ہفتہ، 31 مارچ، 2018

سفرِتھائی لینڈ(3)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
 تھائی لینڈ" (3)۔"
ابھی تو سہ پہر ہی ہوئی تھی ،، اپریل کا شروع تھا اور یہاں ابھی موسم قابلِ برداشت تھا ۔ " جم " نے بتایا ہم ایک سیاحوں کی دلچسپی کے گاؤں رکیں گے ،، جو پرانے تھائی گاؤں کی عکاسی اور آگاہی کے لیۓ بنایا گیا ہے ، آدھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ایک خاموش اور بہت کم آبادی والے علاقے میں پہنچے ۔ ایک جگہ وین رکی ، وہاں کچھ کچا ،، کچھ پکا ، بنا ایک بڑا ہال تھا ،، جس کے ایک طرف کافی بڑی کڑھائی ، ایک تندور ٹائپ چولہے پر دھری تھی۔ بالکل ہمارے ہاں کی طرح ایک بندہ اس کڑھائی میں " کڑچھا " چلاتا جا رہا تھا اور یہاں گنے کے رس سے شکر بنائی جارہی تھی جسے کاغذکی پڑیوں کی صورت گرم گرم حالت میں " چکھایا " جا رہا تھا ،،، اسی ہال کے دوسری سائڈ پر دیسی شکر کے ، اور انکے مطابق " دیسی شہد" کے جار براۓ فروخت رکھے ہوۓ تھے، ہمیں ان سے کوئی دلچسپی نہ ہوئی کہ یہ صرف کمانے کا ذریعہ تھا ،، ورنہ ہماری شکر کی بات ہی الگ ہے ۔ اسی ہال کے پیچھے لے جایا گیا ، یہاں مٹی سے بناۓ گۓ ، گاؤں کے ایک، دو گھر بناۓ گۓ ہیں ، اور کچھ ماضی میں استعمال ہونے والی اشیاء بھی رکھی ہوئی تھیں ، اوپری منزل بھی بنائی گئی تھیں ، البتہ ، یہاں اوپری منزل کے دو کمروں کی چھت کے قریب سوراخ تھے ، پوچھنے پر بتایا گیا کہ دشمن سے مقابلہ کرنے کی صورت میں انہی سوراخوں سے پہلے پہل تیروں سے ،، اور اب کچھ جدید ہتھیاروں سے مقابلے کے لیۓ بھی ان سوراخوں سے کام لیا جاتا تھا ، یہ بالکل ہمارے قبائلی گھروں کی طرح کی تعمیرتھی ، اوپری منزل کی طرف جانے کے لیۓ ، سیڑھیاں بھی مٹی سے بنائی گئی تھیں ۔ یہ سب ہم جیسے مشرقی ملک سے تعلق رکھنے والوں کو متاثر نہ کر سکا ،،،لیکن یہاں مغربی سیاحوں کے لیۓ دلچسپی کا سامان تھا ، ہم تو آج بھی "چرخہ" کے اوزار کو کسی نا کسی طور استعمال کر ہی رہے ہیں ،،، ہاں البتہ ، اس شاپ کے بر آمدے میں ہاتھی دانت سے بنی بہت سی چیزوں کا سٹال تھا ، جہاں سے ہم نے اپنے اپنے گھروں کے لیۓ" ایک لائن میں بنے ہاتھی" خریدے ، جو سب کو بہت پسند آۓ ، اور ابھی تک میرے ڈرائنگ روم ،میں تھائی لینڈ کی یاد دلاتے ہیں ۔
لیکن ہم نے جم سے کوئی اظہارِ ناراضگی نہیں کیا کہ یہ کیا ہمارے ہی گاؤں جیسا گاؤں دکھا دیا ،، یہ تواس کے " وزٹ کا پروفیشنل پوائنٹ" تھا جو اس کے خیال میں آج کی جدید دنیا سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کے لیۓ دلچسپی کا باعث ہو گا !،، اور اب وہ ہمیں واپسی کے سفر میں ایک اور " لکڑی پر کارونگ " کے شو روم میں لے گئ ،،،، یہ شو روم ، بھی چھوٹے سے جدید ہال پر مبنی تھا ، لیکن ساتھ ہی باہر کی طرف لان کے کچھ ایریا پر مزید چیزیں بھی ڈسپلے کی گئی تھیں ۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں ، کہ اندر رکھے فرنیچر ، اور دیوار پر لگیں ، تصویری کارونگ ( کھدائی کی گئی لکڑی ، جیسے ہمارے ہاں چنیوٹی کام مشہور ہے ) ، بہت ہی لاجواب اور بہترین کام تھا ۔ خاص طور پر دیوار پر لگی لکڑی کی تصویری کہانی ، نے بہت متاثر کیا ، جس میں بادشاہ ، اسکے درباری ، شکار ، جنگل ، ہتھیار ، سبھی کو خوبصورتی ، اور مہارت سے نمایاں کیا گیا تھا ،، ایسا ہی فن ، ایران میں قالین بافی میں اور ہمارے ہاں گرم نمدوں میں ، "آر " کی کڑھائی سے نمایاں کیا جاتا ہے ، اور پوری تصویری کہانی بیان کی جارہی ہوتی ہے ،،، باہر لان میں پرانے تھائی دور کے غلام، کنیز اور ان کے بچوں کے لکڑی کے مجسمے تھے ، جن کے جسموں پر مفلوک الحالی ، اورچہروں پرمظلومیت کا احساس نمایاں تھا ،، باقی جگہ لکڑی " گیلیوں " کی صورت میں پڑی تھی ،، تاکہ وہ موسموں کی شدت سہنے سے مزید مضبوط ہوتی جاۓ ۔ جوجی اور شاہدہ نے کہانی کی صورت میں دیوار پر لگی تصویر کی بہت سی فوٹو کھینچی، کہ یہ ایک خوبصورت یاد گار چیز تھی ۔ 
اب ہم واپسی کے سفر پرچلیں تو جم نے تجویز دی کہ راستے میں ایک اچھا ریسٹورنٹ ہے وہاں رکنا چاہیں گی ، کیوں کہ وہاں کا کھانا آپ کو پسند آۓ گا ،،، ہم نے ہاں کہا اور آدھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد یہاں پہنچیں جہاں اوپن ائر میں ایک ایک کیلے کے درخت کچھ فاصلے پر اُگے تھے یا لگاۓ گئے تھے ،،اور ہر درخت کے گرد چار یا چھ چھوٹے سائز کی کرسیاں لگائی گئی تھیں ۔ جم اور ڈرائیور الگ بیٹھے ، اور ان کے لیۓ ان کا آرڈر دیا ، اپنے لیۓ حلال کا پوچھ کر چاول ، تلی مچھلی اور پرانز کا بھی آرڈر دیا چپس تو ہماری ہر آرڈر میں رہے ، کہ ٹونز کو ہر کھانے سے" بو"آتی تھی ، تو وہ کچھ چاول کچھ چپس کو مکس کر کے پیٹ بھر لیتیں ، یہ کھانا اگرچہ بہت ذائقہ دار نہ تھا لیکن پرانز کی وجہ سے مزیدار لگا کہ وہ گریوی میں پکا ہوا سالن تھا ،،، اور جب ہم تھکے ہارے ہوٹل پہنچیں تو رات کے ساڑھے نو تھے ،، رضیہ گھر ہی تھی ، ہم نے کھانے کا بتایا ،کہ کھا  چکے ہیں ،، البتہ قہوہ مل جاۓ ، تو  خانساماں نے قہوہ دیا اور اب وہ رخصت ہوا ، اور رضیہ نے ہماری دن بھر کی روداد سننی شروع کی ، ساتھ دنیا جہان کی پرانی باتیں ، گیارہ بجے تک اپنے بیڈ رومز میں آگئیں ، کہ پھر صبح سات بجے تیاری کرنا تھی ۔ 
( منیرہ قریشی 31 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

جمعہ، 30 مارچ، 2018

سفرِتھائی لینڈ(2)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
 تھائی لینڈ" (2)۔"
اب تک شاہدہ،اور نعیم بھائی کے گھر ملائیشیا میں، ہم کافی حد تک اپنی مرضی سے صبح اُٹھتیں ، یا کم ازکم ہماری صبح کا وزٹ 9 یا 10 بجے شروع ہوتا ، اور یہاں ابھی ساڑھے سات بجے تھے کہ ٹورز کمپنی کی وین معہ گائیڈ آچکی تھی ،، اور ہمارے ناشتے اب شروع ہونا تھے ،، بادلِ نا خواستہ ،، ناشتہ کے طور پر صرف پھل پکڑے اور چل پڑیں ،، لیکن اتنے میں کُک نمودار ہوا اور ایک خوب صورت ٹوکری میں ہمارے لیۓ نہ صرف ناشتہ کا کچھ سامان اورکچھ فالتو کھانے پینے کا سامان ، نفاست سے رکھا ہوا ، ہمیں پکڑا دیا ،، ہم فوراً لفٹ سے نیچے پہنچیں ، تو لاؤنج میں جہاں ایک خوبصورت راکری بنی ہوئی تھی ، کے قریب ایک ٹپیکل تھائی خدو خال والی ، دبلی پتلی ، میانے قد کی پینٹ بشرٹ میں ہماری 40 سالہ گائیڈ کھڑی تھی ،، شاہدہ اس سے کل مل چکی تھی ، دونوں نے علیک سلیک کی ، اور اس نے اپنا ایک لمبا سا نام بتایا ، اور پھر کہا " آپ بے ٓشک مجھے " جِم " کہہ لیا کرنا ۔ ہوٹل سے باہر آۓ تو بہت اچھی 10 سیٹرز وین دیکھ کر دل خوش ہو گیا ۔ ڈرائیور نے صرف ہیلو کہا ،، اور اس سے آگے وہ ایک لفظ انگریزی کا نہیں جانتا تھا ، البتہ " جِم " ہمارے مطلب کی حد تک ٹھیک انگریزی جانتی تھی ،،، اس لیۓ گزارہ اچھا ہو جاۓ گا ،، کا تائثر ملا ۔" جِم" نے ہمارا آج کا پروگرام واضح کیا ، کہ ابھی ہم سیدھے " گولڈن بدھا " یا "ایمرلڈ بدھا " محل جائیں گے ، اور پھر وہاں سے مزید آگے ۔، 
جب ہم "گولڈن بدھا " کے محل یا ٹمپل میں پہنچیں تو وہاں گیٹ پر مختلف قومیتوں کے سیاح کا جھمگٹا تھا ،، ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوئیں ،، شروع میں ، چھوٹی بڑی عمارات پر کچھ تھائی اور کچھ انگریزی طرزِ تعمیر کی جھلک تھی ، اور یہ ظاہر ہوتا تھا کہ انگریزی فوج نے اپنے قیام کے بہت اثرات مرتب کیۓ تھےکہ اتنی اہم عمارت پر بھی تبدیلی نظر آئی ،جو تھائی شاہی خاندان کی رہائش بھی تھی اور ایک طرف عبادت گاہ بھی بنائ گئ تھی ، اس کے ایک چھوٹے سے ہال میں جہاں شوخ سرخ ، سنہری ، اور کالے رنگوں کی خوبصورت آرائش کی گئ تھی ،، یہاں ایک ڈائس تھا ، شاید انکے بڑے پروہت کے کھڑے ہونے کی جگہ تھی اور اسکے پیچھے ایک 10 فٹ اونچے مینار پر ایک ہموار سطح پر جہاں سرخ ریشمی کپڑا بچھا ہوا تھا ، جو نفاست سے نیچے تک پھیلا ہوا تھا ،، اُسی ہموار سطح پر بدھا کا سبز مجسمہ رکھا ہوا تھا ،، کہا جاتا ہے کہ یہ مجسمہ ایمبرلڈ ( زمرد ) کے ایک ہی ٹکڑے سے بنایا گیا ہے ،، اور اتنا بڑا ایک ہی مکمل ٹکڑا دنیا میں میں اور کہیں نہیں پایا جاتا ۔ اور چونکہ یہ شاہی خاندان کے لۓ عبادت گاہ بھی تھی اس لیۓ ، سنہری رنگ کو نمایاں رکھا گیا تھا جو کسی زمانے میں ، خالص سونے سے سجاوٹ کی جاتی تھی ،، لیکن اب صرف سونے کا پانی چڑھے ہوۓ " پتروں " سے ، سجاوٹ کا کام کیا گیا تھا۔ 
مجھے تو بدھا کے بارے میں یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جہاں جہاں اس کے ماننے والے ہیں ،، وہاں وہاں بسنے والوں نے بدھا کے خدوخال کو اپنے مطابق ڈھال لیا ہے ،، چین ، کوریا ، برما ، یا اب تھائی لینڈ کے بدھا کو دیکھۓ تو وہ کھچی کچھی آنکھوں والا ، ذرا پھولے گالوں والا، اور کچھ بیٹھی ناک کا بدھا بنایاگیا ہے۔
جبکہ ٹیکسلا کے بدھا کے خدوخال ، خوبصورت غزالی آنکھوں اور ترشے ہونٹ ، فراغ ماتھا ، ستواں ناک پر مبنی خطوط پربنے ہوۓ ہیں ، جو مردانہ حسن کا نمونہ نظر آتا ہے ،،، اب ان میں سے کس ملک کے بدھ لوگوں کا تصور کتنا حقیقت کے قریب ہے ، تو یہ اس کے چاہنے والوں پر ہی چھوڑتے ہیں ، لیکن جہاں تک مہاراجہ سدھارت کے علاقے ، اور اس کا اعلیٰ ذات سے تعلق ، اور مہاراجہ کا بیٹا ہونے کا تاریخی پس منظر دیکھا جاۓ تو ٹیکسلا ، کا بدھا ہی حقیقی تصور پیش کرتا ہے ،،، خیر ہم ایمرلڈ بدھا کے گرد براۓ نام ایک سبز ریشمی چادر سی لپٹی دیکھی ،، پوچھنے پر بتایا گیا کہ ، سیزن کے مطابق بدھا کے کپڑے بدلاۓ جاتے ہیں ،،، اور یوں دیکھنے والے کو موسم کی خبر ہو جاتی ہے ۔ اس عبادت گاہ کے باہر کافی بڑے مختلف مجسمے بنے ہوۓ تھے ،، ان میں ذیادہ تر انہی کے روایتی ، ڈریگنز کی تھی ، سارا قلعہ بہت صاف ، اور خوب دیکھ بھال سے سنبھالا ہوا تھا ،، اس میں فوٹو گرافی کی مکمل اجازت تھی ۔ یہاں خوب کونا کھدرا دیکھا ، اور ڈیڑھ گھنٹے میں پھر واپس گیٹ سے باہر آئیں تو اس محل کے بالکل قریب ، کچھ سوینئرز کی دکانیں تھیں ، اور اِن دکانوں سے چھوٹے ، بڑے ہاتھی کی کڑھائی شدہ فریم یا بغیر فریم تصاویر بک رہی تھیں ۔ جو کپڑے پر کی گئی تھی ، یعنی کاغذ پر پینٹنگ الگ کی گئی تھی ، اور ہاتھی اس قوم کا قومی نشان ہے کہ ، " کی چینز " یا لکڑی کے خوبصورت زیورات رکھنے والی ڈبیاں ،، ہر چیز پر ہاتھی کی موجودگی ضرور تھی ،!ابھی اس خریداری کی مصروفیت سے ہٹے ہی تھے کہ سڑک کے دوسری طرف نظر گئی ،، ایک چھوٹی سی باڑ کے پیچھے خاصا بڑا قبرستان نظر آیا ،، جو صفائی اور دیکھ بھال کا مظہر تھا ۔ اب علم ہوا یہ قبرستان ، ان برٹش فوجیوں کا تھا جو ، دوسری جنگِ عظیم میں یہاں قبضہ کرنے کی خاطر ٹھہرے ، اور بعد میں جاپانیوں کے قبضہ کے بعد ، ان کے قیدی بن گۓ ۔ اور اپنے اپنے حصے کے سانس ، لے کر رزق کھا کر ، پرائی زمین کی مٹی میں رَل مل گۓ ، کہ کاتبَ تقدیر نے یہ ہی لکھا ہوا تھا ،،،،، میَں ہمیشہ ایسی قبروں کو دیکھ کر دیر تک انہی کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں کہ ، کہاں پیدا ہوۓ کہاں پلے بڑھے ، اور اپنی اپنی قبروں کو ساتھ لے کر اُسی سر زمین پر پہنچ گۓ جہاں ، انھوں نے قیامت تک کے لیۓ مستقل ٹھکانہ پکڑنا تھا ۔،،، ایسے ہی مسلم افواج اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور ، آۓ ، چھاۓ ، اور اپنے حصے کے کام نبٹا کر ،،، اجنبی سر زمین کی مٹی کو اوڑھ کر ، سوۓ کہ اب اپنوں سے قیامت ہی کو ملیں گے ،، یہ دوری ، اور پھر حسرت ناک دوری ،، کتنی اذیت دیتی ہوگی ۔ اب اس برٹش فوجی قبرستان پر قریب ہوکر نظر ڈالی ،، تو ان فوجیوں کی قبروں کے کتبوں پر انکے نام ، عہدے اور عمریں درج تھیں ،، کسی کی عمر 20 سال ، کہیں 30 سال ، کہیں 25 سال کے جسم روپوش تھا معہ خوابوں کے !!!آج اِن قبروں میں سے اِکا دُکا پر پھول بھی رکھے نظر آۓ ،،،،،،،،،،۔
( منیرہ قریشی 30 مارچ واہ کینٹ ) ( جاری

جمعرات، 29 مارچ، 2018

سفرِتھائی لینڈ(1)۔


" سلسلہ ہاۓ سفر " 
" تھائی لینڈ" (1)۔"
۔" ملئیشین ایئر لائن " ہمیں لے کر اپنے نہایت سر سبز کھیتوں ،کھلیانوں کے اوپر اُڑا کر اپنے پڑوسی ملک کی طرف لے کر چلا ،، اور ہم ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد تھائی ایئر پورٹ اُتر رہیں تھیں ،،، اور حسبِ سابق پُرجوش کہ ایک نئی سر زمین کو دیکھنا ،، میری خانہ بدوش روح کو بہت ہی پسند ہے۔ 
جیسا میں نے ملائیشیا کی طرف جاتے وقت چند گھنٹے ، تھائی ایئر پورٹ رکنے کا حال لکھا تھا ، کہ انتہائی شاندار ایئر پورٹ ، کہ جیسے تھائی لینڈ ، ایک امیر ملک ہے ،،، اب اس ملک کے اندر داخل ہو رہیں تھیں ،،، یہاں ان دنوں پاکستانی سفیر ایک ریٹائرڈ میجر جنرل خطیرخان تھے ،، یہ شاہدہ اور جوجی کی بچپن کی ہم جماعت اور سہیلی رضیہ کے میاں تھے ،، میری بھی رضیہ سے اچھی گپ شپ تھی کہ کچنار روڈ والے گھر کے قریب اس کا گھر تھا،،، لیکن اس دفعہ یہ ملنا ملانا ، سالوں بعد ہو رہا تھا ،، اور شاہدہ نے یہ ہمت کی کہ ، ٹوٹا رابطہ دوبار جوڑنے کی کوشش کی تھی ۔ رضیہ نے خوش دلی سے اپنے پاس رہنے کی دعوت دی ،، تو شاہدہ نے اسے بتادیاہم فلاں دن ، فلاں فلائیٹ سے پہنچ رہی ہیں ، ایئر پورٹ پر ، خطیر بھائی کا پروٹوکول آفیسر ، معہ گاڑی کے موجود تھا ، ڈاکٹر شاہدہ کا بورڈ پکڑے بندے کو پہچان لیا گیا ۔ اور ہم اسکی بڑی جیپ میں عین دوپہر ، کو بہت مصروف سٹرکوں سے گزرتے ہوۓ ، ایک مزید مصروف سڑک پر تین ، چار منزلہ ہوٹل کے پورچ میں رکیں ،،،ہم لفٹ کے ذریعے تیسری منزل پہنچیں اور کاریڈور کے چند قدم کے بعد رضیہ کے گھر کا دروازہ سامنے تھے یہ ایک ایسا " سویٹ " تھا جو دو سویٹ ملا کر ایک کیۓ گۓ تھے ،، اب اس میں خطیر بھائی اور رضیہ کا قیام تھا اور آج کل ان کی الوداعی دعوتیں چل رہیں تھیں ۔ کہ وہ اب وہ واپس پاکستان جا رہے تھے ، ، ان کے پاس چار بیڈرومز کا یہ گھر بہت سے مہمانوں کی آمد اور عارضی قیام کا باعث بنا رہا ۔رضیہ سے میری آخری دفعہ کی تواتر سے ملاقاتیں تب ہوتی رہی تھیں جب خطیر بھائی کرنل تھے اور چائینا میں کوئی کورس کر رہے تھے ،،اور وہ اپنےسسرال اور والدین کے پاس رہ رہی تھی، درمیان کا زمانہ ، گیپ دے گیا تھا ، خیر رضیہ گھر پر تھی اور دوپہر کے کھانے پر منتظر ،، کھانے پر بیٹھیں تو خطیر بھائی بھی پہنچ گۓ ،، ایک دوسرے کے بچوں  کےبارے میں پوچھتے ، سکول سے متعلق باتیں کرتے ، کھانا ختم ہوا ،، تو شام کا یہ پروگرام بنا کہ رضیہ ہمارے ساتھ جانے کو تیار ہوئی تاکہ اگلے پانچ دن کے لیۓ ہمارا ایک دن ضائع نہ ہو سکے ، اس دوران خطیر بھائی نے کہا " کہ" سیا م نرمیت شو " تو ضرور دیکھنا ،، تیار ہوکر پیدل ہی اس بازار کی طرف رضیہ روحی کی معیت میں چلیں ،، جس طرف گائیڈ اور ٹورزم ایجنسیز دکانیں سجاۓ ہوۓ تھیں ،،یہاں ایک آفس میں شاہدہ اور رضیہ نے اُن سے ، اور کچھ انھوں نے اِن سے انٹرویو لیۓ ،، معاملہ طے پا گیا ،، اور وہ ایک وین ، ڈرائیور اور ایک لیڈی گائیڈ کے ساتھ روزانہ صبح سات ، ساڑھے سات تک آجایا کرے گا ،، اورہر روز دو تین ، اہم قابلِ دید جگہیں دکھائیں گے ،،، چاہے شام کا کوئی بھی وقت ہو جاۓ، انھیں جو  ادائیگی  کی گئی وہ بھی مناسب تھی ۔
فی الحال ہم آس پاس کی مصروف سڑکوں کو دیکھ رہیں تھیں ، جو اپنے ہی پنڈی کے راجہ بازار جیساکسی بہت مصروف بازار کا منظر پیش کر رہی تھیں ،، ہر طرح سے ایک ترقی پذیر ملک جیسا منظر تھا ، یہاں رضیہ نے کچھ شاپنگ مالز کی تفصیل بتائی تاکہ ہم اپنے مطلب کی چیزیں کہاں سے لے سکتے ہیں اور کیا خریدا جانا چاہیۓ ، تاکہ وقت ضائع نہ ہو، وغیرہ ،، جس طرح غریب یا ترقی پزیر ملکوں میں کوئی نا کوئی جانور بےتکلفی سے سڑکوں پر مٹرگشت کر رہے ہوتے ہیں ، چاہے بھینسیں ہوں یا بندر ،،، یہاں ہاتھی ( ذیادہ بڑے سائز کے نہیں ) سڑک پر چل پھر رہے تھے ،لیکن اپنے مالک کے ساتھ ،، مالک کے ہاتھوں میں اور کندھے سے لٹکے تھیلے میں کٹے ہوۓ فٹ لمبے گنے ہوتے ہیں ، وہ ایک فٹ والی گنے کی گڈی ( 6یا5 گنے) ہاتھ میں لیۓ ہوتے ہیں ، جہاں سیاح دیکھتے ہیں، آفر کرتے ،" 20 بھات" میں یہ گڈی لیں ، ہاتھی کو کھلائیں اور اس کے ساتھ تصویر اتروائیں !! ،،،، ( 20 بھات کا ریٹ 2009 کا ہے ، اب کا نہیں معلوم ) ،،، لیکن ہمارا پہلا دن اور چھوٹتے ہی کھلا،ہاتھی ، پیش ہو جاۓ ،، ڈر کا حال یہ کہ ہم آگے آگے ، اور ہاتھی والا چند لفظی انگریزی کے ساتھ پیچھے پیچھے، ، جوجی اور شاہدہ نے ہمت کی اور ایک گڈی خرید کر اسے کھلائ اور فورا" رضیہ نے تصویر لے لی ۔ اور سند رہی کہ انھوں نے ہاتھی کے خوف کو بھگا دیا تھا ۔ اب یہاں وہاں کی پیدل سیر ہوتی رہی ، کیوں کہ سبھی قابلِ ذکر مارکیٹ نزدیک ہی تھیں ۔ اس طرح تھائ لینڈ کی پہلی شام آئ ، اور خوب روشنیوں سے نہائی سڑکیں نظر آئیں ،، یہاں کی ٹیکسیاں ، مختلف پرائیویٹ ایجینسیز کی ملکیت ہونےکی نشانی کے طور پر ، اپنے الگ رنگوں سے نمایاں کی گئی تھیں ،، لیکن یہ سب رنگ بہت ہی تیز تھے ،، آتشی گلابی ، تیز زرد رنگ ، تیز پیلا ، یا کسی کا خوبصورت گرے رنگ بھی تھا ۔ شہر کے اندر کی سڑکیں بہت چوڑی نہیں ، اس لیۓ ٹریفک اکثر آہستہ اور جام ہوتی ہے ،، البتہ جو چیز نئی نظر آئی ،، وہ تھی " ٹُک ٹُک " کی سواری ، یہ ہمارے ہاں کے " چنجی" کو سواریوں کے بیٹھنے کی جگہ کو ذیادہ لمبا کر دیں ، جدید ریڑھا سمجھ لیں  ،، ایک وقت میں 6 تا 8 لوگ بیٹھ سکتے ہیں ،،، اور ایک دن بعد ہم نے یہ تجربہ بھی کر لیا ،، دوسری نئی ، اختراح یہ نظر آئی کہ اگرسنگل سواری ہے ، چاہے وہ عورت ہے یا    مرد،
توایک جگہ بہت سے " سکوٹر " کھڑے تھے ، سنگل سواری کراۓ پراس میں جا سکتی ہے ، اور سکوٹر والا ، فاصلے کے حساب سے کرایا لیتا ہے ۔ 
پھرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ گھر کی ڈائرکشن ، جوجی اور شاہدہ کو اچھی طرح سمجھ آگئی ۔ اس سینس سے میَں تو آج تک نا بلد ہوں ۔ اور ایمن ثمن تو ابھی تھیں ہی چھوٹی ۔ 
چلنے پھرنے کے دوران رضیہ اپنے ہوٹل کی طرف کی سڑک پر مڑی ، تو اس روڈ پر بہت سی دکانیں ، تھائی مساج کی تھیں ،، جو دیکھنے میں چھوٹی ، لیکن دو منزلہ تھیں ، رضیہ نے بتایا کہ یہاں کی مساج خواتین اپنے کام کی ماہر ہیں اگر ایک مرتبہ پاؤں کی کروا لینا ، سکون ملے گا ۔ 
اب واپس ہوٹل آئیں کچھ دیر ٹی وی دیکھا ، اس دوران ، کُک نے چاۓ سرو کی ،، رضیہ اور خطیر بھائی تیار ہوۓ ، کہ آج کل ان کی الوداعی دعوتیں چل رہی تھیں ، اور ہمارے ساتھ رات کے کھانے میں شامل نہ ہونے پر معذرت کر لی ۔ ہم نے اپنے کمروں میں آکر اگلے دن کی تیاری کر لی کہ صبح جلدی نکلنا تھا ، ،۔ 
( منیرہ قریشی 29 مارچ 2018ء واہ کینٹ) ( جاری )

