ہفتہ، 30 جون، 2018

سفرِانگلستان (21)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
 سفر ولایت یو، کے( 21)۔
لندن کا دوسرا دن خوابوں کی تعبیر کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ،، واپسی کے راستے میں جوجی ، اور بچیوں نے بتایا کہ ہم نے کیمبریج یونیورسٹی کے پہلے وزٹ کو نارمل لیا تھا ،، جو معلومات ہمیں لینی چاہیے تھیں ، اس کے بجاۓ ہمارا فوکس سینری یا دریاۓکیم کی سیر تک تھا ،، اس دفعہ صورتِ حال خاصی علمی معلومات کے ساتھ رہی ۔ کاش ہم مزید ایک آدھ دن رکتیں تو تو ان کلاس رومز ، کو دیکھتیں جہاں علامہؒ نے وقت گزارا تھا ، یا آئزک نیوٹن کی تجربہ گاہوں میں جا سکتیں ،، میرا خیال ہے اس یونیورسٹی میں ایک ماہ گزارا جانا ، حسین ترین وقت بِتانا ہوتا ۔ لیکن خیر !! گویا اب ان سب کا دوسرا وزٹ بھی نیا ہی رہا ۔ اگلے دن مائرہ واپس مانچسٹر روانہ ہو گئی ، اور اب میرا اور جوجی کا واپس مانچسٹر باۓ ٹرین کا ارادہ تھا کہ میں یہ تجربہ بھی ضرور کرنا چاہتی تھی ۔ اور ابھی تو دنیا کے مشہور اور اہم ترین شہر پر صرف نظر ڈالی تھی ۔۔ اور اب وقت بھی کم ، اور " دید " کا مقابلہ سخت تھا ، کوئ دن ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا ،،،، میرا اپنا خیال ہے ، ،،،، !۔
اگر آپ کو کوئی نیا شہر پہلی نظر میں پسند نہیں آیا ، تو وہاں ایک ہفتہ سے ذیادہ نہ ٹھہریں ، بھلے کتنا بھی ناپسند آۓ ، پھر بھی وہاں دیکھی جانے والی کچھ جگہیں ہوں گی ، جنھیں ایک دفعہ دیکھ کر اس جگہ کا کچھ نہ کچھ خاکہ ذہن میں کلیئر ہو جاتا ہے ، اور زندگی میں آپ دوبارہ یہاں" "نہ"آنے ، کی خواہش پال سکتے ہیں ۔
اگر آپ کو کوئی جگہ یا شہر" کچھ" پسند آہی گیا ہے ، تو یہاں دو ہفتے سے ایک ماہ ضرور ٹِک جائیں ۔ ( آپکے وسائل پر بھی مبنی ہے ) تاکہ یہاں کی مشہور جگہیں ، ضرور دیکھ لیں ، یا یہاں کے لوگوں سے کچھ میل جول ہو ، یہاں کے مقبول کھانوں کو چکھ سکیں ،،، اور دوبارہ آنے کی خواہش کو ذہن و دل کے نہاں خانوں میں سنبھال کر لپیٹ کر رکھ لیں ، کیوں کہ آپ اس جگہ ، یا شہر کو پہلی نظر میں کچھ پسند کر چکے ہیں ۔
اور اگر کوئی جگہ بہت ہی پسند آ گئی ہے ، تو پھر اس بارے دوسری بات ہے ہی نہیں ،، آپ یہاں بار بار آنا چائیں گے ، اور ہر دفعہ اس کے عشق میں ذیادہ غرق ہوتے چلے جائیں گے ،،، اور میرے لیۓ چند جگہیں اسی لسٹ میں شامل ہیں ،،، جن میں کسی بھی سوچ کے بغیر میں مکہ اور مدینہ کانام لوں گی، جہاں مجھے سال سال بھر کا دورانیہ مل جاتا ، تو میرے لیۓ دنیا کا  بہترین وقت گزرتا ،، لیکن یہ وقت ایک تحقیقی جذبے کے ساتھ ہوتا ،، ایک ایک لمحے کو با شعور ہو کر کشید کر سکتی ، کاش !۔
اور پھر میں نے اور دنیا دیکھی ہی کہاں تھی ،،، اس لیۓ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ،،، والا حساب تھا ،، البتہ لندن ،، جس کے عشق میں ٹونزیں ناکوں ناک دھنسیں ہوئی تھیں ،،، میرے دل کو اداس کر گیا ،، شاید بہت عرصہ رہنے سے محبت جاگزیں ہو جاتی ہو ، یہ ہفتہ ، دس دن تو کچھ بھی نہ تھے ،، لیکن میں نے دل ہی دل میں مانچسٹر کی وادیوں کو ذیادہ نمبر دے دیۓ تھے ۔ 
خیر تو بات ہو رہی تھی اگلے دن کی ، مائرہ کے جانے کے بعد ایمن ثمن نے کچھ گھریلو کام نبٹانے تھے ، وہ صبح نکل گئیں ،، تو جوجی نے مجھے بتایا کہ یہاں چند قدم کی واک پر ایک پارک ہے، جس کانام ہے " مڈ شوٹ پارک " چلو چلتے ہیں، فٹا فٹ بند بوٹ پہنے اور واقعی سڑک پار کرتے ہی ، چند منٹ واک کی ، تو اس پارک کے براۓ نام گیٹ میں داخل ہوئیں ، یہ ایک 15، 16 کنال کے رقبے پر پھیلا پارک تھا ،، جو ارد گرد کے لوگوں کے لیۓ نہ صرف تفریح کے لیے تھا بلکہ ،، یہاں نزدیکی بوڑھے خواتین و حضرات کے لیے ، دو کنال مختص تھے ، جس کے گرد مضبوط  باڑھ لگا دی گئی تھئ اور اب جس نے جتنا ایریا کراۓ پر لیا تھا ، اس نے اپنے اس ایریا کے گرد بھی الگ فینس لگا لی تھی ،، اور ہم اس مضبوط فینس کے عین سامنے ایک بینچ پر بیٹھیں آس پاس کے ماحول کو انجواۓ کر رہی تھیں کہ ایک بزرگ برطانوی نے،،،سامنے والی فینس پر لگے نہایت براۓ نام سے گیٹ کے تالے کو کھولا ، تو ہم دونوں مسکرانے لگیں ۔ کہ تنکوں ، اور سرکنڈوں سے بنے اس دو ڈھائی فٹ اونچے گیٹ کو تالا لگانے کی کیا ضرورت تھی ، لیکن انسانی نفسیات ہے کہ ، ملکیت کا احساس اور تالے کا خود سے کھولنا ، خود حفاظتی کی کوشش کا اظہار ہوتا ہے ،، آزما کر دیکھیں ،،، !  ۔
ہم وونوں نے بیک وقت ، سوچا ، اور ان سے درخواست کی کہ کیا آپ اپنے ایریا کو دکھانا پسند کریں گے ؟ ، انھوں نے ایک نظر ہمیں دیکھا ،، اور ہمارے لباس کے تحت کہا " انڈیا " ؟ ،،، فوراً بتایا ، نو پاکستان ! ، لیکن انھوں نے فوراً " او شؤر " کہا ، اور ہمیں اپنا ایریا دکھانے آگے چل پڑے , اندر کسی کا "ایک مرلے کا باغ" تھا ، کسی کا دو مرلے ،،، اس سےذیادہ کسی کا نہیں تھا ۔ جی ہاں ،، ہر  ایک کے ایریا کے گرد اپنی فینس تھی! اور کسی کے " باغ "میں ، بینگن لگے سوکھ رہے تھے اور کسی کے "کھیت" میں ٹماٹر لگے ہوۓ تھے ،، ہمارے بزرگ میزبان نے خوش دلی سے بتایا ، میَں دو ماہ سے ملک سے باہر تھا ،، اس لیۓ میرا ایریا " اجڑ اجاڑ " پڑا ہوا ہے ، آج سے اس کی صفائی کروں گا ۔ اس نے بتایا ،،،،،، چوں کہ ہم بہت چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں ، بعض اوقات ایک آدھ گملا رکھنے کی ہی گنجائش ہوتی ہے ، جبکہ ہمارا دل چاہتا ہے باغبانی کرنے کو ،،، تو ہماری حکومت نے اس طرح کے بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہمیں کراۓ پر دے دیۓ ہیں ، ذیادہ چھوٹا ایریا ایک مرلے والے کا کرایا ، ایک یا ڈیڑھ پونڈ ہوتا ہے ، جبکہ ذرا اس سے بڑا دو پونڈ کرایا میں پڑتا ہے ۔ ہم کبھی روز اور کبھی ہفتے میں ایک دو دن آتے ہیں اپنے باغبانی کا چسکا پورا کر لیتے ہیں ۔ "" ،،،، یہ سب ریٹائرڈ لوگوں کے لیۓ ،،، اور اس عمر کے لوگوں کی مصروفیات کے لیۓ ،،، اور ان کی فرسٹریشن ( اداسی اور تنہائی ) ختم کرنے کے لیۓ ،، ان کی ویلفئر حکومت ان کی کتنی فکر کرتی ہے ۔ ،،، اور یہ سوچ ، یہ اقدامات ، انھیں ، " دینِ اسلام " نے دیئۓ ،، انھیں قانونِ فاروقی ر ض نے یہ اقدامات کرنے کا آئیڈیا دیا ۔ کہ یہ بزرگ لوگ ہمارے لیۓ اپنی جوانی ، کی سبھی طاقتیں لگا تے رہیں ہیں اب انکو پینشن ، اور انکی عمر کے مطابق مصروفیت دینا ، سٹیٹ کی ذمہ داری ہے ۔ میری نظروں کے سامنے ،،، اپنے مڈل کلاس کے بزرگوں کی مصروفیات ، اور صحت ، اور سہولتوں کی تصویر آگئی ،،، کیا ہو گا کب ہو گا ،،،؟؟؟؟؟؟؟؟
