ہفتہ، 30 ستمبر، 2017

" یادوں کی تتلیاں " (22).

 یادوں کی تتلیاں " (22)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اماں جی کو اگر باقاعدہ تعلیمی ماحول ملتا، صحت ملتی اور وہ کسی کالج تک پہنچتیں تو، تو وہ بیک وقت سوشل ورکر، سائیکیٹریسٹ ، بیالوجی کی ماہر ، بہترین باورچن ،اور پتہ نہیں کیا کچھ ہوتیں ۔ ان کے ساتھ کی ہمارے خاندان کی خواتین سواۓ ایک آدھ کے ، اچھے ، کپڑے ، اچھے زیور ، چمکتے برتن اور فرش یا فرنیچر کو چمکانے کے دائروں میں گھوم رہی تھیں ، جب کہ اماں جی کو جب موقع ملا ، انہوں نےنئی بات یا چیز سیکھی ، چاہے وہ کسی ان پڑھ سے ہی سیکھتیں ، ،،، اب جب مرضی کا لان ملا تو نئے تجربے ہونے لگے ، سائیڈ لان چونکہ کافی بڑا تھا اس میں سے سرونٹ کواٹرز کی طرف کا چار ، پانچ مرلے ،ایریا کو سنتھے کی چھوٹی سی باڑ سے الگ کردیا گیا، اور اس ایریا پر " کپاس" لگائی گئی ، ظاہر ہے ہمارے یہاں سردی کی شدت سے اسے بچانا تھا اس سارے ایریا کو پولی تھین کے بڑے بڑے ٹکڑوں سے ڈھانپا گیا، اس دوران جب وہ وقت آیا کہ کپاس کے پھول نکل آۓ تو میں بتانہیں سکتی کہ کیا میلہ لگ گیا ،ہر جانا انجانا آرہا ہے جی کپاس کے پودے دیکھنے ہیں ، ابا جی ، اماں جی کا حکم تھا جو آۓ لان میں لے جاؤ اور دکھا دو! میرا ، "بے اعتمادی " کا یہ حال کہ اماں جی نے یہ تجربہ "کیوں "کیا کہ اب طرح طرح کے لوگ وقت بے وقت کپاس دیکھنے آرہے ہیں ، یہ بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہے وغیرہ ! اماں جی کو بہر حال کوئی ڈسٹرب نہ کرتا ! ،،، بہت بعد میں ہمیں کچھ بالکل انجان لوگ ملے ! اورجب انھیں پتہ چلتا کہ یہ اسی گھر میں رہتی تھیں ، تو وہ بہت ہی ستائشی اندازسے " کپاس " کا ذکر کرتے کہ یہ تجربہ واہ میں پہلی دفعہ کیا گیا اور ہم نے پہلی دفعہ یہ پودا دیکھا ۔،،،،، خیر کپاس کے پھول اتارے گئے اور تھیلے میں ڈال کر ایک اور گاؤں میں ، جن کے پاس " چرخہ" تھا ، کاتنے بھیجا گیا ، انھوں نے اطلاع دی " جی دھاگا بن گیا ہے ، اماں جی نے ایک چھوٹا اور ایک بڑا " دُھسہ" بنانے کا کہہ دیا ،،، جب وہ " براؤن رنگ " کے دُھسے آگۓ ،، تو ایک اور ستائشی سلسلہ چلا ، یہ ہم دونوں بہنوں کے لۓ کوئی " خاص " بات نہ تھی ،، جسے خصوصی اہمیت دی جاتی ، لیکن اماں جی ان دنوں اتنی خوش تھیں ، جتنا ایک طالب علم کو اپنے رزلٹ پر غیر معمولی کامیابی پر ہوتا ہے اور آج جب میں یہ واقعہ لکھ رہی ہوں تو سوچ رہی ہوں کہ ہمیں کتنی منفرد " ماں " ملی تھی ،میرے لیے ایک قابلِ فخر ، قابلِ ذکر بات ہے کہ اماں جی نے " ناممکن کو ممکن " کر دکھایا تھا ! وہ دُھسے آج بھی ہیں ، بڑا میرے بھائی جان کے پاس اور چھوٹا میرے بھانجے کے پاس ، ، !۔
۔1 ، کچنار کا گھر ، کارنر پر تھا ، اور آج بھی ہم پر " نوسٹلجیا " کا  فیز آتا ہے تو ذرا ادھر کا چکر لگا لیتی ہیں۔ اب اُس دور کے مکین ، خود ، نانی ، دادی بن چکے ہیں ، پہلے اپنے بچوں کو اوراب گرینڈ چلڈرن کو اس گھر کے باہر سے گزرواتی ہیں کہ ، یہ گھر ہمارے خوب صورت خوابوں سے بھرا ہوا ہے !،، وقت کچھ آگے ہوا اور 1965ء کی پاک ، بھارت جنگ کے دن آگۓ ، میں یہاں ایک دفعہ پھر ذکر کر دوں کہ ہمیں بچپن سے نماز کی پابندی کی عادت تھی ، اور ان دنوں میں جتنا ہو سکتا درودِ پاک ضرور پڑھتی ، 6 ستمبر سے ہفتہ بھر پہلے ۔،،،، " میں نے خواب دیکھا اسی کچنار روڈ کے گھر میں ہوں اور محسوس یہ ہو رہا ہے کہ گھر میں کوئی نہیں ، میں کچن سےباہر " کے برآمدے میں نکلتی ہوں کہ اچانک ایک سفید شلوار قمیض اور جناح کیپ میں ایک درمیانی قامت کی شخصیت ہمارے اندر کی کمروں سے تیزی سے نکلتی ہے اور پچھلے لان میں آکر اتنی اونچی آواز میں کہ جو آسانی سے سنائی دے رہی ہے ، کہتے ہیں " گیٹ کھلا ہوا ہے ، کوئی چوکیدار موجود نہیں ، اور دشمن پہنچا جاتا ہے " ،،، مجھے فورا" احساس ہو جاتا ہے یہ تو " حضورؑﷺ " ہیں ، میں مارے عقیدت کے ہاتھ سینے پر باندھ لیتی ہوں ، اور مسلسل کہتی جاتی ہوں ، " میں قُربان ، میں قُربان یا رسول اللہؑ ! " لیکن وہ مجھے نظرانداز کرتے ہوۓ ، دوسری دفعہ بھی یہ ہی جملہ دہراتے ہیں اور ، اس دوران آپﷺ بے چینی سے کبھی چند قدم ایک طرف کبھی دوسری طرف چلتے ہیں اور پھر یکدم سائیڈ لان کی طرف چلے جاتے ہیں، اور میری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ،،،،،،،،،،،،یہ میری زندگی کا پہلا ایسا خواب ہے جو میرے لیے کیا معنی رکھتا ہے ، اس کا اندازہ ہر اس بندے کو ہو سکتا ہے جسے پیارے نبی پاکﷺ سے عشق ہے !! اور جب چند دن بعد 6 ستمبر کی پاک بھارت جنگ ہوئی تو کیا یہ ایسی صورتِ حال نہ تھی کہ' میرے نبیؑ ﷺکے الفاظ کے عین مطابق تھی !! 6 ستمبر 1965 کے دنوں کی لمبی تفصیل ہے ،ان شا اللہ !اگلی قسط میں ۔
( منیرہ قریشی، 30 ستمبر 2017ءواہ کینٹ) ( جاری )

جمعہ، 29 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں " (21).

 یادوں کی تتلیاں " (21).۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
لان کی گھاس نے سر نکالنا شروع کر دیا ، اور کونوں میں " سیمی سرکل"  (نیم دائرےمیں )کیاریاں بنائی گئیں ،، جن میں سے ایک کونے میں ، صرف گلابی ،دوسرے میں سفید اور پیلا ، تیسرے سرکل میں سُرخ اور چوتھے سرکل میں " کالا گلاب " لگایا گیا ! اور شاید ہی کسی کو یقین آۓ کہ اس کالے گلاب کو دیکھنے کے لیے باقاعدہ چند لوگ آۓ کہ ہم نے کبھی دیکھا نہیں ! دراصل کالا گلاب ،اتنا گہرا عنابی ہوتا کہ وہ قریب قریب کالاسا ہو جاتا، اسی لان کے کناروں پر ناشپاتی ، اور اخروٹ کا ایک ایک درخت لگایا گیا ۔ گھر کے پچھلے لان میں عین درمیان میں بےحد پھیلا ہوا " خوبانی کا درخت تھا ، اس سے اتنا پھل اترتا کہ کریٹ بھر بھر سوغات کے طور پر بھیجی جاتیں۔چند ماہ میں اماں جی کی محنت رنگ لے آئی اور یہ ناقابلِ یقین منظر آیا کہ جس گھرپر " آسیبی " گھر کا گمان ہوتا تھا ، وہ خوشبو ، رنگ اورسکون کا امتزاج نظر آنے لگا، گھر کے اندر آنے والا کچھ لمحے رک کرہمارے لان کو ستائشی نظروں سے دیکھتا ! اور پھرآگے بڑھتا ۔ حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اس ایک سال میں اماں جی صرف ایک دفعہ اسپتال داخل ہوئیں ، وہ بھی چند دن کے لۓ، ورنہ ان کی صحت کا یہ عالم تھا ( پنڈی میں ) کہ ہر تین ، چار ماہ کے بعد چند دن ضرور ہاسپٹل گزارتیں ۔ شاید ان کی روح ، کا محبت بھرا ، میٹھا رشتہ مٹی سے تھا ،جب وہ بھولا ہوا رشتہ جڑا تو جیسے وہ بھی جوان ہو گئیں۔ میں یہاں تھوڑا سا بتاتی چلوں کہ میرے نانا کا گھر بھی وسیع وعریض تھا ،بالکل گاؤں کے مخصوص انداز سےلائن میں چھے ،سات کمرے اور درمیان میں اتنا بڑا صحن کے کرکٹ بخوبی کھیلی جا سکے ،،، سرسبز درخت بھی تھے ، کھلی فضا ملی رہی ، پنڈی کا گھر کسی طور بھی ایسی" نیچر پسند" خاتون کے لۓ آئیڈیل نہ تھا ، اور اب یہاں انھیں اپنے پسندیدہ ماحول میں اپنی بیماری بھولی رہی ،، ، پچھلے لان میں ایک دو لوکاٹ کے درخت بھی تھے انہی کے نیچے کچھ سبزیوں کو اگایا گیا۔ 
گرمیوں میں خوبانی کے درخت کے نیچے اماں جی کی چارپائی بچھ جاتی اور اس پر خوب صورت کھیس بچھا ہوتا! اور اس چارپائی کے آس پاس " روٹ آئرن " کی چار کرسیاں ،اور ایک میز ہوتا ، جو آتا، آس پاس بیٹھنا مسئلہ نہ ہوتا ،کیوں کہ اماں جی کا دوسرا مشغلہ چارپائی پر سلیقے سے بکھرا ہوتا، اور وہ تھا " "ایمبرا ئڈری "،،،، جیسا میں نے پچھلی کسی قسط میں لکھا تھا کہ ان میں اس معاملے میں " حد درجہ ذوقِ رنگ " تھا ، ،، ڈاکٹروں نے انھیں چند کاموں سے منع کیا ہوا تھا ، ایک تو کچن کا لمحے بھر کا کام نہ کریں ، دوسرا کوئی وزن نہیں اٹھانا ، اور تیسرے شدید سردی یا گرمی نہیں سہنی ،،،، لیکن اماں جی کبھی کبھی ان پابندیوں سے چپکے سے بغاوت کر جاتیں ، ،،گرمیوں میں درخت کے نیچے اور سردیوں میں پچھلے بر آمدے میں جہاں بہترین دھوپ لگتی تو " بیٹھک" وہاں سجتی ۔ بر آمدے کے ایک سرے پر ایک ہمارے بیڈ روم کا دروازہ کھلتا ،،، بر آمدہ پار کر کے دوسرے سرے پر کچن کا دروازہ تھا ،،، اماں جی کے لیے ہر موسم میں سچویشن آئیڈل تھی کہ کوئی نا کوئی ملازم یا ملازمہ ایک آوازپر آجاتے اور جو مہمان آتا ، اسکی خاطر ہو جاتی ، وغیرہ ، وہیں بیٹھے بیٹھے اپنی غیرشادی شدہ ، ان دوبیٹیوں کے جہیز کی تیاریاں اسی طرح ہو رہی تھیں جیسے اس دور کی قریباً ہر ماں کر تی تھی ، انھوں نے بےحد خوب صورت، پھولوں ،کو بیڈ کورز پر اور بہت محنت سے ساڑھیوں پر کڑھائی کی ، ،،،، آج تک مجھےہاتھ کی بےشمار کڑھائیاں دیکھنے کا موقع ملا ہے ،، شاید ایک دو پسند آئیں لیکن اماں جی کے ہاتھ کا جواب ہی نہیں۔
ایک دن میں سکول سے آئی ( میں دسویں میں تھی )ہمارے پنڈی والے محلے سے اماں جی کی پسندیدہ بزرگ خاتون آئی ہوئی تھیں ! جو اماں جی کی ماں کے برابر تھیں ۔ میں کچن میں گئی تو ملازمہ پروین نے کہا " باقی سب کچھ میں نے بنا دیا ہے لیکن یہ مچھلی کے ٹکڑے پڑے ہیں ، مجھے یہ پکانا نہیں آتی ،اب مجھ میں یہ عقل نہیں تھی کہ اماں جی کو بلا کر یا جا کر پوچھ لیتی ، میں نے خود ہی اسے کہا، تم مصالحہ بناؤ، میں ٹکڑے لہسن لگا کرتلتی ہوں ، پھر ہم دونوں نے عقل دوڑائی ، اور تلی مچھلی مصالحے پر " دم" دے کر کچھ دیر رکھی ، اس دوران کھانا ، ٹرالی پر لگ چکا تھا ، میں نے پروین کو تسلی دی نہ فکر کرو، مچھلی کی شکایت ہوئی تو مجھے ڈانٹ پڑے گی ،، خیر ہے اور دو سالن بھی ہیں ، مہمان وہ بھی کھا سکتے ہیں وغیرہ، مہمان کے جانے کے بعد اماں جی اندر آئیں ، اور پوچھا " مچھلی کس نے بنائی تھی ؟ پروین نے کہا "باجی نے" اماں جی نے میری طرف دیکھا، میرا خیال تھا ایک عدد ڈانٹ پڑے گی لیکن انھوں نے فوراً  میرا ہاتھ پکڑا اور الٹی طرف سے چُوم لیا میں حیران ہوئی تو کہنے لگیں اتنی اچھی ، مچھلی پکی تھی کہ ذرا " بُو " نہ تھی اور مزیدار بھی تھی ! ،،،،،،،،،،اماں جی نے یہ دوسری دفعہ میرا ہاتھ چوما تھا ، اس سے پہلے جب میں 5ویں یا 6 ویں جماعت میں تھی تو ، بھائی کو جو خط لکھا گیا اس کے لفافے پر میں نے ان کا پتہ انگریزی میں لکھ دیا ، جب انھوں نے پوچھا تو بتادیا کہ میں نے لکھا ہے تب بھی انھوں نے بےساختہ میرا ہاتھ چوما ،،، اور مجھے وہ " فیلنگ " آج بھی یاد ہے کہ جیسے میں ہوا میں اُڑنے لگ گئی تھی ،،، یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے والدین ہمیں ہر وقت ، موقع بے موقع واہ واہ نہیں کرتے تھے ، ، سراہنا ، لیکن عملاً اظہار کم کرنا ، یہ ایک ایسا فعل ہے جس سے بچے اپنی ستا ئش کو فورگرانٹڈ نہیں لیتے، ماں باپ کا ایک فاصلہ رہتا ہے تو بچے پر ان کے کہے کا بھی اثر ہوتا ہے ، ان کے پیار اور تعریف کی بھی ویلیو ہوتی ہے ۔ خیال اپنا اپنا ،،،،اماں جی نے آس پڑوس کی خواتین کے گھروں میں کوئی وزٹ نہیں کیا تھا لیکن ان کی محبت ، اور مہمان نواز طبیعت کی خوشبو نےچند گھرانوں کا اکثر پھیرا لگوا دیا ،،، آنٹی رشید ، جو ہمارے پچھلے لان سے پڑوسی تھیں ، وہ خود بہت مصروف شخصیت تھیں ! ان کا آنا ہفتے ، دس دن کے بعد ہوتا ، لیکن ان کی چاروں بیٹیوں کے ساتھ جو دوستی ہوئی ،،، الحمدُ للہ آج 54 سال کے بعد بھی قائم ہے ۔ہر خوشی اور غم میں ہم سب کی موجودگی ضروری ہے، ان کا کوئی بھائ نہیں تھا اور اس بات کی اگر انھیں حسرت کسی کے پوچھنے پر ہوتی کہ کوئی بھائ بھی ہے " تو وہ ہمارے بھائ کا نقشہ بیان کر کے اگلے کو مطمئن کر دیتیں ۔ہم اب چھ لڑکیاں ان دو گھروں کی رونق تھیں ، تسنیم جو بڑی بہن تھی مجھ سے ایک کلاس آگے تھی اور فطرتا" ، مدبر اور ذمہ دار بیٹی تھی جس پر ماں باپ کو مکمل اعتماد تھا کہ گھر میں کوئی نہ ہو تو وہ خیال رکھ سکتی ہے ۔ اس کے بعد کی بیٹی ، کا نام شاہدہ ہے اور اس سے چھوٹی جڑواں ہیں جن کے نام ثمینہ ، روبینہ ہیں ، ،،، شاہدہ اور جوجی نہ صرف کلاس فیلو بن گئی تھیں بلکہ دوستی کا یہ عالم ہو گیا کہ صرف دوپہر کا کھانا گھر کھایا جاتا ، اور چونکہ دونوں گھروں کے پچھلے لان کے درمیان صرف سنتھے کی باڑ "لگی ہوئی تھی اس کو ایک سائڈ سے اتنا کاٹ دیا گیا تھا ایک چھوٹا راستہ بن گیا تھا اس طرح آنا جانا آسان ہو گیا ، اکھٹے ،ہوم ورک ہو رہا ہے ، اکٹھے شام کا کھیل کود ہورہے ہیں ،،، حتیٰ کہ "آلو ؤں کے چپس بنوا کر یا چھت پر چڑھ کر کھاۓ جاتے یا درختوں پر ،،، اسی دوران آنٹی رشید ( یہ پکی لاہوری فیملی تھی ، جن کی اردو ،اچھی سکولنگ نے اور تعلیمی گھریلو ماحول نے ستھری کر دی تھی ) ،،، نے منع کرتے رہنا لیکن وہ کہاں باز آتیں میں درختوں اور چھتوں پر "ہائیٹ فوبیا "کی وجہ سے کبھی نہ چڑھی لیکن باقی ، نوجوانی کی شرارتیں ہماری "سنہری یادیں" بن چکی ہیں ، معصوم ،لیکن دلیرانہ ، حرکتیں اب یاد آتیں ہیں تو خیال آتا ہے یہ سب دونوں خاندانوں کے والدین کا ہم پر اعتماد کا نتیجہ تھا ،،،،،،اس کی تفصیل کا موقع ملا تو یہ چھوٹے چھوٹے واقعات لکھوں گی ،، شاہدہ تو اب بھی ایسے " دلیرانہ ، مردانہ قدم اٹھا لیتی ہے کہ ہماری کہانی سننے والا یا تو ہمیں ' رشک " سے یا " حسد " سے تکتا رہ جاتا ہے ، شاہدہ دراصل "ٹام بواۓ" تھی ! جو ذہیین ، اور دبنگ فطرت کی ہے ، اس کے ساتھ ہوتے ہمیں کبھی ڈر محسوس نہ ہوتا ، حالانکہ میں اس سے بڑی ہوں لیکن میں خود بھی اس کے کندھے کے پیچھے سے جھانکنا پسند کرتی تھی ۔
آنٹی رشید ،،ایک پرنسپل تھیں اپنے دور کی بی،اے،بی ایڈ ، اور میری امی کی فطرت کہ وہ اگر کسی سے متاثر ہوتیں تھیں تو صرف اگلے کی ذہانت اور تعلیم سے ،،، اور یہاں تو متاثر ہونے کے لیے ایک عام ٹیچر نہیں بلکہ ، پرنسپل تھیں ،،، اور واہ کینٹ کی واحد " دیسی خاتون " جو سکول ،سائیکل پر جاتی تھیں اور جب ہم ان کے حلقہء احباب میں آۓ تو اس " مشہوری " کو کچھ سال گزر چکے تھے ، اور مزے کی بات کہ یہ سواری صرف وقت کی بچت کے تحت زیادہ سیکھی گئی۔ ورنہ ان کی ذات کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ ، گھر کے کام کاج کرتے دیکھ کر کوئی انھیں پڑھا لکھا بھی نہ مانتا ہو گا ،،، گھر میں کھانا پکانا ، ان کا کام تھا ، باقی کاموں کے لۓ مددگارتھے ، اماں جی کبھی کبھی ان کے گھر ، لسی مکھن ، یا بالائی بھیجتیں تو وہ خوشی سے نہال ہو جاتیں ، بدلے میں ہمارے گھر ،ان کے ہاتھ کا کوئی نا کوئی خوش ذائقہ سالن ، یا میٹھا ،آتا ، ، ہمارا ان کا ساتھ 9 سال رہا ،،، اور الحمدُ للہ کہ بہترین پڑوسی کے طور پر وقت گزرا ، آخری 5 ،6 سال ہمارا ہر اتوار کا ناشتہ ، آنٹی رشید کے ہاتھ کے بڑے بڑے تر بتر پراٹھوں سے ہوتا جو سردیوں میں گوبھی ، آلو کے ، یا قیمے کے پراٹھے اور ساتھ کشمیری چاۓ ،، گرمیوں میں لسی ہوتی ۔ آنٹی گرم گرم پراٹھے ڈائینگ روم میں بھیجتی چلی جاتیں اور ہماری نیت نہ بھرتی ،،،، آہ ،،،کیسے کیسے لوگ تھے جو دلوں کو جیتنا جانتے تھے ، جو پڑوسیوں کو اپنا فیملی ممبر بنا لیتے تھے ، آنٹی صفٰیہ رشید ، بہت خوشحال فیملی بیک گراؤنڈ سے تھیں لیکن کوئی نمود و نمائش نہیں ، سادہ پہناوا ، سادہ مزاج ، سادہ گفتگو ،،،، اماں جی انھیں ہمیشہ ستائش بھری نگاہوں سے دیکھتیں ، وہ ایک صاف نیت ، مومنہ عورت تھیں ، اللہ انھیں جنت الفردوس میں درجہ دے آمین۔
( منیرہ قریشی ،30 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

جمعرات، 28 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں"(20)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 20)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
واہ کینٹ ہم ستمبر1964ءمیں شفٹ ہوۓ ، اباجی کو (1 )کچنار روڈ ، کا بنگلہ ملا ، واہ اول تو خود بہت خوب صورت علاقہ ہے جو سرسبز درختوں ، چھوٹی چھوٹی پہا ڑیوں اور قدرتی جھرنوں سے سجا ہوا " تھا " ( اب ذرا گندا اور گنجان ہو گیا ہے ) ، اور دوسرے ہمارے لیے موسم یا ماحول نیا نہ تھا کہ ہمارا گاؤں وہاں 20، 25 منٹ کی ڈرائیو پر تھا، اور ہم واہ میں اباجی کے ایک اور "جگری " دوست کرنل محمد افضل سے ملنے کبھی کبھار آتی تھیں ! ستمبر نے ہلکی سردی کی ابتدا کر دی تھی ،اور یہ ہمارا اس نئےگھر اور واہ سے ملنے کا پہلا مہینا اور پہلا دن تھا۔جو " اُداسی" سے شروع ہوا،،،،، ایک تو ہم اپنی سہیلیوں سے دور ہوۓ ، اور دوسرے خوب رونق والی گلیوں کی آباد زندگی نظر نہ آئی ،تو ہم دونوں بہنوں نے کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا جس وقت ہم اس نئے گھر پہنچے تو سہ پہر کا وقت تھا،اور ہم سارے گھر میں بےزاری سے پھر نے لگیں،اس گھر کے صرف دو بیڈرومز، ڈرائنگ روم الگ اور ڈائننگ ( کافی بڑا) روم ، دو اچھے سائز کے سٹور ، کچن اور اسکی پینیٹری ، اور دو غسل خانے تھے، ایک برآمدہ فرنٹ پر اور ایک پہلو کے لان کی طرف تھا، ایک اور سٹور کچن سے باہر تھا جو شاید "ایندھن " سٹور کرنے کے لۓ بنایا گیا ہو گا (کیوں کہ جس دور میں یہ گھر بنے تھے گیس گھروں تک نہیں پہنچی تھی)پچھلا لان خاصا بڑا تھا کم ازکم ڈیڑھ کنال کا اورسائڈ لان دو کنال کا ہو گا، اسی طرح فرنٹ بھی کنال تک کا ،،،،اباجی اور اماں جی بہت خوش تھے، وہ" اپنے " علاقے میں جو آگئے تھے، اور ہمارے لیے اس گھر کے کمروں کی کمی نے بُرا ایمپریشن ڈالا ، پنڈی کا گھر بےشک کم رقبےپر تھا لیکن تین منزلہ اور کمرے بھی زیادہ تھے ۔اور ہمارے گھر آنے والے مہمانوں کو تنگی نہیں ہوتی تھی ،،، خیر یہ تو بعد کی باتیں تھیں اور ویسے بھی ہمارے سوچنے کی نہیں تھیں ، لیکن اس دن کی اُداسی مجھے یاد ہے ، صبح ہوئی جو مزید ڈیپریشن کا باعث بنی کہ دو ،کنال کا پہلو کا لان ،تین تین فٹ لمبی سوکھی گھاس سے بھرا ہواتھا۔ پچھلے لان کی حالت بھی ابتر تھی  ۔ صرف  سامنے کا لان اس طرح کا تھا کہ گھاس یا کیاریاں تو نہیں تھیں بس بجری کی وجہ سے گزرنے کے قابلِ تھا، اور گاڑیاں بھی وہیں کھڑی ہوتیں اس لیے وہاں لمبی گھاس نہیں اُگی تھی۔،،،، یہ سب دیکھ کر ہم دونوں تو حیران پریشان ہی ہو گئیں، تب اباجی نے بتایا ، جس بنگلے میں ہم نے شفٹ ہونا تھا ان صاحب نے عین دو دن پہلےاسے مزید ایک سال تک خالی کرنے سے انکارکر دیا تھا، کیوں کہ ان کی ٹرانسفر جہاں ہو چکی تھی وہاں انھیں رہائش نہیں مل سکی تھی ،اور اگرچہ یہ بنگلہ بھی ابھی دو ماہ پہلے خالی ہوا ہے لیکن اباجی کو بھی اندازہ نہ تھا کہ " اس وقت کا مشرقی پاکستانی بھائی" اسے اتنی ابتر حالت میں چھوڑ گیا ہو گا ، اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔ اماں جی نے کسی گھبراہٹ کا اظہار نہ کیا ! بہت تحمل سے صرف کچن کی سیٹنگ کرواتی رہیں، اور دو دن کے اندرہم دونوں کے داخلے ہوۓ ، اتفاق سے جب میں واہ آئی تو اسی سال یا ایک سال پہلے یہ " انٹر میڈیٹ سکول اور کالج " بن گیا تھا جو نویں جماعت تا ایف۔اے تک تھا اور جوجی واہ کے کینٹ بورڈ کے تحت چلنے والے 12 سکولوں میں سے "ایف ۔جی سکول نمبر 2 میں داخل کرائی گئی ، جو اس وقت پہلی سے آٹھویں جماعت تک تھے اور اللہ تعالیٰ نے جو ہماری قسمتوں میں لکھا تھا،اس بابِ زندگی کا نیا چیپٹر شروع ہوا،،، ہم دونوں کو اماں جی نے صرف اپنا کمرہ تھوڑا بہت ٹھیک کرنے کا کہا ۔ہمارے کمرے کے ساتھ ایک " اچھے سائز کا بکس روم تھا، لیکن ہمارا سامان کسی صورت اس گھر میں پورا نہیں آرہا تھا، اس گھر کے ساتھ تین سرونٹ کواٹرز تھے۔جن میں سے ایک کو اماں جی نے اپنے لۓ سٹور کے طور پر مختص کرلیا ،تب پنڈی کے گھر سے لایا سامان کچھ وہاں رکھا گیا۔ پنڈی سے آتےوقت ہم کتابوں سے بھری آٹھ کافی بڑی لکڑی کی پیٹیاں جو لاۓ تھے کچھ وہاں رکھوائی گئیں۔
گھر کے خدوخال نکلنے لگے ، اماں جی نے  کام کرنے والوں کی رہنمائی  کی۔ اوران کی خالص" دیہاتی اور فطرت پسند روح" بیدار ہو گئی، سب سے پہلے ٹریکٹرآیا جس نے سارے لان کو ادھیڑا، پھر دو دن بعد "دو بیلوں سمیت ہل " آیا۔ساتھ مزدو ، مٹی کی ٹرالی اور کھاد کی ٹرالیاں آئیں ،، اور یہ کام دو،چار دن جاری رہا ، ہل اس مٹی اور کھاد کے مکسچر کے اوپر چلایا گیا ! اور ایک ہفتے تک کچھ ریت بھی مکس کی گئی ، یہ عمل، آگے ،پیچھے اور سائڈ کے لانز میں کیا گیا ۔ ہم دونوں تو سکول سے آکر تھک کر ایسی سوتیں کہ، جیسے یہ سب ہل وغیرہ بھی ہم نے چلاۓ ہیں ۔ لیکن دوپہر کا ہمارا سونا لازمی تھا کیوں کہ اماں جی بھی سوتی تھیں اورانھوں نے یہ عادت بچپن سے ہی ہمیں ڈال دی تھی ! ابھی تک نہ ہم سکول میں کوئی سہیلی بنا پائیں اور آس پڑوس تو ویسے بھی آرام سے سلسلہ چلتا ہے ۔یہ ہی کافی تھا کہ سارے کمرے سِٹ ہو گئے ، نوکر وغیرہ کا بھی مسئلہ نہ رہا ، اور یوں ایک ماہ گزر گیا، اکتوبر تک مالی بھی اچھا ملا تو اماں جی اور "کِھل" گئیں ! یہ ان کا پسندیدہ شعبہ تھا ، پنڈی سے لاۓ گئے بے شمار گملے سِٹ ہو گئے ، لان میں گھاس کا اہتمام ہوتا رہا،ہمیں ان معاملات سے قطعا" کوئی دلچسپی نہ تھی، ہماری بھینس بھی پہنچ چکی تھی اور اس کے پہنچنے سے پہلے پچھلے لان میں اس کے مناسب سائز کے کچے پکے دو کمرے بنا دیۓ گئے، ایک بھینس کے لیے دوسرا اس کا چارہ اور باقی ضروری اشیاء کے لیے!!!۔
قارئین سوچ رہے ہوں گے یہ کن تفصیلات میں الجھ گئی ہے ، لیکن آپ اس نوجوانی کی عمر کا ہمارا ری ایکشن دیکھتے تو زیادہ انجواۓ کرتے ، کہ ہم دونوں ،( خصوصا" میں" ) بےبس اور شرمندہ شرمندہ سی رہتیں ،،،،،، کیوں کہ ہمارا خیال تھا ، ہمیں یہاں آکر اپنا دیہاتی پس منظر ظاہرنہیں کرنا چاہیے ،،،،" لوگ کیا کہیں گے ! لوگ کیا سوچیں گے "ہماری حددرجہ بےوقوفانہ سوچ ، اور مخالفت کی اماں جی نے رتی برابر پروا نہ کی !۔
اباجی تو تھے ہی حددرجہ مصروف !! اور اندر سےوہ بھی دیہات سے جُڑے !لیکن ایک دن سب سے پہلا " مہمان " ہمارے گھر " آئیں " ،،،، وہ تھیں دو خواتین ، ایک ان میں سے جوجی کے سکول کی پرنسپل تھیں مسز صفیہ رشید اور دوسری انہی کی پڑوسن بھی ،سہیلی بھی مسز شاہ !، پرنسپل صاحبہ ، ہمارے " بیک سٹریٹ " سے پڑوسی بھی تھیں ! اماں جی نے شربت پلایا ، اور وہ بہت تھوڑی دیر بیٹھ کر رخصت ہو گئیں ، اس وقت عصر کا وقت تھا ، اور یہ اس گھر کی پہلی " وزیٹر" تھیں !!!!۔
( منیرہ قریشی ، 29 ستمبر 2017ء) ( جاری )

بدھ، 27 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں"(19).

یادوں کی تتلیاں "(19)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اپنے والدین کی خوبیاں اور نیکیاں اگر میں لکھ رہی ہوں تو اس کی دو وجوہات ہیں۔
۔1)یہ خوبیاں واقعی ان میں تھیں اور ہم ان کی اولادیں اس بات پر  رب کا ازحد شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں آج اگر  اچھے برُے کا احساس ہے تو ان کی "غیرارادی" تربیت کی وجہ سے ہے، ہماری اگر بری عادتیں ہیں تو ہماری اپنی" ماحولیاتی آلودگی" کی وجہ سے ہیں۔
۔2) اور میں اس لۓ ان کی خوبیاں بیان کر رہی ہوں کہ کیا ہم   والدین اپنی اولاد کے "آئیڈیل " بن رہے ہیں ؟ حالانکہ پہلے کے والدین کی نسبت آج ہم اپنی اولاد کو بہترین سہولتیں دے رہے ہیں۔ اولادیں منہ سے جو نکا لتی ہیں ، پورا کرتے رہتے ہیں ۔ دوستانہ اندازبھی بہت ہے ۔ لیکن بچے اپنے آئیڈیل ، گھرسے باہر ڈھونڈتے ہیں ۔ تو کیوں ؟ ہمیں اس پر اپنا جائزہ لینا ہو گا ۔
ہمارا تعلق ٹیکسلا کے ایک گاؤں " گانگو جمعہ "سے ہے ۔ ہمارے آباء نے نادر شاہ کے دور میں "دلی" سے ہجرت کر کے یہاں کے سرسبز اورپہاڑی علاقے کو اپنا مسکن بنایا،اور دلی میں قیام سے پہلے حجازِمقدس سے وہ خاندان خصوصی طور پر بُلوایا گیا،جسے "قاضی" کہتے تھے کیوں کہ انھیں فقہ کے ماہرین کی ضرورت تھی۔دلی آنے پر اِن کا قیام جہاں ہوا وہ جگہ "حوض قاضیاں" کہلانے لگی جو آج بھی اسی نام سے ہے ۔ ( اتفاق سے میرے بھائی جان کو سرکاری دورے  پر دہلی جانے کا موقع ملا تو وہ خصوصی طور پر وہاں بھی گۓ ، بتا رہے تھے کہ اب وہ جگہ شہر کے ساتھ مل گئی ہے ، لیکن اُس دور کا "حوض " آج بھی ہے اور اسے حوض قاضیاں ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اب یہاں اس علاقے کی ہجرت جان بچا نے کے لیے کی گئی تھی، یہاں بھی انھیں احترام ملا اور لوگوں نے انھیں امامت ، شرعی فیصلے کے اختیار ،وغیرہ دیۓ لیکن چوں کہ یہ کچھ پڑھےلکھے تھے اس لئے اپنی کمائی پر انحصار کرنا چاہتے تھےان میں سے مردوں نے حکومتی نوکری میں " پٹواریوں" کی  نوکریاں کر لیں، یوں ان کی آمدنی کا بہترین سبب بن گیا ۔اسی آمدن سے انھوں نے اس نئی جگہ اتنی زمین لے لی کہ کھیتی باڑی بھی ساتھ ساتھ چلنے لگی ۔پڑھنے کا رحجان ان دو بھائیوں (جو گانگو میں سیٹل ہوۓ) میں رہا ان بھائیوں کے نام "جمعہ"اور "بہادر" تھے۔اسی لۓ یہ گاؤں آدھا گانگو جمعہ اور آدھا گانگو بہادر کہلاتا ہے ۔،،، گانگو کا لفظی مطلب " گاؤں ' ہے۔
ویسے ہی چلتے چلتے سوچا ہلکی سی جھلک اس خاندان کی بھی دیکھ لی جاۓ ۔ ورنہ " پدرم سللطان بود " کا قصہ مجھے نہیں پسند ! ،،، لیکن ایک مرتبہ سردیوں کے دن تھے ہم بہنیں اپنے والدین کے ساتھ آتش دان کے گرد بیٹھے گپ شپ کر رہی تھیں ، ( میں ان دنوں فسٹ ایرمیں تھی )اور اسی دوران باتوں کا رخ اِسی( اصل میں لفظ ہم ، یا ہمارا خاندان کا استعمال کوئی قابلِ فخرلفظ نہیں ، جتنا اُس خاندان کی مثبت سرگرمیوں پرفخر کرنا بنتا ہے) خاندان کی ہجرت وغیرہ کی طرف مڑ گیا اورمیں نے اپنے بڑبولے پن میں کہہ دیا " مجھے ان کہانیوں پر بالکل یقین نہیں ، کیا پتہ ہم ہندؤں سے ہی مسلمان ہوۓ ہوں اور یہاں اس جگہ ہجرت کے بعدبزرگوں نے خود کو عزت دار ظاہر کرنے کے لۓ اپنے نام کے ساتھ "قریشی" کا لاحقہ لگا لیا ہو اور یہ کہناکہ ہم "حضرت ابو بکرصدیق (ر ض ع) کے نسل سےہیں ، مشہور کر دیا ہو ،،، وغیرہ وغیرہ ! اباجی نے اس وقت کوئی بحث نہیں کی ،، بات آئی گئی ہو گئی ،، ،، شاید تین ، چار ماہ گزر گۓ ، اور یہ بحث بھی دماغ سے محو ہو گئی ، کہ ایک رات خواب دیکھا" میں ، اماں جی ،اباجی ،اور میری بڑی خالہ حج کر رہے ہیں اور ہم سب میدانِ عرفات میں ہیں ( ہم میں سے کسی نے حج نہیں کیا ہوا تھا ، اور نہ مجھے حج سے متعلق کسی قسم کی معلومات تھیں کہ عرفات کب جاتے ہیں وغیرہ) اُن دنوں اباجی نے سرخ ووکس ویگن رکھی ہوئی تھی ، ہم سب اسی میں بیٹھے ہیں، اور ارد گرد لاتعداد حاجی احرام میں ایک جانب جا رہے ہیں ، خوب چوڑی سڑک ہے، فضا میں تلبیہ کی گونج ہے ،لیکن اباجی کی گاڑی ایک درخت سے ٹکرا جاتی ہے ، جب مجھے ہوش سا آتا ہے تو، معلوم ہوتاہے، کہ سب افرادِخانہ فوت ہو چکے ہیں ،، میں فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر لوگوں سے مدد کا کہتی ہوں لیکن کوئی توجہ نہیں دیتا ، ایک سارجنٹ بھی آتا ہے اور اتنی مدد کرتا ہے کہ گاڑی میں سے ان تینوں کی لاشیں نکال کر فٹ پاتھ پر رکھ دیتا ہے ، اور یہ کہہ کر چلا جاتا ہے کہ قبرستان میں کوئی جگہ نہیں کہ انھیں دفنایا جا سکے ، میں سخت پریشانی میں ہوں کہ انھیں کیسے اس طرح چھوڑ کر چلی جاؤں ،، کہ اچانک زلزلہ آجاتا لوگ تلبیہ کی بجاۓ کلمہ پڑھنے لگتے ہیں ،اور چند لمحوں کے بعد زلزلہ ختم ہو جاتا ہے ،وہی پولیس سارجنٹ بھاگا آتا ہے ، کہ ہم انھیں لے جا رہے ہیں ، زلزلے کی وجہ سے قبریں ادھر اُدھر ہو گئیں  ہیں اس طرح جگہ بن گئی ہے ۔ میں بےفکر ہو جاتی ہوں اگلے لمحے یہ سوچتے ہوۓ قبرستان جاتی ہوں کہ پتہ تو چلے میرے پیارے کہاں دفن ہیں ! تو بہت سی قبروں کے درمیان ایک بہت نمایاں اور اونچی قبر ہے ۔میں قریب جاتی ہوں کہ معلوم کروں یہ کس کی قبر ہے تو تختی پر " حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ " لکھا ہوتا ہے ،،،، میں حیران رہ جاتی ہوں کہ میرے والدین اور خالہ کو اتنی اچھی جگہ ملی ہے ،،کہ آنکھ کھل گئی ،،،،،،،،،،مجھے یوں لگا کہ میرے بڑبولے پن اور شکی سوچ کا جواب ،مجھے ملا ۔میں مکمل سچائی سےلکھ رہی ہوں، کہ میں نے واقعی یہ سوچا تھا کہ " ذاتیں لوگ خود بناتے ، بدلتے رہتے ہیں ،،،،آج کی قسط مجھےایسی لکھنا چاہیے یا نہیں لیکن بس آج یہاں سوئی اٹک گئی ہےتو سوچا ایسے تو ایسے ہی سہی !۔
میں نے پہلے بھی ایک جگہ ذکر کیا ہے کہ اماں جی میں خواب کی تعبیر بتانے کی بہت الہامی صلاحیت تھی ، انھیں میں نے صبح یہ خواب سنایا تو انھوں نے کہا ، کبھی مکمل شہادت کے بغیر منہ سے کوئی تبصرہ نہ کرو۔ ۔ یہ بیوقوفیاں تو ہم روز اور اکثر کرتے ہیں اوریہ ہی الفاظ باعثِ شرمندگی بھی بنتے ہیں لیکن ہم باز نہیں آتے۔
( منیرہ قریشی 27 ستمبر ،2017ء واہ کینٹ) ( جاری )

منگل، 26 ستمبر، 2017

" یادوں کی تتلیاں " (18)

 یادوں کی تتلیاں " (18)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
بچپن کی یادوں کو دہرانے میں عجیب مزہ ہے یوں جیسے ایک دلچسپ کتاب کو کھولیں ، تو پہلے صفحے کے بعد صفحے الٹاتے جاؤ اور ، جزیات لیۓ واقعات کی فلم چلتی چلی جاتی ہے اور انہی میں کوئی اور کردار ہمیں مسکرا کر کہتا ہے " کیا میں تمہیں یاد ہوں " ،،، اور کچھ دیر کے غور کے بعد وہ کردار جو پہلے صرف چہرے سے نمودار ہوتا ہے ،، آہستگی سے پورے سراپے کے ساتھ سامنے آبیٹھتا ہے۔ 
ہم بہنوں کے پنڈی کے اس محلے میں زندگی کے13،14 سال ہی گزرے ،،، ظاہر ہے ان سالوں میں پہلے4 سال کی زندگی کو شامل کر ہی نہیں سکتی کہ نہ تو میں ذہین تھی کی اُس عمر کی کوئی یادیں محفوظ ہوتیں لیکن ، ایک آدھ واقعہ ایسا بھی ہوا ، جس کے درمیان کے کردار بعد میں بھی موجود رہے اور بعد کی کڑی کو آپا نے جوڑا اور یوں ہمیں اَن دیکھے لوگوں سے متعلق بھی علم ہوا ۔ مجھے یہ اچھا تو نہیں لگ رہا کہ میں بار بارکہوں کہ اماں جی غیرمعمولی صلاحیتوں سے مزین خاتون تھیں، لیکن مجھے اس میں حرج بھی محسوس نہیں ہوتا کہ میں اُن کی بہترین سوجھ بوجھ کا ذکر نہ کروں ،،،،، جیسا میں نے کئی جگہ لکھا ہے کہ وہ رقیق القلب خاتون تھیں ، نیز ان میں تعصب نہیں تھا ، وہ دوسرے کی اچھی خوبی کا کھلے دل سے اعتراف کرتیں ، چاہے وہ کسی بھی علاقے ، زبان ، طبقے سے تعلق رکھتا ہو ۔ انھیں دوسروں کا انہی بنیادوں پر مذاق اُڑانا قطعی پسند نہ تھا۔ ،،،،،،،،
اس محلے میں کچھ اچھے خوشحال لوگ تھے ، کچھ درمیانے خوشحال ، کچھ سفیدپوش ، اور بہت تھوڑے سے غریب ،،،، اور ایسے ہی غریب گھرانے کے مختلف افراد، انہی خوشحال گھرانوں, میں نوکریاں کرتے، اور اپنی روزی کماتے ،،، انہی میں سے ایک گھرانے کی دو لڑکیاں ہمارے گھر کے کام کرتیں ، ان کی ماں انھیں روزانہ ملنے آتی ، اور اماں جی سے کچھ دیر گپ شپ لگا کر چلی جاتی ، ( یہ واقعہ آپا کی زبانی ہے ) ایک دن اس نے اماں جی کو بتایا ، ہماری کوٹھڑی کے ساتھ کی کوٹھڑی میں ایک شریف گھرانہ کچھ دن پہلے آیا ہے وہ بیوہ ہے اور چار بچے بھی ہیں ، وہ بہت تاکید کر رہی ہے کہ مجھے جلد از جلد کہیں برتن یا کپڑے دھونےکی نوکری دلوا دو ، اور آج تو وہ رو پڑی تھی کہ بچے دو دن سے بھوکےہیں کسی طرح کوئی نوکری کرواؤ ۔ اماں جی پوری طرح متوجہ ہو گئیں۔معلوم ہوا کہ وہ فوج کے صوبیدار کی بیوی ہیں ، لیکن وہ دوسری بیوی تھیں ، اور صوبیدار صاحب اچانک فوت ہو گۓ ، اور چوں کہ ان کے کاغذات پر پہلی بیوی کانام  درج تھا اس لۓ فوج کے رولز کے مطابق سب پیسہ ، پنشن اسی کو ملا ، یہ اپنے پیچھے سے بھی غریب تھی ، سر چھپانے ، ہماری کوٹھڑیوں میں سے ایک میں آگئی ہے ، اماں جی نے فوری طور پر جو کھانے پینے کا سامان ہو سکا اسے دیا اور اسے کہہ دیا، کسی اورکو یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں نے کچھ دیا ہے ! اور اماں جی نے اگلے دن اسے آنے کا کہا ، اگلے دن وہ آئی اور وہ ایک 35 40 سالہ، سادہ سی ، مسائل میں گھری عورت تھی جسے اچانک حالات نے سڑک پر لا کھڑا کیا تھا ، ،،، اس سے آگے مجھے معلوم نہیں کہ اسے حالات کی دلدل سے نکالنے کے لۓ انھوں نے کیا کیِا ، لیکن اتنا آپا کو یاد تھا کہ بہت ہفتوں تک رات کے وقت اردلی ،وہ عورت جسے " سیما کی ماں " کہہ کر بلایا جاتا تھا ، کے لیےایک دیگچی سالن کی اور رومال میں کافی روٹیاں ، جاتی رہیں ،،، اماں جی نے ایک باعزت عورت کی مدد بھی ایسے طریقے سے کی کہ اس کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو ،،،، لیکن میرا پکا خیال ہے کہ اُنھوں نے اپنی پرجوش ، اور ہمدرد فطرت کے تحت ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ پروجیکٹ ادھورا چھوڑا ہو ۔
اسی محلے میں ایک گھر تھا ، جس کی نچلی منزل پر ایک دو کمرے ہوں گے لیکن اس کی ڈیوڑھی میں اندھیرا ہی رہتا البتہ اوپر کی منزل میں ان دو جوان ( آدمی لکھوں یا لڑکے ) بندوں کی آمدو رفت رہتی ،، وہ دونوں بہت خوش شکل اور خوش لباس تھے ، ، ان کی عمریں اس وقت 30 ، اور 35 کے درمیان تھیں ، اگر کبھی ان کا سامنامحلے کی کسی بھی عورت سے ہو جاتا ، تو وہ بہت ادب سے سلام کرتے ، حال پوچھتے اور اللہ حافظ ،،، بہت بعد میں پتہ چلا یہ ایک ایسا ہندو گھرانہ تھا ، جنھوں نے ہجرت سے انکار کر دیا یہ ان کا ذاتی گھر تھا اور ان کی بزرگ والدہ بھی ان کے ساتھ تھی ، اگرچہ والدہ نے اسلام قبول نہیں کیا اور دونوں لڑکوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ، لیکن ان کی والدہ کو اگر کسی نے دیکھا بھی تھا تو چند پڑوسنوں نے یا گھریلو ملازمہ نے ،،، ان کے مطابق وہ بھی خوب صورت خاتون تھی ،، میری یادوں کی تصویروں میں اس خاندان کی تصویر مدھم نہیں ہوئی ،، کاش مجھے ان کے بارے میں کچھ اور علم ہوتا تو لکھتی کہ صرف انڈیا سے نہ ہجرت کرسکنے والے مسلمان ہی نہ تھے ایسا ،قدم کئی ہندوؤں نے بھی اُٹھایا تھا ۔
اہمارے محلے کے ساتھ ایک بہت مناسب سائز کا میدان تھا ، جہاں اکا دُکا قبریں بھی تھیں جن پر کوئ تختی نہیں تھی ،حالانکہ یہ قبریں پختہ اور اچھے اندازسے گولائی میں بنی ہوئی تھیں ، ہمارے وہاں قیام کے دوران ہی قبریں غیر محسوس طریقے سی ہموار ہوئیں  اور نام ونشان بھی نہ رہا ،، اسی میدان کو پار کر کے مری روڈ تھی اور سڑک پار بھی ایک پرانا قبرستان تھا جسے " شاہ کی ٹالیاں کا قبرستان " کہتے ہیں ، وہاں کا ایک انچارج تو کوئی بابا تھا اور مستقل بسیرا ایک " مخنث " کا تھا ، جس کا نام " سکھو" تھا ،،، یہ خوب اونچا لمبا اور پیٹ نکلا قدرِموٹا، آدمی تھا ، آدمی میں نے اس لۓ لکھا ہے کہ اس نے ہمیشہ مردوں والے کپڑے ( شلوار قمیض ) پہنے ، اس کے ذرا تھوڑے بڑے بال ہوتے جو مجھے کبھی کنگھی کیۓ نظر نہ آۓ ،، اس کے منہ پر چھوٹی چھوٹی داڑھی بھی ہوتی ، اور اس گیٹ اپ کے ساتھ وہ ایک زنانہ ، بد رنگا ڈوپٹہ سر پر ایسے انداز سے لۓ ہوتا کہ اس کا آدھا چہرہ بھی چھپا ہوتا جیسے وہ داڑھی چھپانے کا تکلف کر رہا ہو ،یا یہ اس کی عادت بن چکی تھی اور دوپٹے کا ایک کونا منہ میں دباۓ رکھتا ! ،،، ابھی تک اس گروہ کے بےشمار لوگ دیکھے ہیں لیکن،سکھو میرے خیال میں واحد "کھسرا" تھا جس نے اپنے آپ کو کبھی عورتوں والے حُلیے میں لانے کی پرواہ نہیں کی، نہ ہی کبھی اس نے کوئی میک اپ کیا ، نہ وہ خود کو" شی " کی صنف سے پکارتا ،،، لیکن اس کا بات چیت کا انداز ، اور مردوں میں نہ بیٹھنا ، اور پاٹ دار آواز میں گانے کی کوششیں کرنا اورخود کو مرد کہہ کر پکارتا ۔ اس کی کیا کہانی تھی کچھ خبر نہ نہیں، ایسے افراد کی کہانیوں میں " اکلاپے " کا عجیب اور شدید دکھ بہر حال ہوتا ہے ، وہ روزانہ ہمارے محلے میں آتا اور اس کی پاٹ دار آواز سے ہم بچے گھبراتے بلکہ ڈرتے تھا ، بچوں کو اسے " سکھو ماسی " کہہ کر بلانے کا حکم تھا، اور وہ اس بات کو قبول کۓ ہوۓ تھا ، جس گھرانے میں چاہتا بلا اجازت داخل ہوجاتا ، زیادہ سے زیادہ اونچی سی کھانسی کر کے اندر چلا جاتا ،سبھی اُس کے اس طرح صحن میں آجانے سے نہ گھبراتے ،، بلکہ اگر گھر کی خواتین صحن میں کپڑے دھو رہی ہوتیں تو وہ بھی 10، 15 منٹ کے لۓ ان کے کپڑے کوٹنے ، یا بڑے سے گرم پانی کے دیگچوں کو مزید بھر دیتا ،،، لیکن اس دوران اس کی فالتو قسم کی باتیں چلتی رہتیں ، اس گھر کی کوئی خاتون جا کر اس کےلۓ کچھ کھانے کو لا دیتی تو فورا" اللہ بیلی ، کہہ کر روانہ ہو جاتا کیوں کہ اسے بہت سے اور گھروں میں جانا بھی ہوتا تھا دوسرے یہ لوگ مشقت کے عادی نہیں رہتے ! لاکھ بلانے پر بھی نہ رُکتا ، ،،، اس محلے میں کوئی شادی ہوتی یا کوئ بچہ پیدا ہوتا تو اسے کچھ گانے بجانے پر مل جاتا لیکن اس کی آواز اتنی پاٹ دار اور بےسُری تھی کہ اسے گانے سے زیادہ جُگت بازی کے لۓ روکا جاتا ،،،، ہر کوئی اپنے مزاج اور عقل کے مطابق اس سے مذاق کرتا وہ بھی پورا پورا جواب دیتا یہاں میں پھر اماں جی کی فہم کی داد دوں گی ، اول تو وہ بہت آنا جانا نہیں رکھتی تھیں ، پھر وہ برقعہ بھی لیتیں تھیں اور تیسرے ہمارے گھر باہر گھنٹی بنجا کر داخل ہونے پر فورا" سامنا اردلی سے ہوتا تھا ،، ان باتوں کی وجہ سے اس کا اماں جی سے آمنا سامنا محض شادیوں تک تھا ، اماں جی نے صرف اتنا پوچھنا " سکھو کیا حال ہے ؟ " سب خیر ہے " اوراس نے اس مہذب انداز کے جواب میں ہمیشہ مہذب انداز سے ہی کہنا " آپاں جی ، تُسی ٹھیک ہو نا " ، اور بس بات چیت ختم ، گنی چنی دفعہ اس نے اماں جی سے ملنے کی خواہش کی اور وہ بھی نذیر اردلی کی اجازت سے ، ڈیوڑھی کے اندر آکر دائیں طرف بنی پہلی دوسری سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا کوئی مسئلہ بیان کیا اور چلا گیا ، اس دوران نذیر نزدیک ہی رہتا ، اماں جی نے اسے چاۓ پانی کا پوچھنا لیکن اس نے مہذب انداز سے منع کر دینا ، یہ ملاقات ، 7یا8 منٹ کی ہو اور وہ چلا جاتا ،، اس عمر میں اُس منظر کو سوچتی ہوں تو مجھے یہ لگتا ہےکہ وہ جب عزت سے بلاۓ جانے کا بھوکا ہوتا تھا تو اماں جی سے چند منٹ مل کر چلا جاتا ، کیوں کہ اماں جی نے ایسے لوگوں کا کبھی مذاق نہ اُڑایا ،،، اور نہ ہمیں مذاق اُڑانے کی اجازت دی ۔بعد میں ہم واہ آگۓ اور چند سال بعد سکھو کے مرنے کی خبر ملی ۔ پتہ چلا اس کے جنازے میں کافی لوگ تھے ! اور اسے اسی قبرستان میں دفنایا گیا۔ اللہ سب کی مغفرت کرے اور پردہ پوشی کرے آمین ۔
ہماری زندگیوں میں یہ لکھ دیا گیا کہ ہم نے کہاں کس وقت پیدا ہونا ہے ، کیا چیز اور کہاں سے خوراک آۓ گی جو ہمارے معدوں میں اُترے گی، کن لوگوں کے درمیان پل کر بڑے ہوں گے ، اور کن کرداروں کے کتنے اثرات ، کتنی دیر تک ہم لیں گے یا لیتے رہیں گے ،،،،،، کاش ہم بےشعوری کی حرکات پر جلد قابو پا لیں اور دلوں کو پالش کرتے ہوۓ جلدی جلدی ، اس سطح ء ذہانت ، فطانت ، تک پہنچ جائیں جس کا تقاضا ، قدرت ہم سے کرتی ہے ، لیکن ہم اپنی اچھی صلاحیتیں دوسروں کا مذاق ، اُڑانے ، یا ان کی شکلوں ،رنگت ، اور کھانے پینے کے انداز کو اتنا ڈسکس کرتے چلے جاتے ہیں کہ شعور کی ریل" فہم کی پٹڑی "پر چڑھ ہی نہیں پاتی ،، تب ہم اکثر یہ جملہ بولتے رہتے ہیں ، " پتہ نہیں لوگ کیسے ،، ایسے ،، رہ لیتے ہیں "" بھئ ہم تو ایسے نہیں رہ سکتے وغیرہ،،،،،،،وہ جو انگریزی کوٹیشن کا ایک جملہ ہے " کہ عام ذہن کے لوگ ، صرف لوگوں کو ڈسکس کرتے ہیں"۔ 
یقیناًہم سب کےسبھی بزرگ عالم ، فاضل یا آئیڈیل نہ تھے ، نہ ہی وہ قدرتی ذہین تھے کہ ہم ، ضرور انھیں " فالو " کریں لیکن ان کی کوئی ایک آدھ خوبی کو لیا جاۓ باقی ہم اپنے آس پاس تو دیکھیں ، یہ کون ہے ،وہ کیسا ہے ، یہ کیوں اتنا بزلہ سنج ہے ، اسے کیوں ہر مسئلے کے حل کے لۓ بُلایا جاتا تھا یا ہے ،،، کچھ خوبیاں تو ہیں، ایسے لوگوں میں ۔ اور یہ ضروری نہیں کہ ان کی منفی عادتوں کے باعث ، انھیں یکسر کسی کھاتے میں ہی نہ گردانا جاۓ۔ اسی لۓ ہمیں آج اور ابھی اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ ہم سے غلطیوں کا مارجن ذیادہ تو نہیں ہو رہا؟ کہیں ہم اپنوں کی یادوں سے جلدمحو تو نہیں ہو جائیں گے،،۔
ہماری اماں جی خود اگر کسی اورسے متاثر ہوتیں تو صرف اگلے کی ذہانت سے ! بعینٰہہ یہ ہی عادت آپا کی تھی ،فوجیوں کی" ذاتی زندگیاں" ذرا ایک اور ردھم سے چلتی ہیں ،خواتین میں فضول سی  مقابلہ بازی رہتی ہے جو میچور خواتین کے لۓ قابلِ قبول نہیں ہوتیں ، اور آپا اس تالاب کی کبھی تیراک نہ بن سکیں ، انھوں نے جس پہناوے کو مناسب جانا وہی پہنا ، جس تنخواہ میں اچھے، باوقار طریقے سے گزر ہو سکا وہ ہی اپنایا ۔وہ کسی نئی نویلی دلہن کو ملتیں جس کی فوجی سے شادی ہوئی ہوتی تو وہ اسے یہ ہی کہتیں " مصنوعی طرزِ زندگی سے دور رہنا ، سکھی رہوگی !" ہم ان کی اُن باتوں پر اس وقت غور ہی نہ کرتیں ، بعد میں آپا نے خود ہی کہا تھا میں کسی کے عہدے ، شکل ، یا امارت سے کیوں " امپریس " ہوں ،یہ ایسی متاثر کرنے والی خوبیاں نہیں ،،، اور یہ ان  ماں بیٹی کی مشترکہ خوبی تھی کہ وہ لوگوں کی ذہانتوں سے متاثر تھیں ، چاہے وہ کسی بھی طبقۂ فکر سے تعلق رکھتا ہو ۔ الحمدُللہ ۔
( منیرہ قریشی 26ستمبر2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

اتوار، 24 ستمبر، 2017

" یادوں کی تتلیاں " ( 17 )

یادوں کی تتلیاں " ( 17 ).۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اگر میں اپنے بچپن کی یادوں تک محدود رہوں تو اچھا ہے ، لیکن کبھی کبھی خیالات کی رو بہتے بہتے ، جوانی میں بھی داخل ہو
جاتی ہے جس کے لۓ معذرت!!!۔
اماں جی نے اگر ہمارے بچپن کے کوئی قصے ہمیں جوانی میں سناۓ بھی تو، وہ ، جو ضروری سمجھے ۔ وہ بچوں کو خاندانی سیاست میں گھسنے یا اس پر تبصرہ کرنے کے سخت خلاف تھیں ۔ لیکن آج کےنوجوان والدین ، اس بات کوبہت نارمل لیتے اور سمجھتے ہیں ! ان کا خیال ہوتا ہے ہمارے بچے بڑے سمجھ دار ہیں ، یہ" ایسے کو تیسا "کر کے اپنی عقل مندی کا ثبوت دے رہے ہیں،،، یا ،،جب اگلا طنز کر رہا ہے تو یہ کیوں نہ جواب دے ! یہ سب سوچیں ، یہ سب اجازتیں ، بچے کو بدلحاظ ، اور بدزبان کر دیتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے یہ ہی "عقل"کی کاٹ انہی والدین پر آزمائی جاتی ہے تب ہم کہتے ہیں،اسے تو چھوٹے، بڑے کی تمیز ہی نہیں رہی! "یہ فلاں ( اپنا ناپسندیدہ رشتہ دار ) پر چلا گیا ہے ! حالانکہ بنیادی غلطی اس کے بچپنے کی تربیت میں ہو چکی ہوتی ہےاور ہم اپنے بچے سے اس کی معصومیت چھین چکے ہوتے ہیں۔
 آج کے جوان والدین دراصل اپنے آپ کو اتنا عقلِ کُل سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے والدین سے بھی کچھ سیکھنا نہیں چاہتے۔یہ ہوا عام چل نکلی ہے کیوں کہ ایک " پسندیدہ جملہ " بولا جاتا ہے آج کا دور جدید ٹیکنالوجی کا ہے اور آج کے بچے ہم سے ذیادہ ذہین ہیں ان سے بات چیت میں دوستانہ طریقہ ہونا چاہیے ، وغیرہ وغیرہ۔
ایک مرتبہ مجھے مشہور ادیب اور دانشور اشفاق صاحب اور ان کی بیگم سے ملنے کا اتفاق ہوا ، دورانِ گفتگو بچوں کی تربیت پر بات آگئی ، فرمانے لگے " بچوں کے دوست مت بنیں ، رہبر بنیں ،، دوست وہ گھر سے باہر بناۓ گا ،،، اور زندگی کے اتار چڑھاؤ کے لیۓ گائیڈ ،، ،دوست نہیں کر سکتا آپ ہی رہبری کریں گے ،،، دوسرے اسکی تعریف اتنی نہ کریں کہ وہ اپنی تعریف کروانا اپنا حق سمجھنے لگے۔۔۔
یقینا" ان خیالات پر بےشمار اعتراضات لگ سکتے ہیں! لیکن ، میں صرف یہ ہی کہنا چاہتی ہوں ،،،، دنیا کتنی ترقی کر جاۓ ، بنیادی " اقدار " کی اہمیت ہمیشہ رہے گی۔یہ ویلیوز ہی انسان کو " فہم و شعور " والا ثابت کرتی ہیں۔
جیسا میں نے پہلے بھوپال کی سید فیملی کا ذکر کیا تھا تو دونوں فیملیزکا گھر میں آنا جانا ہوا ، ، ، ان کی بڑی بہن چونکہ جاب بھی کرتی تھیں اس لۓ ان کی چھوٹی بہن نسرین جو بہ مشکل 8 سال کی ہوگی ، روٹیاں بہت اچھی ڈال لیتی ، اور رات کو آپا سالن بنا ہی دیتیں ، آپا اور والد کے آنے پر یہ بہن روٹیاں پکا کر سب کے آگے کھانا رکھتی ! اور اس سے پہلے کہ بڑی بہن گھر آۓ ، چھوٹی دونوں بہنیں ساری" نمازیں " لازماً پڑھتیں ۔سال بھر یا  زیادہ گزر گیا تو ہمارے کھیل میں کسی وقت رخنہ آتا کہ ٹھہرو ہم نماز پڑھ لیں تو ہم نے کہنا ، آپا یا ابو تو ہیں نہیں انھیں کیسے پتہ چلے گا !تو انھوں نے کہا " اگر ہم نے نماز نہ پڑھی تو ہمیں کھانا نہیں ملے گا ! اور جھوٹ ہم سے بولا نہیں جاۓ گا ! " ،،،، دراصل یہ بچوں کو نماز کا پابند کرنے کا ایک طریقہ تھا ،،، لیکن ان کی پابندی سے نماز کی عادت نے ہمیں بھی راغب کیا ، کیوں کہ اماں جی کی طرف سے ہم پر سختی نہیں تھی !اس معاملے میں ان کا خیال تھا بچہ اپنی دلچسپی سے راغب ہو ،،، اور دوسرے یہ کہ ایک سخت مذہبی گھرانے سے تعلق کی وجہ سے انھوں نے نماز روزہ کو سختی سے کرواتے دیکھا تھا جس کا ان پر ری ایکشن بھی تھا۔ خیر ان سہیلیوں سے مقابلے میں پہلے ایک آدھ اور پھر پانچوں وقت  نماز کی عادی ہوئیں ، اور آج بھی ہم نماز کی رغبت کے لۓ اس گھرانے کے لۓ دعا گو ہیں ،اپنی سہیلی سے میں نے روٹیاں بنانی بھی سیکھیں ،،، اماں جی نے اپنی جوانی میں گھر کے خوب کام کۓ تھے وہ ان کاموں سے زیادہ ہماری توجہ پڑھائی پر چاہتی تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ گھر کے کاموں کی طرف کرنے کو نہ سراہتیں ۔ ہم نے جو کچن کا کام سیکھا ، اپنی مرضی اور خوشی سے سیکھا ۔ ،،، اماں جی کی ایک ہی خواہش تھی میری بیٹیاں خوب پڑھی لکھی ہوں ، میں تو کبھی لائق سٹوڈنٹ نہ رہی لیکن میری چھوٹی بہن عذرا جوجی لائق رہی ، وہ ہمارے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے ایم۔ایس ۔سی ( باٹنی) کیا لیکن افسوس اس کا رزلٹ اماں جی کے انتقال کے بعد آیا ۔ اور میں صرف بی، اے کر سکی ، اور بعد میں بی ایڈ کرلیا لیکن ،،، اماں جی آج ہوتیں تو بہت خوش ہوتیں کہ ہم دونوں مل کر 26 سال سے ایک کامیاب سکول چلا رہی ہیں۔
اباجی کے ایک انسپکٹر صاحب تھے ، راجہ اشرف ! بےحد ایماندار ، سادہ دل ، سادہ مزاج ،،، اور اباجی کو اپنا آئیڈیل سمجھنے والے ، ان کے ماشا اللہ چھے بیٹے اور ایک بیٹی تھی ، وہ جوجی کی کلاس فیلواور پھر سہیلی بھی بن گئی ،،،، ( ،1967۔1966) انہی دنوں جب صدر محمد ایوب کے خلاف بھٹو صاحب نے تحریک چلا رکھی تھی ، اور طلباء میں یہ تحریک بہت مقبول ہو چکی تھی ۔ جگہ جگہ مظاہرے کیۓ جاتے ، واہ کینٹ میں بھی طلباء یونین بہت فعال تھی ، اباجی بطورِ چیف سیکیورٹی آفیسر ان ہنگاموں کو کنٹرول کرنے کے ذمہ دار تھے ،،،، ان کا سارا سٹاف ان دنوں ہر لمحہ ڈیوٹی پر ہوتا ، اور ایک دن لڑکیوں کے سکول میں بھی لڑکوں کی یونین کاآرڈر آیا، آج کلاسز نہیں ہوں گی اور باہر نکلنا ہے ، جوش سے سب کا برا حال تھا ، فوراً جھنڈے اور بینر تیار ہو گئے اور دبنگ یونین ممبرز نے گیٹ کھلوا لیا،اور قافلے چل پڑے،ہماری کسی ٹیچر نے ہماری حوصلہ افزائی نہیں کی اور پرنسپل صاحبہ تو تھیں ہی بہت ڈسپلن والی ! نیز وہ لڑکیوں کی اتنی آزادی کی قائل بھی نہیں تھیں ،،،، اب جب قافلہ " زندہ باد اور مردہ باد " کے نعرے لگاتا واہ کی مال روڈ پر سے گزرا تو پتہ چلا میجر صاحب کی صاحب زادیاں بھی آگے آگے تھیں !،،،،،، یہ دلچسپ صورتِ حال تھی۔
رات کو " راجہ صاحب " اپنی اکلوتی ، لاڈلی بیٹی بلقیس کے ساتھ ہمارے گھر آۓ ،اور ڈرائنگ روم میں ہم دونوں کو بھی بلایا گیا ،،،اور مزے کی بات کہ اس وقت تک اباجی نے ہمیں کچھ نہیں کہا تھا،(شاید ،راجہ صاحب کے ساتھ یہ  منصوبہ بنا ہو گا) راجہ صاحب کو ہم چاچا جی کہتی تھیں ۔ ان کی محبت اور سادگی کا انداز ملاحضہ کریں ۔ " بیٹا جی ، آج مجھے بہت شرم آئی جب ہماری ہی بیٹیاں ، ہمارے ہی خلاف نعرے لگا رہی تھیں اور ہمارے لۓ مشکلات پیدا کر رہی تھیں ! اب تم وعدہ کرو کہ آئندہ کسی جلوس میں شرکت نہیں کروگی ،، " بلقیس منہ بُسور کر بیٹھی ہوئی تھی اور ہم دونوں بہت نارمل طریقے سے انھیں دیکھ رہی تھیں ،،، کہ جب انھوں نے کہا وعدہ کرو تو ہم نےکہہ دیا " جی وعدہ ہے ! تب انہوں نے کہا نہیں " کعبے کی طرف منہ کرو اور کلمہ پڑھ کر وعدہ کرو " بلقیس کے لۓ یہ صورتِ حال شاید نارمل تھی لیکن ہم دونوں کے لۓ ہنسی روکنا مشکل ہو رہا تھا ، بلقیس نے فورا" کلمہ پڑھا ، منہ بھی کعبہ کی طرف کیا ،،،، ہم دونوں نے منہ تو کعبہ کی طرف کر لیا ، لیکن کلمہ پڑھنا ہمارے لۓ اتنا محال ہوا ،،، کہ کچھ دیر کی کوشش کے بعد " اشرف چاچا " ہمیں چھوڑ کر باہر لان میں کھڑے اباجی کے پاس چلے گۓ اور انھوں نے بتایا " صرف ایک ممبر نے کلمہ پڑھا ہے باقی سے کامیابی نہیں ہو سکی """ یہ بیان اتنا سرکاری قسم کا تھا کہ اباجی بھی ہنس پڑے اور بات آئی گئی ہو گئ لیکن یہ لطیفہ مدتوں ہمارے گھر چلتا رہا ،،،،،،،،،،،،، میں سمجھتی ہوں ، دیانت دار اور سادہ لوح لوگ اس معاشرے کے سرسبز درخت ہوتے ہیں ، ان کی سادگی ہی انھیں یادگار بنا دیتی ہے ، اور یہ دیکھۓ کہ اپنی نہایت لاڈلی کو وہ ساتھ لے کر آۓ اس سے قسم پہلے اُٹھوائی ۔۔۔ کیا ہم آج اپنے بچوں سے اس قسم کے وعدے لے سکتے ہیں !! بلکہ شاید کسی بھی قسم کے وعدے لینے کے قابل نہیں ہیں ۔
بالکل ایسی ہی ایک دوستی کی  داستان اپنے اسی پنڈی والے گھر کے پڑوسیوں سے جڑی ہے ،،، ( مجھے وہ گھر ہمیشہ یاد آتا ہے بلکہ پہلےپہل تو لگاتار اگر کوئی خواب دیکھوں تو یہی گھر خواب میں بھی آتا رہا ، سلسلہ اب مسلسل نہیں رہا لیکن ٹوٹا نہیں ) اس کے ایک جانب بہت خوشحال کاروباری گھرانہ تھا، ان کے بھی ایک بیٹی اور بیٹے ماشا اللہ پانچ تھے ،اس گھر سے بہت ہی پرانا تعلق یہ تھا کہ آپاکی بچپن کی سہیلی ، اس گھر کے سربراہ کی بہن تھیں ، ثرُیا باجی بھائیوں کی لاڈلی اور سب بہن بھائیوں سے چھوٹی تھیں ! شاید یہ محبت بھی درمیان میں تھی اور دوسرے ، اسلم چاچاجی کی اپنی ایک بیٹی مصباح ان کی آنکھوں کا تارہ تھی ۔ مصباح اور جوجی ہم عمر اور خوب سہیلیاں تھیں ، لیکن چوں کہ اسے اپنے اکلوتے ہونے اوربات منوانے کی عادت تھی اس لۓ کھیل کے دوران اگر اختلافِ راۓ ہو جاتا ۔ تو کافی شدید جنگ ہوتی اور وہ رُوٹھ کر فوراً یہ اعلان کرتی ہوئی جاتی ، میں آئندہ زندگی بھر تم سے نہیں کھیلوں گی ،،، جوجی اور میں نے کبھی سہیلیوں کی کمی کو بہت زیادہ محسوس نہیں کیا کیوں کہ ہم آپس میں اچھا وقت گزارنے کی عادی تھیں ۔،،، مصباح کی یہ رات گزر جاتی ، اس کے ابو رات کافی دیر سے گھر لوٹتے تھے ، ان کا کپڑے کی اچھی چلتی دکان تھی ،، جسے بند کرکے آنے میں دیر ہو جاتی ، صبح ناشتے پر باپ بیٹی کی ملاقات ہوتی اور منہ بسُور کر پچھلے دن کی لڑائی کا احوال بتایا جاتا ،،، اسلم چاچا کو بھی پتہ تھا میری بیٹی کی اور کوئی سہیلی تو ہے نہیں ، اور نہ وہ کہیں اسے بھیجتے تھے ،،، اس لۓ اسی رات گۓ ، ہمارا دروازہ بج رہا ہوتا اوراسلم چاچا جی کے ہاتھ میں کبھی کلوآدھ کلو کا جلیبیوں کا لفافہ اور کبھی کبھار ( لڑائی کی شدت پر منحصر ہوتا(: ) ایک لفافہ تازہ سموسوں کا بھی ہوتا" ،،، " پُتر ،،، مصباح تے جوجی نوں کینڑا ں ، کل اکٹھے بہ کے کھاونڑ "۔
یہ اتنا میٹھاس بھرا پیام ہوتا کہ جوجی کو دوستی کرنا ہی پڑتی ،،،،،، ایسا مدتوں چلتا رہا ، بھائی جان کو جب اس " لڑائی اور خاتمے کے طور پر مٹھائی کا قصہ معلوم ہوا تو انھوں نے خوب مذاق اُڑایا کہ "دراصل جب جوجی کا جلیبیاں کھانے کادل چاہتا ہے تویہ لڑائی وقوع پزیر ہوتی ہے " بلکہ بھائی یہ بھی کہتے بھئ " آج جلیبیاں کھانے کو دل چاہ رہا ہے کیا خیال ہے ہو نا جاۓ لڑائی
،،،،،! اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی لیکن پیار بھری لڑائیاں کرتے ہم بڑے ہو گۓ اور مدتوں بعد معلوم ہوا مصباح کی شادی ہوئی چار بچے ہیں لیکن گُردوں کی بیماری سے پریشان ہو کر مستقلاً امریکہ چلی گئ ہے اور اب ڈائیلسز پر ہے ۔ اللہ اسے صحت کاملہ عطا فرماۓ۔آمین ۔ 
ہمارے گھر کے دوسری جانب، ہمارے رشتہ دار رہتے تھے بلکہ اس انتہائی چھوٹے سے گھر کے اُوپری حصے میں وہ دونوں میاں بیوی اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتے اور چونکہ وہ مالی لحاظ سے انتہائی کمزور فیملی تھی اور رشتہ داری بھی تھی ، تو اماں جی نے اپنے فرائض میں خودبخود اضافہ کر لیا اور ان کے لۓ اس گھر سے محبت اور مدد دونوں ملیں ،، ان کے بڑے بیٹا بیٹی تو نارمل تھے لیکن چھوٹا بیٹا ہر وقت بیمار رہنے والے، اور ذہنی  طور پر بھی کچھ پیچھے  تھا ۔ اس کے منہ میں ہر وقت چھالے نکلے رہتے اس لۓ اول تو اس کی غذا مخصوص ، اور بہت کم تھی ،،، اور کھاتا بھی توصرف میٹھی چیزیں ۔ ہمارے گھر اماں جی کی زندگی میں ہمیشہ بھینس رہی، اس لۓ دودھ، مکھن، یا دیسی گھی وافر ہوتا ،،، ہم سب اس بچے کو جوہم سے چھوٹا تھا ، " لُو لُو " کہتے تھے ، صبح ایک نرم دیسی گھی کا پراٹھا اس پر مزید مکھن یا دیسی گھی ، ساتھ ایک چمچ شکر ڈالی جاتی ،،، اور اب رات تک لولو کے لۓ یہ پراٹھا کافی ہوتا وہ اسے کُتر کُتر کر کھاتا رہتا۔ اور مزے کی بات کہ اسے کوئی ڈانٹ نہیں سکتا تھا کہ اماں جی کا کہنا ہوتا ،، یہ تو اللہ لوک ہے بس اس سے دعا کروایا کرو ،، جب بھی ہمارے سکول کے نتیجے کے دن آتے ہم اسے دعا کے لۓ کہتے اور پوچھتے " لولو ، ہم پاس ہو جائیں گی وہ کہتا ہاں ،ہاں ،،، جب اس کی اپنی اور اسکی کزن کا پوچھتے تو واقعی جس کا کہتا کہ یہ فیل ہے تو وہ فیل ہوتی اور جس کا کہتا یہ پاس ،، تو وہ پاس ہوتی ، ایسا اس کی بہن اور کزن کا زِگ زیگ چلتا رہتا لیکن 90 فیصد اس کا کہنا صحیح ہوتا ۔ لُو لُو کبھی سکول نہ گیا کیوں کہ اس کی زبان بھی کسی کی سمجھ میں نہ آتی ، اور صحت بھی ایسی نہ تھی ، حتیٰ کہ وہ قرآن بھی نہ پڑھ سکا ۔ اماں جی کے ہمدرد رویے سے اسے اُنسیت بھی تھی شاید انہی کے حوالے سے وہ ہم سے بھی پیار کرتا ۔ اسکے والدین اتنے سادہ اور توکل والے تھے کہ انھیں اپنے بچوں کے مستقبل کی کوئی فکر نہ تھی ، اس خاندان میں چھوٹی عمر میں شادیاں کر دی جاتیں ،، بڑے بھائئ نے میٹرک کر لیا تو فوج میں بھرتی ہو گیا ، یہ سب تو اسی گھر میں رہے لیکن ہم واہ کینٹ  آچکے تھے ، بڑے دونوں بہن بھائی کی جلد ہی شادی کر دی گئی ،،، ظاہر ہے لُو لُو کسی کھاتے میں نہ تھا ،اسے کوئی ہُنر بھی نہ آتا تھا ، انہی کےرشتہ داروں میں سے ایک فرد " دُبئی " گیا تو اس نے بہت سے اپنے غریب رشتہ داروں کو بُلایا ،آخر ایک وقت آیا کہ لولو ، اچھے قد بت کا جوان ہو گیا ، اب اس کی زبان صاف ہو گئئ تھی اور وہ اردو بھی بولنے لگ گیا ۔ اسی دوران اس رشتہ دار نے بطورِ چپڑاسی ویزہ لگوایا اور دبئی بلوا لیا ،، زیادہ تر وہ ان کے گھر کا ملازم رہا لیکن بنک کے چپڑاسی کی حیثیت سے اس کی جاب رہی، یہ چیز ادھر رکھ دو ، اسے پانی پلا دو وغیرہ جیسے آسان کام کرتا رہا ، دُبئی  کے پیسے کی ویلیو تو تھی ،، گھر کی غربت دور ہونے لگی ، اس دوران ماں نے اپنی بھانجی سے شادی کرا دی ،،، اور 20 ،22 سال گزر گۓ ،،،،،، ایک دفعہ میرے بیٹے کا ایک دوست آیا اور بتایا " میرا بیٹا بہت سخت بیمار ہو گیا علاج کے ساتھ ساتھ دعا بھی کرواتا ، وہاں ایک بندہ ہے مجھے اس پر بہت اعتبار آگیا ہے وہ لیتا کچھ نہیں ، راستے میں کہیں مل جاۓ تو راہ چلتے دعا کے لۓ کہہ دیں تو اسی وقت دعا کر دے گا، اس کے گھر چلے جائیں تو وہاں دعا کر دے گا ،، با لکل بےغرض ہے ، کچھ دو بھی تو نہ کر دیتا ہے ، عجیب بات ہے جب میں نے اسے بتایا میں واہ سے آیا ہوں تو اس نے آپ سب کے نام لینا شروع کر دیئے ، کیا وہ آپ کو جانتا ہے ؟ میں نے اسے بتایا وہ ہمارا عزیز ہے اور ہم اس سے بچپن سے دعا کرواتے آۓ ہیں ۔وہ " سب سے کم ذہن والا جس کے پاس نہ علم تھا نہ ہنر ، لیکن رازقِ حقیقی نے اسے اتنا رزق دیا کہ اس نے اپنے دو گھر بنا لۓ ہیں ایک کراۓ پر اور ایک میں خود رہتا ہے ۔ اپنے باپ کی دفعہ تو نہیں ، کہ اس وقت اس نے ہاتھوں کی خدمت کی ، لیکن بعد میں دبئی  چلا گیا تو ماں کے دل کو جیتا ، علاج میں ، گھر کی سہولتوں میں کوئی کمی نہ رکھی۔
زندگی کی سٹیج پر چند سین گزرتے چلے جاتے ہیں اور پھر آخری سین قدرِ لمبا ہو جاتا ہے ،،،، لیکن کس نے کس انجام تک جانا ہے ،،، بس وہی رب حیران کر دیتا ہے ! ،،،،کسی پڑھے لکھے ماں باپ کے گھر ایسا کمزور فہم بچہ پیدا ہو جاۓ تو تفکرات کا پہاڑ روزانہ سَر کیا جاتا ہے اور روزانہ اس کے لۓ منصوبہ بندی  کی جاتی ہے ،،، ہم اللہ کی  منصوبہ بندی پر انحصار کرنے میں تامل کا شکار رہتے ہیں ،،،،۔
( منیرہ قریشی 23 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

جمعہ، 22 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں "(16)

یادوں کی تتلیاں "(16 )۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مسز رحمان کی شخصیت، سے متعلق جُڑا کیا تفصیلی ماضی تھا ، میں خود بھی ناسمجھی کی عمر میں تھی اور اماں جی نے تو کبھی ذاتی ملاقاتیوں کو " ڈسکس" نہیں کیا ، البتہ وہیں پنڈی کے قیام کے دوران جب کچھ اور وقت گزرا ،اور انکے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے ملاقاتیں رہیں جو ہمارے ہی محلے میں ، اپنی سہیلیوں سے کبھی کبھار ملنے آجاتیں اور ان کے ساتھ ان کا کبھی چھوٹا کبھی بڑا بھائی ہوتا،،، جب پہلی مرتبہ ہم ان بھائی بہنوں سے ملیں ۔ توہم تو گھوم کر رہ گئیں۔اتنے ماڈرن، فر فر انگلش ، جدید لباس لیکن بہت کھلےڈُلے انداز میں ہم سب سے ملے،پندرہ بیس  منٹ کی یہ ملاقات شاید اپنی والدہ کی فرمائش پر کی گئی۔ وہ سب ایک ہی وقت میں بول رہے ہوتےتھے ، اور پھر بہت خوشی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ خدا حافظ کر کے چلے گئے۔ اس دن ان کی والدہ ساتھ نہیں تھیں ، ، ،ہم سب کے لۓ یہ نیا تجربہ تھا کہ ماڈرن ترین کچھ جوان ، کچھ نوجوان اولادیں ، بہرحال محبت ، خوش دلی ، اور اپنائیت کا مظاہرہ ،بہت قدرتی لگا ۔ ان میں سے بڑی بہن اور ایک بھائی خوب صورت اور باقی تینوں درمیانے تھے۔
مسز رحمان ، وقفے وقفے سے آتی رہیں لیکن ہمارے واہ  کینٹ آجانے سے وہ ایک مرتبہ آئیں وہ بھی بڑی بیٹی کی شادی کا کارڈ دینے ۔لیکن وہاں شرکت نہ ہو سکی۔ بس مسز رحمان وہی آخری مرتبہ آئیں ۔۔۔ اس کے بعد سننے میں آتا رہا کہ باقی بچوں کی شادیوں سے فارغ ہوتی رہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ بیمار  اور ڈیپریشن کی مریض بنتی جا رہی ہیں ،،، ایک وقت آیا اماں جی کا انتقال بھی ہو گیا ،،، اور مسز رحمان کا باب بالکل ہی بند ہو گیا ،،،، کئی سال گزر گئے ہماری بھابھی کی بڑی بہن زندگی کو نئے سرے سے گزارنے لگی تو ، پتہ چلا اس کا خاوند مسز رحمان کا داماد تھا ، اور تب معلوم ہوا کہ وہی خوبصورت بیٹی اور بیٹا ایک خوفناک ایکسیڈنٹ میں ختم ہو گۓ۔تھے،، اس حادثے نے ان کے رہے سہے اعصاب ہلا ڈالے ، اور ان کی زندگی ایک کمرے تک محدود ہو گئی ، اور ان کی تمام تر خدمت اسی " مخنث "کے حصے میں آئی۔ اپنے بچوں کی مصروف زندگی ،،، سے  تو وہ جیتے جی نکل گئی تھیں ! ان کے شوہر  بچوں کے حادثے سے کچھ ہی عرصہ پہلے فوت ہو چکے تھے ! باقی زندگی وہ یادسے بےگانہ ہو گئیں تھی  ،،،،،،،، شاندار لوگ کس انجام سے دوچار ہوں گے ،،، اللہ ہی جانتا ہے!۔
راولپنڈی کے قیام کے دوران کی یادوں میں ایک پختہ عملی ٹریننگ غیرمحسوس انداز سے ہوتی رہی وہ تھی "اگر آپ دوست بنا بیٹھے ہیں تو ، مذہب ، نسل ، فرقہ ، زبان کو درمیان میں نہیں لانا ،،،، اباجی کا پاکستان بننے سے پہلے برٹش آرمی میں سوڈان ، مصر ، شام کی طرف رہنے کا اتفاق ہوا تو ان کے حلقۂ دوستی میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے ! پاکستان بننے کے بعد اپنے ملک کے ہر صوبے میں انکے دوچار دوست تو تھے ہی ، لیکن انکے مخلص دوستوں میں عیسائی  لوگ بھی تھے ، جن میں  ایک ڈاکٹر میکالے ،، تھے جو اینگلو انڈین کرسچئن تھے ، صاف رنگ ، صھت مند،،اور بلند آواز سے بولنے کے عادی تھے ،، ہمارے گھر کی ایک گلی چھوڑ کر سڑک تھی جو آگے جا کر دائیں طرف جائیں تو ان کا کلینک تھا اور بائیں طرف یہ سڑک ہمارے سکول اور پھر پنڈی کے مشہور " گارڈن کالج " پر ختم ہو جاتی تھی ،،،، گھر میں ذرا کوئی بیمار ہوتا، اباجی نے ان کو بتا رکھا تھا کہ میں اکثر گھر پر نہیں ہوتا ، اس لۓ گھر سے کوئی فون کسی بھی وقت آۓ آپ نے فورا" پہنچنا ہے ،،، اور ایسا ایمرجنسی کا موقع اماں جی کی وجہ سے دو دفعہ ہی آیا ،، البتہ ہم دونوں بہنوں یا گھر آۓ مہمانوں کی طبیعت بھی خراب ہوتی تو نہایت خوش دلی بلکہ بہت اُونچی آواز میں خیریت پوچھی جاتی ،، دوا دی جاتی ، " اصغر " جو ان کا ڈسپنسر انچارج تھا ،کو مسلسل آوازیں دی جا رہی ہوتیں ، پورا کلینک ،،،،ان کی خوشدل آواز سے گونج رہا ہوتا۔ کلینک میں رش ہوتا ، کیوں کہ وہ ایک نہایت ، ہمدرد ، شفیق اور قابل ڈاکٹر تھے ۔،،، جیسا کہ اکثر بڑے ،،، بچوں سے پوچھتے ہیں " بڑے ہو کر کیا بننا ہے " ،،، تو میں تو اکثر کہتی " میں ڈاکٹر میکالے بنوں گی " ،،، یہ ان کی پُراثر اور دبنگ شخصیت کا اثر تھا ، ان کی ایک بیٹی کی تاریخِ پیدائش اور میری ایک ہی تھی ، اس لۓ جب مجھے ملتے " او ،، توں تے میری دھی والی ایں " ،،، وہ سب سے پنجابی میں بات چیت کرتے ،، اور اتنی اپنائیت سے کہ ہر مریض سمجھتا ، میں ہی ان کا پسندیدہ ہوں ،،، ڈاکٹر اُس زمانے میں بھی مصروف تھے ، اُس دور میں بھی بدمزاج یا لیے دیۓ انداز والے ہوتے تھے ،، لیکن جس نے خوش اخلاقی اپنانی ہے وہ ہر حال میں اپناۓ گا۔ان کی بیگم بھی ڈاکٹر تھیں لیکن وہ پنڈی کے مشہور" ہولی فیملی ہاسپٹل " میں تعینات تھیں ! کبھی گائنی  کے مریضوں کو دکھانا ہوتا ، ان کے آپریشن کروانے ہوتے ، مسز میکالے حاضر، ہمیشہ پورا پورا تعاون کیا ،، حالانکہ وہ خاموش طبیعت خاتون تھیں ، میں نے جب دیکھا ساڑھی میں ، بالوں کاذرا سا اُونچا جُوڑا ، بہت ہی سمارٹ ، بلکہ دُبلی تھیں ،، جبکہ ڈاکٹر صاحب اچھے صحت مند انسان تھے ،،، ہر عید پر صبح سویرے ہمارے گھر کی گھنٹی زور زور سے بجتی ،،،وہ جانتے تھے ان کا دوست اکثر گھر نہیں ہوتا ،اس لیے باہر سے ایک دبنگ آواز آتی ،،، او بچیو،، عید مبارک ہوے ،، اے پھڑ لو " اتنے میں نذیر اردلی جلدی سے باہر جا کر ایک خوب بڑا کیک کا ڈبہ پکڑ لاتا ، اگر اباجی وہ عید گھر پر منا رہے ہوتے تو یہ کام وہ ہی کرتے ، دونوں میں علیک سلیک ،،، اور وہ ہوا کے جھونکے نہیں ، بلکہ آندھی کی طرح آتے اور چلے جاتے ! اب کرسمس کا دن آگیا تو اباجی نے ہمیشہ ان کے لۓ " خان پور کے ریڈ بلڈ" مالٹے کا "توڑا "منگا کر رکھنے اور اس دن ان کے گھر خود پہنچاتے ، اماں جی ان کی بیگم کے لۓ بھی ضرور کوئی تحفہ بھیجتیں ، بقول ان کے انھیں آپ کا تحفہ ہمیشہ پسند آتا ہے۔اگر اباجی کرسمس پر موجود نہ ہوتے تو آنے کے بعد یہ رسم ضرور نبھائی جاتی۔یہ محبتیں ان کے پاکستان سے انگلینڈ شفٹ ہونے تک رہیں لیکن کارڈوں کا تبادلہ ، ڈاکٹر صاحب کی زندگی تک چلتا رہا۔ مجھے ان کرداروں کو یاد کر کے عجیب سی خوشی ہو رہی ہے کہ ہم نے اپنے دور میں "انسانیت کے مفہوم" کو ایسی بےلوث ، ہمدرد ، ہستیوں کی شکل میں دیکھا ، کاش "اقدار" کا اپنی زندگیوں سے نکلنا اتنا معمولی نہ سمجھا جاۓ ،،، آج یہ سب اس دائمی جگہ جا چکے ہیں جہاں ان کے بہترین اخلاق کے اجر بٹ رہے ہوں گے۔
اسی قصےسے جُڑی اپنے ماں باپ کی انسان دوستی کی یادیں بھی یاد آگئیں۔ہماری بڑی پھوپھی جی (جو اس وقت جوان تھیں اور تین بچوں کی ماں تھیں)  ایک پیچیدہ گائنی مسئلے سے دوچار ہوئیں ، وہ لاہور سے بھائی کے پاس آگئیں تاکہ ان کی دیکھ بھال بھی ہو سکے گی اور بچے بھی خوش رہیں گے۔مسز میکالے سے رابطہ کیا گیا ان کے تمام تر ٹسٹ ہوۓ اور ان کا آپریشن ہوا یہ دورانیہ 20 ،22 دن تک رہا اس دوران ، اماں جی تو ہاسپٹل رہ نہیں سکتی تھیں اس لۓ فیملی کی ایک خاتون ایٹنڈنٹ بھی وہیں رہیں ،،، ان دنوں "شریف"اردلی کی ڈیوٹی یہ بھی لگ گئی کہ دوپہر  اور پھر رات کے کھانے کا ٹفن مریضہ تک پہنچانا ہےاور شریف اپنی سائیکل پر اتنے ٹھیک وقت پر پہنچتا کہ ایک دن اس وارڈ کی باقی خواتین نے کہا ، کتنی ذمہ دار اور اچھی بھابھی ہے تمہاری ،، ہم تو اردلی کو دیکھ کر گھڑیاں ٹھیک کرتی ہیں ،،،،،یہ ہاسپٹل ہمارے گھر سے قریباً تین میل دور تھا ۔( یہ واقع آپا نے بیان کیا تھا ) ،،،،،۔
اماں جی فوت ہو گئیں تو انکے لۓ دعا اور افسوس کے لۓ مہینوں لوگ آتے رہے،اس دوران ہمارے گاؤں سے ایک عزیزہ آئیں وہ کافی دیر بیٹھیں ، جب ذرا رش کم ہوا تو کہنے لگیں ،"تم تو اس وقت چھوٹی تھیں تمہیں تو یاد بھی نہ ہوگاتم لوگ پنڈی میں رہتےتھے تو ان دنوں میں شدید بیمار ہو گئی ، ہم بہت غریب تھے، علاج کروانا ہمارے بس کی بات نہیں تھی ،سب کی صلاح سے ہم ظفر کے گھر آ گۓ ، میرے ساتھ میری بہن بھی تھی ، ظفر نے ڈاکٹر میکالے کی بیوی سے بات کی ، اور تمہاری امی تانگے پر ہمیں لے گئیں۔ داخل کروایا ،، میرا کیس اتنا پیچیدہ تھا کہ میں دو ماہ اسپتال رہی اور تم لوگوں کے گھر مزید دو ماہ تک رہی تمہارے ماں باپ نے ہمارا ایک پیسہ نہیں لگنے دیا ۔ میں جب اپنی صحت دیکھتی ہوں ، میں ان دونوں کے لۓ اور ان کی اولادوں کے لۓ دل سے دعا کرتی ہوں " ،، میں نے تو یہ سن لیا اور پھر آپا کو بتایا کہ آج انہوں نے جو بات بتائی مجھے تو آج پتہ چلی ہے ،، آپا کہنے لگیں ،"یہ ہمارے خاندان کے سب سے غریب اور نہایت سادہ ممبرز ہیں جنھیں کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن ان کی حالت کے پیشِ نظر باقی اخراجات تو اباجی نے اُٹھاۓ جب کہ مسز میکالے نے اپنی کوئی فیس نہیں لی۔یہ بھی ان کا بڑا پن ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھ کی گئی نیکی کا ذکر کیا اور یاد رکھا ورنہ تو ،،،،،،  ہمارے والدین " نیکی کر دریا میں ڈال " کے محاورے پر کافی عمل کرتے رہے ،، رہے نام اللہ کا!!!۔ 
( منیرہ قریشی 22 ستمبر 2017ء واہ کینٹ) (جاری)

بدھ، 20 ستمبر، 2017

" یادوں کی تتلیاں " ( 15)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 15)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
میرا بچپن ویسا ہی گزرا جیسے سبھی خوشحال مڈل کلاس کا ہوتا ہے ، اصل فرق ، ان گھرانوں کی سوچ ، اقدار اور اُصولوں پر عمل درآمد پر ہوتا ہے اور میں جب اپنے بچپن پر نظر ڈالتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اگر " گھر کی ماں " کی سوچ باشعور ہو  اور اس ماں کا فوکس بچوں کی تعلیم ، اور ان کو خاندانی سیاست سے دور رکھنا ہو، ان کی صحبتوں پر نظر ہو تو وہ گھرانہ اوروں کی نظر میں نمایاں ہوتا ہے ۔ اماں جی نے ہمیں، کتابوں کی طرف تو لگا ہی دیا تھا ، ایک اور کام کی طرف بھی دلچسپی اُبھاری ، وہ تھی " ڈرائنگ " ! شامیں لمبی ہوتیں تو ریڈیو سننے کے علاوہ کہا جاتا ،،، یہ جگ اور گلاس میز پر پڑا ہے اسکی تصویر بناؤ ، یا پھولوں بھرا گلدان رکھا ہے یہ بناؤ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم دونوں بہنوں کی ڈرائنگ ، اپنی ہم جماعتوں میں سب سے اچھی رہی۔ اور جب ہم نے اپنا سکول چلایا تو اس وقت اپنی ڈرائنگ بہت کام آئی ۔
ہمارے گھر میں بھوپال کی سید خواتین نے آنا شروع کیا تو ہم نے بھی ان کے لہجے کو غیرمحسوس طریقے سے اپنانا شروع کر دیا ۔ہماری اردو اتنی صاف ہوگئی کہ اکثراجنبی لوگ ہمیں " اہلِ زبان " سمجھتے ،،، اور خاص طور پر جب ہم واہ کینٹ  آۓ تو حسبِ معمول اماں جی تو کہیں آتی جاتی نہیں تھیں ،انہی سے آس پاس کی خواتین ملنے آنے لگیں ! اور خاص طور پر ہمارے انٹر میڈیٹ کالج ( اس وقت ،، بعد میں ڈگری کالج بن گیا ) کی باوقار ، ڈبل ایم۔اے ، اور انتہائی رکھ رکھاؤ والی ، جو ہمیشہ ساڑھی میں ملبوس ہوتیں ،،پرنسپل مسز انیس زیدی ، دوتین مرتبہ ہمارے گھر آئیں ،،، آخر ایک دن پوچھ لیا " مسز ظفر آپ انڈیا سے سی۔پی سائڈ کی ہیں یا یو۔پی کی طرف کی ،،،، اماں جی ہنس پڑیں اور جب انھیں بتایا کہ میں تو چند میل دور ٹیکسلا سے تعلق رکھتی ہوں تو وہ حیران رہ گئیں۔
۔( نوٹ : "مسز انیس زیدی"۔۔۔میرا زمانہ 64ء سے ہے اور مسز زیدی اس سے بھی تین چارسال پہلے کی پرنسپل بن چکی تھیں ،،، اور 1975،76 ء میں وہ  ریٹائر بھی ہو گئیں ،،، پھر وہ ساری فیملی کراچی سیٹل ہو گئی،ان کے سب ہی رشتہ دار وہیں تھے۔ان کے تین بیٹے تھے، زیدی صاحب پہلے انتقال کر گۓ اورمسز زیدی کا ایک ،دو سال پہلے انتقال ہوا ۔۔۔ باوقار ٹیچرز کے ایک ہی جیسے" گیٹ اپ"ہوتے تھے ! لیکن مسز انیس زیدی کو ہم طالبات نے ہمیشہ ساڑھی میں دیکھا ،،، ایک سے  بڑھ کر  ایک ساڑھی ،،،اوراس سے زیادہ ان کے باندھنے کا انداز ا نتہائی باوقار تھا ،،، بہت ڈھیلےڈھالے طریقے سے ، پلو اپنے جسم کے گرد لپیٹ لیتیں ! ان کے ہیل کی جوتی کی ٹک ٹک ہماری کلاس تک دو کلاس پہلے تک آنے لگتی اور ہم سب بہت مہذب بن کر بیٹھ جاتیں ،،،، وہ اتنی مہذب اور رکھ رکھاؤ والی تھیں کہ کسی کو ڈانٹتے وقت بھی غلط الفاظ ان کے منہ سے کسی نے نہیں سنے ! اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے  آمین،،،، ہم خوش قسمت نسل تھے جن کو زیادہ تر ٹیچرز ، کردار سازی والی ملیں)۔
میرا آج بھی یہ خیال ہے کہ ہماری شین قاف کی درستگی اسی خاندان کے ملنے ملانے سے درست ہوئی۔عارفہ آپا کی جاب کو کچھ اورسال گزر گئے،، ان کے والد کی بہت خواہش تھی کہ ان کی شادی ہو جائے لیکن اس باکردار ، بہادر لڑکی نے صاف کہہ دیا جب تک بہن بھائی کسی  مقام پر نہیں پہنچ جاتے میں شادی نہیں کروں گی ! یا اس شخص سے کروں گی جو ہمارے ساتھ رہے ! میں بیاہ کر نہیں جاؤں گی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نیت کی سچائی کو قبول کیا ،، اور ایک ایسا شخص ان کے گھر تک اسی خیال سے کسی کے ریفرنس سے پہنچ گیا جو خود بھی اب دنیا میں اکیلے ہی تھے ، بلکہ بہت اچھے خاندان سے تعلق بھی رکھتے تھے، ان کا نام حبیب درانی تھا ، اور وہ اس زمانے میں مغربی پاکستان کے گورنر کے جہاز کے" نیوی گیٹر " تھے۔اور ان کی مزید چھان بین کے لۓ اباجی کو کہا گیا ۔جب سب او۔کے ہو گیا تو صرف آٹھ دس لوگوں کونکاح کی تقریب میں بلایا گیا ! شادی ہوگئی۔کچھ اور سال گزرے اور میری ہم عمر نسرین کی شادی،اپنی پھوپھو کے گھر ہوگئی ،، چند اور سال ہی گزرے تھے کہ انکے والد فوت ہو گۓ، ان کے بھائی کو واہ کینٹ میں جاب مل گئی۔
 آپا کے اس دوران دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوا ،،، اب آپا کے میاں صدر پاکستان کے جہاز پر پوسٹ ہوگۓ، آپا کو ان کے ساتھ لاہور شفٹ ہونا پڑا تب وہ اپنی چھوٹی بہن کو بھی ساتھ لے گئیں ! اور یوں کاتب تقدیر نے دکھایا کہ آگے چل کر آپا کے تینوں بچے انتہائی خوشحال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بنے ،، بلکہ اکلوتا بیٹا سفیر بھی بنا ! ایک بیٹی ڈاکٹر بنی اور دوسری بھی کامیاب رہی ،،، آپا کی قربانیوں کا صلہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں تو دیا ، انشا اللہ آخرت میں بھی دے گا ! ۔
اسی طرح اماں جی جب پنڈی میں ہی تھیں تو ایک بریگیڈیئر صاحب کی بیگم ملنے آتیں تھیں۔جانے ان کی دوستی کہاں ہوئی، کیسے ہوئی !لیکن ہمارے شہری گھر میں ،، جہاں کی گلی میں ان کی بڑی گاڑی گھر کے دروازے تک نہ پہنچ پاتی تو وہ گلی کے سرے پر روک کر ، ،12 ،15 قدم چل کر آجاتیں ۔ ڈرائیور کو وقت کا بتا کر روانہ کر دیتیں ۔وہ  ایک نفیس اور رکھ رکھاؤ والی صاحبِ حیثیت خاتون تھیں ان کا سراپا میرے لۓ ہمیشہ پرکشش  رہا۔اچھے قد ، صاف رنگ اور ذرا دہرے بدن کی وہ 
 پُرکشش خاتون آجاتیں تو اس کامطلب ہوتا کہ اب اماں جی شام تک فارغ نہیں ! پہلے تو چاۓ پانی چلتا ،،، اور دوپہر کے کھانے کا وقت آتا تو اماں جی ، اردلی اور ماسی کو اشارہ کرتیں کہ ڈائیننگ روم میں برتن لگاؤ ،،، لیکن وہ صاف کہہ دیتیں ، میں کچن میں رکھےتحت پر بیٹھ کر کھاؤں گی۔اماں جی شاید ان کی نفسیات سے واقف ہو گئی تھیں ،، جب وہ اس چھوٹے کچن میں بیٹھ جاتیں تو جیسے کچن بھر سا جاتا ،،،میں اکثر بہانے بہانے ان کے پاس جا بیٹھتی۔ایک آدھ بات کر کے وہ اماں جی سے محوِ گفتگو ہو جاتیں ۔ان کے ہاتھ میں عین فیشن کے مطابق بہترین بڑا پرس ہوتا ،، اور ایک دفعہ جب میں وہیں بیٹھی ہوئی تھی۔ کہ وہ اماں جی کو پرس میں سے دو رومال نکال کر دکھا رہی تھیں (اس زمانے میں ٹشو پیپرز کا رواج نہیں تھا ، کم از کم ہماری طرف نہیں ) ،،، انھوں نے کہا " مسز ظفر یہ سفید رومال میں آنسو پونچھنے کے لۓ رکھتی ہوں اور یہ گلابی رومال ناک پونچھنے کے لۓ ،،،، مسز ظفر ، جب مجھے ڈیپریشن ہوتی ہے تو میں اسی طرح تیار ہوکر ، پر فیوم لگا کر ، ونڈو شاپنگ کے لۓ نکل جاتی ہوں اور میں ایک دو گھنٹے میں فریش ہو جاتی ہوں " ،،،! کبھی تو وہ لگاتار آتیں اور کبھی لمبا وقفہ ڈالتیں ،،، ایک دفعہ وہ آئیں اور بہت ناراض تھیں کہ میں نے آپ کو اتنی دفعہ بلایا لیکن آپ آج تک میرے گھر نہیں آئیں ،،،،،اماں جی نے جس دن کا وعدہ کیا ، وہ مجھے ساتھ لے گئیں ، ان کا گھرہمارے گھر سے پچیس منٹ کی ڈرائیو پر تھا ،،، وہ سول لائن کی کوٹھیوں میں سے ایک اچھی بڑی کوٹھی تھی۔ انہوں نے محبت سے پہلے ڈرائینگ روم میں بٹھایا لیکن چاۓ کے وقت ہمیں اپنے بیڈ روم میں لے آئیں ،،وہاں بھی ایک سائڈ پر کرسیاں میز لگا ہوا تھا ، اور کچن قریب ہونے کی وجہ سے جو تلی چیزیں آرہی تھیں خوب گرم اور لذیز تھیں ! اس دن ان کے گھر کے افرادِ خانہ میں سے کوئی نظر نہ آیا۔ البتہ ان کے خانساماں کو دیکھا جو ایپرن باندھے ہمیں چیزیں پیش  کر رہا تھا ، جب وہ چلا گیا تو مسز رحمان نے بتایا یہ خانساماں کئی سالوں سے ہے اور یہ مخنث ہے ، صرف ہر منگل کو رات اپنے گھر چلا جاتا ہے۔ اپنا گانا بجانا کر کے آ جاتا ہے !!!!!ایک مدت گزر گئی اور آج ہم ایسے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں بولڈ ہو جاتی ہیں، تو ہمارے ماضی کی کتاب میں بہت سے کرداروں کے اثرات بھی ہیں ۔ جن کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔
( منیرہ قریشی 21 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

منگل، 19 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں*(14)

یادوں کی تتلیاں" (14)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ابھی میں کچھ پھرپیچھے جاؤں گی ، ہمارا پنڈی کا گھر ، جو ایک قدرے کھلی گلی میں ، شہر کے عین درمیان  واقع تھا ۔اس کا نقشہ بہت خوب صورت تھا حالانکہ وہ بہت کم رقبے پر بنا ہوا تھا ، شاید 7 ، یا 8 مرلے پر ! داخلے کے لۓ ڈیوڑھی  اور فوراً صحن، ڈیوڑھی میں داخلے کے بعد دائیں جانب اُوپری منزل  کو جاتی سیڑھیاں ،جب کہ صحن کے بائیں جانب ڈائینگ روم اور اسی کے اندر ایک دروازہ ڈرائینگ روم ( جو بہت چھوٹا ساتھا) اور اس کا ایک دروازہ باہر گلی میں بھی کھلتا تھا جیسا اس زمانے اور آج بھی رواج ہے۔صحن کے دو " سٹپ " تھے پہلے سٹپ پر یہ ہی سب اور باورچی خانہ اور اسی باورچی خانے کے باہر ایک چو لہا اور بھی دبا ہوا تھا جو اگر آج کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو " ڈرٹی کچن "تھا ، ،،، جب اماں جی نے بڑے پیمانے پر کوئی سالن ، یا حلوہ بنوانا ہوتا تو اسی پر پکتا ، باقی دنوں میں روزانہ کے استعمال کے لۓ گرم پانی کا برتن چڑھا رہتا ۔ نیچے ہلکی آگ جلتی رہتی ،،،،،ایک سٹپ اوپر کا صحن اتنا بڑا، ضرور تھا کہ 6 ،7 چارپائیاں بچھ سکتی تھیں ، اور اس میں ایک "سفیدے" کا درخت لگا ہوا تھا ۔اور اس صحن کے دائیں طرف کےکونے میں چمبیلی کی بیل لگی تھی جواوپر چھت تک گئی ہوئی تھی ، اور بائیں طرف انگور کی بیل لگی ہوئی تھی، اور وہ بھی اوپر چھت تک جا پہنچی تھی ،،،،، صحن کے اس حصے میں تین ، اچھے کشادہ بیڈ رومز ، ایک غسل خانہ اور ایک مناسب سائز کا سٹور بنا ہوا تھا ۔ چھت پر جائیں تو کشادہ کوٹھے سے پہلے ایک سٹور اور بھی تھا ۔اور اسی کوٹھے پر دو لیٹرین بھی تھے اور پھر چند سیڑھیاں اور چڑھیں تو ایک اور مناسب کھلا کوٹھا بنا ہوا تھا جس پر ڈیڑھ کمرہ تھا ،،،، جس میں سے ایک کمرے میں بستروں کی پیٹی ،اور فالتو چارپائیاں   رکھی ہوئی تھیں ( گرمیوں کے لۓ ) جبکہ چھوٹے کمرے میں ایندھن سٹور کیا ہوتا تھا ،،،یہ سب میں نے ایک تو اپنے بچپن کے گھر کو ذہن میں تازہ کرنا تھا جس میں ، ہمارے بھائی جان ، میں اور چھوٹی بہن پیدا ہوۓ ۔لیکن دوسری وجہ یہ بتانا مقصود تھا کہ اس گھر میں ابا جی اور اماں جی کی دریادلی اور اعلیٰ ظرفی کی وجہ سے ہمارے خاندان کے پریشان حال خاندان تین چار سال کے لۓ رکے رہے،اور ایک خاندان کے چھے افراد رہے اور دوسرا خاندان  چار افراد پر مشتمل تھا ،،، دونوں خاندانوں کے سربراہ  بیروزگار تھے اس لۓ اس بابرکت گھر سے انھیں پیٹ بھر کھانا اور دوسری مالی معاونت بھی ملتی رہی اور بعد میں ان کے سربراہان کو ان کی اہلیت کے مطابق نوکریاں دلوائی گئیں  ،،،،،،آج بڑے بڑے گھروں والے اتنے فیملی ممبرز کو 3 یا 4 "ماہ " یا ہفتے ٹھہرائیں اور سب خرچے بھی اُٹھائیں ، تو احسانات کا پہاڑ ان پر " بول ،بول کر " لادا جاتا ہے ،،،،،اللہ ہمارے والدین کی ان نیکیوں کو قبول فرماۓ آمین۔
اماں جی اور اباجی پودوں کے شوقین تھے۔ خاص طور سے اماں جی ! اس شہری گھر میں ہمارے گھر میں سدا بہار پودے یا پھولوں والے 40 تا 50 گملے تھے ، محلے میں شاید یہ ہی گھر  ایسا تھا جہاں پودوں کی جی جان سے دیکھ بھال کی جاتی ،، اماں جی ہمارا کسی کے گھر جا کر کھیلنا پسند نہیں کرتی تھیں ،اس لیے  ہماری سب سہیلیاں ہمارے گھر آجاتیں اور کافی وقت گزارتیں کہ ایک تو کوٹھے کشادہ تھے اور دوسرے ہمارے ہاں ہمارا ایک بھائی اور وہ بھی ہاسٹل میں ہوتا ، ہماری ان سہیلیوں میں ان کے ننھے منے بھانجے ، بھتیجے بھی کبھی کبھار آجاتے تو اماں جی کچھ دیر کے لیے بڑی چھوٹی سب " مخلوق " کو یہ جملے ضرور بولتیں ،، کوئی بچہ نہ پتے توڑے گا نہ ہی کسی گملے کو ہاتھ لگاۓ گا ! ورنہ اس پر جرمانہ ہو گا ! ان کا اتنا کہنا ہی کافی ہوتا ، اور اس !دوران ہمارے گھر  اماں جی کی  کوئی سہیلی آجاتیں تو انھوں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا شور نہ کرو!!!۔  
اب یہاں میں یہ بھی لکھنا چاہوں گی کہ اماں جی کی دانائی ،اور اچھے مشاورت کی عادت نے انھیں خاندان اور خاندان سے باہر مقبول بنا رکھا تھا ۔ ایک گھر کی والدہ بہت بزرگ تھیں وہ جب آتیں اکیلی آتیں ، دل کے دکھڑے شیئر کرتیں اور چلی جاتیں ،، کچھ دن بعد اس گھر کی ذرا  بڑی عمر کی  بیٹی آتی اور بہت دیر تک بیٹھ کر اپنے دل کا حال ، اور مشورے لیتی ،، اور کبھی اسی گھر کی بہو آکر اپنے دکھڑے سنا کر جاتی ،،،لیکن کیا مجال اماں جی اس کو یہ بھی نہ بتاتیں کہ تمہاری ساس آئی تھیں، یا تمہاری امی آئیں تھی ، وہ کہتیں تھیں ،،، مجھے ان کے دلوں کی بھڑاس سن لینے سے کیا فرق پڑتا ہےلیکن انھیں بہت فرق پڑجاتا ہے ،،، الحمدُللہ انھوں نےاس طرح کی مختلف رشتوں والی دوستیوں کا ذکر کسی اور سے بھی نہیں کیا۔
میں نے اماں جی کی اس خوبی کا ذکر شاید پہلے بھی کیا تھا کہ وہ ہر طرح کے لوگوں سے گفتگو کی اہلیت رکھتی تھیں ، وہ خود کسی سکول کی بلڈنگ کے اندر تو نہیں جاسکیں لیکن ان میں علمی قابلیت ،، سکول جانے والوں سے ذیادہ تھی ،،، ہمارے محلے میں بھوپال سے ہجرت کر کے ایک فیملی آئی جو ایک گھر کے نچلے حصے میں کرایہ دار ہوۓ ۔ اس میں میاں بیوی ، انکی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ، خاتونِ خانہ انہی دنوں شدید بیمار تھیں ، ہمارے اس محلے میں ہمارے رشتے داروں کے کافی گھر تھے اور قدرِخوشحال بھی تھے ۔ اس دور میں ہجرت کر کے آنے والوں کے لۓ جذبۂ ہمدردی وافر تھا چناچہ ،، سب نے انھیں اپنی مدد کی آفر کی ،، بے یارو مددگاری کےاس دور میں ہلکی سی مدد بھی بہت لگتی ہے خاص طور پر جب خاتونِ خانہ کو ہسپتال داخل کرنے کا وقت آیا تو ،،، اور اسے خون دینے کا وقت آیا تو سب ہمسائیوں نے اور ہمارے رشتہ داروں نے پُرخلوص کوششیں کیں ۔ لیکن وہ جنت مکانی بچ نہ سکیں ۔ اس سانحہ کے کچھ ماہ بعد اس گھر کے بزرگ کو نوکری ملی اور ان کی آنکھوں سے آنسو کم ہوۓ تو ! ان کی بڑی بیٹی کو ٹیلی فون آپریٹر کی جاب مل گئی ،جو اس وقت میٹرک پاس تھیں اور ( بعد  میں انھوں نے ایف ۔اے پاس کر لیا ) ہماری بڑی بہن کی ہم عمر تھیں ان کے بعد کا بھائی کچھ ، چھوٹا اور اس سے چھوٹی دونوں بہنیں منی اور نسرین ہماری ہم عمر تھیں جو ہماری پکی سہیلیاں بن گئیں۔ اب ہوا یہ کہ بڑی بہن نے مدت تک کسی بھی گھر آنا جانا نہ رکھا ۔ قریبی گھروں کی خواتین نے ان کے ہاں چکر لگا ۓ لیکن یہ انتہائی وضع دار اور خاندانی گھرانہ تھا جو خواہ مخواہ ، ادھر اُدھر پھرنے کا قائل نہ تھا ، اور دوسری طرف ہماری اماں جی بھی ایسی کہ جب تک کوئی اشد ضرورت نہیں تو نہ نکلتیں۔لیکن اس گھر کے بزرگ ایک آدھ دفعہ اباجی سے ملے۔تو شاید اچھا  تاثر لیا کہ ایک دن مکمل برقعے میں عارفہ آپا ہمارے گھر آئیں اور پھر تو ماں بیٹی والی تعلق فوراً  قائم ہو گیا ، کہ حیرت ہوتی،،، شاید کچھ لوگوں کی کیمسٹری اتنی ملتی ہے کہ ان کی آپس کی محبت کا تعلق مضبوط ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔اور یہ ایسی شخصیت تھیں ۔ وہ تو اماں جی کی عاشق ہو گئیں، دوسری طرف ان کے والد کی طرف سے باقی دونوں بہنوں کو بھی صرف ہمارے گھر آنے کی اجازت ملی ،،، اور یوں ایک اہلِ زبان ، اورپڑھے لکھے باشعور خاندان نے ہماری اردو کو سیقل کرنے میں بھی بہت حصہ لیا ،،،،، اور کچھ اقدار کو سیکھنے کا بھی موقع ملا۔
( منیرہ قریشی ، 19 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

پیر، 18 ستمبر، 2017

"سلسلہ ہاۓ سفر"

" سلسلہ ہاۓ سفر"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سفر کچھ پُرانے
یادیں گہری اور گھنیری
منا ظر کچھ دیکھےبھالے
تجربے کچھ پرانے بھی
اجنبی بولیوں میں ہے سناٹا
آہ،،، مگر سب گھاٹے کا سودا
نامعلوم ساعتیں
نامکمل منصوبے
جلدی ہے نبٹانا
!آگے ہے جانا
منتظر ہیں کچھ نفوس
منظر ہیں کچھ مانوس
سفر کی تھکن ہے زادِراہ
آہ،،، مگرسب گھاٹے کا سودا
آنکھوں میں سُرمہ رنگوں کا
!زندگانی کی کَترنیں
خیالوں سے کاٹوں
مگر سفر ہیں کچھ نئے
دلچسپیوں کی شدت ہے
مُٹھی میں ریت گھڑی
آہ ،،،، سب گھاٹے کا سودا
!ہاں ،،آوازہ ہاۓ غیب ہے
!سفربخیر ،،،سفر بخیر،،،سفر بخیر
( منیرہ قریشی ، 18 ستمبر 2017ء واہ کینٹ )

اتوار، 17 ستمبر، 2017

"یادوں کی تتلیاں"(13)

یادوں کی تتلیاں " ( 13 ) ۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
بڑے بھائی جان کا ذکرِ خیر کرتے ہوۓ میں اس بات کا ذکر نہ کروں تو میری نالائقی ہو گی کہ جب وہ ریٹائر ہو کر واہ کینٹ آۓ تو 1991 ء میں ہم نے اپنی پُرخلوص سہیلی شاہدہ نعیم کے "ظالمانہ" اصرار پر ایک سکول کھولنے کا ارادہ کر ہی لیا ،،،لفظ " ظالمانہ اصرار"  پر آپ حیران بھی ہوں گے کیوں کہ وہ پی ایچ  ڈی  (زولوجی) ،،، اور ایک کامیاب  ماہرِتعلیم ہے اورکچھ سالوں سے اسلام آباد میں کامیاب ہائی سکول اور بعد میں ایف ایس سی کالج چلا رہی تھی ! ،،، آپ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں جب آپ کو بےلوث دوست مل جائیں جو نہ صرف اچھے مشورے دیں ۔ بلکہ کچھ پالیسیوں پر ایسے انداز سے عمل کرنے پر مجبور کریں کہ فوری طور پر آپ بےدلی سے ان کے مشورے پر عمل درآمد پر مجبور ہو جائیں ،،، لیکن وہ آپ کی بھلائی  سوچ رہے ہوتے ہیں جب اس نے یہ کہا کہ "اگر تم دونوں بہنوں نے سکول نہ کھولا تو میں وہاں سکول کھولوں گی اور انچارج تم ہی ہو گی ! یہ ایسی " محبت بھری " دھمکی تھی جس نے ہم سے وہ کام کروا دیا جو ہم دونوں نے سوچا بھی نہ تھا ،،، دراصل ہم دونوں بہنوں نے بطور ٹیچر 5 ، 6 سال گزار لیے تھے اور لگےبندھے ، روٹین کی عادی ہو گئی تھیں ، اب ایک نیا قدم اٹھانا ، اور وہ بھی رسکی ،،، کہ کیا پتہ نوکری چھوڑی تو یہ سلسلہ بھی نہ چلا ، تو کیا ہو گا!!۔
لیکن جب اللہ کی ذات چاہتی ہے تو " وہ کن فیکون " کا معاملہ ہو جاتا ہے ، انہی دنوں (91ء) اباجی کا کراۓ پر لگا گھر خالی ہو گیا جو پرائم لوکیشن پر تھا۔ اور اتفاق سے جوجی ، کی ایڈہاک پر کالج کی تعیناتی ختم ہو گئی ، اور حالات کا یہ تسلسل ہمارے لۓ نیا قدم اُٹھانے کا باعث بن گیا ،،، ہم نے اباجی سے درخواست کی کہ اب کے آپ کا گھر ہم کراۓ پر لیں گی ۔ اور وہی کرایہ  ادا کریں گے جس پر آخری کراۓ دار نے چھوڑا ہے ،،، اباجی کے لۓ ہم سے زیادہ کون آگے تھا انہوں نے فوراً سفیدی وغیرہ کروا کر حوالے کر دیا ۔ اب ہم دونوں نے سر جوڑے اور فیصلہ کیا کہ ، جب ہمارے بچے چھوٹے تھے اور انہیں بہت  ابتدائی کلاسسز میں داخل کروانا چاہا تو کوئی اچھا سکول نہ تھا جو اطمینان بخش ماحول دیتا ، ابھی ہم صرف ابتدائی کلاسسز شروع کریں گے اور اپنے آپ کو بھی جج کر لیں گے کہ ہم میں کوئی قابلیت ہے یا نہیں !۔
اس پروگرام کے لیے  شاہدہ نے ہمیں اپنے سکول کا  نصاب دیا ، لیکن اس کے باوجود کہ ان سکولوں میں جہاں ہم نے پڑھایا ،،، الحمدُ للہ ، الحمدُ للہ ہم دونوں کامیاب اساتذہ میں شمار ہوتی تھیں ،، لیکن بہت چھوٹے بچوں کو پڑھانے کا تجربہ بس وہی تھا جو اپنے بچوں کو پڑھانے کا تھا اور یہ ایک سکول چلانے والے کے لۓ قطعی نا کافی تھا۔ لہذاٰ اسکے دیے گئے سلیبس کو تو لے لیا، پھر اپنی ایک اور بیسٹ فرینڈ اور بہترین ماہرِتعلیم " جینفر جگ جیون " کو شاملِ مشاورت رکھا اور بےشمار اداروں کی کتابیں جمع کر کے آپس میں بانٹیں تاکہ اپنے اپنے مضمون کی کتابیں پڑھ کر اس چند ہفتوں کے بعد مل کر تجاویز شیئر کریں گے۔یوں ،،، اچھی طرح چھان بین کرکے سلیبس تیار ہوا ،، اور "پلے گروپ،نرسری اور پریپ  کی جماعتوں کا فرنیچر، بلیک بورڈ وغیرہ خریدے گئے،،،، اس دوران اباجی نے بہت توجہ دلائی ،کہ رہائشی ، بلڈنگ میں سکول کھول رہی ہو۔ کینٹ بورڈ سے اجازت لے لو۔ اور انھیں مطلع بھی کر دو ۔ اب ہم دونوں بہنوں کو " گورئنمنٹ آفس " میں جانے اور مردوں سے بات چیت کا کوئی تجربہ نہ تھا ، اور جھجک اتنی کہ کوئی سیدھی بات بھی پوچھے تو منہ سے کچھ اور ہی نکلے ،،،،،،،،یہ ہی وہ " اہم ترین " دن تھے جس میں ہمارے پیارے بہنوئی نے ہماری ہمت بندھائی " میں ساتھ چلتا ہوں ، ،،، کوئی مسئلہ ہی نہیں !"بڑے بھائی جان کے ساتھ میں دو دفعہ " ایگزیکٹو آفیسر " بلوچ صاحب سے ملاقات کے لیے گئی ، انھوں نے آفیسر سے اِن دونوں  ملاقاتوں میں پوچھا " اگر یہ غیرقانونی اقدام ہے تو ابھی بتا دو ،، تاکہ ان کا وقت اور پیسہ ضائع نہ ہو ۔ ہر دفعہ اس نے بڑے بھائی جان کو مطمئن کر کے بھیجا کہ کوئی مسئلہ ہماری طرف سے نہ ہو گا ! تیسری مرتبہ  پھر گئے ( کیوں کہ ہمارے اباجی نے زندگی بھر نہ خود قانون کو ہاتھ میں لیا  اور نہ وہ اپنی اولاد کو ایسا کرنے کی اجازت دے رہے تھے اور ان ہی کے اصرار پر بھائی جان کو پھر جانا پڑا)، اب کی بار جب ہم اس کے آفس پہنچے تو "ایگزیکٹو آفیسر"نے بھائی جان سے ہنس کر کہا " کرنل صاحب ! میں آپ کو یہ قانونی نکتہ نہیں بتانا چاہتا تھا کہ " سکول اور ڈسپینسری " سواۓ عدالت کے حکم کے کوئی بند نہیں کرا سکتا ،،،،،،،،، کیوں کہ یہ دونوں ادارے بہت کم ہیں !" اگر کبھی کینٹ بورڈ نے کوئی نوٹس بھی دیا تو آپ لوگوں کو کورٹ کی حمایت مل سکتی ہے "یہ جملے ایک ذمہ دار آفیسر کے منہ سے سن کر بھائی جان نے اس کا شکریہ ادا کیا اور ، ہم بھی مطمئن ہو گئیں اور اباجی بھی ،،،، ویسے بھی یہ بہت چھوٹے بچوں کا سکول تھا ،، اس کے بعد بھی کئی اور دفاتر میں جانا ہوتا تو اول تو بڑے بھائی  جان خود جاتے ورنہ ہم دونوں میں سے کوئی ساتھ ہوتا اس طرح ایک مضبوط ، دبنگ " ساتھ" "نے ہمیں وہ اعتماد دیا ،،، جس نے ہمیں ، مَردوں کے اس معاشرے میں بات چیت کا سلیقہ اور طریقہ سکھایا ،،، کسی تیراکی سیکھنے والے کو سنبھالنے والے "ماہر ہاتھ" ،، اور حوصلہ افزائی کے الفاظ ملتے جائیں تو تیراکی اس کے لۓ چند دن کا کھیل ہوتا ہے ،،،، اور ان دفتروں  میں جانے ، اور یہ احساس دلاتے رہنا کہ " میں ہوں بھئ " تو عورت ذات کے  لیے کوئی مسئلہ ،مسئلہ نہیں رہتا۔ اباجی اس وقت تک ، بوڑھے اور ناساز طبیعت سے دوچارہو چکے تھے ، ،،لیکن زبانی حوصلہ افزائی بہرحال ساتھ ساتھ تھی اور ہر ماہ جب میں انھیں گھر کا کرایا دیتی تو وہ یہ جملہ کہنے میں دیر نہ لگاتے " تمہاری سب پے منٹ ہو چکی ہیں !؟ نہیں تو ابھی یہ پاس رکھو " یہ سب الفاظ ہمارے لیۓ وہ " قیمتی اثاثہ " تھے کہ ہمیں کبھی مالی ضرورت پڑی تو ہمارا " بنک " ہمارا باپ تو ہے ہی ،،،،، حالانکہ اباجی کا گھر ان کی پینشن اور گھر کے اس کراۓ سے نہایت باعزت انداز سے چل رہا تھا ،، پھر بھی اپنی بیٹیوں کے لۓ یہ فکر رہتی کہیں انھیں  کسی قسم کی  مالی  پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے!!!۔
 آج ہمارے اس سکول کو 26 واں سال ہے ، اللہ رب العالمین ، ہی رازق و مالک اور کارسازِ حقیقی ہے ،،، اسی نے ہمیں اب تک کی تمام تر کامیابیوں سے نوازا ہے ، جس کے  لیےشکرگزاری کے وہ الفاظ ہمارے پاس ہیں ہی نہیں ، جو اس کی شایانِ شان ہوں ،،،، اور اسی ربِ کریم و رحیم نے " اباجی اور بڑے بھائی جان کی صورت میں دو ایسے مضبوط ہاتھ فراہم کۓ جن کے احسانات کا بہترین اجر انھیں اللہ تعالیٰ آخرت میں عطا کرے ، آمین۔
ہماری بڑی بہن نے ہم چھوٹی بہنوں ، اور بھائی کوبہن سے زیادہ ماں والی نظر سے دیکھا ۔ مجھے یاد ہے جب ان کے آنے کی اطلاع ہوتی تو وہ ہمارے لۓ عید کے دن جیسا اہم دن ہوتا ،،شاید ہماری اماں جی نے ہم بہن بھائی میں مھبت کے "انجکشن" لگا دیۓ تھے یا محبتوں کے " ڈراپس "پلا دیۓ تھے کہ اپنے دل کو ٹٹولیں تو بےشمار لوگوں کے مقابلے میں ہم خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ ہم کبھی " اکیلے پن " کا شکار نہیں ہوئیں ! بچپن میں آپا آتیں تو اماں جی کے گھر کی سب اہم خریداریاں ان دنوں ہوتیں ، سوئی جتنی چیز بھی آپا کے مشورے سے لی جاتی ،، ہماری بچپن کی عید کی تیاریوں میں آپا کا واضح ہاتھ ہوتا ۔ اور وہ یہ کہ اس وقت کے فیشن کے مطابق نیل پالش اور مہندی ایک دن پہلے لگائی جاتی ، پھر رات کو ہمیں نہلا کر گیلے بالوں میں چھوٹی چھوٹی "مینڈھیاں " کی جاتیں جن کے آخر میں انھیں فالتو کپڑوں کی کترنوں سے باندھ دیا جاتا ۔ ہم دونوں اپنے سرہانے اپنی چوڑیاں ، ربن ، استری شدہ کپڑے اور  نئے جوتے اس دن مارے محبت کے " میز " پر رکھے جاتے ! صبح جلدی آنکھ کھل جاتی ، اور منہ ہاتھ دھونے کے بعد ناشتہ کرنے کے بعد ، عید کے کپڑے پہننے کے بعد ، سب سے آخر میں بال کھولے جاتے ،،، اب وہ خوب گھنگھریالے ہو چکے ہوتے ، ہم نے اگر ربن سے سجنا ہے تو ٹھیک ورنہ، کلپ لگا لیتیں !!! آپا کے اپنے بھی دو بچے ہو چکے تھے ، لیکن اماں جی کی قائم مقام کے طور پر وہی سب کام کرتیں ، اور پھر آخر میں خود تیار ہو کر اپنے تمام سسرالی رشتہ داروں کو ملنے جاتیں ۔ 
جوں جوں وقت گزرتا گیا ، ہم خود بھی باشعور ہوتی گئیں لیکن ہر اہم معاملے میں آپا سے مشورے کے بغیر کوئی قدم نہ اُٹھایا جاتا ،، میرے ہاں پہلوٹھی کے جڑواں بچے ہوۓ ، ان دنوں اماں جی کی طبیعت بہت زیادہ خراب رہنے لگی تھی ، بلکہ ان کی زندگی کے آخری " مہینے " چل رہے تھے ،،،میں والدین کے ہی گھر تھی ، اور آپا سے میں نے کہہ دیا بس آپ ہی میرے پاس ہاسپٹل میں ہوں گی ،، ،،، اور یہاں میں پھر اپنے بہنوئی کی اعلیٰ ظرفی کو سراہوں گی کہ ، اماں جی زیادہ بیمار ہیں ، آپا کو فوراً بھیجا جاتا (چاہے وہ کہیں بھی پوسٹڈڈہوں) میں بیمار ہوئی آپا کو بھیج دیا اور جب میں گھر آگئی تب بھی آپا اس بات پر فکر مند کہ یہ ان دو بچوں کو کیسے سنبھالے گی ،، اتفاق سے ان دنوں گھر میں " نوکر کرائسز " چلا ہوا تھا چناچہ ،،، صلاح ہوئی کہ دو تین ماہ کے لۓ مجھے آپا اپنے گھر سیالکوٹ لے جائیں گی، تب تک ملازمہ کا بندوبست کیا جاۓ ، ہمیں بھائی جان  کار میں سیالکوٹ چھوڑنے گئے ، اور آپا کی خدمت ، بچوں کو نہلانے ، سنبھالنے کی ٹریننگ ، نے مجھے خوب پکا کر دیا ۔ واپس تین ماہ بعد آپا اور انکے بچے نانا، نانی کے پاس چھوڑنے آۓ تو ایک ڈیڑھ ماہ رہ کر انھوں نے کہا " ابھی بھی میں ایک بچہ ساتھ لے جاتی ہوں ، دو تین ماہ بعد چکر تو لگ ہی جاتا ہے ! چھوڑ جاؤں گی ، سب نے یہ تجویز پسند کی اور آپا عمر کو ساتھ لے گئیں اور  تین ماہ بعد آئیں  تو کچھ ہفتے رہ کر اب کامل علی کو ساتھ لے گئیں اور عمر کو میں نے رکھ لیا ،،، اسی طرح سلسلہ سال بھر چلا !! آپا کے اپنے بچے بڑے تھے ، لیکن انھوں نے میری تکلیف کو دیکھتے ہوۓ اور مجھے آسانی دینے کے لۓ نئے سرے سے انتہائی چھوٹے بچے کی ماں بننا قبول کیا ،،،،،اور جب بچہ بیٹھنے ، بلکہ واکر میں بھاگنے دوڑنے لگا تو اپنی ڈیوٹی ختم کی ،،، بچپن کی اُن کی اِن بچوں پر محنت نے ہمیشہ انھیں محبت میں اولیت ملتی رہی ،،،، اور جب ان  جڑواں  میں سے"عمر" نے چھے سال کی عمر میں اللہ کے پاس جانے کا سفر اختیار کیا ، تو میرے ساتھ اس غم کو بانٹنے کے لئے آپا بطورِ ماں موجود رہیں بلکہ میں سمجھتی ہوں ان کی موجودگی سے اماں جی کی کمی محسوس نہ ہوئی ، اباجی ، بھائی جان جوجی ، اور بڑے بھائی جان ،،، ایسے لوگ تھے جن کی موجودگی  کا میرے زخم،مندمل کرنے میں بہت حصہ ہے ! اور یہ احسانات نہیں  بلکہ یہ وہ قدرتی ، دلی محبتیں ہیں جنھیں صرف دل والے ہی بانٹ سکتے ہیں ! اللہ ان سب کو اجرِ عظیم عطا کرتا رہے آمین۔
( منیرہ قریشی 17 ستمبر 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )