جمعہ، 28 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال(11)۔

"سودوزیاں"
" ذرا سوچیں "
(آج اپنی ڈائری کا ایک اور صفحہ شیئر کررہی ہوں ! کہ سُودو زیاں کا کچھ حساب ہوتا رہے تو اچھا ہے )
۔" پلوٹو ،نظامِ شمسی میں سورج سے بعید ترین سیارہ ہے۔ زماں و مکاں کا تصور اس طرح سامنے آتا ہے کہ پلوٹو کا ایک سال دنیاوی 248 سالوں کے برابر ہے۔ یعنی پلوٹو سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرتا ہےتو اس عرصےمیں زمین248 برس گزارچکی ہوتی ہے۔،وقت کی اضافیت کا اندازہ قرآنِ پاک کی آیات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ہمارا راب فرماتا ہے،،،۔
ہمارا ایک دن دنیا کے ایک ہزار برس کے برابر ہے (سورۃ الحج 47)۔
لیکن یہی موازنہ " عرش " کے سیاق و سباق میں ہوا ، تو فرمایا ہمارے مالک وخالق نے ،،،،، " ہمارا ایک دن دنیا کے پچاس ہزار برسوں کے برابر ہے!۔
( سورۃ المعارج 4 )
اگر انسان کی زندگی کی مدت کائناتی یا عرشی دنوں میں تبدیل کردی جاۓ تو دنیا کی بے ثباتی کا یہ حال ہےکہ دنیا میں گزارے 80 سال کائناتی وقت کے" 5" گھنٹوں سے بھی کم بنتے ہیں،،، اور عرشی وقت کا پیمانہ 2منٹ 30 سیکنڈ سے بھی کم بنتے ہیں ۔ اس " ڈھائی منٹ " کی زندگی کے لۓ آدمیآخرت کی دائمی زندگی پر نظر ڈالۓ!!!۔
ہم 5 گھنٹے ،،، یا ڈھائی منٹ کے لۓ کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں ،،، کتنے جھوٹ سچ بولتے ہیں ،،، کتنی چالاکیاں ، چالبازیاں کرتے ہوۓ خوش ہوتے ہیں کہ واہ بھئ ، ہمارا بھی جواب نہیں ! اور ہم اپنے سوال جواب کا حساب لینے والے کو بھولے ہوتے ہیں ،، سب پتا ہے پھر بھی " دیکھا جاۓ گا " کا رویہ اپناۓ اپنے حصے کے 5 گھنٹے یا ڈھائی منٹ گزار لیتے ہیں ، استغفرُاللہ۔
۔(منیرہ قریشی 2007 ءواہ کینٹ )۔

جمعرات، 27 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال(10)۔۔

"صبر کی مٹھاس" 
جب تک صبر کے میٹھے ہونے کی سمجھ آتی ہے ، تب تک قبر کی الاٹمنٹ کے کاغذ نظر کے سامنے پھرنے لگتے ہیں ،لیکن ہم پھر بھی بہت منافقت سے ،،،اپنے نفس کے دانت کچکچانے کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں کاش اس نفس کی طرف پہلے دھیان دے دیتے ، اس اندر کی آواز کو نظرانداز نہ کرتے ۔شروع جوانی میں ٰیہ بات سیکھ لیتے کہ یہ نسخۂ کیمیا ھے ۔60 کے پیٹھے میں سمجھ آیا تو کیا ؟؟ پُلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہوتا ہے !بالوں کی سفیدی اورچہرے کی جھریاں دوسروں کو مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ ہماری عزت کریں ۔لوگ ہم سے مشورے مانگتے ہیں ، جیسے ہماری اب تک کی تھوڑی بہت دنیاوی کامیابی ہماری ہی عقل وفہم کی وجہ سے ہو ،، آہ انھیں کیا معلوم کہ جوانی کے زور میں ہاتھوں میں اور زبان پر کتنے کانٹے دار جھاڑیاں اٹھاۓ گھر سے نکلا جایا جاتا تھا ، اوردوسروں کو اپنی مرضی کی عینک سے دیکھا جاتا اور بعد میں ہم" ٹھاکر"بنے نظر آتے ہیں ! بہت دیر کی مہرباں آتے آتے والا حساب ہوتا ہے۔ ساٹھ سال اور اس کے بعد کے دور میں کوئی فہم آیا بھی تو کیا ،،،، وہ دور جو طاقت اور صحت کا گولڈن دور ہوتا ہے ،جب کم وسائل اور کم پیسے کے باوجود بندہ پہاڑ سے نہر نکال سکتا ہے ،،،لیکن وہ دور چُٹکیوں میں گزر جاتا ہے،، اور ہم اس دور میں اپنی تھوڑی سی خوش حالی کے زعم میں اپنے قریبی رشتوں کو اپنے لہجے کی کڑواہٹ سے ،پتھر کا جواب اینٹ سے دینےکی حرکتوں سے اور سازشی شطرنج کے مہرے چلانے میں اتنے محو ہوچکے ہوتے ہیں کہ اپنے انجام کا کبھی سوچا ہی نہیں !! کہ کبھی یہ رشتے کبھی یہ آس پاس کے لوگ ہم سے اتنے متنفر ہو سکتے ہیں کہ وہ بہت آہستگی سے ہمیں " اکلاپے " کا تحفہ دے کر جا چکے ہوں گے ،، اورہم مسلسل زبان کے گھوڑے کو
بےلگام رکھنے کی پالیسی پرجمے رہتے ہیں ۔ اپنے طنزیہ جملوں کی کاٹ کو فاتحانہ اندازسے بولنے اور اس کا اثر دوسروں پر ہوتا دیکھنا ،،، کیا آسودگی دے سکتا ہے ! کون سا سکھ مل سکتا ہے ؟ اور کتنے عرصے کا ؟ اور دوسروں کے ساتھ بلی چوہے کا کھیل کھیلنا ،،، انھیں آنسوؤں کی نمی دے ڈالنا کہاں کی فتح ہوئی؟ 
رویوں کے تکبر کی گند گی ڈالتے رہنا دراصل خطرناک بیماری ہے۔یک دفعہ یہ احساس جاگ جاۓ کہ ہم نے "صبر"اور توکل سے زندگی کے ہر رشتے کو نبھانا ہے تو ہم سے زیادہ خوش نصیب کون ہو گا ! کیوں کہ ہم سامنے والے ہاتھ سے کانٹےدار جھاڑیاں لے کر ایک طرف پھینک دیں اور بہ واپسی ایک " کشادہ " مسکراہٹ دے دیں ،،،یا ،، اس کی تنقیدی نظروں کے فوراً بعد ایک گلاس پانی لے کر حا ضر ہو جائیں تو سامنے والا کچھ نہ کچھ سوچے گا ،،، یہ بھی نہ ہو سکے ،،، تو کچھ عرصہ کے لیے خود کو اس کے حلقۂ ملاقات میں سے منفی کر لیں اور اب آپ ،،،،، صبر کی مٹھاس کا مزا لینا شروع کر لیں ،،، ایک لمبے وقفے کے بعد اگلے سے ملیں تو نارمل انداز سے گلے ملیں ۔کیوں کہ اب آپ اس کے ترکش کے تمام تیروں کے جواب میں صرف ایک " ڈھا ل " پکڑے ہوۓ ہیں جس کا نام ہے " صبر "،،، آپ نے ٹھان لیا کہ میں نے پلٹ کر جواب نہیں دینا ،،، نہ پوچھیۓ اس احساس کا احساس کیسا ہوگا ! کہ جیسےہم کسی پرندے کے پر کی طرح ہلکے پھلکے ہوکر ہوا میں اُڑ رہے ہوں !
یقین کیجئیے کہ "اس رب کا کرم اور احسان کا عکس ہوگا کہ آپ نے صبر کا بکتربند لبادہ اوڑھ لیا ہے اور خود کوطنزپروف کر لیا ہے ،،،،،کسی دانا کا قول ہے " اپنے موڈ اور غصے سے دوسروں کو تنگ کرنا کم ظرفی کی نشانی ہے"۔
( یہ محض میرے خیا لات وتجربات پر مبنی تحریر ہے جو 2008 ء میں لکھی سوچا لگے ہاتھوں آپ سب سے شیئر کرلوں ! اس بارے کوئی بحث نہیں کہ " خیال اپنا اپنا ، " اور تجربہ بھی اپنا اپنا ،،،)۔
(منیرہ قرشی 2008ء واہ کینٹ )

بدھ، 26 ستمبر، 2018

اِک پرخیال (9)۔

" مہربان مہربان موت " 
ہم جب بھی کسی کی موت کی خبر سنتے ہیں تو منہ سے" انا للہِ وَانا علیہ راجعون "کا جملہ نکلتا ہےاور دل اداسی میں ڈوب جاتا ہے ۔ کوئ انجان ہو تو اداسی کےلمحےکم وقت لیتے ہیں ،کوئ جان پہچان والاہوتویہ دورانیہ قدرِ لمبا ہو جاتا ہے اوربہت قریبی شخصیت ہے تو نہ صرف اداسی کا ڈیرا ذیادہ دن رہتا ہے بلکہ اس کی باتیں ہوتی ہیں اور آنکھوں کے آگےانکے ساتھ گزرے وقت کی ریل چلنے لگتی ہے،کچھ ماہ یہی کیفیت رہتی ہے،اور وہی دنیا اوروہی دھندے، وہی دلچسپیاں ،،،،!
حالانکہ جو جملہ کسی کی موت پر فوری نکلتا ہے اس کا مطلب یہ واضع کرتا ہے کہ"بے شک ہم سب نے لوٹ کر اسی خالق کی جانب ہی جانا ہے ۔لیکن افسوس کی شدت کے باوجود ہم اپنی موت بھولے ہوتے ہیں ،،،،۔
؎ بُلیا اساں نائیں مرڑناں 
!!گور پیا کوئی ہور
آہ اور افسوس کا تاثر برِصغیر میں کچھ اور طرح، اہلِ عرب میں اور طرز پر اور سفید فام میں اور طریقے سے لیا اور منایا جاتا ہے ۔ ان سب کو زیرِبحث لانا مقصود نہیں ،،، خاندان کےوہ بزرگ جو آخری چند سال یا مہینے اپنوں کے درمیان میں گزارتےہیں تو دراصل ان پر قسمت کا آخری وار، آخری پیرا گراف کا مکمل ہونا ہوتا ہے ۔ اب یہ " ہیپی اینڈ " کے ساتھ جاتے ہیں یا ان دعاؤں کے ساتھ کہ" یا اللہ اِن کو اُٹھا لے یا ،،، اے اللہ مجھے سنبھال لے " یہ سٹیج کا آخری سین ہوتا ہے جو بظاہر لمبا چل رہا ہوتا ہے لیکن ساتھ ساتھ پیچھے رہ جانےوالوں کی تقدیر بھی رقم کر رہا ہوتا ہے ! ۔
یہ موضوع اگرچہ بحث طلب ہے ،،، لیکن جب سے دنیا بنی ہے بزرگوں کی " آخیر " اکثر سوالیہ اور بوجھ والا ،،،،،پہلو رہا ہے اور رہے گا ! سمجھ نہیں آتا کیوں ؟؟؟؟ حالانکہ اس میں بھی صرف اور صرف " صبر و تحمل " کے " ٹول " کی ضرورت ہوتی ہے ، بس ۔۔۔اصل میں خدمت کے لۓ چُنے جانے والے والے لوگ " چُنیدہ " ہوتے ہیں اور وہی خوش قسمت ہوتے ہیں ، اللہ ان میں تحمل ، محبت ، اور صبر کے ایلیمنٹ ڈال دیتا ہے اور وہ اپنی آخرت غیرمحسوس انداز سے سنوار لیتے ہیں ،،، کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں ، ان دعاؤں کے مرکز کے جانے کے بعد کم از کم بقایا زندگی سکون کی نیند سوتے ہیں اور مطمئن رہتے ہیں۔
آج میری ملازمہ کا فون آیا " باجی میں کچھ دن نہیں آسکوں گی ، میری نانی فوت ہو گئی ہےاور ہم سب گاؤں جا رہے ہیں "،،،، جوابا" میں نے اسے کہا " میری طرف سے اپنے 6 عدد ماموؤں کو مبارک باد کہنا ، کہ شکر کرو تمہاری ناگوار ڈیوٹیاں ختم ہو گئی ہیں " ،،، کچھ لمحوں کے لۓ اُس بوڑھی خاتون کے لۓ میرے دل میں غم کا احساس اُبھرا ، دوسرے لمحے میں نے سوچا " موت بھی کتنی مہربان ہے اور اللہ کی کتنی کرم نوازی کہ اس نے اپنے بندوںکو موت کی صورت میں تمام،شکائیتوں ، نفرتوں اور ناگوار اخراجات کی صورت میں چھٹکارا دلا دیا ہے ! ،،،، نانی کے مرنے کاسن کر میری ذہن نے جو اس عورت کاتصور قائم کیا جسے میں نے زندگی میں نہیں دیکھا لیکن جس کی ضروریات ، بے چارگی اور لاچاری کی کہانیاں ، نواسی کی زبانی سُنتی رہتی تھی کہ ہمارے چھ ماموں ہیں سب ہی محنت کش ہیں لیکن ان کے نزدیک سب سے فالتو خرچہ " اس ماں " کا ہی ہوتا ہے وہ کبھی ایک بیٹے کبھی دوسرے ،، اور جب سب ہی اُکتا جاتے تو وہ مجبورا' بیٹیوں کو پیغام دیتی" مجھے آ کر لے جاؤ " لیکن بیٹیاں اپنے سخت گیر خاوندوں یا کثیر الاعیالی اور غربت کے ہا تھوں کبھی اس کی سنتیں کبھی کسی بھائی کو غیرت دلاتیں اور اب وہ اللہ نے اپنی تحویل میں لے لی ، یہاں نہ کوئی کمرہ گندہ کرنے کا طعنہ ، نہ پیمرز اور دوا خریدنے کا احسان ، نہ زیادہ یا کم کھانے کا نخرہ کرنے کے دلفگار الفاظ ہوتے ہیں ، بلکہ سکون ، سکھ اور ہمیشگی کی چھٹی ، ایک ماں نے 9 بچے پالے لیکن یہ نو بچے ایک ماں کو بوجھ سمجھتے ہوۓ اپنے آنے والے وقت کے دستاویز پر دستخط کر رہے ہوتے ہیں !۔
ایسا سلوک صرف غربت ہی کی وجہ سے نہیں ہوتا ۔ خوشحال گھرانے بھی خود تھکنے کے بجاۓ اپنے بیمار بزرگوں کے لیے کسی غریب رشتہ دار یا ملازم کو رکھ کر ان کی خدمت سی فارغ ہو جاتے ہیں ،،، ایسے بزرگ موت کا انتظار ایسے کرتے ہیں جیسے جوان دولہا اپنی دُلہن کا ،،،،، تمام تر گناہوں سمیت وہ ربِ رحیم و جلیل وکریم ہماری پردہ پوشی فرماتا ہے اور خاتمہ بالخیر کر کے دکھ کے سمندر سے اپنی محبت کے کنارے پر سمیٹ لیتا ہے ۔
الحمدُ للہ ،، یا رحمت العالمین ، تو نے موت کی صورت میں محبت کا عکس دیا۔
" آپ کی اچھی سوچ اللہ کے کرم کا نتیجہ ہے " ( پروفیسر احمد رفیق صاحب)۔
( منیرہ قریشی 13نومبر 2016ء واہ کینٹ )

منگل، 25 ستمبر، 2018

اِک پرخیال (8)۔

" تاریخ" 
تاریخِ دنیا یا تاریخِ جذبات ،،،، آج پھر کچھ نثر پڑھ لیجئیے)۔)
مجھے تاریخِ دنیا پڑھنا پسند ھے ۔ ، تاریخِ یونانی ، مصری ، ہندوستانی ، یورپ کی یا اسلامی ،،، کوشش ہوتی ہے کہ کتاب خرید لوں یا مانگ کر پڑھ لوں ،،، شاہد یہی وجہ ہے کہ پرا نی چیزیں ، پرانی دوستیاں ، پرانی یادیں میری کمزوری ہیں ۔بھلے وہ چیزیں قیمتی ہوں یا معمولی، یادیں تلخ ہوں یا شیریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،،،، البتہ ہسٹری کی کتاب " پھر کیا ہوا " کے سحر میں مجھے جکڑ لیتی ہے اور ختم کرنے کے بعد،یاسیت،بے وقعتی اور اُداسی شدت سے حملہ آور ہوتی ہے ،دنیا کی بےثباتی اور کم مائیگی کا احساس اور پڑھ جاتا ہے۔
کبھی بخت نصر کی تاراجیوں کا پڑھوں تو لاتعداد لوگوں کا خاتمہ ، بےشمار عالی نسب اور اعلیٰ دماغ لوگوں کی تذلیل،کبھی یونانی تاریخ ہے تو خوب صورت،حسین خاندان بیرونی حملہ آوروں کی زد میں آۓ تو ان کے محلوں کی شہزادیوں کو رکھیل بنا لیا گیا، اور انکے محافظ مرد تہہ تیغ کر دیے گۓ ، مصر کی تاریخ تو تھی ہی غلاموں کی بہترین " نرسری " ، ہند کی تاریخ ہےتو حُسن کو بیرونی،غیرملکی حُسن کی آمیزش سے اپنے ہاں کے سانولے نمکین پن کو مزید نکھار کا باعث سمجھا گیا اور اعلیٰ نسب ، لڑکے،لڑکیاں بکاؤ مال یا تحائف کی صورت پیش کیے جاتے رہے ۔ ایسے ، جیسے یہ سب انسان نہیں ہیں یا ان کے کوئی احساسات ، جذبات ہی نہیں ہیں۔
اتنے اعلیٰ دماغ ، اتنی خوب صورت سوچ اوراتنے عالی مرتبت اعما ل والوں کو اعلیٰ ذوقِ سلیم رکھنے والوں کو فطرت کے قوانین کیوں پیس کر رکھ دیتے ہیں ! یہ سب کیا ھے اور کیوں تاریخ میں ملکوں کو فتح کرنا اور انھیں ملیا میٹ کرنا کارنامے قرار دیا گیا ھے ؟
تاریخِ میں تو پہاڑوں ، میدانوں ،کھیتوں کھلیانوں ، محلات کا ذکر تو کیا جاتا ہے ، اور انسانوں کی تعداد اور جسموں پر قابض ہونے کو فتح قرار دیا جاتا ہے ،،،،،،،ان سب کے درمیان انسانی جذبات ، احساسات کہاں گئے ؟ ان کا ذکر تاریخ میں کیوں نہیں ہوتا ؟ کیا یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ان کے دلوں کا ٹوٹنا ،، دلوں پر لگے چرکے ، نسلوں کا خاتمہ ،، اور انسانی خون کے دریا کے بہنے کا ذکر کیوں دردمندی سے نہیں کیا جاتا ؟ کیا جاتا ہے تو ایسے کہ جیسے یہی ہوتا ہے جب ایک حملہ آور حکمران آتا ہےاور دوسرا ، جاتا یا ختم کر دیا جاتا ہے!خون اتنا بہایا جاتا ہےکہ راستے پھسلواں ہو جائیں ،،،،، دجلہ وفرات ، نیل وآمو ، سندھ و چناب اپنا رنگ بدل دیتے ہیں نیلے سے سُرخ ،،، اور یہ تاریخ ہے۔ 
خالق ومالک کے تصور سے کبھی کوئی معاشرہ خالی نہیں رہا ، سارا نہیں تو مخصوص طبقہ اپنے رب کی محبت میں ڈوبا رہا ۔اور اسی رب نے انسانی خمیر میں دُ کھ سُکھ ،محبت نفرت ،غیرت ،یہ تیری یہ میری کے احساسات گُوندھ دیۓ ،،،تو پھر رنگوں بھرے
کینوس پر یوں یکد م خوب گیلا بُرش پھیر دینا کہ ہر رنگ فورا" پھیل جاۓ اور مناظر اور منا ظر میں موجود " وجود " خود دم بخود رہ جائیں کہ یہ کیا ہو ؟کیسے ہوا ؟
یہ تاراج ہونے والی روحیں کائنات کے ایک کونے میں حیران آنکھوں سے سوچ رہی ہیں کہ"یہ ابھی ابھی جو منظر ہم نے سہا ۔۔۔۔ وہ خواب تو نہیں ،،،،،،یا ہم پہلے کوئی خواب دیکھ رہے تھے، ہر وجود اپنی جگہ ایک کہانی تھا ، ایک میں تھا ،،، انا اور خودداری کے پیکر تھے ، آنکھوں ہی آنکھوں میں باتوں کو سمجھانے والے ۔کم آمیز وجود،، خاندان کے مضبوط سسٹم سے جُڑے ایک لڑی ! ،،، یہ ہار ٹوٹا یا توڑ دیا گیا اور موتی شمالاًجنوباً بکھر گۓ ۔ وہ خوب صورت آنکھیں جو کاجل سے سیاہ کرتیں ،جسم نرم ریشم سے سنوارتیں ، مضبوط سراپے جن کو دیکھ کر عورت کا ہر رشتہ خود کو محفوظ سمجھتیں ۔جب تاریخ لکھی جاتی ہے تو ان کے دم بخود، خوفزدہ ، دکھ سے لبریز احساسات کا تو ذکر ہی نہیں ہوتا ۔ فاتحین کا کچھ عرصہ کے لۓ فاتح بن جانا ہی تاریخِ انسانی کی مکمل "ہسٹری"ہے اور جب فاتح کے مفتوح ہونے کا وقت آیا تو وہ انہی احساسات کے ساتھ "ناپید"ہوگۓ ! اس تاریخِ انسانی میں تو انسان کے " اصل " کا تو ذکر ہی نہیں ! یعنی "میں " تو کچھ بھی نہیں گویا انسانی جسم ایک مُٹھی مٹی بن گیا تو جذبات بھی ایک مُٹھی مٹی میں رل مل گۓ ! رہے نام اللہ کا !!۔
( منیرہ قریشی جولائی 2016ء واہ کینٹ )
( میں جب آس پاس کوئی ایسے لوگ دیکھوں جو دوسرے ممالک سے آکر یہاں کے مکیں بن گئے ،،، یا ،،، اب دوسرے ممالک میں بسے اپنے لوگ جو مِکس نسل کا حصہ بن رہے ہیں ! تواب جو ہسٹری لکھی جاۓ گی اس میں پوری دنیا کا عجب رُخ سامنے آۓ گا )۔

پیر، 24 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال ( 7)۔

" اِک پرِ خیال " ( 7)۔
' انشائیہ ،،شکریہ '
اُردو ادب کی بے شمار جہتیں ہیں ، لیکن ہر ادیب ناول کے سمندر کا شناور نہیں ہو سکتا ،، نہ ہر لکھاری افسانوں اور ناولٹ کے میدان کا شہ سوار بن سکتا ہے ۔ نہ ہی ہر قلم کار میں آپ بیتی لکھنے کی وہ ماہرانہ تیکنیک ہوتی ہے ،، کہ واقعات کے تسلسل کی روانی اور دلچسپی کو برقرار رکھ سکے، کہ قاری کے لیۓ ان واقعات کی گرفت سے خود کو نکالنا مشکل ہو جاۓ ۔
لیکن ہر لکھنے کی چاہت رکھنے والا ، طویل ابواب کو اکثر نہیں سنبھال پاتا ۔ اور یوں کئی تحاریرگوشہء گمنامی میں رہ جاتی ہیں ۔ ،،، ایسے میں مختصر نویسی ، نے اپنا جلوہ دکھایا ،، اور لاتعداد ایسے قلم کاروں کا جُھنڈ سامنے لے آئی ، جنھیں اس میدان نے آسانی عطا کر دی ، اور اردو ادب میں " انشائیہ " کا آغاز ہوا، ، حیرت انگیز طور پر اس کی پزیرائی بھی بہت ہوئی۔
انشائیہ ، دراصل ایک بندے کی سوچ کا وہ لمحہ ہوتا ہے جو وہ کسی منظر ،، شخصیت ،،، یا واقعہ کو دیکھتا ہے ، اور کچھ دیر تکتے رہنے اور پھر اس پر غور کرنے سے سیرِ حاصل اثر لیتے ہوۓ ، آگے قدم بڑھا دیتا ہے ،، یہ کیفیت کچھ عالمانہ ، کچھ فلسفیانہ ، اور کچھ مجذوبانہ جذبات سے ایسے معمور ہوتی ہے ،، کہ منفرد خیال ، سوچ کاانوکھا اینگل پڑھ کر قاری چونک جاتا ہے ۔ انشائیہ کا لکھاری ،، اپنے باطن کے حساس لیول کو بھی چوکنا رکھتا ہے ، اسی لیۓ کبھی کبھی اس پر کسی خیال کی " آمد " ہوتی ہے ،، اور تارے جیسی چھَب دکھا کر ، وہ خیال اس سے پہلے کہ معدوم ہو جاۓ ،،، وہ اسے لفظوں ، جملوں ، کی صورت میں ترتیب دے دیتا ہے ،،، اور پھر اپنی اس تخلیق پر ایسی ہی محبت بھری نگاہ ڈالتا چلا جاتا ہے ، جیسے ماں اپنے نومولود بچے پر فخر اور محبت کی ، نگاہ ڈالتی چلی جاتی ہے ،، تحریر کی یہ تخلیق ،، اکثر دریا کو کوزے میں بند کر دینے کے مترادف ہوتی ہے ۔ لکھاری اسے کچھ عرصہ سنوارتا ، نکھارتا رہتا ہے ، لیکن مطمئن نہیں ہوتا ، آخر کار وہ دوسروں کے سامنے پڑھے جانے کے لیۓ جب پیش کر دی جاتی ہے تو
لکھنے والے کو اپنی یہ مختصر ، لیکن مکمل تحریر کچھ ذیادہ ہی مکمل محسوس ہوتی ہے ،، اس لیۓ کہ اسے اپنا ما فی اضمیر مختصر راستے سے کہہ دینے کا میدان مل گیا ، حوصلہ مل گیا ۔،
انشائیہ ایسے ہی محبت ، درد ، اور انوکھے پن کے لمحوں کو تحریر میں ڈھالنے کا نام ہے جسے اردو ادب میں جس نے بھی متعارف کرایا ، وہ خوبصؤرت ذہنی اُپچ کا مالک ہو گا ، اور جرات کا مظہر بھی ۔ اس کا شکریہ !۔
انشائیہ ، چند منٹوں کے لیۓ اپنے قاری کو گرفت میں تو رکھتا ہی ہے ، لیکن معلومات کے ساتھ اسے ادبی ذوق بھی سکھاتا جاتا ہے ۔
تخلیق ، چاہے سیاہ ہو یا سفید ،، گرے ہو یا گلابی ، نیلی ہو یا پیلی ،،، لکھنے والا اس کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ، اور اپنی صلاحیتوں کا معترف بھی ہوتا ہے ۔ یوں اسے اپنی ذات پر اعتماد ، اور بامقصد زندگی کا اشارہ مل جاتا ہے ۔ کہ اللہ کی ایک تخلیق تو وہ خود ہے اور اِس کی اپنی تخلیق یہ مختصر تحریر ہے جسے دوسروں کو دکھانے کا حوصلہ ملا ،،،۔
اسی لیۓ کہہ رہی ہوں " انشائیہ ،، شکریہ "
( منیرہ قریشی 24 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )
( یہاں ایک بات کی وضاحت کر دوں ، کہ مجھے کچھ کتب ، انشائیہ کی پڑھنے کو ملیں ، کچھ نے متاثر کیا کچھ نے کوئ اثر نہ دیا ،، فیس بک پر ڈاکٹر شارق کے " انشے سیریز " جو تحریر اور ریکاڈنگ کے ساتھ ملیں ، تو جیسے ، انشائیہ کی محبت بےدار ہو گئ ،، اتنا دلچسپ ، معلوماتی ، اور اقدار کے پہلو کو مدِ نظر رکھتے ہوۓ ، اس سیریز سے بہت کچھ سیکھا " شکریہ ڈاکٹر شارق علی )۔

اتوار، 23 ستمبر، 2018

اِک اپرِخیال(6)۔

' کارکن چیونٹیاں' (6)۔
اللہ کی اس ننھی منی مخلوق کو جب دیکھتی تو کتنی ہی دیر دیکھتی چلی جاتی ،،، لا علمی ، ناسمجھی کا دور تھا ، ان سے متعلق کوئی معلومات نہ تھیں ۔ کبھی کبھی ان کی ترتیب سے چلتی قطار کے آگے پنسل سے لکیر کھینچ دیتی ،، دونوں سائڈ کی چیونٹیاں لمحے بھر کو ٹھٹک کر جائزہ لیتیں ، ، کہ یہ کیسی رکاوٹ ہے ،،، سونگھ کر ، فیلرز ہلا ہلا کر ذرا سی ترتیب بدل کر پھر اپنے راہ چلنے لگتیں ۔ کچھ دیر یہ نظارہ دلچسپ لگتا ۔ بہت بعد میں اس مخلوق سے متعلق حیران کن آگاہی ہوئی ،،، کہ یہ تو ،، اندھی مخلوق ہے ۔ سونگھنے ، محسوس کرنے کی حِس اتنی تیز ہے کہ اپنے سے 5/7 گز دور مطلب کی چیز تک پہنچ ہی جاتی ہے۔اپنی اوقات ِ جسم سے 8 گنا وزن اُٹھا کر بِل میں لے جا رہی ہوتی ہے ۔
اپنے علاقے اور اپنے گھر اور اپنی ذمہ داریوں سے مکمل آگاہ ہوتی ہیں ،یہ مزدور یا کارکن چیونٹیاں ،، بغیر کسی لالچ کے دن رات " کام کام اور کام " کے لیۓ جُتی رہتی ہیں ۔ اپنے گھر کے اندر پہنچ جانے والی چیزوں کو سٹور کرنا ، محفوظ کرنا ،، سردیوں گرمیوں میں کمروں کو ایسے اینگل سے بنانا کی وہ ٹھنڈے یا گرم رہیں ۔ ملکہ کی دیکھ بھال ، انڈوں کو سنوارنا ،،، اور گارڈز چیونٹیاں ،، جو اندر آنے کی اجازت مانگنے والی سے کوڈ دریافت کرتے ہیں ،، کوڈ غلط ، تو آنے والا جان سے گیا ۔
چیونٹیوں سے متعلق ایسی آگاہی کے بعد مجھے " عورت اور چیونٹی " میں بہت مماثلت لگی ۔ ایسی سب خصوصیات تو عورت میں بھی پائ جاتی ہے ، چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتی ہو ۔
والدین ، بہن بھائی ، شوہر ، بچے ،،، عورت ان سب کی "محبت میں اندھی " ہوتی ہے ۔ اپنے آرام کو تج کر ، صحت کو نظرانداز کر کے ، گھر کی صفائی ستھرائی ، گرمیوں ، سردیوں کے پکوان گھر کے افراد کے مزاجوں کے مطابق تیار کراتی ہے ،،،سردیوں گرمیوں کے کپڑوں کو دھوپ لگوانا ، اور سٹور کی اگاڑ پچھاڑ ، فرض بناۓ رکھتی ہے ۔
گھر آنے جانے والے کی منفی ، یا مثبت ، سجن یا دشمن کی نظروں کو پہچان کر ، اس فرد کو " ڈی کوڈ " کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے ،، بھلے اسے اس کوشش میں ناکامی کیوں نہ ہو ، ! وہ گھر کو ، اور اسکے ہر فرد کو ہر نقصان سے بچانے کی سر توڑ جدوجہد کرتی چلی جاتی ہے ۔ اس کے اندر بھی قدرت نے"حساس فیلرز " لگا رکھے ہیں ۔ کمزور ہونے کے باوجود ، باطن کی مضبوطی ، اسے اگلی ناپسندیدہ قوت سے بھِڑ جانے پر آمادہ کر لیتی ہے ۔
،واہ ،، عورت بھی کیا منفرد مخلوق ہے ، چیونٹی ہو ،، یا عورت ،،، ہر لمحہ " آن ڈیوٹی " نظر آتی ہے ۔ سوتے میں بھی عورت کا دماغ اپنوں کی فکر میں متحرک ہوتا ہے ۔ وہ زندگی کے آخری سانس میں ، اپنی آخری بات میں " جُڑے رہنے " کا کہتی چلی جاتی ہے ، ، عورت چاہے کتنی غریب ہو ، متوسط طبقے سے ہو یا خوشحال گھر سے ،، اس کے اوصاف ، چیونٹیوں کی طرح "" شدتِ جذبات لٰۓ ،، واضع ،، فراست ِ فہم لیۓ ،، اور بظاہر موم ، بباطن چٹان ! کوئ صلہ نہیں ، کوئی معاوضہ نہیں ، ،،،،،کیا مماثلتِ مخلوق ہے ، اللہ حیران کر دینے والا ہے !۔
( منیرہ قریشی 23 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )

بدھ، 19 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال (5)۔

۔' نیند اور اُمید '۔
بہت سٹریس ہے، کام کے بوجھ نے تھکن سے چُور کر دیا ہے۔ 
اُس کی دل جلی باتوں پر مجھے اس قدر غصہ تھا کہ ، غصے سے، جسم لرز رہا تھا ،
آج محفل میں اتنی گرما گرمی ہوگئ کہ کنپٹیاں ابھی تک تڑخ رہی ہیں ۔
جوں ہی اس نے الزام تراشی شروع کی ،،، تم نے مجھے کیوں روکا ۔۔۔ میں اسے یہ اور یہ جواب دیتی تو ،، چُپ کرا کے رکھ دیتی ، یہ جواب نہ دے سکنے کے غم نے مجھے مزید ڈپریس کر دیا ہے۔
آہ ، غم نے دل پارہ پارہ کر دیا ہے ، آنکھ سراپا آنسو بنی ہوئ ہے ،، نہ بھوک لگ رہی ہے ، نہ پیاس ، ہر ا حساس سے جسم سُن ہو چلا ہے !!پتہ نہیں کب اس کیفیت پر قابو پا سکوں ،، شاید کبھی نہیں ،،، غم بھی توکوئی چھوٹا نہیں ،، کسی اپنے کا یوں ہمیشہ کے لیۓ بچھڑ جانا ، معمولی بات تو نہیں ، جانے کب صبر آۓ !۔اُف اتنی بےعزتی ،، میَں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسے گھٹیا ، گندے الفاظ اپنی زندگی میں سننے پڑیں گے ، میری تو راتوں کی نیندختم ہو گئی ہے۔
قرض کیسے ادا ہو گا ؟ یہ فیسیں ،یہ بلز ،،،، کیسے ادائیگی ہو گی ؟؟فکر سے دماغ نے تو جیسے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ،،،۔
علاج کہاں سے کرائیں ،، ہاتھ اتنا تنگ ہے ،،۔ یہ اولاد تو ہے ہی نِری آزمائش ،، نہ نا لائق ہوتی ،، تو نہ لوگوں کے طنز سننے پڑتے ،،،،،،،،،،اور انسانی جسم ، روح ، اور جذبے اور احساسات ،،،، تفکرات کے بھنور میں یوں گھمن گھیری میں چکرا کر رہ جاتے ہیں ،، لیکن یہ انسان ہی ہے جو پھر بھی زند گی سے چمٹا رہتا ہے ،،، کیوں کہ باطنی طور پر " اُمید " سے اور جسمانی طور پر " نیند " سے توانائی اورہمت، پا لیتا ہے ۔
اُس خالق نے اپنی اِس تخلیق کے اندر " نیند " کا وہ پینڈولم فکس کر رکھا ہے ،،، جو چُور چُور ، اور، ریزہ ریزہ وجود کو پھر سابت کر ڈالتا ہے۔ ،،،، بس اِک ذرا نیند کے پینڈولم نے آنکھیں بند کروائیں ،،، اور چند گھنٹے کی نیند نے ،، پھر ہر کڑوے ، میٹھے ، کھٹے ، کھاری حالات سے نبرد آزما ئی کی طاقت دے ڈالی ۔
جیسے کسی نے جسم میں " ملٹی وٹامنز " کا مرکب انڈیل ڈالا ہو ،،،،،،،،۔
ایک گہری نیند کا جھونکا ،،، باطن کی گرد آلود " اُمید " کی گرد کو اُڑا دیتا ہے !۔
سوچتی ہوں دنیاوی نیند اتنا تازہ دم کر دیتی ہے ،،، تو ہمیشہ کی نیند کیسا مزہ دے ڈالے گی !!۔
شکریہ پیاری نیند ،،،، شکریہ !۔
( منیرہ قریشی 19 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )

منگل، 18 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال(4)۔

 ' شرم ، یا ، احساسِ کمتری '
مَیں یہ جملے کسی کو نہیں کہہ سکتی /سکتا ۔ مجھے شرم آتی ہے ۔
مَیں اب وہی جوڑا اِسی گھر کے فنگشن میں پھر پہنوں ،، میری تو بےعزتی ہے ،،میَں کسی کے سامنے نہیں جا ؤں گی/ گا ،، مجھے تو شرم آرہی ہے۔ 
میَں اپنی سہیلیوں/ دوستوں کو اِس ڈرائنگ روم میں بلا سکتی /سکتاہوں ، جس کی ہر چیز بدلاۓ جانے لائق ہے ،،،مجھے تو شرم آرہی ہے ۔
میَں اُس تقریب میں کیوں جاؤں ، وہاں میرا کوئ واقف ہی نہیں ،، مجھے بور نہیں ہونا ، اور مجھے تو ایک دفعہ ہی انھوں نے بلایا ہے ، دوبارہ کہا ہی نہیں ، مجھے تو شرم آۓ گی ۔
آپ کمرے میں ہی رہیۓ گا ، میری سہیلیاں / دوست گھر میں آرہے ہیں ایک تو ہمارے گھر کے لوگ بہت باتیں کرتے ہیں ، مجھے شرم آتی ہے ۔
ہمارے گھر کی گاڑی اتنی پرانی ہے ، کہ بیٹھتے ہوۓ بھی شرم آتی ہے ۔
یہ شرم نہیں ،،، احساسِ کمتری کے بدترین انداز ہیں ۔
سوچ کے تنگ دائروں میں گھومتے لوگ ، بھلے بڑے گھر میں رہیں ، بڑی کار میں گھومیں ،، بہترین لباس پہنیں ،،، وہ کوئ اور ایسی بے کار وجہ تلاش کر لیتے ہیں ،، جس میں یہ جملہ شامل ہو جاۓ ۔" مجھے بہت شرم آرہی ہے "احساسِ کمتری ،، دراصل احساسِ نفاست ، اور احساسِ انفرادیت سمجھ کر "پیش " کیا جاتا ہے ، تاکہ " ہممم " کے لفظ کو مطمئن کرنے کا جواز بن جاۓ ان بے کار سوچوں کے دائروں میں کولہو کے بیل کی طرح گھومتے گھومتے سر کے بالوں کا رنگ سیاہ سے سفید ہو جاتا ہے ،، لیکن شرم کے لیۓ وہی بُودی توجیہات دہرائ جاتی ہیں ،، دوسروں کی طرف حقارت کی انگلی اُٹھاۓ ،،، معاشرے میں " ہم " کے لفظ کی تکرار ،،، بندے کو کتنا " نَکو " بنا دیتی ہے ، کسی کو سمجھ آجاۓ ، تو اس کے لیۓ " شرم " کا مفہوم بدل جاۓ ۔
شرم اُتنی کریں ،،، جتنی آ رہی ہو !!اور شرم کرنی ہے ، تو صرف تمیز و آداب کے "نہ "آنے پر کریں ۔
خود اعتمادی سے جئیں ،،،، ۔
" اپنی " محنت کی کمائی کی ہر چیز پر فخر کریں !!
برینڈز کی عینک اتار پھینکیں ،،، جینا بہت آسان ہو جاۓ گا ،،، آپ ہلکے پھُلکے ہو جائیں گے ،، " پَر " کی طرح !!
( منیرہ قریشی 18 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )

پیر، 17 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال(3)۔

 ' بُودا جواب '
تو یہ ہے تمہارا کمرہ ،،، تم اکیلی سو لیتی ہو ؟؟ ڈر نہیں لگتا ؟؟ اکیلی کہاں ہوتی ہوں ،، ،، ،، ۔
دائیں جانب کچھ نیکیاں منہ چھُپاۓ بیٹھی ہوتی ہیں ، لیکن کسی کلام کے بغیر ، مجھے ڈسٹرب کیۓ بنا ،،،،۔
اور بائیں جانب کچھ گناہ بیٹھے ہوۓ ہیں ، دانت نکوستے ہوۓ ، متکبر انداز سے کلام کی اجازت مانگتے رہتے ہیں ،،،۔
پائنتی ،، ایک اداس "نفس" ، بیٹھا ہی رہتا ہے ،،، نظر ڈالوں تو ایک آنسو ٹپک کر چہرے پر پھیل جاتا ہے ،، عجب بے بسی اس کے چہرے پر چھائی رہتی ہے ،،،،اور سرہانے دو " ارقم " اب تک کی روداد روزانہ سناتے ہیں ، اور چل چلاؤ کا پروانہ بھی دکھاتے رہتے ہیں ۔ لیکن میَں روز کہتی ہوں ،،،،کچھ وقت اَور دو ابھی بہت کام پڑے ہیں ،، وہ زیرِ لب مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں " ایسے ہی الفاظ بولنے والوں سے یہ اندرونِ قرصِ ارض بھرا پڑا ہے ، یہ سب ہی بڑے مصروف لوگاں تھے "
اپنے کمرے میں اکیلی کہاں ہوتی ہوں ، مجھے تو تنہائی کی سخت ضرورت ہے ! یہ وجود جو موجود رہتے ہیں، یہ مکالمے ،،،، تنہائ کہاں ، ڈر کیسا !! ؟
( منیرہ قریشی 17 ستمبر 2018ء واہ کینٹ
 

اتوار، 16 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال (2))۔

' ہار اورہتھکڑی'
میَں تقریب میں جانے کے لیۓ نِک سِک سے سج چکی ہوں ، کانوں میں چھوٹے بُندے ، ہاتھوں میں انگوٹھیاں ، ،، لیکن گلے کی زنجیر اور ہاتھ کے بینگل نہیں پہنتی ۔ اور جب بھی کوئ پوچھتا ہے ، یہ دو زیور کیوں پہنتی ہو !! اور وہ دو زیور کیوں نہیں پہنتیں ؟؟؟؟؟ 
میَں جو جواب دیتی ہوں ،، وہ دوسرے کے لیۓ قابلِ قبول نہیں ہوتا ،کہتی ہوں ، بھئ کان اور ہاتھ تو شاید بنے ہی اس لیۓ ہیں ، ، کہ انھیں سجا دیکھنا ، آنکھوں کی مجبوری ہے ، شاید انھیں عادت ہو چکی ہے، کہ کچھ کمی ہے ان انگلیوں میں ! بھلے وہ پیتل کی انگوٹھیاں ہوں!،،اور آئینہ دیکھتے ہی کانوں میں جھولتے بُندے ، تسلی دیتے ہیں ،، ہاں ، اچھی لگ رہی ہو ،، بھلے بُندے پلاسٹک کے ہوں ۔
اور ،،،، عورت کے گلے میں لٹکا ہار ،،، عورت کے گلے میں لٹکا میڈل لگتا ہے ، جیسے "" تم بہت بہادر ہو ! تم سب کام کر سکتی ہو !! تمہیں ہر جذبہء ظاہر و باطن کے محاذ پر قابو پانا آتا ہے !! ،، واہ تم حق دار ہو اس میڈل کی،، لو یہ اور باقی سبھی کام تمہارے ذمے ،،،،،،،،،،،،،،،!!۔
بینگل یا کڑے ،،، خوبصورت ہتھکڑی !! ، ایسی ہتھکڑی جو مرد کی توجہ کی مظہر ہو !۔
ایسی ہتھکڑی جو اس کے سٹیٹس کا سمبل ہو !۔
ایسی ہتھکڑی جو جس عورت نے پہنی ، خوشی سے پہنی ، اور جب ہتھکڑی پہن لی ،، تو دراصل قید کو خوشی سے قبول کیا ، خواہشوں اور جذبوں سمیت !!!۔
( نکتہء نظر اپنا اپنا )
( منیرہ قریشی 16 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )

ہفتہ، 15 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال ( 1 ) ۔۔

' کوڈ '
تمہارا بنک کون سا ہے ؟، اے ٹی ایم کا ،تمہارے لاکر کا ،، ای میل کا ، کمپیوٹر کا ، تمہارے گھر کے تالے کا ،،،،،، ' کیا کوڈ ہے ' ؟؟؟؟؟ 
میَں کیوں بتاؤں !!!۔
یہ کوئی پوچھنے کی باتیں ہیں !! چلو ،، ہم معلوم کر لیں گے ، کر سکتے ہیں ،،اب بہت سے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں ،،، تب اندر کی چاروں سمتوں پر خدشات ، گمان ، خوف ، اور بدظنی نے مورچے سنبھال لیۓ ،، اور وہ جم کر ان دروازوں پر بیٹھ گئیں ۔ ،،، یہ منہ چڑاتے بد گمان دروازے ، بند ہیں جس نے پوچھا ، اس کے لیۓ بھی اور جس نے نہیں پوچھا اس کے لیۓبھی۔،،،،، یہ رویہ بے زار کر گیا۔
مگر کیا میرے " خیالوں " کا کوڈ یہ جان پائیں گے !!!۔
شکر ہے ، بس " وہ " میرا یہ کوڈ جانتا ہے ، اور پھر بھی کوئی بلیک میلنگ نہیں ، پھر بھی کوئی دھمکی نہیں ،،، نہ دوسروں پر عیاں ہونے کے خدشات ،، نہ زور نہ زبردستی ،،،،اور ایسا راز دار کہ موقع دیتا چلا جاتا ہے ، خیالوں کے خزانے کو چمکانے کا ،،، خود کو خود سے جانچنے کا ،،،اپنے رازوں کو سنبھالنے کا ،،، حالانکہ وہ میرا ہر "کوڈ" جانتا ہے ! اور وہ یہ بھی جانتا ہے ،، میرے بندے " کوڈ ز " کے حصار میں پھنس چکے ہیں ،، انھیں مارجن دیا جانا چاہیۓ ۔ انھیں موقع دیۓ چلا جاؤں گا ۔
کیسا بہترین راز دار ہے ،، کتنا زبردست پردہ پوش ہے !۔
( منیرہ قریشی 15 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )

ہفتہ، 1 ستمبر، 2018

ترکیہء جدید(9)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
ترکیہء جدید' (9)۔
اور ترکی نے صرف نو دنوں کے قیام میں ہمیں اتنا گرویدہ تو ضرور کر دیا ، کہ دوبارہ آنے کی خواہش ،،،نے اسے چھوڑنے سے پہلے ہی دل کے ایک کونے میں جگہ بنالی ،،کہ جو ذات پہلی دفعہ لائی ،، اسی کا حکم ہوا تو اگلی باری بھی آ جائیں گے،، آج ترکی میں ہمارا نواں اور آخری دن تھا ،، اور آج ہم خالصتاً تفریحی ٹرپ پر جا رہۓ تھے ،، اور یہ بعد میں پتہ چلا یہاں بھی ترکی کے حسن کا اپنا جلوہ نظر آرہا تھا ۔ 
یہ بھی ایک نیم پہاڑی علاقہ تھا ، اس جگہ کا نام " انطالیہ" ہے ،،، جہاں " 'قوآڈ رائیڈ' کا انتظام ہے ،، یہ ہمارے لیۓ تو نئی رائیڈ تھی ہی ، حتیٰ کہ ایمن ثمن ،مائرہ ،،جو کئ ملکوں میں پھر چکی تھیں ،، انھوں نے بھی ایسی رائیڈ پہلی دفعہ ٹرائی کی ۔ یہاں پہنچنے میں شاید ایک گھنٹہ لگا ،، اور پھر خوبصورت سرسبز نیم پہاڑی علاقہ تھا اور اس وقت سب ہی  پُرجوش تھے ،،، ایک جگہ وین رُکی ، اُترے ، سب نےلطیف سی خنکی کو محسوس کیا، میَں تو خود بھی لطیف ہو گئی ،،،، اس سے پہلے کہ اصل رائیڈ کی طرف جاتے،، یہیں ایک اور رائیڈ تھی ،، جو ایک سنگل سوار ایک جالی کی سیٹ میں خود کو فکس کر کے پھر یہ ایک مضبوط تار پر تیزی سے جھولتا ہوا ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاتا تھا ۔ یہ رائیڈ مزید محفوظ بنانے کے لیۓ اس کے نیچے بھی جنگلہ لگایا گیا تھا ، یہ بہ مشکل پانچ منٹ کا آنا جانا تھا۔ میری بیٹی نشل نے دونوں بچوں کو تو رائیڈ کروا دی ،، خود جھجک گئی ،،، جبکہ مائرہ ، ٹونزوں اور نشمیہ کے چھوٹے نے رائیڈ انجواۓ کی ،،، اور یہیں حسب معمول چھوٹے چھوٹے سوئینئر ز کے سٹالز نے بھی متوجہ کیا ،،،بائیک رائیڈ کے ٹکٹ گھر یہیں تھا ۔یہ خوب صورت رائیڈ بہت چھوٹی جیپ پر کرنی ہوتی ہے ، اس کے بہت چوڑے ، اور اونچے ٹائر ،، ہر طرح کے اناڑی ڈرائیور کے لیۓ بھی اس کو چلانا دشوار نہیں ہوتا ۔ ایک جیپ پر صرف چار لوگ بیٹھنے کی اجازت تھی ، ہم چھوٹے بڑے سب 12 تھے اس لیۓ تین جیپیں ہائر کی گئیں ۔ ایک جیپ ، کو مائرہ نے ایک نشل نے اور ایک جیپ نشمیہ کے بڑے صاحب ذادے زرک نے چلائی ،،، ہمارے علاوہ تین اور بھی جیپیں تیار ہوئیں ، تب اسی کمپنی کا ایک جوان ہمیں گائیڈ کے طور پر آگے اپنئ بائیک پر چلنا شروع ہوا ،، یہ ایک طرف سے ڈیڑھ ، دو میل کی بہت پُر لطف سیر تھی ۔ سارا راستہ کچھ کچا کچھ پکا تھا ،، جیپیں ذیادہ سپیڈ ویسے بھی نہیں پکڑ رہی تھیں ۔ کہ راستہ بھی کچھ اونچائ کی طرف جا رہاتھا ۔ سڑک کے دونوں جانب گھنی جھاڑیاں ، یا درخت ، تھےکہیں کہیں کھائیاں بھی نظر آئیں ،، یہاں کئی جگہوں پر پتلی پگڈنڈیاں اوپر یا نیچے جاتی نظر آئیں ،،، لیکن اس دوران کوئی  مقامی  بندہ نظر نہیں آیا ،، شاید وہ کوئی اور راستہ آمد و رفت کے لیۓ استعمال کرتے ہوں ۔ آگے جاتا گائیڈ تیزی سے ہم سے چند منٹ پہلےآگے جاکر کھڑا ہو جاتا ،، اور اتنی ہی تیزی سے وہ سگریٹ پی لیتا اور جب سبھی جیپیں اس کی نظر میں آجاتیں ، تب بائیک سٹارٹ کر لیتا ۔ آگے چل پڑتا ۔ ایسا وہ سیاحوں کی حفاظت کے خیال سے اور یہ بھی کہ کوئ جیپ خراب ہو جاۓ تو ، فورا" دیکھا جا سکے ،،، وہ صحیح ڈیوٹی کر رہا تھا ۔ 
جہاں تک ان جیپوں کا سٹاپ اوور تھا ،، وہاں ایک کھلی جگہ پر ایک کیفے ، ایک آدھ فوٹو شوٹ کے نام سے شاپ تھی ،، جس میں بیک وقت دو تین چیزیں بکنے رکھی تھیں ، اور یہ جنرل سٹور کا کام دے رہا تھا ،،، یہاں پہنچنے والے سبھی لوگ ، سیلفیاں اور کیمرے کی دنیاؤں کو آباد کیۓ ہوۓ پوز بنا رہۓ تھے ۔ انھیں کیا معلوم ، ہزاروں سال سے پہلے بھی کچھ نا معلوم لوگوں نے ان خوبصورت نظاروں کو آنکھوں کے کیمروں سے دلوں کے البمز میں سجا لیا ، اور پھر ،،، معدوم " ہو گۓ ،،،آس پاس دور تک نگاہ جا رہی تھی ۔ دور تک گھاٹیاں اور چھوٹی سر سبز پہاڑیاں ،، صاف چمکتا آسمان ،، کائنات پر نیلا اور سبز رنگ حاوی تھا ۔ 
یوں کچھ وقت یہاں گزار کر سبھی "مسافران " واپسی کا رُخ کرتے ۔ اور گائیڈ پھر پہلے کی طرح اپنی ڈیوٹی پر آگے آگے ،، اور جیپیں اسکی نگرانی میں اسی کے پیچھے پیچھے ۔ ،،،،"قواڈ رائیڈ " جنگل" سے گزرنے کے تجربے کا ہلکا ساعکس اور دلآویزتجربہ تھا " ،لیکن ،، اُن کے لیۓ جو درخت ، جنگل اور خاموشی کو دلوں میں بساۓ ہوں ،،، اُن کے لیۓ یہ دل آویز تجربہ ہمیشہ کے لیۓ یادوں میں محفوظ وہ شعاع ہے ، جو کبھی کبھی لمحہ بھر کو چمک کر ،، اُس جنگل کے راستے کو روشن کر جاتی ہے کہ انسان اپنے اندر کو بھی روشن ہوتا دیکھ لیتا ہے ۔ کیوں کہ انسان کا اصل یہی مظاہرِ فطرت ہی تو ہیں۔
لیکن جو لوگ، شاپنگ مالز اور ریسٹورنٹس سے دوری برداشت نہیں کر سکتے ان کے لیۓ یہ تجربے ، یہ نظارے محض اک نظرِ طائرانہ ، ہوتی ہے ، دلبرانہ نہیں !!!وین سے واپسی پر "حسبِ ووٹنگ " پہلے ایک ریسٹورنٹ پہنچے ،، رات ہو چلی تھی، اس ریسٹورنٹ میں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوۓ ۔
اور پھر پہلے اپنے عارضی ٹھکانے پر پہنچے ، میَں جوجی لبنیٰ اور نشمیہ سخت تھکاوٹ سے جلدی لیٹنے چلیں گئیں ۔ لیکن انرجیٹک لوگوں نے خاموشی سے ہوٹل سے باہر کا راستہ لیا ،، یعنی میری بیٹی اور نواسی ، مائرہ اور ٹونزیں ،، اور زرک ،،، یہ نزدیکی شاپنگ سینٹر پر کچھ وقت گزار کر آئیں ، اور بعد میں اس آخری دن اکیلے چل پڑنے کو وہ مسکراہٹوں سے یاد کرتی ہیں ۔
اور ،،،، صبح ناشتہ کمرے میں نہیں ،، ہوٹل کے ریسٹورنٹ جا پہنچے ، سب سے پہلے ترکی سے جانے والے مسافروں میں انگلینڈ کی تینوں بہنیں تھیں ، مائرہ اور ٹونزیں ۔ ان کے بعد میں جوجی ، اورنشل اور اسکے بچے پنڈی ایئر پورٹ کے لیۓ اور لبنیٰ لاہور کے لیۓ الوداع ہوئیں ،،، اور اسی دن کی شام کو نشمیہ اور اسکے بچوں نے قطر جانا تھا ،،،،، اور ترکی ، یا ترکیہ کے سفر کی حد درجہ حسین یادوں کو لے کر اپنے اپنے ٹھکانوں میں واپس آکر ، زندگی کے پھر انہی لگے بندھے دن اور رات گزارنے لگتے ہیں ۔
،،، میَں جب بھی کسی سفر سے واپس پلٹتی ہوں تو مجھے کئی مہینے،، بعض دفعہ کئ سال اُس سفر کے سحر سے نکلنے میں لگتے ہیں ۔ اس سفر کی جزیات ، رہ رہ کر یاد آتی ہیں ،،، آنے والے سفر کی کوئی چاہت نہٰیں ہوتی ،،،،، اور ترکی میں تو حضرت یوشع علیہ السلام کے بغیر چھت کے مزار کی یادیں ،،، انطالیہ کا جنگل ،،، پتھریلے راستوں والے گاؤں کی چھوٹی دکانیں ،، اور حضرت "ابو ایوب انصاری رضی تعالیٰ عنہ" کے مزار کی یاد ،، جس سے ملاقات نامکمل ، ادھوری ،، اور کمزور رہی ،،، جس کا شدید افسوس ہے ۔ اپنی انہی کیفیات کو ان بے ترتیب لفظوں میں " ترتیب " دیا ہے ! گر قبول افتندز ( یہ لفظ صحیح نہیں لکھا جا رہا ) یہ جملے گھر واپس پہنچتے ہی 2 ستمبر 2017ء کو لکھے تھے !۔
" سلسلہ ہاۓ سفر "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سفر کچھ پُرانے 
یادیں گہری گھنیری
مناظر کچھ دیکھے بھالے
تجربے کچھ نۓ کچھ پرانے 
اجنبی بولیوں میں ہے سناٹا 
آہ ،،مگر سب گھاٹے کا سودا
نا معلوم منزلیں 
راستوں کے آوازے 
نامکمل منصوبے 
جلدی ہے نبٹانا
آگے ہے جانا
منتظر ہیں کچھ نفُوس
منظر ہیں نامانوس
سفر کی تھکن ہے ذادِ راہ
آہ ،، مگر سب گھاٹے کا سودا
آنکھوں میں رنگین سُرمہ
زندگانی کی کَترنیں 
خیالوں سے کاٹوں
مگر سفر ہیں کچھ نۓ 
دلچسپیوں کی شدت ہے 
مُٹھی میں ریت گھڑی
آہ ،، مگر سب گھاٹے کا سودا
آوازہ ہاۓ غیب ہے !!
سفر بخیر ، سفر بخیر ، سفر بخیر !!! ( 2 ستمبر 2017ء)
( منیرہ قریشی ،یکم ستمبر 2018ء واہ کینٹ ) ( خاتمہ بالخیر )