میَں جب بھی دوسرے ممالک کی ترقی ، اور عوامی سہولیات دیکھتی ہوں ، تو میری دعاؤں میں شدت آجاتی ہے کہ میرے " یا اللہ ، ہمارے ترسے ہوۓ ، بے یار ومددگار لوگوں کی زندگیوں میں بھی مثبت تبدیلی لانے والے حکمران آئیں" ،،،، آمین۔ 
مڈ شوٹ پارک کے باقی حصے کی سیر کی تو پتہ چلا کہ اس سارے ایریا کو بہت قدرتی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے ، پارک کے درمیان سے ایک پتلی سڑک گزرتی تھی ، جہاں صرف سکول کے بچوں کی وین ،آ سکتی تھی ، یا وہاں کے ڈیوٹی پر موجود ورکرز کی بیٹری سے چلنے والی دو چار چھوٹی کاریں چل رہی تھیں ،، دائیں طرف ایک گہری جگہ تھی جہاں سفید سوانز ، یا بطخیں ، کافی تعداد میں پھر رہیں تھیں ، نیز یہیں ایک صاف لان میں ایک دو موٹے رسے تنے ہوۓ تھے ، جن کی اونچائی ذیادہ نہ تھی ۔ یہ نرسری تا پنجم تک کے بچوں کے لٹکنے اور رسہ سے لٹک کر کمانڈوز کی طرح، گزرنے کے لیۓ لگاۓ گۓ تھے ،، سڑک کے بائیں طرف ایک یا ڈیڑھ کنال کے پانچ ، چھے جنگلے بنے ہوۓ تھے ۔ جہاں وہ جانور جوڑا جوڑا کر کے رکھے گۓ تھے ، ، جنھیں بچے چھُو سکیں ،، یہ گھریلو جانور ہیں ، ایک جوڑا ، بیل اور گاۓ کا تھا ، ایک جنگلے میں اونٹ ، ایک میں بکرا بکری اور ایک میں بھڑ یں تھیں ، البتہ ایک میں جنگلی بھینسا بھی تھا اور ایک میں " لاما " ،، اس پارک کے ڈیوٹی ورکرز میں 5،، 6 چاک و چوبند عورتیں اور مرد ، سمارٹ یونیفارم میں موجود تھے ۔ آج بہت پیارے بچوں کا ایک گروپ ، خوبصورت نیلے یونیفارم میں اپنی تین استانیوں کی نگرانی میں لائن میں چلے آرہے تھے ،، ہم تو سر تا پیر ٹیچرز تھیں ،، اس لیۓ یہ نظارہ ہمارے لیۓ بہت دلچسپی کا تھا ۔ اس لیۓ ہم نے مزید معلومات ٹیچرز سے لینے کی درخواست کی ،، اس نے بھی مسکرا کر لیکن مسلسل چلتے رہنے کی پوزیشن میں ہمارے سوالوں کے جواب دیۓ ،،، یہ ان کی فرض شناسی تھی کہ ، اپنی ڈیوٹی کا کوئی لمحہ غفلت سے نہیں گزارنا ، اسی نے بتایا ، یہ ایک پورا ہفتہ ایک سکول کی باری ہوتی ہے ، ہر روز دو کلاسز ٹیچرز کی نگرانی میں آتی ہیں ، بچے بطخوں کو کھانا ڈالتے ،، رسے کی ایکسر سائز کرتے ہیں ، اور آخر میں ، پارک میں موجود کسی ایک یا دو جانوروں کو چھُونے کے لیۓ اس سڑک پر آجاتے ہیں ،،، ایسا بچوں کے نیچر سے محبت بڑھانے اور گھریلو جانوروں کے خوف دور کرنا مقصد ہوتا ہے ۔ یہ محبتیں ، یہ توجہ ، یہ بچوں کا انتہا درجہ خیال ،،، ہمارے ملک میں صرف 5 فیصد بچوں کو میسر ہے ،، وہ بھی " اَپر کلاس " سے تعلق رکھنے والوں کے بچوں کو ۔ باقی 95 فیصد ، اس تعلیمی تربیت کا صرف سوچ سکتے ہیں ، ، خود ہم دونوں ، کیسے کیسے پلان بناتی رہیں ، اور اپنے سکول کی ابتدا ئی دور میں ہم نے چھوٹے طوطوں کے دو پنجرے ، اور ایک فینس لگا خرگوشوں کا ایریا بنایا تھا ،، ایک فینس میں صرف ریت ڈلوائی گئی تھی ، جہاں گرمیوں میں آخری پیریڈ میں پلے گروپ ، ، نرسری اور پریپ تک کے بچے ، اس ریت سے انجواۓ کرتے ، اور پھر چھٹی کے وقت تک ، وہیں رہتے ، اس طرح گھر جاتے ہی نہا لیتے ،، اور یہ وقت ، ان بچوں کی خوشی کی انتہا کا ہوتا ،،، لیکن افسوس بہت کہنے کے باوجود ذیادہ تر مائیں ، صفائی کے خبط کے تحت ، بچوں کو مٹی یا ریت سے نہیں کھیلنے دیتیں ۔ اور ایسا چھوٹا سا گھریلو جانوروں کاپارک بھی ہمارے آس پاس نہیں ، البتہ کسی بھینسوں کے باڑے جو قطعی صفائی کے معیار پر نہیں اترتا ،،، کاش بچوں کو نیچر سے متعارف کراۓ رکھنے کی طرف ، اہلِ ثروت ہی توجہ کر دیں ،،، کیوں کہ میرے وطن کے بجٹ میں سب سے کم بجٹ تعلیم کے لیۓ رکھا جاتا ہے ۔ اس لیۓ باقی سہولتوں کے خواب دیکھتے شاید ایک اور نسل گزر جاۓ۔
( منیرہ قریشی 30 جون 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

جمعہ، 29 جون، 2018

سفرِانگلستان (20)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
 سفرِِ ولایت ، یوکے ( 20)۔
جیسے ہی یہ چند مسافروں بھری کشتی چلی ، پُنٹر نے اپنا نام اور عمر بھی بتائی ، اور یہ کہ وہ یہاں طالبِ علم بھی ہے ، اور یہ آخری سمسٹر رہ گیا ہے ، وغیرہ ،،، وہ یہ تعارف پیشہ وارانہ ڈیوٹی کے طور پر کروا رہا تھا ،یا ، مسافروں کو ذرا ، ریلیکس کرنے کے لیۓ ،،، جو بھی تھا ، اس کی حسِ مزاح ، بذاتِ خود اس کا اچھا تعارف تھا۔ 
یہ کشتیاں ، چپو یا لمبے بانسوں سے چلائی جاتی ہیں ،، اور اگر کسی سیاح کے پاس وقت کم ہے اور وہ پورے کیمبریج کا چکر نہیں لگا سکتا، تو اس کے لیۓ اس کشتی میں 40 ، 50 منٹ کی رائیڈ ہی کافی ہو گی ، کہ اس دریاۓ " کیم " کے گرد ساری اہم عمارات بتدریج آتی چلی جاتی ہیں ، اور جیسے جیسے آگے چلتے جائیں ،، تاریخ کی کتاب کے صفحے اُلٹتے چلے جاتے ہیں ۔ اور بندہ جس بھی قوم سے تعلق رکھتا ہے ، وہ ان عمارات کی تعمیر کے " سال " اور ان عما رات کا استعمال ، ، ، کا موازنہ اپنے ملک ، سے کرتا چلا جاتا ہے ، اور " اس محاورے کو ذہن میں لاتے رہیۓ ۔ " پڑھتا جا شرماتا جا " ،،،، یہاں کی ذیادہ تر سیر ، تصاویر سے کروا رہی ہوں کہ وہ بہت کچھ واضح کرتی چلی جاتی ہیں ،،، میَں نے شروع میں لکھا تھا کہ ذیادہ تر بہت پرانی ، 800 سال تک کی پرانی عمارات کو باہر سے لیپا پوتی کرنے کے بجاۓ ، ان کی اچھی دیکھ بھال کی جاتی ہے تاکہ وہ با مقصد استعمال میں رہیں ۔ اسی لیۓ ماحول پر " گرے رنگ " غالب نظر آیا ۔ البتہ نئی عمارات ، جو ، 100 ، یا 200 سال پرانی تھیں ، وہ کچھ خوش رنگ کہی جا سکتی تھیں ۔ لیکن جو تاریخ کا طالب علم ہے ،، یا ،، جو علم کی اہمیت سے آگاہ ہو گا ، اسے اس طرح کی تحقیقی درسگاہ کے چپے چپے سے دلچسپی ہو گی ، اور جس نے یہاں کچھ وقت بطورِ طالبِ علم گزارا ہو گا ، تو اس کے لیے تو اس کے عشق میں مبتلا ہونا قدرتی ہے ۔ 
دریاۓ کیم یا کھیم ،، دریا تو کہیں سے نہیں لگتا تھا ، ایک چوڑے ، سیاہی مائل ، نالے کی شکل میں تھا ، جس کی تہہ بہ مشکل دو تین گز تک ہو گی۔
دیکھا جاۓ تو کیمبریج یونیورسٹی کا قیام ، اس دور کی ، پولیس گردی کے نتیجے میں ری ایکشن کے طور پر ، کچھ اساتذہ اور طلباء کی ہمت کی مظہر ہے،،، راستے میں آنے والے " پُلوں " کے نیچے سے گزرتے ہوۓ ، پُنٹر ، اور گائیڈ نے ہمیں دلچسپ اور مزاحیہ انداز میں ، ان کی ہسٹری اے بھی آگاہی دی ،، یہ " میتھمیٹیکل پل " ہے ،، اس جیسا آج تک کوئ نہیں ، بنا پایا ، ،،، یہ " آہوں اور سسکیوں کا پُل " ہے ،،،جس دور میں ، دریا کے ایک طرف قید خانے اور پُل کے دوسری طرف عدالتوں کی عمارات ہوتیں تھیں ، تب فیصلے کے دن قیدی آہ و زاریوں کے ساتھ اس پُل سے گزرتے ،، کہ انھیں کوئی اندازہ نہ ہوتا تھا کہ ، آج ان کی زندگی کے خاتمے کا دن ہے ،یا ، آذادی،،، جب اس سارے علاقے کو علمی درسگا میں بدل دیا گیا ، تو ، تب بھی پل کے اس نام کو برقرار رکھا گیا ،،، کہ اب طلباء اپنے رزلٹ کے دن ، اسی طرح "روتے دھوتے " ( محاورتاً) سننے جاتے ہیں ، کہ " پاس یا فیل !!! ۔
کیمبریج کی سبھی عمارات ، نوابوں ، روساء اور بہت امیر زمینداروں کی رہائش گاہیں تھیں ، علم کے ذوق و شوق ، کی ابتدا کسی ایک نے کی اور پھر ،، اور پھر ہر رہائشی کے لیۓ ، اپنی عمارات کو اس اعلیٰ مقصد کے لیۓ وقف کرنا ، اعزاز بن گیا ۔ ،" پُنٹر "یا گائیڈ کی اپنے پیشے سے جڑی معلومات بہت خوب تھیں ۔ اور پھر " بیاں وہ اپنا غالب " والا حساب ، دلچسپ انداز تھا ،، واپس آکر ، ہم نے اس کا دلی شکریہ اور کچھ فالتو پونڈ بھی دیۓ ،، وہ خوشی سے نہال ہو گیا ۔ 
پنٹنگ سے فارغ ہو کر ،، کیمبریج کی مختلف سڑکوں ، کارنرز ، اور چھوٹے چھوٹے ریسٹونٹس کو دیکھنے بھالنے شروع کر دیۓ ، یہاں سڑک پر دنیا کی ہر قومیت ، اپنی کسی انفرادی خدو خال یا لباس سے نظر آرہی تھی ،، لیکن ذیادہ تر نے اپنے آپ کو اسی آسان ڈریس میں ملبوس کر رکھا تھا ، جینز اور شرٹ ،،، جبکہ ، سر سے پاؤں تک ، برقعے میں ملبوس نوجوان مسلم لڑکیاں بھی نظر آئیں ۔ اور یہ ان کے اعتماد کا مظہر بھی تھا ، اور یونیورسٹی کی آزاد پالیسی کا بھی !۔
اب ہماری بھوک ، کے زور کا وقت تھا ، صبح ناشتے کے بعد ، کارن فلورز ، یا ، گھر سے جوجی کے تیار کردہ ایک ایک سینڈوچ کے بعد اب شام کے 6 ، 7 بج چکے تھے ،، مائرہ نے جلد ہی حلال فوڈ کے لیۓ ، گوگل سے ایک لبنانی ریسٹورینٹ ڈھونڈا ،، اور جاتے ہی ہم نے تلی مرغی اور اسکے ساتھ سلاد ، چپس ، اور ایک ایک سینڈوچ کا آرڈر دیا ،، 20 منٹ میں یہ سب حا ضر ہو گیا ،، کہ یہ وقت طلبا کی موجودگی کا نہ تھا ،، رش نہیں تھا ، کھانا بہت مزیدار ، اور وافر تھا کہ ، پیٹ بھرا تو بےزاری کا جو غلبہ آنا شروع ہوا تھا ،، وہ ختم ہو گیا ،، ایسے مواقع اکثر پیش آتے ہیں ،، تب ان محاوروں کی ایجاد کا سبب بھی بالکل واٖضع ہو جاتا ہے ،،، پنجابی کا ایک مشہور محاورہ ہے " پیٹ نہ پئیآں روٹیاں ، تے سبھے گلاں کھوٹیاں " ،،،  
( پیٹ میں روٹی نہ ہو ، تو دین و دنیا کی ہر بات بےکار لگتی ہے )
اب شام تھی اور کیمبریج کی بتیاں جلنے لگیں ،، اور ہم نے اسے الوداع کہا ،، ابھی ہم نے مزید ایک گھنٹے کا سفر کرنا تھا ،، کیمبریج یونیورسٹی ،،، جسے دیکھنا ، ، محض خواب تھا لیکن ، اللہ مسبب الاسباب ہے ،،، مائرہ کی شادی ،، پر آنا ، ایمن ثمن کی چھٹیوں ،، مائرہ کی کار کی موجودگی ،،، اور سب سے بڑھ کر ، ان سب کے تعاون اور محبت نے میرے لیۓ اس سفر کو یادگار ہی نہیں ،، بہت خوبصورت یادوں کا مرکز بنا دیا ،، انھوں نے مجھے میری عمر ، اور میری ہمت کے مطابق بہترین ٹریٹ کیا ،، اور سارے سفرِ یو کے ، میں اس یونیورسٹی کا وزٹ تو خالص میری دلچسپی کے لیۓ کیا گیا ،، !! اور میری بہت سی دعائیں ان کے لیۓ ،،، کسی بھی مہمان کو اینٹر ٹینڈ کرنے کا گُر ان بچیوں سے سیکھنا چاہیۓ،،، ۔😍👩‍👧‍👧
💞 ( منیرہ قریشی 29 جون 2018ء واہ کینٹ )
 تصاویر۔۔۔ کیمبریج یونیورسٹی ، یو کے ! اکتوبر 2014ء ۔۔۔
کیمبریج میں طلباء کی رہائشی عمارات ۔۔۔
کیمبریج یونیورسٹی میں ایک لائبریری ،، جس کی پہلی منزل میں ایک مرتبہ پانی آ گیا ، اس وقت کے طلبا اور ٹیچرز نے لاکھوں کتب ، کو مل کر راتوں رات ، اوپری منزل پہنچایا ،، اور آج بھی یہ کتب وہاں موجود ہیں ، اس یونیورسٹی میں 100 سے زائد لائبریریز ۔ 
میتھمیٹیکل برج ،،، کیمبریج یونیورسٹی۔۔۔  

  کیمبریج یونیورسٹی ، میں موجود " آہوں کا پُل " جس میں سے بہت پہلے قیدی ، اور اب طلباء اپنے رزلٹ کے روز آہیں بھرتے گزرتے ہیں ،، اسے آج بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے ،، اور ہمارا خوش مزاج گائیڈ۔۔۔

کیمبریج یونیورسٹی کا ایک یادگار ، کارنر ،، اگر مجھے یہ آج بھی یاد آتا ہے تو ، جو طلباء یہاں سے پڑھ کر جاتے ہوں گے ، انھیں تو اپنی علمی درسگاہ سے کتنا پیار ہوتا ہو گا ۔۔۔۔ 
کیمبریج میں مختلف کالجز ہیں ، جن کو ملا کر یونیورسٹی بنتی ہے ، ان کو دو حصوں میں الگ کیا گیا ہے ، اس طرح ان میں آپس کے مختلف صحت مند مقابلے ممکن ہوتے ہیں ، ایک کو ٹرینٹی اور دوسرے کو کنگز کالج کہا جاتا ہے ! یہ کنگز کالج ہے ! یہاں 100 کے قریب مضامین کو متعارف کرایا دیاگیا ہے ۔ 
کیمبریج یونیورسٹی  کاایک کالج، دریائے کیم کنارے۔۔۔ 
کیمبریج شائر ،، کا ایک کالج ، ۔ 
پنٹنگ سے پہلے ایک طائرانہ نظر !کیمبریج شائر۔۔۔

پیر، 25 جون، 2018

سفرِانگلستان (19)۔

 سلسلہ ہاۓ سفر "
سفرِِ ولایت ، یو کے (19)۔
لندن پہنچنے کے چند گھنٹوں میں مائرہ ہم دونوں کو " سلاؤ " کے علاقے میں پھرا لائی تھی ، تاکہ، مانچسٹر واپسی سے پہلے وہ ہمیں ان جگہوں پر لے جاۓ ، جہاں کا سفر لمبا ہے اور میرے لیۓ مشکل نہ ہو ، چناچہ فلیٹ پہنچ کر اس نے مجھ سے پوچھا ، کون سی خاص جگہ ، جہاں آپ جانا ضروری اور پسندیدہ سمجھتی ہیں ، تاکہ وہاں آپ کو لے جاؤں اور اگلے دن میں واپس چلی جاؤں ، میَں نے کہا ،، یا آکسفورڈ یونیورسٹی ،، یا کیمبریج یونیورسٹی ،،؟
ٹونزوں نے فوراً " جامِ جم " کھولا اور گوگل سے معلومات لیں ، پتہ چلا سینٹرل لندن سے دائیں طرف جائیں تو آکسفورڈ یونیورسٹی 70 کلو میٹر دور ہے اور بائیں طرف جائیں تو کیمبریج یونیورسٹی بھی 70 کلو میٹر دور پڑتی ہے ، آپ ہی بتائیں ، کہاں چلیں ،،، ! میَں نے کہا مجھے اپنے مرشد حضرتِ علامہ اقبالؒ کی علمی درس گاہ کو دیکھنا ہے ، سب نے اس پر اتفاق کیا ۔ اور صبح 9 بجے ہم کیمبریج ٹاؤن کی طرف رواں دواں تھیں ، ، لندن کے گنجان شہر سے نکلے اور ہائی وے پر آتے ہی آنکھوں کو طراوت مل گئی ،، دائیں بائیں ، ہموار ، با ترتیب ، سر سبز کھیت ،، لگاتار ، لگاتار !!! کھیتوں کے بہت بڑے قطعات فصل کی کٹائ کے بعد اب زمین کو ریسٹ دینے کا دورانیہ چل رہا تھا ، چند انچ کی سبز گھاس نے سارے راستے کو سبز رنگ میں رنگ دیا تھا، جگہ جگہ گھاس کے بڑے چھوٹے رولز کے بنڈل پڑے تھے۔ موسم لندن والوں کے حساب سے گرم تھا ( ہم گرمائی خطے والوں کے لیۓ معتدل ) سموتھ ڈرائیونگ ، با مذاق ہم سفر ، اور نئی جگہوں کی سیر نے مجھ پر سکون کی کیفیت طاری کر دی تھی ۔ اور وہ درس گاہ جہاں علامہؒ اقبالؒ کو ایک ڈگری لینے کا موقع ملا ، کودیکھنا میرے لیۓ بہت خوش کُن تھا ۔ دورانِ سفر جوجی اور بچیوں نے بتایا کہ ہم پہلے بھی کیمبریج ٹاؤن جا چکی ہیں،، مائرہ کی ایک سہیلی ان دنوں اس ٹاؤن میں رہ رہی تھی جس کی دعوت پر یہ سب گئیں ،،، کیمبریج یونیورسٹی کو بھی دیکھا لیکن سرسری سا ،،، اس لیۓ اس چند سال کے وقفے کے بعد دوبارہ دیکھنا ،، انھیں بھی اچھا لگ رہا تھا ۔ ٹھیک ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم ،ایک گھنے درختوں کے موڑ پر مڑے تو مائرہ نے بتایا ہم کیمبریج ٹاؤن کے قریب پہنچ گئی ہیں ،، اور پھر اس علمی درس گاہ کے قدیم طرز کے گیٹ میں داخلہ ،، میرے لیۓ خوشگوار لمحہ تھا ۔ ایمن ثمن کی طرف سے کھٹا کھٹ تصویریں کھینچی جانے لگیں ،،۔
چند منٹ کی ڈرائیو کے دوران جو آس پاس کی قدیم طرزِتعمیرکی عمارات کا " گرے رنگ "پورے منظر پر حاوی تھا ،،، ان مضبوط ، بڑی بڑی ، عمارات کو سجانے کے بجاۓ انھیں محفوظ اور کار آمد بنانے رکھنے پر ذیادہ فوکس کیا گیا تھا ،،،،،چند منٹ کی مزید ڈرائیو کے بعد مائرہ نے لینڈ کروزر ایک جگہ پارک کر دی ،،، اب ہم باقی سیر پیدل کریں گے ،،، اور واقعی آدھ گھنٹے کی سیر کے دوران ، اکا دکا کاریں نظر آئیں ،،، ذیادہ تر طلباء اور پروفیسر صاحبان سائیکلوں پر یا پیدل پھِر رہے تھے ۔ اور یہ ہی وجہ تھی کہ کہ دھوئیں سے قریباً صاف فضا ، نے ہر منظر واضح اور نمایاں کر رکھا تھا ۔ کچھ بلڈنگز کے اندر داخل ہو کر تصاویر لیں ،( یہ سب اس قسط کے آخر میں موجود ہیں ) ایک بہت چوڑی شاہراہ کے کناروں پر گھاس کے قطعات تھے ،، جن پر مختلف یونیفام پہنے لڑکے لڑکیاں ، کچھ بیٹھے ، کچھ پھرتے نظر آۓ ، تب مجھے علم ہوا کہ یہاں بہت سے کالجز ہیں ، جو کیمبریج بورڈ کے انڈر آتے ہیں اور یہ سب مل کر کیمبریج یونیورسٹی کہلاتے ہیں ، ان کالجز کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے ، ایک گروپ " ٹرینٹی " اور دوسرا " کنگز "کہلاتا ہے ، اور اس طرح دونوں کے درمیان صحت مندمقابلہ بازی چلتی رہتی ہے۔ 
کیمبریج یونیورسٹی کو کنگ ہنری( سوم ) نے 1209 ء میں قائم کرنے کی اجازت دی ،یہ آج بھی یوکے کی دوسری اور دنیا کی چوتھی بڑی یونیورسٹیز میں سے ہے ۔ ،،، یہاں کے سائینس فیکلٹی سے نامور سائنس دان فارغ التحصیل ہوۓ ہیں ان میں آئزک نیوٹن اور جی ایچ ہارڈی شامل ہیں ،، ہارڈی نے خوبصورت تجزیہ کیا اور کہا تھا " طلبا کو نمبروں کی دوڑ میں نہیں ، بلکہ ، طالب علم کوصرف مضمون میں دلچسپی کی بنیاد پر اہمیت ملنی چاہیۓ"۔
اور آئزک نیوٹن کے خیا لات اور کارنامے تو سب پر عیاں ہیں،لیکن اس کا ایک فلسفیانہ خیال یاد آگیا ہے اس نے کہاتھا"مجھے نہیں معلوم دنیا میرے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ لیکن اپنے متعلق میرا گمان ہے کہ میَں ہمیشہ سے سمندر کنارے کھیلتا بچہ ہوں جو خوبصورت گول پتھر اور سیپیاں ڈھونڈنے میں اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہو ، جب کہ میری نظروں سے پَرے سچائی کا ایک برِ اعظم غیردریافت شدہ حالت میں موجود ہے "۔اور انہی قیمتی لوگوں میں علامہؒ بھی شامل ہیں جن کا دور تو بعد کا تھا لیکن ،، وہ معروف ، عظیم فلسفی شاعر ، جسے شاعرِمشرق اور نباضِ مشرق کے القابات ملے ،، جن کی انقلابی شاعری نے قومِ مشارق کی سوچ بدل دی ۔۔ اور جن کی پرُاثر ، دبنگ شخصیت کو زمانے کے مشاہیر نے عزت و احترام دیا ،، ہم خوش قسمت ہیں کہ ہماری قوم کو قائدِ اعظم محمدعلی جناح اور علامہؒ جیسے قابلِ فخر، قائد ملے ، یہ اللہ کا احسان عظیم ہے۔ 
اور اس دوران آس پاس کی مشہور بلڈنگز میں اندر داخل ہوتیں ، تصاویر لی جاتیں اور یوں ہم کیمبریج یونیورسٹی کے ہر چپے کو دلچسپی اور شوق سے دیکھتی رہیں ۔ انگریز بلا شبہ نہایت ، ہوشیار ، چالاک لیکن بہت ذہین قوم ہے ، اور اس کی ذہانت کا ایک اچھا پہلو تو یہ ہے کہ اپنی قوم کے لیۓ ایمانداری سے وفادار ہے ( بھلے دوسری قوموں کے ساتھ بےایمانی اور چالبازی کر کے وہ یہ فائدے اُٹھاۓ ہوں ) ۔ یہ یونیورسٹی مختلف لارڈز ، یا نوابوں ، اور رؤساء کی مدد سے بنتی چلی گئی ،،، اور جب ہم کیمبریج کے درمیان سے گزرنے والی ، نالے ٹائپ نہر میں چلنے والی کشتی میں بیٹھیں ، تو اس میں بیٹھنا ہی میرے لیۓ الجھن اور ڈر کا باعث بنا ،، کہ ایک مدت بعد اس انداز سے بیٹھی تو ، گھٹنے کے درد نے یاد دلایا ،، اب کچھ دن احتیاط سے چلنا پھرنا ۔ یہاں کشتیاں چلانے والے ملاح ، یونیورسٹی کے طلباء ہیں ، جو پارٹ ٹائم جاب کے طور پر یہ نوکری کرتے اور اپنے اخراجات خود اُٹھاتے ہیں ۔ ہمیں جو ملاح ملا اس نوجوان میں حسِ مزاح کچھ ذیادہ ہی تھی ۔ اس کشتی رانی کو یہ " پُنٹنگ " اور ملاح کو " پُنٹر " کہتے ہیں ۔ ہم جوں ہی کشتی میں بیٹھ گئیں ،، اس نے بھی ایک دفعہ کشتی کو زور سے جھٹکا دیا ، اور کہا " کبھی کبھی یہ الٹ بھی جاتی ہے " ،،،  اور اب کشتی میں" ایک حد تک" مکمل کیمبریج کا نقشہ پھر گیا ۔ 
( منیرہ قریشی ، 25 جون 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )