہوا تو دیکھنا۔ وہاں برگد کا وہ درخت ہے جو ساؑڑھے تین ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط ہے ۔ اس کا یہ پھیلاؤ دیکھنے والوں پر سحر طاری کر دیتا ہے ۔ ذرا بلندی سے دیکھیں تو وہ پورے گاؤں کو اپنے حصار میں لئے محسوس ہوتا ہے ۔ مقامی لوگ اسے سینکڑوں سال ( قریبا" ساڑھے تین سو سال اور بعض روایات کے مطابق 700 سال بعد )پرانا بتاتے ہیں ۔ جسِے کئی سو سال پہلے ایک صُوفی بزرگ مرتضیٰ شاہ یا کچھ روایات کے مطابق بابا روڈے شاہ نے اپنے شاگرد کے ساتھ اِسے لگایا تھا اسی کے قریب اپنا ٹھکانہ بنایا ،اور اسے "بابا روڑے دی بوڑھ"، کہا جاتا ہے۔۔ آج برگد کا یہ درخت اپنی لمبی جَٹوں کے ساتھ اتنا پھیل چکا ہے کہ اس کے نیچے کئی سو لوگ بیٹھ سکتے ہیں اور یہ اب اپنی ذات میں خود ایک جنگل بن چکا ہے ۔ اس کے تنے پر لوگ اپنے نام پتے لکھ جاتے ہیں ،، یہ حرکت دنیا کے اس دوسرے نمبر کے بزرگ درخت کی صحت کے لئے ہرگز ٹھیک نہیں ۔ لیکن نسل انسانی اگر قدر کرے گی تو تباہی کے بعد ہی ،، اس وقت فطرت بھی ٹھنڈی چھاؤں سے محروم کرنے میں دیر نہیں لگائے گی ۔ کاش انسانی معاشرے کچھ مظاہرِ فطرت کو مقدس ہی بنائے رکھیں۔ تب ہی ان کا بچاؤ ہو سکتا ہے ۔ جیسے وسیع سر سبز میدان ،، ساحلی صفائی ، پہاڑوں کو کٹائی سے بچانا ،،،کہ یہی تو زمین کی میخیں ہیں ،،، اور ہر طرح کے جنگلوں کو بچایا جانا ۔
۔ اب یہ بزرگ درخت سب پر اپنا مہربان سایا ڈالے رکھتا ہے ،، اسی کی چھاؤں میں بے شمار مویشی آرام سے بیٹھے جگالی کرتے ہیں ۔اور لا تعداد پنکھ پکھیرو لمبے چوڑے خاندانوں کے ساتھ سکون کے ساتھ مقیم ہیں۔ صبح شام حمد و ثنا میں مصروف رہتے ہیں ۔ درخت اپنی فطرت کے مطابق ،،، فیض کا سرچشمہ بنا کھڑا ہے ۔ لیکن جہالت کی غلاظت لیئے ، انسان نہ جانے کچھ حرکات جانوروں سے بھی بد تر کیونکر کر جاتا یے ،،، کہ وہی سازشیں، وہی تانے بانے۔۔۔۔
مڈ رانجھا پہنچ کر بزرگ برگد درخت نے ہی بتایا " عمر کے لحاظ سے میرا ایک بڑا بھائی ، سری لنکا میں ہے ۔۔ جسے اس کی حکومت نے اپنی تحویل میں لیا ہوا ہے ،، جب کہ ایک چھوٹا بھائی انڈیا میں ہے ۔۔۔ ہم تینوں کا باہمی رابطہ ہواؤں ،، اور پرندوں کے ذریعے مسلسل رہتا ہے ۔ نہ جانے کیوں میَں خود کو کچھ مضمحل محسوس کر رہا ہوں ،،، شاید بے تحاشا پھیلاؤ نے میری قوت مدافعت کم کر دی ہے " اِسی لئے میں تھکا تھکا نظر آتا ہوں ، حالانکہ ملائیشین بزرگ درخت ایک ہزار برس سے زیادہ کے ہیں ،،جو بہت ترو تازہ ، سرسبز اور سیدھے کھڑے ہیں " ،،،،
"اب میں صرف مسکرانے پر اکتفا کرتا ہے ۔۔ میں جانتا ہوں ۔۔۔ کہ میں نہ تن کر سروقد کھڑا ہو سکتا ہوں ، نہ اجنبی مہمانوں کے اعزاز میں جھوم سکتا ہوں ۔ لیکن چُپ کی مدھم آواز سے اس کا" جی آیاں نوں"کہنا ،، اور پھر میٹھی مسکراہٹ سے ملائیشین بزرگ درختوں ،کا احوال پوچھنا ،،، اس کا یہ انداز یکدم دل میں گھَر کر گیا ۔ ""
ماہر زولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر ظہیر الدین خان کے مطابق ، پودوں کو نا پید ہونے سے بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ کسی اہم درخت کو " مقّدس" قرار دے دیا جائے ۔ تاکہ لوگ خود اس کا تحفظ کریں ۔ لیکن میرے وطن کے لوگ ،،، ابھی تربیتِ شعور کے دور سے گزر رہے ہیں ۔۔
ایک درخت کے لئے کہنہ سالی اس کے گیان اور وجدان میں اضافے کا باعث تو ہوتی ہے ،،، دوسرا بڑا غم وہی : اُس کے سائے تلے سازشیں اور گھناؤنے منصوبے تیار کرنے والی حرکات ،، درخت کی صحت ، اور وجدان کی راہ کو کھوٹا کرتے رہتے ہیں ۔ جانے ان انسانوں کی سوچ میں یہ بات کیوں نہیں آ رہی کہ کرامن کاتبین کے بعد ہم بھی ان کے اعمال کے عینی شاہد ہیں ۔"
برگد کی مڑی تڑی موٹی لیکن بے ترتیب شاخوں نے اُسے تجریدی آرٹ کا نمونہ بنا ڈالا تھا ۔ اوپر سے آتی جڑوں نے نیچے آکر مزید نئے درخت کا رُوپ دھار لیا تھا ،، ایسے کہ جیسے دروازے کھڑکیاں سی بن گئیں ہوں ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا یہ دروازے اور کھڑکیاں کسی دوسری دنیا میں قدم رکھنے کا باعث بن سکتی ہیں ، واقعی اس بزرگ درخت کا نرالا سحر تھا ۔ ،،، جو آس پاس کی خاموشی نے، درخت کے بے تحاشا پھیلاؤ نے،، ہم نے مزید
دل سے تکریم کی ۔ اور اس کے مختلف تنوں پر ہاتھ پھیرا ،، کہ اب اللہ حافظ کہوں ، کہ سرگوشی سی اُبھری " تم کتابیں تو پڑھتی ہو ،،، اور کبھی زندگی تمہیں وہاں لے گئی جہاں ہمارا بڑا بھائی سری لنکا کا شہری ہے ،،، تم میری اور اپنی ملاقات کا ذکر ضرور کرنا ،،، اُسے ملائیشین بزرگ درختوں کے بارے بھی بتانا ۔ کہ وہ ہمارے بھی آباء میں سے ہیں ۔۔ اب جاؤ ! کہ شام ہوتے ہی یہاں کا پر اسرار سناٹا ، لوگوں کو ہم سے دور رکھتا ہے ، دراصل یہی تھوڑا سا رعب ودبدبہ ہے جس کی وجہ سے ،،، ہمارے لئے سکون ، اور گیان کے اوقات میسّر ہو جاتے ہیں ۔ اللہ کا حکم ہوا تو پھر ملیں گے ۔
(منیرہ قریشی ، 15 اپریل 2024ء واہ کینٹ )

