ہفتہ، 29 اپریل، 2017

" چُپ"

" چُپ "
۔( آج ایک بہت پرانا اخباری کالم شیئر کر رہی  ہوں جو ایک ڈائری میں محفوظ کر لیا تھا ، بہت پُراثر ہے، امید ہے پڑھنے والے اس کالم پر غور کریں گے )۔
۔"چُپ سے بڑی آواز ، خاموشی سے بڑا احتجاج نہیں ہوتا ۔ جب ساری آوازیں بے اثر  ہوجائیں اور سارے احتجاج بےمعنی ہوکر رہ جائیں ، تو " چُپ" سادھ لیا کرو ۔ خاموش ہو جایا کرو ،، کہ جب معاشرے سناٹوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ جب سماج خاموشیوں میں غرق ہو جاتے ہیں تو پھر " قُدرت " کی آواز بلند ہوتی  ہے۔،، تم خاموش ہو کر ، چُپ سادھ کر قدرت کی آواز کا انتظار کیا کرو ،،،، چُپ سے بڑی '" بددعا " بھی کوئی نہیں ہوتی ۔ تم چُپ کی بد دعا دے کراپنا حساب اللہ پر چھوڑ دیا کرو ،،، پُر سکون ہو جاؤ گے ۔ مطمئن ہو جاؤ گے ،،،، ! ( نامعلوم کی تحریر ) ( منیرہ قریشی ، واہ کینٹ 29 اپریل 2017ء)۔

" پیامِ آقا "

" پیامِ آقا "
میں تیار ہوں
کہ تیرے فرستادے کے آنے پر 
لبیک کہوں 
اس یقینِ کامل کے ساتھ کہ ،،،،
" چل اے نفسِ مطمئنہ اپنے رب کی طرف "
حاضر ہے تیرے د رپر یہ حقیر
اس نفس کی کوتاہیوں سمیت ،،،،
اس بےثبات زندگی کی لرزشوں سمیت ،
میں حاضرہوں
اس یقینِ کامل کے ساتھ ،،،،
کہ تیری محبت و رحمت کا سایہ
عافیت میں سمیٹ لے گا ،،،،،
مجھے ، مجھ سے زیادہ جاننے والے
میرے ہرخیال کو جانچنے والے
میں تیار ہوں
کہ تیرا بلاوا ، تیری رحمت ہی تو ہے
اس یقینِ کامل کے ساتھ
!یہ مہمان تیرے در پر ہے کہ
ستر ماؤں سے بڑھ کرتیری رحمت کی بارش ہو
تو پھراپنی خوش نصیبی پر کوئی شک کیسے ہو 

( منیرہ قریشی ، یکم جنوری 2016ء واہ کینٹ )

پیر، 24 اپریل، 2017

" پھر ایک اور سال "

" پھر ایک اور سال "
میری اُڑان نیچی ہے ابھی
اور وقت کم رہ چلا ہے 
بےکار مُہمل شکوے
نامعلوم وسوسے
نامکمل خواہشیں ،
آرزوؤں کے ڈھیر سے بُو آنے لگی ہے
مَن چاہے مناظر دُھندلا رہے ہیں ،،
حالانکہ میری اُڑان نیچی  ہے ابھی
دل کی دُنیا آنکھوں میں سمٹ چلی ہے
!سامنے کے رشتے " سمجھاۓ' جا رہے ہیں
!!اور گِرد بےمعنی الفاظ کا ہجوم ہے
رنگین خوابوں کی بوچھاڑ ہے
پاؤں تلے زمین تھرتھرا رہی ہے
تمیز اور تہذیب بھنور میں ہیں ، اور
مناظر ، نظر سے کہیں زیادہ تیز ترہیں ،
شاید میری اُڑان اُونچی ہوچلی ہے ،،،،،
۔( یکم جنوری 2016 ء ،،، کو لکھا گیا ، نئے سال کا غلغلہ ، سمجھ نہیں آتا منایا جانا چاہئے یا پورے گزرے سالوں کا جائزہ لیا جانا چاہیے)۔
( منیرہ قریشی 2016ء واہ کینٹ )

اتوار، 23 اپریل، 2017

"انتظار" ( چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا )۔

انتظار" ( چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا )۔"
ضبط کے بندھن میں ،،،،
رنگین ربن ہیں کلائیوں میں 
بالوں میں لہریں ہی لہریں
سوچ میں موتیے کی خوشبو
دل ،،، تو آویزوں میں ہے جھولتا
سماعت کامل " کان " بن چکی
لیکن کب ،،،،،،،،؟
آخر کب تک ،،،،،،؟
!!دل چاہتا ہے
پاؤں کی چاپ ، بہ آواز ہو
کھنکتے برتنوں کے درمیاں ، دبی ہنسی ہو
میٹھی آوازیں ہوں، بھلے مصنوعی ہو!
دعائیں چوٹی پر بیٹھ جائیں ،،،( کاش )۔
زندگی کے سٹیج کا پردہ ہٹے ،،،
سامنے محض ! منظرِِ دل پذیر  ہو
اور منتظر نگاہوں کا انتظار بھی ختم ہو
( اگر آپ کی زندگیوں میں تھوڑی سی بھی خوشییوں نےبسیرا کیا تھا ،،، یا ھے تو ہر لمحہ سجدہؑ شکر ادا کرتےرہیں ، کیوں کہ کچھ لوگ بےحد چھوٹی اور بےضررخوشیوں کے لیے ترستے اور منتظر رہتے ہیں )۔
( منیرہ قریشی 23 اپریل 2017ء)

جمعہ، 21 اپریل، 2017

"مُٹھی بھر دُھول"

"مُٹھی بھر دُھول"
میرے جیسے کئی آۓ کئی گئے 
آنکھوں میں سپنے،
ہونٹوں پہ نغمے ،
انگلیاں رقصاں ،
پاؤں میں تیزیاں ،
میں ہوں فا تح،،،،!
جذبوں کا، عقل کا ، فہم و دانش کا
چوٹیاں سَر کرنی ہیں ، خود کو منوانا ہے
دھا ک ہے چہار سُو
بہ زَعمِ خود ، دلاوری ، ناموری
زندگی بس کامیابی ، کامرانی ،
مگر ،،،،
پھر صُبح ہوئی پھر شام ہوئی
زندگی تمام ہوئی
گھنٹا بج اُٹھا ، مراجعت کا ،،،
میرے جیسے  کئی آۓ کئی   گئے
نہ نام رہا ، نہ ناموری رہی ،،،!
اِک مُٹھی دھول  ہے ، مگر کہاں کہاں
!!!نا معلوم ، نامعلوم ،،، معدُوم ، معدُوم
( منیرہ قریشی ، 2016 ء واہ کینٹ )

جمعرات، 20 اپریل، 2017

" منصفی "

" منصفی "
سُنا ھے فیصلہ آنے والا ہے !
مُنصف سر جوڑے بیٹھے ہیں ،
کہ چور کو چور کہا جاۓ یا بےقصور جانا جاۓ !
ہاں ، اور نہ کے درمیان بھی اِک لفظ ہونا چاہیۓ
!گھومی ھوئی قوم کو کچھ اور گھما دینا چا ہئے
شُرفاء ، اُمراء ، رؤساء سر جوڑے بیٹھے ہیں ، کہ
وقت کی آواز کو
سچ کی آنچ کو
دو ہاتھوں سے ڈھانپ دو
بچ گئے ، تو ٹھیک ،،،
جلتے رہے تو نصیب ،،،
یہ قوم ہے ہی بےاُصول
اس کے لیے فیصلے بھی فضول
!یاد رکھو ،،،، اے قوم
!تم ہو محکوم ، تم ہوہی محکوم
( منیرہ قریشی ، 20 اپریل 2017 ء واہ کینٹ )
(نوازشریف کیس۔۔پانامہ عدالتی فیصلہ)

منگل، 18 اپریل، 2017

"خاتمے کا خوف "


"خاتمے کا خوف "
زندگی کی ٹیڑھی میڑھی اور،،
اُونچی نیچی پگڈ نڈیاں
جن پر رواں دواں ، ہم سب 
لمحوں کی جھاڑیاں پھلانگتے
اُونچے گھنے برسوں کے درختوں تلے
ہمیشہ اکٹھے ہی رہیں گے !
لیکن ، اپنے تعاقب میں
موت کی بھنبھنا ہٹ کو نظرانداز کر کے،
زندگی کی اُونچی نیچی پگڈنڈیوں پر
رواں دواں ہیں ،،، ایسے !
جیسے ہمارے پیچھے کچھ بھی نہیں ،،،،،،،،
کوئی بھی تو نہیں ،،،،! !
( منیرہ قریشی ، نومبر 1977ء

پیر، 17 اپریل، 2017

" درندے "

" درندے "
مردان یونیورسٹی کا طالب علم جو اپنوں کے ہاتھوں اذیت سے شہید کیا گیا "مشال "اور اس جیسے بےبس شہیدوں کے لیے، جن کے لیے ہم کچھ نہ کر سکے )۔
یہ کون ہیں نعرے لگاتے ہوۓ 
ہاتھوں میں ہتھیار لیے
خون سے سُرخ چہرے لیے
پیلے دانت کچکچاتے ہوۓ
منہ سے جھاگ نکالتے ہوۓ
قدموں میں تیزی ہے
ہوش سے کُند جوش ہے
د رندوں سی " مہم جوئی" ہے !
یہ کون سا مرحلہ ہے پیش؟
یہ کون کھڑا ھے چنگیز کے درپیش ؟
آہ ،،،،، سامنے تو اک نہتا ،بےبس ہے !
حیران آنکھیں لیے
دفاعی الفاظ بولتے ہونٹ ،،،
ٹھہرو دوستو،،،،،،!
فیصلے کو ہاتھ میں نہ لو
منصفی کی جلدی تو نہ کرو ،،،!
،،،،،،
نہیں ہم تجھے واجب القتل سمجھتے ہیں
تُو ناپاک ہے
ہم عقلِ کُل ہیں
ہم دین کے اصل رکھوالے ہیں
تُونے دین میں رخنہ ڈالا ہے
ہم پاک ہیں ، ہم پاک ہیں
ہر جملہ ہتھیار ہی ہتھیار تھا
ہر وار درند گی کا شہکار تھا
" مشال " کی بجھتی مشعل نے آخری منظر دیکھا
یہ میرے دوست تو درس گاہوں میں تھے
تو کیا ہم آج بھی غاروں کے مکیں ہیں
تو کیا آج بھی درندوں نے ہمیں چھوڑا نہیں ہے !
( ایسے واقعات سامنے آتے ہیں تو تہذیب ، انسانیت محض بےجان الفاظ نظر آتے ہیں ڈھکوسلا لگتے ہیں۔)
( منیرہ قریشی ، 17 اپریل 2017ء واہ کینٹ)

" مصلحت"

" مصلحت"
مجھے مصلحتوں سے مصالحت پسند نہیں ،
کیا یہ ضروری ھے،،،
جس سے محبت کی جاۓ ،وہ جتائی جاۓ !
اور جس سے نفرت ، وہ چُھپائی جاۓ !
جب دو ہی جذبے ہیں ،
!!!تو دونوں کا اظہار کُھل کر کیوں نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" رُکا لمحہ "
زندگی بہت مختصر ہے ،
جذبے بےشمار،،،،
خواہشیں لاتعداد ،،،،
مسائل رنگارنگ،،،
مصروفیتیں ، توبہ توبہ،،،
!شاید اسی لیے زندگی بہت مختصر ہے
( منیرہ قریشی ،ستمبر 1980ء واہ کینٹ )

اتوار، 16 اپریل، 2017

" چاند اورچکور جیسا رقص "

" چاند اورچکور جیسا رقص "
ہاں مجھے معلوم ہے،،،
جب چند سال بعد تم مجھے دیکھو گے
تم مسکرا کر گلے لگانا چاہو گے ،،،،( شاید )۔
تب میں چہرے پر نفرت کی لکیریں سجا کر 
اپنے انداز میں کٹھورپن رچا کر
آنکھوں میں بے مہر سا پانی بھر لوں گی ،،، ( کیا پتہ ، شاید)۔
اور اگر تم چند لمحوں کے لیے
اس دل میں جھانکنے میں کامیاب  ہوگئے،،،،( اے کاش )۔
تو،،،، !
تمہیں وہاں کچھ پتھر ملیں گے !
میں انھیں ہرگز نہ کھرچنے دونگی
کہیں اِن کے نیچے اپنا نام پا کر ،
تم ا وج پہ نہ چلے جاؤ ،،،
اور میری آنکھوں کا بےمہر پانی ،،،
بہہ نہ جاۓ
سب کچھ کہہ نہ جاۓ ،،،، !
( منیرہ قریشی ، 1978ء واہ کینٹ )
( دیہات میں ملنے والا ایک اور کردار ۔۔جب مجھے ملی تو 22 یا 23 سال کی حسین و جمیل لڑکی تھی اور منگنی توڑ دی گئی  تھی تاکہ جائیداد ،،،تقسیم نہ ہوجاۓ ۔چاہے انسان تقسیم  ہو جائے، اور  یہ لڑکی ٹی بی ہونے پر 33 سال کی عمر تک پہنچ پائی )۔

" شاید "

" شاید " 
میرے مولا !
جب بھی خواہشوں کی دیوارِ چِین 
تیرےمیرے رابطے کو زیر و زَبر کرنے لگتی ہے ،
میں بہت بےسکون رہتی ہوں 
یہ جانتے ہوۓ بھی ،،،،،
کہ خواہشوں کی دیوارِچین ،" ہمالہ " جتنی نہ ہوتی
اور صرف دیوارِ چین جتنی ہی ہوتی
تو تجھ سے میرے معاملات ٹھیک رہتے
لیکن کیا کروں ،،،،
ایسے لمحوں میں ایمانِ متزلزل کے بھنور میں ،
بے مایہ ، اور پست ہوتی چلی جاتی ہوں
شاید ،،،،!
کچھ لوگوں کی تِشنگی میں
!!تیری محبت کا کوئی رُخ ہو
( منیرہ قریشی ، 1977ء واہ کینٹ )

جمعہ، 14 اپریل، 2017

" میری محبت کا ایک لمحہ"

" میری محبت کا ایک لمحہ" 
( نعت)
کھجوروں کے دیس والے
ریتلے ٹیلوں کو ٹاپنے والے 
ظُلمت وشر کے اندھیروں میں 
امن کا نور پھیلانے والے
چہارسمت سے شِرک سمیٹنے والے
سب کے  لیےبخشش کا دامن پھیلانے والے
وہﷺ سیاہ چمڑی کو" یا سیدی" پکارنے والے !
قانونِ انسانیت مُرَتب کرنے وا لے !
نااُمیدی میں اُمید بن جانے والے ،
کہ ربِ ذوالجلال نے بھی فرما دیا ،،،
جو مجھے چاہے ،تو وہ اِ سے چاہے
!!جو اسےپاۓ تو وہ مجھے پاۓ
اے کہ رحمت العالمین کہلانے والے
اے کہ سیدالمُرسلین کہلانے والے
۔( منیرہ قریشی ،اکتوبر 2014ء لندن میں ایک جمعہ پڑھنے کے موقع پر ۔الحمدُللہ ! میرے الفاظ نہیں ،صرف جزبات کو مدِنظر رکھا جاۓ )۔

پیر، 10 اپریل، 2017

" سمت "

" سمت "
لفظوں کی مٹھی بھر کرچیاں پھینک کر 
وہ زندگی نارمل انداز میں بسر کرنے لگا ،
تب وہ نوکیلی کرچیاں !
میں اپنے چہرے سے ،
اپنے اندر سے احتیاط سے نکالتی رہی
حتیٰ کہ میری آنکھیں سفیدہو گئیں !
میں بنا روشنی کے ،،،،،
محسوسات کے سہارے ،
ٹٹول کر کرچیاں نکالتی رہی 
مگر ،،، اب میں بھول گئی  ہوں
نوکیلے لفظوں کی کرچیاں میرے کس جانب ہیں
اسی لیے آج اتنی مدت سے
میں نے کوئی قدم نہیں اُٹھایا
!!کوئی سمت نہیں بدلی
،،،،،،،کیا معلوم
کرچیاں کس جانب ہوں ؟
!!اور مجھے پھر لہو لہو کر دیں
( منیرہ قریشی ، 1988ء واہ کینٹ )

اتوار، 9 اپریل، 2017

"محاسبہ "

"محاسبہ "
یہ سورج چاند تارے ،
یہ پہاڑ ، صحرا ، دریا سارے 
یہ سانس لیتی کائنات ،،،
مسخر کر دی  ہے خالق و مالک نے 
مگر ترقی کے منہ زور گھوڑے پر وہی بیٹھا ،
لگامیں اسی کے قابو آئیں ،،،
سرکش مظاہر اُسی کے تابع  ہوۓ
جہدِمسلسل کا سبق جس نے پڑھا
اور ہم ،،، کہاں اٹک گئے ہیں !
ناک سے نفرتوں کی سانسیں نکالتے
" میں " کی جنگ جیتنے کے چکر میں !
نہ جانے کتنی صدیاں گنوا  ڈالیں
شِرک نہ کرنے کے" زعم " نے
نہ جانے کتنے شِرک کروا ڈالے
زمانہ چال قیامت کی چل گیا ،،،
!!!اور ہم قد م ٹاپتے رہ  گئے
( منیرہ قریشی ، 2014 ء مانچسٹر )

ہفتہ، 8 اپریل، 2017

"استغراق "

"استغراق " 
( مجھے اپنی یہ نظم بہت پسند  ہے ، احباب سے غور کی درخواست ہے )
سجنوں اور سپنوں سے دُور
رات کی خامشی میں
یارِراز کے حضور
دل کا ڈھول بج اُٹھا
!آنکھوں کی جلترنگ  ہے
!رقصِ بےا ختیار  ہے
!وجُود سراپا نثار  ہے
او میرے یار
دن کی جلوتوں میں
باغ  ہےچہروں کا
لہجوں کی روش میں
سوچوں کے بھنور میں
وجود تو بےوجود  ہوچلا
یہ پاؤں پھر رقصِِ درویش پر مچل اُٹھے
او میرے یار ،،،،،،،،
میں حصارِ ذات میں ہوں ،
ذرہؑ خاک ہوں ،
کوششِ سیرِ افلا ک ہوں ،
کچھ نا معلوم ہیں گردا گِرد !
یہ کس صورتِ حالات میں  ہوں
او میرے یار ،،،،،،،،،،
( منیرہ قریشی ، مئی 2016 ء واہ کینٹ )

بدھ، 5 اپریل، 2017

" فرضِ کفایہ "


" فرضِ کفایہ "
۔( تمام وہ اقوام جو اپنوں اور غیروں کی سازشوں کی چکی میں پِس رہی  ہیں اور ان کے فیصلے وقت کے فرعونوں کے ہاتھ میں ہیں ! جو انھیں تجربہ گاہ بنا کر لطف لے رہے ہیں ،،، اور انکی نگاہیں کسی غیبی مدد کی منتظر ہیں ،،کشمیر ہو یا فلسطین ، شام ہو یا نیگرو ریاستیں ،، ظلم کہیں قابلِ قبول نہیں )۔
آنکھوں میں بےبسی کی نمی 
اظہار سے عاری زبان !
بدن پر سچائی کے زخم ،،
جسم پر کیسا  ہے پہناوا ؟ !
پیٹ میں کون سا ہے ذائقہ !
سوچ کے تمام کواڑ ہیں بند،،،،
قوتِ گویائی کے گرد خوف کا ہے پہرہ !
رازِ دل حالتِ دل کی گٹھڑی سمیٹے
یوں ہی اپنے حصے کی مٹی میں رَل مِل جاؤ
صد یوں بعد یہ خاک پھول اُگا ہی لے گی ،
کوئی اور اس روش پر گُنگُنا ہی لے گا ،،،،
کوئی تو اپنے خواب پا ہی لے گا ،،،
آخر کو غلامی کی کڑیاں ٹوٹ ہی جائیں گی
ظُلمتِ شب میں نُورِسحر پھوٹ ہی جاۓگی
نہ معلوم کِن نسلوں کو " فرضِ کفایہ " بنایا جاتا ہے !
قانونِ قُدرت کا یہ صفحہ ناقابل فہم بنایا جاتا ہے ،،،،!
( بےبسوں ، بےکسوں کے نام )
( منیرہ قریشی 2017ء 5 اپریل ،، واہ کینٹ )

منگل، 4 اپریل، 2017

" انفرادیت "

" انفرادیت " 
کھڑکی سے جھانکتی،،،،
باہر کے منظر کو بےزاری سے تکتی 
وہ لاتعلق سی لڑکی ،،،،
خود کو دنیا والوں کی لایعنی باتوں سے ماوراء کر کے !
سوچ رہی ہے ،،،،
وہ کیا سوچے ،،،!
اور ،
!!کیسے خود کو " انفرادیت کے عذاب " سے بچاۓ
( منیرہ قریشی ، 1990 ء واہ کینٹ )