منگل، 28 اگست، 2018

' ترکیہء جدید' ( 8)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
' ترکیہء جدید' ( 8)۔
لبنیٰ کو گائیڈ کرنے والے ٹرکش ابراہیم نے فون کیا ،، مادام ، آج آپ لوگ حضرت " یوشع علیہ السلام " کے مزار پر ہو آئیں ، اس کے آس پاس کا ویو بھی بہت اچھا لگے گا ۔ ابھی تک لبنیٰ نے خود بھی کبھی نہیں سنا تھا کہ حضرت یوشع علیہ السلام کا مزار یہاں ہے یا ہے تو کہاں ہے ! نہ مجھے کسی ترکی سے ہو کر آنے والے ٹورسٹ نے بھی کبھی ذکر نہیں کیا تھا ۔ حضرتِ ابو ایوب انصاری رضی تعالیٰ عنہ کے ذکرِ مبارک ،، یا ،، مولانا جلال الدین رومیؒ کے ذکرِ خیر کے علاوہ ، ، ، اتنی نامور اور اہم ہستی کا ذکر نہیں سنا تھا ۔سبھی خواتین بہت خوش تھیں ۔ ایجویت بخوبی بات اور ہمارا نیا ٹارگٹ سمجھ گیا ،،، اور اسی نے ٹرکش زبان میں اپنے موبائل میں ریکارڈ کر کے ، اور پھر انگریزی زبان میں بدلا کر معلومات دیں کہ ،،، یہ علاقہ صرف 8/9 سال پہلے عام لوگوں کے لیۓ کھولا گیا ہے ،، ورنہ یہ ایک "ممنوع علاقہ " تھا، آرمی کے انڈر یہ علاقہ پہاڑی ہے ، یہ استنبول سے ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا ،،( جب میَں لکھتی ہوں ایک گھنٹے ، یا ڈیڑھ گھنٹہ ،، تو یہ 60 میل سے 100 ڈیڑھ سو میل تک کا فاصلہ ہوتا ہے )۔ جب ہم اس علاقے میں داخل ہوۓ تو حسبِ عادت پہلے آئ فون سے کچھ معلومات یوشع علیہ السلام بارے حاصل کیں کہ حضرت یوشع علیہالسلام ،، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خالہ ذاد تھے ،، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نائب یا خدمت گار کے طور پر ساتھ رہتے تھے آپؒ بہت خوبصورت بھی تھے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے پردہ کرنے کے بعد ، اِنؒ کو بنی اسرائیل کا سربراہ بنایا گیا،اور بعد میں انہی کے ہاتھوں بیت القدس کی فتح نصیب میں ہوئی ،، انہی کی فوج میں 313 وہ مجاہدین تھے جنھوں نے اللہ کے حکم سے نہر کا پانی نہ پیا،، اور انہی کے ہاتھوں یہ فتح ہوئ تھی ، ، کچھ روایات کے مطابق 127 یا 110 سال کی عمر میں آپؒ نےانتقال فرمایا ،، اب جو مزار انٹر نیٹ میں حضرت یوشع کا بتایا گیا ہے ، وہ اردن کے ایک سرحدی گاؤں میں ہے !! اور ہم ترکی کے اس قصبے میں جس مزار پر فاتحہ خوانی کے لیۓ پہنچیں ہیں اس کا فاصلہ اردن یا بیت المقدس سے کہیں میچ نہیں کر رہا ،،،،،،،،،،،،۔
اب یہ قبرِ مبارک حضرت یوشع علیہ السلام کی کیوں مشہور ہے ،، کیا واقعی ، اللہ پاک کے ہی حکم ہوا تو وہ تبلیغِ دین کے لیۓ اس علاقے میں آگۓ ، یا یہ " انہی کے کسی ساتھی" کی تھی ،، جو تبلیغ کے لیۓ یہاں آۓ ۔ اور ہو سکتا ہے ، کہ وہ حضرت یوشع علیہ السلام کے نام کو اپنے تعارف کے لیۓ استعمال کرتے رہے ہوں ،، تاکہ لوگ ان کے قریب آ جائیں ،، یا جو بھی تھا ، ،،،یہ قبرَ مبارک حضرت یوشع ؒ کے ہی نام سے مشہور ہے ۔ جب ہم اس سر سبز پہاڑی علاقے میں داخل ہوئیں تو بہت خوب صورت علاقہ لگا یہاں کی پہاڑیاں بہت اونچی نہیں ہیں ،کہیں کہیں آرمی پکٹس بنیں ہوئیں تھیں ، اور فوجی فل یونیفارم میں اسلحہ لیۓ الرٹ نظر آۓ ،، تو گویا یہ ابھی بھی آرمی کا ہی علاقہ تھا لیکن صدر طیب اردگوان نے 9/8 سال پہلے اس علاقے کو عام لوگوں کے لیۓ کھولا ،،، تب حضرت یوشع علیہ کے مزار پر لوگوں کی آمد ورفت شروع ہوئ ، ہم نے مزار پر موجود ایک شخص سے جو ذرا انگریزی شُد بُد رکھتا تھا کہ یہ 9 گز کا مزارکس کا ہے اور یہ اتنی لمبی قبر کیوں ہے ،کیا قد بہت محض تکریم کا ایک انداز ہے کہ یہاں اعلیٰ ، یا بہت اہم ہستی مدفون ہے " جو بھی تھا ،،، آج ہم ذہن اور دل میں حضرت یوشع ؒ کی محبت بساۓ ، یہاں موجود تھیں ۔ یہ ایک قصبہ یا گاؤں ہے ،، جس کا بہت مشکل سا نام تھا ،، ( میَں نے اس کا نام لکھا تھا ، لیکن وہ چھوٹی ڈائری بھی واپسی کے سفر میں جہاز میں رہ گئی ) ،،، خیر ،گاڑی ایک جگہ کھڑی کر کے تھوڑی سی چڑھائ چڑھی گئ ،، اور سامنے ایک اداس سا باغیچہ تھا جس کی حدود کے شروع میں ہی ایک جنگلے کے اندر ایک " نو گزی قبر " تھی ۔ ( کومل ذیشان کی معلومات کے مطابق 54 فٹ لمبی تھی ) ،،،، ہر قبر یا قبرستان کی ایک خاص "فضا " یا ،، اثرات محسوس ہوتے ہیں ۔ اور یہاں جو تائثر جو مجھے محسوس ہوا ،، وہ لفظ " سکون " کا مظہرتھا ۔ اور ایسا ہی تائثر جوجی اور لبنیٰ کا بھی 
تھا۔ 
یہ قبر زمین سے تین چار فٹ اونچی تھی ، ہم نے فاتحہ خوانی کی اور دیکھا کہ ارد گرد بیٹھنے کے لیے کوئی بینچ یا جگہ نہیں تھی ،، قبر ایک چہار دیواری میں تھی اسی چہار دیواری کی بہت چھوٹی سی بڑھی ہوئی اینٹوں پر مرد و خواتین بہ مشکل ٹکے ہوۓ ، ہاتھوں میں سورۃ یٰسین والے پارے پکڑے ہوۓ بہت ہلکی آواز میں تلاوت کر رہے تھے ،، پوچھنے پر پتہ چلا ، عام طور پر منت ماننے کے لیۓ آنے والے یا منت پوری ہونے کے بعد آتے ہیں تو یہاں سورۃ یٰسین آکر پڑھتے ہیں !ہم یہاں چند منٹ گزار کر ، اسی مزار کے گرد کچھ جائزہ لینے نکلیں ، یہاں چند چھوٹی اور نارمل سائز کی قبریں تھیں ، جن کے اوپر کچھ نشان بناۓ گۓ تھے ،، ہو سکتا ہے یہ اس علاقے کی کچھ روایات ہوں ، یہ چیز ہے کہ یہاں ہر جگہ نہایت چھوٹی جھاڑیاں تھیں ، جو ذیادہ سبز ، اور چھوٹے بڑے پھولوں کچھ کاسنی کچھ گلابی پھولوں کے ساتھ موجود تھیں ،، جو دوپہر کی چمکیلی دھوپ میں مسکراتی محسوس ہوئیں ۔ یہ قبریں 15/16 ہی تھیں ۔ خود نو گزی قبر پر سکون کا سایہ تنا ہوا محسوس ہوا ،،، اگر یہ حضرت یوشع علیہ السلام کی جاۓ قیام نہیں بھی تھی ،، تب بھی کسی ایسی پاکیزہ ہستی کی آرام گاہ تھی ،، جن کا درجہ بہت بلند ہو گا ، کہ کوئی جھنڈا نہیں ، کوئی دھاگے نہیں ، مزار پر کوئی چھت نہیں ،، بس سورۃ یٰسین کی ہلکی ہلکی تلاوت کےہلکورے ،،، اور رات اس علاقے کی طرف کوئی نہیں آتا ۔ بالکل بند کر دیا جاتا ہے ،،، اور پھر سکون و سکوت !!!،اسی مٹھاس بھری پُر سکون وادی نے پھر چند الفاظ سُجھا دیئۓ ،،، جو دراصل اس صاحبِ مزار کی بے نام سی محبت کے نام ہیں !۔
" مزارِ یوشعؒ " ( یا مزارِ بے نام )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نو گزی قبر 
آسودگی تمکنت ہے گِردا گِرد
پھولوں کی مہکار ہے
چہروں کی بہار ہے
طائرانِ خوش رنگ ہیں 
یٰسین کی جلترنگ ہے
ساکن ہیں ساکنانِ چمن 
سکون ہی سکون ہے
آنکھ کے تِل سے مگر
اوجھل رہے ، صدیوں تلک
سمیٹ کے بیٹھے رہۓ سکون و تمکنت
رات مگر اِک اور ہی ہیت ،اور ہی صورت میں 
دبدبہ ، رعبِ حُسنِ ہیبت میں
جانے کہاں سے آۓ ، اور بس گۓ
درمیاں اِس وادیء ذی انفُس میں ( 31 اگست 2017ء ترکی )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہاں سے واپس آنے کو کو قطعی دل نہیں چاہ رہا تھا ،، میَں نے پچھلے صفحات میں ہی لکھا تھا کہ کچھ جگہیں ،،، جلدی بھگانے والی اور کچھ رُک جانے کی کہنے والی ہوتی ہیں ،،، مجھے یہ جگہ رُک جانے کا کہہ رہی تھی ،، بھلے چند دن ،،، یا چند ماہ یا کچھ سال ،،، !!؟ لیکن دل کو سکون اور ٹھنڈک اور بے فکری کا جو بھر پور احساس جا گزیں یہاں ہوا ،، وہ احساس مکہ و مدینہ میں ہوا تھا ،، مجھے نہیں معلوم ، ایسا کیوں ہوا ،، کاش مزید کچھ علم ہو سکتا ۔ 
یہاں نہ تو بنگلے ، یا فلیٹوں کی قطاریں تھیں ، نہ دور دور تک کوی شاپنگ مالز ، ،، نہ کچھ اور لوازمات و خرافات !!! ، مزار پر گھنٹہ بھر ٹھہر کر ، پھر اترائ کی طرف آ گۓ ، اور یہاں ایک جانب چند ایسے چھوٹے سٹال تھے ، جن میں مصنوعی زیورات ، ہر طرح کے سکارف ،، اور کچھ مزید ہوم میڈ اشیاء تھیں ،،، کچھ کھانے پینے کی سادہ اور لوکل ، چیزیں بک رہیں تھیں ۔ اور ایک بات ان سب میں مشترک تھی کہ،،،، "سب ہی دکان دار خوش مزاج ، دھیمے مزاج ، والے مؤدب افراد تھے "۔
مجھے لگا کہ یہ اس فضا کے اثرات ہیں ، شاید ،،،،،،،،،،،،،،،کچھ دیر خریداری کی گئ اور جب وین کے پاس آۓ تو ابراہیم ( گائیڈ ) کا فون آیا ،، " جب آپ یہاں پہنچ ہی گئیں ہیں تو اس کے قریب ترین گاؤں کو بھی دیکھ آئیں ، آپ کو اچھا لگے گا " ،،، اور ہم اُترائ اترنے لگے اچھے خاصے زِگ زیگ موڑ کاٹ کر ایک مزید خاموش ، سے گاؤں میں داخل ہوۓ ،، یہ ایک ایسا گاؤں تھا ،، جسے مطمئن اور خوشحال لوگوں کا نام دیا جانا چاہیۓ ۔۔۔ گلیاں سڑکیں تنگ لیکن پکی پتھریلی ، انہی کے موڑ کاٹتی ، ارد گرد عام چھوٹی دکانیں ،، اور پھر ایک جگہ مزید اترائی کے بعد دو تین ہوٹیل یا ریسٹورنٹ تھے،،،، اس وقت قہوہ یا کافی پینے کی طلب تھی ،، اس لیۓ پہلے ہوٹل ہی جا پہنچے ،، بچوں نے یہاں مرضی کی کچھ سنیکس وغیرہ خریدے لیکن بڑوں نے کچھ نے قہوہ کچھ نے کافی منگوالی ،، ( یاد رہۓ کہ ترکی میں چاۓ پاکستانی ٹیسٹ سے شاید ہی ملے ) یہاں ہم جس ریسٹونٹ میں بیٹھے ،، اول تو یہاں اکا دکا سیاح تھے ، ماحول پر سکون تھا ،، اور پیش منظر لا جواب ،،، جی ہاں یہ ریسٹونٹ ، مر مرہ کے کنارے کو چھو رہا تھا اور جہاں ہم بیٹھیں اس کے ساتھ دو ڈھائی فٹ چوڑی اتنی نیچی دیوار تھی ، جس پر کرسی پر بیٹھ کرکہنیاں اس دیوار پر رکھی جا سکتی تھیں ۔ اور بیٹھتے ہی تین چار تندرست مرغابیاں پھڑپھڑاتی ہوئی کچھ اسی دیوار پر بیٹھ گئیں اور کچھ تیرنے لگیں ، یہ نیچر کا دل آویز منظر تھا ،،، یہ مرغابیاں ، انسانوں سے مانوس لگ رہیں تھیں ، شاید انھیں یہاں سے چارہ ملتا رہتا تھا ، یا مرمرہ کے اس جگہ پر مچھلیاں بہت ہوں گی ، لیکن یہ نظارہ جلدی جلدی کیمروں میں محفوظ کر لیا گیا ۔ 
اس دوران ابراہیم کا پھر فون آیا ، کہ میرے ایک واقف بندے کی یہاں دکان ہے وہ آپ کو مناسب ریٹس پر چیزیں دے گا اگر آپ خریداری کرنا چاہتی ہیں ،،، خواتین اور شاپنگ سے انکار ،، ممکن نہ تھا ! اسی طرف چل پڑیں ،، لیکن میِں نے پتھروں کی بنی اس تنگ گلی سے گزرتے ہوۓ آس پاس کے منظر کو دیکھا کہ ایک کمزور سی بزرگ خاتون پرانے طرز کے ٹرکش لباس میں ( بند بٹنوں والی پائنچے کی گھیر دارشلوار اور لمبا فراک ، سر ڈھکا ہوا ) ایک دکان کے باہر بنے چبوترے پر بیٹھی تھیں ، اس نے ایک پرات میں گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رکھے ہوۓ تھے ، اس کے گرد 5/6 آوارہ کتے بیٹھے تھے تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ چند ٹکڑے پھینکتی جا رہی تھی ، میَں عادت سے مجبور ہو کر کھڑی ہو گئ اور پوچھا ، وہ انھیں گوشت کیوں ڈال رہی ہے ، ظاہر ہے وہ تو وضاحت نہ کر سکتی تھی، دکاندار نے واضع کیا کہ " جب کسی کو منت ماننی ہو تو بے زبانوں کو کھانا کھلاتے ہیں " ،،، تو گویا ہمارے ہاں کی طرح پرندوں کو باجرہ ڈالا جاتا ہے تو کچھ ملکوں میں کتوں کو گوشت کھلایا جاتا ہے ، مقصد دعاؤں کی قبولیت کا نداز ہے ۔ 
ابرہیم کے دوست کی دکان ، اچھی نکلی ، دکاندار اور اس کی جواں سال بیوی دونوں اسے چلاتے تھے ، اس گاؤں میں یہ دوسری عورت ہمیں نظر آئ ،، اور اس کا لباس بھی ساتر اور سر سکارف سے ڈھکا ہوا تھا ۔ ابھی تک کوئ اور عورت نظر نہیں آئ تھی ،، دکاندار ، میاں بیوی ، مہذب تھے ، بیوی تو انگلش سے بالکل نا واقف ، لیکن میاں کام چلا لیتا تھا ،، سب کی پسند اور مرضی کی اشیاء وہاں سے مل گئیں ، اور یوں گاہک اور دکاندار دونوں کا فائدہ ہوا ،، باتوں میں دکاندار نے بتایا ہم دونوں اس دفعہ حج کر کے آۓہیں ، الحمدُ للہ کا وہ لفظ بہت بار استعمال کرتے تھے ،، کوئی شک نہیں کہ ترکی کے دیہات ، پرانی تہذیب و تمدن کے ساتھ نئے طرزِ رہائش کا خوبصورت امتزاج ہیں ، یہ دیہات ، میگزین کی تصویروں سے نکلا کوئ 200 سال پرانا تائثر بھی دے رہا تھا ،،، اور سکون ہی نہیں " پُر سکون " ہونے کے اثرات بھی محسوس ہو رہۓ تھے ،،،،، دراصل " توکل ۔ اور تحمل " ہی بندے کی زندگانی کی اصل کامیابی کہی جا سکتی ہے ۔
اور ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا ،، زِگ زیگ چڑھائ ،، اور پھر وہی خوبصورت استنبول میں انٹری ،،، شام ہوا چاہتی تھی ،، ہم مر مرہ کے کنارے تک ایک جگہ سے گزرے تو کچھ دیر یہاں ٹھہرنے کا دل چاہا ،، سڑک کنارے ریسٹونٹس کی قطاریں تھیں ،، ایک جگہ رکیں ،، ریسٹورنٹ چار پانچ سیڑھیاں چڑھ کر بنے ہوۓ تھے ،، تاکہ مرمرہ کا دور تک نظارہ کیا جا سکے ۔ یہ قوم استھیٹک سینس سے مالا مال ہے ،، یونان کے قریب ہونے کا فائدہ رہا ۔ مر مرہ کا جگہ جگہ اپنا نظارہ دینا ،، بھی کمال نظارہ ہوتا ہے ۔ یہاں ہم جس ریسٹورنٹ میں ٹھہریں ، انھوں نے فورا" قہوہ پیش کیا ،، اتفاق سے ہم اور چند ہی اور گاہک تھے ، اس لیۓ بھی خصوصی توجہ ملی ،، اور چونکہ پہلے سبھی باہر سڑک کنارے لگی کرسیوں پر بیٹھ گئیں ،، جہاں "شیشہ پینے "کی سہولت دھری ہوئیں تھیں ۔ منہ میں " نَۓ " لے کر سیلفی بنائ جا رہیں تھیں ،، بلکہ جوانان نے پوچھا بھی کہ ایک دفعہ کا شیشہ پینے کے ریٹس ؟ تو وہ کچھ ذیادہ نکلے ، لہذٰا شغل کے طور پر بھی پیسے خرچنے کو دل نہ مانا ۔ اور کچھ میرے اور لبنیٰ کے کٹڑ جملے بھی سننے پڑے ۔ 
اس دوران کافی یا آئس کریم آنے تک کچھ وقت لگا تو شام کی ٹھنڈک سرایت کرنے لگے ،، تب ملازمین نے سب کو ایک ایک چھوٹا سرخ فلالین کا کمبل دے دیا ، تاکہ کندھوں پر ڈال لیا جاۓ ،، ایک تصویر یہ بھی لی گئ ،، ایک صاحبہ نے تصویر دیکھ کر کہا ، کیا آپ سب نے ایک رنگ کی کیپ شالز خریدیں ؟؟؟
اور مرمرہ کنارے یہ یاد گار شام منا کر واپس استنبول جانے لگے تو ایجوہت سے کہا کہیں استنبول شہر کے اندرکی گلیاں دکھا لاؤ ،،، تو وہ خوشی خوشی ( ہر ڈرائیور ایسا نہیں ہوتا ) ،، استنبول کے اندرون شہر لے گیا ،، بالکل پنڈی شہر لگ رہا تھا ، کئ گلیاں اتنی تنگ، کہ وین بہ مشکل مڑ سکتی تھی ،، یہاں پھرنے کے لیۓ اگر چند مزید دن ملتے تو اندرون گلیاں ضرور پھرتے کہ جو چند لوگ بزرگ نظر آۓ ، انھوں نے ترکی ٹوپی ، اور لمبا کوٹ پہن رکھا تھا ،، تو گویا ابھی تہذیب ِ قدیم کہیں کہیں جلوہ دکھا جاتی ہے ۔ ان ہی گلیوں سے نکلتے ہی فورا" استنبول شہر کا ایک داخلی دروازہ کی ٹوٹی دیوار نظر آئی ،، اور اسی کے کنارے ایک بازار کی سڑک ، یہیں ایک ریسٹورنٹ میں رکنے کا فیصلہ ہوا کہ ،، کچھ ہمیں" لسی "بنتی نظر آگئی ،، جس سے منہ میں پانی آگیا ۔
( منیرہ قریشی 28 اگست 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

جمعہ، 24 اگست، 2018

' ترکیہء جدید' (7)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
' ترکیہء جدید' (7)۔
ایجویت ، ہمیں نئے راستوں سے اس خوبصورت محل کے سامنے لے پہنچا ،، جو " خُریم کا محل " سے مشہور ہے ،،، تُرک ڈراموں کا اردو ڈبنگ سے پاکستانی چینل سے نشر ہونا ایسا کوئی خاص، کارنامہ نہیں تھا ، اور پاکستانی ناظرین کا ان کی طرف متوجہ ہونے کی ( میرے خیال سے ) ایک وجہ ، خوبصورت چہرے ، کچھ مغربی کلچر کا مکسچر ، اور ذرا پاکستانی ڈراموں سے ذرا فرق موضوعات ، تھے ،، لیکن جہاں تک تعلق ہے ، موضوعات اور ایکٹنگ کا تعلق ہے ، اس میں ہمارے ڈراموں کا معیار بہت ہی بلند ہے ۔ لیکن " ترکش عثمانی خلفاء کے دور پر مبنی کچھ تاریخی واقعات اور کچھ محلاتی سازشوں پر مبنی ڈراموں " نے ان ناظرین کو بھی متوجہ کیا ، جنھیں ، تاریخ سے کوئی دلچسپی نہ تھی ،، ان ڈراموں میں بھی حسین چہروں ، اور محل کی آرائش ، نے عام عوام کو بھی محلات کے اندر سے رہائش اور آرائش سے بھی بہت آگاہی ملی ۔ اس طرح اگر کبھی ان تاریخی عمارات کو دیکھنے کا موقع مل جاۓ ، تو کتابوں سے ملی معلومات کے علاوہ ، ڈراموں کے سین بھی یاد آنے لگتے ہیں ۔۔  
آج ہم ایسے ہی خوبصورت محل کے سامنے تھیں ، اسکے بہت بڑے ، بہت حسین داخلی دروازے کو دیکھنے کے لیۓ ، اگر ایک نہیں تو آدھ گھنٹہ کہیں نہیں گیا ، ایک تو دروازے کا پھیلاؤ ،،، اور پھر اس پر بنی، باریک پچی کاری ، اور صناعی کا ایسا کام تھا جو بہت پرکشش تھا ، یہ سارا سفید ، یا آف وائٹ ،، یا کہیں کہیں ہلکا گلابی رنگ نظر آتا تھا ۔ اس کے باہر سے اس کی تصویر لی ، ،،، اسکے اندر داخؒل ہوئیں ۔ تو وسیع لان ، اسکی خوبصورت کیاریاں ، فوراے جو پانی کے قطرے پھیلا رہۓ تھے، یہ سب ایسے پُر کشش مناظر تھے کہ ، سبھی ٹیم ممبران کا فوٹو سیشن ، اور سیلفیوں سے دل ہی نہیں بھر رہا تھا ،، یہاں بہت سی قومیتوں کے سیاح تھا ، اور سب اسی کام میں مصروف تھے ، کچھ جگہیں ،، انسان کو بے اختیار اور بے قابو کر دیتی ہیں ،، کچھ جگہیں ساکت و ساکن کرتی ہیں ،، اور کچھ جگہیں، جلد از جلد خود سے بھگانے کا اشارہ دیتی ہیں ، اور کچھ جگہیں ہمیشہ رہ جانے کا بھی بولتی رہتیں ہیں ، ،،، یہ جگہ ویسا ہی باغ تھا ، جیسا محلات کے گرد ہوتا ہے ، نیز خلیج باسفورس یعنی مَرمَر ہ کا چھوٹی چھوٹی لہروں والا سبز پانی اس محل کے قدموں پر اچھل رہا تھا، لیکن ، اس باغ کی ترتیب ، اس کی تاریخ ، یہاں کے جگہ جگہ لگے مجسمے ، فوارے ،، آج کے سیاح کوبے قابو کر رہۓ تھے ،،، آدھ گھنٹہ بعد لبنیٰ کی ڈانٹ سے سب لائن اَپ ہوۓ اور اندر جانے کا ٹکٹ بھی لیۓ ، اور جوتوں پر شاپر بیگ بھی چڑھاۓ گۓ ، جو واپسی پر انہی کو واپس بھی کرنے پڑتے ہیں ۔ ،،، اور سنگِ مر مر کی چند سیڑھیاں چڑھ کر بڑی سِلوں والے بر آمدے سے گزرکر، اب مزید جو سیڑھیاں چڑھیں ان پر سُرخ قالین بچھا تھا ۔ اور یہ سرخ رنگ بعد میں سارے محل کے فرش پر بچھا نظر آیا ۔ اندر سب سے پہلے ایک ایسی لابی بنی ہوئ تھی ،جس کے دائیں جانب خوبصورت ڈرائنگ روم تھا جس کا فرنیچر بھی شاید اسی دور کے صوفے، اور کرسیاں ، اور پردے بھی تھے اونچی کھڑکیوں سے دور تک مَرمَرہ کا نظارہ ہو رہا تھا ،، محل کی چھتیں خوب اونچی تھیں ،، اسی ڈرائنگ روم کے بائیں جانب بھی کوئ دوسرا ڈرائنگ روم تھا ، گویا دونوں سٹنگ رومز کے درمیان بھاری پردے لٹکے ہو ۓتھے ، دراصل محل کا وہ آدھا حصہ مرمتوں کی وجہ سے بند تھا ، گویا سیاحوں نے آدھا محل ہی دیکھنا تھا ،، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے ، وہاں بھی وہی نقشہ تھا ،، لیکن یہاں دو سیڑھیاں چڑھ کر ایک راہداری آئی اور دائیں جانب ایک اوپن ائیر قسم کا غسل خانہ تھا جہاں انسانی قد سے بھی اونچا جست کی صراحی ، اور مزید غسل کے برتن دھرے تھے ، اورمزید آگے دائیں ، بائیں سونے کے کمرے تھے پھر راہداری ،،، اور یہاں تک میرے چلنے کی ہمت جواب دے گئ ، میَں نے سب سے کہا ، تم لوگ گائیڈ کے ساتھ آگے جاؤ ، میَں کچھ منٹ بعد پہنچ جاؤں گی ،، گائیڈ بھی اپنے باقی گروپ کے ساتھ آگے جا چکا تھا اور اب اس رہداری میں پھر تین سیڑھیاں تھیں ، میَں ان پر سانس درست کرنے بیٹھ گئ ،اور یہ چند لمحے ، مجھ پر صدی گزار گۓ ،،،، یہ ذرا سا خاموش وقفہ ،،، جیسے بہت کچھ کہہ گیا ، ، غیر محسوس روزن سے آتی ہوا نے انھیں ہلکا سا لہرا دیا ،،، اور پھر چند منٹ کے بعد چند سیاح وہاں سے گزرے کچھ نے استفہامیہ انداز سے دیکھا ،، لیکن خاموشی سے گزر گۓ ،،، اسی کیفیت نے چند لفظوں کے تانے بانے بُن لیۓ ،، جو " باسفورس کنارے " کی ہی اگلی کیفیت ہے ،، بس اس محل اور اس کے کرداروں نے کچھ متوجہ کر لیا ۔
" باسفورس کنارے "
محلاتِ باد شاہان ،،،،،
حسین و جمیل
کونے میں کھڑے جوڑ توڑ
صوفوں پر بیٹھی سازشیں 
راہ داریاں سر گوشیاں
پردوں کے پیچھے چغلیاں
باسفورس کنارے !!!
روش روش جمالِ یار
تصویریں اُتر رہی ہیں
کچھ کیمروں میں ، کچھ آنکھوں میں 
لمحوں کے کھیل ہیں 
خوشیوں کے میل ہیں
محبتوں کے ڈھیر ہیں 
رقص میں درویش ہیں 
عجیب و عظیم تھے ، وہ لوگ 
بڑے فیصلے ، کار ہاۓ ارفعٰ
مگر ، اب موجود ہیں یہاں وہاں 
نابلد لوگ،، بےنظارت آنکھیں 
بے وُضو ، بے مراتب آنکھیں 
منہ کھولے ، آنکھ موندھے 
تاریخ انساں سے بے خبر
دلوں پر قبضہء دنیا کس قدر
جلدی چلو ،، جلدی کھاؤ
اگلا نظارہ ، اگلا پڑاؤ
باسفورس مسکراۓ ،،،،
پندھرویں صدی میں اکسویں صدی ہے
مِل رہے ہیں ، وہ ہم سے ، ہم ان سے 
باسفورس کنارے ،،،
باسفورس کنارۓ !!! ( اگست 2017ء استنبول)۔
میَں وہ چند منٹ اس راہداری میں خُریم کے محل کے کرداروں کو مل کر ، اور پھر نظر انداز کر کے آگے بڑھی ، تو چند گز چلنے کے بعد ایک موڑ آیا اور میرا گروپ کچھ اور سیاح اور گائیڈ کچھ بول رہا تھا ،،، اور یہ سب ایک برآمدۓ نما وسیع ڈرائنگ روم میں تھے ،، اور اس وقت ، ہم سب سیڑھیاں ، چڑھتے چڑھتے ،محل کی دوسری منزل پر تھے، یہاں شاہی خاندان ، ہوا ، اور مر مرہ کے دور تک کے نظاروں کو دیکھتا ہو گا ،، لیکن اب ان کمروں ، ان کی چیزوں کو کیسے کیسے دیسوں کے قدم روند رہۓ تھے ،،، تاریخ کا لکھا سبق ،،،،،،،،،،،اب واپسی تھی ،، نیچے اتر کر علم ہوا ،، پورے محل کو دیکھنے کے لیۓ مزید تین گھنٹے چاہییں ، اس کے طے خانے کی طرف جانے کی تو اجازت ہی نہیں ،، لیکن جب ہم محل کے اندرآئیں تو ایک وسیع ڈرائنگ روم میں ایک بالکنی بنی ہوئ تھی ، جس کی اونچی اور چوڑی کھڑکی ایک ہی تھی ،، لیکن اس کے گرد ایسی " آرچز " کی صورت میں پینٹگ کی گئ تھی، کہ محسوس ہو رہا تھا ، ہم کسی گیلری سے گزر جائیں گے ،، تو گویا " 3 ڈی "تصاویر کا آئیڈیا ، نیا نہیں ہے ۔ محل سے باہر آکر ، اس کے وسیع چمن میں مزید آدھ گھنٹہ گزارا گیا ، تاکہ جو گوشے رہ گۓ ہیں وہ بھی دیکھے جائیں ۔ 
آج کے دن کچھ دیر نزدیکی بازار کا چکر لگایا گیا ،، جہاں ابھی ایک اوپن ریستورنٹ میں بیٹھے ہی تھے کہ بادل گھِر آۓ۔ دکان داروں نے اپنی اپنی دکانوں کے آگے لپٹے ہوۓ مضبوط شیڈز کو کھول کر سٹیل کے ڈنڈوں سے اٹکا لیۓ ،، ہمارے چاۓ کا آرڈر لینے والے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہا بھی کہ آپ لوگ شیڈ کے نیچے آ جائیں ، لیکن ہم سب اس پُروا کو انجواۓ کر رہۓ تھے ، بہ مشکل چاۓ آئ ، آخری گھونٹ تک چند قطرے پڑے ، تو ہم چل پڑیں ،، لیکن یہ کیا ،،، یکدم بارش کی بوچھار ایسی آئی کہ ہم ایک قدم نہ اُٹھا سکیں ، خاص طور پر میَں ، جوجی اور حمنہٰ تو ایک چھلی والے کی چھوٹی سی چھت والی ریڑھی کے نیچے کھڑی ہو گئیں ، اس دوران باقی نے ہمت کی اور اس ڈبل روڈ کو پار کر کے سامنے کی دکان یا چھوٹے ہوٹلز کے برآمدے میں جا کھڑی ہوئیں ،، لیکن اس چند منٹ میں وہ سب تو بھیگ گئیں ، لیکن ہم تینوں کا ذیادہ برا حال ہو گیا ، بارش اسطرح موسلادھار ہوئ کہ کھڑا ہونا مشکل ہو گیا ، اور ہم نے اسی شدید بارش میں سڑک پار کی اور اب سڑک پر پانی اس قدربہہ رہا تھا کہ ہمارے پاؤں ڈوب گۓ ، سامنے کے برآمدوں تک پہنچ کر ایک ریستورنت میں جا بیٹھے ، اور خود کو گرم کرنے کے لیۓ قہوے کا آرڈر دیا ، میَں ہمیشہ اپنے پرس میں ایک جوڑا جرابوں کا رکھتی ہوں ، وہ کام آیا ،، اور اپنے کیپ شال کو بھی لپیٹا ،، ( اصل میں مجھے سردی کچھ ذیادہ محسوس ہوتی ہے😌بارش ختم ہوئی ، ہوش بجا ہوۓ ،، تو ڈرائیورایجویت کو بازار میں جانے کا کہا ،، راستے دیکھے ، تو کہیں پانی کھڑا نہ تھا ، حیرت ہوئ اتنا اچھا سسٹم !!!! اس بازار پہنچے جہاں سے مزید تحائف خریدنے تھے ،، یہ بہت پرانا علاقہ لگتا تھا ،چوڑی گلیاں ، اور اس کے کنارے بنے گھر ، چھوٹی اینٹوں سے ہوۓ تھے ،جو سیمنٹ سے کور نہیں کی گئیں تھیں ، یہاں کا ماحوؒ ل پنڈی
کے راجہ بازار کی اندرونی گلیوں جیسا تھا ،، یا ،، لاہور کی بھاٹی گیٹ کی اندر کی گلیوں جیسا ہو ۔۔۔ لیکن میَں نے بچوں کو کہہ کہلا کر وین میں ہی روکے رکھا ، خواتین جلد واپس آگئیں ، پتہ چلا ، کہ یہیں تین گلیاں چھوڑ کر ایک" جگہ ہے جہاں " رقصِ درویش " کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اور یہ ہفتے میں تین دن ہوتا ہے ، اتفاق سے آج ہفتہ ہے ، ہمیں جلدی پہنچنا ہو گا ، تاکہ ٹکٹ مل جائیں ،،، یہ خبر تو ہمارے لیۓ خوش خبری تھی ،،، دراصل زبان کے معاملے میں رکاوٹ سے یہ نقصان ہوا ک کہ کئ جگہوں کی آگاہی نہیں ہو پاتی ،، ہم تو یہ ہی سمجھتی رہیں کہ رقصِ درویش تو صرف " کُونیا " میں ہی دکھایا جاتا ہو گا ،، جو مولانا رومیؒ کے مزار ، اور ابتداۓ رقصِ درویش کی جاۓ وقوع ہے ،یہاں پہنچیں تو پتہ چلا ، ہر اہم شہر میں اس کے پیش کرنے والی کچھ آرگنائزیشنز اہتمام کرتی ہیں ۔ اب شام ہوا چاہتی تھی جب ہم اس چھوٹی سی بلڈنگ میں داخل ہوئیں تو گراؤنڈ فلور پر کاؤنٹر تھا ، جہاں سے ٹکٹ لیۓ گۓ ،، بچے بڑے سب کا ایک ہی پیکج تھا یعنی ، 70 لیرا ،فی ٹورسٹ، ابھی تو ہم اکسائٹڈ تھے ، کہ ایک ایسا مظاہرہ دیکھیں گے جس کی بہت خواہش تھی اور اب اس کا اچانک موقع مل گیا ۔ٹکٹ لے کر اوپر کی منزل پہنچے یہ گول گیلری ٹائپ جگہ تھی ، لوگوں کے لیۓ اچھی انتظار گاہ تھی یہاں بھی مختلف قومیتوں کے خواتین و حضرات موجود تھے ، ہمارے بالکل ساتھ ایشیائی ایک مڈل ایجڈ میاں بیوی ، اور ایک جوان لڑکی اور اسکے ساتھ ایک 10 /11 سالہ بچی بھی تھی ، چند منٹ بعد ہی ہیلو ہاۓ ہو گئ ( حسبِ عادت ) فیملی خوب پڑھی لکھی تھی ، صاحب اور بیگم نے بتایا ہم ، ہندوستان سے آۓ ہیں ، میں ائرفورس کا ریٹائرڈ افسر ہوں ، یہ میری بیٹی اور یہ نواسی ہے ، ہم نے ترکی کی سیر کو بہت انجواۓ کیا ،،، جب ہم نے سوال کیا کہ اس " رقصِ درویش" میں آپ کی دلچسی کیسے ؟ تو موصوف نے کہا " دلچسپی صرف مجھے ہے ، بیوی اور ان بچوں کو نہیں تھی ،،،لیکن میں نے جو تھوڑا سا صوفی ازم کو پڑھا ہے ،، اس نے مجھے دنیا ، اور ساری کائنات کے رقص سے دلچسپی پیدا کی،، میں اکثر یوگا کرتا ہوں ، اس طرح گیان کرنے سے ، یہ دلچسپی یہاں تک لے آئی ! باقی فیملی سے یہ ہی کہا کہ جہاں باقی دن اپنی مرضی سے گزارے ہیں ، ایک میری مرضی کی جگہ دیکھ لو ،،، مزید 20 منٹ کے بعد اعلان ہوا، ایک چھوٹے سے ہال میں داخل ہوئیں ۔ 
اندر نیم اندھیرا تھا ،، سیمی سرکل میں کرسیوں کی تین چار رووز تھیں جن پر لوگ بیٹھتے رہے ، اور مزید 15 منٹ گزر گۓ ،، ماحول پر خاموشی اور احترام کا غلبہ تھا ،، کیوں کہ یہ صوفیانہ انداز پیشکش تھی ، کوئی دنیاوی شغل میلے والا سلسلہ نہ تھا ، فوٹو گرافی منع تھی ،،،لیکن نئی نسل کے لیۓ یہ پابندی جیسے نا پسندیدہ ہوتی ہے ، وہ ہر چیز فوری محفوظ کر لینے کی جلدی میں ہوتے ہیں ،، یہاں بھی کسی نا کسی طرح دو چار تصاویر لے لی گئیں ،، میرا اور جوجی اور لبنیٰ کا قریباً ڈیڑھ گھنٹہ نہایت محویت سے گزرا ،، لیکن احساس ہو گیا کہ بچوں کو ،،یا کسی ایسے فرد کو بالکل نہیں آنا چاہئے ، جنھیں کوئی دلچسپی نہ ہو ۔ اس طرح وہ سو رہۓ تھے ، یا بور شکل لے کر بیٹھے ہوۓ تھے ،،، چار بندوں نے موسیقی کے آلات سنبھال رکھے تھے ،، جنھوں نے سادہ سفید عبائیہ سے پہنے ہوۓ تھے اور تین وہ لوگ جنھوں نے درویش رقص کرنا تھا ان میں ایک ذرا بزرگ سے تھے ، ایک درمیانی عمر کا اور تیسرا جوان لڑکا تھا ،، تینوں تھکے تھکے لگ رہۓ تھے ،، پہلے پورشن میں تلاوت ،، اور پھر ترکی میں کچھ پڑھا گیا ،،، اور پھر آرکسٹرا اور   درویشوں کا کام تھا ، لیکن درویشوں نے پہلے بازو اور لبادے لپیٹ کے جو رقص پیش کیا اس میں ردھم یا سمٹری نہ تھی ،، لیکن ، پھر ، دوسرے کے بعد تینوں کا بھی اور آرکسٹرا کا بھی آپسی تال میل ہوا ،، تو ایک والہانہ پن محسوس ہوا دل یہ ہی چاہتا ہے کہ آپ خود بھی چند منٹ کے لیۓ ہی سہی ،،، لیکن اس کائناتی رقص میں شامل ہو جائیں ۔ ہمارے لیۓ ایک نیا اور اچھا تجربہ رہا ،، مجھے ، لگا کہ اس رقص کی "جاۓ پیدائش" پر جا کرتجربہ شاید بہتر ہو ،،، لیکن درویش کا ہاتھوں کے انداز کے پیغام نے متاثر کیا ،، وہ سیدھے ہاتھ سے اوپر والے سے لے رہا ہے اور اور بائیں ہاتھ سے بانٹ رہا ہو ،،،،،،،،،،،، اور پھر سکون ہی سکون ، آس پاس بھی اور باطن میں بھی ۔
ترکی ،،، خوبصورت ملک ، خوبصورت لوگ ،، خوبصورت تہذیب ،،" کم ازکم " یہاں چار ماہ رہا جاۓ ، تب شاید اس کے مختلف چند شہروں کے گوشوں کو دیکھا ، پرکھا جا سکتا ہے ،،، لیکن انسانی فطرت اسے بطورِ سیاح نچلا نہیں بیٹھنے دیتی ،، آگے چلو ،، آگے بڑھو ،، واپس چلو ، وطن کی یاد ، اہلِ وطن کی یاد ،،، وغیرہ ابنِ بطوطہ کو پڑھا تو پتہ چلا ،،کہ وہ محض 19 سال کی عمر میں گھر سے سیر کے لیۓ نکلا ، اور پاؤں کا چکر اسے عرب ، کچھ حصہ افریقہ کا ،، پھر ہندوستان ، مالدیپ ، ملایا ،، اور پھر ہزاروں میل دور چین ، جہاں چند سال رہا ،، اتنی سیلانی روح کے باوجود 50 سال سے اوپر کی عمر میں واپس طنجہ( مراکش ) پہنچ کر ہی آرام کا دورانیہ شروع کیا ،، یہ اور بات کہ اسے سکون پھر بھی نہیں تھا ، دراصل ،،،،۔
؎ امیر سے ہے تعلق نہ کچھ غریب سے ہے
سکوں اگر ہے میسر ، تو یہ نصیب سے ہے
پیارے ترکی میں اب سیر کے لیۓ دو دن رہ گۓ ہیں ،، تیسرا دن آخری دن ہو گا ،، !!! 
( منیرہ قریشی 24 اگست 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

پیر، 20 اگست، 2018

ترکیہ جدید(6)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
۔" بُرصہ " کی کیبل کار رائیڈ ،،، اور جنگل اور پگڈنڈی ،،، اور یہاں کچھ بہادر لوگوں نے فارم ہاؤس بناۓ ہوۓ ہیں ،، حالانکہ معلومات کے مطابق
 یہاں ، بھیڑئۓ اور ریچھ کافی مل جاتے ہیں !۔
 ترکیہء جدید(6)۔
اورآج چوتھے دن ہم ترکی کے ایک اور صوبے " بُرسہ یا ' بُر صہ" کی سیر کو نکلے ، یہ استنبول سے دو گھنٹے کی کار کے سفر کی دوری پر تھا ، صبح ذرا زیادہ جلدی تیار ہوۓ ، لبنیٰ ہماری پروگرام انچارج تھی ، ایک تو وہ بہت پہلے ترکی آ چکی تھی ، دوسرے ، اس کا داماد حال ہی میں ترکی کے ایک اور صوبے میں ایک بلڈنگ بنا نے کا پروجیکٹ مکمل کرکے ، جا چکا تھا ، لیکن اب یہاں پرخلوص دوستیوں کا باغ چھوڑ گیا تھا ، انہی دوستوں میں سے ایک ابرہیم تھا ، جس نے یہ وین اور ڈرائیور کا انتظام  کر  دیا تھا ( مفت نہیں ،بلکہ ڈالرز میں  ادائیگی کا کہا گیا تھا ) ۔ ابرہیم ہی روزانہ ایک فون لبنیٰ کو کرکے تجویز دیتا ، اور لبنیٰ کی تفصیلی وضاحت سے ہم سب " ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے " ،، کے جملے بول دیتیں ۔ مقصد اچھی جگہوں کی سیر تھا  جو کہ وہ پورا ہورہا تھا ۔
بُرصہ ، پہنچنے تک چاۓ کی سخت طلب ہو چکی تھی ، ہمیں بتایا جا چکا تھا کہ یہ علاقہ مری کے بھور بن یا پتریاٹہ جیسا ہے ، اس لیۓ اپنے ساتھ ایک آدھ سویٹر رکھ لیں ، ہم نے وہاں پہنچتے ہی جب ارد گرد نگاہ ڈالی تو لگا کہ بھوربن ہی پہنچ گئے ہوں ، فرق صرف صفائی اور آرگنائز بلڈنگز اور گھروں کا تھا ۔ اور یہ سب قانون کی پاس داری اور عمل درآمد سے ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔
چاۓ کے لیۓ ایک اوپن ایئر ریسٹورنٹ کا انتخاب ہوا تاکہ آس پاس کے نظارے بھی اوجھل نہ ہوں ۔
بڑوں نے چاۓ اور بچوں نے جوس سے اپنی اپنی تواضع کی ، چاۓ کے بعد گروپ کے ہمت والے افراد ارد گرد پھرنے لگے اور ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ۔ میَں ، جوجی اور لبنیٰ کچھ دیر تو بیٹھی رہیں ، کچھ آرام ہو گیا تو ہم بھی ریسٹورنٹ کے سامنے ایک تین فٹ اونچی دیوار کی چہاردیواری کی طرف چل پڑیں ،،، جس کے پتھر کے آرچ والے گیٹ پر " پارک " کا لفظ تو فوراً پڑھا گیا لیکن ترکی میں لکھا "ارتغل " کا لفظ پڑھنے میں مشکل ہوئی ،،، ہم تو محض پارک کے لفظ سے یہ سوچ کر اندر داخل ہوئیں کہ ،، پارک کی سجاوٹ دیکھیں گے ،،،، لیکن اندر تو ایک شہرِ خاموشاں تھا ،،، یعنی اکا دکا قبریں تھیں ، جن کے سرہانے اور پائینتی لوح تھیں ،، اندر داخل ہوتے ہی چند قدم پر جو پہلی قبر تھی اس کے سرہانے " حلیمہ حاتون " لکھا ہوا تھا ،،، نیچے کی تحریر بالکل سمجھ نہ آئی ،،، چند دوسری قبروں پر بھی گئیں لیکن ، ان پر لکھے نام اجنبی لگے ،، تو جو تختی پڑھی جا سکی ، لبنیٰ کہنے لگی نام سے تو مسلمان لگ رہی ہے چلیں فاتحہ پڑھ لیتے ہیں ۔ اور ہم فاتحہ کے بعد باہر آگئیں ، اور گروپ کے ممبران سے بھی اس کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ ہم تو خود اس قبرستان یا اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں تھیں ۔ ،،،، جی ہاں یہ اگست ستمبر 2017ء کا سال تھا ،،، جب پاکستان کے لیۓ " ارتغل " قطعی اجنبی تھا ۔،،، اور شاید خود ترکی والوں نے بھی اس وقت تک اس کے قبرستان کو وہ تاریخی " گیٹ اَپ " نہیں دیا تھا کہ عام سیاح واقف ہوتے ۔اور ہم وہ سیاح تھیں ،، جو ترکی کی تاریخ کو سلطنتِ عثمانیہ سے شروع کر کے ، یہیں تک اور پھر تاریخ خلافت تک پڑھا ہوا تھا ، اور بس اسی لیۓ ایمانداری کی بات ہے کہ اس شہر کی تاریخی حیثیت سے واقفیت ہی نہیں تھی ۔
2020ء تک اب ارتغل ہر پاکستانی کے گھر پہنچ چکا ہے ، ترکی نے اپنی شاندار تاریخ کے صفحات میں سے وہ تاریخی شخصیت نکال کر دنیا کے سامنے لا رکھی ۔ جس کے بارے میں دشمن کہتے ہیں ،،، " ایسی کوئی شخصیت تھی ہی نہیں " ،،، اور ہمدرد کہتے ہیں ،" ارتغل غازی کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں محض ڈیڑھ صفحے پر مشتمل ہے " ،،، لیکن ایک گمنام یا ،، کم نام والا ہیرو تھا، ڈرامہ لکھنے والے نے " تاریخی ہیرو" بنا کر استعارہ سے ستارہ بنا دیا ۔ اور ایک جرات مند، صاحب ایمان ،اور بلند حوصلہ شخصیت کو ایسے اوصاف کے ساتھ سامنے لایا ،،، جو آج کے وقت کی ضرورت تھی ۔
اب ہم عازمِ " بُرسہ یا بُرصہ " ہوتے ہیں ۔ یہاں پہنچے تو صبح کے ابھی گیارہ بجے تھے اور آج ایک خوبصورت چمکیلا دن تھا ۔ بُرصہ کا پہلا تائثر " سبز رنگ اور سکون " کا تھا ۔ یہاں سارے ماحول پر سبز رنگ کے مختلف شیڈز کا راج تھا ۔ جیسے قدرت کے مقرر شدہ فرشتے نے ہر سبز شیڈ کے سٹروک لگاۓ ہوں ۔اللہ نے دنیا کو رنگوں سے سجایا ، اور پھر ہر رنگ کے شیڈز بھی بناتا چلا گیا ، اب یہاںسبز رنگ کا جوشیڈحاوی تھا ، اسے ہم ہلکا سبز کہہ سکتے ہیں یا" درمیانہ سبز " ۔۔یعنی اس میں گہرا سبز ، یا تیز سبز کا شیڈ کہیں نہیں تھا ۔تو گویا یہ ایک ایک ایسا خطہ تھا جس کے " رنگ ، اگر باتیں کریں یا اپنا عنوان منتخب کریں تو کہیں :" ٹھنڈی سوچ والا سبز خطہ" ،اور خوشگوار ہوائیں ایسے سُبک انداز سے چل رہی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں " ٹھنڈے ، سبز ہی سبز علاقے میں خوش آمدید " !!
یہاں کی فضا نے تو جادو سا کر دیا تھا ہم میں سے ہر ایک انتہائی پُر جوش تھا ،،،،،،،،،، یہ میں کہاں سے کہاں نکل گئی ۔ مجھے تو ویسے بھی ہر نئی جگہ کچھ کہتی ، کچھ پیام دیتی محسوس ہوتی ہے ۔۔۔ یہ تو پھر پہاڑی علاقہ تھا جسے سر سبز نہیں " سبز ہی سبز " کہا جا سکتا تھا ۔
یہاں مقامی لوگوں اور سیاحوں کے لیۓ " کیبل کار سروس " بہت کشش رکھتی ہے ،،،،۔ مجھے اپنے ہاں کی کیبل کار کا جھٹکے سے رکنا ، مسافر کا جھٹکوں سے چڑھنا ، اترنے کا تجربہ تھا ،،اور اب میَں ان جھٹکوں کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی ، ( ایکسیڈنٹ کے بعد مجھے تیزی سے موومنٹ کرنا محال ہو چکا تھا ) اس لیۓ میَں نے صاف انکار کر دیا کہ تم لوگ جاؤ میں اسی ریسٹورنت سے باہر کے نظاروں کو انجواۓ کروں گی ، میَں خواہ مخواہ دوسروں کے لیۓ مشکل کیوں پیدا کروں ،، لیکن اس پر میری بیٹی نشل اور ایمن ثمن بالکل راضی نہ ہوئیں ،، میَں نے نشل سے کہا اگر تم نہ گئیں تو موسیٰ نہیں جاۓ گا ، اور یہ تو ہرگز نہ ہوگا ، ایمن ثمن میں سے ایک نےضد کی ،کہ ٹھیک ہے میں تو آپ کے پاس رُکوں گی ،، یہ محبت اور کیئرنگ انداز کہیں کم ہی نظر آتا ہے ، سب نے جا کر ٹکٹ لیۓ اور ہم دونوں نےاب اگلے دو ،تین گھنٹے گزارنے کے لیۓ خود کو تیار کیا ، کہ اتنے میں دوسری " ٹوِن " بھاگتی ہوئی آئی ،، 'خالہ ، میَں نے کیبل کار کے رکنے ، اور اپنی ایک پارٹی کو بٹھانے کا تجربہ کر لیا ہے ، یہاں کسی قسم کے جھٹکے ، یا کوئ اور مسئلہ نہیں ،، آپ بہ آسانی چڑھنا ، اترنا کر لیں گی ، ،، میَں نے اس کے پُر جوش چہرے کو دیکھا ،تو اعتبار آگیا ۔ ثمن اور میِں سیڑھیاں چڑھ کر ٹکٹ گھر تک گئیں ، اور قطار میں جا کھڑی ہوئیں ، خوبصورت خوب کھلی اور صاف کیبل کاریں دو منٹ کے وقفے سے آ جا رہی تھیں ، اور ان کے رکنے کا مناسب وقفہ بھی تھا ، اس لیۓ دل مضبوط کر لیا ، جوں ہی ایک" ٹوِن "ٹکٹ لے آئی ، ہم سامنے آئی کیبل کار میں چڑھیں ، ثمن اور نشل ، موسیٰ نے بہت چوکس ہو کر مجھے اندر داخل کیا ، ایک کیبل کار میں صرف چھے لوگوں کو بیٹھنے کی اجازت تھی ، اور ہم تو اس میں چار تھے ، باقی لوگ پہلے سٹاپ پر پہنچ چکے تھے ،، ایک اطمینان کی کیفیت ہوئی توکھڑکی سے نیچے نظروں نے بتدریج گھنے ہوتے جنگل کا احاطہ کیا ،، تو دل شاد شاد ہونے لگا ،، میَں تو اس کی شکر گزاری کے لیۓ بس لفظ ڈھونڈتی رہی ،، اسی کی ذات ہے " دلوں اور آنکھوں کو ٹھنڈک عطا کرنے والا " ،، درختوں کی ایک قسم تو سَرو یا کرسمس ٹری کی تھی ،اور دوسری قسم ،جو وافر تھی ،کا پتہ نہیں چلا ، لیکن وہ لمبے پتلے پتوں والے ، اور اس قدر اونچائی لیۓ ہوۓ تھے کہ کئی جگہ ان کی چوٹیاں کیبل کار کو چھُو رہی تھیں ، بُلے شاہ کے کلام میں اسد امانت علی نے " اُچیاں ، اور لمبیاں " کی وضاحت جس سُر اور سوز میں کی ہے ، اس کا مطلب بھی سمجھ میں آنے لگا ،،، میَں سکون کی لہروں پر تھی ۔ یہ سبز درخت بھی ہلکے سبز رنگ میں تھے ۔جب 25/30 منٹ کی رائیڈ کے بعد پہلا سٹاپ آیا ، تو یہاں ایک الگ دنیا آباد تھی ۔ زیادہ لوگ یہیں آدھ گھنٹہ رکتے اور پھر اگلے سٹاپ کے لیۓ چل پڑتے ۔ ہمارے باقی ممبران ہمارے ہی منتظر تھے، یہاں ایک چھوٹا بازار تھا جہاں سوینئرز ، سویٹروں ، کیپ شالز ، اور کافی کچھ پہنے جانے والی چیزوں کے سٹالز تھے ،، اس بازار کے حصے سے ہٹ کر بچوں کے لیۓ جھولے اور اُن کی دلچسپی کا بہت کچھ تھا ، جو یہ چھوٹے دونوں موسیٰ اور نشمیہ کا بیٹا حمزہ ، خوب مزے کرنے لگے ، اور یہیں سبھی لڑکیوں کو مرضی کی چیزیں بھی ملیں، چنانچہ جو شاپنگ کی زیادہ شوقین نہیں تھیں انھوں نے بھی کچھ نا کچھ خرید لیا ، دراصل یہاں کی چیزوں میں زیادہ رنگ ، گھریلو صنعت کا نظر آیا ، جو منفرد اور پُر کشش لگا یہاں سے کافی بھی پی گئی ، اور پھر دوبارہ کیبل کار کی سواری کی گئ ، اور ذرا مزید اونچائی کی جانب سفر کیا ، اس دفعہ کیبل کارکے مسافر بد ل گئے تھے ، ، نیچے گھنے جنگل اور اوپر صاف آسمان ,,اور ہم ان کے درمیان معلق ،،، عجیب تجربہ !! شاید روح بھی نکلتے وقت ایسے معلق ہوتی ہوگی ۔ 
مزید 25 منٹ کی رائیڈ ، مزید اونچائی ، اور پھر سٹاپ اوور،،، اور یہاں چند مشہور ہوٹیلز کی چَین بنی ہوئی تھیں ،، انہی میں ہم استنبول میں جس ہوٹل میں ٹھہری تھیں ، اس کا بھی بہت بڑا ہوٹیل بنا ہوا تھا ۔ کچھ ریسٹورنٹ ، کچھ چیزوں کے سٹال ، اور کچھ دیر ادھر اُدھر کی پیدل مارچ کے بعد واپسی ، اب پھر " ہم تم ہوں گے جنگل ہوگا ، " والا سحر طاری ہوا ،، اور مکمل 40/45 منٹ کی رائیڈ کے بعد زمین کو چھوا ۔ ،،،، ابھی عصر کا وقت تھا ، اس لیۓ وین میں بیٹھتے ہی ابراہیم کی ہدایت کے مطابق ، یہیں " نزدیک " ہی ایک خوبصورت جھیل ہے ، آپ لوگ وہاں سے ہوتے آئیں کہ مچھلی بہت تازہ ملتی ہے ، وغیرہ،، اب سفر جوں شروع ہوا تو ہم پہاڑی راستے کے بجاۓ ایک ویرانے سے گزرتے چلے گۓ ۔اس دوران ایک گھنٹہ گزر گیا ،، دور دور کوئی آبادی نہیں ،، کچھ جگہ سے سڑک بھی کچی ،،، بےآباد خشک ٹیلے ،، کہیں کہیں دور ٹین کی چھتوں والی کوئی ورکشاپس ، اور شاید مزدوروں کی رہائش گاہیں تھیں ۔ لیکن ایک ڈوبتا سورج ، اس سارے منظر کو ہلکے سُرخ رنگ میں رنگ رہاتھا ، اور ہم اس سفر سے ذرا متفکر ہو رہی تھیں کہ کہیں ڈرائیور راستہ بھٹک تو نہیں گیا ۔ اور اب ہم اُس جھیل کی خوبصورتی کیسے انجواۓ کریں گی ،،،؟ 
خیر مغرب ہونے تک ہم جھیل کے علاقے میں داخل ہوۓ ، باوجود کم روشنی کے اس جھیل کے منظر نے ایک اور ہی دل آویزی سے اپنا حسن دکھایا ،،، چاند کی چودھویں تو نہیں تھی  شاید گیارھویں تھی اور چاند کے حسن کا عکس جھیل پر پڑ رہا تھا ، اس کے کنارے بالکل  قدرتی  طریقے سے " اَن گڑھ " ہی انداز کا بنا فرنیچر رکھاہوا تھا ۔ یعنی کٹے درختوں کے بینچ ، میزیں ، اور وہاں بنا ہوا ،ایک ہی ہوٹل وہ بھی لکڑیوں کی گیلیوں سے بنا ہوا تھا ، بجلی کی روشنی ، کم تھی یعنی سارا ماحول روشنیوں میں نہایا نہیں ہوا تھا۔ شاید وہ جھیل ، اور چاند سے لطف لینے کی طرف مائل کرنا چاہتے ہوں ۔اور کچھ دیر بعد ہماری نظریں خوبصورت مرغابیوں پر پڑیں ،، جو ہمارے آنے سے اور ذرا شور سے ڈریں کچھ اُڑیں ، کچھ واپس آ بیٹھیں اور یہ نظارہ بھی خوش کن تھا ۔ مغرب پڑھ کر کھانے کا آرڈر سبھی کی پسند کے مطابق دیا گیا ، جھیل کی تازہ مچھلی تلی ہوئی آئی تو ، پہلے نوالے نے ہی وہ لطف دیا کہ آج تک نہیں بھولا ، ، نشل اور اس کے بچے مچھلی چکھتے بھی نہیں تھے ،لیکن سب کے اصرار پر جب انھوں نے کھایا تو انھوں نے بھی خوب لطف اُٹھایا۔ باقی کیا کچھ تھا ،، اچھا ہی ہوگا ، اور مچھلی کی تازگی اپنی جگہ لیکن پکانے کا طریقہ بھی بہت خوب تھا ،،، یہاں بچوں نے ادھر اُدھر پھر کر اس نیم جنگل ، ایریا کو بہت پسند کیا ،،، اور اب عشا بھی ہو چکی تھی ، بغیر انگریزی جاننےکے ٹرکش لوگوں کا شکریہ ادا کیا ۔ اور واپسی کے لیۓ مزید ڈھائی گھنٹے کے سفر کے بعد اپنے ہوٹل میں پہنچیں تو بہرحال بچے بڑے تھک چکے تھے ، فریش ہو کر سب میرے کمرے میں آکر قہوہ کا دور چلا ، اور کل جمعہ تھا اس لیۓ "حضرت ابو ایوب انصاری ر ض" کے مزار پر زیارت کرنے اور ان کی مسجد میں جمعہ پڑھنے کا پروگرام طے کیا ۔ 
