بدھ، 30 جنوری، 2019

اک پَرِ خیال(29)۔

" اِک پَرِ خیال"
' عالی نسب یا خاندانی' (29)۔
کچھ زبانوں میں کچھ الفاظ کے معنی ، وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے جاتے ہیں ۔ یا ،، ہوتے رہنے چا ہییں ، کیوں کہ دنیا میں ہر دوسرے ہفتے ٹیکنالوجی نے حیران کن تبدیلیاں دی ہیں ، اور موسموں نے اپنے رنگ ڈھنگ بدل لیۓ ہیں ،، اور دنیا میں موجود ارب ہا انسان اتنے قریب ہو چکے ہیں کہ نہ صرف ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن ،، بلکہ لباس ، کھانے اور زبانوں پر بھی اثر انداز ہو رہۓ ہیں ،،،، تو عادات و خصلتوں کے لحاظ سے بھی کیوں نہ اثر پزیری ہو !!پہلے زمانے میں ملکوں ، اور قوموں کی آپسی میل ملاپ بہت آہستگی سے پنپتا تھا ۔ لیکن جب جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اقوام نے تیزی سے ملنا جلنا شروع کیا تو علم ہوا کہ کچھ عادات سے جُڑے الفاظ اور ضوابط بین الاقوامی پہچان لیۓ ہوتے ہیں ،اور وہ دنیا کے ہر خطے میں وہی معنی رکھتے ہیں ، مثلا" جھوٹ نہ بولو،، چوری نہ کرو ، دوسروں کا حق نہ کھاؤ ، بڑوں کا ادب کرو ،، ماحول صاف اور سر سبز رکھو وغیرہ وغیرہ !!لیکن جہاں حسب نسب کا قصہ کہانی شروع ہوئی ، وہاں دنیا کے ہر خطے والے ، ہاتھ میں پکڑے "نسب کے مورچھَل" ہلانے لگتے ہیں ، کیوں کہ ذرا سا بھی بہتر پس منظر رکھنے والا، چاہتا ہے ، بس "اِسی" کی اہمیت تسلیم کی جاۓ !! بس " اسی " کو دیکھا جاۓ ، اور سُنا جاۓ ،،،، !شاید یہ انسانی فطرت بھی ہے ، کہ کہیں سے کسی حوالے سے اس کی شخصیت پربھی کچھ چاند تارے ٹانک دیۓ جائیں ۔ تسلیم کیا جاۓ کہ یہ ہیں " ہم "،،،، جی ہم "لیکن ، یہ اَور بات کہ اِس " ہم " میں ذیادہ تروہ ہیں جن میں کوئی " گُن " نہیں ۔ کوئی اقدار کا پاس ، ، کوئی اُصولِ پاسداری ،، کوئ ضابطہء زندگی نہیں ،، کوئ زبان کا پاس ،، کوئ زبان کی احتیاط نہیں رہی ،، گویا " کلر ذدہ " فطرت لیۓ وقت گزار لیتے ہیں ، ، ۔ یہ " ہم ذدہ لوگ " ،،،،، پدرم سلطان بُود کے تحت چار پیسے آجانے پر دوسروں کو نظریں ٹیڑھی کر کے دیکھتے رہتے ہیں ،،،،،،اور کچھ ایسے " ہم " ہیں جو ذرا سا اختیار یا اقتدار یا مال آجانے پر تکبر کے پہاڑ کی چوٹی پر جا بیٹھتے ہیں ۔ جہاں سے باقی لوگ انھیں ، چیونٹیاں لگنےلگتے ہیں ،،بلکہ ذہنی پسماندہ ، اور احمق بھی ۔ اسی لیۓ وہ دل کھول کر امانت کے طور پر دی گئ حیثیت اور مال کو اتنی بے دردی سے استعمال کرتے ہیں کہ اپنے وقت کے " فرعون " بن جاتے ہیں ، اپنا اور اپنی اگلی آٹھ دس نسلوں کا مستقبل محفوظ کرلیتے ہیں ، اور اس قدر شاد کام ہوجاتے ہیں ، کہ یہ " " ہم ذدہ " لوگ تمام اُصول و قانون ، کو پاؤں کی دھول سمجھ کر اپنے دورِ اقتدار کو گزار لیتے ہیں ۔ لیکن اپنی ذات کے حوالے سے ذلت آمیز جملوں ، مقدموں ، اور چوریوں کا کُھل جانے سے اُن کی مسکراہٹوں پر کوئ فرق نہیں پڑتا ۔ کسی معصوم کو قتل کر کے عدالتوں کے باہر وکٹری کا نشان یوں بنارہے ہوتے ہیں ، جیسے انھوں نے ملک کی سرحدوں کو بچانے میں کوئی اہم کارنامہ انجام دیا ہے ،،،، بس وہ ایک مطالبہ ضرور کرتے نظر آئیں گے " دیکھیں جی، آخر ہم خاندانی لوگ ہیں " ،،،، ہماری گلی کا سویپر یا صفائی والا ، روزانہ صبح تڑکے ، پوری گلی، جو ڈیڑھ فرلانگ تک کی ہے،، کی صفائی کرتا ہے ، نیز ہر گھر کے باہر پڑا کوڑا بڑے کوڑے دان میں ڈالتا ہے ،،اس بڑے کوڑے دان کے گرد پڑے گند کو بھی کوڑے دان میں ڈال دیتا ہے ۔ اِس بارے کسی گھر سے اس کی کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ ساری سٹریٹ ہمیشہ صاف ہوتی ہے ۔جب کبھی عید ، رمضان کے مواقع ہوں ، وہ اپنی شکل اکثر گھر والوں کو دوپہر کی روشنی میں دکھا دیتا ہے ، ، تاکہ اُس کی سال بھر کی ایماندارانہ خدمات پر جو جتنا دینا چاہے دے بھی دے ! اسے بھی کچھ سہولت مل جاۓ ،،، یہ اُس کا حق بھی ہے۔
میَں سلیم سویپر کو ہمیشہ " خاندانی " آدمی بولتی ہوں ۔ کیوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو بہ احسن اور دیانت داری سے پوری کرتا ہے ،، وہ اپنی تنخواہ کے علاوہ ، اہم مواقع پر ہی دن کی روشنی میں دروازہ کھٹکھٹاتا ،، اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے ۔ورنہ گرمی ، سردی تڑکے ہی اپنا کام کر کے چلا جاتا ہے ۔ اس نے کبھی بے جا ، لالچ کا مظاہرہ نہیں کیا ۔۔۔ تو میرے نزدیک " یہ خاندانی " ہوا ۔ 
لہٰذا ،،لفظ خاندانی اور عالی نسب ہونے کے معنی بدل دیۓ جانے چاہییں ، ورنہ اِن الفاظ کی توہین ہوتی جاۓ گی ۔ اور ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے ، جو ایسے " بے پیندے کے ہم ذدہ " لوگوں کو سلام کرتے ، اور اُن سے اپنا تعلق جوڑنے میں فخر کرتے نظر آئیں گے ۔ اُن کی خوش آمد کر کے اپنے آپ کو بے توقیر کرتے رہیں گے ۔ خاندانی صرف وہ ہے جس کے ہر طرح کےشر سے دوسرے محفوظ ہیں ۔ اور جو اپنے دائرہء اختیار و اقتدار کو ایمان داری ، دیانت داری سے استعمال کرتا ہے ۔ 
( منیرہ قریشی 30 جنوری 2019ء واہ کینٹ )

ہفتہ، 26 جنوری، 2019

اِک پَرِ خیال" (28)۔

" اِک پَرِ خیال"
' لمحہء اچانک کا وار' (28)۔
جب کبھی ہمیں سمتوں پر بحث سننے کو ملتی ہے، تو یہ ہی کہا جاتا ہے ، سمتیں چھے ہوتی ہیں ، دائیں ، بائیں ، آگے پیچھے ، اوپر نیچے ،،،، لیکن ان سمتوں کی طرح " حسیات " کا ذکر بھی ہو ، تو یہ ہی علم ملتا ہے کہ بولنے، سننے ، چکھنے ، چھونے ، دیکھنے ، اور " محسوس" کرنے کی صلاحیت ۔ جسے چھٹی " حس" بھی قرار دیا جاتا ہے ، یعنی وہ "حس " جو دیکھی ، سنی نہیں جا سکتی لیکن اس کی اہمیت اور موجودگی سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ،،،،، یہ ہی چھٹی حِس ، ہمیں آنے والی کسی " خبر " کی ( چاہے اچھی ، چاہے بُری ) کا احساس دلاتی ، اور خبردار کرتی ہے ،،، کہ کچھ ہونے والا ہے !!