جمعہ، 31 مئی، 2019

"اِک پَرِ خیال(31) "

" اِک پَرِ خیال "
" پو ٹلی "
اپنے بچپن کا زمانہ یاد آتا ہے تو جہاں اور طرز کی سادگی اور معصومیت تھی ،،، وہاں نماز سے متعلق خیالات اور اعمال کا حساب بھی لاجواب تھا ۔ ہماری والدہ بہت بیمار رہا کرتی تھیں ، اور والد آرمی میں انٹیلیجنس میں ہونے کا باعث ہمیں کم ہی گھر پر نظر آتے تھے ،، نتیجتہ" ہماری مذہبی تربیت میں بہت نرمی برتی گئی ،( کہ امی دین پر سختی کی قائل نہیں تھیں ) ہمارے محلے میں موجود بھوپال سے ہجرت کر کے آنے والی فیملی ،،، جن کی دو بیٹیوں سے جو ہماری ہم عمر تھیں ،، کے ساتھ ہماری خوب دوستی ہو گئی تھی ،،، ان کے گھر میں نماز کی پابندیکی عادت سے ہم بہت متاثر ہوئیں ،، اور یوں اُن کی دیکھا دیکھی ،اچھی بات پر، اچھے مقابلے کی فضا بن گئی ، ( تو ہماری نماز میں پابندی کا کریڈٹ بہرحال اُن کو بھی جاتا ہے ) ،، جب وہ ہمیں بتاتیں آج بھی ہم نے پانچ نمازیں ادا کیں ۔ کیوں کہ اگر ہم ایک بھی نماز قضا کریں گی تو ہمیں دوپہر کا کھانا نہیں ملے گا ۔،، تو ہم دونوں بہنیں ، ذرا شرمندہ ہو جاتیں ،، حالانکہ اس وقت ہماری عمر 8/9 سال رہی ہو گی ۔،، جب کہ ہم دونوں یا تو ایک یا دو نمازوں کا " اعمال نامہ" لے کر بیٹھی ہوتیں۔ اور جب ماہ رمضان آتا ، تو اُن کے گھر رات کے نوافل کا اہتمام ہوتا ،، جبکہ ہم تو عشاء کا پڑھ لینا ، بہت معرکہ سمجھتیں ،، کچھ اور شعور بیدار ہوا تو ، صرف ستائیسویں کی رات کا رت جگا بہرحال پورے زور و شور سے ہمارے گھر منایا جاتا،، اور یہ ساری رات جاگنے کا فیصلہ پہلے تو کئی سال ہم دونوں بہنیں اہتمام کرتی رہیں لیکن گھنٹے ڈیڑھ میں ہم تھک جاتیں ، جوں سوتیں تو صبح کی نماز سے کچھ پہلے اُتھائی جاتیں ، جلدی جلدی سحری کھائی ۔ اور اگلے دن سہیلیاں جب بتاتیں ہم نے اتنے نفل پڑھے تو رشک آتا ،،اب جب اگلا سال آیا تو مل کر عبادت کا فیصلہ کیا تو ہماری امی کا واضع اعلان کیا گیا کہ ،، جو پڑھنا ہے ہمارے گھر میں ہی پڑھنا ہو گا ، چاہے دس سہیلیاں بُلا لو " ،، ہمیں کہیں جانے کی اجازت نہیں تھی ۔اور دوسری طرف اُن دونوں بہنوں کو بھی جو ہماری ہم عمر تھیں ، کو بھی رات کے لیۓکوئی اجازت نہ ہوتی ( گھر آمنے سامنے تھے )صرف ایک رمضان کی ستائیسویں یاد ہے جبانھیں ہمارے گھرستائیسویں کی عبادت کی اجازت ملی ،، لیکن وہ رات ایسی گزری کہ کبھی کوئی شرارت کر دیتی ، کبھی کوئی اور یوں ہنسی کا دورانیہ ذیادہ اور عبادت کا کم رہا ۔
لیکن اگلی تمام شبِ قدر ، ہمیشہ اپنے اپنے گھروں میں رت جگے ہوتے رہۓ ،، البتہ یہ بھول نہ جاۓ کہ کس نے کتنے نفل پڑھ لیۓ ہیں ،،،ہم سب کے الگ الگ ایک پرچہ اور پنسل ساتھ ہوتی ، اور جوں ہی دو نفل پورے ہوۓ ، فورا" نمبر لکھے جاتے ، اور ساتھ ٹِک مارک لگایا جاتا ، کوشش ہوتی ہر صورت 100 نفل ہو جائیں ،، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شُد ،، والا حساب رہا ذیادہ تر 60 /50 اور کبھی کبھی 60/70 کا فِگر لکھا جاتا اور یہ سب فعل نہایت ایمانداری سے انجام دیا جاتا ۔ اس میں یہ احساس نہیں تھا کہ اللہ پاک دیکھ رہا ہے ، بلکہ یہ احساس غالب ہوتا کہ ہم کہیں کم گنتی نہ لکھ دیں ۔۔ بغیر کسی جذبے کے ٹھکا ٹھک نفل پڑھے جاتے ،، حتیٰ کہ درمیان میں تسبیح پڑھی جاتی کچھ وقفہ ملتا لیکن کم عمری میں بھی یہ عبادت "گٹے گوڈۓ " دکھ جاتے۔ کہ اتنے میں صبح سحری کے لیۓ ،،،کلثوم ( ثومو) بلانے آجاتی ،، والدہ تو کبھی کبھار جاگتی تھیں ، لیکن دونوں ملازمائیں اور ایک اردلی ضرور موجود ہوتے ، اگر والد گھر پر ہوتے تو ان کے ساتھ سحری کھائی جاتی ، بہ مشکل فجر پڑھی جاتی ،،کہ آنکھیں نیند اور تھکاوٹ سے بند ہو ،ہو جاتیں ، اور 60 یا 70 نوافل کا پرچہ کافی شرمندگی سے تکیۓ کے نیچے رکھ لیا جاتا ،، کیوں کہ ہمیں یقین ہوتا ، کہ ہماری سہیلیوں نے 100 نفل پورے کیۓ ہوں گے ۔۔۔ کتنے جلدی جلدی ،، سخت یخ ٹھنڈی راتوں میں یہ نفل صرف دو وجوہات کی بناء پر پڑھے جاتے ،،، (1) دوسری سہیلیاں جاگتی ہیں ہم کیوں پیچھے رہیں ،، (2) اور ہو سکتا ہے ہمیں رات شبِ قدر کی مل جاۓ ، ہم بھی روشنی کا جھماکا دیکھنے والوں میں شامل ہو جائیں ، یہ پتہ ہی نہیں کیسی روشنی ؟ کتنی دیر کیَ ؟؟ کیا دعا پڑھتے ہیں ؟ وغیرہ ،،، مجھے آج بھی یاد نہیں کہ ہم نے کسی قسم کی مکمل یکسوئی سے یہ سجدے کیۓ ہوں ،،، بس یہ سجدے " شوق اور ذوق " کے تھے ، کہ اللہ آج کی رات کی عبادت سے خوش ہوتا ہے ، اور ،، یہ کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے " اس رات کو طاق راتوں میں تلاش کرو ،"، ،، اب ہماری اس وقت کی نالج یہ ہی تھی کہ ستائیسوی ہی وہ رات ہو سکتی ہے !باشعور ہونے ، عبادت اور سجدوں کی اہمیت اور تفصیل جاننے میں وقت لگا ، اور پھر ان سجدوں میں " مِٹھاس " آنے اور لُطف محسوس ہونے میں تو " یوں لگا صدیاں لگی ہیں " ،،،،،،! مدتوں سے کسی شبِ قدر یا کسی بھی رات میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوئی ، نہ خواہش رہی ،شایددل میں یہ بات جا گزیں ہو گئی " میں کیا اور میری اوقات کیا "،،، یہ ہی کچھ کم اعزاز ہے کہ صحت ہے اور سجدوں کی فِکر !! وہ رب قبول کرلے ،،اب ، کبھی کبھی یوں لگتاہے جب یومِ محشر ہو گا ، حاضری کے وقت اعمال نامہ کی دفعاتسنائی جا رہی ہوں گی اور جرائم کی لمبی لسٹ بھی ۔ کہ آواز آۓ گی یہ ہاتھ میں سبز رنگ کی " پوٹلی " کو لے کر کھولا جاۓ ۔ اور جب کھولا جاۓ گا ، تو اِس میں سے چند راتوں کے" خیرہ لمحے " میرے رب کی رحمت،،،، کو جوش دلا دیں گے ، وہی معصوم ،،بے لوث ،،بے غرض سجدوں کی راتیں ،،، قابلِ قبول ہو جائیں ،،، شبِ قدر کی وصولی اسی وقت ہو جاۓ گی ،،، میرا اللہ ستار العیوب ، غفار العیوب ہے !!۔
( منیرہ قریشی 31 مئی 2019ء واہ کینٹ )

جمعہ، 17 مئی، 2019

بےچاری لڑکیاں


۔( مقبول ملک کا نہایت معلوماتی اور دلچسپ کالم " پنجابی " پر اپنی ایک نظم یاد آگئی جو یہاں دوبارہ شیئر کر رہی ہوں ،، جو بالکل "عام نظم "ہے لیکن اس کا مرکزی خیال ، 1800 سال پہلے کے ایک فرا نسیسی شاعر سے اس قدر مماثل تھا کہ حیرت کا ایک سوالیہ نشان رہ گیا ، اس لیۓ کہ میری اس وقت عمر محض 20/21 سال تھی اور میرا مطالعہ بہت ہی محدود تھا ، خاص طور پر غیر ملکی ادب سے متعلق ، ایک مدت بعد فرانسیسی شاعر کی ترجمہ شدہ نظم نظر سے گزری ، تو حیرت اور،سر خوشی کی کیفیت مہینوں طاری رہی ۔ دراصل یو کلپٹس سدا بہار سا درخت ہے اسے کبھی ڈنڈ منڈ نہیں دیکھا گیا ،اور باقی ذیادہ تر درخت کچھ نا کچھ اس خزاں سے گزرتےہیں جو قدرت کی طرف سے مقرر ہوتی ہے )۔
" ایک نظم "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
میرے گھر کے آنگن کے گِردا گِرد
چند سفیدے کے درخت ہیں
اور انہی میں ایک یو کلپٹس بھی ہے
پت جڑ کا آخیر ہے
اور سفیدے کے درخت ننگے ہو چلے
یوکلپٹس کی جھکی سر سبز شاخیں
سفیدے کا ہر گرتا پتّا تکتی ہیں
جو اسے اُداسیاں بخش رہا ہے
ہر گِرتا پتّا ،،،،،،
بزبانِ خامشی کہتا چلا جاتا ہے
" فنا کی بھی انجانی لذّت سے
اگلی دنیا کی اسراریت سے
حُکمِ خداوندی کی سر شاری سے
صرف ہم واقف ہیں
صرف ہم ،،،، !
صرف ہم ،،،، ! "
( یہ نظم1974ءمیں لکھی گئی ، اور فرانسیسی شاعر کی نظم شاید 5/6 سال بعد پڑھنے کو ملی )
( منیرہ قریشی 17مئی 2019ء واہ کینٹ )