صبح جمعہ کی تیاری کے بعد ایجویت کو حضرت ابو ایوب انصاری ر ض کے مزار چلنے کا کہا ، اور یہ مزار مبارک اس ہوٹل سے آدھ گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا ، اس دن کا انتظار ایک مدت سے تھا ،، چند سال پہلے میرے بیٹے ہاشم کے ایک دوست کو اپنی فیملی کے ساتھ ترکی کی سیر کرنے کا موقع ملا ، وہ وہاں سے میرے لیۓ ایک سکارف اور ایک تسبیع تحفہ لایا ، تو میں دیر تک اس سے مزار کے مناظر بارے پوچھتی رہی ،، لیکن ، اس طرح کبھی تسلی نہیں ہو سکتی ۔ خیر آج الحمدُ للہ ،اللہ نے مجھے خود پہنچا دیا ۔ یہاں آکر علم ہوا کہ کبھی یہ مزار آبادی سے بہت دور تھا ،، آج اسی طرح آبادی اور بازاروں میں گھِرا ہوا ہے ، جس طرح حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش ؒکا مزارِ مبارک گنجان آبادی میں گھِر چکا ہے ۔ تو گویا کبھی کبھی ایسی بڑی ہستیوں کی موجودگی شہروں کے اندر بھی ضروری ہوتی ہو گی ، تب ہی ان کی ضو فشانیاں زیادہ پھیلتی ہوں گی ،،، پہلے تو ہم آپؒ کے مزار کی زیارت کے لیۓ داخل ہوئیں ، آپ کے مزار کو بس ایک منٹ کے لیۓ دیکھا جو بظاہر ایک اونچے چبوترے پر تھا اس کے گرد جنگلہ تھا ۔ اور پھر قبر مبارک کے گرد پھولوں کی جھاڑیوں نے اس قبر کو مزید چھُپا لیا تھا ، اور جمعہ تھا رش بھی بہت ذیادہ ، لائن میں کھڑے کھسک کھسک کر قریب سے گزر گئیں ۔ دھکے بھی لگے ،، اور چند منٹ بعد ہم اندر کی مسجد کو دیکھ کر چند تصاویر لے کر باہر آگئیں ، کیوں کہ اندر شاید مردوں کی نماز کی جگہ تھی ۔ خواتین کا کہیں اور انتظام ہو گا ، لیکن ہم بالکل باہر کے چھوٹے سے باغیچے میں آ گئیں ، وہاں ٹرکش خواتین اپنی جاۓ نمازیں لے کر بچھا رہیں تھیں ۔ آج ترکی میں چھٹا دن تھا ، کہیں شاپنگ مالز میں ، کہیں ہوٹیلز ، کہیں پارکوں میں ٹرکش لوگوں کو دیکھنے سے کچھ یہ ہی اندازہ ہوتا ہے کہ ، یہ قوم آج کل سوچ کے لحاظ سےتین طبقوں میں بٹی ہوئی ہے ، ایک وہ طبقہ جو کمال اتاترک کے دور میں حکم مانتے ہوۓ ، خوب مغربی تہذیب میں  رنگا ہوا ،،، جن کے لباس آج نماز میں بھی چست جینز اور چھوٹی شرٹس اور ننگے کندھوں کے ساتھ آئیں ، اور نماز کے چار فرض پڑھنے کے وقت چادروں سے کندھے اور سر ڈھکا ، اور سلام پھیرتے ہی چل دیں اور چادر طے کر کے پرس میں ،، دوسرا طبقہ وہ نظر آیا جنھوں نے مکمل عبائیہ پہن رکھے تھے، چہرے ڈھکے نہ بھی ہوں ، توجسم مکمل ڈھکا ہوا ،، یہ دونوں طبقے کم از کم استنبول میں بین بین نظر آۓ ، اور کم تھے بہ نسبت ، اس طبقے کے ، جو اگر جینز پہنے ہوۓ ہے تو قمیض مناسب لمبائی میں اور سکارف تو لازماً ً  لیا ہوا تھا ۔ اور یہ طبقہ زیادہ تعداد میں نظر آیا ،،، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ" بیگم اردگان "کے اثرات آہستہ آہستہ پھیل رہۓ ہیں ،، لیکن عورت چاہے ماڈرن ہے یا پردہ دار ، اگر سموکنگ کی عادی ہے تو وہ سرِ عام بھی سگریٹ پینے میں عار نہیں سمجھتیں ، لیکن ہر جگہ بنائی گئی کیاریاں میں سگریٹ کے ٹوٹے بجھاۓ جاتے ، یا ایش ٹریز میں ،، زمین پر نہیں ،،، اور آج مسجد میں ایک کیاری کے چوڑے چبوترے پر میَں ٹرکش خواتین کے ساتھ کندھے ملاۓاذان کی منتظر تھی ، ہماری تو قصر نماز تھی ، اس لیۓ ، نماز فرض پڑھنے کے بعد ، اپنے گروپ کی طرف نظر ڈالی وہ بھی مصروفِ دعا و نفل تھیں ، میِں نے بھی دو نفل پڑھنے کی نیت باندھ لی ،، اور گلے میں ڈالا ہوا، کراس پرس کھسک کر سائیڈ پر ہو گیا ،، میں دعا میں اتنی محو ہوئی کی کچھ لمحوں کے لیے بےجان سی ہو گئی ، اور پھر دعا سے فارغ ہو کر سب اکٹھے ہوۓ ۔ نزدیک ہی بازار تھا ، حضرت ابو ایوب انصاری ر ض کو سلام کہا اور چل پڑیں ، اتنے رش اور دھکم پیل سے نکل کو سیدھے بازار کا رُخ کیا گیا ، نشل کا دل تھا میَں کچھ لوں ، لیکن مجھے کسی چیز کی خواہش نہیں تھی ، اس لیۓ میَں نے اسے پیسے دینے کے لیۓ پرس کھولا ، تاکہ وہ میرے گھر بیٹھے پوتی اور پوتوں کے لیۓ کچھ لے لے ،، تو دیکھا پرس کی زپ کھلی ہوئی تھی حتیٰ ٹرکش لیرے کو رول بنا کر اندر کی ایک اور زپ والی جیب میں رکھا ہوا تھا ، اور وہ غائب ہو چکا تھا ،،، یہ دل کو افسردہ کر دینے والی واردات تھی ،،چاہے کوئی کتنا خوشحال ہو ۔ لیکن بغیر پوچھے کوئی یوں پیسے نکال لے تو کچھ دیر تک جھنجھلاہٹ طاری ہوئی ،، پھر یکدم یہ سوچ آئی ، اس چوری سے ( ڈیڑھ ہزار لیرا ) سے شاید مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ، چوری کرنے والی خاتون ، جس نے میری نماز میں محویت سے فائدہ اُٹھایا ،،اپنے عمل کو شاید کھوٹا کیا ہو ،، اور ہو سکتا ہے اس کی بہت سی ضروریات بھی پوری ہوئی ہوں ،، میں نے فوراًًنہیں ،،، تین دن بعد اللہ سے کہہ کر معاف کر دیا کہ قیامت کے میدان میں ، مجھے کہاں ڈھونڈتی پھرے گی ،،، ہو سکتا ہے یہ معافی میرے لیۓ بھی باعثِ معافی بن جاۓ ،،، ابھی مائرہ کے اے ٹی ایم سے میرا مسئلہ حل ہو گیا ۔۔۔ لیکن سوچتی رہی ، اور اگر کسی کے لیۓ یہ پیسے عزت بےعزتی ، زندگی موت کا مسئلہ بھی بن سکتے ہوۓ تو ،،،، !!مجھے ہاشم نے بہت کہا تھا کہ میرا اے ٹی ایم لے جائیں ، اتنے پیسے لے جانے کارواج نہیں رہا وغیرہ، لیکن میرا نان ٹیکنیکل دماغ اس پر راضی نہ ہوا ، اللہ کا شکر زیادہ رقم کمرے کی الماری میں رکھ آئی تھی جو باقی دنوں میں کام آئی ۔ ( اور آج بھی اے ٹی ایم کے بغیر ہوں ،  ،،، یہاں کے بازار میں میری بیٹی اور بھانجیوں کی دلچسپی کی کچھ اشیا تھیں ،، اس کے بعد اگلا قدم ہمارا " مشہورِ زمانہ سپائسی بازار" کی طرف کا تھا ،، جو ہمارے ہاں کے انارکلی یا موتی بازار کی طرح کا کورڈ بازار ہے ،، مجھے اس کے اندر جانے کا تفاق نہیں ہوا ، یہ بیان بچیوں کے اور جوجی کے کہنے کے مطابق لکھ رہی ہوں ،، میَں اتنی تھک چکی تھی کہ ایک جگہ کرسیاں رکھی تھیں ، اندر کے دکاندار سے اجازت لے کر بچوں کو ساتھ بٹھا لیا۔ ان کی ماؤں کے آنے تک پھر بازار میں پھرتی مخلوق کے چہرے پڑھنے لگی ۔ جب سب واپس آئیں تو پتہ چلا ، جو مشہوری تھی ، وہ مزا نہ مل سکا ، بس کچھ خاص نہ لگا ، اور ہم واپس وین میں بیٹھے ، اور ڈرائیور سے ایسی جگہ جانے کو کہا،، جہاں " مر مرہ" کا حسن بھی ہو اور کوئ یتاریخی عمارت بھی ، ، اور وہ ہمیں " خُریم کے محل " تک لے آیا ،، جو مرمرہ کے کنارے بھی تھا ، اور خوبصورت محل کا اندازِ دلبرانہ تاریخ سے معمور بھی مل گیا ،،، !۔
( منیرہ قریشی 20 اگست 2018ء واہ کینٹ )

بدھ، 15 اگست، 2018

ترکیہء جدید' (5)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
ترکیہء جدید' (5)۔
ہوٹل کے کمرے بہت آرام دہ تھے ، یا ہمیں تھکن ہی اتنی ہو جاتی تھی کہ وہ مزید آرام دہ لگتے ،، لیکن واقعی وہ صاف ستھرے تھے ، صبح ہمارے کمرے کے چھوڑنے سے پہلے ، کوئی نا کوئی صفائی کا مسکراتا ممبر آتا اور مکمل صفائ ہوجاتی ، لیکن کیا مجال کہ صفائ میں کوتاہی ہوئی ہو ،، اور کیا مجال ہمارا ایک جملے کا بھی آپسی تبادلہء خیال ہوا ہو ، سواۓ ' السلامُ علیکم ' کے ،، ہم سب صبح 8 بجے تک اپنے کمروں سے تیار ہو کر ، یا میرے کمرے میں ، یا ، جوجی کے کمرے میں اکٹھے ہو جاتے ، اور سبھی کے ناشتے یہیں تیار ہوتے ، اور کچھ بچے اپنے ناشتے پیک کر لیتے ، ایجویت بالکل وقت پر پہنچتا رہا ۔ لیکن ہمیں تیار ہوتے ، نیچے وین تک پہنچتے ، 10 بج ہی جاتے ،، آج ہم نے آئیہ صوفیا ، نیلی مسجد ، اور فیری کی سیر کرنی تھی ، فیری کی باری آخر میں تھی ،، پہلے ایجویت ہمیں مزید پرانے ترکیہ میں باۓ روڈ لے کر گیا ،،تھا ، اب اسی نے بتایا اگر " ڈیک" سے جائیں تو کچھ وقت کی بچت ہو جاۓ گی ،، اور یوں ہم سب کے لیۓ یہ پہلا تجربہ تھا۔ چند گاڑیاں پہلے سے باسفورس کنارے اس ڈیک میں کھڑی تھیں ، کنارہ دور سے نظر بھی آرہا تھا لیکن ، اُس طرف سڑک سے جانے پر ایک گھنٹے سے ذیادہ وقت بھی چاہیۓ تھا ، یہاں آدھ گھنٹہ ہی لگنا تھا ،، ڈیک پر' وین 'کی سیٹنگ ہوتے ہی بچے ، بڑے سبھی ڈیک پر آ گۓ کچھ سیڑھیوں سے اوپر جا کر بھی تصاویر بنا رہۓ تھے ۔ اور ڈیک غیر محسوس انداز سے چلتے ہوۓ ، 25 منٹ تک دوسرے کنارے جا لگا ،، اور اب سب سے پیچھے والی گاڑیاں فائدے میں تھیں کہ وہ پہلے نکل گئیں ، ہمارا مزید وقت بچا ۔ اور ہم سیدھے آئیہ صوفیا پہنچیں ،، اور ہم آئیہ صوفیا میں ہی داخل نہیں ہوتے ، تاریخ کے اوراق میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ یہ قسطنطنیہ کا ایک شاندار گرجا گھر تھا ، جسے بہت سی پینٹنگز سے سجایا گیا تھا ،،، اس چرچ کے خوب بڑے مین ہال ، کے گرد خوب بڑے بڑے کمرے تھے ۔ جنھیں عین اسی دور جیسے ہی رہنے دیا گیا تھا ۔ وہی لوہے کے پترے چڑھے دروازے ،، رنگین تصاویر سے سجے چھت ، حضرت عیسیٰ علیہالسلام کی اور کچھ ان کے حواریوں کی تصاویر ، یہاں ایک پھرتیلے ، سے دبلے پتلے آدمی کو 70 لیرے میں بطورِ گائیڈ ہائر کیا گیا ۔ تو ایک خوش مزاج گائیڈ ثابت ہوا جو اپنی کمزور انگریزی میں بھی لطیفے سناتا رہا ، اور اپنے گروپ کو ہلکے پھلے انداز میں ، کچھ سچی کچھ گھڑی حکایات سناتا رہا ، اسی نے بتایا ،، یہ چرچ عیسا ئی پیروکاروں کا ایک طرح سے قبلہ تھا بہت اہم حیثیت رکھتا تھا ،، پھر مسلمان فاتح ، آۓ تو اسے مسجد میں بدلنے کی سعی کرنے لگے ،،، لیکن یہ کوشش کئ وجوہات کی بنا پر نا مکمل ہی رہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اس کا آدھا حصہ آج بھی چرچ کی صورت اور آدھا مسجد کے آثار لیۓ ہوۓ ہے لیکن ،، کچھ عرصہ ایسا بھی گزرا کہ یہ نہ چرچ ،، نہ ہی مسجد کے طور پر استعمال ہو سکا ، اور اسی دوران دنیا کے کلینڈر میں تاریخ ، اور صدی بدلی ۔ اور مصطفیٰ کمال پاشا ، نے اپنے دورِ حکومت میں ، اس تاریخی عمارت کو " میوزیم " کا درجہ دے دیا ،، اور آج یہ عیسائی ، اور مسلم سبھی کے لیۓ باعثِ دلچسپی ہے ، اور میوزیم کی صورت میں تھیسسز مکمل کرنے والوں کی آماج گاہ ۔ 
کچھ معلومات یہاں سے لیں اور باقی تاریخ کی کتابوں سے لیا ، اور اگلی منزل ، نیلی مسجد (بلیو ماسق) تھی ، یہ مسجد ، بادشاہی مسجد کی طرح وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے ،، اس میں داخلے سے پہلے بہت بڑا صحن تھا ،، یہاں ایک فوارے کے گرد بینچ تھے تاکہ لوگ کچھ دیر بیٹھ سکیں نیز یہیں سے ایک طرف جا کر ٖغسل خانے یا لیٹرین بناۓ گۓ تھے ، مسجد میں داخلے سے پہلے جوتوں پر شاپر کے لفافے چڑھاۓ گۓ ، اندر بہت وسیع مسجد کا اپنا وہ صحن تھا جو مکمل طور پر ایک بڑے چھت سے کور کیا گیا تھا ، یہ چھت بہترین اور خوب بڑےفانوس سے اور خوبصورت سنہری تاروں سے سجا ہوا تھا ،، انہی تاروں پر بلب لٹک رہے تھے۔ یقینا" رات کو یہ مسجد خوب روشن بھی ہوتی ہوگی ، اور خوبصورت بھی لگتی ہوگی ،، لیکن ، اس اونچی چھت کے منبر کی طرف کی جگہ بالکنی تھی ، جہاں اونچی کھڑکیاں تھیں جن کے رنگین شیشے عجب بہار دے رہے تھے ۔ لیکن اتفاق سے اِن دنوں یہاں مرمت کا کام ہو رہا تھا ،، جس کی وجہ سے اس مسجد کا وہ حسن ، ظاہر نہیں ہوا ، جو ہمیں کتابوں میں یا ڈیکومنٹری فلم میں نظر آتا رہا ہے ۔ یہاں ظہر کی نماز پڑھنے کے لیۓ ہمیں مزید انتظار کرنا پڑتا ،،اور ابھی دن کے 11 بجے تھے صرف نوافل پڑھے ، اور تھوڑا یہاں وہاں پھرے ،، غیر ملکی مرد وخواتین بلا کسی تفریقِ مذہب و ملت مسجد کے اندر پھر رہۓ تھے اور تصاویر بنا رہے تھے ،،، یہ کسی ملک کی " احترام" پالیسی ۔ " برداشت " پالیسی ظاہر کرتی ہے ،، جو دینِ اسلام کا ایک جزو ہے کہ مسجدِ نبویؑ میں غیر ملکی وفود ملتے اور وہیں سارا دن گزارتے ۔ تو اب ہم اپنی عبادت گاہوں کو محدود نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ 
یہاں سے دل ٹھنڈا کر کے اب ہم" باسفورس ،،یا ،،" مرمرہ " سے باقاعدہملنے پہنچیں ، جماعت پنجم سے ، ہسٹری اور جیوگرافی بطورِ مضامین پڑھے ، اور جوں جوں آگلی کلاسسز میں گئیں ، تو " لفظ باسفورس" ہمیشہ کے لیۓ عجیب ساحرانہ لفظ کے طور پر ذہن میں رَچ گیا ۔ اکثر میَں اور جوجی اباجی کی معیت میں دنیا کا نقشہ لے کر بیٹھتیں ، تو وہ اپنا بتاتے ،، یہ ہے مصر ، یہ سوڈان ، اور یہ عراق، اردن ، یہاں ہے مراکش ،، مجھے ان علاقوں ، اور ان لوگوں میں رہنے کا موقع ملا ،،، وہ اپنی یادوں کو شیئر کرتے لیکن میَں ان انوکھے ناموں کے سحر کو دل میں جگہ دیتی چلی جاتی ، ان میں " خلیج باسفورس " کا نام ، دریاۓ نیل ، ٹمبکٹو ، مڈاخاسکر ،،، جی ہاں ایسے نام دل میں یاد کر لیتی ، کیا پتہ کبھی پہنچ جاؤں ۔ اور ،،، آج اپنی یادوں کے کونے میں لکھے لفظ "باسفورس " کو مسکرا کر " ہیلو " کہا ۔ ہم نے اس سلسلے میں ایک بڑی فیری میں بکنگ کروا لی تھی ،، اور اسے تین بجے دوپہر چلنا تھا ۔ گویا ہمارے پاس تین گھنٹے کھلے تھے ، لہذٰا بچوں کی ایک پسندیدہ جگہ ہے ، کھانا پینا ، یہاں بھی نشمیہ ، اور ایمن ثمن ہی کنسلٹنٹ تھیں ۔ ہم سب تو فالوؤرز تھے ۔ جتنی دیر کھانا پینا ہوا ، فیری پر جانے کا وقت ہو گیا ،، اس دفعہ ایجویت نے غلطی سے ہمیں ایسی جگہ ڈراپ کیا ، جہاں سے خوب ڈھلوان راستہ تھا ، اور پھر کہیں سڑک آئ ، اور فیری تک پہنچتے پہنچتے ، میرے لیۓ تو بے ہوش ہونے والی کیفیت ہوگی ،حالانکہ یہ فرلانگ بھر کا راستہ ، مجھے ایمن اور نشل نے پکڑ کر ، اور بہت احتیاط سے آہستہ آہستہ چلایا ،، اس دوران ہمارے قریب سے ایک عمر رسیدہ دبلا پتلا ، بندہ ہیٹ پہنے گزرا ، مجھے یوں آہستہ روی سے دیکھا تو اس نے رُک کر کہا معمولی انگریزی میں واضع کیا " جلدی کی ضرورت نہیں ، میں ہی فیری کا ڈرائیور ہوں ، آرام سے آئیں " یہ حوصلہ دینے والی بات تھی جو ہر جگہ نظر آنی چاہیۓ ۔ خیر فیری تک پہنچے ، جہاں ہم تینوں کے علاوہ ، باقی گروپ ممبرز پہنچ چکے تھے ، مجھے باسفورس کو خود سے متعارف کرانا تھا لیکن فوری طور پر میں ایک آرام دہ بینچ پر لیٹ کر سانس درست کرنے لگی ، ، جب کچھ بہتر ہوئ تو حسبِ عادت کھڑکی سے ترکی کے قدیم و جدید ، کے نظاروں کو دیکھنے لگی ، یہ دو گھنٹۓ کی رائیڈ ترکی کا مکمل تعارف کرا رہی تھی ۔ یہاں مسجد تو جیسے چپے چپے پر تھیں ، بعض مساجد ، چند مرلے پر بنی ہوں گی ،، اور بعض بڑی بھی ، لیکن ہر مسجد کا بنیادی نقشہ ، نیلی مسجد سے ہی مشابہ تھا ،، کنارے بہت سی جدید قدیم کا امتزاج لیۓ بلڈنگز تھیں ، بعض قلعے نما شاہی دور کی عمارتیں تھیں ،، کچھ عوام الناس کے گھر بھی قطار در قطار تھے ،، لیکن سب صاف ، اور خوش رنگی لیۓ ہوۓ تھے ، تو گویا یہ قوم حُسنِ ذوق سے مالا مال تھی ، خود بھی خوبصورت نقوش والے تھے ، تو تہذیب بھی اعلیٰ ذوقی سے مزین رہی اور ہے ،، !باسفورس سے پرانی محبت نے کچھ الفاظ کے تانے بانے بُن ڈالے ، پڑھ لیں گے تو میرے جذبات کو مزید جان سکیں گے ،،  
" باسفورس کنارے " 
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ترکیہء جدید 
ستھرے مکان ، توانا مقیم 
مطمئن ، آسودہ ، بے فکر
باسفورس کنارے ،،،،،،،،
تہذیبِ نو ، تہذیبِ قدیم 
باہم مل رہی ہیں مثلِ ندیم
تاریخ چپے چپے میں 
صدیاں کچھ پرانی 
صدیاں کچھ نئی
ہم مِل رہے ہیں تم سے مگر آشنا آشنا
باسفورس کنارے ،،،،،،،،،
محلاتِ بادشاہان !
حسین و جمیل
اجنبی نفوس ، اجنبی ساعتیں 
اجنبی وضاحتیں ، اجنبی سماعتیں
صدیوں بعد بھی ملے ، تو جانے مانے سے 
ہر لہجہ ، ہر چہرہ ، ہر سازش لگے افسانے سے 
محبتوں کے ڈھیر ہیں 
رقص میں درویش ہیں
باسفورس کنارے ،،،،،،،،،،،،،،، ( اگست 2017ء استنبول )
( منیرہ قریشی 15 اگست 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

منگل، 14 اگست، 2018

ترکیہء جدید" (4)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر" 

' ترکیہء جدید" (4)۔
اور اب اگلے ہی دن ہم مشہور و دلنواز " توپ کاپی" میوزیم جانا تھا ، جس کا صرف ذکر ہی کتابوں میں پڑھا تھا۔ اور مزید کچھ اور جگہوں کے لیۓ چلے ، تو پہلے ڈرائیورایجویت ، کو ٹرکش زبان لکھ کر تمام پروگرام بتایا ، اس نے ترکی میں ہی جواب دیا " میں سمجھ گیا " ،،، اور واقعی صرف 20 منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم توپ کاپی میوزیم پہنچیں ،،، یہ جگہ ایسے " قلعے " کی صورت میں ہے جس کی چہار دیواری خوب مضبوط فصیل کی صورت اور اس کے چوڑے راستے بڑے پتھروں کو دبا کر بناۓ گۓ تھے ،، یہاں اوپر نیچے بنے زِگ زیگ کمرے ،، اُن مقدس لوگوں کے استعمال کی چیزوں سے سجے تھے ، جنھیں دیکھ کو ہم میں سے کچھ کے دل ڈولنے لگتے ، کچھ کے ایمان کی پختگی ایک سیڑھی اور چڑھ جاتی ،،،، اور کچھ سرسری نظر ڈال کر ، سیاح کے ہاتھ میں پکڑی لسٹ پر " ٹِک مارک " کر دیتے ،،،، اور کچھ کے لیۓ ایک حسرت ، پلُو میں بندھ جاتی کہ ،،، ذرا ٹھہر گردشِ وقت ، کہ اِن سے آنکھوں کو بھی سیراب کروں اور دل کی دنیا کو بھی آباد کر لوں ،،،،، یہاں آنحضورﷺ کے استعمال کی چند اشیاء ، آپؑ کا موۓ مبارک ، آپؑ کا دندانِ مبارک ، ایسی خوبصورت ڈبیوں میں بند تھے ، جو نظر نہیں آۓ ، حضرت فاطمہ زہرہ رض اور حضرت امام حسن رض و حضرت امام حسین رض ، اور حضرت علی کرم اللہ کے استعمال میں رہے لباس و نعلین ،،، حضرت موسیٰ علیہ کا عصا ،،، اور اب تک ہو گزرے ٹرکش بادشاہان کے زیرِ استعمال نہایت خوب صورت گھڑیاں ، کچھ ہتھیار ، اور کچھ ظروف سلیقے سے بڑے اور مضبوط شیشوں کے پیچھے رکھے گۓ تھے ،، فوٹو لینے کی سختی سے ممانعت تھی ،، اسی لیۓ میرے پاس ان کمروں کی ابھی تک کوئ فوٹو نہیں ملی ۔ ( حالنکہ کئ اور جگہوں پر بھی یہ پابندی نظر آئ ، لیکن چھپ کر یہ غیر قانونی حرکت کر لی گئ جیسے رقصِ درویش دیکھنے کے دوران ) ہمارے بچے ، وہ نئی نسل بن چکی ہے ، جنھیں نہ ماضی سے آگاہ کیا گیا ہے ، نہ انھیں اپنے ماضی سے دلچسپی ہے ،، نہ ہی انھیں دین کا نہ ہی دنیا کا نہ اپنے مقصد کا ادراک ہے ،،، ،، میَں شاید جذباتی اور منفی سوچ کی جانب چلی جاتی ہوں ،،، شاید ان کی عمر بھی ایسی ہے کہ وہ ہر نئی جگہ ، ہر نیا تجربہ اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں ،، اور اسی میں مطمئن ہیں ،، حال ہی میں میرے حلقہء فیس بک میں شامل بیٹی " کومل ذیشان " ترکی گئ تھی اور اس نے جس روحانی آنکھ سے اس میوزیم کا دیدار کیا ، یہ نئی جہت اور سوچ کو سامنے لاتا ہے ،، خاص طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے متعلق اسے جو ادراک ہوا ،، مجھے اس پر رشک آیا ۔ شاید جس دن ہم نے اس میوزیم کاوزٹ کیا ، وہ چھٹی کادن تھا ، یا اس دن سیاح ذیادہ آ گۓ تھے ،، کہ لوگوں سے کندھے ٹکرا رہے تھے ،، اور مجھے خود کو ہر حال میں گرنے سے بچانے کے چکر میں ،رش سے جلدی دور ہونا ہوتا تھا ، ورنہ غیر متوازن ہونے کی صورت میں اچھی بات نہ ہوتی ،، اس کے باوجود ایک چھوٹے کمرے میں دائیں بائیں رکھی ، یاد گار ،چیزوں میں ایک کونے میں لمبائ سےبنے شوکیس میں لگا " عصاۓ موسیٰ " عجیب ہیبت و تقدس دیتا محسوس ہوا،، یہ ہمارے ہاں کے بزرگوں کے ہاتھوں میں پکڑی عام چھڑی جتنی موٹائ اور ذرا اس سے لمبائ لیۓ عصا تھا ،، جو ہاتھ میں پکڑے جانے والے سِرے سے اَن گھڑ موٹا تھا ، سب سے اہم یہ کہ اس کا رنگ کیسا تھا ،،، آپ اسے کسی رنگ سے مشابہہ قرار نہیں دے سکتے ،،، اور اس عصا کے پاس جانے کو دل بار بار ذکر کرتا ہے ،،،( لیکن یہ اب کہاں ممکن) ۔ ایک دفعہ اس کمرے سے رش نے مجھے فوراً دوسرے کمرے میں جانے پر مجبور کیا ،، لیکن میَں دوبارہ پھر لائن میں اسی کمرے میں گھس کر سیدھی اس حیران کن چیز کے پاس جا کر چند منٹ گزار آئی ،،، تو عصاۓ موسیٰ تو یہاں ہے لیکن " یدِ موسیٰ " نہیں ،، جس ہاتھ میں وہ طاقت عطا کی گئی کہ وہ عصا اژدھا بھی بنا اور سمندر بھیپھاڑ ڈالا ،، تو اصل طاقت ، اصل کا اصل تو ، وہ ذاتِ اعلیٰ ہے جو اپنے بندے کے ہاتھ میں پکڑی ایک بے جان چیز کو " حیران کن " بنا دیتی ہے ، مولا کے رنگ نیارے " !توپ کاپی کے باہر خوب چوڑی شاہراہ ہے جس کے دونوں طرف ، ہر طرح کا سامانِ زیست بک رہا تھا ،، یہیں کچھ ہلکا پھلکا کھانا پینا ہوا ،، خاص طور پر ترکی میں جہاں گۓ ، تازہ جوس ، جو صاف مشینوں سے گاہکوں کے سامنے نکا لا جاتا ہے ، اس کا جواب ہی نہیں ۔ یہیں سے کچھ سیوینئرز خریدے گۓ ، اوراگلے پڑاؤ کی طرف چل پڑے ، کہ اب " مِنی ترکیہ" دیکھنا ضروری تھا ۔ یہ بھی ایک احساسِ ذمہ داری کو ظاہر کرتے ، سیاحتی مقام ہوتے ہیں ، جو کرپشن سے دور حکومتیں ، ہی بنا پاتیں ہیں ، کیوں کہ ہر جگہ کے ذمہ داران ، اگر خود کرپٹ ہوتے ہیں تو وہاں  صفائی نظر آتی ہے ، نہ چیزوں کی مرمت کی صورتِ حال ، نہ سلیقے سے باترتیب ، نِک سِک اشیاء سامنے نظر آئیں گی ۔ یہاں قدرے اُنچائ میں ایک چھوٹا سا ایریا آباد کیا گیا ہے جہاں ترکی کی ہر اہم اور مشہور و معروف عما رات ، کے ماڈل انتہائ سلیقے اور باریک بینی سے بناۓ گۓ ہیں ،، قریبا" ہر ماڈل 15/ 20 فٹ لمبا ئ، اور چوڑائ میں جگہ گھیرے ہوۓ تھا ، اس کے علاوہ مشہور ایئر پورٹس ، جہاں کچھ جہاز کھڑے اور کچھ روبوٹ ہوائ جہاز چل بھی رہے تھے ،، نیز ایک جگہ بحری جہاز بھی آنے جانے کا مظاہرہ کر رہے تھے ،، کچھ عمارات، برٹش دور کی تھیں ، جو دیکھتے ہی پہچان لی جاتی ہیں کہ ، انگریز جہاں گۓ اپنی تہذیب ، اپنے طرزِ تعمیر کو ضرور متعارف کروایا ۔۔ یہاں بھی بغیر برآمدوں والی دومنزلہ عمارتیں ، جو ذیادہ سفید پینٹ میں تھیں ، بنائ گئیں تھیں ، اور یہ دفاتر کے طور پر استعمال کی جاتی تھیں ۔ یہ ایک ایسا وزٹ تھا ، جو ایک دو گھنٹے میں سارے ترکی کا تعارف کرا دیتا ہے ۔
اور اب ہمارا آدھے سے ذیادہ دن گزر چکا تھا ،، نشمیہ ہمارے گروپ کی واحد بندی تھی جسے ہر وقت شاپنگ کی فکر رہتی ،، اور بچہ پارٹی تو ( کہیں جا کر ) ویسے بھی کھانے پینے کی فکر کو اولیت دیتی ہے ۔ شام ہوتے ہی کسی ہوٹل کی تلاش ہوئی ، لبنیٰ کو یاد آیا کہ اس کے داماد نے کہا تھا " میٹر کباب " کا تجربہ ضرور کرنا ، زرک یا ایمن ثمن نے گوگل سے وہ ریستورنت تلاش کیا ، یہ ایک اچھا ، معیاری ، ریسٹورنٹ تھا ،،، لفظ صاف اب استعمال نہیں کروں گی کہ ہم جہاں گئیں ، کھانے پینے کی جگہیں اور کھانے کی اشیاء نہایت صاف ستھری تھیں ، کہ بےفکر ہو کر کھائی جا سکتی ہیں ، اور سب سے بڑھ کر حلال ۔ سب سے پہلے سبھی باری باری واش روم گۓ ، اور جب واپس آۓ تو یہ لمبا ٹیبل ، چار پانچ قسم کے سلاد سے سجا ہوا تھا ،، بھوک تو تھی ہی ، چناچہ آرڈر دینے اور آرڈر کی ڈش آنے تک ہر قسم کے سلاد کو چکھا ، بلکہ خوب کھایا جا چکا تھا ۔ 
ترکوں کی صحت کا راز بھی یہ ہی ہے کہ یہ لوگ سلاد سے خوب پیٹ بھرتے ہیں ، جس کے اوپر یا تو زیتون کا تیل ، معمولی مقدار میں میں ڈالا جاتا ہے ،، یا ،، کچھ تلے بادام اور مزیدار تلی بینز ہوتے ہیں ، یا میونیز !! اور اسکے ساتھ ، روٹی کی پرواہ نہیں کرتے البتہ گوشت کے دو تین ٹکڑے ضرور ہوں ، ہم نے ایک مزدور کی بنیادی خوراک بھی یہ ہی دیکھی ، اور ایک خوشحال بندے کی بھی بنیادی خوراک یہ ہی دیکھی ، ذرا پیسہ ہےتو مچھلی بھی کھائی جاتی ہے ،، یہ ایسی صحت مند خوراک ہے کہ یہاں چہروں سے ہی صحت مندی ، اور اطمینان جھلکتا دکھائی دیتا ہے ۔ کم ازکم سر پر چھابڑی سجاۓ سادہ ترین بندہ بھی پینٹ ، شرٹ میں ہاتھوں پر گلوز پہنے اپنا مال بیچتا نظر آۓ گا ، مغربی لباس ہی اب ان کا قومی لباس بن چکا ہے ۔ 


خیر کچھ دیر بعد ایک لمبی لکڑی کی ٹرے پر وہ ڈش آئی جسے " میٹر کباب " کا نام دیا گیا ہے ،،یہ دراصل ایک میٹر ( میرے خیال میں ایک گز) لمبا اور پانچ چھے انچ چوڑا ٹرے تھا جس پر " خُبس " ٹائپ لمبائی میں بنی روٹی تھی ، اور اس روٹی پر تین چار گول کباب ، تین چار سیخ کباب ، چار پانچ دنبے کی چانپیں اور ان سب کے اوپر سبز مرچیں ، سلاد کی مختلف اشیاء سجائی گئیں تھیں ،، تو گویا کباب اور چانپیں تو وہی تھیں ،، بس ذرا " پریزنٹیشن " سجاوٹ ، کے انوکھے انداز نے اسے منفرد بنا دیا ،، ہم بڑوں کو کچھ مایوسی ہوئی ،، لیکن کھانا تو تھا ہی ، کھانے کا ٹیسٹ ، بہت اچھا تھا لیکن بچوں نے چربی میں پکی چانپوں کو کھانے سے انکار کر دیا ، یہاں ہمارا تجربہ یہ رہا کہ ، شاید یہاں بکرے نہیں پالے جاتے ، دنبوں کے گوشت کے یہ عادی ہیں اس لیۓ ان کے لیۓ نارمل ہے ، بچوں نے کباب تو کھاۓ لیکن چانپوں کو ہمیں پیک کروانا پڑا ،، چونکہ ہم گروپ کے حساب سے تین میٹر کباب منگوا چکی تھیں ۔ لیکن اچھا تجربہ رہا ، اگرچہ کچھ مہنگا ، لگا ،، اس لیۓ ترکی جا نے والوں سے یہ کہوں گی ، کہ ان کے کھانے ضرور ٹراۓ کریں لیکن ، کم مقدار میں منگوائیں ۔ کم مرچ والے کھانے ہیں جو ہر قوم کے لیۓ قابلِ لذتِ دہن ہیں ۔
( منیرہ قریشی 14 اگست 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری