بدھ، 31 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(سلسلہ ہائے سفر)سفرِحج(4)۔

یادوں کی تتلیاں" ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
سفرِِ حج" (4)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
پہلا عمرہ ہوا ، اور ہم سب" شاد کام "ہو گۓ ،،ایک دوسرے کو مبارک باد،دی اور ہم خواتین اُس مقام تک آگئیں جو تجویز ہوا تھا ۔ ہم پہنچیں ہی تھیں کہ مرد حضرات بھی آنا شروع ہو گۓ ،، اقبال بھائی تو پہلے ہی کم بال والے تھے ، ان کے بال اور چھوٹے ہو گۓ ، ہاشم نے بھی آدھا انچ بال رہنے دیۓ تھے ، ، لیکن پاشا نے خود کو مکمل گنجا کرا لیا ،، تو کچھ دیر کے لیۓ اسے پہچاننا مشکل ہوا ،،، لیکن پہلے عمرے نے اطمینان و سکون عطا کر دیا ،، ہمارا یہ پیکیج پرائیویٹ تھا ،، انھوں نے اپنی پہچان کے لیۓ ،کوئی سکارف ، یا عبائیہ نہیں دیۓ تھے ،، اس گروپ کی خواتین نے اپنے طور پر اپنی پسند کا لباس پہنا ،،، ہم سب یہاں دنیا کے ہر کونے سے آئی قوموں کے افراد کے خدوخال ، لباس ، اور اُطوار بہ غور دیکھ رہیں تھیں ۔ اور آنکھ ، اور سوچ کا کینوس یکدم وسیع ہو گیا تھا ۔ کم ازکم میں ہر چیز ، ہر کونے ، ہر فرش ، ہر پلر کو بہ غور دیکھتی ، ، ، اور جب خانہ کعبہ میں آکر بیٹھتیں ،، تو وہ حدیث بھی یاد آجاتی " کعبہ کو صرف دیکھنے کا ہی 20 گُنا ثواب ہے" ،، اول تو مجھ سے ایک دو طواف ہو جاتے ،، پھر بیٹھ کر دیکھتی رہتی ،، کیوں کہ جس تواتر سے جوجی اور نگہت طواف کررہیں تھیں ، مَیں اُن کا ساتھ دینے کے ابھی قابل نہ تھی ۔اصل میں ابھی حج فلائیٹس بتدریج آ رہیں تھیں ، رَش کم ہونے کے باعث طواف کا دائرہ کم تھا۔ اور وہ دونوں ڈھیروں ثواب لوٹ رہیں تھیں ۔ ہوٹل بُرج الا قصیٰ بہت اچھا تھا ، ہر سہولت موجود تھی ، یہاں پہنچے دوسرا دن تھا کہ لاؤنج میں کسی نے بےتکلفی سے پکارا " منیرہ جوجو " !! مڑ کر دیکھا تو ایک لمبا ، دُبلا ، گنجا لیکن نہایت خوب صورت نقوش والا" آدمی " نظر آیا ،، وہ بہت پیاری مسکراہٹ اور چمکتی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہا تھا ،، ہم دونوں نے چند لمحے اسے نہ پہچانا ، تو وہ فوراً  بولا " اجمل "،، وہ ہم دونوں سے چھوٹا ، ہمارا کزن " بابا " بنا سلام کر رہا تھا ، اس کا بچپن کا نام " گُگُلی " تھا ، اور ہم نے اسی نام سے بلایا ،، اس نے بتایا وہ اور اس کی بیگم ، ڈاکٹر طلعت چند دن پہلےسے آۓ ہوۓ ہیں ،،، اسے آج دوسرا دن ہے بخار ہے تھکن بھی ہو گئی ہے ، ، ، اس نے ہماراکمرہ نمبر پوچھا ، اور آنے کا کہا ، ہم لوگ اس وقت حرمِ پاک جا رہیں تھیں ،،،،،، گُگلی کی چار پیاری سی بیٹیاں ہیں ، تمیز تہذیب اور تعلیم سے آراستہ۔ وہ فوج میں کرنل تھا ،اور جب ہم ملے تو وہ حاضرسروس تھا ، اوراسی فوجی گروپ میں شامل تھا ، لیکن اتنا بڑا گروپ تھا کہ بعد میں ہم کسی دن نہ مل سکے ۔ دوسرے دن اجمل اور طلعت ہمارے کمرے میں ملنے آۓ ، اس کی بیوی بھی بہت مہذب ، اور اچھی لڑکی اور لائق ڈاکٹرہے ، تب باتوں میں اجمل نے بتایا ، ہم دونوں نے ایک ہفتے میں دو عمرے بھی کیۓ ، غارِثور میں اوپر بھی گئے ،، اور واپس آۓ تو اسے بخار ہو گیا ۔ اسی لیۓ غارِ حرا میں اسے نہیں لے کر گیا ،، میں نے اسے کہا تم خود فوجی ہو تم،،اتنی مشقت کے عادی ہو ، اسے تو اتنی مشقت میں نہ ڈالتے ،، طلعت کہنے لگی ، یہ ہی میں نے کہا تھا ،، لیکن اب وہ دونوں ہمیں اپنے تجربے کی روشنی میں کہنے لگے ،، بہت عمرے ،یا ، سخت مشقت والی زیارتوں سے بہتر ہے کہ تم لوگ اپنی توانائیاں حج کے لیۓ رکھو ۔۔ ایسا نہ ہو اس وقت تک بیمار ہی رہو ۔ ہم اجمل سے دوسرے ، تیسرے دن بھی ملیں ،، اور حج کی یہ مختصر ملاقات اس کے لیۓ اتنی اہم ہوئی کہ اس نے اپنی دو بیٹیوں کی شادیوں میں خصوصی بلایا ،،، بڑی پہلے سے شادی شدہ تھی ،،، اور حج کے ٹھیک نو سال بعد اجمل ہارٹ اٹیک سے لمحے میں ختم ہو گیا ، اللہ اسے اپنی خصوصی رحمت کے ساۓ میں رکھے ، جنت الفردوس میں جگہ عطا ہو آمین ثم آمین۔ ،،اللہ تعالیٰ طلعت کو بہت ہمت و حوصلہ دے آمین !۔
دو تین دن مزید گزرے ، اب میری طبیعت بھی کافی بحال ہو چکی تھی، اسی لیۓ سب کی صلاح ٹھہری کہ دوسرا عمرہ کر لیا جاۓ ،، سب مرد حضرات نے اپنے احرام سنبھالے، ایک بڑی ٹیکسی لی گئی ، ، ، اور عمرہ کے لیۓ " مسجدِ عائشہ ر۔ض " کی طرف چل پڑے، ٹیکسی ڈرائیور بہت سنجیدہ مزاج تھا ،یا اسے عربی کے علاوہ کوئی اور زبان نہ آتی ہوگی ،،،باوجود پاشا کی خوش مزاجی کے وہ سنجیدہ سی شکل میں رہا ، ہم مکہ سے شاید مشرق کی سمت جا رہے تھے ،، یہ سارا راستہ بےآباد سا تھا ، اگر کچھ عمارتیں نظر بھی آئیں تو ورک شاپس ، یا چھوٹے سے کارخانے ٹائپ تھیں ،،، میں تو کھڑکی سے ہر پتھر ، ہر شجر ، ہر ٹیلے کو غور سے دیکھ رہی تھی ،،، اِن پر میرے نبیﷺ کی نظریں پڑیں ہوں گی ،،، انھوں نے میرے نبی کے پاؤں چومے ہوں گے ،،،، اور پھر وہ حدیث ؐ مبارکہ یاد آئ ،،،"" جب ایک دن آپﷺ اپنے صحابہ( رض) کے درمیان موجود تھے ،، تو 
صحابہ کرام ؒ نے سرخوشی سے کہا "ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ کو دیکھ اور سُن رہے ہیں ، اس پر آپؐ نے فرمایا " وہ ذیادہ اجر والے ہوں گے جو مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لائیں گے " ،،،، یہ کیسی خوش خبریاں ہیں ، جن پر ہمیں یقینِ کامل ہے لیکن آپؐ کی سُنت پر عمل بھی ضروری ہے ۔ راستہ بھر دعائیں مانگتے، مسجدِ عائشہ تک پہنچے۔ جو خاموش سی باوقار مسجد تھی ، ( بارہ سال پہلے ) ،،، اللہ رحیم و کریم کی کس کس بات پر شکر گزاری کریں کہ اس نے کُل امتِ مسلماء کے لیۓ ،، حضرت عائشہ ؒ رض کی وساطت سے آسانی عطا کردی ۔ ورنہ ہر حاجی کو کسی دوسرے شہر جانا پڑتا ،، اور اس معاملے میں بھی مزید اختلافِ راۓ پیدا ہو جاتے ۔ 
مسجدمیں تازہ وُضُو کیا ، مرد حضرات نے احرام باندھے ، دو ،دو، نفل پڑھے ۔ اور واپس چل پڑے، ، گویا صبح سات بجے چلے ، اور اب نو ، بجے ہم واپس پہنچ گۓ۔ اس دفعہ طواف ختم کیا ، اور سعی کرنا شروع کی تو ،، دو خواتین ہمارے پاس ہی کھڑی تھیں ، ان میں سے ایک 36 یا 38 کی ہوگی ،، اور دوسری 35،،34 کی ہو گی لمبی سی لڑکی تھی ،، وہ شاید آج ، کی فلائٹ سے پہنچیں تھیں ، لب و لہجے سے سندھی یا سرائیکی لگ رہیں تھیں ، بڑی نے پی کیپ کے اوپر سکارف اوڑھا ہوا تھا۔ تاکہ کپڑا منہ سے دور رہے ،اور سچی بات ہے ، جب میں نے اسے کہا یہ آپ نے کیوں اس طریقے سے اوڑھا ہے ، ہٹا لیں اسے ، تاکہ صحیح نظر توآۓ ،، کہنے لگی مجھے خود بھی یہ طریقہ پسند نہیں ،،، لیکن میرے میاں کا آرڈر ہے ،،، البتہ دوسری لڑکی نے بڑی سی چادر لی ہوئی تھی ، دونوں نے کہا ہمیں آپ نے سعی کروانی ہے کیوں کہ ہمیں دعائیں بھی نہیں آتیں ،،، میں نے بہ خوشی انھیں اپنی ذمہ داری بنا لیا ، اور تھوڑا سا انھیں ان پہاڑیوں بارے بتا کر ، چکر شروع کیۓ ، ہر دفعہ صفہ یا مروہ پر چند لمحے کے لیۓ دعا کے لیۓ رُکتیں ،،،اور جب ہاتھ اُٹھاتیں ، تو لمبی والی لڑکی فوراً مجھے اپنے پیارے سرائیکی یا سندھی لہجے میں کہتی " باجی ، میری اقرا کی صحت کے لیۓ تُو دعا کر ، اور یہ دعا بھی کہ اللہ مجھے بیٹا دے ،،، میں ہر دفعہ اس کی طرف دیکھتی اور اس کے دل کی آرزوؤں کو آگے اس رب کے حضور بیان کر دیتی ،، اس کی دو بیٹیاں تھیں ۔ بڑی بیٹی اقراء تھیلیسیمیا کی مریضہ تھی ،،، وہ کتنے وثوق سے دعا کروا بھی رہی تھی اور کر بھی رہی تھی،، کیوں کہ اسے یہ بھی بتایا گیا ہو گا کہ یہاں دعائیں تو رَد ہو ہی نہیں سکتیں ۔ " ایک مرتبہ حضرت فضیل بن عیاضؒ حج کے دوران خانہ کعبہ سے چمٹے آہ زاری کرتے حاجیوں کو دیکھ رہے تھے ،، تو فرمایا " بخیل سے بخیل انسان کے در پر بھی کوئی اس طرح گِڑگِڑاۓ ، تو وہ بھی کچھ دے دیتا ہے ،،، یہ کیسے ممکن ہے کہ مالک و رازقِ حقیقی کے در پر کوئی اتنا گِڑگڑاۓ ، اور خالی ہاتھ جاۓ """۔ 
آخر میں ان خواتین کے بال بھی کاٹے ،، ان کی گھبراہٹ پھر شروع ہو گئی کہ ان کے مرد نظر نہیں آرہے تھے ،، ہم مزید 20،، منٹ رُکیں اور اس دوران وہ انھیں ڈھونڈتے آگۓ ،،، تو ہم واپس ہوئیں ، اس عمرے کی خوشی تو تھی ہی ،،، یہ خوشی دو چند ہو گئ کہ یہ حقیر بھی کسی کے کام آئی ۔ ،،، لیکن دوسری طرف اس بات پر افسوس ہو رہا تھا کہ ہمارے حاجی بغیر ٹریننگ ، بغیر کچھ دعاؤں کی یاد کے پہنچ جاتے ہیں ، اور غلطیوں کی وجہ سے بعد میں پچھتاتے ہیں۔
اب ، مزید تین چار دن گزر چکے تھے ، جب گروپ کے " بزرگ لیڈر " اقبال بھائ نے فیصلہ دیا ،، " کل منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات جائیں گے ،، اور غارِ ثور ، اور غارِ حرا کی زیارتیں کریں گے " لہذٰ ا صبح حرم کی طرف ذیادہ نہیں رکنا ،، ہم ٹیکسی کریں گے۔
( منیرہ قریشی ، 31 جنوری 2018ء واہ کینٹ) ( جاری)

پیر، 29 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(سلسلہ ہاۓ سفر) " سفرِ حج" (3)۔

 یادوں کی تتلیاں" ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
سفرِ حج" (3)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہاشم کی طبیعت میں ، ایسی جھجک تھی کہ وہ بہت جلدی کسی سے فری نہیں ہوتا، حج کی تیاری کے دوران اور عین جہاز میں سفر کے دوران بھی یہ ہی دعا کرتی رہی کہ اللہ پاک اس کے حصے میں ہمارے لیۓ محرم کا ثوابعطا کرے ، اور اب ساتھ میں اس کی مشقتوں اور سجدوں کو بھی قبول کرنا ، تاکہ اُس کا جانا اُس کے لیۓ باعثِ شفاعت ہو آمین ،، اس کے یہ دن اچھے طریقے سے گزریں ،،،،سفر آدھی رات کے وقت ، شروع ہوا،۔
اس لیۓ باہر کی دنیا کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا، پہلے تو جہاز کی لائٹس روشن تھیں، گھنٹے بعد لائٹس بند ہوئیں تو مجھےگھٹن شروع ہو گئی ،، طبیعت پر بوجھ بڑھتا گیا ،، آخر میرے سامنے کے پیکٹ میں رکھے تین بیگز جو مسافر کی اُلٹیوں کے لیۓ رکھے جاتے ہیں ، پہلے میں نے اپنے تین ، پھر جوجی اور پھر نگہت کے بھی تینوں لفافے مَیں نے استعمال کر لیۓ، ، اور ہر دفعہ جہاز کے واش روم میں جانا پڑتا ، اور وہاں الگ میرا بُرا حال ہو گیا،،، اور جب اپنی سیٹ پر بیٹھی تو ایئر ہوسٹس سے کمبل منگایا ، حالانکہ میں نے پاکستان کے موسم کے مطابق گرم کپڑے پہنے ہوۓ تھے لیکن پانی کی کمی سے بدن پر لرزا طاری ہو گیا ، مجھے بھول گیا میں نے کیا پڑھنا ہے ، مَیں کس سفر پر ہوں ۔ لوگوں نے صبح کی نماز پڑھی تو گرتے پڑتے وُضو کیا اور سیٹ پر بہ مشکل نماز پڑھی ۔ بس میرا یہ حال کہ لگتا تھا " شاید میرا بلاوہ نہیں ہے اسی لیۓ بیٹھے بیٹھاۓ یہ حالت ہو گئی ، مجھے تو رونا آرہا تھا ، جہاز صبح 7 بجے جدہ ایئر پورٹ پر اُترا ،،،اُس سے پہلے عمرہ کی دعا نگہت نے پڑھوائی تو پڑھ لی ۔ ایئر پورٹ پر اُتر کر آس پاس ایسی نظریں ڈالیں ، جن میں کوئی جذبہ نہیں تھا ،،،ایک وسیع و عریض ایریا تک بہ مشکل پہنچی،، سب مرد حضرات تو سامان کی فکر میں اُدھر چلے گۓ جوجی اور نگہت نے واش روم میں جا کر وُضو کو تازہ کیا لیکن مجھے ایک بنچ نظر آیا جس پر دھوپ تھی میں تو جلدی سے اُس پر بیٹھ گئی ، اب اُلٹیاں نہیں تھیں ، سب کچھ تو جسم سے نکل چکا تھا ، جوجی نے کینو کھانے کو دیۓ، انھیں کھانے سے واقعی آنکھیں کھل سی گئیں۔ ،،،، لیکن اپنی حالت پر غور کرتی رہی ، کہ ضرور مجھ سے کوئی گناہ ہوا ہے یا اللہ کی اس میں کوئی مصلحت ہو گی ۔ باقی سب ممبرز جہاز میں بھی اور اب ایئر پورٹ پر بھی ناشتے کررہے تھے
،،،میرا بولنے کو بھی دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ لیکن دھوپ میں بیٹھنے سے سکون مل رہا تھا ،، باقی کوئی احساس تھا تو صرف " دکھ " کا ،،، کہ کتنے جذبے سے ، سفر شروع ہوا ،، اور اب عجیب خالی پن سا تھا۔
خدا خدا کر کے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے بسیں چلیں تو جدہ سے مکہ کا سفر ، انتہائی شوق سے باہر جھانکتے گزرا ۔ایک ایک منظر کو دیکھتی رہی۔ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ ہمیں سب سے پہلے کس جگہ پہنچنا ہو گا ،، ہمیں سب سے پہلے کیا نظر آۓ گا !!۔
کیا میں چل سکوں گی ،؟ پتہ نہیں کتنا چلنا ہو گا ؟؟؟ جدہ سے مکہ تک کا ایک گھنٹے کا فاصلہ ڈھائی گھنٹے میں طے ہوا ۔ جب مکہ کی حدود میں پہنچے ، اور اپنی رہائش گاہ پہنچے تو ، صاف ستھرا ہوٹل دیکھ کر ، کمروں کو دیکھ کر شکر کیا کہ بہت اچھا ہوٹل تھا ۔ اس کا نام " برج الاقصیٰ " تھا ۔ ہمیں جو کمرہ ملا ، اس میں چار بستر لگے ہوۓ تھے ، اور ہاشم ہی مردوں میں چھوٹا تھا ، اس لیۓ اسے ہی ہمارے کمرے کو شیئر کرنا پڑا ، اور شروع میں اسے برا لگا لیکن جلد ہی نارمل ہو گیا ، اس کمرے میں فریج ، ٹی وی ، ایک الماری ، اور اٹیچ واش روم تھا ،، میرا حال کچھ اچھا نہیں تھا ، دوبارہ طبیعت تو خراب نہ ہوئی لیکن، عمرہ کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی ۔ باقی سب ایکسائیٹڈ تھے ، انھوں نے تازہ وُضو کیا اور فوراً عمرہ کےلیۓ نکل گۓ اور مجھے کہا گیا کہ آپ کل عمرہ کر لینا ۔ میں چُپ رہی اور دوپہر کی نماز کی نیت کر لی ۔ چار فرض ہی پڑھے تھے اور دعا میں بس یہ ہی کہہ رہی تھی ،،، میری پردہ پوشی کر دے ،، بےشک " مَیں کالی ، میرا تن کالا ، میرا من کالا، کالا مینڈا ویس ( سراپا ) " لیکن میں تیری مہمان ہوں ، تیرے دروازے پر ہوں ،، ابھی یہ آہ وزاری چپکے چپکے شروع ہی ہوئی تھی کہ ، کہ سب افراد واپس آگۓ ،، میں حیران ہو گئی ، کہ عمرہ اتنی جلدی ہو گیا !!! تب سب نے بتایا کہ ہم ہوٹل کے لاؤنج میں پہنچے تو ہوٹل والوں نے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں ، ابھی دوپہر کا کھانا ہماری طرف سے کھا کر عمرہ کرنے چلے جائیں ، توہم واپس آگۓ ،،، مجھے لگا یہ واپسی میری وجہ سے ہوئی ہے ،، اگر یہ لوگ عمرہ کرتے رہتے ، تو مجھے اس دوران کہاں چین آتا ۔ بس میں نے باقی نماز مکمل کی اور کہہ دیا آپ لوگ کھانا کھائیں ، مَیں ساتھ جاؤں گی ،۔ 
سلیپر پہنے ، عبائیہ پہنا اور تیا رہو گئی گلے میں لٹکے پرس میں ایک دو کینو رکھ لیۓ ،،، میری تو جیسے بھوک ختم تھی ۔ اور وہاں سے صرف دس منٹ کا فاصلہ تھا " اس پاک ، اعلیٰ و ارفعٰ مسجدِ حرم کا " ،،، میری رفتا ر باقیوں سے آہستہ تھی ، جوجی میرے ساتھ ساتھ رہی، اور اب ہاشم کے چہرے پر اطمینان تھا ، کیوں کہ اسے میرا پیچھے کمرے میں رہ جانا اچھا نہیں لگا تھا ۔ جب ہم سب تلبیہ پڑھتے ہوۓ " حرمِ پاک کی حدود تک پہنچے ،،،اب نگہت نے اور اقبال بھائی نے، ہمیں کھڑا کر کے کہا ،، پہلے نظر یں نیچے رکھنی ہیں ، ہم سیڑھیاں اتریں گے ، تب فرشِ کعبہ پر نظر ڈالنا ،، ،، اور پھر نظریں اوپر کر کے خانہ کعبہ پر نظریں ڈالنا ،، اس دوران کچھ بھی یاد نہ آۓ تو تیسرا کلمہ پڑھ لینا ، اور جو دعا اُس وقت مانگنی ہے ،وہ ضرور قبول ہوتی ہے ،۔ اس لیۓ سوچ لینا ،۔ مجھے صرف اپنا پتہ ہے کہ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ،باقی ہر احساس ، مدھم پڑ چکا تھا ۔
اور جب ہم تلبیہ پڑھتے سیڑھیاں نیچے اُترنے لگے ، تو ہم تینوں خواتین ساتھ ساتھ تھیں ،،، مرد الگ الگ چلے گۓ تھے ،،، اور ،،، جب خانہ کعبہ پر نظر پڑی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سُن ہو کر کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔ نہیں معلوم تین منٹ گزرے یا پانچ ،، یا دس ،، مجھے لگ رہا تھا خانہ کعبہ بالکل خالی ہو گیا ہے، اصل میں مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میری آنکھیں ، واقعی خانہ کعبہ کو دیکھ رہی ہیں ،، مجھے لگا میں خواب دیکھ رہی ہوں ۔ اسی عجیب سی کیفت میں ، مَیں نے جوجی کی طرف دیکھا ، جو دو گز دور کھڑی تھی ، اور ہماری نظریں ٹکرائیں تو جوجی نے کہا " نہیں یہ خواب نہیں ہے "" ، ( یہ جملہ سو فیصد ٹیلی پیتھی سے ادا ہوا ، میں نے ایک لفظ نہیں کہا ، اور میں آج بھی اُس کیفیت پر حیران ہوں )،،،،،،،،،،،، تب میں نے اس ربِ رحیم سے یہ دعا مانگی ، " تو رحیم ہے ، مجھے بلایا ہے،تیرا شکر ، تیرا شکر ! ،،، بس میری آل اولاد کے لیۓ اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھنا " ،،،، ۔
نگہت بہت پریکٹیکل ، سوچ اور اُطوار والی ہے ، اسے اپنے جذبات کنٹرول کرنے آتے ہیں ، اور اس میں لیڈرانہ صلاحتیں ہیں ، وہ ہم سے مزید دو گز دوری پر تھی ، اس نے مکمل اطمینان سے دعائیں پڑھیں ، اور ہم آرام سے " حجرِاسود " کی طرف چل پڑیں ، ،، ابھی رش کچھ خاص  نہ تھا لیکن ہم نے حجرِ اسود کو چومنے کی زیادہ کوشش نہیں کی ،،، اور طواف شروع کر دیا ، ، ، مَیں جوجی کے پیچھے اور جوجی نگہت کے پیچھے ، چلتی رہیں ، طواف ہوتا رہا ، سارا کعبہ ، اور آس پاس مجھے ہلکا ہلکا ڈولتا محسوس ہو رہا تھا۔ رَش بالکل نہ تھا دائرۂ طواف کم ہو گیا تھا اسی لیۓ طواف 25 منٹ میں مکمل ہوا ،،، اب سعی کے لیۓ صفا و مروا کی طرف چل پڑیں ،، لیکن اب مجھ پر نقاہت طاری ہونے لگی تھی،، سعی کے ہر پھیرے پر بیٹھ جاتی ، نگہت اور جوجی نے کہا بھی ، وہیل چیئر ، لے لیتے ہیں ، لیکن مجھے لگا کہ مجھے اپنے رب کے لیۓ خود کو تکلیف دینا بھی پڑی تو کوئی بات نہٰیں ۔ میں اپنے قدموں سے چلنا چاہتی تھی ۔ وہ دونوں میری خاطر ٹھہرتیں ،، میں چند منٹ سانس درست کرتی ، تب چلتی ۔ خیر اللہ کے کرم سے یہ مرحلہ مکمل ہوا اور ہم نے اپنی اپنی دعائیں مانگیں ، اپنے بال تھوڑے تھوڑے کاٹے ،،، اور عمرہ مکمل کر کے ایک دوسرے کو مبارک کہی،،،، اور واپس باہر آگۓ ،، جس مخصوص جگہ کی نشان دہی اقبال بھائی نے کردی تھی کہ جو پہلے فارغ ہو جاۓ ، وہ اس بابِ عبدلعزیز کی سیدھ میں بنے چبوترے پر آجاۓ ،، ہم وہاں پہنچیں ہی تھیں کہ باری باری سب مرد حضرات بھی آگۓ ، ایک دوسرے کو مبارک باد دیں ، اور کچھ کھانے کے خیال سے ارد گِرد نظریں دوڑائیں ، شاید چاۓ کے ساتھ کچھ کھانے کی چیزیں آگئیں ،،، میں نے صرف چاۓ پر اِکتفا کیا ، ابھی تک بھوک جیسے ختم ہو کر رہ گئی تھی ،، لیکن عمرہ خود سے مکمل کر لینے کا احساس اتنا " لطیف احساس " دے رہا تھا کہ کیا ہی بتاؤں ،،،، ( کیوں کہ جب آپ کو لگے کہ آپ کا عمرہ اگلے ہی دن ہو پاۓ گا ،،، یا وہیل چیئر پر عمرہ ہو گا ، تب عمرہ پہلے ہی دن ہو جاۓ اور وہ بھی اپنے قدموں پر ،، تو لطیف کیفیت کیوں نہ ہو )۔
ہم نے چاۓ پی  اور یہ طے پایا کہ سب مشورے تو اقبال بھائی دیں گے ، لیکن ہمارا خزانچی ہارون پاشا ہو گا جس کے پاس ہم سب ایک مخصوس رقم رکھوا دیتے ہیں ، ہر روز صبح کے ناشتے ، اور رات کے کھانے کا بل یہی ادا کرتا رہے گا ۔ اور ، ہم سب تہجد کے لیۓ آئیں ،،، صبح کی نماز ،اور اشراق پڑھ کر نو بجے تک ناشتہ کرکےاپنے ہوٹل میں آرام کرنے پہنچ جائیں گے ، اور پھر ، ظہر کی نماز کے لیۓ جب خانہ کعبہ آئیں تو پھر عشاء پڑھ کر نکلیں اور تب رات کا کھانا کھا کر پھر اپنے ہوٹل میں آ جائیں ۔ ۔۔۔ !۔
دراصل ہمارے سب فیصلے اقبال بھائی نے طے کر لیۓ تھے کیوں کہ ان کی حج ورک شاپ ، ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب نے کروائی تھی جو خود بہت سے حج کر چکے تھے ، اور اب وہ دوسروں کو گائیڈ کرنے کا کام کرتے تھے ۔اسی لیۓ انھوں نے ہی بتا دیا تھا کہ اپنے " حج ایجنسی کے ساتھ کھانے کا طے نہ کرنا کیؤں کہ وہ بہت " ہیوی " کھاناکھلاتے ہیں ،، تم لوگ کھانے کا اپنا بندوبست کرنا چنانچہ ، ہم نے اپنے رہائشی ہوٹل اور حرم کے درمیان ایک چھوٹا سا ہوٹل " ملتزم " پسند کر لیا تھا جو کسی بنگلہ دیشی کا تھا ،، وہاں ہمیں کم نمک مرچ والی بہت سے سالن کی چوائس بھی مل گئی تھی ، وہیں ، صبح کا ناشتہ بھی ہونے لگا اور رات کا کھانا بھی ۔۔۔ اور یہ روٹین سیٹ ہو گئی ۔ اور یوں ہم نے پورے سکون و اطمینان سے اللہ کی میزبانی کے لُطف کا آغاز کیا ،،الحمدُ للہ ،الحمدُ للہ !!۔
( منیرہ قریشی ، 29 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

اتوار، 28 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔سفر،حج(2)۔

" یادوں کی تتلیاں " ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
 سفرِِ حج" (2)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
دسمبر کا مہینہ تھا ، معلوم ہوا کہ مکہ میں تو موسم نارمل ہے لیکن مدینہ میں صبح اور شام شدید ٹھنڈ ہوگی ، چناچہ اسی کے لحاظ سے کپڑے رکھ لیۓ تھے ، ، ، ہمارا حج پیکج 40 دن کا تھا اور ا کتالیسویں دن کو واپسی تھی ، ، ، میرا اور جوجی کا پہلا بیرونی سفر تھا ، جبکہ ہاشم تو ایک دفعہ کینیڈا جا ،آ چکا تھا۔ لیکن اس "سفرِِ خاص" کی تو بات بالکل ہی الگ تھی ، اس سے پہلے اپنے بزرگوں سے ملنے بھی گئی تھیں ، جس سے ملے ، بہت خوش ہوۓ اور ہمارے خیریت سے حج کی دعا کی ،اور جس نے اپنے لیۓ دعا کا کہا ،انہوں نے اپنی دعائیں لکھ کر دیں ، جو میں نے اکھٹی تہہ کر کے اپنے پرس میں رکھ لیں ، ، ،۔
۔12 دسمبر اتوار کا دن ، مصروف گزرا ، اور رات کو آپا کے گھر کا شاندار ڈنر کیا ۔ اور جب ہم دونوں نے بسم اللہ کر کے اپنے " عبائیہ" پہنے تو، تو کچھ لمحے ، ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو ، بہت ہی عجیب لگا کہ برقعہ ہم دونوں نے پہلی مرتبہ اوڑھا تھا۔ ( اب تک ہم چادر لیتی رہی ہیں ) بچوں نے موبائل سےفٹا فٹ تصویریں لیں، اور دوبارہ سب بچوں ، بہو ، آپا ، ملازمین سے گلے ملیں اور علی کی کار میں جا بیٹھیں کہ کہیں آنسو نہ نکلنے لگیں کہ " جوجی کی دونوں  جڑواں ابھی صرف تیسری ، چوتھی جماعت میں تھیں باقی تینوں بےشک بڑے تھے،لیکن ابھی تو کسی کے فرض سے فارغ نہ ہوئی تھی ، جبکہ مَیں خوش قسمت تھی ، کہ تین میں سے دو شادی شدہ اور ایک بچہ ساتھ جا رہا تھا۔ 
کچھ باتیں نشل بیٹی ، کو کچھ علی اور بہو صائمہ کو سمجھائیں ،، اور دل بھر آۓ ، کہ جو شادی شدہ ہوں وہ بھی " بچے " ہی لگتے ہیں ۔ اور دل میں عجیب سے خدشات پلنے لگتے ہیں۔ کہ کیا پتہ دوبارہ ملنا ہو یا نہ ،،، علی کو اس بات سے بڑی تقویت تھی کہ اماں کی ایک اولاد ساتھ تھی ،، اور اس نے متعدد بار یہ جملہ بولا " اماں ، اپنے آپ کو تھکانا مت ،، اور " بس آپ نے قاسم ( ہاشم کا گھر کا نام ) کا کہنا ماننا ہے ۔۔۔۔
جیسے چھوٹے بچوں کو کہا جاتا ہے " اماں کا کہنا ماننا ہے " ۔ دراصل ایک وقت آجاتا ہے کہ جب "" جوانی ، بڑھاپے کو نصیحت کرنی لگتی ہے""!،،، پہلا غیر ملکی سفر ، اور وہ بھی اللہ کی میزبانی کے ساتھ ۔۔۔۔ملےجلے ، جذبات کے ساتھ رخصت ہوۓ ۔ لیکن ابھی دل کے اندر ایسا کوئی جذبہ نہیں تھا جو " ہمارے لیۓ خصوصی احساس کا حامل ہوتا" ۔
رات کے نو بج چکے تھے اور علی ہمیں پنڈی" حاجی کیمپ" تک چھوڑنے جا رہا تھا ۔ ،، ابھی ہم اپنے گھر سے دو، ڈھائی میل ہی دور آۓ تھے کہ، جوجی کے موبائل پر رِنگ بجی ، جوجی نے فون آن کیا تو ثمینہ ایوب کا تھا ، ( شاہدہ کی ٹونز میں سے ایک بہن ، اس نے پچھلے سال حج کیا تھا) ، اور اس نے جب یہ جملہ کہا " منیرہ باجی ، اس سفر کی مبارک ہو ، میں نے بھی آپ کے ساتھ ، احرام ، باندھ لیا ہے ، اور روحانی سفر شروع کر دیا ہے " ،،، اس کے جذبہء ایمان والے الفاظ نے ہمارے لیۓ " ضرب " کا کام کیا،اور بےاختیار آنسو ٹپکنے لگے۔ اللہ کا نام لیتے دروُد پڑھتے رات دس بجے حاجی کیمپ پہنچے ،،،علی اور ہاشم نے سامان پکڑا، اور ہم قدرِ نا ہموار راستے سے چل کر اس بلڈنگ تک پہنچے ،،، جہاں چند دن پہلے آکر ، اپنے ڈاکٹری
سرٹیفلکیٹ لیۓ ، اور ساتھ لے جانے والی دواؤں کے پیکٹ تیار کروا ۓ تھے، اب ہمارا سفر یہیں سے شروع ہونا تھا کہ پنڈی اور اردگرد کے دوسرے چھوٹے شہروں کے حاجیوں کو یہیں آنا پڑتا ہے ۔ ابھی ہم کار سے اتر ہی رہے تھے کہ نگہت اور اقبال بھائی کی فیملی ، آپہنچی ، اقبال بھائی کی بھابھی ، بھتیجی ، اور بڑا بھتیجا بھی پچھلے سال حج کر آۓ تھے ، لہذا انھوں نے پاشا کو خوب بریف کیا ہوا تھا۔خود اقبال بھائی اور نگہت کی بیٹی ، بیٹے بھی موجود تھے ،،، کہ اتنے میں میرا داماد کامران نظر آیا ، ، اور میرا دل باغ باغ ہو گیا ، نئے  رشتے آہستہ آہستہ کتنے پیارے اور اہم ہو جاتے ہیں،وہ آفس سے سیدھا یہیں آگیا تھا ، " میں کتنی خوش قسمت تھی کہ اس سفر میں ایک بیٹا ساتھ جا رہا تھا ، ایک رخصت کرنے آیا تھا،،،، اور میں نے جوجی کی طرف نظر ڈالی ،، تو دل پر غم کا بوجھ پڑ گیا ، دونوں بیٹے ، ہزاروں میل دور ، بیٹیاں ابھی اُس دور میں ، جہاں قدم قدم پر ماں کی ضرورت ہوتی ہے،اور زندگی سراپا گنجلک، ، لیکن اس کے اطمینان اور مثبت سوچوں پر آفرین تھی۔بہرحال ، سب سے ملنا ملانا ہوا ، اور علی نے پھر ایک دفعہ ، اپنے فکرمندانہ جملے دہراۓ  اماں ، آپ نے خود سے کہیں اکیلے نہیں جانا ، قاسم اور جوجی خالہ کے ساتھ رہنا ، خود کونہ تھکانا " وغیرہ ،،، دراصل راستوں کی ڈائریکشن ، بارے میری عقل ہمیشہ سے کمزور رہی ہے ۔ اس لیۓ ان دونوں کو میرے گُم ہونے خدشہ رہتا ہے۔
حاجی کیمپ ، کی مسجد تو صاف تھی ، لیکن غسل خانے ایسے نہ تھے کہ ان میں جا کر " احرام باندھے " جا سکتے ، ہم تینوں خواتین تو ایک کمرے میں رہیں ، کہ ہم گھر سے مکمل تیار ہو کرآئی تھیں۔ہاشم نے سلیپر اور ایک تسبیح یہیں سے خریدیں، اور جب یہ تینوں مرد حضرات احرام باندھ کر واپس آۓ تو ، " فرشتے " لگ رہے تھے ، ہم سب نےعشا ء کی نمازیں پڑھیں، اور پھر ایک نزدیکی ڈھابے ٹائپ چاۓ خانہ سے چاۓ پینے بیٹھ گئے، میں نے صرف چاۓ لی اور باقی لوگوں نے چاۓ کے ساتھ بسکٹ وغیرہ بھی کھاۓ، اور آخرکار ایک مرتبہ اور وُضو کرکے رات ایک بجے ، بسوں میں آ بیٹھے ،، اب مسلسل اللہ کے نام اور جو  جو یاد تھا وہ پڑھنے لگے ، ہاشم اور اقبال بھائی ،اور پاشا اگلی سیٹوں پر اورسب خواتین پچھلی نشستوں پر تھیں ،"بس" میں خاموشی تھی ، لیکن کچھ ہی دیر بعد " لبیک کی تلبیہ " بہت تواتر سے گونجنے لگیں ،، اور ہم سب بھی لبیک کا ورد کرتے پنڈی ایئر پورٹ پہنچے ،،، ہمیں بس سے اترتے وقت علم ہوا کہ سارے راستہ لبیک ، تو اپنا ہارون پاشا پڑھتا رہا تھا ، بہت خوشی ہوئی کہ ، جوان بچہ ہے ، اور بوڑھوں کے ہوتے ہوۓ ، اُسی نے جراؑت کی ، اور اپنے اس مقدس سفر کی ابتدا کروائی۔ ،، اور ہم سفرِِ حج کے مسافر ایئر پورٹ لاؤنج میں جا بیٹھے !لیکن یہاں کچھ خواتین کے حلیۓ ہمارے لیۓ ، اچنبھے کا باعث بن گئےکہ انھوں نے " پی کیپ " پہن کراوپر اپنے عبائیہ کے نقاب ڈالے ہوۓ تھے ۔ جب کہ ہمیں ڈاکٹر فرحت کے حج لیکچر میں بتایا گیا تھا کہ آپ کی گال ، تھوڑی ، آنکھیں ، نقاب سے کوَر نہ ہوں ۔ لیکن یہاں کچھ الگ سوچ کے حامل دیکھے جو ہمارے لیۓ پہلا تجربہ تھا ۔
اور پھر ہم اس حج فلائٹ میں داخل ہو کراپنی سیٹوں پر بیٹھ گۓ ، اتفاق سے ہم تینوں خواتین کو ایک ساتھ جگہ ملی اور تینوں مرد حضرات ہمارے بالکل آگے کی سیٹوں پر بیٹھے ، سخت سردی تھی اور ہم خواتین کے لباس تو مکمل سردیوں والے اور پھر عبائیہ ، اور جرابیں بھی پہنی ہوئی تھیں ، جبکہ مردوں کو احرام کی پابندی کے تحت ، کچھ مزید اوڑھنا یا جرابیں پہننا منع تھا ، اس پر مزید یہ کہ جہاز کا اے سی بھی آن رہا ! لیکن دعاؤں اور تلبیہ کے ساتھ سفرِ خاص شروع ہوا ۔ 
( منیرہ قریشی ، 28 جنوری 2018ء واہ کینٹ) ( جاری )

ہفتہ، 27 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں (سلسلہ ہائے سفر)۔سفرِحج(1)۔

یادوں کی تتلیاں " (سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
سفرِ حج " (1)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔8 ،اکتوبر ہفتہ کا دن تھا ،، اور رمضان چل رہا تھا ، میری بہو اور پوتی اپنے ننھیال گئی ہوئی تھیں ، اور چھوٹا بیٹا ہاشم ، بھی گھر پر نہیں تھا ، میں ، اور علی ہی گھر پر تھے اور روزہ رکھ کر نماز کے بعد سوۓ ہوۓ تھے ، کہ ہفتہ چھٹی اور آرام کا دن تھا ،، صبح ، شہناز کو گھر کے اندر آنے کا طریقہ پتا تھا ،، ہم بےفکر رہتے تھے ، ،، 8 بجے کے قریب ،یا ذرا اس کے بعد کا وقت ہو گا کہ زلزلے سے کمرہ ہلنے لگا ، یہاں زلزلے آتے رہتے ہیں اور میں اور علی " پینک " نہیں ہوتے تھے ،،، لیکن کمرہ مسلسل ہی ہلنے لگا ، تو میں دروازے پرآ ،کھڑی ہوئی دیکھا تو شہناز ، سخت پریشان شکل کےساتھ لاؤنج کے فرش پر بیٹھی ہوئی تھی۔ علی نے آواز دی ، اماں ، باہرٹیرس پر آجائیں ۔ اور وہ وہاں کا دروازہ کھول کر مجھے بلانے لگ گیا ، لیکن شہناز کے لیۓ تو کھڑا ہی ہونا محال ہو رہا تھا اور اب میرے لیۓ بھی حرکت مشکل ہو رہی تھی ، میں نے شہناز کو کہا چند قدم بیٹھے بیٹھے آگے بڑھو ،، وہ بےچاری آگے آئی ، دو قدم آگے میَں نے بڑھ کر اسے اپنی طرف کھینچا ،، اور کلمہ پڑھتے ہوۓ ہم دونوں اپنے کمرے کی چوکھٹ تلے کھڑی ہو گئیں ،،، اور یہ منظر ، کہ سارا گھر ایسے پانی کے جہاز کی طرح تھرتھرا رہا تھا کہ لگتا تھا ، بس ابھی ایک زور کا جھٹکا آجاۓ گا اور سب تہس نہس ہو جاۓ گا،،، کہ جھٹکوں میں کمی آئی ، اور پھر زلزلہ رُک گیا ۔ جلدی جلدی اپنی بیٹی کا نمبر ، پھر بھائی جان اور سب بھانجے بھانجیوں کو فون ملا ملا کرخیریت پوچھی ،،، اور پھر ٹی وی کھول لیا ،،، پورے ملک کی صورتِ حال تشویشناک تھی ، فوری طور پر خبریں یہ تھیں کہ زلزلے کا مرکز آزاد کشمیر تھا ، اور اس سے رابطہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا ۔ کہ پتہ چلے کہ وہاں کیاقیامت گزر گئی ہے !۔
اور جب تک شام ہوئی ، یکدم آسمان پر سیاہ بادل چھاۓ ، اور پھر جو مینہ کے ساتھ ژالہ باری ہوئی ،،، کہ لگتا تھا زلزلے کے بعد ایک اور آزمائش آگئی ہے ۔ یہ ژالہ باری مسلسل 20 ، 25 منٹ جاری رہی ۔ میں نے کھڑکی سے یہ خوفناک منظر دیکھا ، اور روزہ داروں کی حالت ، سردی کا سوچ کر ہی دل غم سے بھر گیا ۔ یہ ایک دہلا دینے والا دن تھا ۔ رات  تک غم انگیز خبریں آنے لگیں کہ ، کہ آنسو بےاختیار ہو گئے،۔
اور اگلے ہی دن پاکستان کی پوری قوم پھر ایک مُٹھی ہو کر اپنے برباد شدہ علاقوں میں مدد پر جُت گئی ۔ ترکی اور چین کی امدادی ٹیمیں معہ ڈاکٹرز ، نرسسز ، تمام ایسے خیموں کے ساتھ آگئیں ، جو موبائل ہاسپٹل تھے ، یہ بےحد ضروری مدد تھی ، لیکن ، آزاد کشمیر سے ایسی دردناک خبروں کا تانتا بندھ گیا کہ، دل غم سے پھٹنے لگا ، ہر واقعہ پہلے سے زیادہ دکھ والا ہوتا تھا ، سب نے جتنا ہو سکا ، عارضی گھروں ، اور سردی کے بچاؤ کے لیۓ امداد پہنچائی ، علی کا ایک دوست خرم ، تو ایک بڑی وین میں کمبل ، رضائیاں اور برتن وغیرہ لاد کر جاتا ، اور وہاں تقسیم کر کے آتا ، اسی کے ایک پھیرے میں علی بھی ساتھ چلا گیا ، اور ہمیں مزید وہاں کی  صورتِ حال سمجھنے کا موقع ملا ،یہ صرف امداد نہیں ،، بلکہ یہ ہم سب کا فرض بھی تھا ، اللہ تعالیٰ سب کی کوشش اور ہمدردی کو قبول فرماۓ ،،، اسی زلزلے میں ہمارے جاننے والے ایک ڈاکٹر کرنل کی دو بیٹیاں چھت گرنے سے شہید ہو گئیں وہ اُن دنوں آزاد کشمیر میں پوسٹ تھے ، ان میں سے ایک بچی ہمارے سکول کچھ عرصہ پڑھ کر گئی تھی ۔ ان کی میتیں واہ میں ان کے دادا کے گھر لائی گئیں میں اور جوجی ، سکول سٹاف کے ساتھ ان کے گھر گئیں تو سبھی، ماں کا حوصلہ دیکھ کر آفرین کہنے لگے ، !۔
یہ سال پاکستان کے لیے شدید دکھ بھرا سال ہے کہ ، آج بھی 8 اکتوبر کادن آتا ہے تو ، میڈیا ، ان درد ناک واقعات کو دہراتا ہے ، اور اس دن ہر گھر ، کا موضوع اتنا خوفناک زلزلہ ہوتا ہے جو 6ء7 ریکٹر سکیل پر تھا ،، جو ایک منٹ اور کچھ سیکنڈ رہا لیکن سارے آزاد کشمیر کو نیچے ، سے اوپر ، کر گیا ،، لاکھوں گھر اور گھرانے تباہ برباد ہو گۓ !! یہ زلزلہ دنیا کے بڑے زلزلوں میں سے پانچویں نمبر کا تھا ، اور پاکستان کے صوبہ پنجاب اور کے پی کے ، میں بھی اس کے شدید اثرات آۓ تھے ،، ذیادہ تر لوگوں کی اپنی مدد آپ کے تحت ہی مسائل حل کیۓ گۓ ۔ ،، اور اتنے بڑے سانحے ، کے زخم بھرنے میں بھی وقت تو لگنا تھا۔
نومبر 2005ء کا دوسرا ہفتہ تھا۔ انہی دنوں " حرمین ایجنسی " والوں نے ہمیں فون پر اطلاع دی کہ، ہم تینوں کے حج کے کاغذات مکمل ہو گئے ،، آکر لے جائیں ۔ اور تب ہم نے خود کو جسمانی ، اور ذہنی طورپر تیار کرنا شروع کر دیا ، ورنہ زلزلے کے حادثے نے ہم سے حج کا جوش وخروش ختم کر دیا تھا ، اور جیسے یہ بات ہمارے ذہنوں سے محو سی ہو گئی تھی ، ، لیکن یہ ہی زندگی کے نشیب و فراز ہیں کہ بندے کی قوتِ برداشت ، سے وہ جھیلتا چلا جاتا ہے۔ 
حج سے متعلق کچھ مپفلٹ ،" الہُدیٰ اسکول " سے منگواۓ ، اور اس دوران " حرمین حج ایجنسی " والوں کی طرف سے اس ایک ڈیڑھ ماہ میں دو مختلف ورک شاپ کرائی گئیں ، اور واہ کینٹ کے اندر بھی دو ، لیکچرز کا اہتمام کیا گیا ، جسے کروانے والے ، ہر سال اللہ کے مہمانوں کی خدمت سمجھ کر خود ہی کرواتے ہیں ،، ہم یہ سب بھی اٹینڈ کرتی رہیں ۔ اور اب شام ہوتے ہی ہم دونوں لمبی سیر کے لیۓ نکل جاتیں ، تاکہ پیدل چلنے کی عادی ہو جائیں ،،، ، ! اور اپنے " دنیاوی سامان ِ سفر " کی شروعات بھی ہوئیں ،، کچھ نئے  کچھ پہلے کےکپڑے ، جوتے جو دراصل بہت سستے سلیپرز کی صورت میں تھے ،، کہ بتایا یہ ہی گیا کہ اکثر یہ سلیپرز مسجد سےباہر آئیں تو غائب ہوتے ہیں ،اس لیۓ تین ، چار ، جوڑے فالتو ہونے چائیں ۔ نیز عیدِ الاضحیٰ بھی آۓ گی تو اس کا ایک جوڑا ، بھی وغیرہ ۔ لیکن ہاشم کا خیال تھا کہ وہ تو ایکٹیو ہے اور اسے ان تیاریوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں ، وہ آخری دن تک اپنی جاب پر بھی جا تا رہا تھا ،،، جب کہ دوسری طرف ہماری " لیڈنگ پارٹی " یعنی اقبال بھائی نگہت،،،،،، تو ہم سے ذیادہ " آرگنائز " ورکشاپس سے بہت کچھ سیکھ رہی تھی !دراصل ہم سب چھے افراد کا یہ پہلا حج تھا ،،، اور ہم سب کا پہلا غیرملکی سفر بھی ۔ ،،، اور یہ سفر تو " سفر الخاص " تھا ۔ 
اس دوران ، ہم دونوں سکول بھی جاتی رہیں ،، اگلے 40 دن کی غیرحاضری کے لیۓ ، اپنی سینئر موسٹ ٹیچر " شیما زاہد " کو تیار کرتی رہیں۔کیوں کہ ہمارے بچوں میں سے سبھی اس سٹیج پر تھے کہ وہ ابھی ایک بڑے سِٹ اَپ کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے تھے ،، شیما کے بارے میں پہلے بھی لکھا تھا کہ وہ نسلوں سے تعلیمی شعبے سے وابستہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے ،، اور خود اس کے اندر ،،سر تا پا ، ، اچھے استاد کی صلاحیتیں تو ہیں ہی ،، لیکن جب سے ہم نے اسے " مین برانچ " کی انچارج بنا دیا تھا ، اس کی انتظامی صلاحیتوں سے بھی ہم مطمئن تھیں ، سکول تو ایک ہی تھا لیکن اسے جگہ کی کمی کے باعث پھیلا کر تین حصوں میں کر دیا گیا تھا ،، مین برانچ ، پہلی جماعت سے جماعت ششم تک کی تھی ، پلے گروپ تا پریپ ، ایک الگ بلڈنگ میں اور ساتویں سے دہم تک کی جماعتیں ، تیسری بلڈنگ میں شفٹ ہو چکی تھیں ،،، اسی سینئر برانچ کی انچارج میں خود تھی ،، اور عارضی طور پر اپنی" کور آرڈینیٹر " مسز سلمیٰ کو دیکھ بھال کی ٹریننگ دی ،، تاکہ وہ اس کے مسائل" شیما سے ڈسکس کر کے حل کرتی رہے ۔ جبکہ پلے گروپ تا پریپ کی انچارج" مسز فرحت ممتاز " کا اب کچھ عرصہ گزر چکا ، اور وہ اپنے کام کو بہت حد تک سنبھال چکی تھیں ۔اس لیۓ شیما   اس برانچ کے لیے اتنی فکرمند نہیں تھی ۔ ،،، اور صورتِ حال کچھ اتنی اطمینان بخش چل رہی تھی کہ ہمیں اس سلسلے میں کوئی ذہنی دباؤ بھی  نہیں تھا ،،،یہاں مَیں اس بات کو لکھنا چاہوں گی کہ "بہت سے معاملات میں ہمیں دوسروں پر اعتماد کرنا بھی پڑتا ہے، ، کرنا بھی چاہیۓ ،، اور ہمیں اپنے ساتھ کام کرتے رہنے والوں کی عزت کرنا چاہیۓ ، اسی طرح ہی ایک بہتر ٹیم سامنے آتی چلی جاتی ہے ۔ اور ایک ادارہ اسی طرح مضبوط بھی ہوتا چلا جاتا ہے ، اگر صرف ایک ہی بندہ اپنے آپ کو " عقلِ کل " اور " پر فیکٹ " سمجھ کر تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے ، تو اسے بااعتماد ٹیم نہیں مل پاتی اور وہ خود بھی " کام کے شدید دباؤ " میں رہتا ہے ،، ! ۔
اللہ کا شکر ، شیما ، فرحت ، اور سلمیٰ نے اپنے اپنے کام بہ خوبی سمجھ لیۓ ،، اور ہمیں بےفکر ہونے کا کہتی رہیں۔،،، ہم پچھلے کئی سالوں سے دسمبر میں ، سارے سکول کا "آرٹ اور سائنس ایگزیبیشن " کروا رہے تھے ۔ اور اب ہماری حج کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ تھیں کہ، اس تقریب کا جو نوٹیفیکیشن بچوں میں تقسیم ہوا ، اس پر 10 دسمبر بروز ہفتہ درج تھا،،، اور دو دن بعد ہمیں حج فلائٹ کا پیغام ملا کہ 11 دسمبر کی آپ کی فلائٹ صبح 4 بجے روانہ ہو گی ۔۔۔۔ لیکن ہم نے اسی شیڈول کے تحت پروگرام قائم رکھا  کہ سکول کے روٹین کے مطابق ہر چیز چلتی رہے ،، اور ہمارے بکس بند ہو گئے ،، میری بیٹی پنڈی سے آچکی تھی ،، اور میری تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں کو پیک کر چکی تھی بلکہ اس نے اپنے بھائی کا ، اور خالہ کے سامان کو بھی بہ نظرِ خاص دیکھا ،، کہ کوئی چیز رہ نہ جاۓ ۔ اُس میں یہ خاص صلاحیت ہے کہ وہ کسی جگہ جانےکے وقت صرف اپنی فکر نہیں کرتی ، ، ، بلکہ اپنی ساتھ جانے والی ٹیم کے سب ممبران کو اپنی پوری مدد دیتی ہے ،، اور اس صلاحیت کے استعمال میں کبھی " بخیلی " نہیں کرتی ۔۔ اُس کی اس عادت پر مجھے فخر ہے ،۔ اسی عادت نے اسے سسرال میں بھی باعزت مقام دیا ہے ،، اللہ اسے ہمیشہ شاد و آباد رکھے ، آمین ثم آمین !۔
میری بہو ان دنوں نئےآنے والے بچے کی تیاری میں تھی ، اسے ڈاکٹر نے 25 دسمبر کی تاریخ دی ہوئی تھی ، اور وہ اپنے بیگز کو پیک کر رہی تھی کہ میرے جانے کے اگلے دن ہی اسے اپنے والدین کے گھر اسلام آباد جانا تھا ،، اور اس کا ہاسپٹل بھی اسلام آباد ہی میں تھا ۔ اب گھر میں صرف علی نے رہنا تھا ، جسے اِن بچوں کی پرانی اور مزاج دار " گورنس " ،، شہناز نے سنبھالنا تھا ،، میرے لیۓ میرے اللہ نے آسانیاں ہی آسانیاں کر رکھی تھیں ، اور ہیں !!!۔
۔11دسمبر 2005ء کا دن سکول کے " ایگزیبیشن " کا مصروف دن گزرا ، اس سے حاصل ہونے والی تمام تر آمدنی ہم ہرسال "نشیمن " سکول ( گونگے بہرے بچوں کا سکول ) کو دیتے آۓ ہیں ،، ان کی پرنسپل کو بلا رکھا تھا آفس میں ہی انھیں یہ رقم پیش کی گئی ، وہ بہت خوش تھیں کہ ان بچوں کی کچھ اہم ضروریات کی خریداری کی رقم مل گئی ہے ، الحمدُللہ ! ، شام چار بجے تک فارغ ہوئیں ،، ہمارا رات کا کھانا ، آپا کے گھر تھا ، جس میں میرے سب ہی بچے ، جوجی کی تینوں بیٹیاں ، اور ایک ہماری چچی بھی موجود تھیں ،، سارا سامان علی کی کار میں رکھا جا چکا تھا ، رات کے کھانے میں انتہائی مزیدار مٹن پلاؤ تھا ، علاوہ اور لوازمات کے ،، ( مجھے آج بارہ سال بعد بھی ایک ایک تفصیل یاد آرہی ہے کیوں کہ میں نے اس پہلے "سفرِِ خاص" اور حج کے اہم فریضے کی جزیات کو ذہن سے محو نہیں ہونے دیا ۔ الحمدُ للہ )،،، ۔
( منیرہ قریشی ، 27 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

جمعرات، 25 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں( 86۔۔ آخری قسط)۔

یادوں کی تتلیاں (86)" ( آخری قسط)۔"
۔"یادوں کی تتلیاں "کا لفظ ذہن میں آیا ، تو صرف اور محض بچپن کے چند سہانے دن یاد آگئے تو سوچا اپنے فیس بک گروپ " خانہ بدوش " میں انھیں محفوظ کر لوں ، اِن یادوں میں " بچپن میں اباجی اور اماں جی کے ساتھ " مری " کے قیام کے دن تھے ۔ انتہائی معصوم ، بلکہ کسی حد تک بیوقوفانہ سا بچپن تھا ۔ انہی سادگی سے گزرے دنوں کو سادہ انداز میں بیان کیا ، تو ارادہ دو اقساط تک ہی ختم کرنے کا تھا ، لیکن اپنے محدود گروپ میں موجود 50 لوگوں میں سے زیادہ لوگوں نے بہت سراہا ! ،، تو سوچا چلو تھوڑا اور لکھ لوں ۔ اور یوں وہ سلسلہ 100 اقساط تک پھیلا ،، اور اب یوں لگ رہا ہے کہ ، ابھی تو فلاں اور فلاں واقعہ تو رہ گیا ،،، لیکن میرا اپنا خیال ہے " کہ اس واقعہ کو اِک نامعلوم موڑ دے کر چھوڑنا اچھا " ،،، میں نے 2005 یا 6 200ء تک کے واقعات کو اپنی یادوں میں سے کھرچ کر اُس صفحے پر سجا لیا ہے ،، جو رنگا رنگ پھولوں کی صورت پھیل گۓ اور اِن پر رنگین تتلیاں، کبھی کسی کردار ،اور کبھی کسی واقع کی صورت ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر آتیں ، اور بیٹھتیں ،،، میرے لیۓ یہ مناظر اتنے دل فریب ہوتے کہ ، بعض اوقات تھکے ہونے کے باوجود، انھیں قلم بند کر کے رہتی ۔ گویا " یادوں کی تتلیوں " نے مجھے خود ہی اتنا مسحور کیا ، کہ میَں خود انجواۓ کرنے لگی ،، اور اب کچھ مطمئن ہوں کہ جو لکھا ، کافی ہے ۔ 
تتلی ،،،کے لفظ کو پڑھ کر اور تتلی کو دیکھ کر ، صرف خوب صورتی کا خیال آتا ہے ،،، حالانکہ وہ ایک کیڑا (ان سیکٹ)ہی تو ہے ،،، اور کیڑا بھلے کتنا بھی خوبصورت ہو ،، اُسے ہاتھ لگانے والا کچھ دیر سوچتا ہے اور کچھ دیر کے لیۓ ہی ہاتھ لگاتا ہے ۔ جب کہ ۔۔۔۔ تتلی۔۔۔ وہ کیڑا ہے جس کی رنگینی ، نازکی ، اور خوب صورتی سے بچے ، بوڑھے ، عورت ، مرد سبھی متاثر ہو جاتے ہیں ، اور کوئی اس سے ڈرتا نہیں ،، اِس کیڑے کا حُسن ہر ایک کو لبھاتا ہے ۔ اور ،،،،،،،،،، دوسرے ،، اِس پیارے کیڑے کی چال دیکھۓ ، کہ کبھی سیدھے نہیں اُڑتی ، بلکہ کبھی دائیں ، کبھی بائیں ،، گویا اَٹھکیلیاں کرتی جا رہی ہوتی ہے۔ تو گویا ، زندگی کی یادیں بھی ، کبھی دائیں ، کبھی بائیں جانب سے جھانکتی چلی جاتیں ہیں اور یادوں کو لکھتے وقت اسی لیۓ کسی باقاعدہ اور ترتیب وار انداز سے نہیں لکھا جا سکا ۔ 
اردو ادب میں خود نوشت ، یا آپ بیتی کے ناموں میں " یادوں کے جگنو " یا " یادوں کی برات " یا " یادوں کے دریچے " ،یا "تلخ یادیں "،،، یا ،، یادوں کی بھول بھلیاں " ،،، وغیرہ کئی ایسے ناموں سے لکھی جا چکی ہیں ، مجھے خوشی ہے اور میرا خیال ہے عنوان " یادوں کی تتلیاں " کے نام سے ابھی تک میری نظر سے کوئی خود نوشت نہیں گزری ۔ اور اگر ایسا ہوا تو میَں ، ابھی سے معذرت خواہ ہوں ،، کیوں کہ مجھے یہ عنوان خود ہی سوجھ گیا تھا ، تو لکھ لیا ۔
تتلی ،،، کے خیال سے جس "نزاکت اور لطافت " کا خیال آتا ہے ،،، لکھنا شروع کیا ،تو یہ ہی سوچا ، اپنی یادوں میں تلخ ، چبھتی ، اور تکلیف دہ یادوں کو نہیں دہراؤں گی ،، کہ اِن شکوؤں کی بھی حد نہیں ہوتی ، کیوں کہ اُنھیں یاد کر کےہم گِلہ مند بھی ہوتے ہیں اور سَرد آئیں بھی بھرنے والے ہوتے ہیں ۔ لہذٰا کیوں نا کوشش کی جاۓ کہ ، پڑھنے والے کو خوشگوار تصورات دیۓ جائیں ، بجاۓ ہم آپس کی رنجشوں کو ، آپس کے اختلافات ، اور منفی خیالات کو بیان کر کے خود بھی اداس ہوں ، دوسرے کو بھی اداس کر دیں ۔ کہ انھیں لکھنے والا ایک اور اینگل سے دیکھ چکا ہوتا ہے ، لیکن پڑھنے والا ، ، کسی اور نکتہء نظر سے محسوس کرے گا ۔ جو وجہء تنازعہ بھی بن سکتے ہیں ۔
البتہ ، کسی کی بیماری یا مستقل جدائی کا ذکر ضرور کیا ہے کہ ، خوشی کا اُلٹ غم ہے ،، اسی طرح ،، زندگی کا الٹ موت ہے اور یہ ، لازم ، و اٹل حقیقت ہے ۔ بیمار ہو جانے والوں کا ذکر بھی اسی لیۓ کیا ہے کہ ، ہم میں سے جس کے گھر میں ایسی صورتِ حال ہے تو وہ ، ایک دوسرے کے تجربات سے ضرور فائدہ بھی اُٹھاۓ ، اوراپنی سوچ کےزاویہ کوبھی بدلے ۔
میَری " یادوں کی تتلیاں " میرے تصورات کے باغ میں اُڑتی پھرتی ہیں ،جب ایسی باتیں مزید جمع ہوئیں ، جنھیں لکھنا ، مجھے اچھا اور ازبس ضروری لگا ، تو دوبارہ بھی لکھ لوں گی ۔
اور یادوں کی تتلیوں پھر آ موجود ہوں گی !!!۔
آخر میں میَں اپنے والدین کے لیۓ اللہ سبحان تعالیٰ سے بہت دعا گو ہوں ، جن کے ذوق ادب اور قلم چلانے کی اہلیت نے مجھے جب کبھی کچھ لکھنے پر راغب کیا ، تو انھوں نے بہت سراہا ، اور یہ حوصلہ افزائی ہی تھی جس نےآج نظمیں اور نثر لکھنے کے قابل کیا ،، مجھے مسجع و مکفع تحریر لکھنے کی عادت بھی نہیں اور نہ ہی ، میں اس کی اتنی قائل ہوں ،، میری سادہ تحریر کو جس طرح آپ پڑھنے والوں نے پزیرائی بخشی ، بس مجھے اور کیا چاہیئے ۔ 
یادوں کے حوالے سے چند جملوں کی ایک آزاد نظم لکھی ہے ، اور پھر اختتام کرتی ہوں ۔ 
" یادیں "
،،،،،،،،،،،،
آہ ، یادیں رہ جاتی ہیں 
جب کچھ پرانی تصویروں سے 
اور کچھ پرانی تحریروں سے !!
آنکھوں سے چھینٹا دے کر 
گرد ہٹائی جاتی ہے ،
تب آنکھیں پھول چڑھاتی ہیں !
آہ ، یادیں ہی تو رہ جاتی ہیں ۔
( منیرہ قریشی ، 25 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) 
اللہ پاک بڑے بول اور قلم کی کمزوری کو معاف کر دے آمین !۔

منگل، 23 جنوری، 2018

"یادوں کی تتلیاں (85)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( 85)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
زندگی میں ،کامیابیاں، ناکامیاں ،،، خوشیاں اور غم سبھی نشیب و فراز چلتے رہتے ہیں ، بس اسی ربِ رحیم کی مدد ہوتی ہے کہ ہم ہر مشکل سے نکل جاتے ہیں اور خود کو کامیاب تصور کرتے ہیں کہ یہ سب کامیابی ، ہماری ہی محنت سے ملی ہے ،،،، ہرگز نہیں ،،، محنت تو ایک ہی میدان میں بے شمار لوگ کرتے ہیں لیکن کامیابی صرف اس کے حکم سے ملتی ہے اور ،، بس !
اپنے ذاتی گھر کا خواب تو ہر بندہ دیکھتا ہے ، لیکن عورت کے اندر اس خواہش کا پودا کچھ ذیادہ مضبوط ، جڑوں کے ساتھ ہوتا ہے ،،، ،،، اور اب جب اللہ کی مہربانی ، اور کرم سے میرا گھر بن گیا اور اس میں ہم سیٹ ہو گۓ،،، تو مجھے یوں لگنے لگا ،، جیسے میرے سارے کام ختم ہو چکے ہیں ،،، میں ان دنوں خود کو عجیب ہلکا پھُلکا سا محسوس کرنے لگی تھی ، ، ، لیکن اُس رب کی رب ہی جانتا ہے ۔ 
آپا اور بڑے بھائی جان نے اپنا حج کا فریضہ 1969ء یا 1970ء میں کیا تھا اور اب 2005ء آچکا تھا ،،، اور آپا اکثر ہمیں کہتیں ،،"" اب کے ہمت کرو تو ،،، تو حج کا فریضہ جتنا جلدی ہو سکے تو کر لو ،،، کیوں کہ حج کے لیۓ بہت ہمت چائیے ، ، بہت مشقت کرنی ہوتی ہے ۔ ،،، لیکن ہم تو جدوجہد ، کی جس پٹڑی پر چل رہی تھیں ، ابھی اس "اہم ترین " فرض کی ہم نے خواہش کبھی کی بھی تھی ، تو اسے دبا دیا تھا ، لیکن مٹایا نہیں تھا ،،، ۔
جیسا میں نے لکھا کہ 2005ء ستمبر میں نئے گھر میں شفٹ ہوئی،،، تو اُسی سال اکتوبر کی 4 یا 5 تاریخ تھی اور سہ پہر کا وقت تھاکہ ہماری پرانی سہیلی نگہت کے شوہر اقبال بھائی کا فون آیا ،، " منیرہ ،جوجی بھئ ، تم دونوں نے ایک مرتبہ ذکر کیا تھا کہ کبھی حج کا پروگرام بنا تو ہمیں بھی شامل کر لیجۓ گا ،،، تو میں اور نگہت تو " حرمین حج ایجنسی " والوں کے پاس اپنے فارم جمع کروا آۓ ہیں ،، اور تم دونوں کے نام لکھوا دیۓ ہیں ،، اب تم دونوں جاؤ اور اپنے فارم بھی فِل کرکے دے آؤ اور اپنے محرم کا نام بھی لکھوا کر آؤ ۔ تم لوگوں کے پاس 3 دن ہیں اور پھر جا کر فلاں فلاں ایڈریس پر پہنچ جانا "،،،،،،،،،،،،،، نگہت کے شوہر ، ہماری سہیلی خورشید صلاح الدین کے بھائی ہیں اور ایرفورس کے ایجوکیشن کور میں ونگ کمانڈر کے عہدے سے ریٹائر ہو چکے تھے ، اور ویسے بھی پچھلے 20، 30 سالوں سے واقفیت اس لیۓ بھی تھی کہ ہمارے کچنار روڈ کے گھر کے پاس ان کا بھی گھر تھا ،،، اس لیۓ بھی انھوں نے ہمیں اپنے گروپ میں شامل کرنا پسند کیا ،،، !!۔
جب اقبال بھائی کا یہ " حیران کن " فون آیا ، تو جوجی اس وقت میرے گھر ہی بیٹھی ہوئی تھی ، ، میں نے ان کی گفتگو سن کر جب فون بند کیا ،، تو حیران نظروں سے جوجی کو دیکھا ، اس نے پریشان ہو کر پوچھا خیریت ؟ تو میں نے خالی سے لہجے میں کہا ،، "اقبال بھائی کو پتہ بھی ہے ، ابھی ابھی گھر بنایا ہے ،، یہ دعوت تو زخم پر نمک چھڑکنے والی بات ہے ، کہ حج پر چلو "،،، جوجی نے کہا کتنے کا پیکج کا بتایا ہے ؟ کہا ، ایک لاکھ 16 ہزار ،بغیر قربانی کے اور قربانی سمیت ایک لاکھ 21 ہزار "،،، جوجی نے فوراً یاد دلایا "تو وہ تین لاکھ تو ہیں ہی ،،، جو میں نے انگلینڈ جانے کے لیۓ الگ کیۓ تھے ۔ اسی میں تھوڑا اور ملا لیں گے ،""،، میرا دل ودماغ قطعاً بےاعتباری کی کیفیت میں مبتلا ہو گیا ،، میں نے جوجی سے کہا " پہلے تم اپنے دونوں بیٹوں سے پوچھ لو اگر وہ بطورِ محرم ساتھ چلیں تو بہت اچھا ہے ، ورنہ میں اپنے دونوں بیٹوں سے پوچھ لوں گی ، اس نے اپنے دونوں بیٹوں سے پوچھا جو انگلینڈ میں ہی رہ رہے تھے ،، لیکن ان کے لیۓ ممکن نہیں ہو پا رہا تھا ، کامل علی اِسی سال مارچ میں عمرہ کر کے آیا تھا ،، اور اب کینیڈین ایمبیسی سے اسے مزید چھٹی کی کوئی امید نہ تھی ،، آ ، جا ، کر ہاشم ہی تھا جس کے ساتھ جایا سکتا تھا ،، اور اسکو بھی نئی جاب تو مل گئی تھی لیکن مستقل بنیادوں پر نہیں تھی ، ہم نے اس سے کہا تو وہ راضی ہو گیا ، اگلے ہی دن ہم تینوں پنڈی اس ایجنسی کے آفس پہنچ گئے، اور ابھی بیٹھے چند منٹ ہوۓ تھے کہ ، نگہت اوراقبال بھائی ، اپنے بھتیجے ہارون پاشا کے ساتھ پہنچ گۓ ، پتہ چلا بھتیجا بھی ان چچا چچی کے ساتھ جا رہا ہے ، ، وہ ایک نوجوان بنک منیجر تھا ،، ہم سب ایک دوسرے سے مل کر خوش ہوۓ ، یہ اس لیۓ بھی تھا کہ حج کے 40 دن کے قیام میں ہمارے آس پاس اپنے جان پہچان والے ہوں گے ،، تو مزید تسلی ہو گی ،، میں اور جوجی تو ہاشم کی وجہ سے بےحد ریلیکس تھیں ۔ فارم دے دیۓ گئے، کچھ پیسے اسی وقت اور باقی ان کے مطابق دو دن بعد جمع کروا دیں ،،، اور گھر آگئیں ، معلوم ہوا کہ ہمیں اگر جانا پڑا تو دسمبر 2005ء میں جائیں گے ،،۔
۔"اللہ کی طرف سےحج کا بلاوا ہوتا ہےتو تب ہی کوئی وہاں کی سرزمین پرقدم رکھ سکتا ہے " یہ جملہ ہزارہا دفعہ سنا اور پڑھا تھا ،،، اور اب، بنک میں پڑے 5 ہزار ،، والے حج کی تیاری کر رہے تھے ۔ اور جوجی کے دونوں بیٹوں کے انکار کے بعد ، دراصل ہاشم کے سجدے لکھے گۓ تھے،اُسی کا دانا پانی لکھ دیا گیا تھا ، تو اور کوئی کیسے جاتا ،،،،،!۔
غیب سے سبب فرمانے والا ، اپنے بندوں کو " ایسی جگہ سے نوازنے والا کہ جس طرف سے بندے کو گمان بھی نہیں ہوتا "،،، " اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے " ( القرآن ، سورۃ رحمٰن )۔
( منیرہ قریشی، 23 جنوری 2018ء واہ کینٹ) ( جاری)

پیر، 22 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(84)۔

 یادوں کی تتلیاں " ( 84)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
الحمدُ للہ، کہ گھر بنتا رہا ،، روپے بنک سے ایشو ہوتے رہے ،،، اور جیسا میں نے پہلے بھی لکھا کہ آخری بِل ادا ہوا ، اور بنک میں صرف 5 ہزار باقی رہ گۓ تھے ،،، جب گھر بنانے کے خرچے کے جمع ، تفریق کیا ،، تو معلوم ہوا 33 لاکھ روپے لگے ہیں ،،، حیرت سے منہ کھل گۓ کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ، ہمارے پاس تو گھر کے لیۓ ٹوٹل 15 لاکھ تھے ،،، تب میڈم شیما ، جن کو بنک کے معاملات میں اتھارٹی دی ہوئی تھی ، نے بتایا " آپ لوگوں کو شاید پتہ نہیں ،، ایک سال مسلسل داخلے ہوتے رہے اور گھر شروع ہوا تو ہمارے سکول میں 622 طلباء تھے ،، اور اس دوران داخلے ہوتے چلے گۓ ، میں نے ہر اچھے اینٹری ٹسٹ والے کو اس امید کے ساتھ داخلہ دیا کہ ہمارے کمرے تو بن ہی رہے ہیں ، بس چند دنوں میں ان کو بٹھا نا کوئی مسئلہ نہیں رہے گا ، اور مکمل ہونےتک 850 طلباء ہو چکے تھے ،،،، نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی بِل ادائیگی سے رُکا نہیں ،، " بس میں کیا ہی بتاؤں ،،،اُس رب کی حیران کر دینے والی قدرت پر حیران ہی ہوتی رہی ، ،، اور اس نے میرے روزانہ کے دو نفل حاجت کوقبول فرمایا ،، اور وہی پردہ پوشی فرمانے والا بہترین ہے !۔ 
میں شاید پہلے لکھ چکی ہوں کہ گھر ٹھیک ایک سال اور تین ماہ میں ، مکمل ہوا تو 23 ستمبر 2005ء میں ، اپنے بچوں کے ساتھ اس رب کے حکم سے شفٹ ہوگئی ،،،، جیسا میں نے لکھاتھا کہ دو دن مجھے نیند نہیں آئی کہ میں کیسے اپنے رب کی حمدوثنا کروں ، کہ " میرا دل مطمئن ہو جاۓ ، کیوں کہ اُس خالق و مالک کا حق تو کوئی ادا کر ہی نہیں سکتا " میرے شفٹ ہونے کے ایک ہفتے کے بعد ہی مبارک باد کہنے والوں کا تانتا بندھ گیا ، اللہ تعالیٰ اُن سب احباب کو بہت نوازے جو میری خوشی میں شامل ہوۓ ، ، ، میں اور دونوں بیٹے ، کامل اور ہاشم ، بڑی بہو صائمہ اور میری پوتی ،،، اپنے اپنے طور پر اپنے کمروں کو سنوارتے رہے ، ، ،۔
میں اور دونوں بیٹے ، پہلےصلاح الدین صاحب کے گھر معہ تحائف گۓ ،، کہ جس طرح دل سے ، خلوص سے اور دیانت داری سے انھوں نے یہ گھر بنایا ،، ٹھیکیداری میں اس کی مثال شاید ہی کسی کی ہو ،،، میں نےان کے لیۓ تو کچھ لے جانا تھا لے گئی ، لیکن ان کی بیگم اور والدہ کے لیۓ بھی تحفے لے گئی تو اس بات پر وہ بہت خوش ہوۓ ۔ ساتھ ہی انھوں نے ہاشم کی بہت تعریف کی کہ " اتنا مؤدب، اور  جس تحمل سے میرے ساتھ کام کیا ہے کہ میری دعا ہے " کہ اگر میرا بیٹا ہوتا تو ایسا ہوتا " !!! صلاح الدین بھائی ،نے اس ملاقات کے بعد ہمارے اگلے پروجیکٹ کے لیۓ بھی حامی بھری ، یعنی آدھا میرا حصہء زمین پر ایک گھر اور بقیہ حصہ لان بنا دیا گیا یہ لان13،یا 14 مرلے پر مشتمل تھا، اور جوجی کے ایک حصہء زمین پر پہلے لائن سے سکول کی طرز پر8 کمرے ( اوپر نیچے ) اور پھر اسی کے آدھے حصے پر میری طرز کا مکان بننے کا فیصلہ ہوا ،، ہمارے مکان سے بہت میٹریل بچ گیا تھا ، انھوں نے تیزی سے اگلا پروجیکٹ شروع کر دیا ، پہلے لائن سے نچلی منزل کے 4 کمرے ، چار باتھ ، اور ایک کچن بنایا گیا ، پھر سیڑھیاں بنیں اور اوپری منزل کے 4 کمروں اور دو باتھ رومز کی دیواریں کھڑی ہو گئیں ،، میں جب فارغ ہوتی تویہ سب اپنے نئے گھر کی اوپر کی منزل سے کھڑکی سے دیکھتی رہتی۔ اُس دن بھی صلاح الدین بھائی، اوپر بناۓ گۓ چوڑے برآمدے میں کرسی بچھاۓ ، سگریٹ پیتے نظر آۓ ،،، اور تھوڑی دیر کے بعد مزدوروں کا کام ختم ہوا ،، سب چلے گۓ ،، اگلے دن صلاح الدین بھائی نظر نہ آۓ ، شام کو سکول سے آئی تو پتہ چلا ، وہ بیمار ہو گۓ ہیں اور ہاسپٹل میں داخل کروا دیۓ گۓ ہیں ،، اگلے دن ان کو دیکھنے جانا تھا ، ہاشم خود ہی جا کر پہلے مل آیا ، جب کہ ہمیں آکر بتایا ، ان کے  گردے فیل ہو گۓ ہیں ، اور وہ آئی سی یو ، میں داخل ہیں ، اور اس سے اگلے دن اُن کے انتقال کی خبر آگئی ،، یقیناً  گھر والوں کے لیۓیہ انتہائی گہرا صدمہ تھا ، جس پر اللہ ہی انھیں صبر و ہمت دے سکتا تھا ۔ لیکن کتنے دن تک ہم سب کو یوں لگا جیسے ہمارے گھر کا کوئی فرد چلا گیا ہے ،،، ہماری سہیلی خورشید بہت ہمت سے اپنے غم کو قابو کرنے میں لگ گئی، اور والدہ کے دل کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، لیکن مجھے ان کے دنیا سے جانے کے بعد پتہ چلا وہ "جگت پھوپھا" تھے ، ماشا اللہ خورشید کے تینوں بھائیوں کی اولادوں اور آگے ان کے زندگی کے ساتھیوں ، سب میں وہ مقبول ،تھے ،۔ سب کے ساتھ انتہائی دوستانہ ، محبت بھرا رویہ تھا ، ، ہمارے آرکیٹیکٹ ناصرسعید بھی خورشید کی بھتیجی کے شوہر ہیں ، جو صلاح الدین بھائی کی رشتہ داری سے ذیادہ ان کی صلاحیتوں کامعترف تھے ،،،، میں جب اِس گھر کو دیکھتی ہوں تو " میرے دل سے ان کے لیۓ دعا نکلتی ہے " صلاح الدین بھائی اللہ آپ کو جنت الفردوس میں بیترین گھر عطا کرے ، آمین ثم آمین ،، !۔
اس  نئے گھر میں اوپر کی منزل ہمارے رہنے کے لیۓ تیار کی گئی تھی ۔ میرے کمرے کی بڑی سی کھڑکی ، مشرق کی جانب کھلتی ہے ، میں صبح سویرے ، نماز سے کچھ پہلے اُٹھ جاتی ، اگر تہجد کا وقت ہوتا ، تو ٹھیک ، ورنہ نماز پڑھی ، ادوار کے ساتھ ساتھ کھڑکی کاپردہ ہٹا کر سورج کے نکلنے کے منظر سے بھی محظوظ ہوتی ،، اور میرا دل اس رب کی شکرگزاری سے لبریز ہو جاتا ، کہ مجھے اوپر کی منزل سے یہ نظارہ اور بھی واضح  نظر آتا ،(نیچے کی منزل میں سکول کی چند کلاسز بٹھائی گئی تھیں ، کیوں کہ یہ ہماری مجبوری تھی)،،، خیر،،، مجھے صبح سویرے کایہ تجربہ بھی اسی کھڑکی کے پاس سے حاصل ہوا۔ کہ اذانِ فجر سے پہلے ، اِکا دکا،، کبھی کسی فاختہ کی آواز آ جاتی ، کبھی کسی چڑیا کی ،،، آذان کے فورا" بعد کچھ اور چڑیوں کی چہکار شامل ہو جاتی ، اور اکا دکا کوؤں کی ،،، گویا ان جانداروں کی عبادت کا وقت بھی ہے اور یہ سارا مدھم " ردھم " اس بات کابھی اعلان ہو رہا ہے کہ کہ نماز کا یہ ہی وقت ہے ،، ردھم بہت ہی آہستگی سے اونچا ہو رہا ہے کہ ابھی بھی نماز کا وقت ہے ،،، اور جیسے ہی نماز کا وقت ختم ہونے ہی والا ہوتا ،، ایک ہنگامہ خیز سا شور اُٹھتا ،،، بالکل ایسے ہی جیسے میوزیشن ، اپنے آخری حصہء موسیقی کا بلند شور سے اختتامیہ کر گزرتا ہے !،،، کہ لوگو! اب تو اُٹھ بیٹھو !!! اورعین اس وقت سورج قریبا" آدھا یا ذرا کم بلند ہو کر دنیا پر شاہانہ نظریں ڈال رہا ہوتا ہے ،،، پرندوں کا شور چند منٹوں کے لیۓ اب براۓ نام ہو چکا ہوتا ہے ،،، فضا میں خاموشی کی عجیب سی لہر چھا چکی ہوتی ہے ،،، اور اب موسیقی کا نیا انداز پیش کیا جاتا ہے جیسے ہی " اشراق " کا وقت شروع ہوا کہ ایک بلند آہنگ موسیقی شروع ہو جاتی ، اس موسیقی کے شور میں ہر پرندے کی آواز کا حصہ ہے ،،، چڑیاں ، کوے ، فاختہ ، مینا ، اور طوطے بھی ۔ کہ وہ بندوں کو اللہ کی محبت کی طرف بلانے کی آخری کوشش کر رہے ہوتے ہوں !! اور جیسے ہی سورج مکمل ، طور پر مشرق کی سمت اُٹھ چکا ،،، تو بس پرندوں کی ڈیوٹی ختم ،،، سب پُھر سے اُڑ جاتے ،، کہ ہم نے اپنی ثنا خوانی بھی کی اور دنیا کے لوگوں کو جگانے کی ڈیوٹی بھی دی ،، آگے تمہاری مرضی لوگو !!!!۔
لیکن بے شمار ایسے بندے جنھوں نے اپنی دنیاوی ڈیوٹیوں پر جانا بھی ہوتا ہے تو بے زار شکل کے ساتھ تیار ہوتے ہیں ،، گھر والوں پر " ایسی نظر ڈالتے ہیں جیسے صرف یہ ہی کمانے نکل رہے ہیں ،،، اس لیۓ اپنے اپنے غصے کی چھاؤں میں خود کو خود رخصت کرتے ہیں ،،، اور ایسے میں یہ نظارے ،،یہ قدرت کے انوکھے رنگ ،،، ان کی نظروں سے جیسے یکسر اوجھل ہوجاتے ہیں ، کہ اللہ نے ان پر " غور وفکر " کے دروازے شاید بند کر دیۓ ہوتے ہیں ،،، آہ انسان بھی کتنا بدنصیب ، ناشکرا، اور محرومِِ نظارہ بن جاتا ہے ،،، کیا پتہ ، یہ نظارے ، یہ خوب صورت پرندوں کی ، انتہائی دل کش آوازیں ، موسیقانہ ردھم ،، دوبارہ نصیب نہ ہو ،،،کیا پتہ اِن پر غور کرنے سے ہمیں اس خالق کی محبت کی حلاوت نصیب ہو جاۓ ،،، کیا پتہ ، کیا کچھ مل جاۓ کہ، پھر دنیا کی یہ ساری ڈیوٹیاں ہمارے لیۓ نارمل بن جائیں اور وہ رازقِ حقیقی ، کانوں کے رزق، آنکھوں کے رزق، اور شکر گزاری والی دھڑکنوں کے رزق سے جب نواز دے ،، تو پھر اِس سے بڑا غنی کون ہو گا ۔
صبح کے یہ خوب صورت لمحے کچھ ایسی کیفت کے حامل ہو جاتے ہیں ِ ، جو مجھے یوں لگے ،،، !۔
" میرا اللہ "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
" الہام و کشف کچھ نہیں ،،،
بس تُو ۔۔۔۔۔
فِکر و ادراک کچھ نہیں ،
بس تُو 
ذِکر و جذب کب تک ۔ 
ذِکر و جذب تو بس تو ۔۔۔۔۔۔
وصال و وبال کچھ نہیں ،
بس تُو 
عذاب و ثواب ، کیا ہیں 
میرے لیۓ ،، بس تُو ،،، !!!
( منیرہ قریشی 22 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

اتوار، 21 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(83)۔

 یادوں کی تتلیاں " (83)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کوشش سکول کے لیۓ الگ ٹیچنگ سٹاف تعینات کیا گیا ،، اس میں کوئی شک نہیں ان کی تعیناتی میں کچھ کمی بیشی اس لیۓ بھی رہتی رہی کہ ،، شام کے صرف تین گھنٹے پڑھائی کا دورانیہ تھا ،، اول تو شام کی ڈیوٹی ذرا محنت طلب ہوتی ہے ، اس لیۓ بھی ٹیچرز کی کمی رہتی تھی ، دوسرے ہم انھیں پُرکشش سیلریز دینے کی پوزیشن میں نہ تھیں ،،، لیکن ایسا ہوا کہ سلسلہ چلتا رہا ،، اور ہم سے پڑھ کر جانے ولے بچوں کی اتنی اچھی بنیاد بنتی گئی ،، کہ آگے سرکاری سکولوں میں انٹری ٹسٹ ، بہ آسانی پاس کر لیتے ،، ،، لیکن ان 12 سالوں میں ہمارا تجربہ یہ رہا ہے کہ 6 لڑکیاں آگے پڑھ رہی ہیں ،بہ مقابلہ ایک لڑکا،،،،،،،،،،، لڑکے نہ صرف ، لاپرواء ، عاقبت نا اندیش ، اور بٹے ہوۓ ذہن کے مالک ہوتے ہیں ،، بےتکی سرگرمیوں میں ملوث ، وقت ضائع کرنے کے احساس سے عاری ہو رہے ہیں !!! ایسا صرف اِس غریب اور ناکافی سہولیات رکھنے والے طبقے میں ہی نہیں ، بلکہ نہایت خوشحال خاندانوں میں بھی لڑکوں کے نکمے پن کی پرسینٹ ایج ذیادہ ہے ، ان کی نظریں اس بات پر ذیادہ ہوتی ہیں کہ ، ،/ والدین کچھ نا کچھ کر دیں گے ،،،،،،،، کوئ سفارش ، کوئ مالی مدد وغیرہ،/ باہر ملک چلے جائیں گے ،،/ آخر ماں باپ کس لیۓ ہوتے ہیں ،، انھیں ہمارے مستقبل کے لیۓ کچھ مزید کرتے رہنا چاہیۓ !/ فلاں دوست ، فلاں رشتہ دار کی اچھی پوسٹ ہے ، والدین کے کہنے پر وہ ہمیں بھی کہیں نا کہیں لگا دیں گے ،، (بھلے اپنے میں اہلیت نہ ہو)/ والدین ہمیں چھوٹا موٹا بزنس تو شروع کر کے دے ہی سکتے ہیں ، ( بلکہ دینا چائیے ) ،، وغیرہ لڑکوں کہ یہ خواب دیکھنے ، انحصار کرنے کی عادت ، یا نااہلیت ،،، اگر صرف ہمارے سکولوں میں نظر آرہی ہے تو پورے پاکستان ،، میں کیا حالت ہوتی ہو گی ،، ،، یا یہ صرف میرا خیال ہے !!! لیکن اس " کوشش سکول "کے شروع کے 5،، 6 سال نہایت غریب ، طبقہ سے تعلق والے بچے آۓ ،، اور گذشتہ 4،5 سال سے " لوئر مڈل کلاس " آرہی ہے ،،، یہ اس بات کی نشان دہی ہے کہ مہنگائی کے سبب لوگوں کے لیۓ 3 یا 4 ( 5 اور 6 بھی ) بچوں کے تعلیمی اخراجات اُٹھانے مشکل ہو رہے ہیں ،،، سرکاری سکولوں میں صرف فیس کم ہے ،، ورنہ کاپیوں،کتابوں کے خرچے بہر حال کم نہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب چار ، پانچ سال سے بچوں کو لانے ، لے جانے والے والد کے پاس موٹر بائیکس ہیں ، ان کے پاس موسم کے مطابق لباس بھی صحیح ہے ، ،،،، لیکن بچوں کی تعلیم پر خرچ یا تو،،،،،،، ان کے ترجیحات یہ نہیں ،،،،یا/ واقعی گھر میں ایسی مجبوری ہے کہ تعلیم پر خرچ کرنا مشکل ہے ،،، / اور تیسری اہم وجہ کہ سرکاری سکولوں میں بےتحاشا بچوں کی وجہ سے پڑھائی کا کوئی معیار نہیں رہا ،،،/ ہم تین گھنٹے میں ایسی طریقے سے پڑھا رہی تھیں کہ، تین بنیادی مضامین ،، اردو ، انگلش ، اور میتھس میں بچے کافی حد تک چل نکلتے ہیں ، اور پڑھنے والے بچے ، سائنس اور سوشل سڈیز میں بھی بہت اچھے ہو جاتے ہیں ۔
اب تک فارغ ہوجانے والے بچوں میں سے تین بچیوں کا علم ہوا ہے کہ وہ " کالج میں سیکنڈ ایئر میں پہنچ چکی ہیں ، میٹرک قریباً 10بچیاں کر چکی ہیں،،، ( باقی سے رابطہ نہ ہونے کے سبب ڈیٹا مکمل نہیں )لیکن افسوس لڑکوں کی طرف سے صرف ایک لڑکا میٹرک تک پہنچا ہے ،، یا ہم تک کسی نے رابطہ ہی نہیں رکھا ہوا ،، لیکن میں جیسا اوپر لکھ چکی ہیں کہ ،، لڑکے پڑھائی پر کم توجہ رکھتے ہیں ۔ اور یہ ایک افسوس ناک صورتِ حال ہے ،، جس پر ہمیں مل بیٹھ کر غور کرنا چاہیۓ۔ 
کوشش پبلک سکول ، کے کام ، اور ان کی لکھائی دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ، کہ قابلِ تعریف کام ہوتا ہے ،،، یہ اِن باہمت ٹیچرز کا کمال ہے ، ہم نے سکول ہی کے تحت انھیں بے کار چیزوں سے کار آمد اشیاء بنانے کی طرف راغب کیا ہوا ہے اور ان کا دو مرتبہ ،سالانہ " ایگزیبیشن " بھی ہو چکا ہے جس میں ان کی چھوٹی چھوٹی کارآمد اشیاء کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ٹیلینٹڈ بچے مستقبل میں اپنا کوئی ہنر ، کاروباری شکل میں ترتیب دے سکتے ہیں۔ 
اسی کوشش سکول میں اب تک تین بچے ایسے ہیں ، جو سرونٹ کوٹرز میں رہ رہے ہیں لیکن ان کی قابلیت کی بناِء پر انھیں صبح کے سکول میں داخل کر لیا گیا ،، جب کہ ایک بچی کو جب یہ کہا گیا کہ اب تم باقی تعلیم میٹرک تک ہمارے صبح کے سکول میں پڑھو گی تو اس کے دادا جان نے فرمایا " اس سکول میں لڑکے ، لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں ، اور اب یہ یہاں نہیں پڑھے گی ،، جب کہ کوشش پبلک سکول بھی " مخلوط تعلیمی ادارہ " ہے( والد کے فوت ہوجانے کے سبب فیصلہ دادا کے ہاتھ میں تھا )وہ ٹیلنڈڈ بچی کسی اور سکول سارا سال روتے ہوۓ گئیں ، اب وہ دوبارہ اِس سال ، مارگلہ سکول میں آجاۓ گی ، جبکہ لڑکے دونوں بہت خوش ہیں !شاید ہم نے اپنی " نیکی " کا کچھ ذیادہ ذکر کر دیا لیکن اس کی صرف چند وجوہات ہیں ، جس کی وجہ سے یہ ذکر لمبا ہو گیا ،" یہ ہی سچائی ہے کہ ہم نے یہ کام صرف نیکی سمجھ کر نہیں کیا بلکہ یہ ہمارا فرض تھا "،،۔،
1) ہم دونوں بہنوں کا " فری سکول " کا ارادہ اُس وقت سے تھا جب ہم نے اپنا سکول بھی ابھی شروع نہیں کیا تھا اور ،صرف ان سکولوں کا خاکہ ہی ذہن میں تھا ۔ جیسا کہ آپنے " ڈرائنگ روم " کے عنوان سے اشفاق احمد صاحب سے ملاقات کے احوال میں پڑھا ہو گا کہ ہم نے انھیں بھی بتایا تھا کہ ہم جو سکول شروع کریں گے ، اس میں غریب گھروں کے بچے بھی ساتھ بٹھائیں گے ،،،،،،،، تو انھوں نے ہی مشورہ دیا تھا ،، "ان بچوں کی نفسیا ت میں مزید " احساسِ کمتری نہ بڑھانا ،، اور ان بچوں کے لیۓ حسبِ توفیق ، الگ سکول کھولنا" ،،، اللہ کو ہماری نیت کا علم تھا ،، اسی نے ہمیں اس کی توفیق دے دی کہ ان بچوں کے اخراجات اُٹھا سکیں۔
2) ہم دونوں کو ابھی پیسوں کی ضرورت تھی ،، جو ہماری مزید خوشحالی کا سبب بنے ، یا ،ہماری دیرینہ خواہشات کی تکمیل ہو سکے ، لیکن اس سکول کے لیۓ " نیت " تھی ،،، تو اللہ خود اسباب عطا کرتا گیا ، ( جو میں نے پارک میں بچوں کے ملنے کا لکھا ہے )3) یہ بات بہت جلد "سمجھ " آگئی ، کہ زندگی بہت جلد ختم ہو جانے والی ہے ، اور اچھے کام ہمارے ہی لیۓ آگے کا توشہ بن سکتے ہیں ،، شاید انہی بچوں میں سے کسی دعا ،،، شاید انہی کے والدین میں سے کسی کی دعا ،،، !!!4) اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ ہوا کہ " ایمان داری " سے کام کیا جاۓ تو اللہ " غیب " سے مدد کرتا ہے " جیسا کہ اس مالکِ حقیقی نے فرمایا ہے """ وَ یَرزُقہُ مِن حیثُ لَا یحتَسب ط وَ مَن یتوَکل علی اللہِ فَھُوَ حسبُہ' ط انَ اللہَ بالغُ اَمرِہ ط قد جعلَ اللہُ لِکُلِ شئ ءِِ قدر"ا (سورۃ طلاق آیت3)اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا، جہاں سے وہم وگمان بھی نہ ہو ،، اور جو اللہ پر بھروسہ رکھے گا ، تو وہ اس کی کفایت کرے گا ۔اللہ اپنے کام کو جو وہ چاہتا ہے پورا کر دیتا ہے ،، اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے"۔
تو ہم کیا اور ہماری اوقات کیا ، یہ اسی کا کرم ہے ، کہ اس نے ہم سے یہ خدمت لی ہوئی ہے ،،، اور جب تک اس کا حکم ، اس کی مدد رہے گی ، یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ 5) سوچتی ہوں ہم میں سے ہر صاحبِ حیثیت ، خود پر کچھ پابندیاں عائد کر لے ، تو یقیناًاپنی ذات ، اپنے مال سے مخلوقِ خدا کو جس حد تک فائدہ پہنچا سکے تو بہتر ہے ،، ورنہ بندے کے دل ودماغ میں تو خواہشات ، اور خدشات کا لا متناہی سمندرہر وقت ٹھاٹھیں مارتا رہتا  ہے،،،!6) پاکستان میں تعلیمی شعبے میں حکومتوں کی کارکردگی ، کا ہم سب کو علم ہے ، خود ہمارے واہ کینٹ کی آبادی پچھلے 25 سالوں میں کئی لاکھ بڑھ چکی ہے ، لیکن ان 25 سالوں میں صرف دو سکول ، کینٹ بورڈ کے تحت کھولے گۓ ہیں ،،، اسی لیۓ پرائیویٹ سیکٹر میں سکولوں کو خوب پزیرائ ملی ۔ البتہ ،، ان سکولوں کے چیک اور بیلنس نہ ہونے کے سبب ، اسے کمائی کا بہترین ذریعہ سمجھ کر ، ہر سوچ کے لوگ اس میدان میں آ گۓ ہیں ، جو اقدار سے عاری ماحول دے کر " شارٹ کٹ " سے کامیابیوں کا گراف حاصل کرنا چاہتے ہیں ،،، یا ،،، ایسے لوگ ہیں جن کا کوئی تعلیمی تجربہ نہیں لیکن وہ سکول چلا رہے ہیں ، بالکل ایسے ہی ، جیسے کپڑے کی دکان یا دودھ دہی کی دکان !!! ہمیں اپنے پیشے ،میں دیانت داری ، اور صرف دیانت داری کو مدِ نظر رکھنا چایئے ۔ کیوں کہ سکول میں صرف کتابیں ہی نہیں پڑھانی ، ہم مستقبل کی نسل تیار کر کے باہر نکال رہے ہوتے ہیں ،،، جنھوں نے آگے چل کر اِس انتہائی مشکل سے حاصل کیۓ گۓ وطن کو سنبھالنا ہے ،،، ہماری کوششیں ، مخلصانہ اور اپنی تہذیب ومعاشرت کے مطابق ہونی چایئیں ،،، باقی جو اللہ کی مرضی !!7) کاش میں یہ قانون پاس کروا سکتی کہ ہر پرائیویٹ سکول شام کو اپنی بلڈنگ میں، ایسے ہی فری سکول کھولنے کا پابند ہوگا ، کیونکہ پاکستان کا " لٹریسی گراف " بہت مایوس کن ہے !۔
" ہم نے سکول کے باہر لکھوایا ہوا ہے " 
" یہ مت کہیں ہمیں پاکستان نے کیا دیا ، یہ بتائیے آپ نے پاکستان کو کیا دیا ""
خوشی کی خبر یہ ہے کہ اِس سال ( یعنی بارہ سال بعد ، ہمارے جماعت پنجم پاس کر لینے والے بچوں کو اب 6ویں سے دسویں تک " الھُدا انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ " میں اسی طریق سے پڑھنے کی سہولت مل گئی ہے ، یہ فری سکول ، ان بچوں کے لیۓ بہترین جگہ ثابت ہوگی ،، ان شا اللہ۔ 
( منیرہ قریشی ، 21 جنوری 2018ء واہ کینٹ) ( جاری)

جمعرات، 18 جنوری، 2018

یادوں کی تتلیاں(82)۔

یادوں کی تتلیاں " ( 82)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
،،،، تو گویا اللہ تبارک تعالیٰ نے " کراۓ کے اس گھر میں میرا جانا ، پارک میں جانا ، اُن بچوں کا ملنا ،، جن پر تجربہ ہوا ، اور نئے سکول کی،پہلی اینٹ کا باعث بنے ،، اور یوں " کوشش پبلک سکول " کا اجراء ہوا ،،، اور ، اِن بچوں کوداخلے کے وقت جو مشکلات پیش آرہی تھیں ، انھیں ذہن میں رکھا ، کہ ایسا ادارہ ہونا چاہیے، ، ، جو ایسی ڈیمانڈز نہ مانگے جو ٖغریب اور ان پڑھ لوگوں کے لیے پورا کرنے میں وقت لگ جاۓ ، بچہ مزید وقت ضائع نہ کر سکے !! بس بچے آئیں ، اورہم انھیں پڑھائیں ،، جب وہ اس " فَلو " میں آئیں گے تو جو ان کے نصیب میں ہوا حاصل کرتے رہیں گے ؟ ، ،اور پڑھائی کے دوران ان کے والدین سے آہستہ آہستہ کاغذات بھی مکمل کروا لیں گے ،، تاکہ کچھ کلاسز کے بعد انھیں سرکاری سکول میں داخل کروا دیں گے۔
وہ سکول جس میں صرف مزمل ایک طالب علم تھا ،، ایک سال کے اندر جب 20 بچے ہو گئے، جو مختلف " کیلیبر " کے تھے ، ایک ٹیچر تعینات کی گئی۔ لیکن چند مہینوں بعداس بچی کو آگے ایم اے میں داخلہ لینا تھا ،، سو وہ چلی گئی۔ اب ان کے کچھ پیرئڈز مَیں اور کچھ جوجی لیتی رہی ،، یہ اُسی بند کرواۓ گئے بر آمدے میں بیٹھتے رہے ۔ فوری طور پر ابتدائی کتابیں ، اپنے سکول کی نرسری ، اور پریپ کی ہی شروع کروائیں ،، کیوں کہ اِن کا کورس ہم نے بہت ریسرچ کے بعد سیٹ کرنا تھا ۔ یہ 20 بچے ، مختلف عمر اور ذہنی سطح کے مالک تھے ۔ اس لیۓ انھیں ایک وقت میں ایک کمرے میں رکھنا خاصا مشکل کام ، اور ان سے ذیادتی کا باعث ہو رہا تھا ،، لیکن ہمارے پاس نہ تو کوئی اور فالتو کمرہ تھا اور نہ ابھی گنجائش تھی کہ کوئی اور بلڈنگ کراۓ پر لی جاۓ ۔ چناچہ ایک سال کے بعد فیصلے ہوۓ کہ ،،،،،،،،1) اب " کوشش سکول " کو شام کی شفٹ میں منتقل کیا جاۓ ،2) جو بچے آرہے ہیں ، اور پڑھنا چاہتے ہیں ، آتے رہیں ، والدین ان کے کاغذات بتدریج مکمل کرتے رہیں گے ،، اور ہماری اس تعاون پالیسی سے بے شمار والدین جاگے ، اور کئ نے اپنے آئ ڈی کارڈ بنوا لیۓ ، بلکہ بچوں کے " ب" فورم بھی بنتے گۓ ،،3) سب سے پہلے ان کے لیۓ کاپیاں ، کتابیں خرید کر ان میں تقسیم کی جائیں ، حتیٰ کہ پینسل ، ربر ، شاپنر ، بھی خرید لیۓ گۓ ، تاکہ بچہ ان چیزوں کے نہ ہونے کا بہانہ بھی نہ کر سکے ، 4) نئی ٹیچرز ، اگر تعینات کرنی ہیں تو وہ با حوصلہ ہوں ، تاکہ وہ "ہاتھ کا استعمال نہ ہی کریں ، تو بہتر ہو ،، 4) فی الحال ہماری گنجائش نہیں تھی کہ ہم انھیں یونیفارم ، یا بیگز دے سکیں ،، اس لیۓ اپنے سکول کے بچوں سے اس وقت ، جب وہ نئی کلاسز میں جا رہے ہوتے،،، صبح اسمبلی میں " کہلوا دیا جاتا ، اگر آپ میں سے جو بچہ پرانا یونیفارم ہمیں دینا چاہتا ہے تو دے دیں ،، وغیرہ ! (اور یہ کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے اپنے یونیفارم ، سویٹر وغیرہ بہ خوشی دینے لگے )5) 10 سال سے ذیادہ بڑے لڑکوں کو داخلہ دینا منع تھا ،، کیوں کہ لڑکے ، قابو میں نہیں آتے ہیں ،،،6) یہ سکول کسی این جی او کے تحت نہیں ہو گا ۔ اور آج تک نہیں ہے ، اسے ہم صبح کے سکول کی آمدن سے چلاتی ہیں ،الحمدُللہ ! اب تک اس رب کے کرم سے یہاں تک پہنچیں ہیں ، تو آگے بھی وہی والی و وارث ہے ،7) یہ سکول نرسری سے جماعت پنجم تک رہے گا ،،، آگے چل کر انھی بچوں کو سرکاری سکول میں داخلہ کرانے کی کوشش کریں گے ،، اگر ان میں کوئی " سپارک " ہوا ، تو !!!یہ اور اس قسم کے خیالات کے تحت ایک لاحۂ عمل تیار کر لیا ، اور بہت حد تک یہ سب " لچکدار " تھا ،،، کہ جب ضرورت پڑتی گئی ، ان نکات میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوتی رہی ، جوں ہی ہم نے یہ سکول " مین برانچ " میں شفٹ کیا، ( 2006ء 2007ء ) آس پاس کے بہت سے بچے جو سرونٹ کواٹرز میں رہتے تھے،نیز وہ بچے جو اپنے ماں باپ کے " مدد گار" بن کے بنگلوں میں صبح کے وقت کام کرتے ہیں۔اُن کے آنے کی ہمیں بہت خوشی تھی کیوں کہ ایسے بچے ذیادہ شوق و ذوق سے آتے ہیںِ ِ،ایک کلاس ایسی تھی ،، اور ،، ہے جس میں"اوورایج" 
بچے داخل کرنے پڑے ، انھیں کبھی کسی سکول جانے کا اول تو موقع ہی نہ ملا تھا ، اور کچھ ایسے تھے جن کو ایک ، دو سال جانے کے بعد پھر کوئی چانس نہ ملا تھا !ان سب کو نرسری کی کتابوں سے شروع کرایا گیا ، پھر پریپ پڑھائی جاتی ہے ۔اور اس کے بعد جماعت اول ، میں داخل کرنے سے پہلے ان کے امتحانات اور کار کردگی دیکھتے ہیں پھر کلاس ون میں داخل کرتے ہیں ،، اور اگر اس میں کوئ بہت غیر معمولی بچہ ہو تو اسے ، ڈبل مرموشن دیتے ہیں ، لیکن ان 12 سالوں میں ایسے صرف دو واقعات ہوۓ ہیں ،،،اسی طرح کوشش سکول کے بچے جو نارمل ایج کے ساتھ پڑھ رہۓ ہیں ، اُن میں سے بھی صرف 3 بچے ایسے ہیں جنکی بہترین کارکردگی سے ہم نے انھیں اپنے صبح کے سکول میں کروایا ہے ، اور الحمدُللہ ، وہ اچھے جا رہے ہیں ،،،!اسی دوران ، 5سال کامیابی سے گزر گۓ اور ، کہ اس نۓ تعلیمی سال میں ، ہماری سہیلی شاہدہ نے سکول کے بچوں کی تعداد کا پوچھا ،، تو ہم نے بتایا اب 200 بچے ہیں ، تو اس نے اتنے ہی سکول بیگز بھجواۓ کہ اس دفعہ یہ میری طرف سے ان بچوں کے لیۓ تحفہ !! سب ہی خوش ہوۓ لیکن بچوں کی خوشی ، دیکھنے لائق تھی۔ اور اس سے اگلے سال انکل رشید (شاہدہ کے ڈیڈی )نے سکول کےتمام بچوں کے لیۓ یونیفارم ، جوتے ، سویٹریں ،بھجواۓ ، بچوں کی خوشی تو سمجھ آتی ہے لیکن ٹیچرز بھی خوش تھیں ،،،کوشش سکول کی شروع دور میں ، مَیں خود ہی بیٹھتی رہی لیکن ابھی چُونکہ صبح کے سکول میں بھی ایکٹیو تھی ، اس لیۓ بھی اور ،، اور اگر کہیں جانا پڑ جاتا ، تو مسلہ پیدا ہو جاتا کہ کوشش سکول کو کون سُپروائز کرے گا ،،،،ہمارے " مارگلہ گرامر سکول " کی اکاؤنٹنٹ ، "راضیہ"چندسالوں سے ہمارے ساتھ تھی ، اور کچھ گھریلو مجبوریوں کے باعث وہ سکول سے چُھٹی کے بعد دو جگہ ٹیوشن پڑھانے جاتی تھی ، اس نے ایف ایس سی کے بعد بی اے ، اور پھر اردو میں ماسٹر کر رکھا تھا ،، گویا ایک وقت میں وہ ، پنجم لیول کی سائنس ، یا انگلش ، مضامین کو چیک کر سکتی تھی ،،، ہم نے اس کا انتخاب کیا ، اور پوچھا "کتنا ان ٹیوشنز سے لے رہی ہو" اس کے بتانے پر ہم نے اِس سے ذیادہ کی پیشکش کی ، تو فورا" راضی ہو گئی کہ اچھا ہے مجھے اُٹھ کر کہیں جانا نہیں پڑے گا ،،، اور یوں ہمیں " مس راضیہ " کی صورت میں " اَن تھک ورکر" مل گئی جس کی ایمان داری تو ہمیں معلوم ہو چکی تھی ! اس طرح ہم دونوں مل کر ان کے سلیبس کو بناتیں ، ان کی مزید ایکٹیوٹیز پر عمل درآمدکا سوچتیں ۔ ہم نے کوشش سکول کے شروعات میں ہی ایک اکاؤنٹ کھول لیا تھا ، تاکہ کسی قسم کی رکاوٹ نہ آنے پاۓ ،،، لیکن اللہ رحیم و کریم نے اِن بچوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دی ۔ اور قارئین سے بھی دعا کی التماس ہے!۔
( منیرہ قریشی ، 18 جنوری 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )