ہفتہ، 30 مارچ، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( رپور تاژ۔9)

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( رپور تاژ۔9)
مانچسٹر کے نواح کے اس نا معلوم جنگل کی خوشبو کے چھڑکاؤ نے دل موہ لیا تھا ۔۔ اُس نے گہرائی میں اُگے رنگین جنگلی پھولوں کے تختوں سے ہوا کے جھونکے کو بھیج کر خوشبو کشید کر کے ہم پر جو مسحور کن عطر بیز سپرے کیا تھا ،، وہ احساسِ تفاخر جا ہی نہیں رہا تھا ۔ احساس ہوا ،کہ درخت اپنے چاہنے والوں سے کیسی فیاضی سے اظہارِ محبت کرتے ہیں ۔ اور ہم انھیں ایک بے جان چیز سمجھ کر بے اعتنائی سے گزر جاتے ہیں ۔
قدرت کے خالص نظاروں میں صحرا ، جنگل ، ویرانے میں سبزہ ،، پانی ،، درخت اور جنگلی حیات وہ مندرجات ہوتے ہیں کہ انسان کو زندگی سے عجب دلرُبا پیار ہو جاتا ہے ۔ اور اب کئی دن کے بعد بھی " ایش ورتھ " کے جنگل کی خوشبو دل و دماغ میں بس گئی تھی ۔ چند ہفتے مزید گزرے کہ پاک وطن کی مشہور و معروف ادیبہ اور کامیاب ڈرامہ نگار ،، محترمہ فاطمہ ثریا بجیا " کا ایک انٹرویو دیکھنے کو ملا ،، جس میں وہ ریاست میسور کی سیر کا کچھ احوال بتا رہی تھیں ،، کہ " جہاں ہم نے بہت سے اہم تاریخی مقامات دیکھے ،ٹیپو سلطان کے خوبصورت، محلات ، جائے شہادت اور، میوزیم دیکھا ،، لیکن آنے سے ایک دن پہلے ہمارے گائیڈ نے پوچھا " کیا آپ صندل کے جنگل کا مشاہدہ کرنا چاہییں گی، جو یہاں کی وجۂ شہرت ہے " ،،، میں نے کہا " کیوں نہیں ،، اور ذہن نے ایک دم صندل کی خوش کن خوشبو کو جیسے قریب ہی محسوس کر لیا ہو " ،،، اگلے دن گائیڈ کی معیت میں صندل کے جنگل میں پہنچے ،،، یہ خوب گھنّا جنگل تھا ،،، لیکن یہاں خوشبو ندارد ،، یہ کیا ؟ وہیں جنگل کے دو رکھوالے بیٹھے تھے ، انہی سے پوچھا ،، یہ تو صندل کا جنگل ہے ، تو خوشبو کہاں ہے ؟ انھوں نے کہا ، ماں جی آپ کو نہیں معلوم "" صندل کا درخت جب تک زندہ ہے ، تو چھاؤں دیتا ہے ، مر گیا تو خوشبو دینے لگتا ہے "" یہ درخت نہیں یہ تو ماں ہے ،، جو زندہ ہے تو چھاؤں دیتا ہے ، مَر گیا تو خوشبو چھوڑ جاتا ہے ""
یہ انٹرویو اعلیٰ سوچ ، بہترین الفاظ کی عکاسی تھا ،،
تب یہ خیال آیا ، انٹرویو کے یہ الفاظ درختوں کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے ۔ اور دوسرا خیال یہ آیا کہ کچھ درخت بھی " غازی اور شہید ، جیسا کردار، ادا کر جاتے ہیں ،، کہ زندہ ہیں تو چھاؤں ، پھل ، ٹھکانہ ، محافظت ۔۔۔ اور مَر گئے تو خوشبو کا خزانہ چھوڑ جاتے ہیں تو مَرے کہاں ،، ؟؟وہ تو شہید ہیں کہ کبھی گھروں میں اس خوشبو دار لکڑی سے کارنس بن گئی ، کبھی کوئی کرسی ، کبھی الہامی کتاب کی رہل ، اور کبھی ہاتھوں کی انگلیوں میں پھِرتی تسبیح !! کہ جب طبیعت بوجھل ہوئی ، اسے سونگھ کر بشاشت پا لی ۔
گویا فطرت کی سادگی میں ہی پُر کاری ، اور جاذبیت کا جزوِ اسے مسحور کر دینے والی تاثیر دیتا ،، اور اس پر خوشبوؤں کا اضافی ، استقبال !!!
یہی تو ایک واضح پیغام مِل رہا ہوتا ہے ، ہم انسانوں کو ۔ کچھ تو ایسا کر جاؤ کہ جانے کے بعد تمہاری باتوں کی ، قربانیوں کی ، ایثار کی خوشبو تا دیر
یادوں میں شامل رہے ۔
کیسا خوبصوت شعر جانے کس خوبصورت شاعر کا ہے
؎ چھاؤں دیتے ہیں جو صحرا میں کِسی کو
دل میرا ، ایسے درختوں کو وَلی کہتا ہے

( منیرہ قریشی 31 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) 

جمعہ، 29 مارچ، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( رپور تاژ) 8 ۔

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( رپور تاژ) 8 ،
ٹینڈل ہل پارک ،،، کے نیم برہنہ ، لیکن قدرِ بیزار اور خاموش جنگل نے متاثر تو کیا ،،، اور دل بھی اس کی طرف کِھچا ، لیکن جانے کیوں مجھے یہ واضح پیغام ملا ،،، " ٹھیک ہے تم آئیں ، ہمارے دکھ کو محسوس کیا ۔ ہم سے باتیں کیں ،، بلکہ ہماری داستانِ حسرت زیادہ سنی ۔۔ لیکن اب تب آنا جب ہمارے ہی غم میں شریک لوگوں نے اپنے اپنے بزرگوں کو درختوں کے تحائف دے کر ہمیں نئے ممبران دے دئیے ہیں ،، اگر پھر آنا ہوا تو تب تک یہ نوخیز درخت جوان ہو چکے ہوں گے ، اور یہ سب تمہیں خوش آمدید کہیں گے ۔ ہم تمہیں ویسی گرم جوشی سے نہیں ملے جو تمہارے تصور نے پہلے کے تجربات کے تحت سُجھا دیئے تھے۔ اب کیا کریں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی نے ہمارے لہجے کو بیزار سا کر دیا ہے ۔،،، جنگل کے اس ذخیرے کی بُڑبڑاہٹ چلتی چلی جا رہی تھی کہ واپسی کا اشارہ ملا ۔ میں خاموشی سے انھیں الوداع کہے بغیر ہی چلی آئی ۔ دل اداس تو ہوا لیکن اِک گُونا تسلی بھی کہ انھوں نے میری آمد پر اپنے گھنے درختوں کے سائے میں ڈرایا تو نہیں تھا ۔ بلکہ اپنا دکھ بانٹا تھا ۔
ابھی دن کا آدھا حصہ ہی گزرا تھا جب واپسی کے سفر میں مہربان میزبان نے گاڑی گھر کی بجائے ایک سِمت موڑ دی ،،، اور ساتھ ہی بتا دیا ،،، یہاں ایک اور کارنر ہے جسے بہت پہلے میں نے دیکھا ،،، اور دل میں جگہ کر گیا ،، یہاں سے قریب ہی ہے ،، دیکھتے چلتے ہیں !!! اور مَیں نے دل میں کہا " دیکھنے ،،! ؟بلکہ ملتے چلتے ہیں " ،، کچھ دیر کے سفر کے بعد ایسی جگہ پیدل چل پڑے ، جو آس پاس بالکل فلسفیانہ خاموشی میں گھِری ہوئی تھی ،، ایک ذیلی سڑک سے اندر پگڈنڈی کی طرف مُڑے ،،، چند گز پار کئے ہی تھے ، صاف محسوس ہو گیا ،، یہ حصہ عام لوگوں کی آمد ورفت والا نہیں ، یہاں وہی آتے ہوں گے ، جو ایسے چُھپے گوشوں کی محبت میں غرق ہوں ،، چند قدم مزید آگے بڑھیں ، کہ یکدم ،،، تیز خوشبوکا جھونکا چہرے اورجسم سے ٹکرایا ،،، گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھا ، کیا واقعی اتنی معطّر و مقَطر عطر سے استقبال ہوا ہے ؟؟ کیا واقعی ؟ میں حیرت ، انبساط ، اور خوشی سے سرشار ہو گئی ۔ شکریہ پیارے جنگل !! گھنے درختوں نے جیسے بیک وقت تالیاں بجائیں ۔ ایک بزرگ درخت نے سب کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا،
" کتنے ہی سالوں بعد کسی نے یہاں ہمیں کھوج نکالا ۔ ہم کب سے منتظر تھے،، کہ کوئی ہمیں سراہنے والا آئے ۔ یہ میزبان لڑکی کئی سال پہلے یہاں آئی تھی ۔ یہ فطرت کی عاشق تو ہے لیکن ،، ابھی ہم سے ہم کلام ہونے کے کُلیئے سے نا آشنا ہے ۔۔۔ ہم اتنے خوش ہیں کہ تم پر خوشبو بھرے پھولوں کے عطر کا چھِڑکاؤ کر دیا ۔ آتی رہا کرو ، آتی رہا کرو ۔۔۔کہ روح کی بالیدگی ذکر و فکر کے علاوہ قدرت کے نظاروں سے بھی ہوتی ہے ! "
یہیں ایک جگہ سے پانی کے بہاؤ کا مدھم سُر سنائی دیا ، آگے بڑھ کر گہرائی کی طرف جھانکا لیکن وہ پانی ایک شانت پتلے چشمے کی صورت قدرِ گہرائی میں بہہ رہا تھا ، کچھ اُوپر سے جھانکنے پر چشمہ جیسے سُکڑ گیا ،، اور مزید کسی گہرائی کی طرف چُھپ گیا اسی کے کنارے رنگین جنگلی پھولوں کے تختے بچِھے ہوئے تھے ۔ قدرت اپنے حُسنِ کرشمہ ساز کو خالص رکھنے میں اسی لئے کامیاب رہتی ہے ، کہ وہ غیر اہم ، بیگانی نظروں سے خود کو دُور رکھنا پسند کرتی ہے ۔ تاکہ صرف ستائشی نظروں پر اپنے جلوے کھولتی ہے ۔ ،،، ہم پر حُسن کے جادو نے خاموشی طاری کر دی ۔ دل کی ٹِک ٹک مسلسل "سُبحان اللہ ،سُبحان اللہ ،، کا وِرد کرتی چلی گئی ۔ آنکھیں بند کر کے اس کے نظاروں کی تصویر دل پر اُتاری ، لمبے لمبے سانس لئے کہ مدت بعد ، " رنگین خوشبو دار پھولوں سے لَدی خاموشی" کو دل و دماغ میں ریکارڈ ہوتا محسوس کیا تھا ۔۔ استقبالیہ بھی مہمانِ خصوصی جیسا ملا تھا ۔ اِس جنگل نے اپنا تعارف ASH WORTH کے نام سے کروایا ۔ ،، اور گھنے درختوں کے نیچے اُگے کاسنی اور گلابی پھولوں پر ہاتھ پھیرتے واپسی کی راہ لی ۔۔ کہ جیسے کچھ دیر اور رُکیں ، تو اسی خوبصورتی کا حصہ ہی نہ بن جائیں ۔ لیکن " انسان تو خسارے میں ہوتا ہے " وہ اس مختصر زندگی کے لئے نئی نئی آسانیاں کھوجنے ، اپنانے میں وقت صَرف کرنا پسند کرتا ہے ۔ آہ ،، انسان بے شک بڑے گھاٹے کا سودا کرتا ہے َ!!
ہمارے دل کی وہ اداسی دُھل سی گئی جو ڈینڈل ہل کے درختوں کی وجہ سے اثر دکھا رہی تھی۔
( منیرہ قریشی ، 29 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) جاری !


جمعرات، 28 مارچ، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (7)

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (7)
مانچسٹر کی اس، گلابی موسم ، کی چمکیلی خوبصورت صبح تھی ،،، اور پچھلے لان سے ملحقہ چھدرے جنگل سے صبح کا سلام کرنے پہنچ گئی کہ اب اپنی گاڑھی ہوتی دوستی میں مزا آنے لگا تھا ،،، پہلے سلام ، اور پھر کلام ، ہوتا ،، وہ مجھ سے محبت بھری سر گوشی میں پوچھتا !! " رات کیسی گزری ؟ کیسے خواب دیکھے ؟ کچھ نیا لکھا ؟؟ ۔۔۔ میَں مسکرا کر جواب کے بجائے ، اسی کو سوال کر بیٹھتی ، تم سناؤ ! کیا رات کو لومڑیاں آئیں تھیں ، اپنا وہ کھاجا کھانے ، جو میں نے تمہاری جڑوں کے پاس رکھ چھوڑا تھا ،،،؟ تو پتوں بھری ٹہنیوں نے قدرِ جھک کر اشارہ کیا " دیکھو تو وہ گتے کی پلیٹ خالی ہے ، بلکہ میٹھی گوگیاں جو تم اپنے وطن سے لائیں تھیں ،،، اسے دو ماں بیٹا ہرن آئے تھے اور چٹ کر گئے ، وہ اس نئے ذائقے سے بہت نہال ہو رہے تھے ، اگر اور ہیں تو وقفے سے ڈال دینا ،،، وہ اس کاسنی پھولوں والے پودوں کے درمیان کبھی کبھار چکر لگانے آ جاتے ہیں ،،، اور یوں ہماری رات کچھ اُن سے گپ شپ میں گزر جاتی ہے " ۔ نوجوان ، تندرست درخت نے رات کی ساری رودار سنا ڈالی ،، اور مزید کہا ۔۔ " اگر آج باہر جانا ہوا تو پُر جوش میزبان سے کہنا تمہیں ،، 'ٹینڈل ہل پارک ' لے جائے ،، وہ ہم سے کہیں زیادہ پرانا جنگل تھا ،، جسے کوئین ز پارک کی طرح لوگوں کے لئے تیار کر دیا گیا ہے ،،، تم جاؤ گی تو وہ خود اپنی کہانی سنا دے گا" ،،،
اس چمکیلی ، پُر سکوں صبح ٹینس کی بال جتنی بڑی سٹرا بیریز کا ناشتہ ہوا ، تو " ٹینڈل ہل پارک " کا ذکر کیا گیا ، تو محبتی میزبان جو خود بھی سیلانی روح نے فوراً کہا " چلیں آج شام کی چائے اسی کے پارک میں جا کر پیئں گے ۔ دل پہلے ہی پُر جوش تھا ،،،، میں نے جنگلوں کو نہیں ، انھوں نے مجھے چُن لیا تھا ،،، تبھی تو ایک غیر اہم ، چھدرا سا یہ جنگل اپنے ایک سینئر سے ملنے کا مشورہ دے رہا تھا ،، میں کچھ دیر کے لئے خود پر نازاں ہوئی کہ مجھے ان جنگلوں نے اپنی دوستی کے قابل سمجھ لیا ہے ،، اے خالق تیرا شکر ، تیرا کرم !!! ورنہ اگر یہ مجھے ڈراتے تو میں کیا کر سکتی تھی ۔ میں کبھی ان کی باتیں نہ سمجھ پاتی ۔۔۔ اور کبھی ان کی صحبت میں اتنی خوشی محسوس نہ کر سکتی ۔
سہ پہر تک چائے کا کچھ سامان لے کر شاندار گھروں کی ایک سڑک کے درمیان سے گزرے ، جہاں اس سڑک کا اختتام تھا ۔ وہیں گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ بنی ہوئی تھی ،،، ایک برائے نام سا گیٹ تھا جس پر تکلفاً ایک تالا لٹک رہا تھا ، البتہ سائڈ کا چھوٹا گیٹ ہر آنے جانے کو خوش آمدید کہہ رہا تھا ،،، جسے کوئی لمحے بھر کو بھی نہیں دیکھ رہا تھا کہ ہر داخل ہونے والے کی نظریں سامنے نہایت ترتیب سے دئیے راستہ اپنی گرفت میں لے رہا تھا ،،، ابھی شروع کی فرلانگ بھر راستے کو خوبصورت سبز گھاس اور بنچوں سے آراستہ کیا گیا تھا ۔ اسی کے نزدیک ایک کینٹین بھی بنائی گئی تھی ،،، جہاں ذیادہ تر مائیں اپنے بچوں کے ساتھ براجمان تھیں ،، کہ ان کے بچوں کی کچھ پسندیدہ خوراک مل رہی تھی ،،، ایک بنچ پر چائے کے لوازمات رکھ کر آس پاس پھیلے درختوں کی طرف نظر ڈالی ، دل کی دھڑکن پھر تیز ہوئی ،،، کہ یہاں جنگل کو گھنا تو رکھا گیا تھا لیکن کہیں کہیں راستہ صاف بھی بنا گیا تھا ،،، قریب ترین گھنے درختوں کے اوپری شاخوں سے گتھے دائرے تک پہنچنے کے لئے ڈھلوان راستہ طے کر کے جانا ہڑا ۔ وہاں پہنچی تو اس روشن سہ پہر کو بھی یہاں ٹھنڈک اور نیم اندھیرا تھا ،،، نہ صرف سانس درست کرنے تھے بلکہ جنگل کے اس احاطے کو اپنی آمد کا اندراج بھی کروانا تھا ، یہاں کوئی بنچ نہیں تھا کہ کچھ دیر وہیں بیٹھ جاتی لا محالہ ، انہی درختوں میں ایک کے تنے کا سہارا لیا ،، اور جیسے میری کلائی کسی نے پکڑ لی ،، مجھے اس گرفت میں دوستانہ احساس بھی ہو گیا ،،، خوش آمدید ،،، جنگلوں کی محبت کی اسیر !! ہمیں چھدرے جنگل نے کہلوا دیا تھا ،، کوئی مشرق سے آئۓ ہیں ،، اپنی چاہتوں کا یقین دلانے ،،، تم اچھے وقتوں میں آئی ہو ،، ورنہ ہم تو تین چار میل کے دائرے میں پھیلا وہ جنگل تھے کہ رات تو رات ،، دن کو بھی یہاں سے کوئی گزرنا پسند نہ کرتا تھا ، دیکھو تو یہ سامنے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ابھی بھی گھنے درختوں سے لدی ہوئی ہیں جہاں جنگلی حیات آرام سے رہ رہی ہے ۔ 1861ء تک اس جنگل نے باغیوں کو محفوظ پناہ گاہیں بھی مہیا کیں ، جو اس دور کے بادشاہوں کی نیندیں حرام کئے رہتے ،، آخر کار یہ دورانیہ گزرا اور فیصلہ ہوا باغیوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کا یہی حل ہے کہ جنگل چھدرا کر دیا جائے ، لیکن زمینی سطح اسی طرح اونچی نیچی ،،، بلکہ مزید نیچی ڈھلانیں موجود رہیں ، جہاں لمبے لمبے درخت گہرائی سے اٹھتے چلے آتے ہیں اور لوگوں کے قدموں تک ان کی چوٹیاں چھوتی کرتی ہیں ۔ "لو،،، تم دیکھ رہی ہو نا، کچھ جگہوں پر ہم درختوں کو کچھ زیادہ ہی کاٹ ڈالا گیا ہے ، اب ہم اپنے کمزور ذخیرے پر اداس رہتے ہیں ۔ ،، تم نے اس اداسی کو محسوس کیا ،،، اس وقت مجھے احساس ہوا ،، اس پرانے جنگل ، لیکن نئے پارک میں کوئی گرم جوشی محسوس کیوں نہیں ہوئی ،، اس کے کافی بڑے علاقے تک گھومنے پر علم ہوا کہ بہت سے نئے درختوں کے گرد جنگلا لگایا ہوا تھا ،،، ہر درخت پر کسی بیٹے ، بیٹی ، پوتے پوتی نے اپنے بزرگوں کے نام لکھ کر ان کی یاد میں یہ درخت لگائے تھے ،، اوہ !! تو یہ بات تھی کہ تیزی میں کانٹ چھانٹ نے جنگل کو نیم برہنہ کر ڈالا تھا ،، اور انسانوں کے اس سلُوک نے اس کی خوش مزاجی مدھم کر ڈالی تھی ،، اب نئی نسل مداوا کرنے میں کوشاں تھی ،، " جتنا اس گھنے لیکن کٹ لگائے " گئے جنگل نے اپنے محسوسات شیئر کئے ،،، اس نے مجھے خاموش کر دیا تھا ۔ لیکن دکھی نہیں کیا تھا ، کہ اب چند عشروں میں یہ جنگل اپنا دبدبہ پھر حاصل کر لے گا ، کہ ہر وہ قوم جو اس شعور سے آگاہ ہو جائے ،، کہ " ہم درختوں سے ہی یہ قدرت کے نظارے مکمل ہوتے ہیں ، اور قدرت کہیں بھی ہو وہ سبز رنگ سے عاری ہو ہی نہیں سکتی ۔ سارا ماحول قدرت سے میل کھاتا ہوا ہو یہ تبھی ہو گا کہ جب سبز کا ہر شیڈ آس پاس ، ہر کونے سے جھلک دکھا رہا ہو ۔۔! "

( منیرہ قریشی ، 28 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) 

پیر، 18 مارچ، 2024

جنگل کچھ کہتے ہیں" ( رپورتاژ)(4)


جنگل کچھ کہتے ہیں" ( رپورتاژ)(4)
جنگل محض درختوں کا محدود یا وسیع ذخیرہ ہی نہیں ہوتا ،،، یہ وہ سانس لیتی حسّاس مخلوق ہے جو اظہار اور رویہ دکھاتے ہیں،، جہاندیدہ ، درختوں کا جھنڈ ، سَر جوڑے اپنے دیکھے ، سنے تجربات کو آپس میں بانٹتے رہتے ہیں ۔
کچھ ایسے ہی جنگل میں جانا ہوا ،،،جس کی عمر وہاں کے باسیوں کے مطابق دس ہزار سال سے زیادہ تو ہو سکتی ہے کم نہیں ۔ مغربی ماحول ، تہذیب وتمدن اور کم آبادی نے اس کو ایک فائدہ ضرور دیا تھا کہ صاحب اختیار طبقے نے اسے قدرتی حسن میں ہی رہنے دیا۔ شاید اسی لئے ہیبت اور کچھ اس کی قدامت نے اسے احترام دلائے رکھا ۔ جب اس جنگل کے ایک داخلی راستے سے اندر جانے لگے تو وہاں پہلا حفاظتی دستہ خاموشی کا تھا جس نے، ہمیں اپنے حصار میں لے لیا ۔ چند قدم کے بعد ہی خوب گھنے درختوں پر مزید خاموشی چھا گئی ۔ سوچا ، شاید ہم عصر کے وقت آئے ہیں اور مغرب تک اس جنگل کا داخلی در بند کر دئیے جانے کا نوٹس لگا ہوا تھا ،، اس لئے نہ تو یہاں کوئی سیاح نظر آئے ۔۔ اور نہ کوئی کھوجی طبیعت کے لوگ ، نہ زمینی چھپی مخلوق ۔ ہاں البتہ آٹھ دس مقامی لوگ ، اپنے گروپ میں سے کسی کی سالگرہ منانے رکے ہوئے تھے ۔ آدھ گھنٹے تک ان کی آوازیں بھی معدوم ہو گئیں ۔ حالانکہ اب جولائی کا آخر تھا اور دن کچھ لمبا ہو چکا تھا ۔ لندن کی گنجان آبادی سے ہٹ کر اس جنگل کی فضا میں دوستانہ گرمجوشی محسوس ہوئی ۔ ہم مطمئن ہو کر آگے بڑھے ،، مزید آگے ،، اور بوڑھے درختوں نے اپنے بہت چوڑے تنوّں کے ساتھ " جی آیاں نوں " والی مسکراہٹ پہنچائی ۔ چند درختوں کی کمر خمیدہ تھی ،، وہیں درمیان میں ایک پُر سکون چھوٹی سی جھِیل تھی ۔۔ جس کے ایک کنارے سے کہیں پانی مزید ابھرنے کی قُل قُل کی آواز سے شاملِ جھیل ہو رہا تھا ۔ جھیل کنارے نہایت چھوٹی لیکن عجیب و غریب پانی کی مخلوق بَسی ہوئی تھی ،، جانے کب سے ؟ اکا دکا نظاروں کو کیمرے کی آنکھ سے دل میں اتارا ،،، اور پھر مزید اندرون جنگل جاتی پگڈنڈی کی راہ کی طرف قدم بڑھائے ۔لیکن ،،، سامنے سفاری سوٹ پہنے ، لانگ بوٹ کے ساتھ،، سَر پر شاندار پگڑی باندھے ۔ برف سا سفید بالوں والا سر ، سفید خوب گھنی مونچھوں ،، سفید بھنوؤں اور کنپٹیوں سے نیچے آتی سفید داڑھی ،،،کے ساتھ سات آٹھ فٹ اونچی با رعب شخصیت نے راستہ روک لیا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی شاندار چھڑی بھی تھی ۔ میَں جیسے ساکت ہو کر رہ گئی ۔ اور پھر میرے منہ سے صرف اتنا نکلا ۔۔" آپ کون "؟؟
اس شاندار بزرگ شخصیت نے مسکرا کر ، مشفقانہ انداز سے کہا " میں تو سینکڑوں سالوں سے یہیں ہوں ،،،مگر تمہارے جیسی جانچتی ، محبت کی نظر ڈالتی روحیں کبھی کبھار آتی ہیں ۔ مجھے ہی Epping forest کہتے ہیں ۔ تمہاری درختوں کی محبت اور انھیں جاننے کی الفت سے ہم آگاہ ہیں ۔
خوش آمدید ، خوش آمدید ، اے چند گھنٹوں کی مہمان !!،،، اس کے بارعب لیکن دھیمے لہجے نے مجھے شانت کر دیا ۔ ایپنگ فارسٹ نے خود ہی میری سوچ پڑھ لی ،،، " تم یقینا" میری پگڑی پر حیران ہو رہی ہوگی ۔ ہم درختوں کے لئے ہر مُلک ، مُلکِ ما است ہوتا ہے ۔ ہم اپنے دور دراز کے ہم نفسوں کے پہناوے پہنتے اور خوش ہوتے رہتے ہیں ،، یہ پہناوے ان دور کے ملکوں سے آتے جاتے رہنے والے پرندوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچتے رہتے ہیں ۔ جوں ہی کوئی ہم سے ملنے آتا ہے ، ہم اسی کے دیس جیسا بھی کچھ پہن لیتے ہیں ،، یہ ویلکم کرنے کا انداز ہے " ۔۔ " تم جب وطن کو لوٹو گی ،،، اور جس بھی جنگل جاؤ گی ،، ان سب کو ہم سے اس ملاقات کا تائثر بتانا ، باقی ہماری پیغام رسانی ،، ان پیاری ہواؤں کے ذریعے ہوتی رہتی ہے "
" ابھی مغرب کا وقت ہوا چاہتا ہے "۔ ایپنگ فارسٹ نے اوپر کی جانب گھنی بھنوؤں کے ساتھ آنکھوں کو گھمایا ۔ "اور ہم بھلے کتنے ہی شفیق لگیں ۔۔ جنگل کا اندھیرا تم انسانوں کو کچھ نا کچھ پریشان کر دیتا ہے ۔ تب تم لوگوں کی پریشانی ہم سے دیکھی نہیں جاتی ۔ مجرمانہ ذہنیت کے انسان ہمارے اسی گھنے سایئوں کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ اور اپنے ہی ہم جنسوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں ۔ ہم یہ سب سنتے اور کڑھتے رہتے ہیں ۔ کیا کبھی ہماری آپس میں چھینا جھپٹی دیکھی ؟ ہم تو کسی کا پھل نہیں چُراتے ۔ نہ کسی سے حسد کرتے ہیں ۔۔۔ ہاں البتہ کوئی غم ذدہ ہو تو ہم اس کے ساتھ غمگین ضرور ہو جاتے ہیں ۔ بلکہ کبھی کبھی تو حساس درخت ، اپنے پیارے کے غم میں موت کو گلے لگا لیتا ہے ،،، تم نے فلسطینی شاعر محمود درویش کا نام تو سنا ہو گا ،، اس نے تم لوگوں کو پیغام دیا ہے کہ ' کوئی درخت کسی دوسرے کا مذاق نہیں اڑاتا ،
کوئی درخت ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرتا ،،،
جب درخت کشتی بن جاتے ہیں تو وہ تیرنا سیکھ جاتے ہیں ،
جب وہ دروازے بن جاتے ہیں تو وہ رازوں کو چھپانے والے بن جاتےہیں ،
جب وہ درخت کرسی بن جاتے ہیں تو وہ اُس آسمان کو نہیں بھولتے جو کبھی ان پر تنّا ہوتا تھا ۔
اور جب درخت میز بن جاتے ہیں ، تو ایک شاعر کو سکھاتے ہیں کبھی لکڑہارا نہیں بننا "
" ہڑپہ ،مونجو داڑو کی قدیم سر زمین سے آنے والے مہمانو !! اب لوٹ جاؤ ۔۔ کہ داخلی دروازہ تمہارا منتظر ہے ،، ہم سب کے خالق نے چاہا تو پھر ملیں گے "
آنے ، جانے والے کے لئے بنے نہایت معمولی سے پھاٹک کو پار کرنے سے پہلے ، ارادی طور پر اس پُراسرار ، قدیم ، اور دلچسپ جنگل پر الوداعی نظر ڈالی ،،، اور یہ دیکھ کر اچھا لگا ، کہ بزرگ جنگل ، سینہ تانے ہمیں الوداعی ہاتھ ہلا رہا تھا ،۔دس ہزار سال کے اس جنگل سے جانے کب ملاقات ہو ، نہ ہو۔

( منیرہ قریشی ، 18 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) ( جاری ) ( تصویر 4 ) 

اتوار، 17 مارچ، 2024

"جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (3)

"جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (3)
لفظ ' جنگل ' عجیب سا لفظ ہے ، یہ لفظ سنتے ، یا پڑھتے ہی ذہن میں درختوں کے جھنڈ کا تصور ابھرتا ہے ، جہاں چھتنار درختوں کے اندر ،، پُراسراریت ، خوف ، اور چھُپے رازوں کے دفینے ہو سکتے ہیں ۔ گویا قدرت اپنے اسرار عیاں کرنے کے لئے ویرانوں ، صحراؤں ، اور جنگلوں کو ایک سیڑھی کے طور پر مہیا کرتی ہے ۔ " اٹھو تو سہی ، کھوجو تو سہی ، سوچو تو ذرا ۔ یہ بظاہر بے زبان درخت ،، بے آب و گیا ویرانے ، صحرا میں بکھری ریت کچھ کہہ رہی ہے ،، لیکن کیا ؟؟؟
کبھی کبھی جنگل " گھنّے الفاظ " کی صورت دل و دماغ میں جگہ بنا لیتے ہیں ۔ یہ الفاظ یا تو بلند و بالا درختوں کی مانند ہوتے ہیں ،، یا کبھی چھدّرے درختوں کی طرح ،،، کبھی یہ خیالات خزاں رسیدہ ، پُژمردہ جنگل کی صورت میں ،، اور کبھی پھلوں ، پھُولوں ،، یا خوش رنگ پتّوں سے لَدے ،،، ہاتھ باندھے قطار در قطار خدمت گاروں کی صورت کھڑے نظر آجاتے ہیں ۔ بس یہ اشرف المخلوق کی کیفیت پر منحصر ہے ،، کہ جنگل کا فُسوں کس رنگ کی پچکاری چھوڑ رہا ہے ،،، حضرتِ انسان اس وقت کس دور سے گزر رہا ہے ،، کہ وہ جنگل کے اس رنگ کو کتنی توجہ دے رہا ہے ۔
الفاظ کے جنگل تو خود قدرت خداوندی کی عجب دین ہوتے ہیں ، کہ یہ جنگل " خوش حالی" کے نظاروں کو دکھا رہے ہیں تو ہر دن عید اور ہر شب ، شبِ برات ،،،، گویا جلترنگ لہجوں کی پسِ منظر موسیقی اس جنگل کو منگل بنا دیتی ہے ۔ یہ رنگین جنگل اندر کی قناعت سے ضرور مل جاتا ہے ، بس ذرا خلُوص اور شُکر گزاری کو آنکھوں کی نمی سے چھِڑکاؤ کرنا پڑتا ہے ۔
کبھی کبھار جنگل کا تصور ، تکلیف دِہ الفاظ ، کانٹے دار جھاڑیوں ،،، اور درندوں کی آوازوں کے خوف پر مبنی سفر بن جاتا ہے ، الفاظ کا جنگل ہر شخص اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتا رہتا ہے ۔ لیکن اسے محسوس نہیں ہونے دیتا کہ مَیں ، ہاں میں تمہارے ساتھ تھا ،، اور ہوں !!۔ کبھی یہ جنگل یا صحرا ، چھوٹا اور کبھی دمِ آخر تک ساتھ دیتا رہتا ہے ، لمبا راستہ ، لمبا فاصلہ، لمبی آزمائش،،،،
ایسے لوگ اگر اصل جنگلی حیاتِ و پات و بے زبانوں کے درمیان زندگی گزارنے کا ٹھان لیں تو ان کی روح تھور زدہ زندگی سے نجات پا سکتی ہے ۔ اسی لئے ایسے ہی گُھّنی لوگ جب دوسری دنیا میں منتقل ہوتے ہیں تو ان کی آخری آرام گاہ کی طرف پھیرا ڈالنے والے فوراً محسوس کر لیتے ہیں ،، "کیسا سکون ہے یہاں ، کتنی مدھرتا ہے ،، جیسے وقت رُک گیا ہو ،،، جیسے خاموشی کہہ رہی ہو ،
؎ میَں تھکیا ٹُٹیا ہویا راہئ !!
تُو ککراں دی چھاں نی کُڑیئے
( میں زندگی کے سفر سے تھک کر آیا ہوں ، اے میری ساتھی ، تمہارا وجود اس وقت میرے لئے ککر کی چھاؤں کی طرح ہے )
جنگل تو صاف پیغام دے رہے ہوتے ہیں ،، ہم سے دوستی کر کے تو دیکھو ! کبھی گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا ،