تمام " حسیات " ،،تمام سمتیں ،،، جان لینے کے ہونے کے باوجود ایک سمت یا حِس ،،،، اور ہے ، جسے " کیفیت " کا نام دیا جاۓ تو صحیح رہے گا۔ اس کا احساس یا تجربہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم پر " لمحہء اچانک " وار کرتا ہے ! جی ہاں " وار " کا لفظ اس لیۓ استعمال کیا ہے کہ " کیفیت" اسی وار سے " محسوس " ہوتی ہے ۔ اور یہ سیکنڈ کے سوویں یا ہزارویں حصے کا دورانیہ ہوتا ہے ،،، لیکن انتہائی شدت سے اپنے اثرات دکھاتا ہے ۔ وہ اس طرح کہ ،،،" رات کے وقت گھر کے اندر ہم بجلی کی روشنیوں سے خود کو دور نہیں رکھ سکتے ، سوتے وقت بھی ایک آدھ بلب لاؤنج کا ،، یا برآمدے کا ،، جلاۓ رکھتے ہیں تاکہ اس کی روشنی چِھن کر کہیں نا کہیں سے کمرے کے اندھیرے کو " نیم اندھیرے "میں بدل دیتی ہے ۔ ،،، یا کمرے میں زیرو کا بلب ہمیں اندھیرے کے " خوف " سے دور رکھنے میں مدد دیتا ہے ۔ لیکن اس دوران کبھی بجلی کسی وجہ سے چلی جاۓ، بھلے لوڈ شیڈنگ ہوئی ،یا فیوز اُڑا ۔ لیکن کمرے کا اندھیرا ، باہر کا اندھرا ، خاموشی کی شدت اور " رات کا اندھیرا " مل کر ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہمیں بُھلا دیں گے کہ ہم
" کون ہیں ، کیا ہیں ، کیا پڑھ رہے تھے ، ہم کس سمت ' میں
بیٹھے ہیں ، ،،،،، یا ہم " تھے " !! یا ہیں ؟؟؟
بہ عینہ ایسے ہی روزِ روشن ہے ، ہم کھُلے دروازوں اور کھڑکیوں کی
دھوپ ، اور روشنی سے کامل لُطف اُٹھا رہے ہوں ،، کسی کتاب
کا مطالعہ ہو رہا ہو ، یا ، ، ، کوئ عبادت کی محویت ہو ،، اگر اس دوران
" ایک لمحہ کے ہزارویں حصے " کے دورانیے کی "شدید روشنی " نے لپکا ،
مارا تو وہی حالت ہو جاتی ہے ،،،،،
" کیا ہوا ، ہم کون ہیں ، کیالفظ پڑھ رہے تھے ، منہ کس
جانب تھا ،، ہم ہیں ،، ،، یا ہم نہیں ہیں،، یا ہم تھے ؟؟؟
گویا ،، ہم اپنے تیئں لمحہء اچانک کے وار سے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں " معدوم " ہو جاتے ہیں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کیوں کہ چھے سمتیں اور چھے حسّیات ، مل کر اس " لمحہء اچانک" کے وار کوسہتی ہیں !! نتیجتہ" ری ایکشن" تو ہونا ہی ہے ۔ اور فطرت ، کا قدرت سے ٹکراؤ کوئی نا کوئی بڑا واقعہ سامنے لے ہی آتا ہے ، چاہے وہ دنیاوی تبدیلی ہو ،یا ،،انسانی جبلت میں حیران کن تبدیلی !! ! انسانی وجود پر یہ لمحہء اچانک ، "لمحہء معدوم " بن کر وارد ہو جاتا ہے ۔
جب ہم " معدومیت " ساتھ لیۓ پھِر رہے ہیں تو ہم کیوں اس قدر " مَیں " میں ڈوبے رہتے ہیں ۔ آہ ، ۔
( منیرہ قریشی ، 26 جنوری 2019ء واہ کینٹ )

پیر، 21 جنوری، 2019

" اِک پَرِ خیال (27)"

" اِک پَرِ خیال"
' سخاوت ' ( 27)۔
لفظ " سخاوت " میں کیا خوبصورتی ہے کہ جب اس لفظ کو لکھا دیکھیں تب بھی خوبصورتی جھلک رہی ہوتی ہے اور ،، اگر بولتا سنیں تو تب بھی اس لفظ کا اپنا حُسن سنائ دیتا ہے ۔ کیوں کہ یہ " صفتِ الہیٰ " کا عکس لیۓ لفظ ہے اگر لفظ کی اتنی خو بصورتی ہے تو اس صفت کو " اپنانے " والے کی کیا شان ہو گی ، ، لیکن ہم اس " صفتِ الہیٰ " رکھنے والے لفظ کو محدود کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں ۔ کسی کو کھانا کھلانا ، کسی کو مالی مدد دینا ، کسی عوامی جگہ کی فلاح کے خیال سے ، مسجد ، ہسپتال ، سکول یا کنواں کھدوانا ، کسی راستے کو ہموار کر وا دینا ،،، کوئی شک نہیں یہ کام کرنے والا " سخی " کہلاۓ گا ،،، لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ پیسہ ہوتے ہوۓ بھی " سخاوت کی صفت نہیں آ پاتی ، ( یقیناً یہ اللہ کا فضل ہے کہ وہ پیسے کی محبت دل میں نہ  ڈالے)  اور کسی نے پیسے ہوتے ہوۓ ، مال کا صحیح استعمال کیا ، یہاں اس شخص کی نیت بہت اہم ہوتی ہے ۔ کیا اس نے دل سے مخلوقِ خدا کی خدمت کا پہلو سوچا !کیا اس نے یہ سب نمائشی کیا ، اپنی انا کی تسکین کے لیۓ !!کیا یہ سب اس نے اللہ کی محبت میں کیا ،، !!اور یہ ہی نیت اس کے لیۓ " دنیا و آخرت " کی فلاح کا باعث بنے گی ۔
یہاں ہمارے سامنے ایک اور پہلو بھی سامنے آتا ہے ، کہ جس نے یہ نیک کام کیۓ ، ایک تو اس کے پاس ایک ہنر تھا ، ایک سوچ تھی ، جسے اس نے کام میں لایا / لائی ۔ اور فلاحِ عامہ کو فائدہ پہنچایا ۔
دوسرے ، اس شخص نے اپنی محنت کی کمائی کو ان جگہوں ، کاموں ، اور لوگوں پر خرچ کیا ، جو اس کے کچھ نہیں لگتے ، جن سے اسے بہ واپسی کچھ نہیں ملنا ، یا چاہنا ۔ تو گویا " بے نیازی "بھی سخاوت ہے ۔
سخاوت کی ان اقسام کو ہم سب جانتے ہیں ، ، لیکن سبھی لوگ یہ بڑے اور ارفعٰ کام نہیں کر پاتے ،، تو وہ ایسا تو کر سکتے ہیں کہ ، جو مہمان گھر آۓ اور وہ آپ کے لیۓ نا پسندیدہ ہے ،،، تو اب اس سے مسکرا کر بولنا ، اس کے لیۓ کھانے یا چاۓ کا اہتمام کر دینا ،،،، آپ سےکسی نے مشورہ مانگا ، آپ نے دلی خلوص سے اچھا مشورہ دیا ،، بلکہ آگے بڑھ کر ، کسی ان پڑھ یا کم پڑھے کو درخواست لکھ دی، تاکہ وہ نوکری کے لیۓ اپلاۓ کرے ، اور پھر نوکری مل گئی ،، تو دراصل اب اس کے گھر کی خوشحالی میں آپ کے دیۓ چند منٹ شامل ہیں اور تا حیات رہیں گے۔ 
اگر کسی ہم منصب نے آپ سے پوچھ لیا ، یہ کپڑا ، یہ صؤفہ ، یہ برتن ، کتنا خوبصورت ہے ، کہاں سے لیا ؟؟ اب آپ آئیں بائیں شائیں کر کے بات ٹالنے کی کوشش نہ کریں ، اسے مکمل معلومات دیں ، کس دکان سے کتنے میں لیا ،، " آپ اسے اتنی قیمت نہ دینا ،، مجھے لگا مجھ سے کچھ ذیادہ قیمت لی ہے ،" وغیرہ وغیرہ ،،، یہاں آپ کے کھلے ذہن کی " سخاوت " جھلکتی ہے ۔ حتیٰ کہ کھانے کی تراکیب بتانے میں کئی خواتین فضول بُخل سے کام لیتی ہیں ، جو " تنگ دلی " کو ظاہر کرتا ہے ، تو گویا سخاوت کا اُلٹ بُخل ہے ، جسے اپناۓ رکھنا ، کسی صورت پسندیدہ عادت نہیں ، نہ اللہ کی نظر میں ، نہ اخلاقی اور معاشرتی نگاہ سے ۔ 
" حاتم طائ " تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچا تھا ،، لیکن اس نے اپنی فطرت میں سے اس " صفت " کو کبھی کم نہ ہونے دیا ،، اور وہ آج تک سخاوت کی علامت یا استعارہ بنا ہوا ہے ،، حتیٰ کہ اس کے بیٹے عدی بن حاتم ، اور حاتم کی بیٹی کو اسلام کے پھیلنے کے دوران ایک غزوہ میں بطورِ قیدی تو لایا گیا ،،، لیکن ان سے عام قیدیوں کی طرح کا سلوک نہیں کیا گیا ، بلکہ عزت و احترام کا وہ مظاہرہ ہوا کہ " عدی بن حاتم نے دینِ اسلام میں شامل ہونے میں دیر نہیں لگائ ۔ ان کو یہ عزت اپنے والد کے بے مثل سخاوت نے دلائی ۔ گویا آج کی گئی سخاوت اگلی نسل یا شاید کئی نسلوں تک احترام کا ورثہ پاتی چلی جاۓ گی ۔ بس ذرا اپنا جائزہ ، روزانہ کی بنیاد پر کیا جاۓ ، کہ آج میں نے کسی کو خوش دلی سے برداشت کیا ؟ آج میں نے کسی کو پُر خلوص مشورہ دیا ؟۔ کیا آج میں نے اپنی بساط مطابق کسی کی مالی مدد دی ؟ کیا میں نے آج کسی کو ( فون پر ہی سہی ) حال احوال پوچھا؟؟ شاید اسے کچھ مالی پریشانی نہ ہو ، کہ بیماری والے گھر کا بجٹ اَپ سِٹ ہوتا چلا جاتا ہے ،،،، خاموشی سے پہنچائیں ، کیوں کہ پردہ پوشی کرنا بھی " صفتِ الہیٰ " میں سے ایک صفت ہے ۔ کیا آج کسی ضرورت مند طالبِ علم کی فیس دی ؟؟، اور جب وہ آپ کی معمولی مدد سے کبھی منزل تک پہنچا ، تو دراصل اس کے گھر کی خوشیوں میں آپ کی نرم دلی والی سخاوت شامل ہو گی ،، اور پتہ نہیں کتنے مسائل سے آپ کو دور کر دیا گیا ہو ! اور کیا بارش میں آپ نے اپنی کار میں کسی بھیگتے بندے یا خاندان کو سہولت دی اور انھیں گھر تک پہنچایا ؟؟ سخاوت کے دائرے کو محدود نہ کریں ،" ہمارے رب کو بخیل مسلمان کی نسبت سخی کافر ذیادہ پسند ہے ( شاید یہ حدیث ہو ، میَں کنفرم نہیں ہوں ) ،،، یاد رہۓ ، ہماری تمام عبادات اپنی جگہ ، لیکن حقوق العباد میں آگے بڑھ کر حصہ لینے والے کا الگ ہی مقام ہے۔
قرآن مجید و فرقان حمیدکی سورۃ تغابن آیت نمبر 16 میں اللہ کریم و رحیم فرماتا ہے !" سو جہاں تک ہو سکے خدا سے ڈرو ، اور اس کے احکام کو سنو ،اور اس کے فرمانبردار رہو ، اور اس کی راہ میں خرچ کرو ، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ، اور جو شخص طبیعت کے بُخل سے بچا لیا گیا ، تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ، اگر تم اللہ کو خلوصِ نیتِ نیک سے قرض دوگے ، تو وہ تم کواس کا دو چند دے گا ۔اور تمہارے گُناہ بھی معاف کر دے گا ، اور خدا قدر شناس اور بُردبار ہے ، پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ، غالب اور حکمت والا "۔
( منیرہ قریشی ، 21 جنوری 2018ء واہ کینٹ )

اتوار، 20 جنوری، 2019

اِک پرِ خیال(26)۔

" اِک پرِ خیال "
' مَور " ( 26)۔
محفل بہت شاندار تھی ، کہ محفل میں موجود افراد بھی " شاندار " تھے ، ، سٹیٹس ، آسودگی ، ، اور اعلیٰ عہدوں کا بھی مکمل مظاہرہ ہو رہا تھا ،، ایسی محافل میں شرکت ، اگر مزاج کے منافی ہو بھی، تو ،کوئ ہرج نہیں کبھی کبھی یہ شرکت منفرد مشاہدوں کا باعث بن جاتی ہے ،، ایک کونے میں بیٹھ کر لوگوں کو دیکھنا ، بہت عجیب احساسات سامنے لاتا ہے ، کہ کوئی اتنا بے فکر ، ایسا پہننے اوڑھنے کا اعلیٰ ذوق رکھنے والا ،، کوئی اتنا مصنوعی رویہ اپنانے والا طبقہ بھی ہو سکتا ہے ،،،، !! لیکن یہ ہوتا ہے ،، ایسا طبقہ ہر دور ، ہر خطے میں رہا ہے اور رہۓ گا ۔
ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ اپنی جاننے والی ایک نہایت با ذوق خاتون نظر آئیں ، ، انھوں نے بھی دیکھ لیا اور سیدھی میرے ہی میز پر ایک کرسی سنبھال لی ۔ علیک سلیک ،، کے بعد انھوں نے میری مصروفیات پوچھیں ،،، اور میَں نے ان کی ،،، اور یوں گفتگو کا آغاز ہوا ۔
میں جانتی تھی کہ اُن کی شادی " محبت کی شادی " تھی ،، خوب صورتی ، خوش لباسی اور گھر کو اعلیٰ ذوق سے سجانے ، اور ذہانت کے امتزاج نے انھیں ،،، 75 سے اوپر ہونے کے باوجود " جاذبِ نظر "بنا یا ہوا تھا ۔ بتانے لگیں ،،،،،، آدھی دنیا دیکھ لی ہے ،، دنیا کی کون سی خواہش تھی جو اللہ نے پوری نہیں کی ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ " اتنے اچھے شوہر " کا ہونا بھی خوش قسمتی کا نکتہء عروج ہوا ۔۔ پھر خود ہی کہنے لگیں "" مجھے بھی تو اسے جیتنے کے لیۓ بہت کچھ سیکھنا پڑا ،، خود کو بدلنا پڑا ۔ ورنہ بھلے محبت کی شادی ہو ،، کچھ عرصہ کے چاہ ، سبھا کے بعد اختلافِ راۓ شروع ہو ہی جاتا ہے ،،، لیکن میَں نے تہیہ کر رکھا تھا ،، یہ موقع آنے ہی نہیں دوں گی ۔ خود کو خوب سنوار کر رکھنا ترجیع رہی ، شوہر کی پسند کے رنگ اپناۓ ، کھانے سیکھے ، پکاۓ اور پکواۓ ،، اور اسی کی بولی کو ایسا اپنایا ،، کہ اسی کے رنگ میں رنگ گئی ، ، ، ، لیکن آج ایک مدت سے وہ میرے رنگ میں رنگ چکا ہے ۔ اور وہ مجھے آج بھی والہانہ چاہتا ہے ۔
وہ مسلسل اپنی پچھلی گزری کامیابیوں کا ذکر کرتی رہیں ۔ اور میرے سامنے اَن دیکھی " فلم " چلنے لگی ۔ یوں لگا ، اس خاتون نے " مور کے پَر " لگا لیۓ تھے ۔ اور جوں ہی شوہر گھر آتا ،، اور وہ " مور ناچ " شروع کر دیتی ،،، شوہر کا دھیان اتنی رنگین اور متحرک دنیا میں ایسا لگتا کہ ہر چیز اسی رنگ میں رنگی نظر آتی ،،، دل اور دماغ انہی رنگوں میں ڈوب جاتا ،، وہ کچھ بھی کہتا ، فوراً حاضر ،،، وہ کچھ بھی سوچتا ،، عندیہ پہلے ہی بھانپ لیا جاتا ۔ ،،، اور یوں بہت آہستگی سے خاتون اپنے لگے پَروں میں سے چند " پَر " شوہر کے کندھوں پر لگاتی چلی گئ ،،، اور ایک وقت آگیا کہ اب " وہ مرد مور " بن گیا ہے ،، اب اُسی کے گرد ناچتا ہے ،، جو پہلے اس بے پَر " محبوب " کے گرد ناچتی تھی !! کتنی خوش کن کہانی تھی ۔ فلم ختم ہوئی ۔ تو اصل سوچ جو انسا ن اور نا مکمل انسان کی سوچ ہوتی ہے ،، اُلجھانے لگی ،،، تَو کیا ہر محبوب یا محبوبہ ایسے کامیاب ہو سکتی ہے ؟،، کیا اس گُر کو اپنانے سے سبھی " تیر" نشانے پر لگ جاتے ہیں ؟ تو کیا کبھی کبھی " تُکا " بھی " تیر " بن جاتا ہے ؟
( منیرہ قریشی 20 جنوری 2019ء واہ کینٹ )

منگل، 15 جنوری، 2019

"اِک پرِ خیال(25)۔

"اِک پرِ خیال " 
' مینا بازار' ( 25)۔
ایک مدت بعد ایک بہت پرانے ملنے والوں سے ملنا ہوا ، بہت اصرار سے بلایا ،، ایک دن اسی علاقے میں جانا ہوا سوچا آج پرانی یادوں کو تازہ کرتے چلیں ۔ وہی دادا کے زمانے کا گھر ، وہی تنگ گلی ، جس کی دونوں جانب بدبُودار نالیاں ،، وہی اُس زمانے کی سڑک ، جس کی حالت کبھی اطمینان بخش نہیں رہی ، یہ صورتِ حالات دلگرفتہ تھی کہ کیا تیس پینتیس سال اس علاقے ، اس گلی محلے ، کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔ گھر داخل ہوۓ تو گھر کا سِٹ اَپ با لکل وہی تھا ، اندر کے کمروں میں اب ایک کے بجاۓ دو قالین اوپر تلے بچھے تھے ،، لیکن کمروں میں وہی " کارنس پر برتنوں کی لائن سجی تھی ، گویا اگر وہ برتن ضرورت پڑ جائیں تو پہلے پلنگ پر چڑھیۓ ، پھر برتن اتاریں ۔ وہی دیہاتی سٹائل ۔۔ کچن تو جانا نہیں ہوا ، کہ منا سب بھی نہیں تھا ، لیکن غسل خانہ ، نا معقول انداز کی سہولتوں والا ،، ،، ،، دراصل یہ گھرانہ ، آج کا نہیں ہمیشہ سے خوش حال رہا تھا اس لیۓ ، حیرت ہوئی کہ آج یہ خوش حالی بلکہ اور ذیادہ ہو چکی تھی ، پھر بھی " سوچ " کی گھڑی 40 سال پہلے کا وقت دکھا رہی تھی ۔گھر کے بچوں سےباری باری تعارف ہوتا گیا ، " یہ میری بڑی بیٹی ہے اس نے ڈبل ایم اے کیا ہے ،، یہ دوسری ہے ایم بی اے کرکے اب اپنا ٹیوشن سنٹر چلا رہی ہے ،، یہ داماد ہے ، ابھی ایم فل کر کے آیا ہے جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے ۔۔ اور یہ بڑی بہو ہے ، جو گولڈ میڈلسٹ ہے ، سائنس کے( کسی) مضمون میں ایم ایس سی ، کیا ہے اب اپنا سکول چلا رہی ہے ،، چھوٹی بہو ، نےبھی اکنامکس میں ایم ایس سی کیا ہوا ہے ، پہلے بنک میں تھی ، لیکن صبح سے شام تک کے اوقات ذیادہ تھے ، فی الحال گھر پر ہوتی ہے ،، تیسری اور چوتھی بیٹیاں ، باہر کے کسی ملک میں تھیں ،،، گویا سواۓ ، ماں باپ کے جو کم پڑھے لکھے تھے باقی " اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ " تھا۔گھر کی حالت سے بہت خوش حالی کا اظہار کم اور پھوہڑ پن کا اظہار ذیادہ ہو رہا تھا۔بہت خوبصورت ٹی سیٹ میں ، بڑی بہو نے چاۓ پیش کی ، اس نے پیالیاں ٹرے سے نکال کر میز پر لگائیں تو سبھی پیالیوں کے اندر انگلی ڈال کر پرچ پر رکھیں ،، جو میرے لیۓ کچھ اچنبھے کا باعث تھا کہ آج کل ایک سے دو دفعہ ملازمہ کو بھی یہ تربیت دی جاۓ تو وہ بھی سیکھ لیتا ہے کہ یہ بات آداب کے منافی ہے ۔ جس کمرے میں ہمیں بٹھایا گیا تھا ،، اس کی ایک جانب ایک اچھا پلنگ بچھا تھا جس کے دیوار کی طرف ایک دو چھوٹی پلاسٹک کی ٹوکریاں اور ان میں دوائیاں پڑی تھیں جبکہ انہی کے اوپر چند کتابیں دھری تھیں ۔ اور اُن پر ایسی دھول تھی جو چند دن قبل کی صفائی کا اظہار کر رہی تھی ۔ ،،، اس دوران کچھ مختلف عمروں کے بچے اندر آۓ ، اپنی کچھ چیزیں لیں اور واپس ہو گئے، ان میں سے کسی بچے نے سلام نہیں کیا بلکہ انھوں نے بلینک چہروں سے ہمیں دیکھا اور نکل گۓ ۔ ان بچوں کے والدین " اعلیٰ تعلیم " یافتہ تھے ۔ لیکن اس صورتِ حال سے یوں لگا جیسے ، ابھی ابھی نہایت اعلیٰ ڈگریوں کے " مینا بازر " کے سٹال دیکھتے ہوۓ گزری ہوں ۔ بیرونِ ملک کی ڈگریوں ، یا پاکستان کی اچھی یونیورسٹوں ، یا گولڈ میڈلز نے ان کے رہن سہن ، یا دولت کے بےکار استعمال میں باقی "آداب یا سلیقے" کو گھر سےدربدر کر رکھا تھا ۔ 
اسی طرح کچھ ایسے ہی "ڈگریوں بھرے " گھرانوں میں بھی دیکھا کہ بات کے لیۓ کوئی موضوع نہیں ہوتا بزرگ تو پرانے رشتوں اور باتوں کو دہرا کر کسی نا کسی طرح وقت گزار رہۓ تھے ،، اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ اولادوں میں لڑکیاں زور و شور سے برینڈڈ کپڑے اور میک اَپ ڈسکس کرتی ہیں ،، یا پچھلے اگلے سبھی رشتے داروں ،، کی تمام کمزوریوں کو یوں زیرِ بحث لاتی رہتی ہیں جیسے اس کے علاوہ تمام موضوعات ختم ہو گۓ ہیں ،،، کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کتابیوں میں کیا پڑھا تھا ؟؟؟
کچھ اعلیٰ ترین ڈگروں سے مزین ،،، ایسے افراد بھی ہیں ، جن کے نزدیک ، مہمان دور سے آیا ہے یا نزدیک سے ،، مدت بعد ملا ہے یا اکثر ملنے والا ہے ،،، وہ ایک جیسا بے لچک رویہ اپناۓ رکھتے ہیں ۔ جو مدت بعد آنے والے یا بہت دور سے آنے والے کے لیۓ ، دل آزاری کا باعث ہوتا ہے ۔ ،،،، سوچتی ہوں کیا ہم آج کل" "ڈگریوں کے مینا بازار " سے گزر رہے ہیں ، جہاں سٹالز میں لگی رنگین ڈگریاں سجی ہیں ،، آپ متاثر ہوۓ تو ٹھیک ورنہ آگے اور بھی سٹالز ہیں ،، مزید میڈلز ،،،، مزید متاثر کرنے کے "ہتھیار" ،،،، یا ،،،،ہم ڈگریوں کے " اتوار بازار " سے گزر رہے ہیں جہاں سوچ اور فہم کی گھڑی کی سوئیاں تیزی سےتو گھوم رہی ہیں ۔ لیکن بے حسی کی کیفیت کے ساتھ !!۔
حضرت ابنِ مبارکؒ کا قول ہے " " ہمیں ذیادہ علم حاصل کرنے سے بڑھ کر تھوڑے سے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے " ۔
( منیرہ قریشی ، 15 جنوری 2019ء واہ کینٹ )