جمعہ، 21 دسمبر، 2018

"اِک پَرِخیال(24)۔

" اِک پَرِخیال"
' پرچہ ۔ پرچی' (24)۔
ایک پرچہ تو وہ ہواجو کسی میگزین یا سہ ماہی یا پندرہ روزہ رسالے کے چھپنے پر کہا جاتا ہے ۔ کہ " پرچہ " چھپ گیا ہے ، یا پرچہ نکالا جاۓ گا۔
ایک "پرچہ"وہ ہوتا ہے جو ایک طالب علم کمرہء امتحان میں لکھتا ہے ۔اور پھر کچھ وقفے کے بعد پرچے کے لکھے کا نتیجہ موصول کرتا ہے ۔
طالب علم کی محنت کے مطابق کبھی نتیجہ اچھا اور کبھی ایک دو مضامین میں سپلیز کی صورت میں آتا ہے ۔ ایسی صورت میں حتمی نتیجہ بہت دیر سے آتا ہے یا مسلسل ناکامی سے بد دل ہو کر طالب علم کسی اور میدان میں قسمت آزمائی کے لیۓ جا چکا ہوتا ہے ۔لیکن زندگی میں وہ اس پرچے اور نتیجے کے دنوں کو کبھی نہیں بھلا پاتا ۔ 
ایک " پرچہ" وہ ہوتا ہے جو کسی مجرم کے جُرم پر کٹتا ہے ،، یا جُرم سے متاثرہ شخص " پرچہ " کٹواتا ہے ۔ اور یوں سلسلہء سوال جواب شروع ہوتے ہیں ،، وکلاء پیشیاں بھگتتے ،، بھگواتے ہیں اور پھر ایک دن تمام حقائق کو سامنے رکھ کر نتیجہ سنایا جاتا ہے ،،، کئی مرتبہ یہ فیصلہ مجرم کو چُھوٹ کا یا نرمی کا ہوا تو مجرم کی مسکراہٹ چہرے سے نہیں جاتی ۔ اور کبھی کبھی جُرم کی نوعیت ایسی پیچیدہ ہوتی ہے کہ تحقیقی دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور ، ، فیصلے کا نتیجہ مزید غوروغوض کے لیۓ کچھ عرصہ کے لیۓ محفوظ کر لیا جاتا ہے ۔ مجرم یا ملزم اس دوران گومگو کی کیفیت میں رہتا ہے ۔ ،،،،،،،، بہ عینہ ایسے ہی پرچے ہمارے ہاتھوں ، اپنے ایمان کی کمزوری  سے ، اپنی حماقتوں ، اپنی جلد بازی سے، اپنی گھٹیا حرکتوں سے ،،، ترتیب پاتے ہیں ۔ اور پھر سال ہا سال کے چھوٹے ، چھوٹے ٹسٹ مارجن پر پاس ہونے کے نمبر تو ملتے جاتے ہیں ،،، اور ہم بےخبر ، بےنیاز ہو جاتے ہیں کیوں کہ ہم اپنے جرائم کو جرم سمجھنے سے انکاری ہوتے ہیں ،،، اور یوں حتمی نتیجے سے غافل ہو جاتے ہیں ۔ ،،،، تب ڈھیل کی رسی ختم ہوتے ہی ، قدرت کے نا دیدہ ہاتھوں سے ایف آئی آر کا " پرچہ " کٹ جاتا ہے !!سال ہا سال جو مہلت ملتی رہی تھی اور فیصلہ محفوظ کر لیا جاتا ہے تو اس کی وجہ " سفارش کی چھوٹی چھوٹی پرچیاں " ہوتی ہیں ، جن پر لکھا ہوتا ہے ،،، سجدے ۔ خیرات ۔ درود ،،یا کوئی دعا ، یا کوئی نیکی،،، اور یوں یہ پرچیاں آڑے آتی چلی جاتی ہیں ۔ لیکن جب ایک دن اٹوٹ رشتے تسلسل سے ذلت کا کورس شروع کرتے ہیں۔جب الفاظ کے گُرز جوڑ ، توڑ اور پھوڑ کا عمل شروع کر دیتے ہیں ۔ جب "مال منال " کے دلدلی میدان سے گزرنا از بس ضروری ہوتا ہے ۔ جسم بیماروں کی لیب بن جاتا ہے ، کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا ، لفظوں کےمرہم ، ہٹا دیۓ جاتے ہیں ۔ 
چہرے پر بہت حیرانی اور سوالیہ نشان کا تائثر جیسے چھَپ سا گیا ہے ۔ "" میں نے تو کوئی جرم نہیں کیا ، کوئ گناہ نہیں کیا " "تو پھر یہ سب کیا ؟؟؟ یہ سب کیا ، کیوں کیوں !!تب ایک دن " ذہن میں ایک چمکارا سا چمک اُٹھتا ہے " یہ روز کی بنیاد پر سزاؤں کا ہونا ،،، یہ روز کی ایف آئی آر پرچے کا کٹنا ،،،،،فطرت کی طرف سے نئے انداز کی سزائیں ہوتے چلے جانا !!! ۔ روز کا نیا درد ، روز سہنا ، ؟؟؟ ۔ 
آہ ،، آج پردہ ہٹ گیا ہے ، یہ اور یہ ،،، اور "وہ "بھی غلطیاں کی تھیں ، بلکہ دلوں پر گھاؤ لگایا تھا ، ہاں فطرت کے خلاف ، اپنی مرضی سے جینے کی کوشش کی تھی ،، اور خود کو حسد ، لالچ ، گھٹیا چالوں کے حوالے کیا تھا تو اب کیا کروں ، کہ ان دنیاوی سزاؤں میں پھر " پرچیاں " آڑے آجائیں ۔
یہ ہی وقت ہے جب حکیم کی کتابِ حکمت کھولی جاۓ اور پڑھتے جائیں ،، پڑھتے جائیں ۔۔اور جہاں ،، کسی آیت پر دل بھر آۓ ، آنکھیں چہرہ اور صفحہ دھو ڈالیں ۔ تو یہ ہی " اسمِ اعظم " ہے جسے اِس خاکی کی بہتری کے لیۓ عطا ہو گیا ،،،، ،،،،،
تو اب صرِف ایک اَن دیکھی چادر آنسوؤں کی بچھا لی جاۓ ، اور اس میں صبر ، تحمل ، برداشت ، شُکر ، اور مسلسل شگرگزاری کے سجدوں کو ، ڈالتے جائیں ، اور یوں شاید یہ ندامت کے آنسوؤں سے بھاری گھٹڑ ،، قابلِ قبول ہو جاۓ ،، اور شاید ایف آئی آر کا اگلا " حتمی پرچہ " نہ کٹے ! اور گٹھڑ کی " سفارشی پرچیاں " کام آجائیں ۔
( منیرہ قریشی 21 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )

منگل، 18 دسمبر، 2018

" اِک پَرِ خیال (23)۔"

" اِ ک پَرِ خیال "
' غرض یا صِلہ ' ( 23)۔
" غرض ""کا لفظ کتنا گھمبیر ، کتنا وسیع ، اور کتنا تال میل لیۓ ہوۓ ہے کہ ، سمجھنا چاہیں تو سمجھ سے بالاتر لگے ۔۔ نہ سمجھنا چاہیں تو بالکل ایسا ہی تائثر ملے جیسے ایک پتھر کیچڑ میں پھینکا ، اور دھب کی آواز سے وہ جیاں پھینکا ، وہیں گِرا ،،، نہ کوئی دائرے ، نہ کوئی ہلچل ، نہ کوئی تبدیلی !!بس ٹھُس ایک ہی جگہ جا پڑا ۔ یہ اور بات کہ کچھ چھینٹے ادھر اُدھر گرے ، کچھ پھینکنے والے کے اُوپر گرتے ہیں ،،، اور کہانی یا تو ختم یا چلتی چلی جاتی ہے ۔ تو گویا " غرض " کا جذبہ ایک پتھر ہوا ۔ کہ لِنک بنا تَو ٹھیک ، ورنہ نہ سہی ۔
"غرض" کا لفظ ایک احساس لیۓ ہوتا ہے ،،، بعض جگہ یہ احساس شدت سے بلکہ شدید ترین " حدت " سے سامنے آتا ہے اور بعض جگہ صرف کیچڑ کے پتھر کی طرح ٹھُس ۔ یہاں دو انتہائیں بھی ہیں اور درمیان کی پگڈنڈیاں بھی نظر آتی ہیں ۔
"غرض "،،، یہ بھی ہے کہ " مجھے ایک ذی ہوش ( باشعور نہیں ) انسان بنایا گیا ،تو مجھ سے جُڑے رشتے خوش رہیں ،، میَں بھی خوش ہوں ، ، ، مجھ سے جُڑے لوگ میرا خیال رکھ رہے ہیں ،،، میَں بھی رکھ رہا / رہی ہوں ، حساب برابر چل رہا ہے ،، سب کچھ خوشی خوشی ،، سب کچھ گُڈی گُڈ !!!" غرض " یہ بھی ہے کہ مجھے تو خدمت کرنی ہے ،، صِلہ اس دنیا میں نہ سہی اگلی دنیا میں تو ضرور ملے گا ۔
" غرض" یہ بھی ہے کہ میَں نے یہ اور یہ نیکی کی عادت اس لیۓ ڈالی کہ مجھے دنیا میں اپنی اولاد سے بھلائی ملے گی ،،، اور یہ سلسلہ چلے گا اور قرن ہا قرن چلتا جاۓ گا ۔
" غرض"۔۔۔ یہ بھی ہے کہ میَں آج بانٹوں ،،، تو کل مجھے ملے گا بھی ( احساسِ یقیں ) " غرض "۔۔۔ یہ بھی ہے کہ میَں نے خالق کی عبادت کی ، تو مجھے بھی توجہ ملے گی ،،، وہ میری سُنے گا ،، مجھے عطاکرے گا ، بے پایاں ،،، بے پایاں ۔
روحانی درجہ ،، سکون ، شانتی !!!" غرض "۔۔ دعاؤں میں تو ہے ہی " میَں نے تجھے یاد کیا ، تاکہ ۔۔ تُو مجھے یاد رکھے۔(یہ خالق کا اپنی تخلیق سے وعدہ ہے )" غرض " ۔۔۔ میں محبت کا وہ عروج نظر آتا ہے ،، جب چُنیدہ لوگوں سے ہٹ کر " انا الحق " کے نعروں سے 'منصور ' جیسے نفس ، مثال بن جاتے ہیں ،،، اور عجیب بات کہ یہ "'جذبہء غرض " متنازع بھی بنا دیا جاتا ہے ،، ہم انسان اُس رب سے محبت کو بس اپنے ہی پیمانے سے ناپ کر خوش ہوتے ہیں ،، اور بھول جاتے ہیں ،،کہ خالق کو اپنی تخلیق سے صرف "بےغرض ہی نہیں غرض مند "" ہر دو محبتیں درکار ہیں !کہ اُس خالق نے اپنے ساتھ رابطے کے لیۓ ،، " غرض مند ی " والی حاضری کو بھی قبولیت دی ہوئی ہے۔
تو گویا " غرض یا صلہ " محبت کا ایک رُوپ ہے ،، تعلق کا ایک رُوپ ہے۔ کر ڈالیۓ یہ محبت، کہ اسی میں قُربِ خالق چُھپا ہے ۔ جس کے پاس جانا ہی جانا ہے ۔ ربِ شرح لی،،،،،،الم نشرح ،، الم نشرح !!!۔
( منیرہ قریشی 18 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )

اتوار، 16 دسمبر، 2018

" اِک پَرِخیال (نوحہ 16 دسمبر 2014)۔

" اِک پَرِخیال "
' نوحہ' ("16 دسمبر 2014ء آرمی پبلک سکول کے شہدا پر ")۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب سے یہ دنیا لوگوں سےآباد ہوئی ،، ہر خطے کے لوگوں نے خود کے تحفظ کے لیۓ ، دوسرے خطے کے لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا ۔ کہ شاید وہ ہم پر حاوی نہ ہو جائیں ۔ اور یہ ہی شک کا بیج جو شیطان نے ڈالا کہ " یہ تم پر قبضہ کر لیں گے ، تم پہل کر لو ،،، ورنہ " !! اور یہ " ورنہ " اور" شک " کا غلیظ کیچڑ، نسلِ انسانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیۓ اندوہناک سانحوں میں لتھیڑتا رہا ۔ کبھی بخت نصر کی حملہ آوری ، کبھی چنگیز خان کی ہوسِ خون ریزی ، کبھی پہلی اور کبھی دوسری جنگِ عظیم ، کبھی ایٹم بم کی دلخراش تباہی کی صورت میں ، کبھی دس سال اور کبھی تیس سالہ لمبی جنگوں کی صورت میں ،، انسان ، انسان نہیں ،،، درندہ بنتا چلا گیا ۔
لیکن اِن سب جنگوں اور خون ریزیوں میں مرنے والوں کے لیۓ " جاں بحق یا ہلاک " کے لفظ استعمال ہوتے رہے ۔ یہ اور بات کہ اپنے ہموطنوں اور ہم مذہبوں کے لیۓ ہر ایک فریق نے بہ زعمِ خود " شہید" کا لقب اختیار کیا ۔ شاید یہ اپنے ضمیر کے سکون کے لیۓ تھا ۔ حالانکہ تاریخ کی کتب میں ایسے بےنام لوگوں کے لیۓ ، جو لڑتے ہوۓ مارے گۓ یا ، محض لپیٹ میں آگۓ ،، لکھاگیا " اتنے اور اتنے لوگ اس لڑائ میں کھیت رہۓ " ۔
اور انسان پچھلے دو سو سال کے اندر، نئی ٹیکنالوجی ، کے تحت تیزی سے نئے طرزِ زندگی میں داخل ہوا ،،، لیکن چاند تاروں پر کمند کے باوجود ، کتابوں کی لمبی اونچی دیواروں کے باوجود ، آسانیوں اور اللہ کے آخری پیغام کے باوجود ،،،، خود کو شیطانی وساوس، لالچ ، اور ذلالت سے نہ بچا پایا ،، اِس آخری پیغام کا مخاطب " انسان اور صرف انسان " ہے ، اور پیغام ہے "صبر" ،،،،،،،،،!صبر ،، دوسرے سے اختلاف پر ، صبر دوسرے کی ذیادتی پر ،، صبر دوسرے کی ترقی پر ،، صبر دوسرے سے انتقام پر !!!! بھلے گھر کی سطح پر صبر ہے ، یا قومی لیول پر ۔۔۔ بھلے مذہبی سطح پر صبر کرنا ہے ، یا سیاسی سطح پر ،،، اسی میں سب کی بھلائ ہے ، اسی میں امن پوشیدہ ہے جو انسانی فطرت کا جزو ہے ،لیکن ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،جب بھی بہت معصوم بچوں ،،،یا ،،، نو خیز بچوں ، جو نوجوانی کی آمد کے پہلے جھونکوں کو محسوس کر رہے لا اُبالی عمر کے درویش ہوں ، یا ، اُن فرشتے مانند صاف دلوں کو جنھوں نے ابھی ، خواب دیکھنے ہی شروع کیا تھے ،،، اِن سب کو اچانک کچل ، مَسل ، کر رکھ دیا جاۓ تو " اُن کی خوبصورت آنکھوں میں حیرت اور خوف تصویر بن کر رہ گیا ہو گا " ،،، یہ تصویر ہی لیۓ وہ اپنے استقبال کے لیۓ آۓ فرستادوں کے ساتھ جلدی جلدی نئ دنیا میں منتقل کیۓ جاتے رہۓ ہوں گے ۔ آہ ،،،،، 16 دسمبر 2014ء کا دن ،، 150 شہداء نے اپنے فرستادوں سے یہ بھی نہ پوچھا ہو گا ،،، یہ ابھی ابھی ہمیں کیا ہوا کہ یونیفارم پہنے پہنے نئی جگہ آ گۓ ۔ جبکہ ہمیں ماؤں نے گھر آتے ہی یونیفارم بدلانے کی ہدایت کر رکھی ہے ،، ہمارے توسکول بیگز ، بھی ہمارے ہاتھوں میں نہیں ،،، یہ ہم خالی ہاتھ کہاں آگۓ ؟؟؟ کیا ہم اتنے بہت سے کلاس فیلو اب کسی اور سکول میں داخل ہوں گے ،، کیا ہم اپنی امی ، ابو ، باجی بھائ کو ملنے جا سکیں گے ،،،،،؟؟ اس " کیا کیا " کی تکرار نے فرشتوں کی آنکھیں بھی نم کر دی ہوں گی ،، اُس دن آسمانوں کی جنت کو فرشتوں اور حوروں نے ایمرجنسی میں " سجایا " ہو گا ،،، بےپایاں دلچسپی کے سامان کا بندوبست ہوا ہو گا ،، ٹیچرز نے بھی فرشتوں کو بتایا ہو گا ،،" اِس بچے کی یہ پسندیدہ چیز ہے ،، اُس کی یہ " !! آہ ،،،مگر اُن پیارے ، کومل خون آلود ہونٹوں پر مسکراہٹیں ذرا دیر سے ہی آئیں ہوں گی ۔ کہ ابھی تو اُن کے کان گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے سُن ہوۓ ہوں گے ،،،، ایسے بےبس ، بلا ہتھیار ، نوعمر سے انتقام ؟؟؟؟
آہ پیارے فرشتو ،، جنت تمہارے لیۓ ،،، "تم سے سجائی جانی تھی" ، ، کہ لوحِ محفوظ کا ایک صفحہ یہ بھی تھا ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔( 16 دسمبر 2014ء کے دلخراش سانحہ کے دوسرے دن لکھی گئی نظم جو خود ہی پڑھتی اور خوب روتی ہوں ، کہ یہ ہی محبت کے آنسو ہیں جو دراصل اُن خاندانوں سے اظہارِ ہمدردی ہے ، اُن کے لیۓ " صبر " کیدعا ؤں کے ساتھ )۔
" یہ دیکھا کہ سبز پوشاک پہنے ہوۓ
سرخوشی و سرمستی سے جھومتے ہوۓ
چلے آ رہۓ ہیں قطار میں تنظیم سے
یہ دیکھا کہ فرشتوں کے پُروں کی چھاؤں ہے پھیلی
حیران ہے آج ، مخلوقِ آسمان ساری
یہ کون ہیں کہ جن کے سَروں سے ہے خون جاری
مگر مسکراہٹوں سے ہیں ، چہرے نورانی
اور حُوریں ہیں سراپا استقبال ساری !!
آہ ،، مگر کروڑوں آنکھوں کے بہتے آنسو
کم سِن شہیدوں کو ہو رہی ہے پریشانی ! !
ہاں ، مگر تسلی دے رہی ہیں استانیاں ساری
اب ہم جنت کے نۓ سکول میں خوش ہیں
اور جنت کے نۓ ساتھیوں میں خوش ہیں
بچو ! اب پریشاں ہونے کی دشمن کی باری
دیکھو تو ،،،کیا شاندار ، ہیں نظارے
نبیؐ جیﷺ کی صحبتِ خاص میں ہیں ہم سارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھیں رواں ہیں اتنی ، کہ دامن بھیگ چلا ہے
دل غم ذدہ ہے اتنا ، کہ سوچیں رُک سی گئ ہیں
ابھی تو ہونٹوں نے تمہاری پیشانیوں کو چُومنا تھا
ابھی تو تمہارے بدن کے سُوراخوں کو رفُو کرناتھا !
ابھی تو تمہارے دشمن کے ضبط کو توڑنا ہے
اور ماؤں کی آہوں نے عرش تک پہنچنا ہے
مگر ،،،، تم سب
اِک دوجے کی باہنیں تھام کر
اپنوں کو صبر کی بَھٹی تھما کر
عجب سَرخوشی سے نئی دنیا میں جا بسے
یہ کیسی شہادتیں ہیں ،،،،
کہ قاتل بھی حالتِ رشک میں ہیں !۔
(منیرہ قریشی 16 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )

پیر، 10 دسمبر، 2018

"اِک پرِخیال(22)"۔

" اِک پرِخیال "
' میلہ' ( 22)۔
جب ہم کسی جھیل میں پتھر پھینکتے ہیں ، تو دائرے بنتے چلے جاتے ہیں ۔ اندر یعنی پتھر کی جگہ سے دائرے بننا شروع ہوتے ہیں اور پھر یہ دائرے پھیلتے پھیلتے آخری دائرے تک معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ دیکھا جاۓ تو " زندگی " کے لفظ میں یہ دائرے ہی چُھپے ہوۓ ہیں ۔ بچہ دنیا میں آیا ،،، اور اس سے جُڑے دائرے بنتے چلے گۓ ، آخری دائرہ آیا اور بچہ ،،، جو، اب بوڑھے وجود میں ڈھل چکا ہوتا ہے ، اسی معدوم ہوتے دائرے کا آخری چکر مکمل کر لیتا ہے ۔
اگر ہم کسی میلے میں جائیں ، تو رنگوں روشنیوں ، اور آوازاوں کا ایک طوفان رقص کناں ہوتا ہے ۔ ہر ذی نفس ، اپنی اپنی دلچسیوں کو تاکتا ، جھانکتا ، آنکتا آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے ،، تاکہ اُس جگہ تک پہنچے ، جہاں اس کی اصل دلچسپی ہو۔اپنی پسندیدہ جگہ پر میلے میں آیا انسان ،، ذیادہ دیر تک رُکتا ہے ، تاکہ اپنے آپ کو سیراب کر لے ،،، کیا پتہ پھر یہ میلہ ، یہ گہما گہمی ہو ، نا ہو ۔
اگر ہم میلے کے کسی نیم اندھیرے کونے میں خود کو محفوظ کر لیں ،، تو ہم حیران کن انداز سے خود کو محظوظ ہوتے محسوس کریں گے ،، بالکل ایسے ہی جیسے ہم نے سلمانی ٹوپی پہن لی اور ہم تو سب کو دیکھ سکتے ہوں ، لیکن کوئ ہمیں نہ دیکھ پاۓ ۔ میلے کے داخلی دروازے کے پاس کھڑے ہوں ،، اور پھر بتدریج چہرے کے تاثرات ، دیکھتے جائیں ،، ۔
میلے میں داخل ہونے والا چہرہ ،،، تجسُس ، اور پُرجوش جذبوں سے لبریز ہو گا ۔ میلے کا ہر کونا اسے اپنی طرف کھینچتا ، بُلاتا جاتا ہے ۔ وہ کبھی دائیں کبھی بائیں ،، کبھی پیچھے کبھی آگے قدم بڑھاتا چلا جاتا ہے ، یوں جیسے وہ رقص میں ہو ،،،، آگے بڑھنے کے لیۓ بندہ خود کو ذبردستی آمادہ کرتا ہے ،، ورنہ جوش اتنا بھرا ہوا ہے کہ یا تو ایک لمحہ رکنے کادل نہیں چاہ رہا یا،،،ایک ہی جگہ رُک کر سارا دورانیہ گزارنے کو دل چاہ رہا ہے۔
لیکن بہ مشکل تجسُس کا جذبہ حاوی کرتے ہوۓ ،، آگے کی دلچسپیوں کی طرف متوجہ ہونا بھی انسانی فطرت ہے ۔ اور جب یہ پُرجوش نفس آگے بڑھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے ،، آگے تو بہت کچھ نیا ہے ،، لیکن، رات کی چکا چوند روشنیوں ، آوازوں کے زیر وبم ، اور ، رنگوں کی بہتات نے اب بندے کو تھکانا شروع کر دیا ہے ۔ آپ نے نیم اندھیرے کونے سے دیکھا کہ " میلے کے دائرے میں لگے تمام سٹال اُس نے دیکھ ڈالے ، بہت کچھ خریدا بھی ، بہت کچھ دیکھا بھی ، بہت سے لوگوں سے ملا اور باتیں کیں ۔
لیکن اب واپسی کا وقت ہے ،، کہ روشنیاں معدوم ہو چلی ہیں ،، لوگ بھی کم ہوگۓ ہیں ،، آوازیں بھی مدھم ہو چکی ہیں ،، تو گویا اب واپسی " ضروری ہے " ۔ بندے کا چہرہ تھکاوٹ سے چُور چُور ہے ۔ اس کے قدم اب تھرک نہیں رہے ،، بہ مشکل اپنے بوجھ کو اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے سامان کے بوجھ کو اُٹھا پا رہا ہے ،، ،،،، میلے کے اندر آنے والا پُر شوق ، پُر جوش ، پُر تجسُس چہرہ ،، چند گھنٹے گزار کر واپس اتنے تھکےماندے انداز سے جا رہا ہوتا ہے ،جیسے یہ سارا میلہ اُسی نے ارینج کیا تھا ، یہاں کے تمام کردار ، اسی نے ٹرینڈ کیۓ تھے ،،، اور اب واپسی پر علم ہوا کہ " میَں نہ بھی ہوتا تو ، میری جگہ کوئی اوَر ہو جاتا ۔ میَں خواہ مخواہ صرف پھِر پھِر کر ہی تکان سے چُور ہو چلا ،،، اور اب " ہر چیز بےمعنی سی لگ رہی ہے " ،،،،،،، " اور یوں جھیل پر پھینکے گئے پتھر سے بننے والے آخری دائرے کی طرح "معدومی کیفیت "، واپسی کا راستہ دکھاتی ہے "۔ بندہ اتنا لدا ہوا ہو کر بھی " خالی " سا ہو کر آخری دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" وِچو وِچ میلہ ،،، ( زندگی کے درمیان ایک میلہ سجا )۔
آسے پاسے نیرا ،،، ( مگر میلے کے آس پاس اندھیرا ہے )۔
میلے وِچ رَونڑکاں ،،، ( میلے کے اندر رونق کا عروج ہے)۔
میلے بآر تتیاں وآواں ،،، ( میلے سے باہر گرم ہواؤں کو راج ہے)۔
نفس پایا ، چِیڑا رانگلڑاں ،،، ( نفس پر رنگین دوپٹہ پڑا ہوا ہے )۔
میلے چے انکھاں چکا چوند ،،( میلے کی چکا چوند سےآنکھیں کھل نہیں
رہیں)۔
کیَڑی حالت اے سچی ،،، ( کون سی حالت کو اصل جانا جاۓ )۔
میلے اندر ، یا میلے بآر ،،، ( اس رونق میلے کی حالت اصل ہے )۔
دِلے اندر، یا دِلے بآر ،،، (دل کے اندر یا دل کے باہر کی حال
اصل ہے )۔
( منیرہ قریشی 10 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )

پیر، 3 دسمبر، 2018

اک پرِخیال(21)۔

" اِک پرِ خیال "
' سپیشلسٹ یعنی ماہرین' (21)۔
مجھے ٹی وی پر" اینیمل ورلڈ " کا چینیل بہت پسند ہے ، کئ کتابیں پڑھتی ، تب بھی اتنی معلومات نہ ملتیں ، جتنی اسکے مختلف جانوروں کی ایک گھنٹے کی ریسرچ فلم دے دیتی ہے ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہاتھی پاؤں کی دھمک سے 20 میل دور تک اپنے ساتھیوں کو پیغام دیتا ہے ، یا حائینہ ( لگڑ بگا ) زمین سے منہ لگا کر اپنے ہم جنسوں تک اپنے پیغامات دیتا ہے یا شیر کی دھاڑ ، 5 میل تک سنی جا سکتی ہے وغیرہ،،،، اور یہ کہ شیر جو جنگل کا بادشاہ ہے ، کبھی کبھی ہرن کو شکار کرنے سے بھی ناکام ہو جاتا ہے ،، اور ،،، یہ کہ شیروں میں بھی کچھ شیر ایسے ہوتے ہیں ، جو ہاتھی جیسے بڑے جانور کے شکار کو ٹیم ورک کے ساتھ گِرا ڈالتے ہیں ، اور شیروں میں سے ہی کچھ ایسے جنگجُو ہیں جو " دریائی گھوڑے ( ہپو پوٹیمس) کے شکار کے ماہر ہوتے ہیں ،، جو اُن سے کئی گُنا بھاری بھرکم ہوتا ہے ،، تو گویا نسلاً تو یہ سب شیر ہی ہیں لیکن انہی میں سے ہر گروپ اپنے اپنے شکار کے " ماہرین " ہیں ۔ اپنے میدان کے سپیشلسٹ !جانوروں کی دنیا کے ماہرین ہوں ، یا انسانوں کی ،،، عجیب وغریب ماہرین نظر آتے ہیں ۔ انسانوں کے اپنے سکلڈ کے ماہرین نہیں ،، بلکہ فطرتا" اپنی ذات میں کچھ " اوصاف " کے ماہرین ۔ ۔ اگر انسانوں کی نسلوں کا تجزیہ کیا جاۓ تو اقوام میں کچھ اقوام کنجوس ،، کچھ پُر مزاح اور جوشیلی ، کچھ مدبر اور مثبت ، کچھ دوستی میں پہل کرنے میں تیز تو کچھ سرد مہر اور بے زار صفات سے معمور و مشہور ہوتی ہیں ،معاشروں میں انسانوں کے انفرادی کردار کے اپنے الگ ہی طَور ہوتے ہیں ، اور یہ اثرات دراصل اُن لوگوں کی انہی ماہرانہ صفات کی عکاس ہوتی ہیں ۔ جو آپسی رشتوں میں کبھی بگاڑ اور کبھی سنوار کی تیکنیک کو ماہرانہ انداز سے آزماتے چلے جاتے ہیں ، کہ زندگی کے کینوس پر کبھی بڑے بڑے ہیپی پوٹیمس کو پچھاڑا جا رہا ہوتا ہے ، وہ رشتہ جو بہت نازک اور اہم ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے گھیرے میں ہوتا ہے جو کانوں میں وساوس کا زہر اُنڈیل رہے ہیں اور شانت روح ، انہی وساوس کے بموجب ، برداشت کے مادے میں وہ آگ اُگلنے کو تیار ہونے لگتی ہے جو اپنی ہی نہیں دوسروں کی زندگی کو بھی مشکل بنا دے ، تو گویا ایک "خاموش فطرت" ایسے شکاریوں کے نر غے میں آ جاتی ہے کہ وہ آتش فشاں بننے لگتا ہے ۔ کبھی خوفزدہ ہرنوں کی ڈار پر طنز کے تیر برساۓ جاتے ہیں ، اورمعصوم ، پاکیزہ اجسام خون ریز ہوتے چلےجاتے ہیں ، لیکن دُکھ کی کوئی آواز نہیں نکال پاتے ۔ اور کبھی ہاتھی جیسے بڑے رشتوں پرپیٹھ پیچھے سے ایسی بے زاری اور کم ظرفی کے حملے کیۓ جاتے ہیں کہ اچھے خاصے مدبر اور معزذ رشتوں کو چُوزوں کی طرح مسل دیا جاتا ہے ۔ ،،،، لیکن کبھی کبھی ایسے رحم و کرم اور مامتا سے بھر پوراور مثالی دوستی سے لبریز لوگ بھی سامنے آ جاتے ہیں ، جن کے مہربان ہاتھ ،،، نم ،محبت بھری آنکھیں ، اور روئ کے پھاہے رکھتے الفاظ ،،، بڑی سے بڑی تکلیف کو جادوئ انداز سے معطل کر کے رکھ دیتے ہیں ،، اور تکلیف میں جکڑا شخص ایسے موقع پر آسمان کی طرف شکر گزاری سے دیکھتا ہے کہ ،، یہ پہلی تکلیف دینے والے کون تھے اور نۓ مسیحا بھی کہاں سے کیسے آگۓ !!! مجھے "اینیمل پلینٹ " کے چینل کو دیکھتے ہوۓ، انسانوں اور جانوروں میں مماثلت اور متضاد ماہرانہ تیکنیک کی یکسانیت کا احساس ہوا ،، کیسے بد فطرت اور اپنی شیطانی چالوں کو چلنے والے، بے خبر لوگوں کو جا لیتے ہیں ، اور کیسے کبھی کبھی کوئ شیرنی گاۓ کے نو زائیدہ بچھڑے کو مامتا کے شدید جذبے کے تحت ، اسے کھانے میں بے بس ہو جاتی ہے ،،، تو گویا یہ بدی کے پیکر خود میں نیکی کو دریافت کر لیں تو ایک لمحے میں ایک دبی چنگاری ،،، مکمل شعلہء طُور بن سکتی ہے ۔
( منیرہ قریشی 3 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )

جمعرات، 15 نومبر، 2018

"اکِ پرِخیال(20)۔

" اِک پرِ خیال "
' سکرپٹ ' ( 20 )۔
استاد،اداکار ، یا اینکرز ، یا سب ایسے پیشوں سے وابستہ افراد جنھیں ، "ہدایات " دینی ہوتی ہیں ، یا نالج بانٹنی ہوتی ہے، یا سوالات کرنے ، اور جوابات اُگلوانے ہوتے ہیں ،،، سب کے ہاتھوں میں سکرپٹ کی ایک کاپی ہوتی ہے ، اور ایک کاپی ، اُس دوسری اتھارٹی کے ہاتھ میں ہوتی ہے ،،،، جو اُن سے اُوپر ہے ۔
مثلاً  جوں ہی اداکار اپنے حصے کے ڈائیلاگ زبانی یاد کر کے ادائیگی شروع کرتا ہے ، سکرپٹ رائیٹر بھی ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ میں پکڑی کاپی پر نگاہ ڈالتا چلا جاتا ہے ،تاکہ اس اداکار کے غلط بولنے پر ، یا نامکمل جملے پر پر اُسے ٹوک دے ، اور دوسرا " ری ٹیک " لے کر صحیح ڈائیلاگ ادا کرواۓ ، تلفظ پر دھیان بھی دلاۓ ۔ ،، کتنے قدم دائیں ، اور کتنے بائیں چلنے ہیں ، حرکات و سکنات بھی صحیح ہوں گویا اچھا رائٹر ، اپنے لکھے کو دل و جان سے لکھ چکا ہے ، اب وہ دوسرے سے بھی کامل توجہ مانگتا ہے ،،، لیکن جب ڈرامے کا کردار بادشاہ سلامت کا ہے اور وہ نہ وہ لہجہ اپنا رہا ہے نہ سکرپٹ کو ذمہ داری سے پڑھتا ہے ، تو کچھ ڈھیل کے بعد رائیٹر بھی اور ہدایت کار بھی مایوس ہو کر اسے ، وزیر ، اور پھر یہ کرداربھی نہ ادا کر سکے تو چوبدار ، کے کردار پر رکھنے کا کہہ دیتے ہیں ، اب یہ اُس فرد کی صوابدید ہے کہ وہ ایک اہم ترین کردار کے بعد ، ایک غیر اہم کردار کو قبول کر لے ۔ یہ ڈھیل بھی اس کے بار بار " سوری" کرنے پر ملتی رہتی ہے ۔ ورنہ ، بعینہہ ،، کائنات کے خالق کے ہاتھ میں بھی ایک لوح ہے جس پر ہر نفسِ انسانی کے لیۓ لکھے کردار کے مندرجات محفوظ ہیں ، اور ہر فرد کے ہاتھ میں اِس محفوظ شدہ مندرجات کے مطابق کا " سکرپٹ " پکڑا دیا گیا ہے ۔ عقل و فہم سے کام لینے والے ، ہر سطر ، ہر ہدایت کو بغور پڑھتے ، اور اسی کے مطابق عمل کی کوشش کرتے ہیں، ہم جیسے جلد باز ایک نظر اُس پر ڈالتے ہیں ، اور ڈائیلاگ ، ، یا حرکات و سکنات کی ادائیگی تیزی سےکرتے چلے جاتے ہیں ،، دماغ کے صرف پانچ فیصد حصے کو کام میں لاتے ہوۓ ، سکرپٹ کے لکھے سے " انحراف " کی کمینی حرکتیں کرتے بھی کرتےچلے جاتے ہیں ،تین چار دفعہ اس طرح ڈنڈی مارنے کی حرکت کے بعد تنبیہ کی آواز آتی ہے ، اور ہم " توبہ " ( سوری) کہہ کر خود کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ،،، تواتر سے ٖغلطیوں کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑتا ہے ۔ ،، اور ہمارے تنزلی " آرڈر " جاری ہو جاتے ہیں ۔ سکرپٹ چھین لیا جاتا ہے ، اور بندہ بادشاہ کے عہدے سے چوبدار بنا دیا جاتا ہے ،،، دنیا وی پیشے میں یہ عہدہ پسند نہیں آیا ،، چھوڑا ،، کہیں ، اور کام لے لیا ،،لیکن" خالق حقیقی " ،، اگر سکرپٹ لیتا اور تنزلی آرڈر جاری کرتا ہے تو پھر ایسے بندے کو دنیا میں کوئ دوسری " نوکری " نہیں ملتی ۔ 
اور اگر بالفرض ، فوری طور پر " سوری " قبول ہو جاتی ہے اور دنیا وی عہدے بحال ہو جائیں ،، لیکن ہم پھر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں ، کہ ہم کسی کو نہیں دیکھ پا رہۓ ،، تو کوئی ہمیں نہیں دیکھ رہا ۔ ڈھیل توشاید مل جاۓ ،، لیکن انجامِ زندگی ،،، و ،، آخرت کی کوئی چھوٹ نہیں ،ملے گی ۔ " کتبے " پر تو چند تعارفی جملے ہوتے ہیں ، لیکن " تاریخ اور وقت " کبھی سالوں اور کبھی صدیوں ہمارا تعارف کراتے چلے جاتے ہیں ، یہ تعارف کس انداز میں ہوتا چلا جاتا ہے ، یہ منحصر ہوتا ہے " سکرپٹ " سے روگردانی کرنے میں کتنی لاپروائی دکھائی ؟ یا اس کے نقاط پر کوئی غور و فکر کیوں نہیں کیا ،،، لہٰذا تعارفی کتبے کے بس یہ ہی لمحے ہیں ! ہم مہلت سے فائدہ اُٹھا پائیں گے ؟؟؟؟ 
۔"سب مایا ہے ،،،چلتی پھرتی ، ڈھلتی چھایا ہے ۔ آج یہاں ، کل وہاں ، آج میرے پاس ،کل اُس کے پاس ! ، بس بھروسہ اللہ واحد پر اور جواب کی فکر بھی اس واحد کے سامنے کی ہو تو " غلطیاں شاید " کم ہو جائیں"۔
( منیرہ قریشی 15 نومبر 2018ء واہ کینٹ )
۔( نیچے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور ان کی ملکہ زینت محل کی تصاویر )۔
قیدِ فرنگ کے دورانیہ میں ،جب وہ برما میں اندھے کر کے روانہ کر دیۓ گۓ تھے ، تو ایک انگریز کیپٹن کے گھر کے گیراج  میں کئی سال گزارے ،،، مجھے اس تصویر نے یہ کالم لکھوایا )۔


اتوار، 11 نومبر، 2018

اک پرِخیال(19)۔۔(3)۔

" وجودِ خاکی "
' محبت و شفقت' ( اباجی ) ( حصہ سوم)۔
ابا جی نے، زندگی کے ساتھی کو جو توجہ دی ، اور دنیاوی سہولتیں دیں ، یہ اُن کی صرف چھُپی محبت تھی ،، وہ اظہار نہ کر سکنے والے انسان رہۓ ۔ شاید اُن کے اندر ایک ایسی " شائ نیس " تھی ، جس پر وہ قابو نہ پا سکے ،، اور اسی جھجھک نے اماں جی کوکچھ گلہ مند رکھا ۔ کیوں کہ وہ جرات سے خاندانی پالیٹیکس میں ، غلط لوگوں کو غلط نہ کہہ سکے تھے۔ ایسا اس لیۓ بھی تھاکہ اُن میں سے کئ بہت نزدیکی رشتے تھے ، اور اباجی بنیادی طور پر رشتے دار اور خاندان کو اہمیت دینے کے قائل تھے ۔ ہم بطورِ اولاد ، اپنے والدین کی عادات ، کمزوریوں ، اور خوبیوں سے ذرا دیر سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ اور جب تک شعور آتا ہے ، تب تک ہم لحاظ اور ادب و مؤدب کے اُس دائرے میں رہنے کے اتنے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ والدین سے بحث نہیں کر پاتے ۔ حالانکہ اماں جی اکثر اپنے شوہر کی در گزر کرنے والی عادات کو بہت سراہتیں بھی تھیں ۔ ،،،، 
دوسری بات ، دونوں مہمان نواز تھے ، اس لیۓ ہمارے گھر مہمان صرف چند گھنٹوں والے نہیں ، "اکثر " ، چند دن ، یا چند ہفتے رہنے والے آتے تھے ، اور کئ تو ایسے مہمان بھی ہوتے جن کا علاج کروایا جاتا،، اور چونکہ ان کے پاس سواری کا معقول انتظام نہیں ، اس لیۓ بہتر ہے یہ یہیں رہۓ ، علاج مکمل ہو جاۓ تو چلا جاۓ ،، شاید ، آج میَں بھی خود کو اُن کی جگہ پر رکھوں تو ایسا نہیں کر سکوں گی ، کئی ایسے افراد ہمارے ہاں قیام پزیر رہۓ ، جن سے کوئی رشتہ نہیں ، کوئ آنا جانا نہیں ، بلکہ ایک پرانے نوکر کی بہن ہے اسے ٹی بی ہے ، غریب ہے اس لیۓ وہ معہ اپنے دونوں چھوٹے بچوں کے یہیں رہۓ گی ،،، اباجی کو جو بنگلہ ملا ہوا تھا ، اس کے ساتھ تین سرونٹ کواٹرز بھی تھے ، دو میں تو ملازمین رہتے اور ایک ، ایسے آجانے والے خاندانوں کے لیۓ ہر دم تیار رہتا ۔ وہاں ضرورت کی سب چیزیں لگی رہتیں ، اور کھانا پینا تو اماں جی کے حکم پر اُنہی کے کچن سے جاتا ، ،، کچھ ایسے لوگ بھی تھے ، جنھیں اباجی کچھ اتنا پسند نہیں کرتے تھے ،لیکن اگراُس فیملی سے کوئ مسلہء لے کر آتا ، جیسے صحت یا پولیس سے مسائل ،، تو ایسے میں اباجی نے کبھی کوتاہی نہیں دکھائ ، بلکہ ان کے خاندان میں سے کسی کو علاج کے لیۓ ہمارے گھر رکنا پڑا ، تو کبھی غصہ نہیں دکھایا ۔ گویا ،، اباجی نے خود پر ضروری حد ،،، والا ضبط قائم کر لیا تھا ۔ ایسے موقع پر اُن کی خاموشی ذیادہ ہو جاتی ۔کہ اِس سے گھر آۓ کی دل آزاری نہ ہو ۔ ۔ ویسے بھی وہ ہر کسی سے بہت گپ شپ والے نہیں تھے ۔ اس لیۓ رشتہ داروں پر اُن کا ایک خاص رعب اور دبدبہ تھا ۔ہمارے ساتھ اُن کا رویہ فرق تھا ، ، ، ۔
اماں جی ، دنیا کی اُن ٹپیکل عورتوں کی طرح ہی تھیں ، جنھیں جائیداد بنانے کا شوق ہوتا ہے ۔ اور صرف یہ ایک ایسا " ایشو " تھا ، جو دونوں کے درمیان شدت سے اختلاف اور ناراضی کا باعث بنتا ، روال پنڈی کا گھر خریدا گیا تو اماں جی نے اپنا ، سارا زیور سامنے لا رکھا کہ اسے بھی بیچ کر ادائیگی پوری کر لیں ، لیکن گھر ہاتھ سے نہیں جانے دینا ۔ اباجی کا خیال تھا "کوئی ضرورت نہیں گھر خریدنے کی ، ریٹائر ہوں گا ، تب دیکھا جاۓ گا ،، گاؤں تو اپنا ہے ہی " ۔ لیکن اماں جی نے بات منوا کر چھوڑی ۔
اور میرا خیال ہے ،، عورت کے اندر "" اپنی ، ذاتی ، چھت بنانے کا خیال ، اس قدر مضبوط اس لیۓ ہوتا ہے ، کہ اسے تحفظ کا عجیب سا احساس رہتا ہے "" ،،،، اگر ہم جانوروں یا پرندوں کی دنیاؤں کو دیکھیں تو چند ایک کو چھوڑ کر سبھی مادائیں ، گھر خود اکیلے ہی بناتی ہیں ، یا نر اور مادہ مل کر بناتے ہیں ،، شاید قدرت کا یہ قانون ، انسانی فطرت کا حصہ بھی بنادیا گیا ہے ۔ 
اماں جی کی وفات کے بعد اباجی نے 22 سال اکلاپے میں گزارے ، اس دوران میَں ہی ان کے ساتھ مستقل طور پر رہی ۔ اگر وہ چاہتے تو دوسری بیوی کے ساتھ کا قدم اُٹھا سکتے تھے ،، لیکن وہ بہت ذیادہ اس پر آمادہ نہ ہوۓ ، اور میرا اُن کے ساتھ رہنا ایسا صرف قسمت کے پھیر نے کر دیا ،، لیکن ، یہ اماں جی کی آخری خواہش بھی تھی ،، اباجی شاید میرے اور میَں اُن کے مزاج کی واقف تھی ۔ اس لیۓ بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات بناۓ رکھے ،، کہ میَں اباجی کے ساتھ آخری لمحے تک رہی ۔ 
اباجی نے ، اپنی دلچسپیاں ، اور ملنا ملانا ، عین اسی طرح رکھا جیسا اُن کا دل چاہا ،،، اب رہنے والے مہمانان تو بہت ہی کم ہو گۓ ۔ لیکن روزانہ آنے والوں کا ماشا اللہ تانتا رہتا ۔ یہ اباجی کی مہمان نوازی اور مہمان کے لیۓ خوش مزاجی کا مظہر تھا ۔ ان کی پینشن ، اور ایک گھر کا کرایا آنے سے بہترین گزارا ہونے لگا ، ، ، انھوں نے زندگی کے صرف آخری تین سال بغیر کار چلاۓ گزارے جب ، ان کی بینائ کمزور ہو گئی تھی ۔ کار تو کھڑی رہی ، لیکن خود نہیں چلا سکے ۔ 
اباجی ، کچھ بہت پریکٹسنگ مذہبی بندے نہیں تھے ، جمعے کی نماز مسجد جاتے ، صبح کی نماز ضرور پڑھتے ، لیکن دن بھر میں کبھی ایک ، کبھی دو نمازیں پڑھ لیتے ، قرآن ، اکثر صبح ہی تھوڑی دیر پڑھتے لیکن ، ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ۔ بغیر تفسیر پڑھنا ، ان کے لیۓ محال تھا ۔ مولانا مودودیؒ کی چھے جلدوں کے تفہیم القرآن کے ابتدائ ایڈیشن ، بہت عرصہ پہلے ہی خرید لیۓ گے تھے ، اور اکثرانہی کو دونوں میاں بیوی پڑھتے ، بعد میں ہم بہنوں نے بھی پڑھا ۔ الحمدُللہ ۔،،، لیکن اباجی رشتہ داروں ، پڑوسیوں ، اور مہمانوں کا بہت ذیادہ خیال کرنے والے ، " مسلمان " تھے ، گھر میں آۓ اور جُڑے نۓ اجنبی رشتوں " دامادوں ، اور بہو " کو جس ہمبل طریقے سے انھوں نے نبھایا ۔ ایسی اعلیٰ ظرفی بہت کم نظر آتی ہے ۔
چند بہت ضرورت مند رشتہ داروں کو ہمیشہ مالی مدد پہنچائ ۔ اماں جی کی نرم دلی ،، کا مزاق اُڑانے ،، یا ، اُن کی مدد سے انکار کے بجاۓ ،، کسی نا کسی طرح اس کام کو پائیہء تکمیل تک پہنچا دیتے ، یہ ایک مرد کی وہ اعلیٰ کوالٹی ہے کہ اُن معاملوں میں بیوی کا ساتھ دینا ،، جو شوہر کی مرضی اور مزاج کا نہیں ہوتا تھا ، کیوں کہ وہ جان گۓ تھے کہ اپنی نرم دلی کی وجہ سے یہ کام کروانا چاہے گی ، جبکہ صحت کی خرابی اسے ایکٹو نہیں کر پاۓ گی ۔ ( اللہ انھیں اُن کاموں پر اجرِ عظیم عطا کرے ۔)
اباجی کی پوری کوشش رہی کہ اپنے " وسائل " کے اندر رہ کر گھر چلائیں ، اور تمام " نیکیاں " بھی اسی دائرے میں رہ کر کریں ۔اس وقت وہ مجھے کچھ " کنجوس " بھی لگتے ،، لیکن اب سوچتی ہوں ، تو وہ بالکل صحیح نہج پر " متوازن " طرز ِ زندگی گزار گۓ ۔ اباجی 80 سال تک پہنچے ، تو وہ نہ کسی کے قرض دار تھے ،، نہ اکلوتے بیٹے پر انحصار کی نوبت آئ ، اُن کے پرانے ، نۓ دوست میں سے کئ یکے بعد دیگرے چل بسے ۔ اور جب بھی کسی کی جدائ کا سنتے یا اسے دفنا کر آتے دو تین دن ڈیپریشن میں رہتے ۔ ان دنوں رئیس امروہوی کا یہ اشعار اکثر دہراتے ،۔
؎ خاموش زندگی بسر کر رہے ہیں ہم 
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہم 
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے ریئس
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
آخر دورِ علالت آگیا ، پہلے یاداشت متاثر ہونا شروع ہوئی ۔ پھر مزید بیماری بڑھی ، اور ان کے ہمدرد معالج ڈاکٹر شاہد سلیم نے ہمیں پوری سچویشن سمجھائ ،، میجر صاحب ، پارکنسن کا شکار ہو رہے ہیں ، آہستہ آہستہ ، مزید بھولنے لگیں گے ۔ اور ایک وقت آۓ گا ، چلنا بھی ممکن نہیں رہے گا ۔" اور خود ڈاکٹر شاہد کا یہ حال ، چاہے رات کتنی بھی دیر سے فارغ ہوں ، اباجی کو ضرور دیکھتے ہوۓ گھر جاتے ، یا ضرورت پڑتی تو ہماری ایک کال پر پہنچتے، ان کا آخری دن کے وزٹ پر یہ جملہ ہمیں بے حد اطمینان دے گیا ،" اس سے ذیادہ اچھی نرسنگ کوئ نہیں ہو سکتی ، جتنی میجر صاحب کی ہوئ "" کیوں کہ اباجی اُن خوش قسمت لوگوں میں سے تھے ، جن کو بہت محبتوں سے سنبھالا گیا ، کہ گھر کی پرانی ملازمہ شہناز نے بیٹی کی طرح خدمت کی ،، میری چھوٹی پھوپھو ، اور آپا ، صبح سے دوپہر تک ڈیوٹی دیتیں ، اور پھر دوپہر سکول سے آ کر اگلے دن صبح تک میَں اور میرے بچے پوری توجہ سے ان کے سب کام نبٹاتے ، الحمدُ للہ ، ہم جب پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ابا جی کی خوش نصیبی پر رشک آتا ہے ، اُن کے سب بچوں نے ،، ان کے نواسے نواسیوں ، نے اور پوتے پوتی نے اپنے اپنے طور پر حصہ ڈالا ، ، خاص طور پر میرا بڑا بیٹا علی ، تو خود اُن کا "اباجی " بن گیا تھا ،،،، یہ اُن کی اپنی نیکیاں تھیں ، کہ ڈیڑھ سال بستر پر رہنے کے باوجود، ان کی اہمیت بڑھی ، کم نہیں ہوئی ، کسی کی طرف سے کوئی کوتاہی ،کوئی اُکتاہٹ نہیں ہوئ ۔ وہ ایک ایسے مرکز رہۓجس نے صرف اپنے بچوں کو ہی نہیں جوڑے رکھا ، بلکہ خاندان کے بہت سے لوگ بھی ان کی معاونت کے محتاج رہۓ ، یہ مددصرف مالی ہی نہیں اخلاقی بھی رہی ۔ اباجی ، نے رزقِ حلال کو اپنا اوڑھنا ، بچھونا بناۓ رکھا ۔ اور اپنے بچوں کو یہ سبق عملا" دیا ۔ "" کہ جتنا پاس ہے اتنے میں گزارا کرو "" اباجی ،،، کی شخصیت ، بہت سی خوبیوں ، اور بہت کم کمزوریوں کے ساتھ مُسَجَع تھی ،، وہ الحمدُ للہ ایسی نیک نامی کما گۓ ، کہ جن کا نام آج بھی ہمارے لیۓ تعارف کا باعث ہے ۔ جبکہ ہم سب بہن بھائ ، خود گرینڈ فادرز ، مدرز بن چکے ہیں ،، اور جب کبھی ہم سے کوئ کہتا ہے کہ اچھا میجر صاحب کے بیٹے / بیٹی ہو ،،، تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے ، کہ مرنے کے 20 سال بعد بھی ، ہمارے والدین کی نیک نامیاں ہم کما رہۓ ہیں ۔ کاش ، ہم بھی اپنے والدین کی اچھی خوبیاں اپنا لیں ،، اور ہم اُن کے لیۓ باعثِ شفاعت بن سکیں ۔
اباجی جوانی سے لٹریچر پڑھنے کے ہی شوقین نہیں تھے بلکہ ، خود بھی شاعری کرتے تھے ،' خالد' تخلص رکھا ، تو اکثر اپنے پورے دستخط ظفرالحق قریشی خالد لکھتے تھے ، افسوس اُن کی کئ غزلیں ، جس رسالے میں چھپیں ، نہ مجھے اُن کانام معلوم ہے ، اور نہ ہی اُن کی غزلوں کا کوئ ریکارڈ ، لیکن اُن کے جگری یار جو خود پنجابی کے نامور شاعر تھے ، " افضل پرویز " نے ایک خط میں انھیں یاد دلایا کہ ، ، ظفر ، تمہارے اندر کا خالد کہاں چلا گیا ہے ، تم اب کوئی شاعری کیوں نہیں کرتے ، جب ایسے شعر لکھے تھے ، تو اب کیا ہوا ہے ،، اور یوں ایک شعر ہمارے لیۓ یاد گار کے طور پر ہاتھ آگیا ،، ۔
؎ رہ گۓ محوِ تماشا لبِ ساحل دانا ! !
اور موجوں سے لگے کھیلنے دیوانے چند 
مجھے فخر ہے کہ اباجی نے اپنی گھریلو تعلیم حاصل کر سکنے والی ، ذہین بیوی کے ذوق کو بے شمار کتب لا کر دینے سے اور بڑھایا ۔ اور اپنی اولاد کو بھی فضول محافل کے بجاۓ ، الفاظ کی دنیا کو کھوجنے کا ہنر دیا ۔ 
بڑے بہنوئ غلام یٰسین ہمارے لیۓ مانندِ باپ رہے ، جب کچھ عرصے بعد اُن کا بھی انتقال ہو گیا ، تو میرے چھوٹے صاحب ذادے نے بہت اچھا ایک جملہ کہا " بڑے ابا جی ، اور یہ بڑے ابو ،،،ایسے لوگ تھے ، جن کے کہنے پر، اور ایک پھیرے پر لوگ بیٹیوں کے رشتے دے دیتے ہیں "۔
اللہ سبحانَ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرماۓ ، دعا ہے ہم اُن کے لیۓ شرمندگی کا باعث نہ بنیں ، ، اللہ اُن کو اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لے آمین ثم آمین !۔
( منیرہ قریشی 11 نومبر 2018ء واہ کینٹ ) ( اختتام )

جمعہ، 9 نومبر، 2018

اک پرِخیال (19)۔۔۔۔(2)۔

" وجودِ خاکی"
' محبت و شفقت ' ( اباجی ) ( حصہ دوم )۔
اور جب بھی ہم بہنیں اور بھائی اپنے بچپن پر نظر ڈالتے تھے ، تو ایک دوسرے سےبہت سی اور باتیں پتہ چلتیں ،،، کہ بڑے دونوں یعنی آپا ، اور احسان بھائ جان جن میں سات سال کا فرق تھا اور دونوں نہایت شریف اور تمیز دار بچے تھے ،، وقت پر کام ، سونا کھیلنا ، سکول باقاعدگی سے جانا وغیرہ جیسی عادات ، کی آبیاری سو فیصد اماں جی کی وجہ سے تھی ۔ دونوں بچوں کو اباجی بہت کم وقت دے پاتے تھے ، کہ انکے کیپٹن بننے کے بعد انٹیلی جینس میں تعیناتی سے انھیں شدید مصروفیات رہتیں ،، اس دوران اگر وہ گھر آتے تو ، اماں جی کی پوری کوشش ہوتی کہ وہ انھیں گھریلو مسائل سے دور رکھیں ،، لیکن ایسا ممکن نہ ہو پاتا ، کسی نا کسی مسلۓ میں الجھی ہماری اماں جی ، اگر کبھی اس مسئلے کی ذیادہ یا کم اہمیت کا احساس دلاتیں بھی ،،، تو بھی اباجی کا پہلا ری ایکشن یہ ہی ہوتا کہ ،،، "تم غلط سوچتی ہو " تمہیں غصہ ذیادہ آ رہا ہے وغیرہ ،، !اور اُن کی پوری کوشش ہوتی کہ دوسرے سے جھگڑے یا اسے الزام دینے کے بجاۓ ،، معاملہ ہلکے پھلکے انداز سےرفع دفع کردیا جاۓ ۔ جبکہ اماں جی اُن کی یہ بے جا نرمی پسند نہیں کرتی تھیں ، اور واقعی بعض دفعہ اماں جی کا مؤقف صحیح ہوتا تھا ۔ لیکن اباجی کی بچپن میں ماں کی محبت کی کمی ،، والد کا لیۓ دیۓ رویہ ، اور جلد ہی چھوٹے بہن بھائیوں کو اپنا تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داریاں اُٹھالینے سے ، وہ ایک ہمبل انسان بن گۓ تھے ،، جن کے پاس لڑائ کا ، یا نفرت کرنے کا وقت نہیں ہوتا تھا ،، !آپا اور بھائ جان بتاتے تھے کہ ان کے بچپن میں اباجی گھر میں بہت ذیادہ سنجیدہ رہتے ،، بچوں سے ان کے سکول کی پراگریس پوچھ لی ، یا کیا لکھتے ، پڑھتے ہو ؟ لیکن اس نان فرینڈلی دور میں بھی ، بچوں کے لیۓ بہت سی کتابیں لائ جاتیں کہ یہ ایکسٹرا بکس ریڈنگ کی عادت ڈالیں ، آپا کے لیۓ خوب رنگین پینسلیں لائ جاتیں کہ وہ ڈرائنگ میں اچھی ہوں ، اباجی کی طرف سے آرڈر ہوتا ، کہ اپنے ماموں کو انگلش میں خط لکھو ، تاکہ انگریزی اچھی ہو ۔شاعری میں علامہ اقبالؒ کے اشعار یاد ہوں تو خوش ہوتے ،، بھائ جان کے کمرے میں ایک الماری ایسی تھی ، جس میں بہت سے سائنسی ایکویپمنٹس ہوتے ، وہ جس سکول میں ساتویں تک پڑھے ، وہاں کی اچھی پڑھائ تھی کہ بغیر کسی ٹیوشن کےجلد ہی وہ پاکستان کے پہلے کیڈٹ کالج حسن ابدال میں داخل کر لیۓ گۓ ، اور یوں آپا کی شادی ، بھائ جان کا ہوسٹل جانا ، اور اماں جی کا بہت سیریئس آپریشن سے گزرنا ، ایک ہی سال اور چند مہینوں میں وقوع پزیر ہوۓ ،، میَں اور جوجی ، چار ، پانچ سال کی عمر میں تھیں ،۔ اور یہ ہی وہ دور تھا کہ ہم دونوں اباجی کی منظورِ نظر بن گئیں ، اور یوں بڑے دونوں بچوں کے ساتھ وہ جتنے سنجیدہ باپ رہۓ ، اتنے ہم دونوں کو کبھی بھی نہیں ڈانٹا ، اور ہمارے بچپن یا لڑکپن کا دورانیہ ، اُن سے محبت سمیٹنے میں گزرا۔ 
پنڈی کے قیام کے دوران ، اچھی انگریزی فلمیں دکھانے خود لے جاتے ، آرمی کلب میں کوئی فنگشن ہے تو وہاں ، ہر سال گرمیوں میں مَری کا قیام ، اور وہاں کا کونا کونا دکھایا ، جب بھی کراچی ، یا ڈھاکہ سے ہو کر آتے ، وہاں کی سوغات لانا ضروری ہوتا ، صدر ایوب کے عملے میں شامل ہوۓ ،تو ان کے ساتھ وہ شکار پر جاتے ، تو یہ اپنے حصے کا شکار مرغابیاں ، تیتر ، بٹیر اتنے لے آتے کہ نہ صرف اسی محلے میں موجود رشتہ داروں کو بھیجی جاتیں ، بلکہ محلے کے کچھ ملنے والوں میں بھی یہ سوغات بٹتی ۔ جبکہ ہم دونوں بہنوں نے کبھی عام بکرے کاگوشت شوق سے نہیں کھایا ، تو یہ مرغابیاں تو ہماری شدید محبت کی حقدار ٹھیرتیں ،، کہ انھں کیوں مارا گیا ،، میَں تو باقاعدہ بحث کرتی تھی۔ ہمارا یہ بحث مباحثہ کرنا آپا کو اکثر حیران کرتا کہ اباجی کتنے بدل گۓ ہیں ۔ ڈھاکہ کے شیرے میں لتھڑے رَس گُلے ، جو پتوں میں پیک اور تنکوں سے بنی ٹوکریوں میں آتے ، انھیں بھی دونوں میاں بیوی ، کھلے دل سے بانٹتے ۔ 
اباجی نے ہم دونوں کے بچپن میں ہمیں پیار اور اہمیت دیۓ رکھی ۔ اُن کے لاۓ ، چابی والی ہاتھ میں گُلدستہ پکڑے ڈانس کرتی گُڑیا ، بہت سالوں تک میرے پاس محفوظ رہی اور جوجی کے لیۓ چابی ، والی ایک پریم چلاتی گڑیا تھی ،، ہم دونوں یہ کھلونے بہت محتاط طریقے سے گھنٹہ بھر کھیل کرواپس ڈبوں میں رکھ دیتیں ، ،، گھر میں ایک اردو کا اخبار ، اماں جی کے لیۓ حُور اور زیب النسا اردو میگزین،، اور ہم دونوں کے لیۓ " تعلیم و تربیت ، بچوں کی دنیا اور کھلونا " رسالے آتے ،، تو گویا اباجی کو یہ سب فضول خرچی نہیں لگتی تھی لیکن ،، دوسری طرف وہ محتاط اخراجات کے قائل تھے ۔ وہ اپنے والد کے آگے کبھی" نہ" نا کر سکنے والے بیٹے رہۓ ۔
اباجی کے آرمی سے ریٹائر ہونے اور واہ فیکٹری میں بطورِ چیف سیکورٹی آفیسر تعینات ہونے پر ہم واہ فیکڑی آۓ تو 1964ستمبر کے دن تھے ، ہلکی ہلکی سردی شروع ہو چکی تھی ، ، اماں جی اتنے بڑے لان والے گھر کو دیکھ کر بہت خوش ،، اور میں اور جوجی غموں میں ڈوب گئیں تھیں ، ، کہ اتنا ویران لان ،، دراصل اباجی کو ملنے والا گھر تب تک خالی نہ ہو سکا تھا ، تو فوری طور پر یہ گھر لینا پڑا جس میں ایک بنگالی فیملی رہ کر گئ تھی ، اور انھوں نے اس گھر کو تین سالوں تک ایسے استعمال کیا ، جیسے " بس کل ہی چلے جائیں گے " اس لیۓ وہ کمروں تک محدود رہۓ ، اور وہ بھی سفیدی کے قابل تھے ۔ ،، لیکن اگلے ہی دن سے اباجی نے ملنے والے اختیارات کا بھرپور استعمال ہوا،، پھر تو روزانہ کی بنیاد پر سارے کام ہوۓ ، اور اباجی نے ،، اپنی بیگم کو خوب خوش کیا ،، جیسا اماں جی نے فرمائش کی ، ویسے کیا گیا ،، بچے بازار کا دودھ نہیں پیئیں گے ،، بھینس جو اب تک گاؤں میں رکھی گئی تھی ، واپس لائ گئ ، اسکے لیۓ دو چھپر والےکمرے بنا دیۓ گۓ ، ایک خدمت گار بھی آگیا ، اور اجڑے لان کو گُل و گلزار بنا دیا گیا ، اس سب میں اباجی نے دل کھول کر خرچ کیا ۔ تاکہ ، بیمار بیوی کا دل راضی ہو جاۓ ۔ اور وہ اپنا ذاتی گھر چھوڑنے پر افسوس نہ کرے ۔ یہاں ہمیں اباجی سے ذیادہ وقت ملنے لگا ، سردی کی جلد چھا جانے والی راتوں میں ،، اباجی ہمیں کبھی کبھار لیبیا ، یا سوڈان کی باتیں بتاتے ،،، یا ،، ہم سے تاش کھیلتے اور چند آسان کھیل انہی سے سیکھے ، سکریبل کا شاید ہماری سہیلیوں نے نام بھی نہ سنا ہو گا ۔ لیکن اباجی نے ہمیں لا کر دیا اور سکھایا ۔ پنڈی صدر میں ایک چائینیزفیملی کی جوتوں کی شاپ تھی ،، ( جو آج بھی موجود ہے) اُس دور میں آرڈر پر بھی جوتے بنواۓ جاتے تھے ، اور اس سلسلے میں بھی اباجی نے ہمارے ذوق کو بہت بڑھایا ، اور دوتین سال تک عیدوں سے دو ماہ پہلے ہمیں اباجی راولپنڈی لے جاتے ، اور ہمارے ناپ کے ،ہماری پسند کے جوتے آرڈر دیۓ جاتے ۔ اُن جوتوں کو اپنی پرانی تصویروں میں دیکھتے ہیں ، تو اباجی کے لاڈ ، کے انداز یاد آ جاتے ہیں ۔ ،،، 
بنیادی طور پر ہم دیہات سے تعلق رکھنے والی " قدامت پسند " خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، آغا جی جیسے پڑھے لکھے دادا کی اجازت " نہ " ملنے کے باوجود آپا کا دس جماعت پڑھ جانا ، اباجی اور اماں جی کا جہاد تھا ۔ لیکن جوں ہی ہم واہ آۓ ، اباجی کے دل و دماغ کو جیسے مزید آزادی مل گئ ، حلانکہ یہاں سے گاؤں ذیادہ نزدیک پڑتا تھا ۔ اور آغا جی کا آنا جانا زیادہ رہنے لگا ۔ اور اب ہمارا آرڈینینس کلب جانا بھی ایشو بنتا چلا گیا ، لیکن اباجی نے اس قسم کی باتوں کو بالکل نظر انداز کیۓ رکھا ، اور ،،،،، ہم نے اس دوران کلب میں بہترین فلمیں بھی دیکھیں ،، کلب کی لائیبریری سے بہترین کتابیں ایشو کروائی گئیں ۔ اور اسی کلب میں ملک کے اعلیٰ و ارفعٰ   شعراء کے مشاعروں میں شرکت کی ،،، استاد امانت علی ، فتح علی کی خوبصورت گائیکی کا لطف اُٹھایا ،، اور جی ہاں ،، " تمبولا " بھی کھیلا ۔( جس کا نام ہم نے یہیں سنا ، صرف ہمارے شوق اور معلومات کے لیۓ اباجی نے یہ دو یا تین مرتبہ کھیلنے دیا ) اور یہ سب ماحول ہم نے اپنے محبت و شفقت بھرے والد کے زیرِِنگرانی ، انجواۓ کیا ۔ لیکن ان سب میں اماں جی کی کہیں شرکت بیماری کی وجہ سے نہیں ہوتی تھی ، لیکن ان کی خوشی ضرور ہوتی تھی ۔ ہر دو ماہ میں ایک دفعہ کسی پکنک سپاٹ لے جایا جاتا ،، اور اکثر ہمیں گاڑی معہ ڈرائیور پنڈی کے لیۓ شاپنگ کے لیۓملتی ، ہمارے ساتھ جگری سہیلیاں ، شاہدہ اینڈ سسٹرز کی کمپنی ہوتی ۔ اس دوران ہمارے کالج کے دن آ چکے تھے ، تب بھی اباجی نے کسی برقعے سے متعلق کبھی بات نہیں کی ، حالانکہ آپا نے آٹھویں یا ساتویں میں ہی برقع اوڑھ لیا تھا ،،، البتہ ہمارے کالج کے دوران اُن دنوں سفید اوورآل کارواج تھا جو ہم بہنیں پہنتی تھیں ۔ اباجی کی سوچ ، منفرد اور قدرِ آزاد تو تھی ۔ لیکن آزاد خیال نہیں ، نہ ہی اباجی نے کبھی ہمیں آزاد روش اپنانےیا جدید ہر طرح کا لباس پہننے کی اجازت دی ،،، گویا انھوں نے بھی حد مقرر رکھی ، تو ہم نے بھی حد کراس نہیں کی !وقت گزرتا گیا ، میں نے بی اے کے بعد پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں لی ، لیکن جوجی نے بائیو میں ایم ایس سی کر لیا ، اور وہ ہمارے خاندان کی پہلی ایم ایس سی لڑکی تھی ، اور یہ علمی سفر اباجی ، کی اجازت سے مکمل ہوا۔
اماں جی مسلسل بیمار تھیں ، لیکن علاج میں رتی بھر کوتاہی نہیں ہوئ ۔ آخر کار اماں جی ایک لنگ ، ایک کڈنی ،کے ساتھ اور شدید دمہ رہنے کے بعد ، تھک سی گئیں ۔ اور ربِ رحیم کریم نے انھیں ابدی سکون سے نواز دیا ، 7 فروری 1976ء غم و دکھ کا سال تھا لیکن یہ سال بہت لمبا چلا ۔ آہستہ آہستہ اباجی نے اپنی دلچسپیاں ڈھونڈلیں ۔ وہ میرے جڑواں بچوں میں اتنے محو ہو گۓ ، کہ جہاں تک ممکن ہوتا انھیں گاڑی میں ساتھ لیۓ لیۓ پھرتے ۔ چونکہ فیکٹری سے بھی نو سالہ ملازمت کے بعد ریٹائر ہو چکے تھے ۔ اس لیۓ اب گھریلو کاموں میں بھی دلچسپی لینے لگے ، جو ان کی کبھی عادت نہیں رہی تھی ۔ لیکن سبزی ، گوشت کے بھاؤ معلوم ہو گئے ۔ (جاری)۔
( منیرہ قریشی 9 نومبر 2018ء واہ کینٹ )

جمعرات، 8 نومبر، 2018

اک پرِخیال(19)۔۔(1)۔

" وجودِ خاکی"
' محبت و شفقت ' ( اپنے والد کی بیسویں برسی کے موقع پر خراجِ تحسین )
ان دو خوبصورت الفاظ کو سنتے ہی ، تصوراتی طور پر ہمارے پردہء خیال میں ، فوری طور پر یا تو والدین کے چہرے اُبھرتے ہیں ،، یا ،، وہ مہربان اور دعاؤں کے حصار لیۓ متفکر چہرے اُبھرتے ہیں ،جن سے کبھی تو کوئ رشتہ ہوتا ہے اور کبھی کوئ رشتہ نہیں ہوتا ،،،، کہا جاتا ہےاللہ رحیم و کریم نے جب " قلم " کی تخلیق کی تھی تو اس نے اِس قلم سے پہلا جملہ لکھا " میری رحمت ، ،میرے غضب پر حاوی رہے گی" ،،،، اور یہ بھی کہ " اس دنیا میں اس کی رحمت کا نزول ایک سوئ کی نوک برابر نازل ہوا ہے ، باقی "رحمت" روزِ محشر کے لیۓ مختص کر دی گئی اور آج ،،، اسی رحمت ، محبت اور شفقت کی تقسیم کا عکس ،،،، کبھی ماں باپ ، کبھی بہن بھائ ، یا ، کچھ دوسرے انسانی رشتوں ، کی صورت میں نظر آتا ہے تو اس محبت کی پاکیزہ مِٹھاس کے (ہم وصولنے والے) شیرے میں نچڑ نچڑ جاتے ہیں ۔ اور یہ اُس مہربان اول و آخر کی ہی صفتِ رحیمی کا عکس ہوتا ہے ،،، ورنہ اس کی یہ"تخلیق" محبت و شفقت کے دریاؤں سمندروں کے بغیر نہ پنپ پاتی ۔ حتیٰ کہ جب یہ شفقت و رحمت ،، جانوروں میں بھی نظر آتی ہے تو ایسے ڈھنگ سے کہ کبھی کبھی انسان بھی شرمندہ ہو جاتا ہے ،، "کہ میَں تو اتنی محبت بھی نہیں کر پایا / پائی ۔ جتنی یہ جانور ماں اپنے بچوں سے کر رہی ہے۔اس رب نے تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہر چیز اور ہر جذبے کے" جوڑے " بنا دیۓ ۔ اور اسی میں بقا اور فنا ،،، کے ساتھ کا بھی جوڑا بنا دیا ،،،،، بقا صرف "خالق" کو اور اور فنا " تخلیق " کو حاصل ہو گئی ۔ 
اب اگر اپنے والدین کی طرف دیکھیں تو ہر اولاد کو اپنے والدین بہت عظیم اور منفرد لگتے ہیں ۔ مجھے بھی اپنے ماں باپ کےاندر جو خوبیاں نظر آتی ہیں ، شاید اور لوگوں میں بھی ہوں گی ،، لیکن کم ،، اوروہ میرے نزدیک لاکھوں میں سے ایک تھے ! اباجی 24 نومبر 1998ِکو 82 سال کے ہو کر ، اس جہانِ فانی سے رخصت ہوۓ ۔ چارسدہ کے گاؤں " عمر زئ ، صوبہ سرحد میں پیدا ہونے والے اپنے نوجوان والدین کی وہ پہلی اولاد تھے ،،، یقینا" ان کے والدین پہلی اولاد بیٹا ہونے پر خوش ہوۓ ہوں گے ۔ لیکن میَں اُس جوڑے کی اداسی، اور ،،،عجیب سے دکھ کو اکثر محسوس کرتی ہوں ، کہ خاندانی دشمنی کے باعث اس جوڑے کو غیر منقسم برِ صغیر کے اس نزدیکی صوبے میں جانا ، پناہ لینا اور کئی سال رہنا پڑا ،، نوجوان ماں اور باپ خوش قسمت تھے کہ ان کے پڑوسی ، پٹھان خاندان نہ صرف اثر نفوذ ،والا تھا، بلکہ تعلیمی میدان کا شہسوار بھی تھا ،، اباجی کے والد فضلِ حق قریشی فسٹ ڈویژن میٹرک پاس ، اور انگلش ، اردو ، فارسی اور عربی کی زبانوں پر اتنا عبور ضرور تھا کہ اردو ، فارسی میں شاعری کرتے ، اور پڑوس کے خان صاحب سے انگلش ناولز اور کتب کو ایکسچینج کرتے تھے ،، خود انھوں نے لاء کالج میں داخلہ لے لیا تھا لیکن ،،اب دن تو اپنی نوکری کے سلسلے میں پوسٹ ماسٹر جنرل کے طور پر اور شامیں ، با ذوق پڑوسی اور ان کی کتابوں کی صحبت میں گزرتیں ، اِسی خاندان کی ایک بہن سلمیٰ تھیں جو تحریکِ پاکستان میں شامل خواتین کی صف میں بیگم سلمیٰ تصدق حسین کے نام سے نامور ہوئیں ۔ تو گویا آغا جی ( ہم دادا جی کو یہ ہی کہتے تھے ) کو بالغ النظر پڑوسی ملے ، تو اباجی ظفر الحق کا بچپن لٹریری اور با اخلاق ماحول میں گزرا ،، کہ پڑوسی کے 11 بچوں میں سب ہی لڑکے ، لڑکیاں سکول جاتے ، اور ان کے ساتھ اباجی کو بھی داخل کروایا گیا ۔ اباجی کی والدہ کو ایک دبنگ اور بہت محبتی پڑوسن ملی ، جس نے اس پنجابی نوجوان ماں کے آنسو بھی پہنچے اور تینوں بچوں کی زچگی میں بھی مکمل ماں کا کردار ادا کیا ، کہ محبت کی نہ کوئ زبان ہوتی ہے نہ سرحدیں ،، نہ عمر ، نہ دنیاوی دولت کا کوئی لیول ،،،،،،،!اباجی کے بعد ایک بھائ انوار الحق اور ایک بہن اقبال بیگم پیدا ہوۓ ، یہ سب اِس پختون ماحول میں ، پشتو ہی بولتے تھے ،، یہ ہی وجہ تھی کہ یہ تینوں پشتو بول اور سمجھ لیتے تھے لیکن ، اباجی ، اس معاملے میں بہت آگے رہے کہ جماعت ششم تک اسی ماحول میں پلنے کی وجہ سے اور مکمل طور پر پختون ساتھیوں اور ٹیچرز کی وجہ سے زندگی بھر اپنے سے ملنے کے لیۓ آنے والے پشتو بولنے والوں سے اِسی زبان میں بات چیت کرتے تھے ، اور یہ ہی وجہ تھی کہ وہاں کے بنے دوستوں سے ان کی محبت دو چند ہوتی ،، ان سے لین دین ، انھیں گھر بلانا ، دعوت کا اہتمام کرنا ۔۔ اور اُس تعلیمی ماحول میں گزارے اثرات تا دیر اور پختہ رہے ۔ "جوان ماں" کی وفات اور اُسے اسی گاؤں میں ان کو دفنا کر ، جوان"غم ذدہ باپ" اپنا مختصر خاندان واپس پنجاب ، اپنے والدین کے پاس لے آیا ۔،،بچے نا سمجھ تھے ، ان کے دادی دادا نے نئ ماں کا اہتمام کیا ۔ 
اور اباجی ،،، کے دل کے اندرہمیشہ کے لیۓ ، ماں ، کی محبت کا خانہ خالی رہا ۔۔۔ اباجی پڑھائ میں شاید بہت اول دوم نہ آتے تھے ، لیکن ایک اچھے طالب علم رہۓ ۔ ساتویں سے دسویں تک ٹیکسلا کے گورئنمنٹ سکول سے فسٹ ڈویژن سے میٹرک پاس کیا ، اور والد نے بہت شوق سے پنڈی اسلامیہ کالج میں داخل کروایا ،،، فسٹ ایئر کا فائنل نزدیک تھا کہ دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا چاہتا تھا،، انگریز حکومت کو دنیا میں پھیلی اپنی مختلف " کانونیز " بچانے کے لیۓ ،، قربان کی جانے والے بے شمار اجسام کی ضرورت تھی ، اور انہی میں وہ لوگ بھی تھے ،، جن کے نزدیک تعلیم سے ذیادہ " ماحول " کی تبدیلی اولیت رکھتی تھی ، اور اباجی نےیہ تبدیلی والد کو اطلاع دیۓ بغیر کی ۔ اور جب تک باپ کو پتہ چلتا ، بیٹا ٹریننگ کے لیۓ جا چکا تھا ، اباجی کی انگریزی اور اردو ، میں بہترین استعداد کی وجہ سے ، انھیں سنگنلز میں بطورِ کلرک بھرتی کیا گیا اور ساتھ ہی کچھ ماہ کے لیۓ پنڈی پوسٹ کر دیا گیا ، یہ ہی دورانیہ تھا جب وہ گھر آۓ ، تو باپ نے اپنی بات منوائ ، کہ 24 سالہ بیٹے کی شادی دور کے رشتے دار، کی 16 سالہ بیٹی سے کر دی ،،، ایک ڈیڑھ سال میں وہ ایک بیٹی کےباپ اور ماںبن گۓ ۔ 
اباجی ، کی نئ دوسری والدہ بھی دو بیٹیا ں اور ایک بیٹا (جو بہت چھوٹے تھے ) چھوڑ کر اگلی دنیا جا بسی ۔ لیکن اباجی اب اپنے سے چھوٹے پانچ بہن بھائیوں کے بڑے بھائ ہی نہیں ،، باپ اور ماں بھی بن گۓ ،،، کہ آغا جی نے تیسری شادی کر لی تھی ،، اباجی اپنے بہن بھائیوں سے محبت میں اتنے آگے آگے رہے کہ بیوی بچی کی حیثیت ، دوسرے نمبر پر رہی ، ، اور " بیوی عزیزہ بیگم " نے اس راستے کو جلد اپنا لیا ، کہ شوہر کو جیتنا ہے تو اس کے بہن بھائیوں کی خوشنودی کو اولیت دینی ہو گی ۔ اور اماں جی نے یہ پالیسی زندگی بھر اپناۓ رکھی ۔ 
بعد میں اباجی دوسری جنگِ عظیم شروع ہوتے ہی، سوڈان ، مصر ، لیبیا اور عراق میں چار سال کے لیۓ چلے گۓ ۔ اباجی بتاتے تھے اس چار سال میں ، میَں نے شاید ہی کوئ اچھا انگریزی ناول چھوڑا ہو ۔ وہ بتاتے تھے ، سارا وقت کانواۓ کا ایک جگہ دوسری جگہ کے سفر کے دوران ، ٹینشن سے دور رہنے کا سب سے بہترین علاج ، انگلش فکشن پڑھنا تھا ،، اس کے ساتھ اگر کسی ذریعے سے " علامہ اقبال ؒ" کی کوئ کتاب مل جاتی ، تو اب عاشقِ اقبالؒ کے لیۓ اسے سمجھنا اور بھی آسان ہو گیا کہ انؒ کے ایک ایک مصرعے میں وہ ہسٹری اور جغرافیہ تھا ، جس میں وہ اُس وقت پھر پھرا رہے تھے ، اور یوں جب وہ اس جنگِ عظیم سے واپس پاکستان آۓ ، تو انگریزی لٹریچر میں ان کی دلچسپی تو دوچند ہو ہی گئ تھی ۔ لیکن علامہؒ سے ان کا عشق اور ہی انداز سے اُن کے مزاج میں آگیا ، علامہؒ کی ساری کتب کا سیٹ اس لیۓ بھی موجود تھا کہ اپنی پہلی اولاد " زاہدہ نسیم " کو آٹھویں پاس کرنے پر یا سالگرہ پر علامہ ؒ کی کتاب کاہی تحفہ ملتا ، 1938ء کا پرنٹ شدہ علامہؒ کی سب کتب پاکستان بننے سے پہلے کی خرید لی گئیں تھیں ،، بعد میں مولانا مودودی ؒ کی تفہیم القرآن کی چھے جلدیں خرید لی گئیں ، جو میرے خیال میں اِن جلدوں کا پہلا ایڈیشن تھا ، الحمدُ للہ ! کہ اس کے بعد اکثر بہت خوبصورت قرآن پاک جن کے رنگین حاشیوں سے سجے صفحے ، ایک دم آنکھوں کو روشن سے کر دیتے ، حتیٰ کہ انگلش ترجمے والا قرآن بھی گھر میں تھا جو دو جلدوں پر مشتمل تھا ، اس کی ایک جلد کوئ لے گیا ، واپس نہ کرنے کے لیۓ اور ایک آج بھی موجود ہے ،، ! کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اباجی کے شوق اور ذوق نے گھر کی فضا کو بھی وہ ماحول دیا ، جو میرے خیال میں شاید ہمارے ، خاندان کے 60، 70 گھرانوں میں سے ایک آدھ میں نظر آیا ،، اباجی نے پاکستان بننے کے فورا" بعد کمشن حاصل کیا اور 
آرمی میں ان کو انٹیلیجینس کے شعبے میں تعینات کیا گیا ، ،، اس دوران اللہ تعا لیٰ نے انھیں ایک بیٹا دیا ، جس کا نام " احسان الحق " رکھا گیا ۔ اور اِن کے کچھ وقت کے بعد ہم دو بہنیں پیدا ہوئیں ،، تو میرا نام نیرہ رکھا گیا،لیکن اباجی نے علامہؒ کی بیٹی کا سُن کر میرا نام " منیرہ " رکھا اور یوں ، ہم تین بہنوں اوراکلوتے بھائ نے اپنے ادبی ذوق والے ، والد ، اور نہایت ذہین والدہ کے زیرِ نگرانی پرورش پائی۔ 
اماں جی ،،، اپنے شوہر سے متعلق ایک جملہ اکثر بولتی تھیں ، " تمہارا باپ تو فرشتہ ہے ، اس بندے کے تن کے کپڑے بھی کوئ مانگ بیٹھے ، تو یہ اسے دینے میں لمحہ بھر بھی نہیں سوچے گا ۔ ہمیں اس جملے کی کچھ سمجھ نہیں آتی تھی ۔ بعد میں، کبھی کوئ قصہ سنانے کا اُن کاموڈ بن جاتا تو اباجی کی شخصیت کا مثبت پہلو سامنے آتا ۔ اور ہم بچے حیران ہوتے کہ ان کا کتنا بڑا دل تھا ۔
جب اباجی دوسری جنگِ عظیم کے دوران رہے ، اچھی سیلری کی بنا پر ، اس دور میں جو پیسے ملتے، سارے اپنے والد کو بھیجتے ، اس میں سے چھوٹی بہنوں اور بھائ کو 10 ، 10 روپے ، پاکٹ منی دینے کی ہدایت ہوتی ، نیز ایک نزدیکی رشتہ دار جاب لیس تھا ، اسے اسکی چار ممبران پر مشتمل فیملی کو 25 روپے مہینہ دینے کی ہدایت تھی ۔ ( یہ واضع رہے اس دور میں 25 روپے ایک 15 یا 16 گریڈ کی تنخواہ ہوتی تھی ) آغا جی ، کو مزید تفصیل مہیا تھی کہ خاندان میں کس کو کتنے دینے ہیں وغیرہ ، اور اِن سب اخراجات کے بعد بھی اتنے پیسے بچتے کہ آغا جی زمینیں خریدتے رہتے ۔ لیکن وہ یہ اپنے نام سے خریدتے ،، اورجس رشتہ دار کو جاب لیس ہونے کی بناپر 25 روپے ماہانہ دو تین سال دیا جاتا رہا ، وہ سال بعد ہی جاب پر لگ گیا تب بھی اس نے آغا جی کو آگاہ نہیں کیا کہ اب اسے ضرورت نہیں رہی ۔ لیکن اباجی نے اپنے والد کو اسے کچھ بھی کہنے سے منع کر دیا ۔
اس زمانے کے دستور کے مطابق ، ہمارے نانا جی نے اپنی بیٹیوں کو اچھا جہیز دیا ۔ جس کی خاصی تفصیل دوسروں سے سنتے لیکن ، جب اباجی کمشن ملنے ا(ور پاکستان بننے سے پہلے )کے فورا" بعد پہلی ٹرانسفر جہلم میں ہوئ اور انھوں نے عندیہ دیا ، کہ میَں اپنی بیوی اور بیٹی کو ساتھ لے کر جاؤں گا ،، تو اُس وقت کی آغا جی کی چوتھی ، بیوی نے فیصلہ سنایا کہ ، تمہارے جہیز کی کوئ چیز تم نہیں اُٹھا سکتیں ۔ یوں عائلی زندگی کا آغاز ہی مشکلات سے ہوا لیکن جہاں محبت اور اعتماد کا سرسبز پودا لگا ہو ، تو کوئ مشکل ، مشکل نہیں لگتی ۔ 
اباجی کو کتابوں کے شوق میں اکثر اس قدر محو دیکھا کہ رات کو کوئ کتاب پڑھے بغیر سوتے نہیں دیکھا ،، جب میں پانچ سال کی تھی تو ہماری سب سے بڑی بہن جنھیں ہم آپا کہتی تھیں کی میٹرک ( فسٹ ڈویژن ) کے رزلٹ سے اگلے مہینے اباجی کے پھوپھی ذاد سے ہوگئ ، وہ بھی آرمی میں کیپٹن تھے ، آپا اس وقت صرف 15 سال کی تھیں ۔ لیکن اباجی ، اپنی بیٹی جو خاندان کی حسین ترین لڑکی تھیں ، کو مزید نہیں پڑھانا چاہتے تھے کیوں کہ ، نہ اس دور میں کالج کا بہت رواج تھا نہ ہی بڑے بزرگوں کی طرف سے اجازت ،،، آپا سخت برقعے میں سکول جاتی رہیں وہ ایک لائق سٹوڈنٹ تھیں ،،، دراصل ہمارے بزرگ کنزرویٹو خیالات کے مالک تھے ، جن کے نزدیک لڑکیاں کالج جا کر خراب ہو جاتی ہیں ،، حالانکہ ، ٹیکسلا کے گاؤں سے تعلق رکھنے کے باوجود ، میری دونوں پھو پھییاں سکول پڑھنے ، تانگے پرجاتیں ، خوب بڑے بڑے برقعوں میں ۔۔ یہ اور بات کہ وہ پانچویں تک پڑھ کر گھر بیٹھ گئیں ۔ 
بچپن میں ہم نے اباجی کو ذیادہ تر سنجیدہ دیکھا ۔ وہ دوست پرست ، اپنے والد کے انتہائ تابعدار بیٹے اور بھائ بہنوں کے بےحد کنسرنگ بھائ تھے ، اپنے امیر یا غریب رشتہ داروں کی تکالیف کو دور کرنا تو جیسے ان کا فرض تھا ، یہ ہی وجہ تھی کہ ہمارا گھر ، خاندان کے ان لوگوں سے اکثر آباد رہتا جو ، علاج کرانے ٹھہرتے تھے ، اور یہ قیام چار دن سے چار ماہ تک کا ہوتا ، ، بے شک اس آؤ بھگت میں اماں جی کا ذیادہ ہاتھ ہوتا ، لیکن وہ بھی اپنے شوہر کی خوشنودی کی رمز جان چکی تھیں ، اس لیۓ ، وہ مریض میں کافی دلچسپی لیتیں ، اور میرا خیال ہے ۔۔ بنیادی طور پر دونوں ، نرم دل ، مدد پر ہاتھ پھیلانے والے کا ہاتھ تھامنے والے ، کھلے دل کے مالک ، اور شفقت کرنے والے تھے ، اسی لیۓ مہمان کی آمد پر ناک بھوں نہیں چڑھائ جاتی تھی ، حالانکہ بجٹ خاصا اِپ سِٹ ہو جاتا تھا ، گھر میں دو تین ملازم ضرور تھے ، جس کی وجہ سے اماں جی پر کام کاج کا بوجھ نہیں پڑتا تھا لیکن ، روٹین کافی بدل جاتا ۔ ،،، اس سب میں اباجی ، مریض کو جس ڈاکٹر کا دکھانا ہے تو پہلی دفعہ اماںجی لے کر جائیں تاکہ ڈاکٹر سے تعارف بھی ہو جاۓ ، اور مریض راستوں سے بھی واقف ہو جاۓ ۔۔۔ مریض چاہے مرد ہے یا عورت ،،، اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا تھا ،، اور میں سمجھتی ہوں یہ اباجی کا اپنی بیوی پر انتہا درجے کا " ٹرسٹ " تھا اعتبار کا یہ رشتہ اتنا ذبردست تھا ، کہ اماں جی کے اعتماد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ،،، اباجی کی فطرت کا یہ پہلو ،،، اتنا روشن ہے کہ آج بھی میَں بہت سے بہت پڑھے لکھے ، بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز یا مال و دولت سے آسودہ حال بھی اپنی بیویوں ، بیٹیوں پر " شک " کرتے ہیں ۔ جس سے اکثر خواتین شوہروں سے بد دل ہوجاتی ہیں ۔ اور یہ " شک " گھر کی بنیادوں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر ڈالتا ہے ۔ اباجی کی بہترین عادتوں میں سے ایک اور بھی تھی جو میَں نے خال خال ہی دیکھی ہے کہ ، کبھی احسان کر کے نہیں جتایا ۔ 
بلکہ در گزر سے کام لیتے ، اور ایسے احسان فراموش کو سامنے پاتے تو بس اتنا کرتے کہ اس سے بہت گرم جوشی سے نہ ملتے ۔ اپنے بہن بھائیوں کی زمینوں سے آنے والی ، پائ پائ کا حساب کر کے لکھ لیتے ، اور جب باہر رہنے والا بھائ ، پاکستان آتا ، تو اسے اسکی بینک سٹیٹمنٹ دیتے ،، وہ صاف کہتے تھے " بھائ جان محنت آپ نے کی لیکن لاٹری ہماری نکل آئیں " ،، 
( کم ازکم ضیا الحق چچا نے ایڈمٹ تو کیا ) اور آخر کار اباجی نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ، باپ ، دادا کی زمینوں کے مشترکہ زمینوں کو الگ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، تو اکیلے ہی گرمی سردی ، کار دوڑاتے 8 سال لگے ، لیکن پاکستانی قانون کی کمزوریوں کی وجہ سے کام تین حصہ ختم کروا لیا ۔ جبکہ باقی اب ہمارے بھائ نے زمینوں کے جھنجھٹوں سے فراغت کروائی ۔ لیکن کیا مجال کہ ضیاء چچا جیسا شکر گزار رویہ کسی نے دکھایا ہو ۔ 
اباجی ، نے اماں جی کی شدید بیماری میں جو خدمت کی ، وہ خاندان بھر میں مثال بنی رہی ، آپا کی شادی کو ابھی دو ماہ ہی گزرے تھے کہ اماں جی کو بہت سیریس بیماری کے سلسلے میں چار ماہ ہسپتال رہنا پڑا ، ہم دونوں بہنوں کو صبح سکول کے لیۓ تیار کرنا ، اباجی نے اپنا فرض سمجھا ، ہمارا اکلوتا بھائ ، ہاسٹل جا چکا تھا ، اس دور میں آپا کو ان کے شوہر نے ایبٹ آباد سے بھیج دیا کہ والدہ کے لیۓ ہاسپٹل میں رہنا تھا ، گھر پر ، اردلی ، اور دو نوکرانیاں بھی ہوتیں لیکن اباجی ، ہماری خوراک کا خاص خیال خود رکھتے تھے ۔ ہماری دیکھ بھال کے لیۓ کبھی اباجی کی ایک بزرگ خالہ آ جاتیں ، اباجی کہتے تھے ،، یہ دور مجھ پر بہت بھاری رہا ، اور اپنے خاندان کی ان گھروں کی بے اعتنائیاں سہیں ، جن کو میَں نے ہی قدموں پر کھڑا کیا تھا ، یا اُن کی نرمی، بیماری میں ان کا ہاتھ تھاما تھا " ،،،، اباجی نے ہی بتایا ،، " جس دن تمہاری اماں کا آپریشن صبح ہونا تھا میَں ساری رات ہاسپٹل کے لان میں ، سجدہ ریز رہا ، کہ میرے اللہ ، میں بھی اور میری بیوی بھی اپنی ماؤں کی محبت نہیں پا سکے ، اب میرے ان نا سمجھ بچیوں کو ان کی ماں نصیب کر دے " ،،،، اماں جی کے بقول ، " مجھے تو اللہ نے تمہارے باپ کی وجہ سے زندگی دے دی " ،،، ڈاکٹرز نے اباجی سے سائن لینے کے وقت بتادیا تھا ، کیپٹن ظفر ( اس وقت اباجی کیپٹن تھے ) بچنے کا چانس صرف دو فیصد ہے ،،، اور جب آپریشن ہو گیا تو ڈاکٹر نے کہا اس حالت میں یہ 10 سال زندہ رہیں گی ، وہ بھی بہت خیال اور احتیاط کرنے سے، جبکہ اماں جی کو اللہ نے 19 سال تک کی زندگی دی ۔ اباجی نے اماں جی کی ہر طرح کی بیماری کو ہمیشہ سیریئس لیا ،، اور کبھی بھی ان کے منہ سے کوئ احسان یا اکتاہٹ کے جملے نہیں سنے ۔ الحمدُ للہ ! ۔
( اباجی کی بیسویں برسی پر انھیں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتی تھی ، تاکہ اپنے اپنے والدین کی خوبیوں کو ہم یاد تو کریں صرف زبانی نہیں ، تحریری بھی، ، اور اپنا بھی جائزہ لیں کہ ہم کیسے والدین ہیں)۔
( جاری )
( منیرہ قریشی ، 8 نومبر 2018ء واہ کینٹ )

جمعہ، 26 اکتوبر، 2018

اِک پرِ خیال (18)۔

" اِک پرِ خیال "
' کچھ گھنٹے ، کچھ دن ' ( 18)۔
کبھی کبھی جذبوں اور خیالوں کی زمین بے آب و گیا ،، ہوتی چلی جاتی ہے 
کبھی کبھی زندگی کی گاڑی چہل پہل کے باوجود ،، ویرانے میں جا کھڑی ہوتی ہے ۔ 
کبھی کبھی ہجوم کے باوجود ، یہ وجود اکلاپے کی سُن کر دینے والی سردی میں ٹھٹھر رہا ہوتا ہے ،،، اور کبھی کبھی سُنی آوازیں ، پہچانے لہجے ،،، اجنبی لگتے ہیں ، کہ کسی کا جواب دینا ضروری نہیں لگتا ۔
کبھی کبھی "احساس " ،، ببول کا درخت بن جاتا ہے ،،،کوئی پھول نہیں ، کوئی پتی نہیں ۔
اور جب بھی بےحسی کے اس دور سے کوئی آپ کےقریب سےگزرے ، تو اسکے ہاتھ کو پکڑلیں ،، اپنے ہاتھ سے اسکے ہاتھ کو کچھ دیر تک پکڑے رکھیں ۔ اپنے ہاتھ کی گرمائش سے اسے ،، اسکی اہمیت کا احساس دلائیں۔
اس کی مہمل ، بےرنگ ، اور غیر دلچسپ گفتگو کو کچھ " گھنٹوں " کے لیۓ سُن لیں ( بلکہ برداشت کر لیں ) ۔ اُسے کوئی امپریشن نہ دیں کہ مجھے تمہارے حالات کا علم ہے ، اس لیۓ میں ہمدردی کر رہا ہوں / کر رہی ہوں ۔ اب ہم اسے نئی اور توانا سوچ نہیں دے سکتے ۔صرف اتنا کر لیں کہ اس کے حصے میں آۓ ، ٹیڑھے ، بےرنگ ، اور دھول سے اَٹے راستے سے کچھ " گھنٹوں یا کچھ دنوں " کے لیۓ رنگین پوسٹرز سے سجے راستوں کے قریب سے گزار دیں ،،،، شاید اُس کی دنیا میں پیٹ کے علاوہ بھی کوئی چیز قابلِ توجہ ہو جاۓ !!!!۔
ایسے ہی کچھ لوگ کبھی کبھی امتحان بن کر سامنے آ جاتے ہیں ، اور کچھ گھنٹوں ، یا ، کچھ دنوں کے بعد زندگی کے کسی اور چکر ، یا گھن چکر میں جا شامل ہوتے ہیں ۔ صرف چند دن یا چند گھنٹے،،،، ہم اپنی خوشیوں کی زکاۃ " خوشیوں " کی صورت میں بانٹ سکتے ہیں ۔
کبھی کبھی ،،، زندگی میں ایک بار ، یا ، دو بار !!ہر سال کا حج ، اور عمرہ ، گھر بیٹھے بھی ہو جاتا ہے۔
" کہ رب دلاں وچ رہندا "
اشفاق صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں " صوفی وہ ہے جس کے ہاتھ گندے ( خدمتِ خلق سے) اور دل صاف ہوتا ہے !۔
( منیرہ قریشی 26 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )

اتوار، 21 اکتوبر، 2018

"اِک پرِ خیال" (17)۔


"اِک پرِ خیال"
'بند روزن ' (17)۔
اپنی ذات کے بند روزن کھولیۓ ، ورنہ اندر کی گھُٹی فضا ، متعفن اور بےزار رویہ بندے کو جیتے جی قبر میں اتار ڈالتا ہے ،، دوسرے کو بھی اور خود کو بھی ۔ اپنی زندگی کا سنہری دور اسی کُڑھن ،، جلن ، میں نہ گزاریۓ ،، ابھی اسی وقت سوچ بدل ڈالیۓ ،، کیوں کہ آپ کی ہر ایک سے نفرت اور صرف اپنی ذات سے محبت اور صرف چند لوگوں سے اُلفت آپ کو محدود کر رہا ہے ۔ ابھی کے ابھی اپنا جائزہ لیجۓ ، باہر کھڑا ، بہاریہ پیغام دینے والا قاصد آوازیں لگا رہا ہے ، اس نے آپ کو مسکراہٹ کا خط پہنچانا ہے ، اونچا قہقہہ لگانے کا نسخہ دینا ہے ، جسے آپ بھول چکے ہیں آپ کے منہ میں مصری کی ڈلیاں بھرنے کے لیۓ بھری تھیلی اُٹھا رکھی ہے ،، باہر جائیں تو سہی !! اپنی ذات کے سب غیر ضروری روزن ، "ہمت" کے سیمنٹ سے بند کر دیں ،،، اور اُن دروازوں ، کھڑکیوں ، اور روزن کو کھول دیں ، جو سورج کی نرم روشنی اور نرم گرمائش کے مکسچر میں گھُلی " رنگ روغن" کرنے کے والا آپ کے باہر آنے کا منتظر ہے۔
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ، جو کرنا ہے ، کر ڈالیۓ ،،،جو کہنا ہے کہہ دیجیۓ ،،،، کہ پھر سفید سَر کے ساتھ ، یہ کہتے ہوۓ آخری دور گزرے ، " کسی نے کچھ پو چھا ہی نہیں مجھ سے ،،،۔میرا تو دل تھا ، یہ قدم اُٹھانے کا ، لیکن ،،،مجھے تو لگا کہ ، مجھ میں یہ گُن ہی نہیں تھا ،،، آہ مگر اب کیا فائدہ ،،،،،،،،،،،،،، وغیرہ 
تَو گویا آپ نے زندگی ، کسی گاۓ ، بکری جیسی کھونٹے کے گرد پھرتے گزارنی ہے ، تَؤ گویا آپ نے زندگی خود اپنی پُوجا کرتے گزارنی ہے ،،،۔
تَو گویا ، آپ نے سوچنے اور سیڑھی پر چڑھنے کے عمل کو نہیں ،، صرف اُترنے کے عمل کو اپنانا ہے ،،،،،۔
۔"" قسمت ایک بار نہیں" بار بار بھی " دستک دیتی ہے، آپ نے بڑھ کر ابھی   دروازہ نہ کھولا ، تو قدرت بھی پوچھیت کے سخت عذاب سے گزار سکتی ہے ،کہ میَں نے تجھے کئی مواقع دیۓ تھے ،لیکن تم اپنے خالق پر بھروسے کی صفت سے عاری رہۓ ، متقی پرہیزگار نہ سہی ، شکرگزار ہی بن جاؤ ، کہ جو جسمانی ، ذہنی ، مالی صلاحتیں ملی ہیں ، انہی کی شکرگزاری سے اللہ منفی سوچوں کو ہٹا دیتا ہے ""۔
( منیرہ قریشی 21 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )