بدھ، 10 اپریل، 2024

" بس اک خیمے کا سوال ہے " ( فلسطینی بیٹی کے لئے )

" بس اک خیمے کا سوال ہے " ( فلسطینی بیٹی کے لئے )

" بیٹی ! تمہیں کیا چائیے ؟
کھانا چائیے ؟ یا کھلونا ؟
نہ کھانا ، نہ کھلونا ،،،،،!
مجھے بس اِک خیمہ چاہیئے !
جانے میں کتنے دنوں سے نہیں سوئی !
کھلے آسماں تلے اندھیرا ڈراتا ہے
بموں کی سیٹیاں سونے نہیں دیتیں
بے خواب آنکھیں اب نیند بھول گئی ہیں !!
مجھے صرف اک خیمہ چاہئیے ،
جو مجھے باہنوں میں لے لے گا ،،،
گود میں سلائے گا ،،
سہانے خواب دکھائے گا
مجھے کھانا اور کھلونے دلائے گا
خیمہ ،اوجھل کر دے گا
سبھی ویرانیاں
ٹوٹے گھر ، اور بین ڈالتی عورتیں
مجھے کھلونے نہیں چاہئیں
میں کس کے ساتھ کھیلوں گی؟
سب بچے جانے کہاں کھو گئے ہیں؟
یا ، سب ہی بڑے ہو گئے ہیں !
میں نیند ڈھونڈنے نکلی ہوں
میرا ریشہ ریشہ نیند مانگتا ہے
روم روم میٹھی نیند چاہتا یے
کیا، آپ نیند بھی بانٹ رہے ہیں ؟
جناب ، بس اک خیمے کا سوال ہے !!

( منیرہ قریشی 10 اپریل ، یوم عید الفطر ) 

منگل، 9 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں "(14)



" جنگل کچھ کہتے ہیں "(14)
اگر انسانی تاریخ میں انسانوں کی ہجرت کا مطالعہ کیا جائے تو ، تو جنگل اس ہجرت میں انسانوں کے ساتھی بن کر ساتھ دیتے رہے ہیں ، بلکہ جب کبھی کسی برگزیدہ ہستی نے اللہ کے حکم سے کسی ویرانے میں ڈیرہ ڈالا ، تو کسی درخت کے نیچے ٹھکانہ پکڑا ،،، اور لوگ نیکی اور سکون کی تلاش میں آتے چلے گئے ،، اور کارواں بنتا چلا گیا والا حساب ہونے لگتا ۔
راجہ سدھارتھ جِسے لوگوں نے مہاتما بدھ کا خطاب دے دیا ،600 سال قبلِ مسیح پیدا ہوا ،،، شاہی خاندان کا پروردہ ، نیپال جیسے سر سبز لیکن ایک چھوٹے سے ملک کا مالک ، اصل خوشی ،، آگاہی اور اول و آخر کی تلاش میں دنیا تیاگ دی ۔ تو کسی ویرانے میں وہ خوش قسمت درخت انجیر کا تھا جس کے نیچے بیٹھا،، جس کی چھاؤں نے اور محبت بھری شعاعوں نے راجہ سدھارتھ کو مہاتما بُدھ بنا دیا ۔۔ کہ " صفائے باطن اور محبتِ خَلق " ہی زندگی کا محاصل سمجھا دیا گیا ۔ اُسی کی تعلیمات کو لے کر اس کے شاگرد دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے اور ،، ایک زمانہ گزرا کہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب بُدھ قرار پایا ،، اس کے ماننے والوں میں ان کی نمایاں صفت " عاجزی" سمجھی جاتی ہے ، جسے مختلف خطہء ارض کے انسانوں نے اپنے اپنے انداز میں جذب کیا ،،،
"مہاتما بُدھ"کی تعلیمات سے متاثر ایک (hwanung ) ہیوانگ نام کا شخص کوریا کی سر زمین پہنچا اور کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک غیر آباد جگہ "صندل " کے درخت کے نیچے بسیرا کیا ۔ اور وہیں ایک عبادت گاہ بنائی ،،، اور جب کچھ مزید لوگ وہیں آ کر آباد ہونے لگے تو اُس نے اس نئے شہر کو
"سنسی "SINSI" کا نام دیا یعنی " خدا کا شہر " ،،، گویا ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنے تصور کو درخت سے جوڑے رکھا ،،، اور اپنے جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا جلوہ ،،، سر سبز درخت کی صورت میں دکھایا جو ایک شعلہ نما روشنی میں ڈوبا ہوا تھا ۔ آہ میرا رب کتنا حیران کن ہے کہ کہیں نہیں سما سکتا ، سوائے مومن کے دل میں ۔۔ وہ خود جمال ہے تو اس نے جمیل چیزوں سے اپنے بندوں کے لئے کائنات کو حسین ترین چیزوں سے سجا دیا ،،، اور اس فہرست میں آسمان سورج چاند تارے تو ہیں ہی ،،، زمین کے تارے درخت بنا دئیے ،، جو دلوں اور مزاجوں کو ٹھنڈک سے مالا مال کرتے رہے اور کرتے چلے جا رہے ہیں ،،، سراپا محبت وہ خود ،، اور سراپا محبت اس کی کائنات ! تشکر ، تشکر ، تشکر !! اے کُن فیکون کے مالک !!
اسی لئے تو میں سمجھتی ہوں درخت شاہد ہوتے ہیں ،،، الہام کے ، الہامی لمحات کے ،،، ہر خیر و شَر کی مجالس کے جو ان کے نیچے منعقد کی جاتی ہیں ۔ ، ہر عہد اور بد عہدی کے ۔۔۔ اور جب وہ سُن سکتے ہیں ، تو کبھی خالق نے زبان دے ڈالی تو بول بھی پڑیں گے ۔ ۔ پھر رازوں اور گواہیوں کا وہ دروازہ کھل سکتا ہے ،،، جو قیامت سے پہلے قیامت برپا ہونے کا سماں ہو سکتا ہے ۔ لیکن کائنات کی سب سے ذہین ترین مخلوق" انسان " سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی ،،، سمجھنا نہیں چاہتا ۔ کہ اپنی ذلت کے سامان کا ابھی سے کچھ احوال درست کر لوں ۔

( منیرہ قریشی 9 اپریل 2024ء واہ کینٹ) 

اتوار، 7 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں"( رپور تاژ13 )

" جنگل کچھ کہتے ہیں"( رپور تاژ13)
" انسانی فطرت کو خالق نے اپنی فطرت کے رنگ دے کر بھیجا ہے ۔ لیکن جب یہ بتا دیا گیا ،، کہ منفی طاقتوں کا بھی سامنا کرنا ہے ۔ اب یہ اور بات کہ تم دنیا میں منفی طاقتوں کو پانچ فیصد دیکھو گے ، لیکن کامیابی کی سطح ان طاقتوں کی زیادہ ، جبکہ مثبت سوچ والے پچانوے فیصد ہو کر بھی بے بسی ، یا کم علمی کی دلدل میں پھنسے ہوں گے ،،،"
یہ سارے اندازے ایک ادبی محفل کے ایک ذہین شخص کی طرف سے تھے ۔ اور ،، میں ذہنی طور پر اُس جگہ پہنچ چکی تھی ۔۔۔ جہاں منفی طاقتوں کا شکار بے بس و مظلوم بے گناہ روحیں صرف ایک ہی پکار کر رہی ہیں ،، " انصاف دو ، انصاف چاہیے انصاف ! ہماری روحوں کو کب سکون ملے گا ؟؟
،،ریمز بوٹم ،( Rams Bottom)پہاڑی ( ایک برطانوی قصبہ )کی چوٹی پر ایک اونچا ٹاور بنا ہوا ہے۔ اور اُس چوٹی سے لے کر میل بھر کے دائرے میں کوئی درخت نہ تھا ،، البتہ زمین کے قریب آتے آتے درختوں کا گھنّا دائرہ تھا ،،، جس کے بعد ہی زمینی سطح تک اِکا دُکا خوبصورت گھر تھے ۔ بتایا گیا ، کہ یہ وہ ٹاور ہے جہاں ،، اُن خواتین و حضرات کو جادوگری کے الزام کے بعد زندہ جلایا جاتا تھا ،، جن پر یہ الزام ثابت ہو جاتا تھا ،،، اور اوپر کے سبھی درخت کاٹ دئیے گئے ، تاکہ دور نیچے کھڑے لوگ یہ کربناک ، دل دوز سزا دیکھیں ۔ اور آج کئی عشروں کے بعد بھی اس چوٹی پر کوئی گھاس تک نہیں اُگتی ،،، جانے کیوں !!
پہاڑی کے گھیراؤ کے گھنے درخت ہمارے گروپ کو دیکھ کر ٹھٹھک سے گئے ۔ اُن دیہاتی خواتین کی طرح ، جو شہری خواتین کو دیکھ کر ایک دوسرے کے پیچھے چھپتی ہیں ،، کچھ منٹوں کے بعد وہ مطمئن ہو گئے تو اس کے بعد جیسے سبھی درختوں نے بیک وقت بولنا شروع کر دیا ۔
" تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو ؟ جلدی چلی جاؤ یہاں سے ،،، تمہیں بتایا نہیں گیا ، یہ پہاڑی آسیب زدہ ہے ۔ اس پر بنے مینار کو دیکھا ہے ، جہاں بےگناہ عورتوں سے ذاتی دشمنیاں نکالی جاتیں تاکہ انھیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے ، جھوٹی گواہیاں اکٹھی کی جاتیں ۔ اور انہی میں کوئی جوان اور کچھ عمر رسیدہ عورتوں کو جس دن جلایا جاتا تو ہمارے اِس ذخیرے سے پرے لوگ یوں کھڑے ہو جاتے جیسے دلچسپ سٹیج ڈرامہ دکھایا جائے گا ،،، آہ ! انسان انسانیت کے درجے سے کتنا گِر جاتے تھے ،، سزا دینے والے بھی اور دیکھنے والے بھی ،،،اِن دلخراش مناظرکے کرب کو اگر کوئی محسوس کر رہا ہوتا تو یہی ہم درخت ہوتے ،،، آہ ہمارے سینے چھلنی ہو جاتے ،، بےگناہوں کی چیخوں سے زمین کانپ رہی ہوتی ،،،اور ہم لرز رہے ہوتے تھے ۔۔۔ مزید گناہ یہ کہ کئی دفعہ ان بےگناہوں کے بچوں کو بھی جلایا جاتا !! چلو سزا دینی تھی تو ، یکدم گلوٹین کر دیتے ، یا پھانسی چڑھا دیتے ،، ایسے تڑپا ترُپا کر مارنا ؟؟؟ اور پھر لوگوں کے سامنے ان انسانوں کا تماشا لگایا جانا ،، جن پر لگے الزام مکمل سچائی پر مبنی بھی نہ ہوتے،،، یہ سب وہ نا انصافیاں تھیں کہ آج تک سرِ شام ، اُن سب بےگناہ روحوں کی چیخوں سے یہ علاقہ بین کرنے لگتا ہے ،، وہ روحیں ، آج بھی انصاف مانگتی ہیں ۔ وہ اپنا بدلہ لینے کے لئے چیختی چِلاتی چوٹی سے اترتی ہیں تو ہماری شاخیں انھیں اپنی باہنوں میں سمیٹ لیتی ہیں ، تسلی دیتی ہیں ،، وہ اُن ظالم انسانوں کی نسلوں سے انتقام لینا چاہتی ہیں ، پہاڑی کے دامن میں رہائش پذیرچاہے کسی بھی خاندان سے ہوں ،،، ہم انھیں ،، اپنے سر سبز پؔروں کی چھاؤں تلے گلے لگا لیتے ہیں ۔ اُن کی سسکیاں ، اُن کا دکھ ، از سرِ نو روز سنتے ہیں !! جانے 700 سال سے یا 900 سال سے ؟ لیکن اُن پر لگے جھوٹے الزام ،، اور اگر یہ الزام ایک فیصد بھی درست تھے تب بھی کسی کو یہ حق نہیں تھا کہ اتنی ایذا رسانی دی جائے "۔
بوڑھے بزرگ درخت جس کی شاخیں اب مزید جڑوں کے ساتھ زمین میں پیوست تھیں ، اس نے پہلی دفعہ ہمیں اہمیت دی " کتنی عجیب بات ہے کہ جرمنی ، برطانیہ ، بیلجیئم ، اور فرانس اور چند دوسرے ممالک میں جادو گری کے الزام میں جلائے جانے والوں میں 86 فیصد عورتیں تھیں ۔۔ اور بہ مشکل 14 فی صد مرد ۔۔۔؟ حیرت صد حیرت ! مرد ہی منصف ہوتے اور اپنی صنف کو بچا لے جاتے ،،، اور عورت، جو جسمانی طور پر کمزور ، بچوں اور خاندان کی محبت میں غرق ،،، قابلِ گردن زدنی ؟؟ حالانکہ خالق کائنات نے تو عورت اور مرد کو ذہنی فہم و فراست دینے میں کوئی کمی تو نہیں کی ۔ عورت رشوت خور ، فرعون صفت مردار گِدھوں کے سامنے چارہ بننے کو تیار نہ ہوتی تو اسے جادو گرنی قرار دے کر عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ۔ اُنہی روحوں کی بےگناہی اور منصفوں کی نا انصافیوں کے سبب اس پہاڑی پر سبزے نے اُگنے سے انکار کر دیا ۔ اب ہم ہی اُن آگ میں تپتی روحوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں ۔"
بہت جرات کر کے پہاڑی کی چوٹی پر بنے مینار کی طرف چند قدم بڑھائے لیکن ، مینار کے در و دیوار نے اپنی پیشانی سے پشیمانی اور دکھ کے قطرے آنسوؤں کی صورت گرائے ، اور ہمارے قدم رُک گئے ۔
جہاں دیدہ بزرگ درخت نے کہا " دیکھا ، کہا تھا نا ،، اُس طرف نہ جانا ،، جہاں بے انصافی کے قتل ہوئے ہوں ، وہاں کا ذرہ ذرہ ، اُس نا انصافی کا گواہ بن جاتا ہے ،، اور ایسی جگہ انسانوں کو خوش آمدید نہیں کہا جاسکتا "
واپسی کے سفر میں سبھی خاموش تھے ۔۔ اُن سینکڑوں سال پہلے کئے گئے ظالمانہ قتل کے برعکس ،، آج کے دور کی عورت کی آسودگی محسوس ہی نہیں ہو رہی تھی ،، بزرگ درخت کی بات دل میں کھُب گئی تھی ، قربانی اور ناجائز الزمات لگا کر عورت ہی کو نشانہ بنایا جاتا رہا ۔کیوں ؟؟ کبھی "اِنکا تہذیب" میں عورت کو سنوار کر مدہوشی میں زندہ ہی کسی غار میں دفن کر دیا جانا ،،، کبھی دریائے نیل کو خوش کرنے کے لئے "عورت " کو پیش کیا جاتا رہا۔ حتٰی کہ یونانی خود کو بہت ترقی یافتہ تہذیب گردانتے تھے ۔ لیکن کسی جگہ اگر قربانی دینی ہے تو 'عورت ' اور پھر یہ کوشش بھی کہ وہ جوان ہو اورخوبصورت بھی !!۔۔اور وہ اپنی گلابی جوانی کے سنہرے دنوں سمیت اگلی دنیا میں میں داخل ہو جاتی ۔ اور ہمیشہ کے لئے انصاف کی منتظر ، یومِ محشر کا انتظار کرتی رہتی ،
ایسی جگہوں سے آکر ،،دل کی اداسی تو بجا ہی ہے ،،، لیکن آج کی دنیا کی چکا چوند، روشن قمقموں ، اور نیون سائن سے سجے بڑے بڑے بِل بورڈ ،،، چڑیوں کی طرح چہکتی آزاد خواتین کو دیکھ کر اِک گونا اطمینان ہوا ،، کم از کم آج صورتِ حال بدل چکی ہے ۔ یہ اور بات کہ دماغ نے فوری سوال کیا ،،
اچھا !! کیسے ؟ دیکھا جائے تو عورت کل سب کے سامنے الزام لگا کر سزاوار تھی ،،، آج اندرون گھر ،، سنگ باری کی جاتی ہے ۔ گویا بباطن روز مرتی اور روز جیتی ہے ۔۔ دنیا میں اس سنگ باری کا تناسب آج بھی وہی کہ عورت 86 فیصد اور مرد 14 فی صد کی ٹرافی سنبھالے بیٹھا ہے ۔
(منیرہ قریشی 8 اپریل 2024ء واہ کینٹ )

ریمز بوٹم کی پہاڑی اور اس پر بنا مینار۔ اور اس کے دامن کے درخت ۔۔۔جو انسانوں کی انسانیت سوزی کا گواہ ہے۔


 

جمعہ، 5 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ ۔12)


" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ ۔12)
سینکڑوں برس بوڑھے ملائیشین درختوں نے چپکے سے کہا ،،،
" تمہاری سراہتی نظروں کا شکریہ ، لیکن اب ہم کسی تعریف ، توصیف ، یا تبصرے سے ماوراء ہو چکے ہیں ۔ ہمیں سراہنے والوں کا بھی شکریہ ،، اور نظر انداز کرنے والوں کا بھی شکریہ ،،،، کیوں کہ وقت وہ بُردباری دے جاتا ہے کی نفرت اور محبت کے رویوں کے اثرات ,لینا دینا بے معنی ہو جاتے ہیں ۔ شاید فنا فی اللہ کی منزل کے قُرب کا ادراک ہو جاتا ہے ،،، یہ احساس کتنا لطیف کئے دیتا ہے ، تم کیا جانو ، تم کیا جانو !!!!"
تبھی مجھے انہی کے خدوخال ، خوب گھنے سائے دار ، خوب موٹے تنوں کے عمر رسیدہ درختوں کا بہت چھوٹا سا خاندان یاد آگیا ،،، جو سوات ریسٹ ہاؤس کے عقبی اور اس کے شمالی جانب پھیلا ہوا تھا ۔ سوات کے دل نشیں نظاروں نے طبیعت میں کمال نغمگی سی بھر دی تھی ،، ریسٹ ہاؤس میں کچھ دیر ٹھہرنے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ لیکن اس قیام نے طبیعت کی بشاشت کو یکدم معدوم کر دیا ۔ اور چند گھنٹے میں اُس کے کمروں نے تاریخ
کے چند اہم صفحات کو جلدی جلدی پڑھ ڈالا ۔۔۔ کسی دوسرے گروپ ساتھی کو کیا بتاتی ،، یہ کیا سُن رہی ہوں ۔۔ دل کی اس کیفیت کو بہلانے کے لئے ،، اسکے عقبی لان کی طرف نکل گئی ،،، جہاں وہی عمر رسیدہ خاندان تفکر اور گیان میں ڈوبا کھڑا تھا جو مجھے اپنی طرف متوجہ کر ہی لیتا ہے ۔ اپنی حساسیت کے سبب فوری، معلوم ہوگیا ،اداسی کا یہاں گھنّا بسیرا ہے ۔۔۔ لیکن اب آنا ہوا تو ٹھہرنا ضروری تھا ۔ تب اُن کے "گُرو " نے خوبصورت غلافی آنکھیں چَھپکیں !! " یہاں کیوں آئیں ،؟ ہماری اداسی کا تخمینہ لگانے ؟؟ ہمارے ٹھنڈے ، میٹھے سائیوں تلے ،،، تمہارے بد مست بھینسوں جیسے ناپاک لوگوں نے ، اپنے ضمیر یہیں دریائے سوات میں ڈبو دئیے تھے ۔ اور وطن کے پاک لوگوں کی تقدیر خریدنے، بیچنے کے سودے کے بعد ،،، پاک لوگوں میں جا کر معزز بن بیٹھے ،، تمہیں کیوں یاد نہیں رہتا کہ تمہیں بار بار ڈستے لوگ ،،، ایسی پُر بہار جنتوں میں آکر شیطانی کھیل کھیلتے ہیں ،،، اور ہم یہ گھناؤنا کھیل دیکھتے ہیں ،،، اور ہم ہی ان کے جرائم کے گواہ بھی ہیں ۔ ہم درخت ساکت و ساکن سہی ،، لیکن ہمارا پتہّ پتہّ اس کے سائے تلے ہونے والے مکالموں اور معاہدوں کی تصویر کشی کر رہا ہوتا ہے ، ریکارڈ جمع ہو رہا ہوتا ہے،، یہ سارے بوجھ ہم اپنے سینوں پر لادے کس کرب سے گزرتے ہیں ،،، تم کیا جانو ، تم کیا جانو !!!""
اگر انسان لمحے بھر کو بھی سوچتا ۔۔ کہ یہ جو میں غلاظت بھرا کردار کر رہا ہوں ،،،تو کتنے عرصے کے لئے ؟؟ دائمی زندگی میں کیا پیش کرو گے ، ان کرتوتوں کا کیا جواز دو گے ؟؟؟
جب بھی دل اکلاپے کا شکار ہونے لگتا ، فینس کے باہر کا "چھدرا جنگل" پناہ گاہ کا احساس دیتا ،، کچھ باتیں کچھ یادیں بانٹیں جاتیں ۔ اور جیسے ہم دو ہم نوا ،،، شانت ہو جاتے ۔
سوات کے عمر رسیدہ درخت کی یاد نے اور اس کی باتوں نے دل پر عجب بوجھ ڈال دیا تھا ،،، اس کے برعکس انسانی تاریخ نے تو کسی خطے کو آباد کرنے کا جب بھی سوچا تو مثبت سوچا ! اس کے پیشِ نظر یہ تین اہم عوامل مدِ نظر رہے ۔، تاکہ وہ اس کی زندگی ، بندگی ، نغمگی ، سے معمور طعام و قیامِ دنیا کے لئے آسانی فراہم کرتا رہے ۔
اول ، پانی کا کنارہ ہو
دوم، درختوں کی آبیاری بہ آسانی ہو سکے
سوم ، کسی برگزیدہ ہستی کا قیام ہو ، یا ، ہو چکا ہو
اور یہاں سوات کے یہ سر سبز درخت تھے ہی دریائے سوات کے نیلے اور سبز پانی کنارے ۔۔۔ انسانی آبادی کے لئے عین جنت ، ارد گرد پھلوں کے درختوں نے اپنا کام الگ دیانت داری سے سنبھال رکھا تھا ،، اور ہے ! مگر
؎ دل و نظر بھی اِسی آب و گُل کے ہیں اعجاز
نہیں ، تو حضرتِ انساں کی انتہا کیا ہے ؟ (علامہ اقبال ر ح )
( منیرہ قریشی ، 6 اپریل 2024ء واہ کینٹ )

سلطان صلاح الدین عبدالعزیز شاہ مسجد۔( شاہ عالم ملائیشیا ) 


جمعرات، 4 اپریل، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔ 11)






" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔ 11)
کافی دن گزر چکے تھے ، کہ فینس کے جنگل سے ملنا ملانا ہی نہ ہو سکا ۔ لندن کے شاپنگ مال کے چھت کے درختوں کی اداسی بار بار مغموم کر رہی تھی ،، یہی غم بانٹنے کے لئے آج فینس کے باہر ، اُگے اس آزاد فضا کے لہلہاتے درختوں سے السلامُ علیکم کہا " تو وہ جیسے کھِل اُٹھے ۔۔ اُن کی مسکراتی آنکھوں نے واضح پیغام دیا ،،، " کیوں بھئی کہاں ؟ ،،، اتنا تو پتہ تھا یہیں کہیں سیر ہو رہی ہے ،،، لیکن یہ چند دن کی غیر حاضری ہمیں اچھی نہیں لگی !! " ان کا مجھے اتنی اہمیت دینا بہت اچھا لگا ۔۔۔وہ گاؤں کے سادہ اور خالص لوگوں کی طرح کے جذبات کا اظہار کرتا جنگل تھا ۔۔ کیوں کہ اسے کسی مصنوعی پن سے سابقہ نہیں پڑا تھا ۔ اور جب میں نے اسے بتایا کہ چھت پر اُگائے گئے درختوں کی جڑیں ، کتنے آپریشنز کے بعد چھوٹی قد میں رہنے کے قابل بنا دی جاتی ہیں ۔۔یہ سُن کر اِن سب چھوٹے بڑے درختوں نے جھرجُھری لی ،، اپنے اوپر اٹکے شبنم کے قطروں سے مجھے بھگو دیا ۔ " ہاں ہم ، اُن کے غم کو محسوس کر سکتے ہیں " ،،، یہ کہہ کر جنگل یکدم خاموش ہو گیا ،، جیسے اشارہ دے دیا ، کہ اب تم جاؤ ہم آپس میں اُن درختوں کے غم بانٹیں گے ۔
میرے لئے بھی اُن پابندِ سلاسل درختوں کو بھولنا ممکن نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔ شام کے نیم اندھیرے میں پچھلے برآمدے میں تا دیر بیٹھی اِس مخلص جنگل کو دیکھتی رہی جو اپنے ہم نفسوں کے غم میں ابھی تک خاموش تھا ۔،،، آج لومڑیوں کا کچھ کھانا فینس کے اندر لان میں ہی رکھ دیاتھا ، کہ یکدم لان کی کچھ جھاڑیوں مٰیں حرکت محسوس ہوئی اور واقعی ایک خوب گُچھے دار دُم والی لومڑی نہایت محتاط انداز سے کھانے کی طرف آئی ، اور وہیں کھڑے کھڑے کھانے لگی ۔۔۔ فطرت کے ساتھ جنگلی حیات کی موجودگی کس قدر پُر سکون نظارہ ہوتا ہے ،، کہ اُس دن کی اداسی جیسے ہَوا ہو گئی ۔ ۔ یوں لگا جیسے لان سے باہر اُگے ان درختوں نے مجھے خوش کرنے کے لئے اِس لومڑی کے حساس نتھنوں تک کھانے کی خوشبو پہنچانے کی ہوا کے کسی جھونکے کو درخواست کی ہو گی ،،، اور یوں سامنے کے منظر نے میرے مضمحل اعصاب کو پُرسکون کر دیا ۔
جانے لوگ درختوں کی زبان اور رویے کو سمجھنا کیوں اتنا مشکل سمجھتے ہیں ! ۔ جب کہ انہی کی صحبت انسان کو بہت سے تفکرات سے دور کر دیتی ہے ۔
ملائیشیا کی سلطان صلاح الدین عبدالعزیز شاہ مسجد ،، اُس چاشت کے وقت بالکل اکیلی تھی ۔ ،، حالانکہ یہ کوالالمپور کی ابڑی مساجد میں سے ہے ۔ خیال تھا کہ اندر کچھ نا کچھ تو بِھیڑ ہو گی ۔ لیکن دو " مَلے جوڑوں" کے علاوہ کوئی نہ تھا ،،، خاموش مسجد کی ایک الگ ہی شان ہوتی ہے ۔ اور اُس دن اس ملائیشین مسجد کے پُر سکون لمحات نے بہت متاثر کیا ،، دو نفل ادا کئے ،، اور پھر اس کے اندرونی دالانوں ، مردانہ اور زنانہ حصوں میں گھومتے ہوئے ،، اس کے درو دیوار کے گہرے نیلے ، ہلکے نیلے اور فیروزی رنگ کے ساتھ کہیں کہیں سیاہ اور سفید لائنوں کے دل نشیں امتزاج کو دل کی آنکھوں سے ستائش بھری نظروں سے دیکھتے دیکھتے ،،، اس کے پچھلے لان میں پہنچ گئی ، برآمدے سے اترتے ہی گہری خاموشی نے گھیر لیا ،،، آہ !! یہی گہری خاموشی اُس وقت فوراً محسوس ہو جاتی ہے جب آپ کسی با رعب ، بُرد بار ،، ہستی کے سامنے پہنچ جائیں ۔۔ اور یہاں فاصلے سے قدرِ دور دور وہ درخت کھڑے تھے ،، جن کے بھاری ، خوب گھیرے دار تنوں نے سبز خلعت پہن رکھی تھی ۔ وہ بلند و بالا اور خوب گھنیرے بھی تھے ۔ وہ کئی سو سال کے عمر رسیدہ درخت تھے ، جن کا مختصر خاندان کچھ کم اور کچھ زیادہ گھیر کے تنوں کے ساتھ خاموشی ، تمکنت اور تفکر میں ڈوبا کھڑا تھا ۔ میرا دل اُن کے احترام ، اور عقیدت سے سرشار سا ہو گیا ۔ ہاں میں جانتی ہوں ،،، انھوں نے شاہوں کے جلال کو دیکھا ، اور تاریخ کے کئی صفحات کو اپنے تنّوں پر رقم کر ڈالا ہے ۔ یہ تحریر انسانی انگلیوں کے پَوروں کے دائروں کی طرح خاص طرزِ تحریر ہے ۔۔ شاید اسی لئے سبز پتّوں کی خلعت اوڑھ لی تھی تاکہ تاریخ محفوظ ہو جائے ۔ آہ ،،، پیارے درختو ! تم جہاں کے بھی ہو تمہارا شکریہ ،، کہ انسان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا ، کبھی اسے ٹہنیوں میں چھُپا ،، کبھی تنّے شق ہو گئے ، اور ان میں برگزیدہ ہستیوں کو چھُپا لیا ،،، کبھی پھل دیے تو کبھی پھول ،، اور سایہ تو بہر طور چند ٹہنیوں سے بھی آراستہ کر ڈالا ۔۔ کہ انسان کا جنم جنم کا ساتھ ، پانی ، مٹی ، اور پھر درخت کا رہا ۔۔۔ !! کیسا دلی رشتہ ہے کہ جہاں بھی تم ہوتے ہو ،،، دل کا سکون ، آس پاس ہی رہتا ہے ۔ اور کیسی عجیب بات کہ جہاں اللہ نے اپنی جنت کا ذکر کیا وہیں ان کے درختوں کا بھی ذکر کیا ،، وہی درخت یا پودا جس کے پھل کو کھانے سے منع کیا ،،، وہی درخت جن کے پتّوں سے کائنات کے پہلے دو انسانوں نے خود کو ڈھانپا ،،، وہی درخت جس کے سائے تلے مچھلی والے کے درد کا درماں کیا گیا ،،، درخت ، پتےّ ، ٹہنیاں ،،، اور انہی سے فائدے اٹھاتی انسانی اور حیوانی حیات!! تو ہم کیوں نا ان کی سرگوشیاں سنیں ؟ !!

( منیرہ قریشی ، 5 اپریل 2024ء واہ کینٹ ) 

پیر، 1 اپریل، 2024

جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ10)


جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ10)
جب ہم کسی ایسے ماحول میں رہ رہے ہوں ،، جہاں قدرت اپنی فیاضی دکھانے میں کسی بُخل سے کام نہ لے تو دل سے تو جیسے موت کا خوف بھی دُور ہو جاتا ہے ۔
جنگلوں نے اپنی محبت میں ایسا جکڑا ہوا تھا کہ کبھی شہروں کی چکاچوند ، اُن کی آرائش و زیبائش نے اتنا متاثر ہی نہ کیا کہ ہائے ہائے کرتے رہ جائیں ۔۔۔ لیکن وہ لمحات جب بھی درختوں کی معیت میں گزرے جو بُدھ مت کی گیان میں مست مورتی کی طرح کے ہوں تو ،،، دل پر ان کی محبت کے معجزے اترتے محسوس ہوتے ہیں ۔ جانے کب لیکن اُس خوبصورت جنگل نے دل میں تصویر بنا ڈالی ،،، کہ دل سے کبھی یاد محو نہ ہو سکی ۔۔۔ اُس دن ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی ،،، دُعا کی قبولیت کے لمحے بھی شاید ایسے ہی ہوتے ہوں گے کہ ایک ایسے قدرتی جنگل کے کنارے پہنچنا ہوا ،، جہاں ایک طرف کھیت تھے اور جانوروں کا باڑہ ،، دوسری طرف بتدریج اُونچا ہوتا جنگل ،، اور ایک قوس کے شکل کا پُل جس کے نیچے پانی مدھم مدھم بہہ رہا تھا ،، پھوار نے ماحول کو دھندلا دیا تھا ،،، اس تصویر میں عجب پُراسراریت شامل تھی ،،، یہ جگہ اکا دکا انسانی موجودگی سے آشنا تھی ۔ محسوس ہوا میں صدیوں سے یہیں کی رہائشی ہوں ،،، اور چند لفظ ان تنہائی اور کائی زدہ درختوں کے لئے تخلیق ہو گئے جن کو کچھ کہنے سننے والا شاید ہی ملتا ہو !
" بیک اَپ کے ایک جنگل کنارے "
شام کے دھندلکے میں
اکتوبر کی خاموش جھڑی میں
ایستادہ جنگل ، جیسے بوڑھا فوجی
اپنی کہانیاں سنانے کو بے قرار ہو
اور سننے والا کوئی نہ ہو !
دُکھ کچھ کہنے کا ،سننے کا ، چُپ رہنے کا
دکھ ،، بے نیاز وقت کی ٹِک ٹِک کا
بقا کا عجیب دکھ
فنا کا بے آواز دکھ
نظاروں کو سراہتی آنکھیں اندھیروں میں اُتر جاتی ہیں
ایستادہ جنگل ، لبوں پر لفظ سجائے کھڑے رہ جاتے ہیں
اس نثری نظم کو لکھ کر جیسے اس جنگل کی عبودیت کا احساس کر لیا تھااور میں شانت ہو گئی تھی ،،، شاید "مِستی" misty ماحول خود بھی سِحر کا استعارہ ہوتا ہے ۔ کہ دل و دماغ آج بھی اس منظر کو بھُلا نہیں پائے ۔ دراصل نیچر ،،، یا فطرت جب تک فطری رنگ ڈھنگ میں ہو تو ہی سِحر زدہ ہوتی ہے ،،، غیر فطری ، مصنوعی انداز وہ محبت نہیں دے پاتا کہ اسے سراہا جائے ۔
ایسا ہی تجربہ جب ایک بڑے شہر کے بہت بڑے شاپنگ مال کے چھَت پر انسانی ہاتھوں سے بنے جنگل سے ملنا ہوا،،، داخلی دروازے پر بانس کے چھوٹے قد و قامت والے درخت پہرے داروں کی طرح قطار میں کھڑے نظر آئے ۔ ہماری حیرت کی نظر اُن پر پڑی تو جیسے وہ بھانپ گئے کہ بانس کے درخت اور وہ بھی کوتاہ قامت !! ،،، اور ساتھ ہی اُن کی بڑبڑاہٹ سنائی دی " تمہیں یہاں نہیں آنا چائیے تھا ،،، یہاں کی چیختی چلِاتی ٹریفک اور جگمگاتی اشتہاری دنیا ،،، اور کہاں جنگل کی کھلی فضا ، اور ہمارے اونچے لمبے گھنے ذخیرے ،،، اور کہاں یہ ہم ،، اور ہمارے بے توقیر سے حُلیئے ،، آہ انسان بھی کیا مخلوق ہے ، یا تو فطرت کو بھُولتا ہی نہیں اور ہر طرح اسے بچانے میں کوشاں ،،، اور کہاں یہ مادی جنگل ،، جو چھت پر بنا کر انسان خود کو مطمئن کر رہا ہے ۔ کہ میں ' حُبِ فطرت' ہوں ،،، ذرا چکر لگاؤ تب تمہارے محسوسات جو ہوئے سَو ہوئے ،، لیکن ہماری اداسی کا سبب جان جاؤ گی"
چند قدم کے بعد ہی انسانی کمالات نظر آنے لگے ،،، چھوٹے قد کی جھاڑیاں، چھوٹے قامت کے سدا بہار درخت ،،، ان درختوں تلے چھوٹے سائز کے بنچ ،، اور تو اور نیچی پرواز کی عادی ننھی چڑیاں ،، اور انھیں چند گز اوپر اُڑنے والے توانا پرندوں سے بچانے کے لئے کہیں سفید اور کہیں سبز کپڑے کی مضبوظ جالی ، خوبصورت چھت۔۔۔اگرچہ کچھ پودے اور جھاڑیاں جاذبِ نظر تھیں ،،، لیکن یہ وہ جنگل تھا جو انسانوں کو خوشی دینے کے لئے بنایا گیا تھا ۔ حیرت انگیز طور پر خود جنگل انسانوں سے بیزار نظر آیا ،، یہ سارا رقبہ دو ڈھائی کنال تک کا تھا ۔ لیکن ہر پودا ، ہر پتّہ ہمیں یوں دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو ،،، " دیکھو دیکھو ہم انسانوں کے ہاتھوں کی تخلیق ہیں ۔ ہم فطری اور غیر فطری دو اجزاء کے ملاپ سے بنائے گئے ہیں ، ہم وہ پودے ہیں جنھیں " ٹرانس جینڈر " کہا جا سکتا ہے ۔ ہم انسان کی طرف سے کھانے ، پینے پر انحصار کرتے ہیں ، ورنہ ہم دنوں میں مُرجھا جائیں اور موت سے ہمکنار ہو جائیں ،،، ہمارا رویہ تمہیں خاموش اور احساسِ محرومی والا لگا ہو گا ؟؟؟۔۔۔۔ اس لئے کہ آزاد فضا کے جنگل ،، چرند ، پرند جس طرح وقار دکھاتے ہیں ، وہ پنجروں کی محدود دنیا میں کہاں دِکھے گا !! غور سے دیکھو ،، لیکن ترس کرتی نظروں سے مت دیکھنا ، ہم تو اپنی اداسیوں کے بُکل مارے ،، تم انسانوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اپنے خالق کی بنی چیزوں کو پہلے تباہ کرتے اور پھر انھیں خود تخلیق کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں ۔ بیشک آؤ ! لیکن ہم تمہارے اعزاز میں جھوم نہیں سکتے ،، کہ اس مصنوعی طرزِ زندگی میں ہم جُھومنا بھُول چکے ہیں ۔"
ہم واپسی پر چور نظروں سے جلدی سے داخلی دروازے کی طرف چل پڑٰیں ، کہ بانس کے کوۃ قامت درخت کوئی ایسا سوال نہ کر بیٹھٰیں جن کا ہمارے پاس کوئی جواب نہ ہو !!

( منیرہ قریشی 2 اپریل 2024ء واہ کینٹ ) 

ہفتہ، 30 مارچ، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( رپور تاژ۔9)

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( رپور تاژ۔9)
مانچسٹر کے نواح کے اس نا معلوم جنگل کی خوشبو کے چھڑکاؤ نے دل موہ لیا تھا ۔۔ اُس نے گہرائی میں اُگے رنگین جنگلی پھولوں کے تختوں سے ہوا کے جھونکے کو بھیج کر خوشبو کشید کر کے ہم پر جو مسحور کن عطر بیز سپرے کیا تھا ،، وہ احساسِ تفاخر جا ہی نہیں رہا تھا ۔ احساس ہوا ،کہ درخت اپنے چاہنے والوں سے کیسی فیاضی سے اظہارِ محبت کرتے ہیں ۔ اور ہم انھیں ایک بے جان چیز سمجھ کر بے اعتنائی سے گزر جاتے ہیں ۔
قدرت کے خالص نظاروں میں صحرا ، جنگل ، ویرانے میں سبزہ ،، پانی ،، درخت اور جنگلی حیات وہ مندرجات ہوتے ہیں کہ انسان کو زندگی سے عجب دلرُبا پیار ہو جاتا ہے ۔ اور اب کئی دن کے بعد بھی " ایش ورتھ " کے جنگل کی خوشبو دل و دماغ میں بس گئی تھی ۔ چند ہفتے مزید گزرے کہ پاک وطن کی مشہور و معروف ادیبہ اور کامیاب ڈرامہ نگار ،، محترمہ فاطمہ ثریا بجیا " کا ایک انٹرویو دیکھنے کو ملا ،، جس میں وہ ریاست میسور کی سیر کا کچھ احوال بتا رہی تھیں ،، کہ " جہاں ہم نے بہت سے اہم تاریخی مقامات دیکھے ،ٹیپو سلطان کے خوبصورت، محلات ، جائے شہادت اور، میوزیم دیکھا ،، لیکن آنے سے ایک دن پہلے ہمارے گائیڈ نے پوچھا " کیا آپ صندل کے جنگل کا مشاہدہ کرنا چاہییں گی، جو یہاں کی وجۂ شہرت ہے " ،،، میں نے کہا " کیوں نہیں ،، اور ذہن نے ایک دم صندل کی خوش کن خوشبو کو جیسے قریب ہی محسوس کر لیا ہو " ،،، اگلے دن گائیڈ کی معیت میں صندل کے جنگل میں پہنچے ،،، یہ خوب گھنّا جنگل تھا ،،، لیکن یہاں خوشبو ندارد ،، یہ کیا ؟ وہیں جنگل کے دو رکھوالے بیٹھے تھے ، انہی سے پوچھا ،، یہ تو صندل کا جنگل ہے ، تو خوشبو کہاں ہے ؟ انھوں نے کہا ، ماں جی آپ کو نہیں معلوم "" صندل کا درخت جب تک زندہ ہے ، تو چھاؤں دیتا ہے ، مر گیا تو خوشبو دینے لگتا ہے "" یہ درخت نہیں یہ تو ماں ہے ،، جو زندہ ہے تو چھاؤں دیتا ہے ، مَر گیا تو خوشبو چھوڑ جاتا ہے ""
یہ انٹرویو اعلیٰ سوچ ، بہترین الفاظ کی عکاسی تھا ،،
تب یہ خیال آیا ، انٹرویو کے یہ الفاظ درختوں کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے ۔ اور دوسرا خیال یہ آیا کہ کچھ درخت بھی " غازی اور شہید ، جیسا کردار، ادا کر جاتے ہیں ،، کہ زندہ ہیں تو چھاؤں ، پھل ، ٹھکانہ ، محافظت ۔۔۔ اور مَر گئے تو خوشبو کا خزانہ چھوڑ جاتے ہیں تو مَرے کہاں ،، ؟؟وہ تو شہید ہیں کہ کبھی گھروں میں اس خوشبو دار لکڑی سے کارنس بن گئی ، کبھی کوئی کرسی ، کبھی الہامی کتاب کی رہل ، اور کبھی ہاتھوں کی انگلیوں میں پھِرتی تسبیح !! کہ جب طبیعت بوجھل ہوئی ، اسے سونگھ کر بشاشت پا لی ۔
گویا فطرت کی سادگی میں ہی پُر کاری ، اور جاذبیت کا جزوِ اسے مسحور کر دینے والی تاثیر دیتا ،، اور اس پر خوشبوؤں کا اضافی ، استقبال !!!
یہی تو ایک واضح پیغام مِل رہا ہوتا ہے ، ہم انسانوں کو ۔ کچھ تو ایسا کر جاؤ کہ جانے کے بعد تمہاری باتوں کی ، قربانیوں کی ، ایثار کی خوشبو تا دیر
یادوں میں شامل رہے ۔
کیسا خوبصوت شعر جانے کس خوبصورت شاعر کا ہے
؎ چھاؤں دیتے ہیں جو صحرا میں کِسی کو
دل میرا ، ایسے درختوں کو وَلی کہتا ہے

( منیرہ قریشی 31 مارچ 2024ء واہ کینٹ )