قدرت اللہ شہاب صاحب ،کو اپنے لڑکپن میں جس خالصہ سکول امتحان دینے جانا پڑا ،، انھیں یہ راستہ ایک چھوٹا لیکن ویران جنگل پار کر کے جانا پڑتا تھا ،، شروع کے دو چار دن ان کا پرانا بزرگ ملازم چھؤڑنے ، لے جانے کا فریضہ ادا کرتا رہا ، پھر اکیلے آنے جانے لگے ،، یہی دن تھے جب جنگل نے انھیں ،، خوف ، دہشت ، اور اسرار کے جذبوں سے آزاد کرنے کی تربیت دے ڈالی ۔ جس نے بعد کی زندگی میں بارہا ، دہشت اور اسرار سے مُکتی دلا دی ۔انھیں خاص تجربات کے لئے تیار کر دیا ، جرات ایمانی ایسے ہی لوگوں کے لئے ہر اَن دیکھی طاقت کے مقابلے کے لئے " گُرز" بن جاتی ہے ۔ اُسی جنگل نے انھیں سبق پڑھایا ،،
ڈرو مت ، یہ آوازیں درختوں کی سرگوشیاں ہیں ۔۔۔ ہوائیں ان درختوں تک دُور کے جنگلوں کے پیام لے کر آتی ہیں ۔
یہ کھَڑک ،یہ سایہ محض جھاڑیوں میں چُھپی کسی لومڑی ، کسی خرگوش یا کسی رینگتی مخلوق کا ہے ۔ جو تم سے خود ڈر رہی ہے ، شرما رہی ہے ۔
اور یہ جو تم کبھی ساکت و ساکن ماحول سے خوفزدہ ہوجاتے ہو ، کہ اتنی خاموشی کیوں ،،، تو جنگل بھی تو کبھی آرام کے لئے آنکھ چھپکا لیتے ہیں ۔
ایسے ہی جنگلوں نے ایسے نفُوس کو اپنی فراست سے قدرت الہی کے نرالے رُخ دکھا دئیے ، شہاب صاحب کی طرح کے نرالے تجربے سے وہ ملائیشین بزرگ بھی بچپن میں گزرا ، کہ اُسے بھی ایک چند میل کے گھنے جنگل سے گزر کر سکول پہنچنا ہوتا تھا ، اسے دو تین دن مسلسل رہ کر کلاسز لے کر پھر اسی جنگل کو پار کر کے واپس گاؤں پہنچنا پڑتا ، ایک چھوٹے بچے کو جنگل سے گزروانے کے لئے کسی بڑے کا ساتھ میسر نہیں تھا ،، اور سب گھر والے جو بدھ مت کے پیرو کار تھے اس فلسفے کے تحت کتنے شانت تھے کہ " جنگل بے ضرر انسان کی خود حفاظت کرتا ہے ،، اور واقعی جنگل کی ان دیکھی مخلوق نے اس دس بارہ سالہ بچے کو اکثر بھٹکنے سے بچایا ، اسے اپنی چھَٹی حِسّ سے تیزی سے کام لینا سکھایا ، جنگل نے اپنی خاموشی سے ڈرایا نہیں تھا بلکہ طبیعت پر خوف اور ڈر کے گڑھے پنجوں سے اسے آزاد کروا دیا ۔ اور یوں اپنے ہم عمر ساتھیوں کی نسبت اس میں سکون ،فراست ، بُردباری اور بہادری کی صفات بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ جنگل بھی کبھی کبھی کیسا دانا استاد کا کردار نبھاتا ہے ۔
اس نے اس ملائیشین جوان ہوتے لڑکے کو مستقل مزاجی سے حالات کا مقابلہ کرنے اور صبر سے نتیجہ آنے کی صلاحتیں پختہ کر کے انسانوں کے رنگین جنگل میں دھکیل دیا ، جاؤ کہ تم وہیں جچتے ہو ،،خوب کماؤ ، کھاؤ اور کھلاؤ ،، لیکن باطن کے صبر اور سکون کو نہ بھُلانا ،۔ ہم نے تمہیں کچھ دینے اور سِکھانے میں بُخل سے کام نہیں لیا ،،، تم بھی انسانوں کے جنگل میں کوئی بُخل نہ دکھانا ۔ اپنی اچھی صلاحیتوں اور محنت سے کمائے مال پر بُخل کا سانپ بن کر نہ بیٹھ جانا ۔ ورنہ باطن کا روشن چہرہ مسخ ہو جائے گا ۔
ہر جنگل بانٹو ،، بانٹو ،، کا نعرہ لگاتا رہتا ہے ،، چاہے یہ محبت کا جذبہ ہے ، یا کچھ سیکھے ہُنر کو بانٹنے کا ،،، چاہے پُر خلوص مشاورت کا ،، چاہے صبر و قناعت اپنانے کا گُر ،،، بانٹتے رہنا کہ کھڑا پانی ، بُو چھوڑ دیتا ہے ۔ اور بہتا پانی میٹھا اور خوشگوار ہوتا ہے ۔ اور یہ بزرگ جھونپڑی سے محل تک پہنچے لیکن بانٹتے چلے گئے ۔۔ اور اپنا قیام جنگل کنارے نہایت چھوٹے سے گھر پر رکھا ، کہ استاد سے دوری گوارا نہ تھی ۔ وہ جان چکا ہے کہ میری تیسری نسل ، میرے استاد کا احترام ، مجھ سے سیکھ گئی تو میری کامیابی کا راز جان لے گی ۔

( منیرہ قریشی ، 17 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) ( جاری ) (تصور 3) 

بدھ، 13 مارچ، 2024

"جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (2 )

"جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (2 )
پُلوں کے نیچے سے پانی گزرتا چلا گیا ۔ لوحِ محفوظ میں جو لکھا ہو وہ اپنے وقت پر ہی سامنے آتا ہے ۔ چاہے ، کسی سے ملاقات ہو ؛ چاہے کسی واقعہ کا پیش آنا ہو ۔۔ یا کسی کام کا یکدم ہو جانا ہو ۔
کچھ ایسے ہی بباطن کی اس انوکھے ذوق اور چھٹی حّس میں سے اس سمت کی عجب حساسیت تھی جو ساتھ ساتھ تھی ،،، درختوں کی موجودگی مجھےبےچین کر دیتی ہے ،،، کیوں وہ کچھ باتیں کرتے ،، اشارے کنائے سے متوجہ کرتے محسوس ہوتے ہیں ،،، ایسی پیام رسانی کوئی اور کیوں محسوس نہیں کرتے ، اس بات پربمیں حیران رہتی تھی۔
درختوں کی موجودگی سے لوگوں کی گفتگو پر متوجہ ہونے کے لئے مجھے کچھ مائل و قائل ہونا پڑتا تھا اور ہے !! ،،، لیکن یہ سب گفت و شُنید ،،، مجھے اپنے سفر کا حاصل وصول ہوتی تھی ،،، اور ہے !
مری میں نتھیا گلی ، ایک شام کو پہنچے ،،، ایک اونچی پہاڑی پر بنے ریسٹ ہاؤس میں ایک رات کا قیام تھا ۔ شام تھی اور وہ بھی پہاڑ کی شام ،،، اونچے لمبے چیڑ اور کچھ مختلف النوع درختوں سے گھِِرا ۔۔۔ آس پاس کی خاموش فضا میں لپٹا ماحول تھا، ہم دنیاوی مصروفیات کو اولیت دیتے ہوئے محض یہاں کی ٹھنڈک کو انجوائے کرتے ہوئے ، کمروں کے آرام و سکون کو جانچتے رہے ، ،،، جانے کب کی رہتی ایک جوان لڑکی کی آتما سے بھی کچھ لمحوں کی رونمائی ہوئی ۔ پھر رات بھر کے لئے غائب بھی ہوئی ،،، صبح خیزی ،، کے ذہنی الارم نے جگایا ، اس رب کائنات کے آگے سر بسجود ہونے کے لئے ٹیرس کو پسند کیا ،جس کے ساتھ لگے چند چیڑ کے درخت اپنے تنوں کو جیسے ٹیرس کو سہارا دے رہے تھے ۔، حمد و ثنا کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ،،، لیکن یہ کیا ۔۔۔ صبح کی نو خیز کرنیں ابھی درختوں کی اونچی چوٹیوں کو چُھو ہی رہی تھیں ،، لیکن سارا ماحول مصورِ کائنات نے اپنی پینسل سکیچ سے آوٹ لائن دے کر اس کے خدو خال کو نمایاں کر دیا تھا ، خالق نے عجب نظارے سے آگاہی دی ۔ سیدھے ، اونچے سرسبز درختوں نے بیک وقت رُخ موڑا ،، واضح مسکراہٹ کے ساتھ ہلکا سا ہلکورا لیا ۔ اور اپنا پیغام مجھ تک ٹیلی پیتھی کر دیا " جس رب نے تمہیں بنایا ، اسی نے ہمیں بنایا ،،، گہرے لمبے سانس لو ، اس شفاف ہوا کا ذریعہ ہمیں بنایا گیا ہے ۔اپنے جسم کے ہر مسّام تک آکسیجن پہنچاؤ ،،، کہ ہم تک تمہارا آنا سالوں کا پروگرام ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور پھر بتدریج نرم کرنوں نے سہج سہج کر پہآڑی سے اور درختوں کی چوٹیوں سے اُترنا شروع کر دیا ۔ وہی آسمان جو رات بھر سیاہ لحاف اوڑھے ڈراتا رہا تھا ۔ کہ کھڑکیوں سے جھانکنا بھی دو بھر تھا ،،، اس نوخیز سِحر نے آتے ہی رات کا سَحر دھو ڈالا ۔۔۔۔ سبز ، گھنے درختوں کی سائیں سائیں ، اور گہری سبز گھاس کا ہلکورے لیتی کرنوں کو خود میں جذب ہوتے دیکھنا ، جنتِ ارضی کا دلفریب نظارہ تھا جس نے کتنی ہی دیر مبہوت کئے رکھا ۔ آنکھیں اس رب کی خلاّقی پر بھیگ گئیں ۔ اُف ،،، اتنی پاکیزگی !! اتنی کومَلتا ،،، شکریہ اے مالک ! صبحء سبز کا اور یوں جھومتی کائنات دکھانے کا ۔
اور درختوں نے بھی جلوے دکھانے میں کچھ بخل نہیں کیا ،،، ناشتہ تیار ہے کا بلاوا آیا ۔ تو سبھی گروپ ارکان ،،، میدانوں کی گرمی اور شہری شور و غُل سے اظہارِ ناراضگی کر رہے تھے ۔ موسم و ماحول نے بھر پور ناشتے کی اشتہاء دی ،،، اور جیسے ہی غسل خانے میں ہاتھ دھوئے گئے ،،، گروپ کی نوجوان بیٹی کو آئینے میں وہی جوان لڑکی اس کے پیچھےمسکراتی کھڑی نظر آئی ، لمحے بھر کے لئے اس کا دل لرزا ،،، لیکن جوں ہی وہ پیچھے مُڑی ، جوان روح غائب تھی ،، جانے کتنی صدیوں پرانی تھی ،،، یا چند سال پہلے کی بھٹکی ہوئی تھی ۔ لیکن ہم بھی یہاں مسافر تھے ،، اس نے بھی مروت دکھائی اور ایک یاد گار رات کی جھلک درختوں ، کرنوں اور پہاڑیوں کے سنگ گزار کر اس ذی روح کی چند منٹوں کی رات اور چند سیکنڈوں کی دن کی سنگت کے بعد واپسی کی راہ پکڑی ۔ آتے وقت چند لمحوں کے لئے اپنے پسندیدہ ٹیرس کے ساتھ لگے درختوں کا شکریہ ادا کرنے ضرور گئی ،، انھوں نے محبت کی نگاہ ڈالی ، اور کہا " ہو سکے تو پھر آنا ، تب یہ مسافر روح شائید تمہیں اپنی کہانی کہہ ڈالے !!
( منیرہ قریشی ، 13 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) (جاری )

"جنگل کچھ کہتے ہیں " ( تصور 2) 

اتوار، 10 مارچ، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (1)

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ) (1)
( حدیبہ کے ببول کے اس درخت کے نام ۔ جس کے چھتنار سائے تلے عظیم ترین ہستی نے عظیم ہستیوں سے عہد لیا تھا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم و مکرم اشفاق احمد صاحب نے اپنے دوست محمد حسین نقش کو ایک خط میں لکھا کہ " میں آجکل تھر میں ہوں " اور یہاں کے مختلف گوشوں کی خاموشی کو ریکارڈ کر رہا ہوں ، سچ پوچھو ! تو ایک کمرے کے ایک کونے کی خاموشی دوسرے گوشے سے مختلف ہوتی ہے ،۔۔۔
اور آج یہاں کی ایک بہت سادہ اور چھوٹی سی مسجد کی خاموشی محسوس کرنے جا رہا ہوں !!!
کیسے کیسے منفرد لوگ اپنے انوکھے اور ارفع خیالات لکھتے رہے ،، اور آنے والی نسلوں کے لئے عجب سنگ میل چھوڑ گئے ۔
جانے کب ' کس دورمیں جنگل کی محبت دل و دماغ میں جا گزیں ہوئی کہ پتہ بھی نہ چلا ۔ جب کبھی سیر کا موقع ملا ، نظریں درختوں کے جُھنڈ ، درختوں کی چوٹیوں ،،، اور درختوں کی چھاؤں کو تلاشتیں ۔ جب کبھی اپنے ہرے بھرے گاؤں جانا ہوتا ،،، تو لڑکپن کے اس دور میں یہ سفر کچھ ایسا خوشگوار دورانیہ نہ ہوتا ،،، لیکن کچھ دیر گزار کر جب کھیتوں ، کھلیانوں میں جانا ہوتا ،، ایک چکر گھنے درختوں میں گھِِرے قبرستان کا لگتا ،، تو وہاں جاکر جیسے سکون مل جاتا ، اس شہرِِ خاموش میں سوئے لوگوں پر رشک آتا کہ ،، لو کیسے پُر سکون ماحول میں " مزے " کر رہے ہیں ،،، لیکن ظاہر ہے اس سوچ میں بتدریج تبدیلی آتی چلی گئی ۔ اور اگر کسی خوشی یا غمی کے موقع پر کچھ دن رہنا ہوتا ، تو نزدیکی چھوٹی پہاڑی پر ضرور جانا ہوتا ، وہاں اگرچہ درختوں کا کوئی خاندان نہ تھا ،، اور نہ ہے ! لیکن جھاڑیوں کی ایسی اقسام ہوتیں جو ، ایک فٹ سے پانچ فٹ تک ہوتیں ، انہی کی جڑوں میں رہتی ننؔھی منی مخلوق ،، کو والد صاحب ، یا اگر بڑے چچا ساتھ ہوتے تو بے دھڑک ہاتھوں میں اُٹھا لیتے ۔ ان کے نام اردو ، انگریزی میں بتاتے ۔ ایک کمبل کیڑا ہوتا ،،، جس کے وجود سے کبھی دوستی نہ ہو سکی ،، اور اگر ہلکی بارش ہو چکی ہوتی تو ہر سائز کی بیر بہوٹیوں کے خاندان کے خاندان انہی جھاڑیوں کی جڑوں میں آباد ہوتے ، ان کی سرخ مخملی جسامت اتنی پُر کشش لگتی کہ چند منٹوں میں انھیں مٹھی میں لینے پر کوئی خوف محسوس نہ ہوتا ، یہ پودوں ،،، درختوں اور فطرت کے نظاروں سے عشق کی ابتداء تھی ،۔۔ اس عشق کو قدرت خود ودیعت تو کرتی ہی ہے ، لیکن اکثر یہ لڑی وراثت میں بھی آتی چلی جاتی ہے ۔ اور بندہ ۔۔ گنجان شہروں میں رہے ،،، یا ،، بھرے پُرے گھروں میں رہ کر بھی اندر دل و دماغ کی دنیا میں ایک گھنے درختوں والے جنگل میں بھی رہ رہا ہوتا ہے ، وہیں ایک ہی پیارا سا کمرہ ہوتا ہے اور جب اس کا دل چاہتا ہے ،،، اس کمرے میں جا کر اس کی کھڑکی سے جنگل کا نظارہ بھی کرتا ہے اور حال احوال بھی پوچھا جاتا ہے ۔ ،، درخت اسے مختلف کہانیاں سناتے ہیں ۔۔ اور یوں کچھ دیر کو ہی سہی ، لیکن فطرت اپنی باہنوں میں لے کر اس کی روح کو پُر سکون کر دیتی ہے۔
اسی بچپن اور لڑکپن کے دور میں مری جانا ہوتا ،، زندگی کے بے فکر ترین ڈھائی ماہ وہاں گزرتے ،، یہاں کم آبادی ،، کم شور ،، زیادہ درخت ، زیادہ نظارے ،،زیادہ سکون ہوتا ،،، دور اور نزدیک کے پہاڑوں سے دور بین لگا کر دوستیاں کی جاتیں ۔ بلیک بورڈ پر چاک سے کھچی لکیروں جیسے راستے اور ان پر چلتی چیونٹیوں جیسی گاڑیاں ،، اور لوگ وہ نظارے ہوتے جنھیں اندھیرا چھا جانے تک دیکھتے رہنے سے کبھی اکتاہٹ نہ ہوئی ، آہ انسان ، انسانوں اور عمارتوں کے جنگل میں رہ کر بھی اکیلا ہو سکتا ہے ،،، اور بے آباد جنگل میں رہ کر بھی اکلاپے کا شکار نہیں ہو سکتا ۔
مری کے گھر کے ساتھ ہی گھنے درختوں سے گھرا لان تھا ،، جہاں پہلے ہی دن پہنچ کر لمبے لمبے سانس لیے جاتے ،،، سفر کی تکان ،، اور سر چکرانے کی کیفیت سے ایسے نجات مل جاتی جیسے ہم تو یہیں تھے ،،، ایک مدت سے ۔ اور درخت اپنی مانوسیت کو ظاہر کرنے میں ذرا بخل نہ کرتے ، " تم لوگ پہنچ گئے !! ابھی دس ماہ پہلے ہی تو گئے تھے ،، ہم پھر سے تمہارے منتظر تھے " ۔۔۔اور یوں ہمیں تجدید محبت کی کبھی ضرورت نہ پڑتی ، چند دن گھر کی سیٹنگ ،، اور والدہ کی طرف سے ملے روٹین کو سن کر اپنا ،،کر ہم دونوں اوپر تلے کی بہنوں کا اگلا اہم اور خفیہ کام شروع ہو جاتا ۔۔۔ یعنی اپنی عمر کے لحاظ سے کھرپے ،، بیلچے ،، اور کلہاڑی لے کراسی لان کے گھنے درختوں کی کسی ایک صاف جگہ پر کھدائی کرتیں ۔۔۔ ایک دن ہمیں کوئی خزانہ ضرور ملے گا ،،، اور ہم بہت امیر ہو جائیں گے ،، یہ چھوٹا سا ، معصوم خیال اس دور کے پڑھے جانے والے ادب سے ماخوذ ہوتا ۔۔۔ اگرچہ اس کھدائی کی نوبت کہیں ہفتے میں ایک دو دن ہی آتی ، درخت ہمیں مسکرا مسکرا کر کبھی ہلکورے لیتی ہوا کے ساتھ جھوم کر محبت بھری نظروں سے دیکھتے ،، مجھے نہیں یاد کبھی اس ماحول نے ہمیں خوف زدہ کیا ہو ،، یا کبھی اکتاہٹ محسوس ہونے دی ہو ۔ جب کہ وہاں آس پاس کوئی گھر نہیں تھا ،،
کچھ مزید وقت گزرا ،، ایسے ہی نظاروں نے یہ پیغام دیا کہ " یہ جو تم درختوں سے اتنی محبت کرتی ہو ، کبھی غور کیا ،، یہ بھی تمہارے آتے ہی کیوں یکدم کھِل اٹھتے ہیں ،،، کیوں وہ بھی تمہیں پہچان چکے ہیں ،، ان کے پاس بھی ہاتھی جیسی ذہانت کا وہ ذخیرہ ہے جو سال ہا سال کے بعد بھی اپنے ذہن کے کمپیوٹر میں محفوظ اس شخص کی محبت یا نفرت کو یاد کے فرنٹ فٹ بورڈ میں لے آتی ہے ، ،، بس درخت بھی اپنے ہم نفسوں کو ہواؤں کے ذریعے پیغام دے چکے ہوتے ہیں ،،
ہمیں سراہنے اور چاہنے والا آیا چاہتا ہے ، اسے خوش آمدید کہنا ،، تب احساس ہونے لگا ، جنگل تو کچھ کہنے ، کچھ سننے کو بیتاب ہوتے ہیں ۔ کبھی غور تو کرو ،،، وہ تو کسی کسی کو یہ شرف دوستی دیتے ہیں ، اب یہ دوستی نبھاتی رہنا کہ "" جنگل کچھ کہتے ہیں """ سنو تو سہی کیا بتا رہے ہیں ، کیسی کہانیاں سنا رہے ہیں !!!

( منیرہ قریشی 10 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) ( جاری )