منگل، 27 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا (11)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
 ملائیشیا " (11) (آخری قسط)۔"
نُورا کا شفیق چہرہ ، ہمیشہ یاد رہے گا ، ہم واپس اپنے اپارٹمنٹ آئیں اور کچھ نا کچھ پیکنگ شروع کر دی کہ اب ہمارے پاس دو دن رہ گئے تھے ، ابھی ہم نے واپسی پر تھائی لینڈ 6 دن رکنا تھا ،،، اور ملائیشیا کے لیۓ حال یہ تھا کہ " دل ابھی بھرا نہیں " والی کیفیت تھی ۔ بہر حال اگلی صبح ہم 10 بجے کے قریب نعیم بھائی کی یونیورسٹی ( اسلامک مَلے یونیورسٹی) پہنچ گئیں ،، اور سیدھے ان کے آفس پہنچیں ،، انھوں نے مسکرا کر استقبال کیا،، وہ ایک بہت خوب صورت گرے ، اور کالے ، اور کہیں گلابی رنگوں سے سجا یہ آفس ایک ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کا تھا ،،، ہم نے کرسیاں سنبھالیں اور نعیم بھائی نے ہماری تواضع کے لیۓ کافی کا آرڈر دیا ، اوراس کے بعد شاہدہ کی رہنمائی میں یونیورسٹی کی سیر کو نکلیں ،، نعیم بھائی نے بتایا یہ قریباً تین میل کے احاطے میں پھیلی ہوئی ہے ،، اور صرف کوالالمپور میں ایسی کئی درجن یونیورسٹیز ہیں ،،، یہ ادارہ بہت خوب صورت بلڈنگ ، خوب صورت آرگنائزڈ ،لان ، صاف ستھرے باتھ رومز پر مشتمل تھا ،،، چونکہ اس کا نام اسلامک سے شروع ہوتا تھا ، اسی لیۓ یہاں آنے والے ملکی اور غیر ملکی طالبات کے لیۓ سکارف لازمی تھا ،،، اس یونیورسٹی میں طلباء بھی پڑھتے ہیں ، اور یہاں مختلف ممالک کے غیر ملکی طلباء داخل تھے، ہم نے ان کی کینٹین میں بھی کچھ دیر رُک کر چاۓ پی اور سینڈوچ وغیرہ لیۓ ، اس دوران نمازِ ظہر کا وقت ہو گیا ،، پتہ چلا طالبات کے لیۓ" نماز کا کمرہ" ہے اور تب صاف باتھ رومز کا تجربہ ہوا۔ نماز کے بعد باہر کی طرف آئیں ،، باہر آکر یونیورسٹی کی ذاتی بسیں دیکھیں اور ان میں سے ایک میں بیٹھ کر یونیورسٹی سے باہر ایک بس سٹاپ تک پہنچیں ، یونیورسٹیز کی حالت اور یہ سن کر کہ اس سے بھی بڑی درجنوں یونیورسٹیز صرف اس ایک شہر میں ہیں ۔ تو اسی سے اندازہ ہوا کہ ملائیشیا کا تعلیمی بجٹ کتنا ذیادہ ہے کہ نہ صرف اپنے عوام بلکہ غیر ملکی طلباء کے لیۓ بھی تمام سہولتیں دی گئیں ہیں ۔ یہاں کا لٹریسی ریٹ 93٪ تھا ۔ جو اب یقینا" بڑھ چکا ہے ، یہ ہی وہ کامیابی تھی ، جو کسی ملک کا دیانت دار لیڈر ہی کر سکتا تھا ،، اور مہا تیر محمد نے کر دکھایا ،،،
اوراب ہم ایک قریبی " چڑیا گھر " کی طرف چل پڑیں ۔ ( مجھے اس کا نام یاد نہیں ) اس " زُو" میں تین ، چار قسم کے شوز کی سہولت تھیں ،، ان میں سے ایک"ہاررہاؤس" تھا ، جس پر ٹکٹ تھے ،،ایک طرف مختلف رائیڈز تھیں ، ان کے الگ ٹکٹ تھے ، لیکن اس دفعہ ہم نے" زُو " کے ٹکٹ لیۓ ،،، اور ہمیں بہت لطف آیا ،،، کیوں کہ یہاں کے پرندوں اور جانوروں کے پنجرے بہت مختلف اور ، کھلے اور دل کش تھے ۔ پرندوں میں تو بہت ہی ورائٹی دکھائی دی ۔۔ البتہ جنگلی جانور ، ویسے ہی تھے جیسے ہمارے ہاں کے چڑیا گھروں میں نظر آتے ہیں ۔ ہاتھیوں کے گزرنے کے راستے کو منفرد طریقے سے سجایا گیا تھا ،، جو مجھے پہلی دفعہ دیکھنے کو ملا ۔ چھوٹے چھوٹے رنگین جھنڈوں سے آراستہ راستے ہاتھیوں کی پہچان کے لیۓ تھے ، کہ تم نے ادھر اُدھر نہیں ہونا ۔ پھرتے پھراتے جب "مگرمچھوں " کے کافی بڑے ایریا تک پہنچیں ، تو آج اُس وقت ان کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا ،،، ایک جوان لڑکی ، زُو کی اپنی یونیفارم میں اور سکارف پہنے،، اپنے ماتحت عملے کے ساتھ اُن کو ذبح شدہ یا زندہ مرغیاں پھینک بھی رہی تھی اور پھکوا بھی رہی تھی ،، ہمارے لیۓ یہ نظارہ نیا تھا اوَر بھی لوگ کھڑے دلچسپی سےیہ منظر دیکھ رہے تھے ،، آدگ گھنٹہ یہ سلسلہ چلا ، لڑکی فارغ ہوئ تو ہم اپنی پُر تجسس طبیعت کے تحت چند باتیں پوچھنے لگیں ،،، تو اس نے سلام کے بعد اپنا نام " رقیہ " بتایا ،، اور یہ کہ وہ ایم ایس سی کیمسٹری کر چکی ہے ، اس دوران ایک شارٹ ویٹنری کورس کیا ، اور یہاں جاب مل گئ ،، کچھ کمائ کر لوں تو کیمسٹری میں ایم فِل کا ارادہ ہے ، مزید اِن مگر مچھوں بارے بتایا کہ ایک چھوٹے مگر مچھ کو ایک مرغی اور بڑے کے لیۓ دو مرغیاں ، ایک ہفتے بھر کی خوراک ہوتی ہے ، اور یہ کہ مجھے پاکستان سے بہت دلچسپی ہے ، آپ ایک بہادراور خوب صورت قوم ہیں ،،، اور یہ وہ جملے تھے ، جو ملائیشیا چھوڑنے سے ایک دن پہلے ہمارے کانوں نے سنے ،،، جو ہمیشہ یاد ریئں گے ،،،، اسی لیۓ"رقیہ" بھی یاد رہے گی ،،، اور " ملٹی پل پارک" کی یاد بھی رہے گی ۔،، جس کا تجربہ بہت عمدہ اور منفرد رہا ،،، !۔
شام ڈھلے واپس " 13 ویں " منزل پہنچیں ،، شام کی چاۓ پر فاروقہ نے مدعو کر رکھا تھا ،،، کچھ تیاری کر کے ہم پڑوسی خواتین کے گھر پہنچیں ، اِن کی چاۓ کی سبھی چیزیں وہی نارمل اور فارمل سی تھیں،، البتہ انھوں نے تین سنہری( مناسب سائز کی ) میٹل کی پلیٹوں کو خوب صورتی سے میووں سے سجا رکھا تھا ،، یہ ایرانی روایات کے مطابق مہمان سے محبت کا اظہار تھا ،، اس میں ہر چیز مُٹھی مُٹھی بھر الگ الگ دائرے میں سجی ہوئی تھی اور اوپرپولی تھین سے کوَر کیا گیا تھا ،،، اور یہ میرے ، جوجی اور شاہدہ کے لیۓ الگ الگ تحفہ تھا جو چاۓ کے بعد ہمیں دیا گیا ،،، یہ ایک پیاری روایت تھی ۔ ہم نے کچھ آپسی تصویریں کھینچیں ،، اور اللہ حافظ کہہ کر ہم سب دنیا کے میلے میں گم ہوگئیں ،،، یہ 2009 کی بات ہے اور ہم پھر نہیں ملیں ،، کیا پتہ ہم میں سے کون کس کو کسی اور ملک میں جا ملے ،،، ! " کسی نے کیا خوب کہا ہے !" کل اور پَل ،،، موجودہ لمحہ ہی اصلی حقیقت ہے " ،،،،گھر آکر دل پر اچھے لوگوں ، اور مناظر سے دوری کا دکھ بھرا بادل چھا گیا تھا ،،اور یہاں مَیں جدای سے پہلے ہی نوسٹلجیا کا شکار ہوئی جا رہی تھی !! واہ بھئ بندے ،،،۔
صبح ہماری تھائی لینڈ کی طرف روانگی تھی ، جس کے ٹکٹ ملائیشیا داخل ہوتے ہی لے لیۓ گۓ تھے ۔نمازِ فجر کے بعد ناشتہ کے نام پر صرف پھل کھاۓ گۓ ، اور وہی مہندر کمار کی ٹیکسی لے جانے پہنچ چکی تھی ،،، نعیم بھائی کا دلی شکریہ ادا کیا ،، اور آج تک کرتی ہیں ،، کہ اگر وہ اپنی طبیعت کے برعکس یہ جاب '" ویسے ہی جسٹ فار چینج "" نہ کرتے ،،، تو ہم خواتین بھی شاید ملائیشیا نہ دیکھ پاتیں ،، لیکن میِں سمجھتی ہوں ، شاہدہ کی اپنی بڑی بیٹی مزنہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ اور ایک اور سہیلی جو ہمارے بعد اس کے گھر رہنے آئی ،، کو محض ملائیشیا کا رزق کھلانے کے لیۓ نعیم بھائی سے " غلطی " کرائی گئی ، اور ہم بہت اطمینان سے سیر کرتے اب تھائی لینڈ کے لیۓ ائر پورٹ پہنچ گئیں ،، راستے بھر " پام کے جھنڈ کے جھنڈ ہمیں خدا حافظ کر رہے تھے ،، اور انتہائی یادگار گیارہ دن گزار کر ،، ایک اور دنیا میں داخل ہو رہی تھیں ،،، ۔
( منیرہ قریشی 27 مارچ 2018ء واہ کینٹ) ( جاری )

پیر، 26 مارچ، 2018

سفرِلائیشیا(10)۔

 سلسلہ ہاۓ سفر"
 ملائیشیا " (10)۔"
اب عدنان ہاشم کا مکمل گھر جو تین چھوٹے بیڈ رومز پر اور ڈرائنگ ڈائنینگ مشترکہ ، چھوٹا سا کچن ، جو اس چھوٹی فیملی کے لیۓ بہت تھا ، ایک واش روم نچلی اور ایک اوپری منزل پر تھا ننھنے منے لان آگے پیچھے ،،،، یہ سب دن کے اجالے میں نظر آگۓ تھے ، اوپر تو ہم نہیں گئیں ،بچیوں کی زبانی ہی علم ہوا ،،، دراصل یہ بتانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ، عدنان ، نے مکینکل انجیئرنگ میں پی ایچ ڈی کر لی تھی ، اور اس کی بیگم نے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی ، جس طرح  سے انھوں نے اپنی جاب  کے متعلق بتایا ، تو وہ بہترین تنخواہ لے رہے تھے ، بیگم عدنان نے کچھ عرصہ قبل جاب چھوڑی تھی ، اور اپنا کاروبار شروع کر رکھا تھا ، اور وہ کاروبار تھا ، مختلف " کریموں " کا ،،، خاص طور پر " سکن الرجی " میں جو کریم لگائی جا سکتی ہے ، وہ انھیں بنا کر اپنی پرو ڈکٹ کو ڈاکٹرز ، یا کاسمیٹک سٹورز کو بھیجتی تھی ،، اس کی پہلی جاب یونیورسٹی میں پروفیسر کی تھی ،،لیکن وہ اپنے  نئے  کام سے بہت خوش و مطمئن تھی ۔ وہ ایک صاف رنگت والی ، خوش مزاج اور تیز تیز کام کرنے والی انرجیٹک خاتون تھی ،، اس کا تعلق بدھ مذہب سے تھی لیکن عدنان سے شادی کے بعد مسلم ہو گئی تھی ،،،، یہ بات وہیں موجود خواتین نے بتائی کہ اگر لڑکا غیر مسلم ہے تب بھی اور لڑکی غیرمسلم ہے تو بھی ،،، غیرمسلم ساتھی کو مسلم ہونا پڑے گا ، ورنہ نکاح کی اجازت نہیں ملتی۔ شاید یہ قانون اس لیۓ بنا ہو گا کہ آگے چل کر بچوں کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے ؟ 
ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھی آمدن والے لوگوں کے سادہ لباس ، سادہ سجے گھر ، اور سادہ طرزِ زندگی ، دیکھ کر بہت رشک آیا ،، کوئی کروفر نہیں ،شو بازی والی گفتگو نہیں،بلکہ ان میں خواہ مخواہ کی عاجزی بھی نہیں تھی ،،، اور یہ ان کی مزید خوداعتمادی  کا اظہار تھا۔ 
بیگم عدنان ، کی جیٹھانی " نورا " کا تعلق انڈونیشیا سے تھا جو مسلم تھی ، اسی کی بیٹی عریضہ ساتھ آئی ہوئی تھی ، وہ بھی بہت پڑھی لکھی ، بہت ہی ہمبل خاتون تھی ،، اسی نے باتوں باتوں میں "ملائیشین باتک" کا ذکر کیا کہ اس کے شو روم کا اسے پتہ تھا ۔ شاہدہ نے ذکر تو سنا تھا لیکن اسے بھی کوئی معلومات نہ تھیں کہ یہ روایتی کپڑا کہاں سے ملتا ہے ،،،،شاہدہ نے اسے اگلے دن کے لیۓ کہا" کہ اگر وہ ساتھ چلے تو ٹیکسی والوں کو بھی بعض دفعہ مطلوبہ جگہ نہیں ملتی ،،، اس نے فوراً حامی بھر لی ،، فاطمہ جو اِن بھائیوں کی وہ بہن تھی جو ہم سب کے لیۓ " باہمی گفت گو" کا ذریعہ بنی ہوئی تھی ،،، وہ بھی بہت ہی تمیز و ادب ، اور محبت کا مرقع تھی ،،، افسوس میری اس کی ملاقات پاکستان میں کبھی نہ ہو سکی ۔ حالانکہ وہ اکثر پاکستان کا چکر لگاتی رہتی تھی ،، اس دوران اس کی ایک اور بہن " راضیہ ' اپنی 12، 13 سالہ بیٹی کے ساتھ آگئی ، وہ ان سب بہن بھائیوں میں سے نکلتے قد کی تھی ، مسکراتے چہرے کے ساتھ ہم سب سے ملی ، ایک اور فیملی ممبر جو پی ایچ ڈی کے آخری سمسٹر میں تھی ۔ ( یاد نہیں مضمون کون سا تھا )۔ 
ان سب نے پاکستان سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار کیا ،،، اپنے مہاتیر محمد کی تعریفوں کے پل باندھے ،،، اور بتایا کہ اسی نے چند قوانین ایسے بناۓ کہ آج ملائیشیا " ٹرولی ایشیاء" بن گیا ہے ،،، واحد مسلم ملک جس کو امریکا دھمکا کر بات نہیں کر سکتا ،،، مہاتیر نے اپنی قوم کو پڑھائ کی وہ سہولتیں دیں کہ ہر گھر میں ایک دو پی ایچ ڈی ، یا ایم فل کیۓ لوگ موجود ہیں ،،اور ایم اے اور ایم ایس سی تو لگتا تھا ہمارے ہاں ، جس طرح میٹرک یا آٹھ جماعت پاس مل جاتے ہیں ، ایم فِل کے اچھے گریڈ لینے والوں کو دوسرے ملکوں میں پی ایچ ڈی ، کے لیۓسکالر شپ دے کر بھیجا جاتا ہے ، فاطمہ نے آسٹریلیا سے ، عدنان نے یو کے سے اور عدنان کی بیوی نے بیلجیئم یا اٹلی سے ڈاکٹریٹ کیا ہوا تھا ۔ 
باتوں باتوں میں کھانا لگ گیا تو ابتدا ہوئی ،،، ابلے چاول ، اور ایک سالن گریوی والا ، اور روسٹ مرغی تھی جو اتنے چھوٹے سائز کے چار چار ٹکڑوں سے روسٹ ہوئی تھی کہ پہلے ہم سمجھیں تیتر یا بٹیر روسٹ کیۓ گۓ ہیں ، یہ بہت لذیز تھی،،، مچھلی بھی تلی پڑی تھی ،،، لیکن یہ سب ہمارے پاکستانی ذائقے کو نہ پہنچ سکے ۔ البتہ اچار اور چٹنیؤں کی مختلف اقسام سے ان کا آدھا ڈائینگ ٹیبل بھرا ہوا تھا شاہدہ اور جوجی نے ہر چٹنی اور اچار کو چکھا ،، اور وہ مجھے بھی گائیڈ کر دیتیں کہ یہ بھی لو ،، اور وہ بھی چکھو !،، پتہ چلا کہ یہ ان کے کھانوں کا لازم جزو ہوتے ہیں ،، اور مہمان کے سامنے ممکن حد تک جو گھر میں موجود اچار چٹنیاں ہیں یا بناۓ گۓ ہیں رکھے جاتے ہیں۔ کھانے کے بعد قہوے کا دور چلا ،، اور اپنے لاۓ تحائف انھیں پیش کیۓ ، انھوں نے فوراً کھول کر دیکھے اور پسند کیۓ ،،،، لیکن جب سب خواتین نے اپنی دلچسپی کا اظہار ہمارے کپڑوںمیں کیا تو ہم نے ان سے وعدہ کیا کی واپس جا کر آپ کے لیۓ بھجوائیں گی ،،،( اور الحمدُللہ وعدہ پورا کیا ، اور جب اگلی دفعہ شاہدہ کا ملائیشا جانا ہوا تو ہم نے اس کے ہاتھ چار زنانہ جوڑے بھجوا دئیے)۔
بہت محبتوں کے ساتھ شام قریباً رات آٹھ بجے وہاں سے رخصت لی ، اور عدنان ایک مرتبہ پھر چھوڑنے چلا ،، وہ بنیادی طور پر خاموش طبیعت لڑکا تھا ،، ہم بھی ذیادہ بات چیت نہ کر سکیں ، اور ڈیڑھ گھنٹہ خاموشی سے سفر کٹا ،،،، اگلے دن ہمیں نورا کے ساتھ وقت گزارنا تھا ، اسی لیۓ صبح کی تیاری جلدی کی ، ٹیکسی منگوا لی اور چل پڑیں ، نورا کے ساتھ موبائل پر رابطہ تھا ۔ کچھ دیر چلنے کے بعد ایک بازار کے قریب پہنچے تو نورا کا پیغام ملا کہ اب آپ لوگ فلاں جگہ پہنچیں ، ٹیکسی ڈرائیور چلتا رہا ،اور آخر ایک جگہ نورا کھڑی نظر آئی ،، ان تمام خواتین کا ،پینٹ ، ڈھیلی ڈھالی شرٹ یا بشرٹ جو گھٹنوں سے کچھ اوپر تھیں اور سر سکارف سے ڈھکا ہوا تھا ، ایسے حلیۓ میں تھیں ، جو ساتر کہا جا سکتا ہے ۔ نورا نے مسکرا کر استقبال کیا ۔ اور ٹیکسی فارغ کر دی ،،، چند منٹ چلنے کےبعد ایک بالکل عام سے شو روممیں داخل ہوئیں ،،، یہاں کافی ریک تھے جہاں تھان کی صورت مختلف النوع ڈیزائن اور " بُنت" کے کپڑے اوپر نیچے رکھے تھے ، جیسے ہمارے ہاں ،،، البتہ پتلی کاٹن کے پرنٹ بہت ہی دلکش ، اور خوش رنگ تھے ، اور یہ ہی پرنٹ ہم نے " ملائیشن ائر لائن " کی ائر ہوسٹس کو بھی پہنے دیکھا تھا ،،، یہ پرنٹ اور ڈیزائن ان کے " روایتی " تھے ، جیسے ہمارے ہاں ، اجرک ، یا چُنری ، یا چھیل کے ڈیزائن ،مخصوص ناموں سے پہچانے جاتے ہیں ،اور علاقائی نشان دہی کرتے نظر آتے ہیں ۔ میَں نے اپنی بیٹی اور دونوں بہوؤں کے لیۓ ایک ایک شرٹ لی ،،، اور دو کسی کو تحفے دینے کے لیۓ خرید لیں ،، اسی طرح شاہدہ اور جوجی نے بھی خریداری کی ،، اس شو روم کے پچھلے آدھے حصے میں کپڑوں کے رنگے جانے ، سوکھے ہوۓ کپڑے پر " ٹھپے" لگاۓ جانے کے کارنرز بنے ہوۓ تھے ، جنھیں دیکھ کر احساس ہوا تھوڑے سے فرق کے ساتھ اکثر روایاتی چیزیں ایک جیسے انداز سے بنتی ہیں !!۔
یہ وہ جگہ تھی ، جہاں " باتک" کپڑے کو جاننے اور دلچسپی رکھنے والے ، ہی پہنچ سکتے تھے ۔ نورا کا شکریہ کہ اس نے ہمیں وقت دیا اور اتنی دور ہماری خاطر آئی ،، اسی قسم کی مزید دکانوں پر وہ لے گئی اور کچھ خریداری کے بعد بھوک کا احساس ہو تو ،، نورا نے صاف کہہ دیا یہ لنچ میری طرف سے ہو گا ، ہم تینوں نے بہت انکار کیا ،،لیکن وہ مُصر رہی ، اور وہ ہمیں ایسے ریسٹورنٹ میں لے گئی جس کے اوپری منزل سے گزرنے والی ایک چھوٹی ٹرین کی پٹری نظر آرہی تھی ،، (ہمارے ہوتے ویسے کوئی ٹرین نہیں گزری )۔ اور جب نورا بےچاری نے ہمارے ہی بتاۓ مینؤ کے مطابق ایک ایک ڈش منگائی تو اب ہمارئ لیۓ انھیں کھانا محال ہو گیا ،،، یہ سب بےحد پھیکی ، اور بےذائقہ تھیں ، ہم خواتین نے تو کسی طرح اسے آدھا ، پورا کھا ہی لیا ،، لیکن ٹونز نے آنکھوں آنکھوں میں ہمیں انکار کیا کہ ہم سے نہیں کھایا جا رہا ، تو ہم نے بھی انھیں زور نہیں دیا ،،، خیر نورا کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ، الودعی کلمات کہے گۓ ،،، اور رخصت ہوئیں ،،، اب تک ہم مزید پھرنے کی ہمت نہیں کر پا رہیں تھیں ،، واپسی ہم نے میٹرو سے کی ،،، ہر دفعہ میٹرو سے آنا جانا ہوتا ، اور ان کے صاف ستھرے سٹیشنز ، دیکھ کر ، انکے لڑکوں ، مردوں کا ، عورتوں کے ساتھ اکھٹے سفر ،، لیکن کوئی بدتہذیبی نہیں ، دھکے نہیں ،، تمیز کے دائرے میں رہتے ہوۓ یہ مناظر ،،، میرے دل کو ان کے لیۓ تو خوشی اور اطمینان دیتے ،،،لیکن اپنے ملک کا سوچ کر خون کے آنسو رونے کو دل چاہتا ،،، اس لیۓ نہیں کہ میٹرو کیوں نہیں بنی ،،، بلکہ اس لیۓ کہ سفر کے آداب کی آگاہی سے ہم کب میچور ہوں گے ،،، سادگی سے کب آگاہ ہوں گے ،، کب ہم شو آف سے دور ہوں گے !!! صرف تعلیم نے انھیں خوداعتمادی عطا کر دی تھی ،، اور بہت حد تک ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کا شعور پیدا ہو چکا تھا ۔ قانون کی حکمرانی نے انھیں باشعور کر دیا تھا ۔
( منیرہ قریشی 26 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

ہفتہ، 24 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا(9)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
( ملائیشیا " (9"
جب ہمارا آٹھواں دن خوب آرام ، اور اپنے اب تک کے سفر ملائیشیا کی کارکردگی پر نظر ثانی پر گزرا ،، کسی کسی وقت میَں ان دنوں کی خاص باتوں کو ایک چھوٹی سی ڈائری میں لکھ لیتی تھی ۔ اس میں چند اور باتیں نوٹ کیں ،، اور آج اپنے رشتہ داروں کے " مَلے رشتہ داروں" میں سے جس کا موبائل نمبر ہمارے پاس تھا ، وہ ملایا تو ،جلیل چاچا جی کا رشتہ دار " عدنان ہاشم " نے ہیلو کہا ،،،، اب جوجی نے اپنا تعارف کرایا ،،، اس نے ہمبل طریقے سے لیکن صاف گوئ سے پوچھا ،، آپ کہاں ٹھہری ہوئیں ہیں ؟ اور آپ کو کل کون سا وقت مناسب لگ رہا ہے تاکہ ہم مل لیں ،، ورنہ اس کے بعد میَں ذرا مصروف ہوں وغیرہ ! " ،،، یہ ساری گفتگو انگریزی زبان میں ہوئ ۔ باقی بات چیت کے لیۓ جوجی نے شاہدہ کو موبائل پکڑایا ، اسی نے اپنا اتہ پتہ بتایا، تو عدنان نے کہا کہ میرا آفس ،، آپ کی رہائش اور میرے گھر کے درمیانی فاصلے پر ہے ،، مجھے آپ کے پاس آنے میں 20 منٹ لگیں گے لیکن میَں آپ لوگوں کو لینے آجاؤں گا " آپ کل 12 بجے تک تیار رہیۓ گا ، تاکہ وقت ضائع نہ ہو " ! ہم نے نہ صرف اگلے دن کے ملبوسات نکالے ، بلکہ ان کے لۓ پاکستان سے لاۓ گۓ تحائف بھی پیک کیۓ ! ہمیں وہاں تین فیملیز سے ملنے کی امید تھی ،،، ایک تو یہی عدنان ہاشم ،، دوسرا بھائی صابری ہاشم ، اور تیسری ان دونوں کی بہن " فاطمہ ہاشم " ! اور فی الحال انہی تینوں کے بارے میں پتہ تھا کہ یہ تینوں تو ضرور ملیں گے۔
اگلا دن ہم سب کے لیۓ بہرحال اس لحاظ سے پرُجوش تھا کہ ایک " مَلے خاندان " کے ساتھ ملنا اور کچھ دیر ان کے گھر ٹھہرنا ہو گا ،، مزید ان کی روایات اور رسوم کا علم ہو گا ،! 11 بجے تک ہم سب پوری تیاری کے ساتھ تیار تھیں ، شاہدہ نے اپنی طرف سے ایک مٹھائی کا ڈبہ لے لیا تھا ،، پونے بارہ ہی ، دروازے کی گھنٹی بجی اور ایک دبلے ، لمبے ، صاف رنگت والے آدمی کی آمد ہوئی ،، اس نے سلام کے بعد بتایا میَں عدنان ہوں !سلام دعا ہوئی ، احترام کے ساتھ اسے ڈرائنگ روم میں کچھ دیر بٹھایا اور شاہدہ نے فوراًکولڈ ڈرنک پیش کر دی ، وہ اتنا سنجیدہ مزاج تھا کہ مسکراہٹ نام کی چیز اسکے چہرے پر نہ دیکھی ۔ وہ ہم تینوں سے عمر میں چھوٹا تھا ،، لیکن اس نے شاید ہمارے بڑے ہونے کا کریڈٹ ہمیں دینے کی ضرورت نہیں سمجھی ، خیر ٹھیک 12 بجے ہم سب اسکی " سوک" کار میں عازمِ سفر ہوۓ ،، راستے میں اس نے صرف چند جملے بولے ، " جلیل قریشی صاحب کی آپ کے ساتھ کیا رشتہ داری بنتی ہے ؟ آپ ان تینوں بھائیوں ( جلیل چاچا جی ، حکیم چچا اور حلیم چچا )سے کتنے فاصلے پر رہائش پزیر ہیں ، اگر آپ ملائیشیا پہلی مرتبہ آئیں ہیں تو کہاں کہاں سیر کی !! وغیرہ اور پھر " شاہ عالم " کا علاقہ آنے تک قریباً 40 منٹ لگے لیکن ، باقی سفر خاموشی میں کٹا ۔ 
" شاہ عالم " کی نیلی مسجد ، یا " بلو موسق" پر کار جا رُکی ، عدنان نے خود ہی کہا ، یہ مسجد یہاں کی ہی نہیں پورے ملائیشیا کی مشہور مسجد ہے ، آپ ابھی دیکھ لیں ، کیوں کہ یہ واپسی کے راستے میں نہیں آۓ گی ،، کوئی شک نہیں ، ، ، دنیا کی ہر مسجد کا ایک اپنا اثر ہوتا ہے ،،،،، چاہے وہ مسجد قدیم ہو یا جدید ،، بنی سنوری ہو یا نہایت سادہ ،، کچھ ویران سی ہو یا بہت آباد ،،، اس کی ایک اپنی زبان ہوتی ہے ،،، جیسے وہ کچھ کہہ رہی ہوتی ہے !!!اور یہاں نیلی مسجد ،، نے تو خود ہمیں " حسَین ،نیلے ، ٹھنڈے ، رنگ اور احساس میں بھگو ڈالا ، ، ایکڑوں میں پھیلا سبزہ زار ، کے عین درمیان پُرشکوہ ، نیلی مسجد تھی ،، ابھی دوپہر کی نماز کا وقت رہتا تھا ،، خاموشی اور سکوت کا ایک اور ہی رعب ہوتا ہے ،، جو دل کو محبت بھرا ، غم دینے لگتا ہے ، میرے احساسات تو ایسے ہی تھے ،ساری مسجد ، کی بناوٹ ، سجاوٹ میں نیلا ، سفید اور کہیں گرے رنگ تھا ،، ساری مسجد میں سادے نیلے قالین بچھے تھے، اندر داخل ہوتے ہی ایک کاؤنٹر تھا ، جہاں دو خواتین اور ایک مرد ڈیوٹی پر تھے ، انھوں نے ہمیں مسجد سے متعلق ، قدرے کمزور انگریزی میں معلومات دیں اور ساتھ بروشرز بھی دیۓ ، ایک خاتون مسجد کی مزید جگہیں دکھانے ساتھ چلیں ، اور ہم نے کونا کھدرا محبتوں سے دیکھا ۔ اور وُضو تو کیا ہوا تھا ، دو نفل اور ظہر کی قصر نماز پڑھ لی ،، اس دوران عدنان نے بھی مسجد کےمردوں کی سائڈ پر نماز پڑھی ہو گی ، کیوں کہ اس کی پینٹ کے پائنچے الٹے ہوۓ تھے ،، اس نے نہایت سنجیدگی سے ہمارے کیمرے سے ہماری تصاویر ، نیلی مسجد کے پس منظر سمیت کھینچیں ،،، ہم نے مسجد کی نگراں خواتین سے چند " کی چینز " یادگار کے طور پر خریدیں ۔ 
اب چند منٹ کی ڈرائیو کے بعد ایک عام سے گھریلو اشیاء اور کھانے پینے کی چیزوں والے بازار میں رکے ، جہاں کے ایک ہوٹیل سے عدانان نے ایک پیکٹ وصولا ،، اور پھر مزید چند منٹ کے بعد ایک ایسی سڑک پر جہاں بنگلے نما گھر بنے ہوۓ تھے ، کار رُکی اور اب ہم بہت چھوٹے سے سبز لان سے گزر کر بر آمدے میں پہنچیں ،، بر آمدے میں پہلے سے چند جوڑے جوتوں کے نظر آۓ ،، عدنان نے اپنے سپاٹ لہجے میں بتایا ،، ہم لوگ جوتے باہر اتا ر دیتے ہیں ، ہم نے بھی فورا" جوتے اتارے اور سب سے پہلے " فاطمہ " نظر آئ ، اس نے پُر جوش انداز سے گلے لگایا ،، اور بہت ٹوٹی پھوٹی اردو میں بھی چند جملے بولے ، ( کیوں کہ وہ سال دو سال میں پاکستان کا چکر لگایا کرتی ہے ) ، اب دروازے پر عدنان کی پیاری سی بہت سمارٹ بیوی ،میکسی پہنے اور گلے میں سکارف لٹکاۓ سامنے آئی ،، سب خواتین گلے ملتی رہیں اور اب ہمیں ڈرائنگ روم ،( جو ان کا لاؤنج بھی ہوتا تھا )، میں بٹھایا ، تو ایک اور خاتون جو مختصر قد و قامت ، کی سکارف ، بشرٹ اور پینٹ میں ملبوس تھی اپنی بیٹی 16، 15 سالہ بیٹی کے ساتھ، داخل ہوئی،یہ عدنان کی دوسری بھابھی " نورا "تھی اور ساتھ اس کی بیٹی : عریضہ"یا عریسہ )تھی ، بھابھی تو ہم سے گلے ملی لیکن بیٹی نے ہم بڑوں کے دایاں ہاتھ پکڑ کر پشت پر پیار کیا ،، عدنان کی اپنی بیٹی " حنا " بھی جب ملی تو اس نے بھی ہمارے ہاتھوں کی پشت پر پیار کیا ،، آج کے جدید دور میں ، بڑوں کے ادب کے طور پر نئی نسل کی طرف سے اس پیاری روایا ت کو برقرا ر رکھتے دیکھ کر دل خوش ہو گیا ،، حالانکہ ہمارے ہاں بھی یہ رواج ہے ، لیکن پاکستان میں "بہت بزرگ" کے ہاتھ پر پیار کیا جاتا ہے یا،خواتین ، اپنے سے کچھ چھوٹے رشتہ دار لڑکوں ، مردوں کے ہاتھ پر پیار دیتی ہیں۔ملنا ملانا ، جاری تھا کہ دو باپ بیٹا داخل ہوۓ،اور یہ" غلام ہاشم" ( فاطمہ وغیرہ کا ایک اور بھائی )۔اور اس کا نوجون بیٹا تھے ، ،، تعارف کا فریضہ فاطمہ نے اُٹھایا ،، کہ سب سے بہترین انگریزی اسی کی تھی ، اس نے انگریزی میں آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کر رکھی تھی ۔ باقی کچھ اٹک کر گزارا کر لیتے تھے ۔،،، انکو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہم میں سے سہیلی کون سی ہے اور رشتہ دار کون سے ہیں کیوں کہ ہم سب پہلی مرتبہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ،، باری باری نام اور رشتہ کی وضاحت ہوئ ۔ اسی دوران ایک اور جوڑا داخل ہوا ، یہ " عدنان وغیرہ کے سب سے بڑے بھائ صابری ہاشم تھے ، جو خود بھی اور ان کی بیگم بھی جنرلسٹ بھی تھے اور " ملائیشین نیوز " کے ایڈیٹر بھی تھے ۔ یہ عدنان اور اس کی چائینیز النسل مسلم بیوی کا بڑاپن تھا اور عقل مندی بھی کہ ، ایک ہی جگہ سب بہن بھائیؤں کو اکٹھا کر لیا ،، اور ہماری ملاقات ان سب بہن بھائیوں سے ہو گئ ، جو کوالالمپور میں عدنان کے گھر کے قریب رہتے تھے ،، ان سب بہن بھائیوں کی والدہ ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے ساتھ دوسرے شہر میں رہتی تھیں ،، جہاں ٹرین سے 4 گھنٹے جانے کا فاصلہ تھا ،، ! تعارف پر پتہ چلا ، یہ 6 بھائی اور 4 بہنیں ہیں ، ان میں سے دو بھائی اور دو بہنیں پی ایچ ڈی ،، اور دو بھابھیاں بھی پی ایچ ڈی تھیں ،،، یہ سن کرہم سب " حیرت " میں گم ہو گئیں ،،،، اور ذرا اپنے پر غور بھی کیا ۔ کہ کیوں پاکستانی اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ پاتے۔ 
ایمن ثمن ، کو حنا اور عریسہ اوپری منزل پر بنے اپنے کمرے میں لے گئیں ۔ بعد میں ایمن ثمن نے بتایا کہ ان دونوں لڑکیوں نے بےتکلفانہ بات چیت کی اور اسی میں کہہ دیا " ہماری خواہش ہے کہ ہماری شادی کسی پاکستانی لڑکے سے ہو ، وہ خوب صورت ہوتے ہیں ؛ ، اور یہ کہ کاش ایسا ہو سکتا ۔ یہ سن کردعا کی ، کہ اللہ کرے پاکستانی لڑکے لڑکیاں ، دوسرے مسلم ممالک کے رشتوں کو قبول کریں اور اس طرح ،،، نئی سوچ رکھنے والا وہ معاشرہ سامنے آسکتا ہے ، جو امن بھائی چارہ ، اورمضبوط روایات کو مستحکم کر نے والا ہو !!!۔
( منیرہ قریشی 24 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

جمعرات، 22 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا(8)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
" ملائیشیا" (8)۔ 
آج ملائیشیا میں ہمارا ساتواں دن تھا ، اورمسلسل سات دن سے پھرنا پھرانا ہو رہا تھا ،،، بلکہ میَں ایک سیر کا ذکر نہیں کر سکی ، جو "پُترا جایا "نام کی جگہ جانا ہوا تھا جہاں ایسا میوزیم تھا جہاں ملائیشین تاریخ اور " تحریکِ آزادی " سے وابستہ تمام تصاویر ، اوزار ، ہتھیار ، اور اور اہم واقعات کو محفوظ کیا گیا تھا ،، واقعات کو موئثر انداز سے ڈسپلے کیا گیا تھا کہ مجسموں کو اسی دور کے لباس میں پیش کیا گیا تھا ،،، ظلم سہتے اور محروم طبقے کے تائثرات کو ان کے چہروں اور زخموں سے بھی واضح کرنے کی پُر اثر کوشش کی گئ تھی ، یہ سارا میوزیم ، وسیع رقبے پر محیط تھا ۔ میوزیم کے گرد اچھا خاصا رقبہ سر سبز پارک کی صورت میں تھا ۔ اس میوزیم سے ملائیشین تاریخ سے متعلق بہت معلومات ملیں ۔ ایسے میوزیم جس بھی ملک میں ہوں ،،، انھیں بلترتیب سِٹ ہونا چاہیۓ تاکہ کسی ملک کی تاریخ کی ساری جدوجہد " بتدریج " واضع ہوتی چلے جاۓ ،،، کچھ ایک کمرے میں ، کچھ تیسرے ، اور کچھ پانچویں میں مختلف کمروں میں واقعات پھیلانے سے وہ اثر پزیر نہیں رہتے ۔ بہر حال ہم نے اس میوزیم سے بہت کچھ حاصل کیا ،، اور وہاں سے ذرا قریب ہی ملائیشیا کا ایک" بیچ" ( beach )تھا جہاں تفریح کے لیۓ آنے والوں کے لیۓ کچھ کھانے پینے اور بیٹھنے اور فٹ بال اور نٹ بال کھیلنے کی سہولتیں تھیں ،، جس دن ہمارا وزٹ ہوا ،، اس دن شاید چھٹی کادن نہیں تھا ،، معلوم ہوا کہ ویک اینڈ کے دو دنوں میں ہاتھی کی سواری کا اہتمام بھی ہوتا ہے ۔
خیر تو بات ہو رہی تھی کہ ساتویں دن کے۔۔ اور آج آرام کادن بھی مقرر ہوا ،، شاہدہ نے گھر کو دیکھا بھالا ،، کچھ سالن کی ڈشز بنا ڈالیں ، تاکہ مزید جو دن رہ گۓ ہیں ان میں نعیم بھائی اور ہمیں مسئلےنہ ہوں ۔ 
نعیم بھائ ، کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ فارسی زبان اگر بہت بہترین نہیں تو بقدرِ ضرورت بہت اچھی بول لیتے ہیں ، یہ ہی وجہ تھی کہ ان کے فلیٹ کے بالکل ساتھ دو ایرانی بھائیوں کا قیام تھا جن کا ان کے ساتھ آنا جانا تھا ، علی ،بڑا اور مایار ( معیار) چھوٹا تھا،یہ اسی یونیورسٹی میں بھی تھے جہاں نعیم بھائ جاتے تھے ،، نعیم بھائ نے شروع کے دو دن بعدہی انھیں پہلےاپنے گھرچاۓ پر بلایا ، تو ان دونوں بچوں کے حسن کو دیکھ کر ایرانی خوبصورت کے قائل ہو گیئں ،،، اور اصل بات یہ بھی تھی کہ دونوں بہت شریف اور اپنی پڑھائ کی طرف سے بہت سنجیدہ تھے ،،، نعیم بھائ انکے استاد تو تھے ہی اور پھر فارسی زبان کی باہمی گفت و شنید نے ان کو آپسی تعلق میں بہت مضبوطی اورموءدبانہ انداز آچکا تھا ، علی ، جو بڑا بھائ تھا ، 24 ، 25 کا ہوگا ، لیکن بھائ کی ذمہ داری میں اس نے خود کو سنجیدگی کے دائرے میں رکھا ہوا تھا ۔ جبکہ مایار ( یا پھر معیار ہوگا) 18، 19 سال کا آنکھوں میں کچھ شرارت کی چمک لیۓ ، موءدب بچہ تھا ،،، ان کے فلیٹ سے آگے دو فلیٹ چھوڑ کر ایک ایرانی ماں بیٹی کی رہائش تھی ۔ ماں کا نام " فاروقہ اور بیٹی نیلوفر " تھا ،،، ماں 35 ، 40 کے درمیان اور بیٹی ،18 ،20 کی ہوگی ،،، یہ دونوں انتہائ مغرب ذدہ ، اور ایران میں خمینی انقلاب کے بعد ، ملائیشیا ہجرت کر آئیں تھیں اور علی اور مایار بھی کچھ ایسی صورتِ حال کے متاثرین میں سے تھے ،،لیکن اپنے مذہب اور تمیز و ادب کے دائرے میں یہاں دو سال سے تھے ۔ علی اور مایار سے ملاقات کے بعد چوتھے دن فاروقہ اور اس کی بیٹی سے ملاقات شاہدہ کے گھر میں ہوئی ، دو دن بعد انھوں نے ہمیں اپنے گھر چاۓ پر بلایا ۔ سہ پہر کی اس ٹی پارٹی میں علی اور مایار بھی مدعو تھے ، چاۓ پُرتکلف تھی ، فروقہ کی بڑی بہن بھی چند دن پہلے ایران سے انھیں ملنے آئی تھی ، اور وہ نماز اور سکارف کا خیال رکھ رہی تھی ،،، کمزور انگریزی کے باوجود سب کا کام چل رہا تھا ،، البتہ نعیم بھائی کی فارسی نے انھیں " ہیرو " بنا دیا کہ یہ سب ایرانی اس بات سے بہت خوش تھے کہ ایک پاکستانی ہماری زبان بہ آسانی بول رہا ہے۔ 
دو گھنٹے کی گپ شپ کے دوران اگلے دن " واٹر پارک " کا پروگرام ان سب کے ساتھ طے ہوا ، تاکہ ایک تفریحی ٹرپ ہمارے اور فاروقہ کی بہن افروزکے ساتھ کیا جاۓ ۔ اگلے دن ہم سب تیار ہوکر نیچے پہنچ گئیں ، شاہدہ نے جب بھی ،،، تفریح کا پروگرام بنایا ، خوب اچھی تیاری کرتی ہے ، کھانے پینے کی چیزیں ،، گروپ کے ممبرز کے حساب سے رکھیں ! اور ہوسکا تو یہاں بھی پاکستانی انداز کے سینڈوچ ، نمکو ، پرت دار پراٹھے وغیرہ اور بہت کچھ کیا ہوا تھا ،،، یہ اس کے کھلے دل اور ہاتھ کی وجہ سے ہے ۔ ورنہ ،،،،؟! واٹر پارک میں ایک کافی بڑے تالاب یا لوگوں کو دلچسپ طریقے سے بھگوۓ جانے کا سلسلہ تھا اس تالاب کے قریبا" ایک طرف لوہے کے سٹینڈ پر ایک بہت بڑا " گھڑا " جوں ہی بھرتا وہ قریب تیرتے لوگوں کے اوپر یکدم اُلٹ جاتا ،، اور یوں لوگوں کو ایکساٹمنٹ ملتی ،،، ہم خواتین کے ساتھ صرف مایار گیا تھا ، اور نیلو اور فاروقہ نے سوئمنگ کاسٹیوم پہنے اور پانی میں غڑاپ ہوگۓ ۔ جوجی اور شاہدہ ایمن ثمن کچھ دیر سوچتی رہیں ، پھر اپنے کپڑوں سمیت تالاب میں جاگھسیں ،، لیکن میِں اور افروز کسی صورت پانی میں جانے کو راضی نہ ہوٰہیں ، اور لب تالاب ہی نظارے کرتیں اور آپس میں باتیں کرتی رہیں ،،، افروز انگریزی سے نا بلد تھی ،، اور میَں فارسی سے ،، اس لیۓ میَں نے اپنی دسویں میں پڑھی فارسی کو ذہن میں زور دے کر چند لفظ ، " ری کال " کیۓ ،،، اور یوں کافی حد تک ہماری گفتگو جاری رہی ۔ اس نے سکارف لیا ہوا تھا اور لباس بھی ساتر پہن رکھا تھا اس نے بتایا کہ وہ حج کر چکی ہے ، اس کے تین بچے ہیں جو ایران میں ہیں ، اور وہ کچھ دن گزار کر واپس چلی جاۓ گی ۔ ایک گھنٹے کی پیراکی کے بعد سبھی پانی میں گھسے لوگ واپس آۓ تو آس پاس بنی دکانوں کو دیکھنے کا فیصلہ ہوااور بےحد افسوس کہ دونوں ماں بیٹی اسی مختصر ترین پیراکی کے کاسٹیوم میں دکان دکان پھرنے لگیں آخر مجھ سے نہ رہا گیا میَں نے ان کے ہاتھ میں پکڑے ٹاول گاؤن کی طرف اشارہ کیا ،، انھیں پہن لو ،، سردی نہیں لگے گی ،،! انھوں نے بادل ناخواستہ پہن لیۓ ،، اور پھر وہ اپنے اصلی لبادے پہننے چلی گئیں اور ہم دوسری طرف سے جاتے ہوۓ ، پاؤں کی چھوٹی ، اور سخت میل کو کھانے والی ننھی منی مچھلیوں کے تالاب کی  جانب آئیں اور میَں ، شاہدہ اور جوجی اپنی پے منٹ کر کے ان کے چھوٹے سے تالاب میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئیں ،، یہاں آدھ گھنٹہ یا 25 منٹ ہی بیٹھنے دیتے ہیں !اور آج اس ساتویں دن ہمارا ریسٹ ڈے تھا ،، گھر کے مختلف کام کر کے ہم ایک بجے چاۓ پینے لگیں ،، تو میَں نے آفر کی" چلو شاہدہ کیا یاد کرو گی ، آج میَں تمہاری مالش کرتی ہوں" ،،،، شاہدہ کا، سر دبوانا ، یا مالش کروانا ،، اس کی کمزوری ہے، اس کے سر کو ہاتھ لگانے کی دیر ہوتی ہے وہ جیسے نشے میں آجاتی ہے اور اگلے کا بس ایک گھنٹہ ، اس کی مکمل تھیراپی ہوجاتی ہے ،،، چناچہ آج جب مَیں نے کہا کہ" میَں سر دباؤں گی نہیں ، ، بس آرام آرام سے مالش کروں گی ،، تو اس نے سیکنڈ بھی نہ لگایا اور تیل کی بوتل پکڑا ، میرے آگے بیٹھ گئی ،،، ایک چھوڑ ڈیڑھ گھنٹہ لگا ، اور پھر جوجی کی مالش ہوئی ،،،، تو اس وقت تک میَں نے کسی کام کاج میں حصہ نہیں لیا تھا ،،، تو شاہدہ نے وہ دلچسپ اور مستند جملہ بولا تھا " بھئ بڑے بڑے مہمان میرے گھر آۓ ہیں لیکن منیرہ جیسے " ہڈحرام " مہمان شاید ہی کوئی آۓ ہوں "  جوابا" میَں نے کہا " تم جو مرضی کہو مجھے قبول ہے ، لیکن میَں کام نہیں کروا سکتی" ،،، ایسی ہلکی پھلکی نوک جھونک چلی آرہی تھی ،،، لیکن اس دن دل سے مالش نے شاہدہ کو نہال کر دیا ،،، کہنے لگی ،،، میَں نے تمہاری ساری " ہڈ حرامی" کو معاف کر دیا ہے کیوں کہ میری ساری تھکاوٹ اتر گئی ہے "۔ 
( منیرہ قریشی 22 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

بدھ، 21 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا (7)۔

" سلسلہ ہاۓسفر"
 ملائیشیا" (7)۔"
جیسا میں پہلے لکھا کہ ملائیشیاکی پہلی صبح شاہدہ نے ہمیں  روایتی پاکستانی ناشتہ کرایا ، لیکن اگلے دن ہم سب کو نزدیکی ایسے "ڈھابے " میں لے گئی جہاں جا کر دل خوش ہو گیا ،،، ہم شاہدہ کے گھر سے لفٹ میں بیٹھے اور چند سیکنڈ میں نیچے پہنچے ،، ایک بڑے کار پورچ سے گزر کر جب گیٹ بیرئر کی طرف سے باہر نکلھے اور چند منٹ کی واک کی اور ساتھ ہی ایک ڈھلوان راستے پر مزید 10 منٹ تک چلیں ،،اور چھپر نما کچھ کچا کچھ پکا بنا یہ ریسٹورنت ، ہمیں بہت دلچسپ لگا ,بالکل پاکستانی طرز کا بڑا سا ڈھابہ تھا ،،، یہ ایک مزدور یا بہت ہی مصروف کم آمدن افراد کے لیۓ بہت ہی سستا ڈھابہ تھا ۔ دراصل شاہدہ ہمیں ، ان چند دنوں میں بہت سے تجربات سے آگاہی کروانا چاہتی تھی ،،،کیوں کہ اسی طرح ایک اجنبی سر زمین کی مختلف سمتوں کے نظارے کیۓ جا سکتے ہیں ۔ یہاں مَیں نے اور جوجی اور بچیوں نے پہلی مرتبہ " دوسا " کھایا ،،، باقی تو سالن کا ذائقہ ویسا ہی تھا جیسے ہمارے ہاں کا ۔،،، اسی ڈھابے کے باہر " مچھلی" کے مختلف بڑے چھوٹے ، جار پڑے تھے ، جن میں ہر طرح کی مچھلیاں ، بکنے کے لیۓ تیار تھیں ، تاکہ اگر پکوانا ہے تو اسی ڈھابے سے پکوا سکتے ہیں ۔ یہاں چھوٹے آکٹوپس بھی بِک رہے تھے ،،، خیر یہ ہمارے لیۓ نیا تجربہ رہا ،،، واپس گھر آۓ ، اور آج چھٹا دن تھا جب ہم نے " سیل " شو دیکھنے جانا تھا مزید ایک مینا بازار اور شاہی مسجد کی طرف جانا تھا ،،، اس لیۓ تیاری پکڑی ،،، اور سب سے پہلے سیل شو دیکھنے کا وقت ہوا چاہتا تھا ،، ساڑھے گیارہ تک شو شروع ہونا تھا ، جب ہم پہنچیں ،،، اور یہاں بھی ایسا ہی شو دکھایا گیا کہ ،،، اگر جانور گندگی نہیں پسند کرتا اور مختلف ریہپرز اٹھا اٹھا کر ڈسٹ بِن میں ڈالتا ہے تو انسان کیوں نہیں سمجھتا اور سیکھتا ،،، ایسے شوز ہمارے ملکی میں تو چپے چپے پر ہونے چاہییں ،، شاید ملک و قوم میں سدھار آجاۓ ۔ 
دو سیل نے بچوں اور بڑوں کو گھنٹہ بھر مصروف رکھا اور پھر ہم سیدھے شاہی خاندان میں سے کسی سلطان کی بنائ انتہائ خوبصورت مسجد دیکھنے گۓ ،یہ ایک ایسے چوڑے دریا کے اوپر بنے پُل کے بعد بنائ گئ تھے ،، جس کی حدود کسی وقت اس الگ ریاست کی بھی حدود رہی تھی ،،، یہاں بھی تصویر کشی ہوئ اور خاص طور پریہاں کسی اشتہار کی شوٹنگ بھی دیکھنے کو ملی اور یہ بھی کہ نۓ نویلے دلہا دلہن بھی فوٹو شوٹ کے لیۓ پھر رہے تھے ،،، ہمیں ہر چیز انوکھی لگی ،،، کہ ملائیشن دلہن نے بہر حال َ شادی میں انگلش ڈریس پہنا ہوا تھا ۔ 
اب تک دوپہر گزرنے والی تھی جب نزدیکی پارک میں ،،، " گھریلو صنعت کاری " کے فروغ کے لیۓ لگاۓ گۓ مینا بازار جیسے بازار پہنچیں ،، اور پتہ چلا علاقے کا ناظمِ اعلیٰ نے افتتاح کیا ہے اور وہ ہر سٹال پر خصوصی چکر لگا رہا تھا ، ہم نے بھی نہ صرف سب سٹال دیکھے بلکہ یہاں سے کافی چیزیں خریدیں کیوں کہ وہ سب ہوم میڈ اور سستی بھی تھیں ،،، ان میں چھوٹے سائز کے کچھوؤں کے اوپری خول سے بنے " پرس بھی " تھے ۔ ہر چیز میں نفاست ، اور خوش رنگی تھی ،،،،جو ان سادہ لباس اور مزاج خواتین ۔ کے ذوق کا پتہ دے رہی تھیں ،،، کھانے پینے کے سٹال کے علاوہ ایک جگہ " پینسل سکیچ " بنانے والا آرٹسٹ بیٹھا تھا ،، جو ایمن ثمن کی دلچسپی کا باعث ہوا ، اور اس سے ان دونوں کے سکیچز بنواۓ ،،، وہ درمیانی عمر کا آرٹسٹ بہت خوش ہوا کہ نہایت معمولی فرق سے دو ایک جیسے چہرے بناۓ !! اسے ادائیگی کر کے سیدھے ایک ریسٹونٹ میں جا بیٹھیں ،،، اور ہم نے " مَلے کھانا " کھایا ،،،، ! یہ تجربہ ہم نے جگہ جگہ کیا لیکن ،، افسوس کہ کوئ بھی ڈش پاکستانی ذائقے کو شکست نہ دے سکی ، اور ہم پاکستانی کھانوں کے مقابلے میں 10 میں سے 5یا 7 نمبر دے کر اُٹھ جاتیں ،، کھایا ضرور ، کہ کھانا ، ستھرا اور حلال ہوتا ،،، نیز گرم اور تازہ بھی ،،!اس دن ہمیں کافی وقت ملا ،،، اسلیۓ چائینز بازار چل پڑیں ،، تاکہ یہ علاقہ بھی دیکھ لیا جاۓ ، چائینیز النسل یہاں مسلم آبادی کے بعد سب سے ذیادہ آبادی ہے ،، اور پھر اس کے بعد باقی ہندو ، سکھ اور عیسائ مذہب کے ماننے والوں کی مشترکہ " پرسنٹیج " ہے ،،، چائینیز النسل کا، کافی بڑا طبقہ خوشحال ہے ، اسی لیۓ ان میں ایک خاص خود اعتمادی دیکھی ، یہ کاروبار پر جمے نظر آۓ ،،، ہم جس بازار میں گئیں ، یہاں ذیادہ تر ایکسپورٹ کے مال سے لدی دکانیں تھیں ، ، ایمن ثمن نے ، انگلینڈ کے موسم کے مطابق کچھ کپڑے ، کچھ جوتے لیۓ ،، اور باقی وقت میں ونڈو شاپنگ کرتے ہوۓ ہی شام ہونے لگی اور ہم واپس گھر کو روانہ ہو گئیں ۔ ملائیشیا ، کے شہر کولالمپور کو ہم ان چند دنوں میں ذیادہ سے ذیادہ " بہ نظرِ غائر" ہی سہی ، لیکن دیکھ لینا چاہتی تھیں ۔ کبھی شمال ، کبھی جنوب ،  ۔
( منیرہ قریشی ، 21 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

اتوار، 18 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا (6)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
ملائیشیا" (6)۔"
نعیم بھائ کا گھر " تمن جایا " نام کی جگہ پر تھا ، یہ ایک کم آبادی والا صاف ستھرا ، علاقہ تھا اور جس ایریا میں ان کا فلیٹ تھا اور جس کی شاید 20 ،، 21 منزلیں تھیں اس ایریا کے اندر جانے کے لیۓ بیرئر لگایا گیا تھا، جہاں ہر وقت دو مستعد گارڈ موجود رہتے ، تسلی کے بعد ہی اندر جانے دیتے تھے ۔ اندر خوب چوڑی سڑک ایک بڑے دائرے کی صورت میں تھی اور اس قریبا" دو میل کے دائرے میں ایسی دو مزید بلڈنگز تھیں ، جن میں اتنے ہی فلیٹس بنے ہوۓ تھے ،،، دائرے کے اندر مکینوں کے لیۓ بہت بڑا سویمنگ پول ،، پارک ، ایک بڑا سٹور اور ایک کینٹین بھی تھی ، یہ بہت بنیادی اور مناسب سہولتیں تھیں ،،، جو ہر فلیٹس سسٹم کے تحت بنی بلڈنگز میں ہونی چاہییں ۔ 
خیر ، شام کو جب ہم خوب تھکی ماندی پہنچتیں ، تو اول تو باہر ہی سے ہم کھانا کھا کر آتیں ،، ورنہ نان جاتے ہوۓ لے لیتیں اور سالن تو شاہدہ صبح بنا کر جاتی ،،، لیکن نعیم بھائ کی چاۓ انہی کے ہاتھوں کی ضرور پی جاتی ، اور کبھی قہوے کا دور بھی چلتا ۔ وہ روزانہ کچھ تھوڑا بہت ہم سے ہمارا پھرنا یا " سیاحت نامہ " سنتے ،،، لیکن انھیں یا تو ہماری سیر کوئ دلچسپی نہ تھی یا ، انھیں ملائیشیا سے دلچسپی نہیں تھی ،، بس وہ اپنے " معاہدے کے کیۓ کو نبھا رہے تھے "۔ 
اب اگلے دن کے لیۓ شاہدہ نے خبردار کر دیا کہ ہم نے "گینٹنگ سکائی وے" " یا ہائ لینڈز جانا ہے اور یہ پورے دن کا پروگرام ہو گا ،، لہٰذا " سست مہمانِ گرامی" ( یعنی میں ) ذرا پھرتی دکھائیں گے ۔ چناچہ رات کو ہی سب کپڑے استری ہو گۓ ،، ( یہ بھی ایمن ثمن کی ڈیوٹی تھی ، میری نہیں  )صبح نماز کے بعد نہ سونے کا ارادہ کیا ، باری باری تیاری کے بعد گلے میں پرس کراس کیۓ اور چل پڑیں ۔ 
یہ ٹھیک ہے کہ کوئی معاشرہ جنت کا نمو نہ نہیں ہوتا ، کہ اس میں ذرا بھر بھی مسائل نہ ہو ۔۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ ، خوفناک صورتِ حال ہو ، سارا ملک ، ناقابلِ سفر ہو اور وہاں اکیلی خواتین کا پھرنا ، غیرمحفوظ ہو، کم ازکم اس معاملے ملائیشیا پر امن ملک ہے ہمارا تجربہ بہت مثبت رہا ، ٹیکسی کا سفر ہوا یا میٹرو کا ، یا بس کا ،،، کسی وقت بھی کوئ مسلہ ء، جیسے پرس کا چھینا جانا ، یا پیسے مہارت سے نکال لیۓ جانا ، یا آوازیں کسنا ،،، کوئ بھی برا واقعہ پیش نہیں آیا الحمدُ للہ ۔ حالانکہ ہم روزانہ میٹرو جانے کے لیۓ پہلے ایک خاموش اور کچھ ویران سا راستہ طے کرتیں ، جو صرف 10 یا 8 منٹ کا ہوتا ، پھر بس سٹاپ آتا ، اسی جگہ دو تین منٹ بعد بس آتی اور یہ بس ہمیں میٹرو سٹیشن تک لے جاتی ،،، لیکن ہمیں اللہ نے ہر شَر سے محفوظ رکھا ۔ یہ بھی واضع کر دوں کہ آج جس " گینٹنگ سکائی وے" کی طرف ہمارا رخ تھا وہ بالکل ہمارے ، بھوربن یا پتریاٹہ جیسا پہاڑی علاقہ تھا، اور وہاں تک بس سے قریبا" ایک گھنٹے کا سفر طے ہوا ،،، بہت آرام دہ سفر رہا 15 ،،، 20 منٹ کے بعد ہی خوب صورت ، بہت ہی سر سبز پہاڑیاں شروع ہو گئیں ، ایک گھنٹ تک خوش کن نظارے دیکھتے ہوۓ ، جب " گینٹنگ سکائی وے " پہنچیں ، تو موسم خوشگوار ،تھا ، اور صبح کے 10 بجے تھے۔ اب ہم نے " کیبل کار " میں سوار ہوکر اصل گینٹنگ سکائی وے تک پہنچنا تھا ، اس ایک کیبل کار میں چھ بندے بیٹھ سکتے تھے لیکن ہم پانچ نفوس ہی بیٹھیں ، اور چل پڑیں،،،۔
یہاں اتنی ہی اونچائی تھی ، جتنی پتریاٹہ کی ہے ،شاید اس سے ذیادہ ہو !راستے کی اکسائٹمنٹ بھی تھی ، اور مدت بعد کیبل کار میں بیٹھنے کا لطف بھی ،، کہ حسبِ سابق شاہدہ نے " ہم تم ہوں گے ، جنگل ہو گا ، رقص میں سارا عالم ہو گا " گایا ،، موسم نے بھی ساتھ دیا اور ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو گئی ،،، چونکہ ہم خود ہی اس کیبل کار میں تھیں ، اس لیۓ کوئ " غیر اخلاقی حرکت " محسوس نہ ہوئی ! یہ رائیڈ قریبا"40 منٹ کی تھی ، دُورنیچے وادیوں میں پگڈنڈیاں نظر آرہی تھیں ، بہت سر سبز علاقہ تھا ،، اچانک وہاں نیچے ایک دو شیر ، اور چیتے نظر آۓ لیکن مزید غور سے دیکھا گیا تو پتہ چلا ، بہت مہارت سے ان جانوروں کے مجسمے فکس کیۓ گۓ ہیں ،،، ! کیبل کار نے محفوظ انداز سے ہمیں گینٹنگ سکائی وے سٹیشن پر اتارا ۔ اور ہم ایک نئی دنیا میں داخل ہوئیں ،،، دکانوں ، کی بہتات ،،، کونا کھدرا انتہائی خوبصورتی سے سجا ہوا ، سجاوٹ ، صرف دکانوں کے اندر یا باہر نہیں تھی بلکہ سامانِ زیست میں بھی کمال تھا ،،، ہر طوح کے کھانے پینے کی دکانیں دینا کی مختلف قومیتیں پھرتی نظر آئیں ۔ یہ گینٹنگ سٹی چند" چائینز النسل ملائیشینز" نے بنایا تھا اور یہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر بنایا گیا ہے ، ساری سجاوٹوں پر سُرخ اور ذرد رنگ غالب نظر آیا ،،، اگر ہم دوسرے پہاڑ سے اس سٹی کو دیکھیں تو دور سے یہ ایک بہت بڑے " الاؤ" کامنظر لگے گا ۔ ( یا یہ میری راۓ ہے)یہاں کھانے پینے کی اشیاء تو مہنگی تھیں ہی ،،، سوئنگ رائیڈز تو مزید مہنگی لگیں ،،، لیکن ایمن ثمن نے پھر بھی ایک یادو رائیڈز کا تجربہ کر ہی لیا ،،، ہم نے یہاں سے چھوٹی چھوٹی کافی چیزیں لیں جو تحائف دینے کے لیں ۔ اور یہ اشیاء ہمیں نیچے ملے بازاروں میں نظر نہیں آئیں ،،، پھرنے کے لیۓ یہاں ایک دن کافی ہے لیکن کوئ رہنا چاہے تو ہوٹلز بھی بنے ہوۓ تھے ، ہم نے واپسی کا قصد کیا اور قریبا" شام چھے بجے کیبل کار میں بیٹھیں ،،، اور اس واپسی کے وقت ، نہ صرف ہم مزید خوش تھیں ، بلکہ آس پاس کے بدلے منظر نے ہمیں مبہوت کردیا تھا کہ سورج کی کرنوں نے ذرد رنگ پھینکنا شروع کیا ،،، تو جیسے چاروں طرف کے پہاڑ شوخ زرد روشنی میں نہا گۓ تھے !!! 40 منٹ کی یہ رائیڈ اور پھر بس کے ذریعے واپسی کا ایک ڈیڑھ گھنٹہ،،، تو گویا گھر پہنچے تو رات کے آٹھ بج چکے تھے ،،، اور پھر نعیم بھائی ، اور ان کی چاۓ ، اور ان کےقدرِ "عدم دلچسپی "لیۓ ہمارے سفر سے متعلق چند سوال ،، وہ بھی شاید دل رکھنے کے لیۓ ،، ورنہ وہ ملائیشیا سے کچھ خفا سے تھے ،،، ۔
( منیرہ قریشی 18 مارچ واہ کینٹ ) ( جاری)

جمعہ، 16 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا( 5)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر" 
 ملائیشیا" ( 5)۔"
اور اب اگلے دن آج برڈپارک اور بوٹینیکل گارڈن وغیرہ کا پروگرام بنا ، اور جب ہم ٹیکسی کے " 007" جیسے تجربے( 4 کے بجاۓ5 کا بٹھایا جانا ) سے گزر کر برڈ پارک پہنچے ، تو دل نہال ہو گیا ،بہت آرگنائزڈ اور سسپنس کے ساتھ بنایا گیا ، داخلہ گیٹ اور پھر ایک چھوٹی سی ندی کے اوپر پتلا سا لکڑی کا پل ،،، یہ قطار ، کے بنوانے کا طریقہ بھی تھا۔ خواتین و حضرات اسی ایک لائن میں تھے ،، اور جوں ہی ہم لابی ٹائپ جگہ پہنچیں ، تین ، چار آدمیوں نے بڑی بڑی چونچوں والے ، خوب رنگین پروں والے "مکاؤ پرندے " یا طوطے " پکڑ رکھے تھے اور لوگوں کو ان کے ساتھ ، تصاویر اتروانے کی ترغیب دے رہے تھے ،، حسبِ معمول" شاہدہ دلیر" نے ابتدا کی تو میَں نے اور جوجی نے بھی ہمت کر لی ،، ایک مکاؤ کندھے پر اور ایک ہاتھ پر ،،،، لیکن حال یہ تھا کہ ڈر کے مارےہم سر بھی نہیں ہلا رہیں تھیں کہیں ، یہ خوبصورت پرندے ، ناراض ہو کراپنی تین انچ لمبی اور ڈیڑھ انچ موٹی "چونچ کہیں ٹھونگ ہی نہ دیں ،، ان کے رکھوالے وقفے وقفے سے ان کی خوراک بھی کھلا رہے تھے۔ لیکن ایمن ، ثمن نے یہ یاد گار تصویریں لے ہی لیں ، اور پھر ہم آگے بڑھیں۔ 
کئی ایکٹر پرمحیط یہ برڈ پارک بےشمار پرندوں سے ، اور اونچے نیچے درختوں سے بھی سجا ہوا تھا ،، کچھ پرندے تو چھوٹے کمرہ نما پنجروں میں اور کچھ بہت بڑے ایریا پر مشتمل پنجروں میں تھے ،،، لیکن ایک چیز دیکھی کہ پورے اس ایریا کو سبز جالی کے کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا تاکہ، کوئ پرندہ اُڑنا چاہے تو اڑ سکتا ہے لیکن " فرار" نہیں ہو سکتا ۔ صفائی کا اعلیٰ معیار تھا، کہیں گھاس بےجا نہیں بڑھی ہوئی تھی، جگہ جگہ برڈ پارک کا عملہ اپنی اپنی ڈیوٹی پر نظر آیا۔ ایک ایک پنجرے کو جھانکتے ہوۓ ہم اس ایریا میں پہنچیں ، جہاں چھوٹا سا سٹیڈیم بنایا گیا تھا ، سیاح آتے جاتے اور بیٹھتے جاتے،، ادھر اُدھر پھِر کر مختلف کھانے پینے کی چیزیں بیچتے نوجوان لڑکے ، ہمارے قریب پہنچے تو کچھ چپس اور کچھ پاپ کارن خریدے گۓ ،،، اور سٹیڈیم کی سٹیج والی ہموار جگہ پر چند پنجرے اور بینچ رکھے ہوۓ تھے ، سٹیڈیم کچھ بھر گیا تو دو سمارٹ یونیفارم پہنے مرد اور دو عورتیں اپنی پرفارمنس دکھانے آگۓ ،،، پہلے دو خوبصورت عقابوں کی ٹریننگ کا مظاہرہ دکھایا گیا ، ایک انچارج لوگوں کے پیچھے کھڑا تھا ، اور ایک خاتون سائڈ پر کھڑی تھی ،، پنجروں کے پاس ایک مرد اور خاتون باری باری عقابوں کو چھوڑتے ، اور جس طرف ، دور کھڑا ٹریننر سیٹی بناتا ، یا کوئ اپنی طرف بلانے کی خاص آواز نکالتا تو وہ صرف اُسی طرف اڑ کر جاتا اور اپنے ٹریننر کے ہاتھ سے اپنی خوراک اُچک لیتا ۔ یہ محض ایک جنگلی پرندے کی ٹریننگ کا مظاہرہ ہی نہ تھا ، یہ بھی کہ وہ صرف اپنے ٹریننر کی بات کو اتنے بے شمار لوگوں کی موجودگی میں، مانتا ہے ، اور اسی کی اطاعت کرتا ہے ،، بجاۓ اور لوگوں کی طرف متوجہ ہونے کے ،،،،، اگلا مظاہرہ ، کچھ بڑے سائز کے سبز طوطوں کا تھا ،، جس سے بچے اور بڑےسب ہی بہت ہی محظوظ ہوۓ ،،، طوطوں کے یہ دو جوڑے تھے ، ان کے ٹرینرز اپنے آس پاس کبھی ریپر پھینکتے ، کبھی کسی پھل کا چھلکا ،،، حتیٰ کہ مونگ پھلی کے چھلکے بھی ،،، تو وہ طوطے فورا" اپنی چونچ سے ان لفافوں ، یا چھلکوں کو اُٹھا کر ڈسٹ بِن میں ڈال دیتے اور نہایت عقل مند بن کر انھیں انہی کے کندھوں پر بیٹھ کر اپنی زبان میں ڈانٹتے ،،، سٹیڈیم میں موجود بے شمار سیاح ، چلتے پھرتے چیزیں بیچنے والوں سے بہت کچھ خرید کر کھا چکے تھے ،،، اور اب ریپرز اور چھلکوں کی کافی لوگوں نے زمین پر پھینکا ہوا تھا ،،، اس ، شو کے بعد ، بہت سے سر جھکے اور اپنے اپنے پاؤں کے پاس بکھرے گند کو اُٹھایا ،،،، اور ،،، اب ان چلتے پھرتے دکانداروں کا چیزیں بیچا جانا ،، اور پھر ہماری اس بری عادت کی طرف متوجہ کرنے میں ،،، مطابقت سمجھ آئ ! ،، کہ صرف کہنا کافی نہیں ، عمل بھی ضروری ہے۔ یہ اور بات کہ انسان بار بار غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے ،، کہ ہمیں کون دیکھ رہا ہے ،،، حالانکہ اللہ نے ہر انسان کے اندر اچھائی برائی کا ایک پیمانہ لٹکا رکھا ،وہ اپنے اسی ضمیر کی آواز پر کتنا عمل کرتا ہے۔ 
یہاں سے اب ہم بوٹینکل گارڈن کی طرف چلے ،،، جو شاہدہ اور جوجی کا میدان تھا کہ دونوں نے اسی میں ایم ایس سی کیا تھا ،، لیکن جوجی کافی کچھ بھول چکی تھی ، جب کہ شاہدہ ہمیں کافی گائیڈ کرتی رہی ، یہاں بہت سے ایسے پودے دیکھے جو ، میَں نے صرف ٹی وی کے کسی پروگرام یا نیشنل جیو گرافی کے چینل سے دیکھے تھے ،،، " بس یہاں کا انتہائ ، آرگنائز اور ستھری ،، روشیں دیکھ کر دل خوش ہو گیا کہ " بہار پُر بہار ہے ، ترنمِ ہزار ہے " والا مزا آرہا تھا لیکن کیاریوں کی حدیں پار کر کے تصاویر لینے کی مناہی تھی ،،، اس لیۓ دور اور نزدیک سے کھینچی گئیں ،،، لیکن قانون نہیں توڑا گیا ۔ اب شام ہوا چاہتی تھی ،،، واپسی کے سفر میں کسی ریسٹورنٹ میں رکنا تھا ،، اور کوئ " مَلے " فوڈ آزمانا تھا ۔
( منیرہ قریشی 16 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) (جاری )

جمعرات، 15 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا(4)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
" ملائیشیا " (4)۔
جب ملائیشیا کا پروگرام ابھی کچا پکا طے پانے والے مراحل میں تھا ، تو ہم ان دنوں اپنے اباجی کے چچاذاد بھائ سے بائ چانس ملنے گئیں ، "جلیل قریشی " چاچا جی ، اباجی کے " فین " میں سے بھی ہیں ، ، ، انھوں نے اپنی نوکری کا زمانہ بھرپور انداز سے گزارا ،اور بچوں کی شادیوں سے فارغ تھے ، اور اب یہ میاں بیوی جن کی محبت کا گراف پہلے دن سے جوں اونچا ہونا شروع ہوا تو ہوتا چلا گیا ، لمحے بھر کے لیۓ بھی اس اونچے ہوتے گراف کو رکا ہوانہیں دیکھا۔اب خوب ملکی اور غیرملکی سیروتفریح کرتے پھر رہے ہیں ،، اور بےفکری کے یہ دن سب سے ذیادہ اچھے ہوتے ہیں جب ، جاب بھی نہیں کرنا ، بچے بھی سیٹل ہیں ،، اور غیرممالک میں بسے لوگ منتوں سے بلا رہے ہوں ، حکیم چاچا ( جلیل چاچاجی کے چھوٹے بھائی انگلینڈ میں دونوں بیٹے آسٹریلیا میں ، اور" مَلے " رشتہ دار ملائیشیا میں ،،، جلیل چاچا جی نے اپنے خاندان ( قریشی) کا شجرہ نسب خود ہی تحقیق کر کے لکھا ، چھپوایا ، اور خاندان کے ہر فرد کو خود دیا ، یہ ایک اہم دستاویز بن چکی ہے ،،، اگلی کتاب بھی اپنے علاقے ٹیکسلا سے متعلق ہے ، جو ایک تاریخی اور تحقیقی کتاب بھی ہے اور اس کتاب کو فوج کی بیشتر لائبریریوں میں رکھا گیا ہے ،،، بعد میں انھوں نے آسٹریلیا اور ملائیشیا کا سفر نامہ لکھا ، پھر مزید کتب بھی سامنے آئیں ، جن کا ذکر کسی اگلے موقع پر۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ زرخیز سوچ اور دماغ دیا ہے کہ آج 92 سال کی عمر میں بھی لکھنے لکھانے کا کام کرتے چلے جا رہے ہیں ،، ادبی ذوق تو انھیں اپنے ننھیال سے ملا ہے ،، چاچاجی کی والدہ ہمارے آبائی گاؤں کے قریب کے گاؤں سے بیاہ کر آئیں تھیں ، میں نے انھیں اکثر خاندان کی غمی خوشیوں میں دیکھا تھا ،،، وہ دبلی ، لمبی ، صاف رنگ والی بہت ایکٹو خاتون تھیں ۔ وہ عمر کے آخری دن تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتی رہیں ، اور یہ ان کی صحت اور نماز سے ان کے لگاؤ کا اظہاربھی تھا ،، کہ رمضان کی 20 تراویح بھی کھڑے ہو کر پڑھتیں ، جو، جوان خواتین کے لیۓ قدرِ شرمندگی ہوتی ، کہ کچھ تراویح بیٹھ کر پڑھنے کو دل چاہتا ،،،، بات ذرا کہیں اور نکلتی جاۓ گی کہ اس وقت بھی بات انہی کے خاندان کی ہو رہی ہے ، پاکستان بننے سے کئ سال قبل جلیل چاچاجی کے نانا اپنے بھائ کے ساتھ جوانی میں ، روزگار کے سلسلے میں ملائیشیا چلے گۓ تھے ،،، ان کے نانا ہوم سِک ہو گۓ اور کچھ سال گزار کر واپس آگۓ ، جبکہ دوسرے بھائ کا اس سر زمین سے دل لگ گیا تھا ،، وہ وئیں ایک ملائیشین مسلم خاتون سے بیاہ کرکے بَس گۓ ،، چوں کہ ابھی والدین زندہ تھے اس لیۓ ملائیشن دلہن اپنے پاکستانی شوہر کے ساتھ سال دو، سال بعد چکر لگا جاتی ،،، اپنے سسرالی خاندان میں زبان کی بہت مشکل پیش نہیں آئ کہ شوہر نے اپنی بولی پنجابی کچھ نا کچھ سکھا دی تھی۔ گویا اب جلیل چاچا جی کے ماموں ذاد ملائیشین لوگ تھے ،، ان کے بچے بھی کبھی کبھار آتے رہتے ، اور یوں دو ملکوں میں بسی دو نسلوں کے ملنے ملانے کی حد تک رابطے رہے ،،،، اب جب ہمارا وہاں جانے کا ارادہ بنا ،، اور چاچا جی کو پتہ چلا تو انھوں نے ہمیں بتایا کہ ہم دونوں میاں بیوی ، جب اپنے دونوں بیٹوں سے ملنے آسٹریلیا گۓ تھے تو واپسی پر ملائیشیا رکے اور یہ 15، 16 دن بہت ہی یادگار گزارے ،، اب وہ ہمیں بھی اِن کریج کرنے لگے کہ ضرور جاؤ ، خوب صورت ملک ہے ،، اور ہمارے اُن رشتہ داروں سے بھی ضرور ملنا ،، وہ خوش ہوں گے وغیرہ وغیرہ !ہم نے ان سے ملائیشین رشتہ دار کا اتاپتا پوچھا تو ، معلوم ہوا ، تازہ معلومات حکیم چاچا جی ( انگلینڈ والے)سے ملیں گی ،، وہ برطانوی شہری ہونے کے باعث اور واہ میں ایک " سرمائ گھر" رکھنے کے باعث سردیوں میں رہنے آتے رہتے ہیں ، اب ان سے رابطہ کیا کہ کوئ لیٹس پتہ معلوم ہو تو انھوں نے نہ صرف ایڈریس لکھ دیا بلکہ ان کا فون نمبربھی دیا ،، نیز انھوں نے ان کے بچوں میں سے عدنان کو فون بھی کر دیا کہ " میری بھتیجیاں آئیں گی ملنے ،، تو انھیں اپنی فیملیز سے ملوانا " ،،،، حکیم چاچا جی نے بتایا کہ عدنان نے ابھی کچھ عرصہ پہلے( 2009 کی بات ہے) انجینئرنگ میں ایم ایس کی ڈگری انگلینڈ سے ہی لی ہے اور وہاں کے قیام کے دوران ہم اکثر ویک اینڈ اکھٹے گزارتے رہے ہیں وغیرہ ،، ،، ،،، ،،،،،،،،،۔
یہ اتنا لمبا پس منظر بتانے کا ایک مقصد یہ تھا کہ ہم کسی" لوکل خاندان " سے بھی ملیں ، تاکہ ان کے فیملی کلچر کی ذیادہ معلومات مل جائیں گی ۔ اور یوں ،،،، جب ہم ملائیشیا پہنچیں ،، تو تیسرے دن عدنان کو فون ملایا ،، اس نے ذرا اٹکتی انگریزی میں ، ہم سے ہمارا پروگرام پوچھا ، اور بتایا مجھے پاکستان سے دونوں چچاؤں کے فون آگۓ تھے ،،میں آپکو کب لینے آؤں ،
جوجی نے اسے بتایا کہ ہم دو تین دن بعد تم سے رابطہ کریں گے اور تب تمہیں پروگرام بتائیں گے ، ہم ٹیکسی سے آئیں گے ، تم شاہدہ کو راستہ سمجھا دو ،،، اب شاہدہ نے اسے اپنا ایڈریس سمجھایا ،، تو اس نے بتایا ،، میرا آفس آپ کی رہائش کے اور میرے گھر کے درمیان واقع ہے ،، آپ ٹیکسی سے نہ آئیں میَں لینے آ جاؤں گا ،، آپ دو دن بعد فون کر دیں !ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ ایک " مَلے" فیملی سے گپ لگے گی ، تو کچھ نئ اور کچھ پرانی باتیں پوچھیں گے ۔
میَں نے ابھی اوپر ذکر کیا تھا کہ ہم نے " ٹون ٹاورز" کی زیارت کر لی اور سیاحتی روزنامچے کا پہلا ٹک مارک لگا لیا ، تو اب یہاں کے کسی شاپنگ مال ، کو دیکھنا چاہا ،،، گۓ دیکھا ، اور بہت متاثر بھی ہوئیں ، لیکن دنیا بھر کے شاپنگ سینٹرز مجھے تو ایک جیسے لگتے ہیں ، یا خریداری کی خواہش نہیں رہی ،، اور اس وقت تک یہ شعبہء عمل ،، وقت اور پیسے کا زیاں لگتا ہے ،،، اس لیۓ میں ان کے لوگوں اور طرز لباس دیکھتی رہی ، کہ حج میں تو یہ ایمبرائیڈڈ عبائیہ میں ہی نظر آئیں تھیں ،،، لیکن یہاں بھی چائینیز ، لڑکیاں کم لباسی میں نظر آئیں ، مَلے لڑکیاں ، کم ازکم کم لباسی میں تو نہیں ،، لیکن جینز اور ٹی شرٹ کے لباس میں اور درمیانی اور بزرگ خواتین ، " ملَے " کے ٹپیکل لباس ، کھلی سی تہبند ٹائپ لنگی ، اور اسی پرنٹ اور کپڑے کی ذرا مناسب لمبی قمیض، اور سر پر سکارف ،، جو مہذب طریقے سے لیا گیا ہوتا ،، 60 فی صد مسلم خواتین نے سر ڈھانپا ہوتا۔ ،یہ بہت مہذب لباس تھا، جبکہ بہت سی خواتین نے جینز ، بشرٹ اور سر کے سکارف کو اپنایا ہوا تھا ۔
ایمن ثمن کے لیۓ یہ پہلا غیر ملکی سفر تھا ، اس لیۓ ان کا ایکسائیڈڈ ہونا قدرتی تھا ۔ ان کی خریداری اس خیال سے بھی تھی کہ اب کچھ ہی عرصے بعد انھیں انگلینڈ ہی سیٹل ہوجانا تھا ۔ میں اور شاہدہ اگلی جگہ کا پروگرام بنا لیتیں ،، اب ہمارا رخ ، ایسے بازار کی طرف تھا ،، جہاں ملائیشیا کے ٹپیکل ، برتن ، کڑھائ والے کپڑے ، اور سجاوٹ کی چیزوں کی طرف تھا جو سوینئر کے طور پر دی جاسکتی تھیں ، یہاں سے البتہ کچھ نا کچھ ضرور خریداری ہوئ کہ اب میرے گھر دو بہوئیں بھی تھیں اور ایک بیٹی بھی ،، چار مختلف عمروں کے " گرینڈ چلڈرن " بھی ،،، یہی پیارے رشتے میری جیب خالی کراتے رہے ،،، اب ہم تھک بھی گئیں ،، شاہدہ بالکل پرفیکٹ میزبان ہے جو ، کوشش کرتی ہے کہ کچھ انوکھا تجربہ ہوتا رہے ،، اس نے جہاں اور اعلانات کر رکھے تھے ، تو ایک یہ بھی تھا کہ " ریڑھی والی ہر چیز چکھی جاۓ گی """ تاکہ ہمیں اس قوم کے کھانے کے ذائقے بارے ، علم ہو جاۓ گا ، یہ تو شکر ہے کہ یہاں حلا ل فوڈ بھی تھا اور صاف ستھرا بھی ،،،اس لیۓ ، کسی قسم کے اندیشے نہ تھے ،، ،، ریڑھیاں ، صاف ستھری اور رنگین تھیں ، ذیادہ تر یہ ریڑھیاں ، خواتین مینج کر رہی تھیں ،یہ ریڑھیاں ایک جگہ ہی فکس تھیں ، وہ انھیں لے کر ادھر ادھر نہیں پھرتی تھیں ۔ان کو ایک سادہ اور دومنزلہ عمارت کے صحن میں لائن سے فکس کیا ہوا تھا ۔ 
شام ہوتے ہی اب ہم واپس گھر کی جانب چلیں ،،، میں نے ذکر کیا تھا کی شاہدہ اور نعیم بھائ کے 13ویں منزل کے گھر کی بالکنی سے ،، میٹرو ٹرین پہلی مرتبہ ہم نے بھی دیکھی ،، اب ہماری واپسی اسی میٹرو ٹرین سے ہونی تھی ،، شاہدہ نے جوجی کو پاس کھڑا کیا کہ اب میں پانچ دن کے لیۓ ہم سب کے ٹکٹ لے لوں گی ، اس طرح ہمیں ہر دفعہ ٹکٹ لینا نہیں پڑے گا اور ٹکٹ کارڈ ، چیکنگ مشین سے ٹچ کر کے سٹیشن کے اندر داخلہ مل جاۓ گا ، اور اسی طرح سٹیشن سے نکلتے وقت بھی مشین سے ٹچ کر کے باہر نکلیں گے ،،، پہلی دفعہ کے تجربے سے میَں تو کنفیوژ سی ہوگئ تھی ۔ لیکن دوسرے دن ، کے آنے جانے نے سب جھجھک دور کر دی ، ۔
( منیرہ قریشی 15 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

منگل، 13 مارچ، 2018

سفرِملائیشیا (3)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
ملائیشیا " (3)۔"
ہم مارچ کے درمیان میں پہنچی تھیں ۔ اور یہ دن موسم کے لحاظ سے بہترین تھے ، رات پنکھے کی ضرورت پڑ رہی تھی ، اگر اے سی لگایا جاتا تو آدھ گھنٹے کے لیۓ ،،، پہلی رات ہم دونوں بہنیں تو آرام سے سو گئیں ،، البتہ ٹونز سسٹرز نے صبح بتایا کہ وہ ذرا بےآرام رہیں ، خیر صبح نماز کے بعد ہم دونوں ضرور سوتی ہیں ، اور گھنٹے یا دو گھنٹے کی نیند ہمیں فریش کر دیتی ہے ، یہ روٹین چھٹیوں کا ہوتا ہے ،،، ورنہ وہی ورکنگ خاتون کی طرح صبح پانچ تا شام 5 تک کا مصروف ترین دورانیہ ہوتا ، اور ہم ہوتیں ،، (البتہ میں نے جب سے خود کوزبردستی ریٹائر کیا ہے ، اب روٹین بدل چکا ہے ، یہ پھر کبھی سہی، کہ کیا روٹین بن چکا ہے)۔
ملائیشیا کی پہلی صبح بھی خوب چمکیلی تھی ، شاہدہ نے ناشتہ سجا رکھا تھا ،،،،۔
شاہدہ سے متعلق میَں نے اپنی لکھی " یادوں کی تتلیاں " میں ذکر کیا تھا کہ وہ اور ہم بچپن میں نو سال پڑوسی رہے ،، اور یہ 1964ء کی بات ہے،اور اب 2009 ء تک ہماری دوستی نے بتدریج بہت سی خوشیاں اور نرمی سستی اکٹھی گزار لی تھیں ، وہ دراصل جوجی کی کلاس فیلو بھی ہے اور پکی سہیلی بھی، اسکی باقی تینوں بہنوں ( بڑی بہن تسنیم اور شاہدہ سے چھوٹی ٹونز ، روبینہ ثمینہ ) سے بھی ہمارا بہناپا چل رہا ہے، الحمدُللہ !۔
ان بہنوں میں سے شاہدہ " ورسٹائل " شخصیت ہے ،،، پڑھنے میں ایم ایس سی بوٹنی ، پھر ایم فل اور پھر انگلینڈ کی یونیورسٹی سے بوٹنی میں پی ایچ ڈی کی، اسی لیۓ ڈاکٹر شاہدہ کہلاتی ہے ،،، اتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ، کچن میں آج بھی کام کرنا پسند کرتی ہے اور کچھ چیزوں کی زبردست ماہر ہے ، جیسے" سفید پلاؤ " ،کا جواب ہی نہیں ، یا آنٹی ( شاہدہ کی امی ) کے ہاتھ کا پلاؤ لذیذ ترین تھا یا اب شاہدہ کے ہاتھ میں ذائقہ ہے۔ اچھی میزبانی میں اپنا ہی سٹائل رکھتی ہے، اور سب سے بڑی بات کہ وہ دوستی چلانا اور نبھانا جانتی ہے ،، جس کا کریڈٹ اسی کو جاتا ہے ،،، اور ایک سب سے اچھی عادت کہ وہ نماز فجرکے بعد سوتی نہیں اس کی زندگی کا " ماٹو" قائد والا ہے "کام کام اور بس کام "،،، اور اس کا کہنا ہے کہ میری یہ ہی عادت بری بھی ہے ، کہ پھر شام سے ہی وہ نیند کی وادی میں اتر جانے پر مجبور ہو جاتی ہے ، ،،، اور خوبیاں تو اس کی جوانی سے یہ بھی ہیں کہ ، اپنی بچیوں کےہر ڈیزائن کے کپڑے خود سی لیتی تھی ،،نٹنگ وہ کر لیتی ہے ، اور اپنے بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں پوری طرح اس کی نظر میں رہتیں ! اس میں نعیم بھائی کا بھی حصہ تھا ،،،،،،،،۔
زندگی کے مشکل سوالوں کو بھی آسان رخ دے لیتی ہے ،،، اور یہ کمال تو بہرحال کم ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔
جی ، یہ سب خوبیاں واقعی اس میں ہیں ، اور اب 2009ء ہے اور ہم اس کی میزبانی کا لطف اٹھا رہی تھیں ،،، ایمن ثمن ، جوجی کے گھر اس وقت دنیا میں آئیں ، جب اس کے چھوٹے بیٹے کی عمر 10 سال تھی ، ایک تو وہ ٹونز اور پھر بہت ہی پیاری بھولی سی ایک جیسی شکلوں والی تھیں ، میرے تینوں بچے تو اُن پر فدا ہو گۓ ، ہماری فرمائش ہوتی کہ انھیں روزانہ ملوانے لایا کرو ،،، اور ہم ان کی پیاری حرکتوں سے لطف لیتے ، اور اب یہ ٹونز ، او لیول میں تھیں اور ہمارے بھی بہت سے کام نبٹانے کے قابل ہو چکی تھیں ،، خود جوجی ، کو بھی اپنی سہیلی کی طرح کچھ نا کچھ کام کرنے کا شوق ہوتا ہے ،، اور آخر میں رہ گئ" میَں" ،،، تو اس 11 روزہ قیام کے دوران اپنے بارے میں شاہدہ کا" مستند جملہ" بعد میں لکھوں گی ،، لیکن تھا وہ جملہ واقعی " بے لاگ ، اور کھرا " ،،،  ،،،،،۔
بہر حال پہلے دن کا ناشتہ ، عین پاکستانی مزاج کا تھا ،، ڈٹ کر کھایا گیا ، شاہدہ ،، اکثر ایک وقت میں دو کام نبٹانے کی عادی ہے ،، نعیم بھائ کے لیۓ رات کا کھانا تیارہو رہا ہے ،، اورمہمانوں کے لیۓ بھی مزید دوسری ڈش کا بھی اہتمام ہو رہا ہے ، ، کچن سے فورا" باہر ایک چھوٹا سا بر آمدہ تھا جس میں واشنگ مشین سیٹ تھی اور شاہدہ نے اپنے ،میاں کے کپڑے دھلائ کے لیۓ اس میں ڈال رکھے تھے ، جو اب دھل بھی چکے تھے ،، مجھے ہر چیز کو دیکھنے اور پھر اسے سمجھنے کے لیۓ " ذرا وقت چاہیے " ہوتا ہے ،،، مجھے اس کی ایک وجہ تو شاید ،کم ذہین ہونا لگتی ہے اور دوسری ،، میں گھر سے باہر جا کر صرف " لطف " لینے کی کیفیت میں آچکی ہوتی ہوں ،، اسی لیۓ میں نے ناشتہ کیا اور تیار ہونے اپنے کمرے چلی آئ ،، کچھ دیر بعد ہم سب تیار ہو چکی تھیں ، اور شاہدہ نے ہمیں ہمارا آج کا شیڈیول بتایا ،چوں کہ گاڑی ہے لیکن وہ نعیم بھائ یونیورسٹی لے جاتے ہیں کہ وہ اچھی خاصی دور ہے ،، ٹیکسی میں چھے کے بیٹھنے کی اجازت نہیں ، ایمن ثمن ، منی سی لگتی ہیں ، اب یہ دونوں جوجی اور شاہدہ کے درمیان گھس کر بیٹھیں گی ، مجھے اگلی سیٹ پر بیٹھنا ہو گا اور سب دنوں میں یہ ہی طریقہ رہے گا۔ 
آج ہم سیدھے ٹون ٹاورز دیکھنے جائیں گے ، پھر کسی مال میں ، ہم سب کی یہ ہی خواہش تھی،، ٹون ٹاور تک پہنچنے تک ، ملائیشیا کی سڑکوں ، عمارات ، اور صفائ ، اور لوگ دیکھتے ، بلکہ بغور دیکھتے چلے گۓ !ٹون ٹاور کے ایریا میں داخل ہوۓ ، ٹیکسی چھوڑنا پڑی ،اس وقت دوپہر کے ایک بجنےکوتھا ۔
شاہدہ نے ٹکٹ گھر سے ٹکٹ لیۓ ، اور ہم ایک انتظار گاہ میں بیٹھ گۓ ، ابھی آگے گئ پارٹی واپس نہیں آئ تھی ، اس دوران انتظار گاہ میں 15 ،20 سیاح اکھٹے ہو چکے تھے۔ کہ ظہر کی اذان سنائی دی ، ہم تینوں خواتین با وضو تھیں ، وہیں بیٹھے بیٹھے ہی قصر نماز پڑھ لی ، اور اس کے چند منٹ بعد ہماری باری آئ ، اس گروپ کو سب سے پہلے ٹون ٹاورز بارے معلوماتی ویڈیو دکھانے لے جایا گیا، ایک بڑے کمرے میں یہ اہتمام تھا فلم میں ٹون ٹاورز کی ابتدا سے کام اور کاز بتایا گیا تھا ، اور اب کس منزل میں کتنے آفسسز ہیں ، کتنے کمرے ہیں ، اور کس منزل تک جانے کی اجازت ہے ، اور دونوں ٹاورز کو ملانے والے پل تک جا سکتے ہیں وغیرہ !یہ فلم 3 ڈی تھی ، 15، 16 منٹ میں ختم ہو گئ۔ اور سارے گروپ کو تین گروپس میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر گروپ کے ساتھ ایک گائیڈ تھا اور تھی ،، یعنی ایک نوجوان لڑکی اور دو یا تین لڑکے جو اپنی سمارٹ یونیفارم میں ملبوس تھے ہر گروپ الگ لفٹ میں سوار ہوا، اور صرف چند سیکنڈ میں ہم ٹون ٹاورز کے ملاۓ گۓ پل والی منزل پر تھے ،،، اتنی اونچائ کا تجربہ بھی خوب انوکھا تجربہ ہوتاہے ۔ گروپ کے سب 22 ، 25 ارکان تصاویر لینے میں اور پُل کے درمیان چلنے پھرنے میں مصروف ہو گۓ لیکن میَں نے محسوس کیا ، نوجوان گائیڈز بہت ہی الرٹ ہو چکے تھے ۔ پل کی ریلنگ ڈبل تھی ، یعنی ایک ریلنگ کے بعد دو فٹ کے فاصلے پر دوسری ریلنگ تھی ، جو اوپر سے جھانکنے والوں کی مزید حفاظت کا کام دے سکتی ہے ۔ باقی دیواریں تو ٹرانسپیرنٹ فائبر گلاس کی تھیں ،،،، گویا حفاظتی حصار ہر طرح سے تھا ، ، یہ تو بعد میں علم ہوا کہ گائیڈز کی نظر سے بچ کر چند ایک خود کشی کے واقعات ہو چکے ہیں اسی لیۓ نوجوان گائیڈز ، کے چہروں سے کچھ سنجیدگی اور ذیادہ مستعدی نظر آرہی تھی ،وہ بہ ظاہر خوش دلی سے سیاحوں کے ساتھ تصاویر بھی اتروا رہے تھے ،،، صرف 15 منٹ کے بعد ، واپسی کا سگنل ملا ،، اور اسی ترتیب سے ہر گروپ اپنے اپنے گائیڈ کے ساتھ لفٹ میں داخل ہوۓ لیکن اوپر آنے اور اب نیچے پہنچتے ہی ہماری گنتی ضرور کی گئی ۔ ،،، دنیا کے مشہور و معروف ملائیشیا ٹون ٹاورز ، کو دیکھنا ، ایک سیاح کی " سیاحتی لِسٹ " پر ٹِک مارک تھا جو اگر نہ دیکھا جاتا تو ملائیشیا کا دورہ نا مکمل لگتا ،،،،۔ 
( منیرہ قریشی ، 13 مارچ 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)