۔ ( پاکستان کے شہر سرگودھا کے قریب " مڈھ رانجھا " میں برصغیر کے دوم نمبر کے برگد کا درخت ،، جو ساڑھے تین ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے ۔ یہ اس کے تین یا سات سو سال پرانے تنے ہیں ) 

بدھ، 10 اپریل، 2024

" بس اک خیمے کا سوال ہے " ( فلسطینی بیٹی کے لئے )

" بس اک خیمے کا سوال ہے " ( فلسطینی بیٹی کے لئے )

" بیٹی ! تمہیں کیا چائیے ؟
کھانا چائیے ؟ یا کھلونا ؟
نہ کھانا ، نہ کھلونا ،،،،،!
مجھے بس اِک خیمہ چاہیئے !
جانے میں کتنے دنوں سے نہیں سوئی !
کھلے آسماں تلے اندھیرا ڈراتا ہے
بموں کی سیٹیاں سونے نہیں دیتیں
بے خواب آنکھیں اب نیند بھول گئی ہیں !!
مجھے صرف اک خیمہ چاہئیے ،
جو مجھے باہنوں میں لے لے گا ،،،
گود میں سلائے گا ،،
سہانے خواب دکھائے گا
مجھے کھانا اور کھلونے دلائے گا
خیمہ ،اوجھل کر دے گا
سبھی ویرانیاں
ٹوٹے گھر ، اور بین ڈالتی عورتیں
مجھے کھلونے نہیں چاہئیں
میں کس کے ساتھ کھیلوں گی؟
سب بچے جانے کہاں کھو گئے ہیں؟
یا ، سب ہی بڑے ہو گئے ہیں !
میں نیند ڈھونڈنے نکلی ہوں
میرا ریشہ ریشہ نیند مانگتا ہے
روم روم میٹھی نیند چاہتا یے
کیا، آپ نیند بھی بانٹ رہے ہیں ؟
جناب ، بس اک خیمے کا سوال ہے !!

( منیرہ قریشی 10 اپریل ، یوم عید الفطر ) 

منگل، 9 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں "(14)



" جنگل کچھ کہتے ہیں "(14)
اگر انسانی تاریخ میں انسانوں کی ہجرت کا مطالعہ کیا جائے تو ، تو جنگل اس ہجرت میں انسانوں کے ساتھی بن کر ساتھ دیتے رہے ہیں ، بلکہ جب کبھی کسی برگزیدہ ہستی نے اللہ کے حکم سے کسی ویرانے میں ڈیرہ ڈالا ، تو کسی درخت کے نیچے ٹھکانہ پکڑا ،،، اور لوگ نیکی اور سکون کی تلاش میں آتے چلے گئے ،، اور کارواں بنتا چلا گیا والا حساب ہونے لگتا ۔
راجہ سدھارتھ جِسے لوگوں نے مہاتما بدھ کا خطاب دے دیا ،600 سال قبلِ مسیح پیدا ہوا ،،، شاہی خاندان کا پروردہ ، نیپال جیسے سر سبز لیکن ایک چھوٹے سے ملک کا مالک ، اصل خوشی ،، آگاہی اور اول و آخر کی تلاش میں دنیا تیاگ دی ۔ تو کسی ویرانے میں وہ خوش قسمت درخت انجیر کا تھا جس کے نیچے بیٹھا،، جس کی چھاؤں نے اور محبت بھری شعاعوں نے راجہ سدھارتھ کو مہاتما بُدھ بنا دیا ۔۔ کہ " صفائے باطن اور محبتِ خَلق " ہی زندگی کا محاصل سمجھا دیا گیا ۔ اُسی کی تعلیمات کو لے کر اس کے شاگرد دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے اور ،، ایک زمانہ گزرا کہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب بُدھ قرار پایا ،، اس کے ماننے والوں میں ان کی نمایاں صفت " عاجزی" سمجھی جاتی ہے ، جسے مختلف خطہء ارض کے انسانوں نے اپنے اپنے انداز میں جذب کیا ،،،
"مہاتما بُدھ"کی تعلیمات سے متاثر ایک (hwanung ) ہیوانگ نام کا شخص کوریا کی سر زمین پہنچا اور کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک غیر آباد جگہ "صندل " کے درخت کے نیچے بسیرا کیا ۔ اور وہیں ایک عبادت گاہ بنائی ،،، اور جب کچھ مزید لوگ وہیں آ کر آباد ہونے لگے تو اُس نے اس نئے شہر کو
"سنسی "SINSI" کا نام دیا یعنی " خدا کا شہر " ،،، گویا ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنے تصور کو درخت سے جوڑے رکھا ،،، اور اپنے جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا جلوہ ،،، سر سبز درخت کی صورت میں دکھایا جو ایک شعلہ نما روشنی میں ڈوبا ہوا تھا ۔ آہ میرا رب کتنا حیران کن ہے کہ کہیں نہیں سما سکتا ، سوائے مومن کے دل میں ۔۔ وہ خود جمال ہے تو اس نے جمیل چیزوں سے اپنے بندوں کے لئے کائنات کو حسین ترین چیزوں سے سجا دیا ،،، اور اس فہرست میں آسمان سورج چاند تارے تو ہیں ہی ،،، زمین کے تارے درخت بنا دئیے ،، جو دلوں اور مزاجوں کو ٹھنڈک سے مالا مال کرتے رہے اور کرتے چلے جا رہے ہیں ،،، سراپا محبت وہ خود ،، اور سراپا محبت اس کی کائنات ! تشکر ، تشکر ، تشکر !! اے کُن فیکون کے مالک !!
اسی لئے تو میں سمجھتی ہوں درخت شاہد ہوتے ہیں ،،، الہام کے ، الہامی لمحات کے ،،، ہر خیر و شَر کی مجالس کے جو ان کے نیچے منعقد کی جاتی ہیں ۔ ، ہر عہد اور بد عہدی کے ۔۔۔ اور جب وہ سُن سکتے ہیں ، تو کبھی خالق نے زبان دے ڈالی تو بول بھی پڑیں گے ۔ ۔ پھر رازوں اور گواہیوں کا وہ دروازہ کھل سکتا ہے ،،، جو قیامت سے پہلے قیامت برپا ہونے کا سماں ہو سکتا ہے ۔ لیکن کائنات کی سب سے ذہین ترین مخلوق" انسان " سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی ،،، سمجھنا نہیں چاہتا ۔ کہ اپنی ذلت کے سامان کا ابھی سے کچھ احوال درست کر لوں ۔

( منیرہ قریشی 9 اپریل 2024ء واہ کینٹ) 

اتوار، 7 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں"( رپور تاژ13 )

" جنگل کچھ کہتے ہیں"( رپور تاژ13)
" انسانی فطرت کو خالق نے اپنی فطرت کے رنگ دے کر بھیجا ہے ۔ لیکن جب یہ بتا دیا گیا ،، کہ منفی طاقتوں کا بھی سامنا کرنا ہے ۔ اب یہ اور بات کہ تم دنیا میں منفی طاقتوں کو پانچ فیصد دیکھو گے ، لیکن کامیابی کی سطح ان طاقتوں کی زیادہ ، جبکہ مثبت سوچ والے پچانوے فیصد ہو کر بھی بے بسی ، یا کم علمی کی دلدل میں پھنسے ہوں گے ،،،"
یہ سارے اندازے ایک ادبی محفل کے ایک ذہین شخص کی طرف سے تھے ۔ اور ،، میں ذہنی طور پر اُس جگہ پہنچ چکی تھی ۔۔۔ جہاں منفی طاقتوں کا شکار بے بس و مظلوم بے گناہ روحیں صرف ایک ہی پکار کر رہی ہیں ،، " انصاف دو ، انصاف چاہیے انصاف ! ہماری روحوں کو کب سکون ملے گا ؟؟
،،ریمز بوٹم ،( Rams Bottom)پہاڑی ( ایک برطانوی قصبہ )کی چوٹی پر ایک اونچا ٹاور بنا ہوا ہے۔ اور اُس چوٹی سے لے کر میل بھر کے دائرے میں کوئی درخت نہ تھا ،، البتہ زمین کے قریب آتے آتے درختوں کا گھنّا دائرہ تھا ،،، جس کے بعد ہی زمینی سطح تک اِکا دُکا خوبصورت گھر تھے ۔ بتایا گیا ، کہ یہ وہ ٹاور ہے جہاں ،، اُن خواتین و حضرات کو جادوگری کے الزام کے بعد زندہ جلایا جاتا تھا ،، جن پر یہ الزام ثابت ہو جاتا تھا ،،، اور اوپر کے سبھی درخت کاٹ دئیے گئے ، تاکہ دور نیچے کھڑے لوگ یہ کربناک ، دل دوز سزا دیکھیں ۔ اور آج کئی عشروں کے بعد بھی اس چوٹی پر کوئی گھاس تک نہیں اُگتی ،،، جانے کیوں !!
پہاڑی کے گھیراؤ کے گھنے درخت ہمارے گروپ کو دیکھ کر ٹھٹھک سے گئے ۔ اُن دیہاتی خواتین کی طرح ، جو شہری خواتین کو دیکھ کر ایک دوسرے کے پیچھے چھپتی ہیں ،، کچھ منٹوں کے بعد وہ مطمئن ہو گئے تو اس کے بعد جیسے سبھی درختوں نے بیک وقت بولنا شروع کر دیا ۔
" تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو ؟ جلدی چلی جاؤ یہاں سے ،،، تمہیں بتایا نہیں گیا ، یہ پہاڑی آسیب زدہ ہے ۔ اس پر بنے مینار کو دیکھا ہے ، جہاں بےگناہ عورتوں سے ذاتی دشمنیاں نکالی جاتیں تاکہ انھیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے ، جھوٹی گواہیاں اکٹھی کی جاتیں ۔ اور انہی میں کوئی جوان اور کچھ عمر رسیدہ عورتوں کو جس دن جلایا جاتا تو ہمارے اِس ذخیرے سے پرے لوگ یوں کھڑے ہو جاتے جیسے دلچسپ سٹیج ڈرامہ دکھایا جائے گا ،،، آہ ! انسان انسانیت کے درجے سے کتنا گِر جاتے تھے ،، سزا دینے والے بھی اور دیکھنے والے بھی ،،،اِن دلخراش مناظرکے کرب کو اگر کوئی محسوس کر رہا ہوتا تو یہی ہم درخت ہوتے ،،، آہ ہمارے سینے چھلنی ہو جاتے ،، بےگناہوں کی چیخوں سے زمین کانپ رہی ہوتی ،،،اور ہم لرز رہے ہوتے تھے ۔۔۔ مزید گناہ یہ کہ کئی دفعہ ان بےگناہوں کے بچوں کو بھی جلایا جاتا !! چلو سزا دینی تھی تو ، یکدم گلوٹین کر دیتے ، یا پھانسی چڑھا دیتے ،، ایسے تڑپا ترُپا کر مارنا ؟؟؟ اور پھر لوگوں کے سامنے ان انسانوں کا تماشا لگایا جانا ،، جن پر لگے الزام مکمل سچائی پر مبنی بھی نہ ہوتے،،، یہ سب وہ نا انصافیاں تھیں کہ آج تک سرِ شام ، اُن سب بےگناہ روحوں کی چیخوں سے یہ علاقہ بین کرنے لگتا ہے ،، وہ روحیں ، آج بھی انصاف مانگتی ہیں ۔ وہ اپنا بدلہ لینے کے لئے چیختی چِلاتی چوٹی سے اترتی ہیں تو ہماری شاخیں انھیں اپنی باہنوں میں سمیٹ لیتی ہیں ، تسلی دیتی ہیں ،، وہ اُن ظالم انسانوں کی نسلوں سے انتقام لینا چاہتی ہیں ، پہاڑی کے دامن میں رہائش پذیرچاہے کسی بھی خاندان سے ہوں ،،، ہم انھیں ،، اپنے سر سبز پؔروں کی چھاؤں تلے گلے لگا لیتے ہیں ۔ اُن کی سسکیاں ، اُن کا دکھ ، از سرِ نو روز سنتے ہیں !! جانے 700 سال سے یا 900 سال سے ؟ لیکن اُن پر لگے جھوٹے الزام ،، اور اگر یہ الزام ایک فیصد بھی درست تھے تب بھی کسی کو یہ حق نہیں تھا کہ اتنی ایذا رسانی دی جائے "۔
بوڑھے بزرگ درخت جس کی شاخیں اب مزید جڑوں کے ساتھ زمین میں پیوست تھیں ، اس نے پہلی دفعہ ہمیں اہمیت دی " کتنی عجیب بات ہے کہ جرمنی ، برطانیہ ، بیلجیئم ، اور فرانس اور چند دوسرے ممالک میں جادو گری کے الزام میں جلائے جانے والوں میں 86 فیصد عورتیں تھیں ۔۔ اور بہ مشکل 14 فی صد مرد ۔۔۔؟ حیرت صد حیرت ! مرد ہی منصف ہوتے اور اپنی صنف کو بچا لے جاتے ،،، اور عورت، جو جسمانی طور پر کمزور ، بچوں اور خاندان کی محبت میں غرق ،،، قابلِ گردن زدنی ؟؟ حالانکہ خالق کائنات نے تو عورت اور مرد کو ذہنی فہم و فراست دینے میں کوئی کمی تو نہیں کی ۔ عورت رشوت خور ، فرعون صفت مردار گِدھوں کے سامنے چارہ بننے کو تیار نہ ہوتی تو اسے جادو گرنی قرار دے کر عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ۔ اُنہی روحوں کی بےگناہی اور منصفوں کی نا انصافیوں کے سبب اس پہاڑی پر سبزے نے اُگنے سے انکار کر دیا ۔ اب ہم ہی اُن آگ میں تپتی روحوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں ۔"
بہت جرات کر کے پہاڑی کی چوٹی پر بنے مینار کی طرف چند قدم بڑھائے لیکن ، مینار کے در و دیوار نے اپنی پیشانی سے پشیمانی اور دکھ کے قطرے آنسوؤں کی صورت گرائے ، اور ہمارے قدم رُک گئے ۔
جہاں دیدہ بزرگ درخت نے کہا " دیکھا ، کہا تھا نا ،، اُس طرف نہ جانا ،، جہاں بے انصافی کے قتل ہوئے ہوں ، وہاں کا ذرہ ذرہ ، اُس نا انصافی کا گواہ بن جاتا ہے ،، اور ایسی جگہ انسانوں کو خوش آمدید نہیں کہا جاسکتا "
واپسی کے سفر میں سبھی خاموش تھے ۔۔ اُن سینکڑوں سال پہلے کئے گئے ظالمانہ قتل کے برعکس ،، آج کے دور کی عورت کی آسودگی محسوس ہی نہیں ہو رہی تھی ،، بزرگ درخت کی بات دل میں کھُب گئی تھی ، قربانی اور ناجائز الزمات لگا کر عورت ہی کو نشانہ بنایا جاتا رہا ۔کیوں ؟؟ کبھی "اِنکا تہذیب" میں عورت کو سنوار کر مدہوشی میں زندہ ہی کسی غار میں دفن کر دیا جانا ،،، کبھی دریائے نیل کو خوش کرنے کے لئے "عورت " کو پیش کیا جاتا رہا۔ حتٰی کہ یونانی خود کو بہت ترقی یافتہ تہذیب گردانتے تھے ۔ لیکن کسی جگہ اگر قربانی دینی ہے تو 'عورت ' اور پھر یہ کوشش بھی کہ وہ جوان ہو اورخوبصورت بھی !!۔۔اور وہ اپنی گلابی جوانی کے سنہرے دنوں سمیت اگلی دنیا میں میں داخل ہو جاتی ۔ اور ہمیشہ کے لئے انصاف کی منتظر ، یومِ محشر کا انتظار کرتی رہتی ،
ایسی جگہوں سے آکر ،،دل کی اداسی تو بجا ہی ہے ،،، لیکن آج کی دنیا کی چکا چوند، روشن قمقموں ، اور نیون سائن سے سجے بڑے بڑے بِل بورڈ ،،، چڑیوں کی طرح چہکتی آزاد خواتین کو دیکھ کر اِک گونا اطمینان ہوا ،، کم از کم آج صورتِ حال بدل چکی ہے ۔ یہ اور بات کہ دماغ نے فوری سوال کیا ،،
اچھا !! کیسے ؟ دیکھا جائے تو عورت کل سب کے سامنے الزام لگا کر سزاوار تھی ،،، آج اندرون گھر ،، سنگ باری کی جاتی ہے ۔ گویا بباطن روز مرتی اور روز جیتی ہے ۔۔ دنیا میں اس سنگ باری کا تناسب آج بھی وہی کہ عورت 86 فیصد اور مرد 14 فی صد کی ٹرافی سنبھالے بیٹھا ہے ۔
(منیرہ قریشی 8 اپریل 2024ء واہ کینٹ )

ریمز بوٹم کی پہاڑی اور اس پر بنا مینار۔ اور اس کے دامن کے درخت ۔۔۔جو انسانوں کی انسانیت سوزی کا گواہ ہے۔


 

جمعہ، 5 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ ۔12)


" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ ۔12)
سینکڑوں برس بوڑھے ملائیشین درختوں نے چپکے سے کہا ،،،
" تمہاری سراہتی نظروں کا شکریہ ، لیکن اب ہم کسی تعریف ، توصیف ، یا تبصرے سے ماوراء ہو چکے ہیں ۔ ہمیں سراہنے والوں کا بھی شکریہ ،، اور نظر انداز کرنے والوں کا بھی شکریہ ،،،، کیوں کہ وقت وہ بُردباری دے جاتا ہے کی نفرت اور محبت کے رویوں کے اثرات ,لینا دینا بے معنی ہو جاتے ہیں ۔ شاید فنا فی اللہ کی منزل کے قُرب کا ادراک ہو جاتا ہے ،،، یہ احساس کتنا لطیف کئے دیتا ہے ، تم کیا جانو ، تم کیا جانو !!!!"
تبھی مجھے انہی کے خدوخال ، خوب گھنے سائے دار ، خوب موٹے تنوں کے عمر رسیدہ درختوں کا بہت چھوٹا سا خاندان یاد آگیا ،،، جو سوات ریسٹ ہاؤس کے عقبی اور اس کے شمالی جانب پھیلا ہوا تھا ۔ سوات کے دل نشیں نظاروں نے طبیعت میں کمال نغمگی سی بھر دی تھی ،، ریسٹ ہاؤس میں کچھ دیر ٹھہرنے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ لیکن اس قیام نے طبیعت کی بشاشت کو یکدم معدوم کر دیا ۔ اور چند گھنٹے میں اُس کے کمروں نے تاریخ
کے چند اہم صفحات کو جلدی جلدی پڑھ ڈالا ۔۔۔ کسی دوسرے گروپ ساتھی کو کیا بتاتی ،، یہ کیا سُن رہی ہوں ۔۔ دل کی اس کیفیت کو بہلانے کے لئے ،، اسکے عقبی لان کی طرف نکل گئی ،،، جہاں وہی عمر رسیدہ خاندان تفکر اور گیان میں ڈوبا کھڑا تھا جو مجھے اپنی طرف متوجہ کر ہی لیتا ہے ۔ اپنی حساسیت کے سبب فوری، معلوم ہوگیا ،اداسی کا یہاں گھنّا بسیرا ہے ۔۔۔ لیکن اب آنا ہوا تو ٹھہرنا ضروری تھا ۔ تب اُن کے "گُرو " نے خوبصورت غلافی آنکھیں چَھپکیں !! " یہاں کیوں آئیں ،؟ ہماری اداسی کا تخمینہ لگانے ؟؟ ہمارے ٹھنڈے ، میٹھے سائیوں تلے ،،، تمہارے بد مست بھینسوں جیسے ناپاک لوگوں نے ، اپنے ضمیر یہیں دریائے سوات میں ڈبو دئیے تھے ۔ اور وطن کے پاک لوگوں کی تقدیر خریدنے، بیچنے کے سودے کے بعد ،،، پاک لوگوں میں جا کر معزز بن بیٹھے ،، تمہیں کیوں یاد نہیں رہتا کہ تمہیں بار بار ڈستے لوگ ،،، ایسی پُر بہار جنتوں میں آکر شیطانی کھیل کھیلتے ہیں ،،، اور ہم یہ گھناؤنا کھیل دیکھتے ہیں ،،، اور ہم ہی ان کے جرائم کے گواہ بھی ہیں ۔ ہم درخت ساکت و ساکن سہی ،، لیکن ہمارا پتہّ پتہّ اس کے سائے تلے ہونے والے مکالموں اور معاہدوں کی تصویر کشی کر رہا ہوتا ہے ، ریکارڈ جمع ہو رہا ہوتا ہے،، یہ سارے بوجھ ہم اپنے سینوں پر لادے کس کرب سے گزرتے ہیں ،،، تم کیا جانو ، تم کیا جانو !!!""
اگر انسان لمحے بھر کو بھی سوچتا ۔۔ کہ یہ جو میں غلاظت بھرا کردار کر رہا ہوں ،،،تو کتنے عرصے کے لئے ؟؟ دائمی زندگی میں کیا پیش کرو گے ، ان کرتوتوں کا کیا جواز دو گے ؟؟؟
جب بھی دل اکلاپے کا شکار ہونے لگتا ، فینس کے باہر کا "چھدرا جنگل" پناہ گاہ کا احساس دیتا ،، کچھ باتیں کچھ یادیں بانٹیں جاتیں ۔ اور جیسے ہم دو ہم نوا ،،، شانت ہو جاتے ۔
سوات کے عمر رسیدہ درخت کی یاد نے اور اس کی باتوں نے دل پر عجب بوجھ ڈال دیا تھا ،،، اس کے برعکس انسانی تاریخ نے تو کسی خطے کو آباد کرنے کا جب بھی سوچا تو مثبت سوچا ! اس کے پیشِ نظر یہ تین اہم عوامل مدِ نظر رہے ۔، تاکہ وہ اس کی زندگی ، بندگی ، نغمگی ، سے معمور طعام و قیامِ دنیا کے لئے آسانی فراہم کرتا رہے ۔
اول ، پانی کا کنارہ ہو
دوم، درختوں کی آبیاری بہ آسانی ہو سکے
سوم ، کسی برگزیدہ ہستی کا قیام ہو ، یا ، ہو چکا ہو
اور یہاں سوات کے یہ سر سبز درخت تھے ہی دریائے سوات کے نیلے اور سبز پانی کنارے ۔۔۔ انسانی آبادی کے لئے عین جنت ، ارد گرد پھلوں کے درختوں نے اپنا کام الگ دیانت داری سے سنبھال رکھا تھا ،، اور ہے ! مگر
؎ دل و نظر بھی اِسی آب و گُل کے ہیں اعجاز
نہیں ، تو حضرتِ انساں کی انتہا کیا ہے ؟ (علامہ اقبال ر ح )
( منیرہ قریشی ، 6 اپریل 2024ء واہ کینٹ )

سلطان صلاح الدین عبدالعزیز شاہ مسجد۔( شاہ عالم ملائیشیا ) 


جمعرات، 4 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔ 11)






" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔ 11)
کافی دن گزر چکے تھے ، کہ فینس کے جنگل سے ملنا ملانا ہی نہ ہو سکا ۔ لندن کے شاپنگ مال کے چھت کے درختوں کی اداسی بار بار مغموم کر رہی تھی ،، یہی غم بانٹنے کے لئے آج فینس کے باہر ، اُگے اس آزاد فضا کے لہلہاتے درختوں سے السلامُ علیکم کہا " تو وہ جیسے کھِل اُٹھے ۔۔ اُن کی مسکراتی آنکھوں نے واضح پیغام دیا ،،، " کیوں بھئی کہاں ؟ ،،، اتنا تو پتہ تھا یہیں کہیں سیر ہو رہی ہے ،،، لیکن یہ چند دن کی غیر حاضری ہمیں اچھی نہیں لگی !! " ان کا مجھے اتنی اہمیت دینا بہت اچھا لگا ۔۔۔وہ گاؤں کے سادہ اور خالص لوگوں کی طرح کے جذبات کا اظہار کرتا جنگل تھا ۔۔ کیوں کہ اسے کسی مصنوعی پن سے سابقہ نہیں پڑا تھا ۔ اور جب میں نے اسے بتایا کہ چھت پر اُگائے گئے درختوں کی جڑیں ، کتنے آپریشنز کے بعد چھوٹی قد میں رہنے کے قابل بنا دی جاتی ہیں ۔۔یہ سُن کر اِن سب چھوٹے بڑے درختوں نے جھرجُھری لی ،، اپنے اوپر اٹکے شبنم کے قطروں سے مجھے بھگو دیا ۔ " ہاں ہم ، اُن کے غم کو محسوس کر سکتے ہیں " ،،، یہ کہہ کر جنگل یکدم خاموش ہو گیا ،، جیسے اشارہ دے دیا ، کہ اب تم جاؤ ہم آپس میں اُن درختوں کے غم بانٹیں گے ۔
میرے لئے بھی اُن پابندِ سلاسل درختوں کو بھولنا ممکن نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔ شام کے نیم اندھیرے میں پچھلے برآمدے میں تا دیر بیٹھی اِس مخلص جنگل کو دیکھتی رہی جو اپنے ہم نفسوں کے غم میں ابھی تک خاموش تھا ۔،،، آج لومڑیوں کا کچھ کھانا فینس کے اندر لان میں ہی رکھ دیاتھا ، کہ یکدم لان کی کچھ جھاڑیوں مٰیں حرکت محسوس ہوئی اور واقعی ایک خوب گُچھے دار دُم والی لومڑی نہایت محتاط انداز سے کھانے کی طرف آئی ، اور وہیں کھڑے کھڑے کھانے لگی ۔۔۔ فطرت کے ساتھ جنگلی حیات کی موجودگی کس قدر پُر سکون نظارہ ہوتا ہے ،، کہ اُس دن کی اداسی جیسے ہَوا ہو گئی ۔ ۔ یوں لگا جیسے لان سے باہر اُگے ان درختوں نے مجھے خوش کرنے کے لئے اِس لومڑی کے حساس نتھنوں تک کھانے کی خوشبو پہنچانے کی ہوا کے کسی جھونکے کو درخواست کی ہو گی ،،، اور یوں سامنے کے منظر نے میرے مضمحل اعصاب کو پُرسکون کر دیا ۔
جانے لوگ درختوں کی زبان اور رویے کو سمجھنا کیوں اتنا مشکل سمجھتے ہیں ! ۔ جب کہ انہی کی صحبت انسان کو بہت سے تفکرات سے دور کر دیتی ہے ۔
ملائیشیا کی سلطان صلاح الدین عبدالعزیز شاہ مسجد ،، اُس چاشت کے وقت بالکل اکیلی تھی ۔ ،، حالانکہ یہ کوالالمپور کی ابڑی مساجد میں سے ہے ۔ خیال تھا کہ اندر کچھ نا کچھ تو بِھیڑ ہو گی ۔ لیکن دو " مَلے جوڑوں" کے علاوہ کوئی نہ تھا ،،، خاموش مسجد کی ایک الگ ہی شان ہوتی ہے ۔ اور اُس دن اس ملائیشین مسجد کے پُر سکون لمحات نے بہت متاثر کیا ،، دو نفل ادا کئے ،، اور پھر اس کے اندرونی دالانوں ، مردانہ اور زنانہ حصوں میں گھومتے ہوئے ،، اس کے درو دیوار کے گہرے نیلے ، ہلکے نیلے اور فیروزی رنگ کے ساتھ کہیں کہیں سیاہ اور سفید لائنوں کے دل نشیں امتزاج کو دل کی آنکھوں سے ستائش بھری نظروں سے دیکھتے دیکھتے ،،، اس کے پچھلے لان میں پہنچ گئی ، برآمدے سے اترتے ہی گہری خاموشی نے گھیر لیا ،،، آہ !! یہی گہری خاموشی اُس وقت فوراً محسوس ہو جاتی ہے جب آپ کسی با رعب ، بُرد بار ،، ہستی کے سامنے پہنچ جائیں ۔۔ اور یہاں فاصلے سے قدرِ دور دور وہ درخت کھڑے تھے ،، جن کے بھاری ، خوب گھیرے دار تنوں نے سبز خلعت پہن رکھی تھی ۔ وہ بلند و بالا اور خوب گھنیرے بھی تھے ۔ وہ کئی سو سال کے عمر رسیدہ درخت تھے ، جن کا مختصر خاندان کچھ کم اور کچھ زیادہ گھیر کے تنوں کے ساتھ خاموشی ، تمکنت اور تفکر میں ڈوبا کھڑا تھا ۔ میرا دل اُن کے احترام ، اور عقیدت سے سرشار سا ہو گیا ۔ ہاں میں جانتی ہوں ،،، انھوں نے شاہوں کے جلال کو دیکھا ، اور تاریخ کے کئی صفحات کو اپنے تنّوں پر رقم کر ڈالا ہے ۔ یہ تحریر انسانی انگلیوں کے پَوروں کے دائروں کی طرح خاص طرزِ تحریر ہے ۔۔ شاید اسی لئے سبز پتّوں کی خلعت اوڑھ لی تھی تاکہ تاریخ محفوظ ہو جائے ۔ آہ ،،، پیارے درختو ! تم جہاں کے بھی ہو تمہارا شکریہ ،، کہ انسان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا ، کبھی اسے ٹہنیوں میں چھُپا ،، کبھی تنّے شق ہو گئے ، اور ان میں برگزیدہ ہستیوں کو چھُپا لیا ،،، کبھی پھل دیے تو کبھی پھول ،، اور سایہ تو بہر طور چند ٹہنیوں سے بھی آراستہ کر ڈالا ۔۔ کہ انسان کا جنم جنم کا ساتھ ، پانی ، مٹی ، اور پھر درخت کا رہا ۔۔۔ !! کیسا دلی رشتہ ہے کہ جہاں بھی تم ہوتے ہو ،،، دل کا سکون ، آس پاس ہی رہتا ہے ۔ اور کیسی عجیب بات کہ جہاں اللہ نے اپنی جنت کا ذکر کیا وہیں ان کے درختوں کا بھی ذکر کیا ،، وہی درخت یا پودا جس کے پھل کو کھانے سے منع کیا ،،، وہی درخت جن کے پتّوں سے کائنات کے پہلے دو انسانوں نے خود کو ڈھانپا ،،، وہی درخت جس کے سائے تلے مچھلی والے کے درد کا درماں کیا گیا ،،، درخت ، پتےّ ، ٹہنیاں ،،، اور انہی سے فائدے اٹھاتی انسانی اور حیوانی حیات!! تو ہم کیوں نا ان کی سرگوشیاں سنیں ؟ !!

( منیرہ قریشی ، 5 اپریل 2024ء واہ کینٹ )