اتوار، 27 اگست، 2017

"باسفورس کنارے"

۔23 اگست 2017 ء ایک خوب صورت ملک ترکی کی سیر کا موقع ملا ! کچھ احوال اس سیر کا جو محسوس کیا  ،لکھا ہے!۔
" باسفورس کنارے "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
تُرکیہء جدید
سُتھرے مکان ، توانا مقیم ، 
مطمئن ، آسودہ ، بے فکر ،
مضبوط تاریخ ، پُر ا عتماد ،پُر یقین
باسفورس کنارے !!
تہذیبِ نو ، تہذیبِ قدیم
باہم مل رہی ہیں مثلِ ندیم
تاریخ چپے چپے میں !
صدیاں کچھ پُرانی
صدیاں کچھ نئی
ہم مل رہے ہیں ، آشنا آشنا
باسفورس کنارے !!
محلاتِ پاد شاہان !
حسین و جمیل ،،،،
کونے میں کھڑے جوڑ توڑ
صوفوں پر بیٹھی سازشیں
پردوں کے پیچھے چغلیاں
راہ داریاں ، سرگو شیاں، سرگوشیاں ،
مگر تاریخِ قدیم دہرائی جاتی رہے گی
باسفورس کنارے !!
عظیم تھے وہ لوگ
شاندار کار ہاۓ نمایاں
لیکن اب صاحبِ نظارت ہیں
بے علم ، بے وُضو ، بے مراتب
منہ کھولے ، آنکھیں موندھے
انجامِ تاریخ سے بے خبر
دِ لوں پر قبضہء دنیا کس قدر!
باسفورس کنارے ! !
روش روش جمالِ یار
تصویریں اُتر رہی ہیں
کچھ کیمروں میں کچھ آنکھوں میں
لمحوں کے کھیل ہیں
اجنبی نفوس ، اجنبی ساعتیں
اجنبی وضاحتیں،اور سما عتیں
مگر صدیوں بعد ملے تو جانے مانے سے
ہر لہجہ ، ہرچہرہ ،ہر سازش لگے "فسانے "سے
باسفورس کنارے !!
محبتوں کے ڈھیر ہیں
رقص میں درویش ہیں
خوشیوں کے میل ہیں
جلدی چلو ،، جلدی کھاؤ
اگلا نظارہ ،، اگلا پڑاؤ
باسفورس مسکراۓ !!
۔15 ویں صدی میں ، 21ویں صدی ہے، باہم
مل رہے ہیں " وہ " ہم سے ، ہم "ان "سے باہم
باسفورس کنارے
باسفورس کنارے !!!!
( منیرہ قریشی 27 اگست 2017ء استنبول )

"نوگزی قبر"

" حضرت یوشع علیہ السلام کے مزار پر"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نو گزی قبر ،،،
آسودگی ، تمکنت ، وافر
پھولوں کی مہکار ہے گردا گِرد
طائرانِ خوش رنگ ہیں
چہروں کی بہار میں
سورہ یٰسین کی جلترنگ ہے
سکون ہے چہار سُو !
سکوت ہے زیرِ نگوں!
رات ، مگر اِ ک اور ہی ہیبت میں
دبدبہ ، رُعبِ حُسن کی صورت میں
کہاں سے آۓ تھےیہ اللہ کے پیارے
فنا عشقِ الہیٰ ، فنا خدمتِ نفوُس میں !
خُود سے بےنیاز ، خُودی سے بےخبر
عجب تھی وہ نو گزی قبر ،،،
۔( تُرکی کے قیام میں استنبول سے 2 گھنٹے دوری پر ایک نیم پہاڑی علاقے میں حضرت یوشع علیہ السلام کی قبر ہے یہاں  کئی لوگ سورۃ یٰسین پڑھتے نظر آۓ ، روایت ہے کہ جب کسی کی منت پوری ہو یا عرضی دینا ہو تو ان کے مزار پر آکر سورۃ یٰسین پڑھتے ہیں ! )۔
( منیرہ قریشی، 27ستمبر2017ء استنبول)

بدھ، 23 اگست، 2017

"رنگ نیارے"

" رنگ نیارے "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ء 2014ءمیں فضائی سفر کے دوران جومحسوس کیا اسے " تجسس" کے نام سے شیئر کیا تھااور اب 23"اگست2017ء کے فضائی سفر میں جو نظارے دیکھے انھیں لکھا ! کہ اس دفعہ " روٹ فرق تھا ، تو نظارے بھی فرق اور احساسات بھی فرق ،،،،)۔
ضدی بادل جمَے جمَے سے
ہوائیں آئیں گے تو ہلیں گے !
پہا ڑوں کا اِک سلسلہء متانت
حکمِ ربانی ہو گا تو ریزہ ریزہ ہونگے !
سمندر کی ہیبت ، کا کیا مقابلہ
دہشت ، عظمت ، جبرُوت ہاۓ تسلسل!
اور صحرا عاجزی سے بِچھا ہوا !
کہ انبیاء سے ہے سلسلہ ، جُڑا ہوا ،
ہیں خالق کے رنگ نیارے ،،،،،،
ہیں مالک کے رنگ سارے ،،،،!!!!
 منیرہ قریشی ، 23 اگست 2017ء دورانِ سفر استنبول)۔

منگل، 22 اگست، 2017

"یادوں کی تتلیاں " (4 )

یادوں کی تتلیاں " (4 ) ۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ابھی جو میں نے جِن دو کرداروں " قوی ہیکل " اور " پولیس کا سپاہی" کا ذکر کیا ہے تو آپ لوگوں نے محسوس کیا ہوگا کہ ان کا گہرا سانولا رنگ میرے ذہن میں نقش ہو گیا تھا اسی لۓ مجھے ان کی شخصیات میں ان کا یہ پہلو اس لۓ بھی یاد رہا کہ ہمارے والدین نے کبھی کسی کے رنگ یا بد ہیتی کو اہمیت نہیں دی، نہ ان سے کسی نفرت کا اظہار کیا ! ہم عام زندگی میں حسین یا خوش شکل چہرے دیکھنا ہی پسند کرتے ہیں اور ملنا بھی چاہتے ہیں، حالانکہ اس شخصیت کی اصل خوب صورتی اسکے " کردار " کی ہوتی ہے اگر وہ نہیں تو وہ بندہ " زیرو " ہے ۔
اپنے بچپنے کی یادوں پرنظر ڈالتی ہوں تو ایک اور گہری سانولی شخصیت اس اردلی کی ہے جس نے صحیح معنوں میں گھر کا بیٹا یا رکھوالا بن کر دکھایا !اباجی کی حد درجہ مصروفیت اور اماں جی کی مسلسل بیماری رہی اللہ تعالیٰ نے اس دور میں جب گھر میں ایک اچھے نگران کی سخت ضرورت ہوتی ہے ،،، ہمیں " شریف " کی صورت میں ایک مہربان اور وفادار اردلی مل گیا !
وہ نام کا ہی شریف نہیں تھا اصل " شریف " تھا ،،، اماں جی نے گھر کی گروسری لانا، بلز جمع کرانا ، ہماری سکول فیس جمع کرانے کے کام اسے سونپ رکھےتھےبلکہ ہم دونوں بہنوں کے روزانہ کے اخراجات بھی اسی کے حوالے تھے ،، اس نے نہ صرف گھر کی مکمل نگرانی کرنی بلکہ دوسری دو خواتین کوجو مختلف کاموں کے لۓ تھیں ان کے کام پر بھی نظر رکھنی ! والدین کی طرف سے ملازمین کے احترام کا ایک حکم یہ بھی تھا کہ وہ تم سے عمر میں بڑے ہیں اس لۓ ان کا نام نہیں لینا بلکہ عورت ہے تو ماسی یا باجی اور مرد ہے تو " پا ، جی " یا لالا جی ، یا چاچا کہا جاۓ ! (ہم اسے پا ، جی کہتے جس کا پنجابی میں مطلب ہے " بڑا بھائی ") ہر روز ایک ڈرامہ اس نے ہمارے ساتھ کرنا اپنا فرض سمجھنا وہ یہ کہ ہم دونوں اس کے پاس جا کر کہتیں " پا،جی ہمیں ایک ایک " آنہ " دے دو " تو وہ اپنی آنکھوں کے اوپر کے پپوٹوں کو اُلٹ دیتا جس سے اس کا کالا رنگ اور سُرخ پپوٹےاسے خوفناک بنا دیتے اور کہتا" اچھا جی آنہ چاہیے ابھی دیتا ہوں یہ دیکھتے ہی ہم چیخیں مارتی بھاگ کر اماں جی کو بتاتیں ، پا،جی ہمیں ڈرا رہا ہے "! ہر روز وہ اماں جی سے ڈانٹ کھاتا لیکن اس نے اپنی حرکتیں نہ چھوڑیں ،، بہت بعد میں خیال آتا کہ آخر وہ اپنے بال بچوں سے دور تھا اس کا بھی دل چاہتا ہوگا بچوں سے ہنسی مذاق کرنے کا ، اور اپنے لیول کا اس کے پاس یہ ہی مذاق تھا ،،، لیکن دوسری طرف اپنی حد درجہ مصروفیت اسے شاید مسکرانے کی فرصت بھی نہ دیتی تھی ۔ کیوں کہ اتنا فرض شناس انسان کم ہی ہوتے ہوں گے ۔وہ قریبا" 4، 5 سال رہا ، جاتے وقت اس کے آنسو نلکے کی طرح رواں تھے اور اماں جی بھی اس کے لۓ اتنی ہی غم گین جتنی ایک ماں یا بہن ہوسکتی ہے ۔ نہیں معلوم وہ کس علاقے کا تھا ، ان پڑھ اور سادہ ، بعد میں کبھی ملنے آیا یا نہیں کچھ علم نہیں !!۔
پنڈی میں ہمارا گھرجس محلے میں تھا وہاں آس پاس ہمارے رشتہ داروں کے کافی گھر تھا ، اور جیسا کہ رشتہ داروں سے اختلاف ہونا بھی قدرتی بات ہے ، اس خاندانی سیاست کو شریف دیکھتا رہتا اور کبھی اباجی نہ ہوتے تو کوئ رشتہ دار گھر آۓ ، اماں جی کا پوچھے، تو وہ یوں کھرا اور دبنگ لہجے میں بولتا کہ اگلا چُپ ہو کر رہ جاتا کہتا " آپ دیکھ نہیں رہے 'آپا بڑے " آرام کرہی ہیں ، طبیعت ٹھیک نہیں اور آپ شور کرنے آ گئے ہیں ! بس اس کے کڑوے سٹائل سے اکثر واپس چلے جاتے !!! ابھی آپ نے لفظ " آپا بڑے " پڑھا ہے ، اکثر گھروں میں پہلا پوتا یا نواسہ جب بولنے کی عمر میں آتا ہے تو وہ جو نانا ، دادا کو اپنی سمجھ اور محبت میں کہتا ہے وہی بعد کے پوتے ، نواسے کہتے چلے جاتے ہیں ، اماں جی بہت جلد نانی بن گئیں تو ان کے پہلے نواسے نے انھیں آپا بڑے کا خطاب دیا ،،، بس وہ نہال ہو گئیں کہ جو یہ کہہ رہا ہے وہ ہی چلے گا ،،، ( دراصل ہم اپنی بڑی بہن کو آپا کہتی تھیں تو بچے نے سوچا ہو گا یہ آپا تو وہ آپا بڑے !)اور بعد کے بچوں نے بھی یہ ہی لفظ بولا ،،، بلکہ تمام اردلی ، وغیرہ بھی انھیں یہ ہی کہتے ، اور اماں جی خود بھی اس بات کو پسند کرتیں تھیں کہ انھیں بیگم صاحب نہ بُلایا جاۓ !۔
گھر کی اوپری منزل کے دو صحن تھے ، اور گھر کے کل دو لیٹرین اور ایک غسل خانہ تھا ان کی دھلائی، صفائی کے لۓ ایک نہایت غریب ، بیوہ ، تین بچیوں کی ماں "رکھو "تھی پتہ نہیں اس کا پورا نام کیا تھا ، وہ کرسچین تھی ، لیکن حسبِ عادت اماں جی کی منظورِنظر ،،،، کیوں کہ اول تو ان کی نظر میں ہر غریب قابلِ عزت ، قابلِ مدد تھا ان کی یہ سوچ رنگ و نسل و مذہب سے بالا تر ہوتی اور دوسرے ان کا معقولہ تھا کہ " یہ لوگ ، دوسروں کے گھروں کے کوٹھوں کی صفائی کر کے اور 
غسل خانوں کو چمکا کر " روزی " کماتے ہیں ، اگر یہ نہ ہوں تو ہمارے گھر کوڑے سے اَٹ جائیں ،،،، اسے " رکھو ماسی " بلایا جاتا ،اماں جی اگر ذرا سی بھی طبیعت بحال ہوتی تو وہ خود کچن میں جاکر اس کے لۓ دیسی گھی کا تر بتر پراٹھا ، اور دودھ پتی کی چاۓ بناتیں ، کبھی اس پراٹھے کے ساتھ ملائی ہوتی کبھی رات کا سالن ،، اگر اباجی یا بھائی جان ہوسٹل سے آۓ ہوتے تو کہہ دیتے " ملازمہ بنا دے گی " تو کہتیں کیا پتہ وہ پراٹھے پر گھی کم لگاۓ ، یا دودھ میں پانی ڈال دے ،،، میں چاہتی ہوں اتنے گھروں کا کام کرتی ہے کسی ایک جگہ سے اسے خالص کھانا ملے تاکہ وہ تندرست رہے گی تو اپنی بچیوں کو پال لے گی " ،،،، اللہ تعالیٰ ان کی ایسی نیکیاں اُس جہان میں ان کے لۓ آسانیوں کا باعث بناۓ ،،،اماں جی 1976ء میں فوت ہوگئیں ، رکھو ماسی کے افسوس کے پیغام آۓ ( ہم پنڈی سے 1964ءمیں واہ کینٹ شفٹ ہو چکے تھے ) مدت بعد تقریبا" 18 سال بعد اسی محلے میں شادی پر جانا ہوا اتفاق سے رکھو ماسی بھی مدعو تھی ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہی دیر تک گلے لگ کر روتی رہیں ،اب وہ بچیوں سے فارغ اور قدرِ آسودہ تھی پھر بھی جب میں نے اسے کچھ ہاتھ میں پکڑایا تو اسکے آنسو دوبارہ رواں ہو گئے کہ اس کادوپٹے کا کونا بھیگ گیا ! رکھو ماسی نے لمبی عمر پائی ، شاید وہ پچھلے سال تک تو زندہ تھی اب کا نہیں پتہ ،،،، کیسے کیسے لوگ اماں جی اور ابا جی کی محبتوں کے امین تھے ، گواہ تھے ! ،،، الحمدُ للہ ! 
( جاری ) 
( منیرہ قریشی ، 22 اگست 2017ء واہ کینٹ )

"یادوں کی تتلیاں " (3)۔

یادوں کی تتلیاں " (3)۔"
'''''''''''''''''''''''''''''''''
اب پھریادوں کی ہواؤں کا رُخ " مری " کی طرف کرتی ہوں تاکہ کچھ اور ذکرِ خیر اُن شخصیات کا بھی ہو جائے جو لمحہ بھر کے لۓ یا،،چند ماہ و سال کے لۓ ہماری زندگیوں میں ٹھہریں اور آج مجھے اس اُدھیڑ عمری میں اپنی جھلک دکھانے کے لیے ذہن کے دریچوں  پر دستک دے رہی ہیں کہ " ہمیں اپنی یادوں سے کُھرچ تو نہیں دیا "،،،، ۔
اُنہی دنوں مری کے قیام میں اباجی کو جو اردلی ملا ( ملتا توصرف آرمی آفیسرکو ہے لیکن اسکو پوری فیملی کا خدمت گار بنا دیا جاتا ہے ) اس کا نام اب ذہن میں نہیں رہا ، لیکن اس کا حُلیہ یہ تھا کہ ساڑھے 6 فُٹ قد ، خوب جاندار صحت اور سیاہ رنگت ،،، موٹے خدوخال! عام طور پر وہ ہر وقت مسکراتا، اورہنسی مذاق کے موڈ میں رہتا اور اپنے کاموں کو خوش دلی سے ادا کرتا رہتا ، ہمارے اباجی تو اول صبح سے رات گئے آتے ، اماں جی بیماری کے ہاتھوں بہت ایکٹو تو نہیں رہتی تھیں لیکن ان کی نظر ہرکام پر رہتی ،،، اماں جی کی ان دنوں پھر طبیعت خراب چل رہی تھی اور ایک کمپاؤڈر روزانہ ایک انجکشن لگانے گھر آتا ، اماں جی کی نرم طبیعت سے ہر مرد عورت بھلے وہ اجنبی کیوں نہ ہوں ان سے آہستہ آہستہ اپنا دُکھ سُکھ کہنے لگتے۔ یہ کمپاوڈر بھی مسلسل مہینہ بھر آتا رہا اور اسی ( جاہل )( یہ میں نے اپنی طرف سے اسکے عجیب مشورے پرلکھا ہے ) کے مشورے پراماں جی نے فوراً عمل درآمد شروع کر دیا ، اور وہ یہ تھا کہ بکری کی تازہ کچی کلیجی کا ٹکڑا پیسوا کر اس میں دو لیموں نچوڑ کر دو، دو گھونٹ بچوں کو اور دو خود پی لیں یہ نسخہ 10 دن کا تھا ! نہ صرف آپ ، بلکہ بچے بھی خوب صحت مند !اس دن ہم 
دونوں بہنوں نے سکول کا کام کیا اور ابھی کتابیں سنبھال کر اٹھیں ہی تھیں کہ اردلی جس کا نام ہم دونوں نے " قوی ہیکل " رکھ چھوڑا تھا ،،، یہ نام ہم نے اس کی ہم پر حکم چلانے کی عادت کی وجہ سے دیا ہوا تھا کیوں کہ وہ ناشتہ تیار کر کے سامنے رکھتا اور بار بار آرڈر دیتا، ختم کیے بغیرکوئی اپنی جگہ سے نہ اُٹھے ! اور اب یہ ہم نے اپنی طرف سے   بہت " بُری گالی" کے طور پر اس سے اظہارِ نفرت کے طورپر رکھا تھا۔
جو ہم دونوں کو ہی پتہ تھا کہ ہم نے اس کا یہ نام رکھا ہے دراصل ہم " اُردو کے جو رسالے کہانیاں پڑھتی تھیں اس میں کسی جِن یا دیو کے نام کے ساتھ یہ ہی لفظ لکھا ہوتا تھا ، ( اوراپنے تیئں ہم نے اسے " ایکسٹریم " گندی گالی سے نوازا تھا ، ہم کتنے اچھے بچے تھے کہ گالی کے آداب و الفاظ سے نابلد رہے ایک عرصہ ،،، شکریہ اپنے والدین کا ) اس نے آکر حکم سنایا اماں جی کے پاس آجاؤ ! ہم وہاں پہنچیں تو نہایت فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کمپاؤڈر صاحب ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی دو پیالیاں پکڑے کھڑے ہیں اور ہمیں پکڑا کر کہا گیا پی لیں جی ! ہم نے جوں ہی منہ کے قریب کیا اُبکائیں آگئیں لیکن ظالم گارڈ کی طرح "قوی ہیکل" نے پیچھےسے کالر پکڑے اور بہت پیار سے کہا " اچھےبچے ایک سیکنڈ میں ختم کرتے ہیں شاباش ! اور ہم نے پی تو لیا لیکن سارا دن جو ہمارے منہ کا ذائقہ رہا وہ آج بھی یاد ہے ،،، اصل کہانی یہ ہے کہ ہم دونوں دوا تیار ہونے سے پہلے گھر کے کسی کونے یا باغ کے کسی درخت کے پیچھے چُھپ جاتیں کہ آج بچ جائیں گی لیکن وہ دو منٹ میں ہم تک پہنچتا ہمیں کالر سے یوں اُچک کر لٹکاتا ، ہَوا میں لہراتا لان میں بیٹھے کمپاؤڈر اور اماں جی کے پاس لے آتا، جیسے چیل اپنے دو پنجوں میں دو چوزے پکڑے ہو ۔ یہ سلسلہ10 دن چلا ،،، لیکن اس سے دشمنی مدتوں چلی ، یہ اور بات کہ ایمانداری ، خدمت گزاری سے اس نے اماں ،ابا کا دل جیت لیا !اور اماں جی اکثر اسے دعا میں یاد رکھتیں !۔
وہیں مری کے ایک اور سال کے قیام کے دوران، شاید میں چھٹی جماعت میں آ چکی تھی کہ میں ایسی بیمار ہوئی کہ ہمارا روزانہ کا سیر کا سلسلہ بند رہا جب ذرا ٹھیک ہوئی تو ہم دونوں اپنے پسندیدہ رسالے لے کر قریبی پارک میں چلی آئیں ! چند منٹ کے بعد دیکھا کہ آج اس پارک میں معمول سے زیادہ تتلیاں اُڑ رہی تھیں ، کمزوری کی وجہ سے میں تو بنچ پر بیٹھی رہی لیکن چھوٹی بہن جسے ہم " جوجی " کہتے ہیں ، نے مجھے خوش کرنے کے لیے تتلیاں پکڑیں اور مجھے پکڑا دیں ۔ میں نے ان تین چار تتلیوں کو فٹا فٹ اپنے رسالے میں دبا کر  بند کر لیا تاکہ گھر جا کر انہیں اپنی آرٹ کی کاپی پر چپکائیں گی ابھی جوجی نے پانچویں تتلی پکڑی ہی تھی کہ ہماری طرف ایک لمبا چوڑا، خاصا سانولا پولیس کا سپاہی آتا نظر آیا۔ جس نے اپنی بیلٹ ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور وہ سخت تھکا لگ رہا تھا ،،،،!۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ پولیس کے سپاہی کو دیکھتے ہی میں ڈر جاتی تھی ، کہیں یہ مجھے یا ہمیں پکڑنے تو نہیں آیا ،، ( انتہائی بچگانہ خیال ، اصل میں ہمیں ہمارے والدین نے کبھی یہ ذہن نشین نہیں کرایا کہ تم بھی کسی اہم آفیسر کے بچے ہو ،، مجھے آج بھی یاد ہے کہ کبھی ایک آدھ دفعہ کسی نوکر سے بدتمیزی کی تو اماں جی نے بُلا کر سخت لہجے میں کہا " افسر تمہا راباپ ہے ، تم نہیں !"اپنے سے بڑوں سے خبردار اُونچا بولیں " ہمارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا اور نتیجہ" آج تک اپنے خدمت گاروں کے جذبات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ! بھلے وہ کوئی رویہ بھی اپنائیں )۔
اس سپاہی نے ہمارے ہاتھ میں پکڑے رسالے کی طرف ہاتھ بڑھایا ، میں نے مسمرائز انداز سے رسالہ اسے دے دیا ، اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی ، اس نے رسالہ کھولا اور تتلیوں کو دیکھا اور کہا " اگر اسی طرح تمہیں بھی پکڑ کر ایک چھوٹے پنجرے میں بند کر دیا جاۓ تو تمہارا کیا حشر ہو ؟ یہ ہی کہ تم بھی تڑپ تڑپ کر مر جاؤ گی ، یہ تمہاری شکایت اللہ میاں سے کر رہی ہوں گی " ،،، یہ کہہ کر اس نے تتلیاں زمین پر گرا دیں اور یکدم اپنی راہ ہو لیا ! ! ہم دونوں نے اسے حیرانی سے جاتے دیکھا ،،، پھر تتلیوں کو اور خود ایک دوسرے کو ،،،، کیوں کہ اس نے ایک لفظ اور نہیں بولا ۔ آج سوچتی ہوں تو یوں لگتا ہے وہ محض راہ گزرتا اپنی ڈیوٹی کر کے اس پارک سے گزرنے والا تھا ، یا اس دور میں کم پڑھا ہوا یا ان پڑھ بھی "اقدار" سے آگاہ تھا ،اچھی بات کے لئےگائیڈ کرنا لوگ اپنا فرض سمجھتے ۔چاہے وہ پارک میں بیٹھے اجنبی بچے ہوں ،،،، ان کے نزدیک نصیحت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا تھا ،،،،،،،،، آج ہم کسی کو اس خیال سے کوئی سیدھی اور صحیح بات بتا رہے ہوں کہ معاشرے میں  سوک سنس  بڑھے اور ہم اپنا فرض نبھائیں لیکن آگے سے ایسا سُننے کو ملتا ہے " ہمیں پتہ ہے کیا کرنا ، کیا نہیں کرنا ،" وغیرہ وغیرہ !۔
بات تتلیوں کی ہورہی تھی کہ وہ دن آج کا دن تتلیوں کی محبت اور ان کی حفاظت جیسے ذہن میں ٹھہر گئی ہے ! شکریہ ، اجنبی پولیس کے تھکے ہوۓ سپاہی !!!!۔
مری کے دورانِ قیام اباجی کبھی کبھار ہمیں فلم دکھانے لے جاتے جو آرمی میس میں ہی دکھائی جاتی ، اس دوران ہماری بڑی بہن جنھیں ہم آپا کہتے تھے اگر آ کر رہتیں تو جیسے ہماری عید ہو جاتی وہ ہم بہن بھائی سے 10 ،11 سال بڑی تھیں ۔ اور ان کے بچے ہمارے جان جگر !! ۔
آپا کو اپنے روز و شب کی  چھوٹی سے چھوٹی بات بتائی جاتی ، ہماری کوشش ہوتی آپا ہمارے معاملات میں شامل ہو جائیں لیکن وہ اماں جی کے پاس زیادہ سے زیادہ وقت گزار کر چند دن میں چلی جاتیں ،،،، اس دوران ہماری ایک عزیز ترین سہیلی ہمارے پاس ایک ماہ گزارنے آئی ، لیکن ہم چند دن میں اس سے اُکتا گئیں ،،، اس کے والدین اور ہمارے والدین بہت اچھے تعلقات رکھتے تھے راولپنڈی میں اس کا اور ہمارا ہر تیسرے دن والہانہ ملنا ہوتا ،،، لیکن مری میں اس کا رہنا اُ کتاہٹ کا باعث بنا ،،،اور جب وہ مہینہ مکمل کر کے گئی تو ہم دونوں نے شکر کیا ،،،، بعد میں اماں جی نے پوچھا بھی کہ تمہاری اتنی دوستی ہے لیکن تم اس کے آنے پر خوش نہیں ہوئیں تو ہمارے پاس کوئی خاص جواب نہ تھا ،،،، کچھ عرصہ بعد ذرا شعور آیا تو اپنی اس اُکتاہٹ کی وجہ یہ سمجھ آئی کہ شہر میں وہ تھوڑی دیر کے لۓ آتی تھی ، اب جب زیادہ دنوں کے لیے آئی تو چند دن میں احساس ہوا کہ اسے " نہ تو ہماری طرح رسالے پڑھنے سے دلچسپی تھی نہ ہی باغ میں " خزانے کی کھدائی کرنے سے ( یہ بھی ہم دونوں کا خفیہ پلان تھا ، جو اس عمر میں اکثر بچوں کا ہوتا ہے کہ ضرور اس باغ میں خزانہ ہوگا جو ہماری محنت سے ملے گا تو ہماری واہ واہ ہو جاۓ گی  ،، نہ ہی اسےہمارے پڑوسیوں سے ادب سے بات کرنے کا سلیقہ تھا (وہی جو ادب آداب والے وضع دارپڑوسی تھے )،،، اور یوں 30 دنوں کے قیام نے اس کے اور ہمارے مزاج کے بُعد کو نمایاں کر دیا ،،، اسی لیے وقت کے ساتھ ساتھ دوستیاں بدلتی رہتی ہیں ،،، کبھی ہم جلدی میچور ہو جاتے ہیں اور کبھی دوست!!!۔
( جاری )
( منیرہ قریشی ،22 اگست 2017ء واہ کینٹ )

اتوار، 20 اگست، 2017

"یادوں کی تتلیاں " (2 )۔

یادوں کی تتلیاں " (2 )۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب ہم اپنے پیارے والدین کے ہمرا ہ پہلی مرتبہ مری رہنے گئی تھیں تو میں جماعت سوم یا چہارم میں تھی ، میری چھوٹی بہن ایک سال پیچھے اور ہمارے جان سے پیارے اکلوتے بھائی جان کیڈٹ کالج حسن ابدال میں کلاس نہم یا میٹرک میں آچکے تھے ،،، اباجی ، صدر جنرل محمد ایوب کے سیکورٹی آفیسر تھے ، وہ انتہائی مصروف رہتے ، اس لۓ ہماری پرورش میں ہماری اماں جی کا کلیدی کردار رہا ، انھوں نے کبھی ہاتھ اُٹھانے کی پالیسی نہیں اپنائی وہ ہماری کسی بھی بد تمیزی پر صرف اتنا کہتیں " اپنے اباجی کو آنے دو میں انھیں یہ اور یہ بات بتا دونگی " ،،، بس اچھے بچوں کی طرح ہمارے لۓ یہ جملہ کافی ہوتا ، اور اگر ہم چالاک بچے ہوتے تو ہمیں جلد سمجھ آجاتی کہ اماں نے کبھی اباجی سے ہماری شکایت نہیں کی ، انھوں نے صرف " رعب " ڈالنے اور بچوں کو قابو کرنے کاایک " زبردست جملہ " اپنایا ہوا تھا ! اماں جی اپنے شوہر کے بعد اپنے بچوں کی عاشق تھیں ، بھلا وہ ان کی شکایت کسی سے کیا کرتیں ،،، بہرحال مری کی اگلی یادوں کی طرف آتی ہوں کہ ہمارے اس گھر جس کانام " شنگریلا " تھا ،، کے بالکل چند گز دور ایک بہترین ڈبل سٹوری بڑی سی سفید کوٹھی تھی جو امریکی سفیر کی رہائش گاہ تھی ، اسکے بڑے سے پکے صحن میں راٹ آئرن کی کرسیاں اور میز ، ہر وقت پڑے رہتے ( راٹ آئرن کا فرنیچر ہم نے پہلی مرتبہ وہیں دیکھا ۔ یہ اور بات کہ ہماری سب سہیلیوں کوایسے فرنیچر کا تصور بھی محال تھا کہ جو بارش ، گرمی سردی باہر ہی پڑا رہتا ہے ) جن پر امریکن فیملی کبھی کبھار بیٹھی نظر آتی ، اس وقت کے سفیر کی دو خوب صورت 17 ،18 سالہ بیٹیاں بھی نظر آتیں لیکن اب سوچتی ہوں کیا پتہ وہ بیٹیاں تھیں یا بھانجیاں وغیرہ ،، لیکن اگر کبھی ہمارا آمنا سامنا ہو جاتا تو وہ ضرور ہلو ہاۓ کرتیں اور ہم انگریزی نہ جاننے کے سبب فوراً ان کے سامنے سے اوجھل ہونے کی کوشش کرتیں ،، ، بچپن کے دیر تک اس شرماہٹ کی عادت نے مجھے کافی عرصہ اپنی ذات کے خول میں بند رکھا ! میں سمجھتی ہوں بچوں کو اجنبیوں سے بات چیت کا اعتماد جلد ملنا چائیے !خیر ایک نمائشی ہاکی میچ میں اباجی ہمیں بھی لے کرگۓ ، تو وہاں یہ امریکن فیملی بھی تھی میچ میں ہمیں کیا دلچسبی ہوتی ، میچ ختم ہوا توامریکن لڑکیاں ہم سے ہاتھ ملانے آئیں اباجی نے ان سے ہمارا تعارف کروایا مجھے یاد ہے انھوں نے ہم سے ہمارے نام پوچھے، بڑی مشکل سے بتاۓ انھوں نے دہرایا ، خدا حافظ کہا گیا اور میں نے گھر آکر اماں جی سے گِلہ کیا آپ نے ہمارے کتنے مشکل نام رکھے ہیں ،،،یہ سن کر وہ تو صرف مسکرا دیں ! بہت سالوں بعد اباجی سے بھی میں نےیہ جملہ بولا تو انھوں نے کہا " جب مجھے معلوم ہوا کہ ' علامہ محمد اقبال ؒ " جیسی عظیم ہستی کی بیٹی کا نام " منیرہ " ہے تو میں نےسوچا ضرور اس نام کو علامہ نے کچھ سوچ کر ہی رکھا ہو گا "اس وضاحت کے بعد سے مجھے اپنا نام " منفرد " لگنے لگا !!! ۔
اباجی پنجابی ہونے کے باوجود بہترین اُردو اور انگریزی لکھتے تھے ، بولتے تھے اور اُردو میں شاعری بھی کرتے ، لیکن افسوس ان کے اس ایک شعر کے علاوہ اب کوئی کلام سامنے نہیں ہے ، اس لاپرواہی میں اباجی کی اپنی کوتاہی بھی شامل ہے ورنہ اپنے اس جوانی کے دور میں کچھ رسالوں میں ان کا کلام بھی چھپتا رہا ۔ وہ ایک شعر یہ ہے ۔
؎ رہ گۓ محوِ تماشا لبِ ساحل دانا ! 
اور موجوں سے لگے کھیلنے دیوانے چند
( ظفر الحق خالد قریشی ) 
اباجی کا تخلص " خالد " تھا اور یہ پوری غزل " دیوانےچند " کے قافیہ ردیف پر تھی لیکن یہ شعر بھی بصدکوشش انھیں یاد آیا تو اپنے ہاتھوں سے انھوں نے لکھا اور جانے کتنے سالوں سے سنبھال کر رکھا یہ کاغذ آج یادوں کی تتلیوں کی طرح پھڑ پھڑاتا میری آنکھوں کے سامنے آگیا جسے میں نے محفوظ کرلیا ہے ، ،،، اباجی بہترین فارسی بھی جانتے اور پڑھتے تھے ، نیز پشتو بھی بہترین بولتے تھے کیوں کہ ان کی پیدائش " صوبہ سرحد کے چارسدہ کے گاؤں " عمر زئی " کی تھی ان کا بچپن وہیں گزرا اور ان کے بہترین دوستوں میں پشتون دوست تھے ! علامہؒ کے کلام کو پڑھتے تو ان پر رقت سی طاری ہو جاتی ،،، ہمارے گھر علامہؒ کی برسی اور سالگرہ کادن ایسے منایا جاتا کہ کچھ میٹھا بنا کر گھر کے بچوں ، بڑوں کو کھانے کی دعوت دی جاتی اور اس دن لازما' کلامِ اقبالؒ پڑھا جاتا ،، اباجی کے احترام میں ہم بہن بھائی کچھ دیر بیٹھتے ،، ورنہ ان کے گلا روندنے کی وجہ سے ماحول کو کسی اور موضوع کی طرف لے جاتے ،!!! اب افسوس ہوتا ہے اباجی کو کیوں مجبور نہیں کیا کہ آپ اپنی انتہائی پیچیدہ ، رنگارنگ اور دلچسپ زندگی کے واقعات لکھیں ، آخری دور زندگی میں ان کی یادداشت بھی متاثر ہو رہی تھی اس لۓ وہ یادوں کے لۓ آمادہ بھی نہ ہوتے تھے ! لیکن اباجی ایک بہترین بیٹے ، بھائی اور شوہر اور باپ تھے ! ان کے شاعرانہ اور نثری ذوق نے انھیں اپنے خاندان کے جوان لڑکوں کا آئیڈیل بنایا دیا تھا اپنے دنیاوی رشتے جس اہلیت کے ساتھ انھوں نے نبھاۓ کم ہی لوگ ہوتے ہوں گے ، ہماری اماں جی ان کے بارے میں کہتی تھیں " تمہارا باپ فرشتہ ہے ، اس کے تو کپڑے بھی کوئی چھین کر لے جاۓ تو یہ اُف نہیں کرے گا " ،،، اباجی نے بہت باعزت اور باوقار بڑھاپا گزارا ، انھوں نے نہ صرف  اپنے  نواسہ نواسی دیکھے بلکہ اپنے ایک نواسے اور نواسی کے بچے بھی  گود کھلائے ، ،، البتہ ان کی زندگی کی ساتھی کم عمر لے کر آئی تھیں یعنی 52 یا53 سال! اباجی نے 83 برس کی عمر پائی ، بہت پُرسکون انداز سے موت کو گلے لگایا ، ، اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے آمین ! ،،،، یہ آج کی یادوں کی تتلیاں بس اباجی کی ذات کے گرد منڈلاتی رہیں اور میں جو کچھ لکھ رہی ہوں اس میں ، میرے دل و دماغ کی " رو " جس جانب جاۓ گی میں وہی لکھوں گی ،،، پڑھنے والوں سے عرض ہے کہ براہِ مہربانی اس میں کسی " ادبی معیار " کو تلاش نہ کیجیۓ گا ! (جاری) ۔
 منیرہ قریشی ، 20 اگست 2017ء واہ کینٹ

جمعرات، 17 اگست، 2017

"یادوں کی تتلیاں " (1)۔

" یادوں کی تتلیاں " ( بچپن کی کچھ مضبوط یادوں کے نام ) ( 1 )۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، 
ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کواپنا بچپن " سہانا " لگتا ہے ۔اُس دور کی معمولی سی بات بھی اہم لگتی ہے ،،،اور جب کبھی ماضی کی وہ معمولی ساواقعہ یاد آتا ہے تو خواہ مخواہ چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے ! ( تلخ واقعات کو ہم بُرا ماضی جانتے ہوۓ بھی بھلا نہیں پاتے حالانکہ وہ بھی بچپن کی یادیں ہیں )،،عمر جوں جوں بڑھتی ہےبچپنے کی یادیں اکژ ،اور شدت سے حملہ آور ہوتی ہیں ۔اوربڑھتی عمر میں یہ خوب صورت یادیں بندے کو ریلیکس کرتی ہیں ۔ ورنہ زندگی کے یکسانیت والے شب وروز بےزار کر دینے والے ہوتے ہیں۔
پرانی یادوں میں محو ہو جانا ایسا ہی دلچسپ کام ہے جیسے سمندر میں تیراک کو تیرنا ،دلی خوشی دیتا ہے ۔ یادوں کے سمندر میں تیرتے ہوۓ ایسی یادیں بھی اُبھر آتی ہیں جیسے سمندر میں سے چُھپا پھولوں بھرا ، خوبصورت جزیرہ یکدم اُبھرے اور چند منٹوں میں پھر تہہِ آب ہو جاۓ !،،،،، اور کبھی یکدم یادوں کا ایک تارہ چمکتا ہے ، آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے ایک موتی سا آنکھ کے کونے پر چمکنے لگتا ہے ،کبھی یہ یادیں دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد رات سونے کے وقت سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں ، کہ جیسے سٹیج کا پردہ ہٹا اور کردار مسکرا کر کہہ رہے ہوں  ، کبھی ہمیں بھی یاد کر لیا کرو ،،،۔
بچپن میں اکژ گرمیاں "مری " میں گزرتیں کہ ابا جی کو آرمی کی طرف سے رہائش مل جاتی تھی۔اس کےآس پاس کوئی خاص گھر نہ تھے۔ہمارے اس گھر کا نام بھی بڑا  رومانوی سا تھا (گرچہ  اس بات کا احساس  مجھے بہت بعد میں ہوا) یعنی "شنگریلہ"۔اس گھر سے چند قدم نیچے ایک گھر تھا جس میں ڈی ایس پی صاحب اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے اتنے شریف،اتنے وضع دار اور ایماندار لوگ دنیا میں کم کم ہی ہوتے ہیں ، آپس میں بڑوں کا تو کم ہی آنا جانا ہوتا کہ ہماری اماں جی بیمار رہتیں ،لیکن اس گھر کی ایک بیٹی یاسمین نام کی ہماری ہم عمر تھی آپس میں اپنی قیمتی متاع دکھائی جاتیں ، جس میں کپڑے کی گڑیاں ، چند رولڈگولڈ کی نگوں والی انگوٹھیاں ، کچھ رسالے، اخباروں سے تراشی گئی تصاویر ،، جو خوب اچھے فراک پہنےہماری عمر کی بچیوں کی تھیں یہ تصاویر یا تو کسی یورپین ملک کے شاہی خاندان کے بچوں کی تھیں ،یا بچوں کے ڈریسز کے ماڈلز کی تھیں۔ مجھے آج بھی وہ پیاری گلابی فراکوں سفید دستانوں اور سفید جرابوں اور سفید خوبصورت بوٹوں والی تین چار لڑکیوں کی تصویریں یاد ہیں کہ مدت میرے خزانے میں رہیں ،،، یہ قیمتی خزانہ اپنے اکلوتے بھائی سے چُھپا کر رکھتیں کیوں کہ وہ ہم دونوں( اوپر تلے کی بہنیں) سے جب کوئی کام کروانا چاہتے تو اس خزانے کو گھر کی چھت پر پھینکنے کی دھمکی دیتے،اور بادلِ ناخواستہ ہمیں ان کا حکم ماننا پڑتا ،حکم اکژ یہ ہوتا ایک بوٹ تم پالش کرو ایک یہ کرے یا ،، پورے آدھ گھنٹہ میری کنگھی بھی کرنا ہے اور سر دبانا بھی ہے (وہ کنگھی کروانے کےہمیشہ شوقین رہے تھے شاید ہوسٹلز میں رہنے والوں کی ریلکسیشن کا یہ بھی انداز ہو تا ہو گا )، یہ اس وقت بہت بور کام لگتے ،،اماں جی نے ہمارا دن بھر کا شیڈول بنا کر سمجھا دیا تھا کہ اس سے آگے کوئی بحث نہیں تھی ! اس میں صبح ناشتے کے بعد چھٹیوں کا کام دو ، تین گھنٹے ،،، دو گھنٹے ریسٹ ، جس میں بچوں کے رسالے پڑھنا ،یا باہر باغ میں بیٹھنا ،، وغیرہ ، اور شام تین بجتے ہی  ہم دونوں اپنے اس سال کا  بہترین لباس, پہننا اور پی ٹی شوز پہن کر مری کی مال روڈ کا چکر لگانا جو دو گھنٹے میں واپس آنے پر مشتمل تھا ، ،،، یہ وہ معصوم دور کہ پورے دو ماہ ، یعنی ساٹھ دن وہی  لباس پہننے میں ہمیں کوئی سبکی محسوس نہیں ہوتی تھی ،بلکہ یہ نارمل بات لگتی تھی اور خرچ کے لیے کبھی آٹھ آنے کبھی چار آنے ملتے جس میں سے  ہم دونوں نے چنا جور کھانا ضروری ہوتا،باقی چار آنے کی دو کہانیوں کی کتابیں لینی (اور وہاں سے ہماری اپنی کتابوں کی اچھی خاصی کولیکشن ہو گئی تھی)۔ہاں البتہ کبھی کتابوں کا ناغہ کر کے دو تین دن پیسے جمع کرتیں اور"قلا قند"کا بس اتنا بڑا ٹکڑا خریدا جاتاکہ ہم دونوں آدھا آدھا کھاتے اور ہمارا بہت اچھا گزارا ہو جاتا ہم نے اپنی "عیاشی "کا سامان خود ہی سوچا اور اس پر عمل درآمد بھی اپنی مرضی سے کر لیا کرنا ، رونق میلہ دیکھا اور گھر واپس ! جانے پر ہم تیز ہوتیں اورپندرہ منٹ میں مال پر پہنچ جاتیں ، واپسی میں 20 تا 25منٹ ضرور لگتے ، کبھی کبھار رنگین پھولوں کی کیاریوں کے پاس بیٹھ جاتیں اور کبھی راستے کے مخصوص مناظر سے ہٹ کر کوئی نظارہ ہوتا تو رک جاتیں ! چند منٹ وہ نظارہ ہمیں محو کرتا ،جیسے تیز گھوڑا دوڑاتی لڑکی ،یا ، راستے کے پُررونق گھروں میں  نئے لوگوں کی آمد ! یا ہمارے امریکی پڑوسی کی بیٹیوں اور بیگم کی قریب سے گزرتی وین ،، اور جب وہ ہمیں پہچان کر سب کی سب " ویو" کرتیں تو ہم شرم سے لال ہو جاتیں کہ " ہاۓ لوگ دیکھ رہے ہیں " ( شرم آنے کا کتنا عجیب خیال ،، جو میرے خیال میں محض احساسِ کمتری کا ایک انداز تھا ) ۔
مال روڈ پر ہم سے کچھ چھوٹا لڑکا ہمارا دوست بن گیا وہ ایک بھکاری بچہ تھا جو دونوں ٹانگوں سے معذور تھا اس لۓ ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلتا اور اس چال میں بھی تیز تھا ، پہلے ہم نے اپنی " فطری یا تربیتی " نرم دلی سے اسے اپنے پیسوں میں سے ایک پیسہ روزانہ دیا بہت دنوں کے بعد ایک دن ہم تھک کر ایک کیاری کے کنارے بیٹھ گئیں تو وہ قریب ہی بیٹھا تھا ، اور
اب وہ ہمیں بھی پہچان چکا تھا اس سے اس کے گھر اور افرادِخانہ کا پوچھا ! ( ہم دونوں کی یہ " بُری "عادت آج بھی ہے کہ ہم کسی سے چند منٹ ملیں تو ہم اس کے اہلِ خانہ کی تفصیل ، نوکری ، حالاتِ غم و خوشی جان جاتی ہیں اور اگر اگلا کسی پریشانی سے گزر رہا ہے تو فوراً سے پیشتر اس کا حل سوچنا او ر ہو سکے تو اسے وہ وظائف بھی بتانا جن کو پڑھنےسےاس کے مسائل حل ہو جائیں ! ہماری اس عادت سے ہماری اولادیں " سخت تنگ " ہیں پر اب کچھ نہیں ہو سکتا ) اب اس کے جواب یاد نہیں ! لیکن اگلے کئی سالوں کے بعد بھی جب مری جاتے تو وہ لڑکا پہلے سے بڑا اور تندرست دکھائی دیتا ، پھر خاصا وقفہ آیا اور ہم نوجوانی کی عمر میں مری گئیں  تو حیرت ہوئی کی وہ اسی طرح گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل چلتا ہوا کافی اُونچا لمبا جوان بن چکا تھا لیکن اس کا پیشہ نہیں بدلا تھا ! شاید اس پیشے سے وہ اچھا کما لیتا تھا کیوں کہ اس کی صحت سے یہ ہی ظاہر ہوتا تھا ،،، لیکن اس دوران ،،،کئی اور سال گزر گئے کبھی جانا بھی ہوا تو مری کے قیام کے دوران بچپن کے بناۓ " بھکاری دوست " سے پھر ملاقات نہیں ہوئی ،،،،، ! ( جاری )۔
( منیرہ قریشی 17 اگست 2017ء واہ کینٹ )

جمعہ، 4 اگست، 2017

"دنیا تو خوب صورت ہے "

"دنیا تو خوب صورت ہے "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کیا دلآویز حسن ہے اِن پھولوں کا
کیسے فرشتے ہوں گے وہ !!!
مانندِمژگاں بُرش تھامے ہوں گے
حُکمِ ربی سے رنگ بھر تے ہوں گے
پھلوں کے رنگوں میں کیا حسنِ خوش ذوقی ہے
ذائقوں اور رنگوں کا اِک طُومار ہے چہارسُو
یہ کیسا مسحورکن نظارہ ہے آسماں پرعیاں
یہ کیسی حیراں کن سجی ہے کہکشاں
اوریہ چرند وپرند کا حُسنِ عجیب
ان کے اجسام کی تناسبِ ترتیب !
اور ،،،،،،،
دُور تلک وادیوں کا حُسنِ مرعوب ،
اُونچے ، نیچے ٹیلوں کاحُسنِ زیتون !
حُسن ،، انساں کی رنگارنگ مٹی میں گُھلا ہوا !!
حُسن ،نفسِ انساں کی "منفرد فطرت" میں ڈھلا ہوا
کیا حُسن اتنا ہی مسحور کُن ہوا ہے ،،،؟
تو پھر ، کرخت لہجے کی چُبھن کیوں
بھوک اور ذلت کی بدصورتی کس لۓ
شدتِ غم سے لدی جدائی کی چیخیں
بےبسی ، بےکسی کی بےکار آہیں
کن نظاروں کا ، کِن تلخیوں کا عکس ہوا ،،،، ؟

( منیرہ قریشی ، 4 اگست 2017ء واہ کینٹ )